Jump to content

سیدنا حجر بن عدیؓ کا قتل


ghulamahmed17

تجویز کردہ جواب

 

حضرت علیؓ کے خلاف ہتیار اُتھانے  والے ظالم اور باغی ہیں یہ میں تین محدثیں سے 

صحیح ثابت کر چکا ، اب  آپ مانیں یا نہ مانیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا 

جب مجھے  کہیں ثابت کرنا ہوا تو میں مزید اھل سنت

کے حوالہ جات سے ثابت کر لوں گا ، اس وقت مجھے اس روایت 

پر مزید حوالہ جاے کی ضرورت نہیں ۔ 

 

جناب سعیدی صاحب جب آپ حوالہ جات پر چھلانگیں لگاتے گزرے

گے تو پھر اسی طرح ہی ہوتا ہے ، میں بار بار عرض کر چکا ہوں جو

 میرے سوالات ہوں ان کا جواب لکھا کریں مگر آپ خود ہی سوال کرتے ہیں اور

خود ہی جواب لکھتے ہیں ۔ان کا میرے سوال کے جواب سے کوئی تعلق نہیں 

ہوتا ، آپ نے لکھا کہ 

Quote


 کیا آپ نے بحوالہ قرطبی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت عثمان کا بیٹا ابان جنگ جمل میں حضرت عائشہ وطلحہ وزبیر کے ساتھ تھا۔اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کی تھی۔ اب بیعتِ علی کے بعد وہ  دونوں پسرِ عثمان کے ساتھ قصاصِ عثمان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ کی بیان کردہ دونوں باتیں(بیعت علی کریں، عثمان کا بیٹا قصاص کا طالب ہو) یہاں پائی جاتی ہیں  ،اب آپ بتائیں کہ قصاص عثمان کا مطالبہ اب کیونکر ناجائز ہوگا؟ 


 

جناب سعیدی صاحب اگر آپ مکمل بات پڑھتے تو جواب دیتے اس لیے

اب دوبارہ پڑھیں ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اگر سارے بیٹے بھی جمل میں ہوتے

تو بھی اس سے   قصاص کا مطالبہ درست نہ ہوتا ،  میں نے جو امام قرطبی کا حوالہ اوپر لگایا

تھا پھر لگا رہا ہوں اس میں کیا لکھا ہے اب بغور پڑھیں 

کیا حضرت عثمان غنی کے بیٹوں میں سے  کسی ایک نے  بھی قصاص کا

مقدمہ عدالت میں  کیا   ؟؟؟

لہذا ثابت ہوا کہ جمل والوں اور صفین والوں کا حضرت علیؓ

سے قصاص کا  طلب کرنا ہی غلط تھا ۔

آپ مکمل حوالہ پڑھ  کر جواب لکھیں ۔ 

 

02qq.png

Link to comment
Share on other sites

On 10/6/2019 at 9:02 AM, ghulamahmed17 said:

میں نے سوال کیا تھا کہ حضرت علیؓ سے حضرت عثمان کے قتل کا مطالبہ درست تھا یا غلط تھا ؟

یہ لوگ حضرت علی سے حضرت عثمان کا قصاص طلب ہی اس لیے کر رہے تھے کہ انہیں حضرت عثمان کے قتل میں ملوث جانتے تھے

لہذا

حضرت علی سے حضرت عثمان کا قصاص طلب کرنا 100 ٪ غلط تھا ۔

پہلے آپ نے قصاص عثمان کے مطالبہ کے غلط ھونے کی وجہ بتائی تھی : حضرت علی کو حضرت عثمان کے قتل میں شریک جاننا۔

اب آپ مطالبہ قصاص عثمان کے غلط ھونے کی پہلی وجہ کو باطل کرتے ہیں اور وجہ بتاتے ہیں وارثوں کا ایف آئی آر درج نہ کرانا۔

اس سلسلے ميں عرض ھے کہ مدینہ شریف میں دشمنانِ عثمان رضی اللہ عنہ دندناتے پھر رھے تھے اور پسرانِ عثمان اپنی جان بچاتے اور چھپتے پھررہے تھے ۔ سترہ بندوں نے  رات کو نماز جنازہ ادا کی ۔ F. I. R درج کرانے والے کا کیا حشر ھوتا۔

بہرحال جنابِ عدالت مآب حضرتِ اقضیٰ مولا علی مرتضیٰ خود ھی حضرت نائلہ زوجہ عثمان کا بیان لینے تشریف لے آئے اور پوچھا کہ عثمان کو کس نے قتل کیا؟  جواب آیا کہ میں نہیں جانتی وہ دو شخص تھے اُن کے ساتھ محمد بن ابوبکرؓ تھا ۔ ۔ ۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکرؓ کو بلایا، اس نے تصدیق کی ۔ پھر حضرت نائلہ نے کہا کہ قاتلوں کو یہی اندر لایا تھا ۔

اب فرمایا جائے کہ وارث کی طرف سے FIR بھی ھو گئی اور گواہ بھی گزر چکا تو اب تو عثمان کے خون کا قصاص دلوانے کا مطالبہ کرنے میں ھر شہری حق بجانب تھا۔

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

Quote

 

