Jump to content

kya ya hadees pak sahi hai ali (ra) bi noor hai


rehman alvi

تجویز کردہ جواب

  • 4 weeks later...

یہ روایت موضوع ہے اس میں ایک کذاب راوی الحسن بن علی بن البصری ہے 

ویسے تو یہ عمر میں امام احمد بن حنبل سے چھوٹاہے  لیکن حضرت احمد کا ان سے سماع ممکن ہے  

امام دارقطنی اور امام ابن عدی نے اسکو متہم قرار دیا ہے 

اور امام ذھبی نے اسی متن سے مروی اسکی  روایت ابن عساکر سے بیان کی ہے ۔۔۔ 

جس  سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ  تعین صحیح ہے اور یہی راوی ہی ہے سند میں 

اور اس کتاب کے محقق نے بھی یہی تعین کیا ہے 

اور مین نے تسلی سے تقیق کے بعد اسکی موافقت کی ہے 

۱.PNG

474- الحسن بن علي بن صالح بن زكريا بن يحيى بن صالح بن عاصم بن زفر أبو سعيد العدوي البصري.
يضع الحديث، ويسرق الحديث ويلزقه على قوم آخرين ويحدث عن قوم لا يعرفون، وهو متهم فيهم ان الله لم يخلقهم

(الکامل فی الضعفاء الرجال ، امام ابن عدی )

Link to comment
Share on other sites

امام  خطیب بغدادی نے اسکا تعارف کرواتے ہوئے اسکے شاگردوں کے نام لکھیں اس میں سے ایک نام کامل بن طلحہ کا ہے 

 

3863- الحسن بن علي بن زكريا بن صالح بن عاصم بن زفر بن العلاء بن أسلم أبو سعيد العدوي البصري سكن بغداد، وحدث بها عن عمرو بن مرزوق، وعروة بن سعيد، ومسدد بن مسرهد، وهدبة بن خالد، وطالوت بن عباد، ’’’’’وكامل بن طلحة‘‘‘‘‘‘، وحوثرة بن أشرس، وعبد الله بن معاوية الجمحي، وشيبان بن فروخ، وجبارة بن مغلس، وخراش بن عبد الله، وغيرهم.ش

(تاریخ بغداد)

اور امام احمد نے اپنی اسی کتاب میں  الحسن سے کامل بن طلحہ کے طریق سے روایت لکھی ہے جس سے حتمی  کہنا اب صحیح ہے کہ محقق نے بھی حاشیے میں اس روایت میں اس راوی کا صحیح تعین کیا ہے 

امام احمد سے الحسن بن علی البصری کی کامل بن طلحہ سے مروی روایت یون ہے 

 

693 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا كَامِلُ بْنُ طَلْحَةَ الْجَحْدَرِيُّ قثنا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، وَهُوَ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثَمَانِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لِمَنْ أَحَبَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَفِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ ثَمَانُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَلْعَنُونَ مَنْ أَبْغَضَ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ» .

(فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل )

Link to comment
Share on other sites

1140 - حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْرَائِيلَ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ قثنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى الْكِسَائِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ سَالِمٍ، نا أَشْعَثُ ابْنُ عَمِّ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، وَكَانَ يُفَضَّلُ عَلَيْهِ، نا مِسْعَرٌ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَكْتُوبٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَلِيٌّ أَخُو رَسُولِ اللَّهِ، قَبْلَ أَنْ تُخْلَقَ السَّمَاوَاتُ بِأَلْفَيْ سَنَةٍ ".

 

آپ نے یہ روایت  پیش کی ہے یہ بھی سخت ضعیف ہے روایت اس میں ایک راوی   زَكَرِيَّا بن يحيى الْكسَائي جو کہ متروک و ضعیف ہے 

 

211 - زَكَرِيَّا بن يحيى الْكسَائي مَتْرُوك الحَدِيث ضَعِيف

(الضعفاء والمتروكون النسائی)

 

 

238 - زكريا بن يحيى الكسائي، الكوفي عن يحيى بن سالم الأسدي، متروك أيضا.

(: الضعفاء الضعفاء والمتروكون الردارقطنی)

 

یہ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ غالی شیعہ یعنی رافضی بھی تھا  ایک روایت کو امام ابن عدی بیان کر کے کہتے ہیں اسکے  رراوی بشمول زکریا بن یحییٰ الکسائی سمیت  غالی شیعہ  تھے اہل کوفہ کے!

