Jump to content
IslamiMehfil

بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے یزید کی بیعت کیوں کی تھی ؟ ایک اعتراض کا جواب


Recommended Posts

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Hasan Raza Hanfi
      I
      (امام ابن جریج رحمہ اللہ پر متعہ کے الزام کا تحقیقی جائزہ)
      از✒️: حسن رضا حنفی رضوی 
      محترم قارئین کرام! اکثر روافض متعہ کے جواز پر امام ابن جریج رحمہ اللہ کو بطور حجّت پیش کرتے ہیں کہ امام ابن جریج رحمہ اللہ متعہ کرنے  کو جائز سمجھتے تھے جبکہ حقیقیتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ روافض امام جریج رحمہ اللہ کے متعلق جو حوالہ جات پیش کرتے ہیں وہ اُس وقت کے ہیں کہ جب امام ابن جریج رحمہ اللہ کے سامنے متعہ کی حرمت ظاہر نہیں ہوئی تھی اور امام ابن جریج رحمہ اللہ کے پیش نظر متعہ کی حرمت کے دلائل موجود نہیں تھے
      لیکن جب امام ابن جریج رحمہ اللہ کے سامنے متعہ کی حرمت کے دلائل واضح ہوۓ تو آپ نے متعہ کے جواز سے رجوع فرمایا اور متعہ کی حرمت کے قائل ہوۓ ملاحظہ فرمائیں 

      قال ابن جريج يومئذ اشهدوا أني قد رجعت عنها بعد ثمانية عشر حديثا أروي فيها لا بأس بها 
      امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب گواہ ہو جاؤ حرمت کے سلسلے میں مجھے اٹھارہ روایات ملی ہیں  میں اس بنا پر جواز والی رائے سے رجوع کر چکا ہوں
      📗(مسند ابی عوانہ جلد 2 صفحہ 31)

    • By Muhammad hasanraz
      (امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض )

      محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : 
      اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے)
      °°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°°
       پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو 
      جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں:
      ______________________________________
      ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰))
      ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40)
      __________________________________________
      محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔
      تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے 
      اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔
      اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر  محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے 
      _______________________________________
       امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں 
      وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة
      زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے
      📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88)
      ________________________________________
      امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں:
      وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة
      اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔
      📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399)
      _______________________________________
      امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
      اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا
      📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134)
      ______________________________________
      خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
      ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔
      📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61)
      محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔
      یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے 
      تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر 
      اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین
      ______________________________________
      ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی





    • By Sunni Haideri
      🏹 شہادت امام حسین علیہ السلام کی نشاندہی🏹
      1 : 15124- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَيُقْتَلَنَّ الْحُسَيْنُ، [قَتْلًا] وَإِنِّي لَأَعْرِفُ التُّرْبَةَ الَّتِي يُقْتَلُ فِيهَا، قَرِيبًا مِنَ النَّهْرَيْنِ.
      ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حسین کو شہید کیا جاۓ گا اور میں اس مٹی کو پہچانتا ہوں جہاں حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جاۓ گا دو نہروں کے قریب ہے.
      ✍️حضرت علیؓ بھی جانتے تھے۔ 
      ✍️اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں باقی احادیث کو بھی اس حدیث سے تقویت مل رہی ہے یزیدی ڈاکٹرز کے پاس جائیں👨‍⚕️
      ✍️دعا ہے اللہ جلدی یزیدیوں کا صفایا فرما دے آمین۔🤲
      رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
            تخریج:
      ✍️ یہ حدیث درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے۔✍️
      📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب من كره الخروج في الفتنة وتعوذ عنها ~ حديث رقم 36699
      📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر من حديث الأمراء والدخول عليهم ~ حديث رقم 30097۔
      ( محمد عمران علی حیدری)
      2 :وَفِي "مُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى": ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ، حَتَّى يَكُونَ أَوَّلُ مَنْ يَثْلَمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ يُقَالَ لَهُ: يَزِيدُ
      📖إسناده مرسل. وانظر المجمع "5/ 241"
      ترجمہ: میری امت کا امر عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔
      ✍️یہ حدیث سند کے لحاظ سے سے مرسل ہے ہمارے ہاں قابل حجت ہے۔
      ✍️ اور اسکا متن بالکل ٹھیک ہے۔ یزید ہی پہلا لعنتی انسان تھا جس نے اپنی من مانی کی اور اہل بیت کی بے ادبی اور شعار اسلام کی ڈھایا ہے۔واقعہ حرہ قابل غور ہے۔
      ✍️جو درج نہی نہی کیا جا سکتا، آپ اس واقعہ کو پڑھ لیں ایک بار۔بس۔
      3 : ۱۲۴٤۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ.
      📖اسے احمد (المسند:242/1 ح 2165 ، 282/1 ح 2553 ۔۔ 
      📖کتاب فضائل الصحابۃ: 779/2 ح 1381 ) 
      📖طبرانی(الکبیر: 110/3 ح 2822) 
      حاکم (397/4، 398 ح8201) , 
      بیہقی (دلائل النبوۃ :471/6) اور 
      ابن عساکر (تاریخ دمشق : 228/14) نے حماد بن سلمۃ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباسؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔
      اسے حاکمؒ و ذہبیؒ دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
      📖حافظ ابن کثیرؒ نے کہا: اسے (کتب سبعہ میں سے)صرف احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (البدایۃ و النھایۃ: 202/8 )
      📖شیخ وصی اللہ بن عباس المدنی المکی فرماتے ہیں :
      اس کی سند صحیح ہے۔
      (تحقیق فضائل الصحابۃ: 779/2)
      ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما  سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کھڑے تھے اور آپ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔  ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  شہید ہوئے تھے۔
      (محمد عمران علی حیدری)
      3 : نبی کریم ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔
      ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔
      (مشخیۃ ابراہیم بن طہمان : ۳ و سندہ حسن و من طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۱۹۲/۱۴، ولہ طریق آخر عندالحاکم ۳۹۸/۴ ح ۵۲۰۲ و صححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی)
      4 : شہر بن حوشب تابعی(صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ،اللہ انہیں قتل کرے، انہوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔
       