بہرحال جنابِ عدالت مآب حضرتِ اقضیٰ مولا علی مرتضیٰ خود ھی حضرت نائلہ زوجہ عثمان کا بیان لینے تشریف لے آئے اور پوچھا کہ عثمان کو کس نے قتل کیا؟  جواب آیا کہ میں نہیں جانتی وہ دو شخص تھے اُن کے ساتھ محمد بن ابوبکرؓ تھا ۔ ۔ ۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکرؓ کو بلایا، اس نے تصدیق کی ۔ پھر حضرت نائلہ نے کہا کہ قاتلوں کو یہی اندر لایا تھا ۔

اب فرمایا جائے کہ وارث کی طرف سے FIR بھی ھو گئی اور گواہ بھی گزر چکا تو اب تو عثمان کے خون کا قصاص دلوانے کا مطالبہ کرنے میں ھر شہری حق بجانب تھا۔

 

33.thumb.png.fdb22b921a809cb6ff37c258a14462e6.png

 

5da463374950c_44089941_1571040796332525_1990700664337989632_n(1).jpg.86e2221fb070126993a50be2cab07ab6.jpg

 

44026548_1571040736332531_6708929295072362496_n.jpg.18c62e3dc99154421dcc981aadee708b.jpg

 

Picture2PPP.thumb.png.890e262c455ee74ffe8ff799a08e22f2.png

 

جناب سعیدی صاحب 

حضرت علیؓ سے معاویہ بن ابوسفیان کا قصاص طلب کرنا

بالکل غلط تھا ۔

 

بلکہ اھل شام کو خونِ عثمان کا بدلہ کہ کر دھوکا دیا ۔

آپ اوپر پڑھ سکتے ہیں ۔

------------------------------

Edited by ghulamahmed17
Link to comment
Share on other sites

قتلِ عثمان کی ایف آئی آر ہوچکی اور قاتلوں کا شریکِ کار بھی تسلیمی بیان دے چکا۔ اب حضرت علی مرتضیٰ نے  عثمان کے خون کاقصاص کیوں نہ لیا؟ اگر یہ خود ہی قصاص لے لیتے تو جمل وصفین کی جنگوں کا موقع ہی پیش نہ آتا۔

آپ جن جنگوں کو دھوکہ پر مبنی قرار دے رہے ہیں،نبی کریم ﷺ نے ان جنگوں کو تاویلِ قرآن پر مبنی بتایا ہے۔اور ظاہر ہے  کہ یہ اجتہادی جنگیں ہیں اوران کو دھوکہ پر مبنی بتانا حدیث کے خلاف ہے۔

اور نواب صدیق حسن بھوپالی کا حوالہ کسی غیرمقلد کے سامنے پیش کرنا ،میں اس کو کچھ نہیں جانتا۔

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

Quote

 

قتلِ عثمان کی ایف آئی آر ہوچکی اور قاتلوں کا شریکِ کار بھی تسلیمی بیان دے چکا۔ اب حضرت علی مرتضیٰ نے  عثمان کے خون کاقصاص کیوں نہ لیا؟ اگر یہ خود ہی قصاص لے لیتے تو جمل وصفین کی جنگوں کا موقع ہی پیش نہ آتا۔

آپ جن جنگوں کو دھوکہ پر مبنی قرار دے رہے ہیں،نبی کریم ﷺ نے ان جنگوں کو تاویلِ قرآن پر مبنی بتایا ہے۔اور ظاہر ہے  کہ یہ اجتہادی جنگیں ہیں اوران کو دھوکہ پر مبنی بتانا حدیث کے خلاف ہے۔

اور نواب صدیق حسن بھوپالی کا حوالہ کسی غیرمقلد کے سامنے پیش کرنا ،میں اس کو کچھ نہیں جانتا۔

 

 

ہر سب کچھ ہو چکا  تو اس جناب پھر مجھے  حضرت علیؓ سے قصاص

طلب کرنے کو ہرگز غلط نہیں کہنا چاہیے ،

مگر اس ایف آئی آر  کے اندارج پر

حوالہ جات کی کتابیں پیش فرما دیں ، بالک میں اس کو

پڑھنا چاہوں گا ۔ اور دیکھو گا کہ اھل سنت کے کن کن عملماء نے

اس مقدمہِ عدالت کی توثیق کی ہے ۔

اور جہاں تک آپ نے اھل حدیث محدث کا لکھا کہ اھل حدیث کے سامنے

پیش کیے جائیں محترم آپ سراسر غلط کہ رہے ہیں ۔

حضرت عثمان غنی کے قصاص پر کوئی اھل اھل حدیث ، دیوبندی اور بریلوی

اختلاف نہیں ہے کہ ان کے حوالہ جات اور کتابیں پیش نہیں کی جا سکتی ۔

مگر جناب  آپ کتابیں پیش فرما دیں ۔

میں منتظر ہوں  کہ یہ مقدمہ کب  پیش ہوا اور ایف آئی آر کاٹی گئی 

--------------------------------------

Link to comment
Share on other sites

اس مقدمہ میں آپ کا موقف روافض والا ہے، کیا میں آپ کے مقابلے میں اُن کے حوالے پیش کروں تو وہ آپ پر حُجت ھوں گے؟

آپ کو رافضی حوالے پیش کرتے ہیں، اس لئے آپ کا اپنا مطالعہ نہیں ہے ورنہ سارا مقدمہ پڑھتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ مولا علی مرتضیٰ چل کر عثمان رضی اللہ عنہ کے وارث سے اس کا بیان لینے آئے تھے یا نہیں؟  اور محمد بن ابوبکرؓ نے تسلیمی بیان کیا دیا؟  اور زوجہ عثمان نے اسے کتنا ذمہ دار ٹھہرایا؟

