Jump to content

توسل النبی بعد از وصال حضرت عثمان بن حنیف کی روایت پر غیع مقلدین کا رد بلیغ


Rana Asad Farhan

تجویز کردہ جواب

توسل النبیِﷺ بعد از وصال حضرت عثمان بن حنیفؓ کی روایت پر غیر مقلدین کا رد بلیغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام طبرانی اپنی معجم الصغیر میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن یوں ہے ،
508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ " أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ فِي , فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللَّهِ , مَا كَلَّمْتُهُ وَلَكِنْ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ ضَرِيرٌ , فَشَكَا عَلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ , فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَفَتَصْبِرُ؟» , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ , وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «ائْتِ الْمِيضَأَةَ , فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ ادْعُ بِهَذِهِ الدَّعَوَاتِ» قَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ , مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضَرَرٌ قَطُّ " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ إِلَّا شَبِيبُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْمَكِّيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ وَهُوَ الَّذِي يُحَدِّثُ عَنِ أَحْمَدَ بْنِ شَبِيبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ الْأُبُلِّيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ وَاسْمُهُ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ , وَهُوَ ثِقَةٌ تَفَرَّدَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسِ عْنِ شُعْبَةَ، **وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ** وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ , عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهِمَ فِيهِ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ وَالصَّوَابُ: حَدِيثُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ

ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آیا کرتا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے ) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے۔ وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ، وضو کرو، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو : 
اللھم ! إني أسئلك، وأتوجه إليك بنبينا محمد صلي الله عليه وسلم نبي الرحمة، يامحمد ! إني أتوجه إلي ربي، فيقضي حاجتي . 
(یا اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے۔ ) پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو، پھر میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں تمہارے ساتھ چلوں۔ اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی

امام طبرانی یہ روایت نقل کر کے اسکے مختلف طرق بھی نقل کرتے ہیں جن میں یہ روایت مختصر ہے اور امام طبرانی طرق نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں والحدیث صحیح 

۔ (التاريخ الكبير للبخاري : 210/6، العلل لابن أبي حاتم الرازي : 190/2، المعجم الكبير للطبراني : 31، 30/9، ح : 8311، المعجم الصغير للطبراني : 184، 183/1، الدعاء للطبراني : 1287/2، 1288، ح : 1050، معرفة الصحابة لأبي نعيم لأصبھاني : 1959/4، 1960، ح : 4928)

********سب سے پہلے اس روایت پر غیر مقلدین کے اعتراض نقل کرکے اسکا رد بلیغ پیش کرتے ہیں************

اعتراض: اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ عبداللہ بن وہب مصری یہ روایت اپنے استاذ شبیب بن سعید حبطي (ثقہ ) سے کر رہے ہیں اور خود شبیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں۔ 

امام الجرح والتعدیل ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ولشبيب بن سعيد، نسخة الزھري عنده، عن يونس عن الزھري، وھي أحاديث مستقيمة، وحدث عنه ابن وھب بأحاديث مناكير . 
”شبیب کے پاس امام زہری رحمہ اللہ کی روایات پر مشتمل ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں۔ تاہم ابن وہب نے اس سے منکر احادیث بیان کی ہیں۔“ (الكامل لابن عدي : 31/4) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) 

 

نیز فرماتے ہیں : 
وروي عنه ابن وھب أحاديث مناكير، فكأنه لما قدم مصر، حدث من حفظه، فغلط . 
’’اس سے ابن وہب نے منکر احادیث بیان کی ہیں، گویا کہ جب یہ مصر آیا تو اس نے اپنے حافظے سے روایات بیان کیں اور غلطیاں کیں۔“ (ھدي الساري، ص : 409) 

 
یہ روایت بھی شبیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب مصری بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شبیب بن سعید جب مصر میں گیا تو وہاں اس نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں، جن میں سے وہ غلطی اور وہم کا شکار ہو گیا۔ 

 