      (فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی جلد2 صفحہ782 حدیث 1392. مسند احمد، جلد6 صفحہ 298 حدیث550 و سندہ حسن)

      5: یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یثلمہ رجل من بنی أمیۃ یقال لہ یزید۔
      ابن کثیر: البدایہ والنہایہ. جلد8 صفحہ231
      ’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔‘‘
      6: (۱۲۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیُّ، قَالَ: بَعَثَنَا یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَخَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ نَسِیَ زِیَادٌ اسْمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا فَمَا تَرٰی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((إِنْ أَدْرَکْتَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْفِتَنِ فَاعْمَدْ إِلٰی أُحُدٍ،فَاکْسِرْ بِہِ حَدَّ سَیْفِکَ، ثُمَّ اقْعُدْ فِی بَیْتِکَ، قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ أَحَدٌ إِلَی الْبَیْتِ فَقُمْ إِلَی الْمَخْدَعِ، فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ الْمَخْدَعَ فَاجْثُ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ، وَقُلْ بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزَائُ الظَّالِمِینَ، فَقَدْ کَسَرْتُ حَدَّ سَیْفِیْ وَقَعَدْتُ فِیْ بَیْتِیْ))۔ 
      (مسند احمد: ۱۸۱۴۵)
      وسندصحیح
      ترجمہ: ابو ا شعت صنعانی سے مروی ہے ، انھوں نے کہا: یزید بن معاویہ نے ہمیں سیدنا ابن زبیر  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے مقابلہ کے لیے بھیجا، میں مدینہ منورہ پہنچا تو فلاں کے پاس حاضرہوا، زیاد نے اس کا نام بیان کیا تھا، اس نے کہا: لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، آپ سب دیکھ رہے ہیں؟ ان حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میرے خلیل ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر تم ان فتنوں میں سے کسی فتنہ کو دیکھو تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھ رہنا، اگر کوئی فتنہ باز شخص تمہارے گھر کے اندر گھس آئے تو تم کسی کوٹھڑی کے اندر  چھپ جانا اور اگر کوئی تمہاری کو ٹھڑی میں آجائے تو تم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جانا اور کہنا کہ تو میرے قتل کے گناہ اور اپنے گناہوں کے ساتھ واپس جا، تیرا نجام جہنم ہے اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے، لہٰذا اے بھائی! میں تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھا ہوں.
      (محمد عمران علی حیدری)
      ✍️آج لوگ کہتے ہیں یزید نے کچھ بھی نہی کیا تھا.
      میں مزید کیا وضاحت کروں خود ہی ساری پوسٹ پرھ لیں سمجھ لگ جاۓ گی۔۔۔إن شاءالله۔
      7 :۔ (۱۲۴۳۷)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ، کَتَبَ إِلٰی قَیْسِ بْنِ الْہَیْثَمِ حِینَ مَاتَ یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فِتَنًا کَقِطَعِ الدُّخَانِ، یَمُوتُ فِیہَا قَلْبُ الرَّجُلِ، کَمَا یَمُوتُ بَدَنُہُ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ وَدِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔)) وَإِنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ قَدْ مَاتَ، وَأَنْتُمْ إِخْوَانُنَا وَأَشِقَّاؤُنَا، فَلَا تَسْبِقُونَا حَتّٰی نَخْتَارَ لِأَنْفُسِنَا۔ 
      (مسند احمد: ۲۴۲۹۰ صحیح)