آپ آل طلحہ کی مروان کے خلاف FIR پیش کریں اور میں یہ حوالہ جناب کے حوالے کر دوں گا ۔

Link to comment
Share on other sites

Quote

 

اس مقدمہ میں آپ کا موقف روافض والا ہے، کیا میں آپ کے مقابلے میں اُن کے حوالے پیش کروں تو وہ آپ پر حُجت ھوں گے؟

آپ کو رافضی حوالے پیش کرتے ہیں، اس لئے آپ کا اپنا مطالعہ نہیں ہے ورنہ سارا مقدمہ پڑھتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ مولا علی مرتضیٰ چل کر عثمان رضی اللہ عنہ کے وارث سے اس کا بیان لینے آئے تھے یا نہیں؟  اور محمد بن ابوبکرؓ نے تسلیمی بیان کیا دیا؟  اور زوجہ عثمان نے اسے کتنا ذمہ دار ٹھہرایا؟

آپ آل طلحہ کی مروان کے خلاف FIR پیش کریں اور میں یہ حوالہ جناب کے حوالے کر دوں گا ۔

 

 

سعیدی صاحب کیا بچوں جیسی باتیں لکھ رہے ہیں :   آل طلحہ کی FIR          مجھے پیش کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے اس لیے کہ حضرت طلحہؓ حضرت علیؓ

کے خلاف جنگ لڑنے آئے تھے ۔ اور ان کے  اپنے لشکر  میں موجود بنواُمیہ کے مروان نے تیر مار کر 

اُن کو قتل کیا ۔   اور انہیں کے حمایتی معاویہ بن ابوسفیان نے اس قاتل کو مدینہ کا حاکم بنا کر ممبر رسولﷺ پر بٹھایا 

لہذا قاتل اور مقتول دونوں انہیں کے لشکر  کے تھے ،  لہذا ہوش کے ناخن لیں ۔ آپ کے  حواس کام نہیں کر رہے ۔

آپ کو  بار بار لکھا ہے کہ جنگ جمل والوں اور صفین والوں کا

حضرت علی سے قصاص طلب کرنا غلط تھا ۔ اس کا ثبوت بھی امام قرطبی سے کتاب کی شکل میں پیش کر چکا

مگر آپ  چند جملے لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ لیں جی FIR      ہو گئی ہے ۔ او اللہ کے بندے اس کے ثبوت پر کتابیں 

پیش کیوں نہیں کرتے کہ کب حضرت علی کے سامنے قصاص عثمان کا مقدمہ درج ہوا ۔

  اب  آپ کے حوالوں کے ثبوت کی کتابیں میں تو پیش کرنے کا ذمہ دار ہرگز نہیں ہوں ۔

آپ  ثبوت پیش کریں یا امام اھل سنت امام قرطبی کی یہ بات مان لیں :

02qq.png.f78f76c40289eb419238135c643664d2.png.73dcc82bce1230493e6bba17cc8eca21.png

 

سعدی صاحب آپ  کے لکھ دینے کی کوئی اہمیت ہے اور نہ کوئی حقیقت  لکھے ہوئے  کوثابت کیا جاتا ہے جیسے

یہ میں ثابت کر چکا ہوں ۔ آپ بھی میرے دوست کوشش کریں اور ایسا کوئی ثبوت کتاب کی شکل میں پیش

فرمائیں اور ثابت کریں کہ ہے FIR  کی نقل ۔ اب فلاں نے کہا اور فلاں نے کہا سے آپ کی جعلی FIR  ہر گز نہیں مانی جا سکتی ۔

اور یہی حقیقت اور سچ ہے کہ حضرت علی سے  خون عثمان سے ان لوگوں

کا مطالبہ درست نہیں بالکل غلط تھا ۔ میں آپ کے ثبوت کی کتابوں کا منتظر رہوں گا اور دیکھو گا

-------------------------------

Link to comment
Share on other sites

On 10/16/2019 at 4:42 AM, ghulamahmed17 said:

 آل طلحہ کی FIR          مجھے پیش کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے اس لیے کہ حضرت طلحہؓ حضرت علیؓ

کے خلاف جنگ لڑنے آئے تھے ۔ اور ان کے  اپنے لشکر  میں موجود بنواُمیہ کے مروان نے تیر مار کر 

اُن کو قتل کیا

آل طلحہ کی FIR کا آپ سے اس لئے کہا تھا کہ آپ آج مروان کو یقین کے ساتھ تیر انداز نامزد کر رہے ہیں مگر آل طلحہ کو یہ یقین نہیں تھا ۔

ابن کثیر نے مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا تو جناب نے اسے ناصبی قرار دے دیا ۔ کیا اور جس جس نے بھی مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا ھے، وہ سب بھی ناصبی ھیں؟

Link to comment
Share on other sites

Quote

 

آل طلحہ کی FIR کا آپ سے اس لئے کہا تھا کہ آپ آج مروان کو یقین کے ساتھ تیر انداز نامزد کر رہے ہیں مگر آل طلحہ کو یہ یقین نہیں تھا ۔