شبیب بن سعید ابوسعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

جواب : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں : 
أخرج البخاري من رواية ابنه (أحمد) عن يونس (بن يزيد الأيلي) أحاديث، لم يخرج من روايته عن غير يونس، ولا من رواية ابن وھب عنه شيئا … 
”امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے وہ روایات لی ہیں جو وہ اپنے والد سے یونس بن یزید ایلی کے واسطے سے بیان کرتا ہے۔ امام صاحب نے شبیب کی وہ روایات بیان نہیں کیں جو وہ یونس کے علاوہ کسی اور سے بیان کرتا ہے، نہ ہی ابن وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں ہے۔“ (ھدي الساري، ص : 409) 

حاصل کلام یہ ہے کہ شبیب بن سعید سے ان کے شاگرد عبداللہ بن وہب مصری بیان کریں تو روایت ’’منکر“ اور ’’ضعیف“ ہوتی ہے۔ زیر بحث روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ ”منکر“ اور ’’ضعیف“ ہے، لہٰذا امام طبرانی رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہ ہوا۔ 

                        ****غیر مقلدین کے اعتراض کا رد ****

غیر مقلدین ھدی الساری سے امام ابن حجر کی عبارت نقل کرتے ہیں جو انہوں نےامام ابن عدی کے حوالے سے نقل کے اسکے جواب میں لکھتے ہیں سب سے پہلے ہم وہ عبارت مکمل پیش کرتے ہیں
۔۔۔ شبیب بن سعید ابوالحبطی ابو سعید البصری وثقہ  ابن المدینی و ابو زرعہ ، و ابو حاتم و نسائی و الدارقطنی  و الذھلی، وقال ابن عدی: عندہ لنسختہ عن یونس عن الزھری مستقیمتہ ، وروی عنہ ابن وہب احادیث مناکیر فکانہ للا قدم مصر حدث من حفظہ فغلط و اذا حدث عنہ ابنہ احمد فکانہ شبیب آخر لانہ یجود عنہ، قلت: اخرج البخاری من روایہ ابنہ عن یونس احادیث ، ولم یخرج من روایہ عن غیر یونس  ولا من روایہ ابن وہب عنہ شئیا۔۔۔
 امام ابن حجر عسقلانیؒ نے پہلے امام نسائی ، امام علی بن مدینی ، امام دارقطنی ، امام ابو زرعہ، امام ابو حاتم اور امام الذھلی سے شبیب بن سعید کی صریح توثیق بیان کی ہے کہ شبیب بن سعید کو مندرجہ اماموں نے ثقہ قرار دیا ہے ۔
پھر اسکے ساتھ امام ابن حجرعسقلانیؒ امام ابن عدی کا قول نقل کر کے اسکا بخاری کی صیحت پر اسکے اثر کو ختم کرتے ہیں ۔ 
چناچہ وہ لکھتتے ہیں کہ امام ابن عدی  نے کہا کہ (شبیب بن سعید) کے پاس نسخہ تھا جو وہ یونس کے حوالے سے زھری سے روایت کرتے تھے وہ مستقیم یعنی محفوظ تھا اور ابن وہب نے اس سے احادیث مناکیر بیان کی ہیں کیونکہ  جب وہ مصر گئے تو اپنے حافظے سے غلط بیان کر دیا اور ان سے انکا بیٹااحمد بھی روایت کرتا ہے۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں کہ بخاری نے کوئی بھی روایت شبیب کی اپنی صحیح میں درج نہیں کی جو بغیر یونس سے روایت کرے یا جس میں اس سے ابن وہب بیان کرتاہو۔

اس پوری عبارت کو شروع سے نقل کرنے سے یہ معلوم ہو گیا کہ امام ابن حجر نے جمہور محدثین سے پہلے اسکی صریح توثیق بیان کی پھر ایک امام ابن عدی کا قول نقل کیا جو کہ خاص امام زھری کے نسخے کے حوالے سے ہے کہ شبیب جب زھری کا نسخہ یونس کے حوالے سے بیان کرتا تھا تو ابن وہب نے اس سے مناکیر بیان کیں ۔ اس یہ بات ثابت ہو گئی کہ شبیب صحیح بخاری کا راوی ہونے کے ساتھ ثقہ ہے اور زھری کے نسخے والی روایات بیان کرنے سے اسکے حافظے سے غلطی و وھم ہوا جس کی وجہ سے ابن وہب نے ان سے مناکیر بیان کر دیں۔ 