      ترجمہ: جب یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی توضحاک بن قیس نے  قیس بن ہیثم کو خط لکھا، اس کا مضمون یہ تھا، تم پرسلامتی ہو، أَمَّا بَعْدُ! میں نے رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں جیسے شدید اور خوفناک فتنے بپا ہوں گے اور کچھ فتنے دھوئیں کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، تب لوگوں کے دل یوں مردہ ہوجائیں گے، جیسے بدن مردہ ہو جاتے ہیں،ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایک آدمی شام کو مومن اور صبح کو کافر ہوگا اور لوگ اپنے دین و اخلاق کو دنیا کے بدلے فروخت کرنے لگیں گے۔  یزید بن معاویہ فوت ہو چکا ہے اور تم ہمارے بھائی ہو، تم کسی معاملہ میں ہم سے سبقت نہ کرنا تاآنکہ ہم خود کسی بات کو اپنے لیے اختیار نہ کر لیں۔ 
      (محمد عمران علی حیدری)
      ✍️اس حدیث میں بات ہے نوٹ کرنے والی عقل والوں کے لیے۔
      سب امثال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یزید فوت ہوگیا🧐🤔۔
      🤷‍♂️✍️خط بھی یزید کے مرنے کے بعد لکھا گیا تھا۔
      ✍️وجہ کیا تھا ایسا کیوں کرنا پڑا اسکا مطلب صاف ہے۔
      ✍️یزید کی اولاد آج بھی یزید کو بے گناہ ثابت کرنا چاھتے ہیں۔
      ✍️🤲بس ایک دعا ہےہم حسینی ہیں ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہو بس۔۔ آمین🤲۔

      8: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ - عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِكَ لأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔
      ( صحیح مسلم جلد2حدیث4793)
      ترجمہ:  نافع سے روایت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما  عبداﷲ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اس  طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداﷲ بن مطیع نے کہا ابو عبدالرحمن رضی ‌اللہ ‌عنہ   ( یہ کنیت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما  کی )  کے لیے تو شک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکہ ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا ہوں جو میں نے رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے، آپ فرماتے تھے جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن خدا سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہوگی اور جو شخص مرجاوے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔
      (محمد عمران علی حیدری)
      ✍️کس نے لشکر بھیجا کدھر بھیجا نقصان کس کو ہوا؟
      ✍️آج لوگ کہتے نظر آتے ہیں دو شہزادوں کی جنگ تھی لعنت تم  جاہلو دشمن اہل بیت لوگ ہیں یہ کہنے والے ایسا۔
      ✍️ کہاں شہزادہ جنت کہاں لخت جگر بتول سلام علیہا، کہاں جگر گوشہ ابو ترابؓ۔
      ✍️اور کہاں یزید رزیل لعنتی انسان۔ جس نے صحابہ پر ظلم کیا اور اہل بیت پر بھی اور مدینہ پر بھی 😭😭😭😭ظلم۔
      ✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجرمی المصری الشافعی.✍️
       سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی مصری شافعی اپنی کتاب تحفة الحبيب على شرح الخطيب میں لکھتے ہیں:
      أَنَّ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ قَوْلًا بِلَعْنِ يَزِيدَ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَكَذَا لِلْإِمَامِ مَالِكٍ وَكَذَا لِأَبِي حَنِيفَةَ وَلَنَا قَوْلٌ بِذَلِكَ فِي مَذْهَبِ إمَامِنَا الشَّافِعِيِّ وَكَانَ يَقُولُ بِذَلِكَ الْأُسْتَاذُ الْبَكْرِيُّ. وَمِنْ كَلَامِ بَعْضِ أَتْبَاعِهِ فِي حَقِّ يَزِيدَ مَا لَفْظُهُ زَادَهُ اللَّهُ خِزْيًا وَمَنَعَهُ وَفِي أَسْفَلِ سِجِّيْنَ وَضَعَهُ وَفِي شَرْحِ عَقَائِدِ السَّعْدِ يَجُوزُ لَعْنُ يَزِيدَ.
      یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔
      ( البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب، 12: 369، بيروت: دار الفكر)
      ( طالب دعا : محمد عمران علی حیدری)
      19.08.2021
    • By Aquib Rizvi
      ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★
       