ابن کثیر نے مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا تو جناب نے اسے ناصبی قرار دے دیا ۔ کیا اور جس جس نے بھی مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا ھے، وہ سب بھی ناصبی ھیں؟

 

جناب سعیدی صاحب آپ اھل علم ہیں ، کیا آل طلحہ کی ہی کی بات ماننا لازم ہے جو یا بات صحیح ہو گی وہ مانی جائے گی ، اگر آل طلحہ حضرت علیؓ کو قاتل سمجھتی ہو تو کیا آپ انہیں کہ ہی بات پر

حضرت علیؓ کو قاتل مان لیں گے ،  رہ گئی بات یقین کی تو محترم یقین رویاتِ صحیحہ سے ہوتا ہے ، محدثین سے ہوتا ہے  اور اھل سنت کے جمہور و اکثریت سے ہوتا ہے 

اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو ثابت کریں  مروان بے گناہ تھا ۔

جہاں تک آپ نے ابن کثیر کے بارے میں لکھا تو  یہ ابن تیمیہ کے شاگرد خاص ہیں اور ابن تیمیہ کے بارے جو کچھ محدثین نے لکھا وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے ۔ پھر اس پر بحث نہین کہ اس کا جھاؤ ناصبیت کی طرف تھا یا نہیں ، بات تو یہ ہے کہ مروان قاتل تھا کہ نہیں ۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ میں الزام لگا رہا ہوں تو 

محترم  جمہور اھل سنت محدثین و علماء سے  ثابت فرما دیں اس میں جھگڑے کی تو کوئی بات ہی  نہیں ۔

ہمت کیجے ! میں منتظر ہوں ۔

-------------------------------

 

Link to comment
Share on other sites

On 10/22/2019 at 4:32 AM, ghulamahmed17 said:

 

اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو ثابت کریں  مروان بے گناہ تھا ۔

میرے مکرم! میں نے مروان کو بے گناہ ڈیکلیئر نہیں کیا جو آپ کا یہ مطالبہ درست ھو۔

میرا مقصد یہ تھا کہ اس بات میں دو قول ملتے ہیں کہ حضرت طلحہ کو مروان کا تیر لگا تھا یا نامعلوم شخص کا تیر لگا تھا۔ جب قول دو ھوں گے تو دونوں قول بیان کرنے والے مصنفین کو آپ ناصبی کیسے اور کیوں کہ رھے ھیں، کیا علامہ بدرالدین عینی بھی جناب کے معیار کے مطابق ناصبی ھے؟

کیا آپ کو یقین ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک حضرت طلحہ کو مروان کے تیر مارنے کا قول پہنچا تھا اور سہم غرب (نامعلوم تیر)  کا قول نہ پہنچا تھا؟

 

Link to comment
Share on other sites

Quote

یرا مقصد یہ تھا کہ اس بات میں دو قول ملتے ہیں کہ حضرت طلحہ کو مروان کا تیر لگا تھا یا نامعلوم شخص کا تیر لگا تھا۔ جب قول دو ھوں گے تو دونوں قول بیان کرنے والے مصنفین کو آپ ناصبی کیسے اور کیوں کہ رھے ھیں، کیا علامہ بدرالدین عینی بھی جناب کے معیار کے مطابق ناصبی ھے؟

کیا آپ کو یقین ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک حضرت طلحہ کو مروان کے تیر مارنے کا قول پہنچا تھا اور سہم غرب (نامعلوم تیر)  کا قول نہ پہنچا تھا؟

 

جناب محترم سعیدی صاحب اگر اقوال بہت  سےہوں 

تو کیا ہرقول کو مانا جاتا ہے ۔یا کہ

جو  صحیح قول ہوتا ہے اس کو مانا اور اقرار کیا جاتا ہے  ؟

اور قولِ صحیح یہ ہے کہ مروان ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا ۔

 

جناب سعیدی صاحب آپ کی بحث ناصبی پر ابھی نہین ہو رہی ناصبی

کون ہیں ؟؟؟

یہ الگ بحث کریں گے ،

باقی میں نے ناصبیت کی طرف ابنِ کثیر کا شاید جھکاؤ لکھا تھا ، جس کو اتنا طول دینا کوئی جواز نہین بنتا ۔

  ان شاء اللہ 

----------------------------------------------

 

 
Edited by ghulamahmed17
Link to comment
Share on other sites

On 9/11/2019 at 3:36 PM, ghulamahmed17 said:

 

چلیں قادری سلطانی صاحب اگر آپ بضد ہیں کہ جواب

آپ ہی کو دینا ہے تو پڑھو ۔

کف لسان یہ ہے کہ  معاویہ بن ابوسفیان کے عرس منانا 

جھنڈے اٹھانا اور من گھڑت فضائل کا باپ بند کر کے 

ان کو کافر نہ کہا جائے اور ان پر لعنت نہ کی جائے ۔

ہر دو طرف سے بالکل مکمل سکوت اور خاموشی کا نام کفِ لسان ہے ۔

---------------

قادری سلطانی صاحب پڑھیں

 

 

اس اُمت کا بدبخت ترین انسان جس نے سیدنا علیؓ کو شہید کیا وہ بھی
صحابہ میں سے تھا ۔
--------
امام ذہبی نے اپنی کتاب " تجريد أسماء الصحابۃ " حصۃ اول میں سیدنا علیؓ کے قاتل ابنِ ملجم کو صحابہ میں /3782 نمبر پر ذکر کیا ہے۔

