درود پاک کے فضائل و برکات
-
Recently Browsing 0 members
No registered users viewing this page.
-
Similar Content
-
By Sunni Haideri
جو شخص جمعہ کے دن یہ درود شریف اَسّی مرتبہ پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف معاف کردیے جاتے ہیں۔
روایت کی تحقیق
امام خطیب نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔👇
7278:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة.
سند:
أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثَمَانِينَ مَرَّةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَ ثَمَانِينَ عَامًا، فَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً "
ترجمہ: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ کے سامنے( پاس) کھڑا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھ پر جمعہ کے دن 80اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی(80) سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا یارسول اللہ کیسے آپ پر درود پڑھیں تو فرمایاکہ تم کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً۔
(تاريخ بغداد ت بشار 15 /636.الرقم: 7278.)
✍️: زوائد میں امام خلدون الأحدب نے اسکو موضوع کہا۔
(زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة.9/293. الرقم: 2069.)
✍️: وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ : متھم باالوضع۔
6904: وهب بن دَاوُد المخرمي عَن ابْن علية عَن ابْن صُهَيْب عَن أنس من صلى عَليّ يَوْم الْجُمُعَة ثَمَانِينَ مرّة غفر لَهُ ذنُوب ثَمَانِينَ عَاما قَالَ الْخَطِيب لم يكن بِثِقَة ثمَّ أورد لَهُ حَدِيثا من وَضعه
سیدنا انس مروی ہے کہ جس نے مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں
خطیب نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں پھر انہوں نے اسکی وہ حدیث درج کی جو اس نے گھڑی ہے
( المغني في الضعفاء 2/727. الرقم: 6904.)
امام خطیب بغدادی نے اسی وھب کا ترجمہ لکھ نے بعد یہی روایت درج کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے روایت 7278.اور اسی طرح اسی روایت کو وھب کے ترجمہ 7326 نمبر پر بھی درج فرمایا۔
7326:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة.
اس کے اوپر والی سند مکمل بیان فرمائی۔
4583: وهب بن داود المخرمي: عن ابن علية، قال الخطيب: لم يكن ثقة.
(كتاب ديوان الضعفاء 229ص)
✍️: وسند: موضوع
طریق نمبر 02.👇
1893: قال: أخبرنا عبدوس، أخبرنا أبو منصور البزاز، أخبرنا الدارقطني، حدثنا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب،حدثنا عون بن عمارة، حدثنا سكن البُرْجُمي، عن الحجاج بن سنان عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الصلاة عليّ نور على الصراط، ومن صلّى عليّ يومَ الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عامًا".
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
(زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر 5/467.الرقم: 1893.)
✍️: عون بن عمارة القيسي: ضعیف۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اسکو ضعیف کہا۔👇
✍️: 5224: عون بن عمارة القيسي، أبو محمد البصري: ضعيف، مات سنة اثنتي عشرة ومائتين.
(تقريب التهذيب لابن حجر 424 ص.الرقم: 5224.)
✍️: حجاج بن سنان: متروک الحدیث۔
✍️: حجاج کو متروک کہا امام ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے
(/846: حجاج بن سنان: عن علي بن زيد، قال الأزدي: متروك.
(ديوان الضعفاء للذھبی 73ص۔الرقم: 846.) (لسان الميزان لابن حجر 2/562۔الرقم: 2150.
✍️: علي بن زيد بن جُدْعان : ضعيف.
1: مصباح الزجاجة میں امام بوصیری نے ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے سندا ضعیف فرمایا
کلام امام بوصیری: هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عَليّ بن زيد بن جدعَان۔
(مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 3/178. الرقم: 5101.)
✍️: واسناد ضعیف جدا بل منکر۔
طریق نمبر 03.
اسکو امام سخاوی اور ابن حجر ھیتمی نے ابن بشکول کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن اسکی سند ساتھ زکر نہیں کی یعنی بے سند
وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً أخرجه ابن بشكوال
ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی (80) مرتبہ پڑھے اُس کے اَسّی (80) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اُس کے لیے اَسّی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے
(القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع للسخاوی 199ص۔)
(الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر ھیتمی 213ص۔)
✍️: حسين بن محمد المغربي نے شرح بلوغ المرام کے حاشیہ میں اسے ساقطة من کہا۔یعنی ساقط ہے۔
(البدر التمام شرح بلوغ المرام ت الزبن 10/399.)