      میــرے صحـابــہؓ کــے معـامـلـے میــں اللہ ســے ڈرو حـدیــثـــــ کــی تحـقیـق
      اَلصَّـــلٰوةُوَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَاخَـاتَــمَ النَّبِیِّیْــن
      بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم
      امام ابنِ حؒبان (المتوفى: 354هـ) نے فرمایا
      أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوا أَصْحَابِي غَرَضًا مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذ اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ"
      صحيح ابن حبان حدیث نمبر 7256📓
      ترجمہ: عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے 
      [ ھذا حدیث صحیح لغیرہ ]
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      صحیح ابن حبان کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمن الرومي پر جہالت کا الزام ہے جس وجہ سے اس سند کو ضعیف کہا جاتا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزام درست نہیں سب سے پہلے ہم اس راوی کے معروف ہونے پر دلیل دیں گے اور پھر اس کی توثیق پر چنانچہ سید المحدثین امام بخاریؒ فرماتے ہیں 
      مُحَمد بْن الحُسَين بْن إِبْرَاهِيم، حدَّثني أَبي، سَمِعتُ حَماد بْن زَيد، حدَّثنا عَبد اللهِ الرُّومِيّ، ولم يكن رُومِيًّا، كَانَ رجلا منا من أهل خُراسان
      حسین بن ابراہیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے حماد بن زید سے سنا کہ عبداللہ الرومی جو ہے یہ رومیوں میں سے نہیں بلکہ یہ اہل خراسان میں سے ایک ہے  
      یہ ہے اس راوی کے معروف ہونے کی دلیل 👆 
      جہاں تک بات رہی توثیق کی تو درج ذیل محدثین نے اس کی توثیق کی
      امام ابن حبؒان نے ان کو ثقہ کہا ✦
      ثقات ابن حبان 5/17 رقم :- 52📕
      امام زین الدین قاسمؒ بن قطلوبغا نے کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة یعنی وہ ثقہ راوی جو کتب ستہ میں موجود نہیں اس کتاب میں درج کرکے توثیق کی
      الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 5/378📓
      اور امام عجلیؒ نے بھی اس کو ثقہ کہا ✦
      تاريخ الثقات ص284 رقم :- 914📙
      مزید یہ کہ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے بھی ثقہ کہا ہے
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ راوی کم از کم درجہ صدوق حسن الحدیث پر فائز ہے اور اس کو اس درجہ سے گرانا زیادتی ہوگی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ لوگوں کو اشکال ہو کہ امام الائمہ والمسلمین شیخ الاسلام امام ابن حجرعسقلانیؒ نے تقریب التہذیب میں اس کو مقبول کہا ہے اور وہ اس اصطلاح کا اطلاق لین الحدیث پر کرتے ہیں تو اس اشکال کا بھی جواب دیتے چلتے ہیں 
      اسکا جواب یہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا اس کو مقبول کہنا اس کو درجہ صدوق سے نہیں گراتا کیونکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے تو اپنی اصطلاح مقبول کا اطلاق صحیح بخاری کے ثقہ راوی پر بھی کیا ہے مثلاً 
      يحيى بن قزعة
      ان کو امام ابن حبانؒ نے ثقہ کہا امام ذھبیؒ نے ثقہ کہا مگر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان کو مقبول کہا جب کہ یہ امام بخاریؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاریؒ ان سے صحیح بخاری میں متصل مرفوع روایات لائے ہیں مثال کے طور پر چند حدیثوں کے نمبر پیش کر دیتا ہوں جن میں امام بخاریؒ ڈائریکٹ ان سے روایت کر رہے ہیں 
      حدیث نمبر :- 4491 ٬ 2602 ٬ 6988 ٬ 4216
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      تو ثابت ہوا کہ صحیح ابن حبان کی سند حسن ہے اب چلتے ہیں سنن الترمذی کی سند کی طرف
      امام ترمذیؒ (المتوفى: 279هـ) نے فرمایا 
      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ»
      سنن ترمذي حدیث نمبر 3862📘
      ترجمہ: عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      اس کی سند میں موجود راوی عبد الرحمن بن زياد پر یہ اعتراض ہے کہ یہ مجہول راوی ہے یہ اعتراض بھی حقیقت کے بالکل مخالف ہے یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے 