تجريد أسماء الصحابۃ ، الجزء الاوّل ،صفحہ نمبر/356

المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي

أبو عبد الله شمس الدين
 
61165808_2224597664242680_50076833946879
--------------------------
امام حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں ۔
 
61564633_2224533014249145_11743902894779
 
-----------------------------
 
پڑھیے !
جی ہاں ابن ملجم بھی مجتہد ہی تھا ۔
سیدنا عمر نے عمروبن العاص کو خط لکھا:
" عبدالرحمان بن ملجم کا گھر مسجد کے قریب کر دو تا کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید اور فقہ کی تعلیم دے"
تاريخ الإسلام - الإمام الذهبي
جلد3 ، ص /
653
 
قادری سلطانی صاحب  سیدنا علیؓ کی شہادت پر اس حرامی کو بھی اک ثواب سے
نواز دیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے بھی اجتہاد ہی کیا ہو ؟
 
61165811_2224323000936813_55162326867477
 
--------------------------------
چلیں اب سب مجتہدین میں
 
صحابہ  اور اہل بیت کی قتل و غارت پر
 
اک اک ثواب بانٹتے پھریں ۔
 
-------------------

ارے جناب کچھ کہنے سے پہلے بندہ ائمہ حدیث کا منہج اور اسلوب بھی دیکھ لیتا ہے۔

امام ذہبی نے جناب نے کہا کہ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں ابن ملجم لعنتی کو صحابی لکھا ہے جب کہ یہ بات ایک بہتان ہے امام ذہبی نے کہیں بھی اسے صحابی نہیں لکھا۔

اگرصرف کتاب کے نام  "تجرید اسماء الصحابۃ" سے استدلال کر رہے ہیں تو یہ جناب کی کم فہمی ہے اس میں امام ذہبی نے بہت سے تابعین  اور غیر تابعین کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی صفحہ میں چند افراد کے نام ہیں جن کی امام ذہبی نے خود تصریح کی ہے کہ ان صحبت ثابت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔

عبد الرحمن بن معاذ بن جبل توفي مع ابيه في طاعون عمواس لا صحبة له.

عبد الرحمن بن معاوية لا تصح له صحبة نزل مصر وروي عنه سويد بن قيس * مرسل *

Untitled.thumb.jpg.45f1d211d071e56a200ecefd19b33222.jpg

 

1.thumb.jpg.07fc6b9d4b354a9cf7b23b7706c1b9f9.jpg

تو جناب دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی نے غیر صحابہ کا ذکر بھی کیا ہے اور خود تصریح کی ہے جب کہ ابن ملجم کا کہیں بھی نہیں لکھا کہ وہ صحابی ہے اگر صحابی والی امام ذہبی کی عبارت جناب کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ اس بات سے رجوع کریں۔

امام ذہبی تو ابن ملجم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل ہی نہیں کہ اس سے حدیث لی جائے لیں امام ذہبی کا موقف:

عبد الرحمن بن ملجم المرادي، ذاك المعثر الخارجي.
ليس بأهل أن يروي عنه، وما أظن له رواية، وكان عابدا قانتا لله، لكنه ختم بشر، فقتل أمير المؤمنين عليا متقربا إلى الله بدمه بزعمه، فقطعت أربعته ولسانه، وسملت عيناه، ثم أحرق.
نسأل الله العفو والعافية 

(میزان الاعتدال ج 4 ص 592)

امید ہے اب امام ذہبی کے حوالے سے ایسی بات نہیں کریں گے۔

باقی ر ہا جناب کا یہ اعتراض:

"

 ابن ملجم بھی مجتہد ہی تھا ۔
سیدنا عمر نے عمروبن العاص کو خط لکھا
" عبدالرحمان بن ملجم کا گھر مسجد کے قریب کر دو تا کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید اور فقہ کی تعلیم دے"
تاريخ الإسلام - الإمام الذهبي
جلد3 ، ص /
653
 
یہ اعتراض بھی باطل ہے کیونکہ امام ذہبی نے اس واقعہ کی سند نہیں لکھی بلکہ اسے امام ابن یونس کے حوالے سے لکھا ہے جو یہ ہے:
وقيل: إنّ عُمَر كتب إِلَى عَمْرو بْن العاص: أنْ قَرّبْ دار عَبْد الرَّحْمَن بْن مُلْجم من المسجد ليُعَلِّم النّاس القرآن والفقه
[تاریخ الاسلام (ت بشار) ج 2 ص 273]
اور یہی عبارت امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بھی نقل کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو بن العاص: أن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس القرآن والفقه،
[سیر اعلام النبلاء (ط الرسالۃ) ج 2 ص 539]
اس میں بندہ دیکھ سکتا ہے کہ امام ذہبی نے و قیل کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور قیل مجہول کےصیغے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے 
اور اس کے علاوہ یہ بات امام ذہبی کی خود کی نہیں ہے بلکہ انہوں نے علامہ ابن یونس مصری کی تاریخ سے یہ بات نقل کی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے:
علامہ ابن یونس لکھتے ہیں:

وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو: أن قرّب دار «عبد الرحمن بن ملجم» من المسجد؛ ليعلّم الناس القرآن والفقه.
(تاریخ ابن یونس المصری ج 1 ص 315)

اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس بات کو بلا سند نقل کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
وقيل أن عمر كتب إلى عمر وإن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس والقرآن والفقه
(لسان المیزان ج 3 ص 440)

اس بات کی کوئی سند موجود نہیں ہے یہ سب بے سند بات ہے۔ اس لیے بے سند بات کے لیے اپنے محقق فیضی صاحب کی باتیں سن لیں


فیضی امام مرتضی زبیدی علیہ الرحمہ کی عبارت سے استدلال کرتے ہوئے ان کی عبارت کا ترجمہ اس طرح کرتا ہے:
اور اسی طرح جب امام بخاری اپنے تمام راویوں کو گرا دیں تو ایسی حدیث کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ صحیح بخاری میں ہو تو اور امام بخاری اسے قال یا روی سے لائے ہوں تو یہ انداز اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک ثابت ہے اور اگر یذکر یا یقال سے لائے ہوں تو پھر اس میں کلام کی گنجائش ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ ان کی کسی دوسری کتاب میں بلا سند حدیث ہو تو وہ مردود ہے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
آگے لکھتا ہے:
لہذا سوچئے کہ التاریخ الکبیر میں درج شدہ ایک ایسی روایت کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے جس میں دو راویوں کے درمیان 68 یا 83 سال کا فرق ہے؟؟
[الاحادیث الموضوعۃ ص 98]
اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے:

اگرچہ ہر حدیث کا صحاح ستہ میں مذکور ہونا اس کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے تاہم یہ تو لازمی شرط ہے کہ ہر حدیث سے پہلے سند ہو۔
[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 352]
آگے لکھتا ہے:
ہمارے معاصر نے بلاسند حدیث نقل کر کے یقینا بے پر کی اڑائی ہے اس لیے اس کی نقل کردہ روایت بے بنیاد مردود اور باطل ہے۔
پھرکہتا ہے:

اگر یقال یا یذکر (کہا جاتا ہے، ذکر کیا جاتا ہے) یعنی صیغہ مجہول استعمال کیا ہو تو اس میں اعتراض کی گنجائش ہے۔
[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 354]
اور آگے فیضی اپنی تمام بحث کا نتیجہ نکال کر کہتا ہے:

خیال رہے کہ بلاسند حدیث بیان کرنے کی تردید میں ائمہ حدیث نے ضوابط و قواعد بیان کرنے میں اس عاجز نے جو محنت کی ہے اس کا باعث فقط یہ ہے کہ مجھ ایسے قارئین بھی ایسے قواعد سے آشنا ہوں ورنہ میری کوشش حکیم ظفر وغیرہ ایسے بے اصول لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ عقل مند کے لئے ایسے بے اصول لوگ بالکل اسی طرح غیر اہم ہیں جس طرح بلا سند روایت۔
(شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 355)

 

امید ہے جناب ہماری بات تو مانیں گے نہیں اس لیے فیضی صاحب کی بات مان لیں کہ یہ بے سند اقوال باطل ہے اور مردود ہے  اور امام ذہبی پر جو الزام لگایا ہے وہ الحمدللہ باطل ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

 

جناب رضا عسقلانی صاحب آپ نے یہاں بھی اپنی مرضی کی بات اُٹھائی اور اس پر اپنا

وضاحت نامہ لکھ دیا ۔  جو اک تسلسل شروع تھا آپ نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے 

کرتے ہوئے پوسٹ لگائی ، آپ کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ،جاری بحث پر جواب لکھ کر

آپ کسی مناسب موقع پر اس کو پیش فرما سکتے تھے ۔

خیر میں اس مسئلہ پر ہر گز اس خبیث کو صحابی ثابت نہیں کرنا چاہتا نہیں اور نہ آپ کے 

مقابل امام ذہبی و ابن حجر عسقلانی کے حوالہ جات لگاؤن گا کہ یہ بات طول پکڑے

میں مختصراً امام ابن حزم کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں  اور 

 آپ کی پوسٹ کے جواب میں صرف اتنا لکھتا ہوں کہ میں آپ کی ہی ہر بات

کومان لیتا ہوں کہ صحابہ کے ناموں میں ابن ملجم کا نام بھی  امام ذہبی نے غلط لکھا ، سند بھی غلط سب کچھ

غلط مگر بتائیں کہ یہ اجتہاد کیسا اجتہاد ہے ؟ اس کو کیا سمجھا جائے ۔

اگر یہ بطور اک صحابی کے اجتہاد نہیں ہے ؟ تو کیسا اجتہاد ہے؟  اور

اگر یہ قاتل صحابی ہوتے ہوئے یہی اجتہاد کرتا تو پھر کیسا اجتہاد ہوتا ؟

پڑھیے 

امام ابن حزم اپنی کتاب المحلی میں رقمطراز ہیں۔


ولا خلاف بين أحد من الأمة في أن عبد الرحمن بن ملجم

لم يقتل عليا رضي الله عنه إلا متأولا مجتهدا مقدرا على

أنه صواب، وفي ذلك يقول
عمران ضربـــة من تـــقي ما أراد بها
إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حيـــنا فـــأحســـبـــــه
أوفى الـــبرية عـــند الله ميـــزانا


(ابن حزم في المحلى )