حدثنا أبو يعلى، حدثنا زكريا بن يحيى الكسائي، حدثنا علي بن القاسم، عن معلى بن عرفان عن شقيق عن عبد الله، قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم أخذ بيد علي، وهو يقول الله وليي وأنا وليك ومعاد من عاداك ومسالم من سالمك.
قال الشيخ: وهذان الحديثان غير محفوظين بهذا الإسناد ورواة هذا الحديث

تهمون المعلى بن عرفان، وعلي بن القاسم وزكريا بن يحيى الكسائي كلهم غالين من متشيعي أهل الكوفة ولمعلى بن عرفان غير ما ذكرت.

(الکامل فی الضعفاء امام ابن عددی ،  برقم ۱۸۵۱)

 

نیزامام ذھبیؒ خود اسکو المغنی فی الضعفا  میں درج کر کے راٖفضی  لکھتے ہیں 

2203 - زَكَرِيَّا بن يحيى الْكسَائي
عَن مُحَمَّد بن فُضَيْل رَافِضِي هَالك

(المغني في الضعفاء

۱.PNG

Link to comment
Share on other sites

باقی  جو یہ حدیث ہے : 

 

1133 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَهْدِيٍّ الزَّهْرَانِيُّ قثنا أَبِي قثنا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا مَعَ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَلَمْ يَجِدْ مَجْلِسًا، فَتَزَحْزَحَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ أَجْلَسَهُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسُرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا صَنَعَ ثُمَّ قَالَ: «أَهْلُ الْفَضْلِ أَوْلَى بِالْفَضْلِ، وَلَا يَعْرِفُ لِأَهْلِ الْفَضْلِ فَضْلَهُمْ إِلَّا أَهْلُ الْفَضْلِ» .

اس میں وہی الحسن بن علی البصری راوی ہے ضعیف 

 

اس سے اگلی روایت 

1134 - حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى حَمْزَةُ بْنُ دَاوُدَ الْأُبُلِّيُّ بِالْأُبُلَّةِ قثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ النَّهْدِيُّ الْكُوفِيُّ قثنا كَادِحُ بْنُ رَحْمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَلِيٌّ أَخُو رَسُولِ اللَّ

اور 

1135 - حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى حَمْزَةُ، قثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ، قثنا كَادِحٌ قَالَ: نا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِي آخِرِهِ: «عَلِيٌّ أَخِي، وَصَاحِبُ لِوَائِي»

ان دونوں روایات  کا مرکزی راوی ابو یعلی  حمزہ بن ابی داود ہے جو کہ متروک ہے 

اسکی کوئی تعدیل نہیں سوائے جرح کے 

1107 - حمزة بن داود بن سليمان بن الحكم، أبو يعلى المؤدب.
• قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن حمزة بن داود بن سليمان بن الحكم بن الحجاج بن يوسف المؤدب، أبي يعلى بالأبلة؟ فقال: ذاك لا شيء. (278) .

(میزان الاعتدال)

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...
On 7/12/2019 at 3:02 AM, اسد الطحاوی said:

یہ روایت موضوع ہے اس میں ایک کذاب راوی الحسن بن علی بن البصری ہے 

ویسے تو یہ عمر میں امام احمد بن حنبل سے چھوٹاہے  لیکن حضرت احمد کا ان سے سماع ممکن ہے  

............................

.............امام احمد نے اپنی اسی کتاب میں  الحسن سے کامل بن طلحہ کے طریق سے روایت لکھی ہے....................