       اس کو امام یحؒییٰ بن معین نے ثقہ کہا✦ 
      اور یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی راوی کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلی درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امام یحییؒ بن معین جرح میں متشدد امام تھے لہذا آپ کی توثیق اعلی درجے کی مقبولیت کی حامل ہے
      سـير أعـلام النبـلاء للإمام الذهبي 9/183📒
      اس کو امام ابن حبؒان نے ثقہ کہا✦
       اس کو امام عجلیؒ نے ثقہ کہا ✦
       امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے ثقہ ✦
      كتاب تهذيب التهذيب 6/177📔
      کتاب تحریر تقريب التهذيب میں اس راوی سے حتمی فیصلہ یہ بتایا گیا کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی درست اور راجح ہے
      كتاب تحریر تقريب التهذيب 2/320📙
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      تو ثابت ہوا کہ ابن حؒبان کی سند بھی حسن ہے اور ترمذی کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند کو تو خود امام ترمذیؒ نے بھی حسن غریب کہا ہے لہذا یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجے پر فائز ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتب میں صحیح لغیرہ کی تعریف واضح ہے
      الصحيح لغيرہ هو الحسن لذاته إذا روي من طريق آخر مثله أو أقوى منه وسمي صحيحا لغيره؛ لأن الصحة لم تأت من ذات السند الأول، وإنما جاءت من انضمام غيره له
      ترجمہ: صحیح لغیرہ وہ ہے جب حسن لذاتہ کو کسی دوسرے طریق ( سند ) کے ساتھ روایت کیا جائے جو اس کی مثل یا اس سے زیادہ قوی ہو تو یہ صحیح لغیرہ ہے اس کو صحیح لغیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صحت سند کی ذات سے نہیں آتی بلکہ اس کے غیر کو اس سے ملانے کی وجہ سے آتی ہے
      نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر ص34📕 
      كتاب تيسير مصطلح الحديث ص64📓 
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      خــلاصـــــــہ کــــــــلام
      اصولی طور پر ہم نے ثابت کیا کہ صحیح ابن حبان کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند بھی حسن ہے لہذا جب دو حسن اسناد ایک دوسرے کی مثل موجود ہیں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہے 
      اگر کوئی شخص صحیح ابن حبان کی سند کو ضعیف مانتا ہے اور جامع ترمذی کی سند کو حسن مانتا ہے تو تب بھی یہ حدیث حسن لذاتہ درجے پر فائز رہے گی اور ابن حبان کی سند اس کی شاہد بنے گی 
       اور اگر کوئی شخص دونوں اسناد کو ضعیف کہتا ہے تب بھی یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ پر فائز رہے گی یعنی قابل احتجاج و استدلال رہے گی 
      لہذا کسی طرح بھی اس حدیث کی صحت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی شخص مطلقاً اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو وہ علم و اصول حدیث سے ناواقف ہے 
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
       فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب
      ⇊ تحـقیــق و دعـاگـــو 
      خـادم اہـلسنت و جمـاعت محمــد عـاقـب حسیــن رضــوی
      ⇊ بــا تصــدیــق فـضيـلــة الشيــخ 
      اســد طحــاوي الحنفـي البـريـلوي غفرالله له
      عـلامــة زبـيـر احمــد جمـالـوي عفـي الله عنـه
      ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ






    • By عبداللہ
      السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ۔

      مالک الدار کی استغاثہ والی روایت کو لکھنے کے بعد امام ابن حجر العسقلانی رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ سیف بن عمر نے "الفتوح" میں بیان کیا کہ جس شخص نے جا کر قبرِنبوی علیہ السلام پر استغاثہ کیا، وہ شخص حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔

      کیا اس عبارت کا سکین مل سکتا ہے جس میں سیف بن عمر نے یہ لکھا تھا کہ وہ شخص حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ ہیں؟
×
×
  • Create New...