0.thumb.png.3d9f67a1bee6afe3c8ac428b2547eba2.png

 

موصوف اپنی کتاب المحلی میں رقم ظراز ہیں۔

کہ امت میں سے

کسی نے اس بات پر اختلاف نہیں کیا کہ ابن ملجم مرادی نے علیؓ 

کو بنا بریں اجتہاد قتل کیا تھا۔ جس پر وہ خود کو صائب سمجھتا تھا۔
بطور استدلال ابن حزم نے صحیح بخاری

کے مشہور خارجی راوی عمران بن الحطان کے شعر نقل کئے ہیں جو

اس نے ابن ملجم کی شان میں لکھے۔۔!
''ایک پرہیزگار کی کتنی بہترین ضربت ہے

کہ جس کا مقصد رضوان الہی تک پہونچنے کے

علاوہ کچھ نہ تھا، میں جب اس کو یاد کر تا ہوں توخیال

کرتا ہوں کہ خدا کے نزدیک اس کے ترازو کا پلہ تمام چیزوں سے زیادہ بھاری ہے۔

 

 یہاں میں صرف اک آیت پر بات ختم کرتا ہوں کہ اگر یہ صحابی بھی ہوتا تو

بھی جہنم کا ہی ایدھن بنتا اور ہرگز حکم خداوندی سے کسی صورت نہ بچتا ۔

 

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٝ جَهَنَّـمُ خَالِـدًا فِيْـهَا وَغَضِبَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ

وَلَـعَنَهٝ وَاَعَدَّ لَـهٝ عَذَابًا عَظِيْمًا 
( النساء 93)


اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس

پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

--------------------

اب جناب رضا صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ مزید ابن

ملجم پر بات کوختم فرمائین اور جو بات تسلسل سے جاری

ہے اسی پر ہی اپنی نئی پوسٹ لگائیں اور وہ بات

 ہورہی ہے کہ میں  نے جناب سعیدی صاحب 

 

کو لکھا کہ  : اور قولِ صحیح یہ ہے

کہ مروان ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا ۔

اب اگر آپ ہی کو جواب مکمل فرمانا ہے تو مروان قاتل تھا کہ

نہیں اس پر جواب تحریر فرمائیں ۔ اور اگر محترم

سعیدی صاحب ہی نے جواب لکھنا ہے تو ان کے علم میں

پہلے سے ساری بات موجود ہے ۔

شکریہ

-----------------------------

Quote

 

Edited by ghulamahmed17
Link to comment
Share on other sites

5 hours ago, ghulamahmed17 said:

 

جناب رضا عسقلانی صاحب آپ نے یہاں بھی اپنی مرضی کی بات اُٹھائی اور اس پر اپنا

وضاحت نامہ لکھ دیا ۔  جو اک تسلسل شروع تھا آپ نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے 

کرتے ہوئے پوسٹ لگائی ، آپ کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ،جاری بحث پر جواب لکھ کر

آپ کسی مناسب موقع پر اس کو پیش فرما سکتے تھے ۔

خیر میں اس مسئلہ پر ہر گز اس خبیث کو صحابی ثابت نہیں کرنا چاہتا نہیں اور نہ آپ کے 

مقابل امام ذہبی و ابن حجر عسقلانی کے حوالہ جات لگاؤن گا کہ یہ بات طول پکڑے

میں مختصراً امام ابن حزم کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں  اور 

 آپ کی پوسٹ کے جواب میں صرف اتنا لکھتا ہوں کہ میں آپ کی ہی ہر بات

کومان لیتا ہوں کہ صحابہ کے ناموں میں ابن ملجم کا نام بھی  امام ذہبی نے غلط لکھا ، سند بھی غلط سب کچھ

غلط مگر بتائیں کہ یہ اجتہاد کیسا اجتہاد ہے ؟ اس کو کیا سمجھا جائے ۔

اگر یہ بطور اک صحابی کے اجتہاد نہیں ہے ؟ تو کیسا اجتہاد ہے؟  اور

اگر یہ قاتل صحابی ہوتے ہوئے یہی اجتہاد کرتا تو پھر کیسا اجتہاد ہوتا ؟

پڑھیے 

امام ابن حزم اپنی کتاب المحلی میں رقمطراز ہیں۔


ولا خلاف بين أحد من الأمة في أن عبد الرحمن بن ملجم

لم يقتل عليا رضي الله عنه إلا متأولا مجتهدا مقدرا على

أنه صواب، وفي ذلك يقول
عمران ضربـــة من تـــقي ما أراد بها
إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حيـــنا فـــأحســـبـــــه
أوفى الـــبرية عـــند الله ميـــزانا


(ابن حزم في المحلى )

0.thumb.png.3d9f67a1bee6afe3c8ac428b2547eba2.png

 

موصوف اپنی کتاب المحلی میں رقم ظراز ہیں۔

کہ امت میں سے

کسی نے اس بات پر اختلاف نہیں کیا کہ ابن ملجم مرادی نے علیؓ 

کو بنا بریں اجتہاد قتل کیا تھا۔ جس پر وہ خود کو صائب سمجھتا تھا۔
بطور استدلال ابن حزم نے صحیح بخاری