یہ روایت ( جس میں عصر کے بعد درود کا زکر ہے) بھی سند کے ساتھ نہیں ملی کافی تلاش بسیار کے بعد دلائل کو مدنظر رکھتے ہو یہی کہا جا سکتا ہے اسکو موقوف رکھا جاۓ کیونکہ یہ روایت بیان کرنے و سیدی کی طرف منسوب کرنے کے قابل نہیں دلائل کی بنیاد پر۔
خلاصہ کلام:
📖: لہذا یہ تینوں مرویات اس قابل نہیں ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر ان کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاۓ۔ پس ان کو سیدی معصوم الکائنات کی طرف منسوب کرنا گویا جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
اعتراض
✍️: کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ جو بغیر سند کے روایت ہوتی ہےوہ موضوع نہیں ہوتی۔
✍️: بس اتنی بات کی جاتی کہ شاید انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کہیں جب موضوع نہیں تو بیان کر سکتے عرض یہ ہے اگر موضوع نہیں ہوتی نہیں کہے سکتے تو صحیح یا ضعیف بھی تو نہیں کہے سکتے لہذا وہ ساقط ہے اسکو چھوڑ دینا چاھیے بیان بھی نہ کی جاۓ بس۔
✍️: دوسری بات ایسے لوگوں کو سند کی ضرورت کے بارے میں پڑھنا چاھیے حدیث میں سند کی اہمیت کتنی ہے
✍️: سند کی ضرورت مختصر سا تعارف۔ تفصیل کے لیے درج ذیل حوالہ جات کو مکمل پڑھیں
یہاں انکو مختصر کر کے لکھا گیا ہے۔
📖: امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو آدمی جو چاھتا کہے دیتا۔
مزید فرماتے ہیں کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں۔
صحیح مسلم : 32.
📖: اسی طرح امام ابن سرین فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات و فتنے داخل ہونے لگ گۓ سند بیان کی جانے لگ گئی۔
صحیح مسلم : 27.
📖: اللہ پاک ہماری مغفرت فرماۓ اور سیدی کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنے ی توفیق دے۔
📖: مفہوم حدیث جس نے جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت(منسوب) میری طرف کیا گویا اس نے اپنا راستہ جہنم کی طرف بنایا۔
✍️✍️✍️✍️
✍️: نوٹ درود شریف جتنا پڑھیں ثواب ملے گا۔ جب چاھیں پڑھیں یہی والا پڑھیں یا کوئی اور جس صیغہ کے ساتھ مرضی پڑھیں ثواب ضرور تو ملے گا لیکن اسکی جو تعداد اور وقت بتایا گیا ہے یہ ثابت نہیں اور اصل بات گناہ معاف والی بات کہی گئی ہے فکس کر کے 80سال یہ درست نہیں۔
✍️: عام طور پر جیسے پڑھتے ہیں پڑھیں دورد کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن جو خاص فضیلت ان تینوں رویات میں وارد ہیں وہ سیدی سے ثابت نہیں۔
✍️: دورد پڑھنا ثواب ہی ثواب کا کام ہے لیکن جو فضیلت ثابت نہیں اسکو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل درست نہیں بلکہ گناہ کبیرہ و جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔
واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
ازقلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔
12_03_2023
انیس(19) شعبان المعظم 1444ھ۔
-
By Aquib Rizvi
مسجد میں باتیں کرنے سے اعمال برباد
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے
من تكلم بكلام الدنيا في المسجد أحبط الله أعماله أربعين سنة
جو شخص مسجد میں دنیاوی باتیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اعمال کو ضائع کر دے گا۔
امام صغانی٬ امام ملا علی قاری٬ محدث أبو طاہر پٹنی٬ علامہ شوکانی اور عجلونی اور علامہ محمد بن خلیل الحنفی رحمہم اللہ تعالی ان ساروں نے اس روایت کو موضوع قرار دیا
( كتاب الموضوعات للصغاني ص39 )
( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص36 )
( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص338 )
( كتاب الفوائد المجموعة ص24 )
( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/285 )
( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص178 )
اس روایت کو امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ نے بھی فتویٰ رضویہ میں نقل کیا جو کہ ان کا تسامح ہے
( فتویٰ رضویہ 16/311 مسئلہ نمبر :- 149 )
نثار احمد خان مصباحی صاحب نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے مفتی حسان عطاری صاحب کی کتاب " تحقیق المعتمد في رواية الكذاب ودرجات السند " کی تقریظ میں اصل کتاب کا اسکین ساتھ دے دیا جائے گا
انہوں نے ثابت کیا کہ اس پر وضع کا قرینہ ظاہر ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے ... اور صاحب کتاب مفتی حسان عطاری صاحب نے بھی موافقت کی کوئی تعاقب نہیں کیا
( تحقیق المعتمد ص32/34 )
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ وضع حدیث کے ایک قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں
وما به وعد عظيم او وعيد ... على حقير وصغيرة شديد
یعنی جس میں کسی چھوٹے عمل پر عظیم بشارت ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر شدید وعید
کتاب کے محقق شیخ محمد بن علی بن آدم اثیوبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وحاصل المعنى : أنه يعرف كون الحديث موضوعاً بالإفراط في الوعد العظيم على الفعل الحقير، والوعيد الشديد على الأمر الصغير، وهذا كثير في أحاديث القصاص
خلاصہ کلام یہ کہ معلوم ہوا وہ حدیث موضوع ہوتی ہے جس میں حقیر ( چھوٹے ) عمل پر عظیم ( حد سے زیادہ ) بڑی وعد ( بشارت ) سنائی جائے اور اسی طرح چھوٹے ( گناہ ) پر شدید وعید سنائی جائے اور یہ قرینہ کثرت سے قصاص کی احادیث میں پایا جاتا ہے
( شرح ألفية السيوطي في الحديث ص293 )
اب یہ بات ایک عام انسان بھی بتا دے گا کہ مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد ہو جانا یہ یقیناً چھوٹے گناہ پر بہت بڑی وعید ہے جو کہ وضع کی دلیل ہے. اسی وجہ سے آئمہ حدیث نے اس روایت کو بالجزم موضوع کہا