تو محدثین نے شبیب کی روایات میں سے مناکیر کی نشاندہی کرنے کے لیے یہ شرط لگائی جب شبیب بن سعید سے ابن وہب زھری کے نسخے والی روایت بیان کرےگا تو وہ ضعیف ہوگی۔

تقریب التہذیب میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں 
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) 

امام ابن حجر عسقلانی نے شبیب بن سعید کے بارے اپنا موقف واضع بیان کر دیا کہ شبیب بن سعید کی حدیث مٰیں کوئی حرج نہیں جب اس سے اسکا بیٹا روایت کرے  لیکن جب ابن وہب بیان کرے گا تو اس میں خرابی ہوگی ۔ ۔ 

امام ابن حجر عسقلانی کے اس واضع ترجمے سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ شبیب بن سعید جب کوئی ایسی روایت بیان کرے جس میں اسکا بیٹا اس سے روایت کر رہا ہو اور اس سند میں ابن وہب موجود نہ ہو تو وہ روایت بقول ابن حجر عسقلانیؒ اور دیگر محدثین کرام کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی ۔ 

تو اس طرح امام ابو جعفر دستوریہ مشیخہ سفیان الفسوی میں اس روایت اپنی سند سے یوں بیان کرتے ہیں 

113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ.
(مشیخہ الفسوی)

اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور اس سند میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا روایت بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب بھی نہیں ہے تو یہ روایت جمہور محدثین کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی 

اعتراض: شبیب بن سعید کے بارے میں تو ابن حجر نے کہا کہ بخاری نے اپنی صحیح مٰیں شبیب بن سعید کی بغیر یونس سے کوئی روایت نہیں لی اسکا مطلب شبیب بن سعید کی روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہ لازم ہوگا کہ یونس سے جب شبیب روایت کرے اور ابن وہب ان سے بیان نہ کرے تو تب روایت صحیح ہوگی 

الجواب: یہ اعتراض غیر مقلدین کی جہالت یا دھوکےبازی ہے کیونکہ اوپر ثابت کر چکے کہ امام ابن عدی نے یہ اعتراض صرف زھرے کے نسخے کے تحت کیا کہ شبیب کے پاس جو نسخہ تھا وہ تو محفوظ تھا لیکن ابن وہب نے اس سے مناکیر روایت کی ہیں ۔
تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام ابن عدی نے زھری کے نسخے کے حوالے سے ابن وہب کا شبیب بن سعید سے روایت کرنے پر یہ جرح کی ہے ۔ 
یہ جرح زہری کے نسخے والی روایت کے ساتھ ہے نہ کہ شبیب بن سعید کے مطلق روایت پر یہ جرح ہے 
بس جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فیصلہ دیا کہ شبیب بن سعید کی روایت جو اسکا بیٹا اس سے روایت کرے گا اس مٰں کوئی حرج نہیں ۔ (اس میں یونس سے روایت کرنے کی کوئی شرط نہیں ہے) البتہ ابن وہب جب بیان کرتا ہے شبیب بن سعید سے تو تب روایت ضعیف قرار پائے گی خرابی کی وجہ سے ۔

لیکن غیر مقلدین کیونکہ ضدی ہوتے ہیں جب تک انکو ثبوت سے چپ نہ کرایا جائے بات سمجھ آنے کے باوجود بھی یہ ضد جاری رکھتے ہیں 

تو امام الحاکم نے مستدرک الصحیحین میں شبیب بن سعدکی اس روایت کے مختصر متن جو کہ اسکا  بیٹااس سے روایت کررہا ہے اس  میں ابن وہب نہیں ہے اس روایت کے مطلق  لکھا ھذا حدیث صحیح علی شرط بخاری (المستدرک الحاکم برقم1930)
اور تعلخیص میں امام ذھبیؒ نے بھی شبیب بن سعید سے اسکے بیٹے سے مروی روایت جو بغیر یونس اور بغیر ابن وہب کے ہے اسکو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

امام بیھقی نے دلائل نبوہ میں حضرت عثمان بن حنف سے بعد از وصال والی روایت   روایت کو نقل کر کے اسکے بعد اسکی تین اسناد لکھی ہیں جو یہ ہیں 