کے مشہور خارجی راوی عمران بن الحطان کے شعر نقل کئے ہیں جو

اس نے ابن ملجم کی شان میں لکھے۔۔!
''ایک پرہیزگار کی کتنی بہترین ضربت ہے

کہ جس کا مقصد رضوان الہی تک پہونچنے کے

علاوہ کچھ نہ تھا، میں جب اس کو یاد کر تا ہوں توخیال

کرتا ہوں کہ خدا کے نزدیک اس کے ترازو کا پلہ تمام چیزوں سے زیادہ بھاری ہے۔

 

 یہاں میں صرف اک آیت پر بات ختم کرتا ہوں کہ اگر یہ صحابی بھی ہوتا تو

بھی جہنم کا ہی ایدھن بنتا اور ہرگز حکم خداوندی سے کسی صورت نہ بچتا ۔

 

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٝ جَهَنَّـمُ خَالِـدًا فِيْـهَا وَغَضِبَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ

وَلَـعَنَهٝ وَاَعَدَّ لَـهٝ عَذَابًا عَظِيْمًا 
( النساء 93)


اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس

پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

--------------------

اب جناب رضا صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ مزید ابن

ملجم پر بات کوختم فرمائین اور جو بات تسلسل سے جاری

ہے اسی پر ہی اپنی نئی پوسٹ لگائیں اور وہ بات

 ہورہی ہے کہ میں  نے جناب سعیدی صاحب 

 

کو لکھا کہ  : اور قولِ صحیح یہ ہے

کہ مروان ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا ۔

اب اگر آپ ہی کو جواب مکمل فرمانا ہے تو مروان قاتل تھا کہ

نہیں اس پر جواب تحریر فرمائیں ۔ اور اگر محترم

سعیدی صاحب ہی نے جواب لکھنا ہے تو ان کے علم میں

پہلے سے ساری بات موجود ہے ۔

شکریہ

-----------------------------

ارے جناب آپ نے سب سے پہلے امام ذہبی علیہ الرحمہ پر الزام لگایا ہم نے اس کا جواب دیا اب اصولایہ بنتا تھا کہ آپ امام ذہبی سے اسے صحابی ثابت کرتے پھر ہماری بات کا رد کرتے جب کہ آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور جناب پھر ابن حزم کو لے آئے۔

ایسے تو شمر ذی الجوشن کو شیعہ علماء نے اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں لکھا ہے تو پھر اسے بھی آپ تسلیم کرتے ہیں؟؟

باقی رہی ابن حزم کی بات ارے بھائی ابن حزم کو ہم کب سے صحیح سمجھتے ہیں؟؟

ابن حزم تو صحابہ کو مجہول کہہ دیتا ہے کبھی ان شیعہ و رافضی بنا دیتا ہے اس لیے ابن حزم ہمارے نزدیک گمراہ ہے اور اس کے نظریات بھی بہت خراب تھے۔

اس لئے ابن حزم کے حوالہ جات ہمارے لیے حجت نہیں اگرچہ وہابیوں کے لئے حجت ہیں۔

باقی میں معذرت کرتا ہوں آپ لوگوں کی بحث میں بنا تسلسل سے آ گیا لیکن آپ کو چاہیے تحقیق سے کام لیا ایسے ہی پوسٹر نہ چپکایا کریں۔

شکریہ

Link to comment
Share on other sites

On 10/24/2019 at 10:50 AM, ghulamahmed17 said:

اور قولِ صحیح یہ ہے کہ مروان ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا

جناب آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ امیر معاویہ بھی آپ کی طرح مروان کو طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھتے تھے اوروہ کسی نامعلوم تیر انداز کو قاتل نہیں سمجھتے تھے ورنہ آپ کا اعتراض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر نہیں ہو سکے گا جو آپ کا مطلوب ہے ۔

Link to comment
Share on other sites

Quote

جناب آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ امیر معاویہ بھی آپ کی طرح مروان کو طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھتے تھے اوروہ کسی نامعلوم تیر انداز کو قاتل نہیں سمجھتے تھے ورنہ آپ کا اعتراض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر نہیں ہو سکے گا جو آپ کا مطلوب ہے ۔

 

جناب محترم سعیدی صاحب آپ ایسے ایسے عجیب غریب

 

سوالات کیوں لکھ دیتے ہیں جن کا حیقت  سے دور دور کا واسطہ نہ ہو ۔


ثابت تو یہ کرنا ہے کہ حضرت طلحہؓ  کس کے تیر سے قتل و شہید ہوئے ؟

 

قاتل مروان تھا یا نامعلام تیر والا ۔


اگر ان سارے لوگوں کو علم تھا تو  جناب امیر معاویہ کے علم میں

 

بھی تھا کہ  قاتل مروان ہی ہے ۔


آپ کا یہ سوال کے امیر معاویہ کے علم میں ہونے


کا بھی ثابت کرنا  ہے اک مذاق کے سوا کچھ حیثیت  نہیں رکھتا ۔


 آپ کے جو کام کرنے کا ہے آپ وہ کیجے کہ نامعلام تیر سے

 

حضرت طلحہؓ کا قتل اور شہادت ثابت کیجے  ۔


پڑھیے کہ کس کس کو معلوم تھا ۔
----------------------------

Picture4tty.thumb.png.abb5a042b38fb9ddd657a9f6304639ea.png

----------------------------------------------

Link to comment
Share on other sites

  • 3 weeks later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...