zubair ahmed 1 Posted May 22, 2018 Report Share Posted May 22, 2018 وَيُكْرَهُ أَنْ يُزَادَ عَلَى التُّرَابِ الَّذِي أُخْرِجَ مِنْ الْقَبْرِ؛ لِأَنَّ الزِّيَادَةَ عَلَيْهِ بِمَنْزِلَةِ الْبِنَاءِ قَوْلُهُ وَلَا يُجَصَّصُ لِحَدِيثِ جَابِرٍ «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: اور قبر سے نکالی گئی مٹی سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اس پر عمارت (بناء) بنانے کے مشابہ ہے (پھر آگے لکھتے ہیں) اور قبر کو پختہ نہ بنایا جائے کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے (مجاوری کرنے) اور اس پر عمارت بنان سے منع فرمایا ہے ۔(البحرارائق ج2 ص 340، کتاب الجنائز، دارلکتب العلمیہ ، بیروت فقہ حنفی اور مزارات کی تعمیر فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے: ‘‘جو مٹی قبر سے نکلی ہے اس سے زیادہ بڑھانا مکروہ ہے۔۔۔ قبر کوہان شتر کی صورت ایک بالشت اونچی بنائی جائے اور چورس نہ کی جائے اور نہ گچ (چونا) کی جائے اور اس پر پانی چھڑک دینے سے مضائقہ نہیں اور قبر پر کوئی عمارت بنانا اور بیٹھنا اور سونا۔۔ مکروہ ہے۔’’(فتاویٰ عالمگیری ج۱ ص ۴۱۰) Quote Link to post Share on other sites
Saeedi 687 Posted May 22, 2018 Report Share Posted May 22, 2018 عام قبروں کے احکام اورہیں۔ نبی اور وارثِ نبی کی قبرکا مکان کے اندر جائز ہونے پر صحابہ کرام کااجماع ہے۔ Quote Link to post Share on other sites
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.