 

جزاک اللہ خیرا۔

اسد بھائی نے روایت کے جھوٹے ہونے کی صحیح وضاحت کردی ہے۔ اور راوی کا صحیح تعیین کر دیا ہے ۔

بس اس میں ایک چھوٹی سی وضاحت یہ ہے کہ امام احمدؒ اپنے شیوخ کے معاملے میں بہت محتاط ہیں ۔ اور ائمہؒ نے ذکر کیا ہے کہ ان کے شیوخ ثقہ ہیں ۔ اگرچہ یہ علی الاطلاق نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں تفصیل ہے ۔لیکن بہر حال اگر کوئی یہ بات بھی کرے تو دراصل یہ روایات امام احمدؒ کی روایت سے ہے ہی نہیں ۔ 

بلکہ فضائل صحابہ رضی اللہ عنہ کتاب ان کے بیٹے عبد اللہ بن احمد ؒ نے روایت کی ہے اور اس میں بہت اضافات کئے ہیں ۔پھر ان سے بھی نیچے کے راوی ابوبکر ابن مالک القطیعیؒ ہیں انہوں نے بھی  ۔ کتاب میں اضافات کئے ہیں ۔ اوراس کا ذکر کتاب میں موجود ہے ۔ پہلے امام احمدؒ کی روایات ہیں پھر اس کے بعد ابو بکر قطیعیؒ کے اضافات ہیں ۔۔ج۲ص۶۰۹ 

وَمِنْ فَضَائِلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ شُيُوخِهِ غَيْرِ عَبْدِ اللَّهِ

یعنی وہ روایات جو ابوبکر قطیعی کی اپنے شیوخ سے ہیں ، عبد اللہ بن احمدبن حنبلؒ کے علاوہ۔

اور یہ مذکورہ روایت اسی حصہ کی یعنی اضافات قطیعی  میں سے ہے ۔

چناچہ یہ   راوی الحسن بن علی بن البصری ۔۔امام احمد بن حنبل ؒ کا شیخ نہیں بلکہ ابوبکر قطیعیؒ کا شیخ ہے ۔

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...
On 8/8/2019 at 3:10 PM, ابن عثمان said:

جزاک اللہ خیرا۔

اسد بھائی نے روایت کے جھوٹے ہونے کی صحیح وضاحت کردی ہے۔ اور راوی کا صحیح تعیین کر دیا ہے ۔

بس اس میں ایک چھوٹی سی وضاحت یہ ہے کہ امام احمدؒ اپنے شیوخ کے معاملے میں بہت محتاط ہیں ۔ اور ائمہؒ نے ذکر کیا ہے کہ ان کے شیوخ ثقہ ہیں ۔ اگرچہ یہ علی الاطلاق نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں تفصیل ہے ۔لیکن بہر حال اگر کوئی یہ بات بھی کرے تو دراصل یہ روایات امام احمدؒ کی روایت سے ہے ہی نہیں ۔ 

بلکہ فضائل صحابہ رضی اللہ عنہ کتاب ان کے بیٹے عبد اللہ بن احمد ؒ نے روایت کی ہے اور اس میں بہت اضافات کئے ہیں ۔پھر ان سے بھی نیچے کے راوی ابوبکر ابن مالک القطیعیؒ ہیں انہوں نے بھی  ۔ کتاب میں اضافات کئے ہیں ۔ اوراس کا ذکر کتاب میں موجود ہے ۔ پہلے امام احمدؒ کی روایات ہیں پھر اس کے بعد ابو بکر قطیعیؒ کے اضافات ہیں ۔۔ج۲ص۶۰۹ 

وَمِنْ فَضَائِلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ شُيُوخِهِ غَيْرِ عَبْدِ اللَّهِ

یعنی وہ روایات جو ابوبکر قطیعی کی اپنے شیوخ سے ہیں ، عبد اللہ بن احمدبن حنبلؒ کے علاوہ۔

اور یہ مذکورہ روایت اسی حصہ کی یعنی اضافات قطیعی  میں سے ہے ۔

چناچہ یہ   راوی الحسن بن علی بن البصری ۔۔امام احمد بن حنبل ؒ کا شیخ نہیں بلکہ ابوبکر قطیعیؒ کا شیخ ہے ۔

جناب آپکی طر ف سے تفصیل دینے کا شکریہ۔ لیکن امام احمد اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں یہ بات مطلق طور پر بالکل صحیح نہین بلکہ انہوں نے ضعیف راویان سے بھی روایتیں لی ہیں اپنی مسند میں اور کچھ پر انکی خود کی بھی جرح ہیں۔۔۔  اور یہ کلیہ ہے کہ عام طور پر امام احمد ثقہ سے لیتے ہیں لیکن ضرور ثقہ سے لیتے ہیں ایسی بات نہیں ۔ جیسا کہ امام شعبہ تھے 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...