۱۔أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، رَحِمَهُ اللهُ، أَنْبَأَنَا الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الشَّاشِيُّ الْقَفَّالُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ بلخ۔۔۔

۲۔وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَيْضًا بِطُولِهِ
. أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتَوَيْهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ
. وَهَذِهِ زِيَادَةٌ أَلْحَقْتُهَا بِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ

اور تیسری سند یوں بیان کی ،
 وَرَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَمِّهِ وَهُوَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ
 
امام بیھقی کی دلائل نبوہ میں اسکی تین اسناد بیان کی ہیں ہم نمبر ۲ پر جو سند بیان کی ہےامام بیھقی نے اسکے رجال کی تحقیق پیش کرتے ہیں 

 پہلا راوی
ابْنُ شَاذَانَ الحَسَنُ بنُ أَحْمَدَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ البَغْدَادِيُّ 
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 
الإِمَامُ، الفَاضِلُ، الصَّدُوْقُ، مُسْنِدُ العِرَاق، أَبُو عَلِيٍّ الحَسَنُ بنُ أَبِي
(سیر اعلام النبلاء جلد 17، ص 445)

دوسرا راوی
ابْنُ دَرَسْتَوَيْه عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرٍ الفَارِسِيُّ
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 
الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ النَّحْوِ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرِ بنَ دَرَسْتَوَيْه بنِ المَرْزُبَانِ الفَارِسِيُّ، النَّحْوِيُّ، تِلْمِيْذُ المُبَرِّدِ.
سَمِعَ: يَعْقُوْبَ الفَسَوِيَّ فَأَكْثَرَ، لَهُ عَنْهُ (تَاريخُهُ) وَ (مَشيخَتُه) .
وَسَمِعَ بِبَغْدَادَ مِنْ: عَبَّاسِ بنِ مُحَمَّدٍ الدُّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي مُحَمَّدٍ بنِ قُتَيْبَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ مُحَمَّدٍ كُرْبَزَان، وَمُحَمَّد بنِ الحُسَيْنِ الحُنَيْنِيّ.
قدم مِنْ مدينَة فَسَا (1) فِي صباهُ إِلَى بَغْدَادَ، وَاسْتوطنهَا، وَبَرَعَ فِي العَرَبِيَّة، وَصَنَّفَ التَّصَانِيْفَ، وَرُزِق الإِسْنَاد العَالِي.
وَكَانَ ثِقَةً.
(سیر اعلام النبلاء جلد 15، ص 581)

تیسرا   راوی
 امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 
الفَسَوِيُّ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ 
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الحُجَّةُ، الرَّحَّالُ، مُحُدِّثُ إِقْلِيْم فَارِسَ، أَبُو يُوْسُفَ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ الفَارِسِيُّ، مِنْ أَهْلِ مَدِيْنَةِ فَسَا، وَيُقَالُ لَهُ: يَعْقُوْبُ بنُ أَبِي مُعَاوِيَةَ.
مَوْلِدُهُ: فِي حُدُوْدِ عَامِ تِسْعِيْنَ وَمائَةٍ، فِي دَوْلَةِ الرَّشِيْدِ.
وَلَهُ (تَارِيْخٌ) كَبِيْرٌ (2) جَمُّ الفوَائِدِ، وَ (مَشْيَخَتُهُ) فِي مُجَلَّدٍ، رَوَيْنَاهَا.
(سیر اعلام النبلاء جلد 13، ص 180)

چوتھاراوی
امام یعقوب  بن سفیان نے اس سے روایت لی ہے تو انکی توثیق بھی شامل ہو گئی کیوں کہ وہ صرف اپنے نزدیک ثقہ راویوں سے روایت لیتے ہیں 
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 
234 - أَحْمَدُ بنُ شَبِيْبِ بنِ سَعِيْدٍ الحَبَطِيُّ * (خَ، س)
الإِمَامُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ البَصْرِيُّ، المُجَاوِرُ بِمَكَّةَ.
حَدَّثَ عَنْ: أَبِيْهِ، وَيَزِيْدَ بنِ زُرَيْعٍ، وَمَرْوَانَ بنِ مُعَاوِيَةَ.
وَعَنْهُ: البُخَارِيُّ، وَابْنُ المَدِيْنِيِّ، وَالفَلاَّسُ، وَأَبُو حَاتِمٍ، وَإِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ، وَالفَسَوِيُّ، وَخَلْقٌ.
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ (1) .
وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ: مَاتَ سَنَةَ تِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ (2)
(سیر اعلام النبلاء جلد 10 ، س، 653)

اس روایت کی ایک سند امام بیھقی نے دلائل النبوہ میں صحیح رجال سے پیش کی ہے اور دوسری صحیح سند مشیخہ الفسوی میں سے پیش کر دی گئی ہے جو اپر بیان کر دی گئی ہے ۔ اور ان دو اسناد کی وجہ سے امام طبرانی کی المعجم الکبیر میں موجود ابن وہب سے مروی روایت بھی صحیح قرار پائے گی کیونکہ بغیر ابن وہب سے یہ روایت شبیب کے بیٹے نے بیان کی ہے توامام بطرانی کا اس روایت کو صحیح کہنا بالکل صحیح قرار پائے گا 

 خلاصہ تحقیق یہ ہے کہ شبیب بن سعید  بخاری کا راوی ہے اور ثقہ ہے اور اسک روایت صرف وہ ضعیف ہوگی جس میں ابن وہب ان سے بیان کررہا ہو۔ اور شبیب بن سعید کا بیٹا موجود نہ ہو۔ 
جبکہ ہماری دی گئی روایت میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا احمد بن شبیب روایت اپنے والد شبیب بن سعید سے بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب نہیں 
پش اعتراض باطل ہوئے اور یہ روایت محدثین کے مطابق صحیح ہے 

جیسا کہ درج زیل محدثین نے اس روایت کی توثیق کی ہے 
۱۔امام طبرانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے 
۲۔امام الصالح الشامی الشافعی نے سبل الحدی میں اس روایت کو بروایت متصل ثقات کہہ کر توثیق کی ہے 
۳۔امام ابو بکر الہیثمی نے اس روایت کق مجمع الزوائد میں نقل کر کے امام بطرانی کی توثیق کو بر قرار رکھا ہے نقل کر کے 
۴۔امام مندیری نے بھی اس روایت کو ترتیب التہذیب مٰیں امام طبرانی کی توثیق نقل کر کے موافقت کی ہے

**** تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں ***
ّ(((( دعا گو، رانا اسد فرحان الطحاوی خادم الحدیث ✍️جمعہ ۲۷ جولائی)))

FB_IMG_1532641290828.jpg

FB_IMG_1532641294177.jpg

FB_IMG_1532641296678.jpg

FB_IMG_1532641299370.jpg

FB_IMG_1532641302175.jpg

FB_IMG_1532641305098.jpg

FB_IMG_1532641307981.jpg

FB_IMG_1532641310504.jpg

Link to comment
Share on other sites

  • 4 years later...

Asad Farhan Sahab bohot zabardast RAD farmaya aap nay , boht TASALLI Baksh jawab dia aapnay

Aap say arz hai k yeh BADMAZHAB us riwayat ko bhi zaef kehty hain jismain yeh waqia hai k "Hazrat Umar k door e khilafat main Hazrat Bilal bin Haris nay NABI KAREEM ki qabar pay jakr dua ki arz ki thi"

Agar uska aap jawab dedein tou nawazish hogi 

Link to comment
Share on other sites

On 4/6/2023 at 3:38 PM, Umer Attari said:

Aap say arz hai k yeh BADMAZHAB us riwayat ko bhi zaef kehty hain jismain yeh waqia hai k "Hazrat Umar k door e khilafat main Hazrat Bilal bin Haris nay NABI KAREEM ki qabar pay jakr dua ki arz ki thi"

Agar uska aap jawab dedein tou nawazish hogi 

ڈاکٹر آفاق فاروقی صاحب کی اس حدیث پر تحقیق

نصرة الابرار بتحقيق روايت مالك الدار.pdf

Screenshot (959).png

Link to comment
Share on other sites

  • 4 months later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...