اسی طرح اس روایت پر وضع حدیث کا دوسرا قرینہ بھی ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کا وجود کتب احادیث میں نہیں ہے
علم حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی
امام ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ تعالیٰ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں
إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع
جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے
امام ابن الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابن الجوزی کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں
ومعنى مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة
امام سیوطی فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو . ( یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو )
( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/106 )
( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/327 )
امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں
ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے )
( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 )
یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں
" اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں "
( فتویٰ شارح بخاری 1/307 )
لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت منگھڑت ثابت ہوتی ہے والحمدللہ
خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے محدثین کا کلام بھی اس روایت کے تحت پیش کیا کہ انہوں نے اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا اور ہم میں وضع حدیث کے دو قرائن پر بھی اس روایت کو موضوع ثابت کیا لہذا اس روایت کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
مؤرخہ 22 ذو الحجہ 1443ھ
-
By Aquib Rizvi
آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق
امام خطیب البغدادی م463ھ رحمہ اللہ نے فرمایا
وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسي بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنس، قال: صنع أنس لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتي المنديل، " فجاءت بمنديل درن، فقال اسجري التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه وسلم وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدي الأنبياء "
( كتاب تاريخ بغداد ت بشار 11/589 )
دینار مولی انس بیان کرتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ . وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا حضرت انس بن مالک نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام نے پوچھا یہ کیسے تو حضرت انس بن مالک نے فرمایا یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی
یہ روایت موضوع ہے
أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشي متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہذا اس کی حضرت انس بن مالک سے روایت موضوع قرار دی جائے گی
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وقال الحاكم: روى، عَن أَنس قريبا من مِئَة حديث موضوعة
اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں
قال ابن حبان: يروي، عَن أَنس أشياء موضوعة
یہ انس بن مالک سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
( لسان الميزان :- 3077 )
امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اندازاً فرمایا کہ
أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب
اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں
( ميزان الاعتدال 2/31 )
نیز سند میں " أبو عمير الأنسي " بھی مجہول ہے
امام احمد بن علی المقریزی م845ھ رحمہ اللہ نے حافظ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا
فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء- عليهم السلام
عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا . میں نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ انور پونچھتے تھے ، اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو
( كتاب إمتاع الأسماع 11/254 )
یہ بھی موضوع ہے
1 : محمد بن رميح العامري مجہول ہے
2 : عبد الله بن محمد بن المغيرة متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے
امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/75 )
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابن یونس نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا
( كتاب الزهر النضر في حال الخضر ص76 )
امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا
( كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري 14/219 )
( كتاب ميزان الاعتدال 2/487 )
3 : أبو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے
امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو " واہ " قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے
( كتاب ميزان الاعتدال 2/369 )
( فتح المغيث للسخاوي 2/128 )
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالک سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے
( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 4/393 )
اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں
اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے روٹیاں لگائیں اور نبی علیہ السلام نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبی علیہ السلام نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو کہاں سے نکل کر لیا اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92/93 پر
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
مؤرخہ 15 ذو الحجہ 1443ھ
-
By Aquib Rizvi
امام ابوالقاسم طبرانی م360ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
حدثنا بكر بن سهل، ثنا عبد الله بن يوسف، ثنا الهيثم بن حميد، عن رجل، عن مكحول، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر»
( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7605 )
ترجمہ :- نبی علیہ السلام نے فرمایا پیشاب ( کی چھینٹوں ) سے بچو کیونکہ قبر میں سب سے پہلے اس کے بارے میں حساب لیا جائے گا
اس سند میں امام مکحول سے روایت کرنے والا شخص مبھم ہے اور مبہم راوی کو پہچاننے کا طریقہ اصول حدیث کی کتاب تیسیر شرح مصطلح الحدیث میں یہ لکھا ہے
بوروده مسمى في بعض الروايات الأخرى
یعنی دوسری روایات میں اس کے نام کا ذکر ہوا ہو
( كتاب تيسير مصطلح الحديث ص260 )
اسی روایت کو امام طبرانی دوسری سند سے لائیں ہیں اور وہاں مکحول سے روایت کرنے والے راوی کا نام موجود ہے ملاحظہ ہو
حدثنا محمد بن عبد الله بن بكر السراج، ثنا إسماعيل بن إبراهيم، ثنا أيوب، عن مكحول، عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر»
( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7607 )
بلکل وہی روایت ہے ایک لفظ کا بھی فرق نہیں اور راوی کا نام بھی واضح ہے *" أيوب بن مدرك الحنفي "* یہ راوی متھم بالکذب و وضع ہے مگر اس پر خاص جرح بھی ہے کہ اس کی امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے روایات موضوع ہوتی ہیں
اس راوی کو امام نسائی امام دارقطنی امام ابو حاتم رازی امام يحيى بن بطريق الطرسوسي رحمہمُ اللہ نے متروک الحدیث قرار دیا
اور اسی راوی کو امام ابن معین رحمہ اللہ نے کذاب قرار دیا
( لسان الميزان :- 1382 )
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں
يروي المناكير عن المشاهير ويدعي شيوخا لم يرهم ويزعم أنه سمع منهم، روى عن مكحول نسخة موضوعة ولم يره
یہ مشہور راویوں سے منکر ( بمعنی باطل ) روایتیں بیان کرتا ہے اور ایسے شیوخ ( الحدیث ) سے احادیث سننے کا ( جھوٹا ) دعویٰ کرتا ہے جنہیں اس نے نہیں دیکھا اس نے امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے من گھڑت روایات کا نسخہ روایت کیا حالانکہ اس نے امام مکحول کو نہیں دیکھا
( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي :- 99 )
لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ہے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں
فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
-
By Aquib Rizvi
یہ ایک موضوع ( منگھڑت ) روایت ہے
اس کو امام الحسن الخلال نے فضائل سورہ اخلاص میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا
حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان، ثنا عبد الله بن عامر الطائي، حدثني أبي، ثنا علي بن موسى، عن أبيه، موسى، عن أبيه، جعفر، عن أبيه، محمد، عن أبيه، علي، عن أبيه الحسين، عن أبيه علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات»
كتاب فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال :- 54
ترجمہ :- علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کے اس کا ثواب مردوں کو ایصال کرے تو اس کو ان مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا
اس سند عبد الله بن عامر الطائي ہے یہ خود تو متھم بالوضع ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے لیکن اس پر خاص جرح بھی ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے والد کے واسطہ سے امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹا نسخہ بیان کیا ہے
چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
عبد الله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه
( كتاب ميزان الاعتدال :- 4200 )
یعنی عبداللہ نے اپنے والد کے واسطے سے امام علی رضا اور انکے آباؤ اجداد یعنی اہل بیت سے ایک جھوٹا نسخہ باطل نسخہ روایت کیا ہے
امام ذہبی فرماتے ہیں یا تو اس نے اس نسخے کو گھڑا ہے یا اس کے باپ نے
اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں نقل کیا جو ان کے نزدیک اس روایت کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتا ہے
( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/577 )
اس کو دوسری سند کے ساتھ امام الرافعی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں روایت کیا
( كتاب التدوين في أخبار قزوين 2/297 )
لیکن اس سند میں بھی داؤد بن سليمان الغازي ہے یہ راوی بھی کذاب ہے اور اس نے بھی ایک گڑھا ہوا نسخہ بیان کیا ہے امام علی رضا رضی اللہ عنہ سے اس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے کذاب قرار دیا
كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا
امام ذہبی فرماتے ہیں اسے یحییٰ بن معین نے کذاب قرار دیا امام ابوحاتم نے کہا میں اسے نہیں جانتا اور امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا شخص ہے جس کے پاس امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر گھڑا ہوا نسخہ تھا
( كتاب ميزان الاعتدال 2/8 )
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی
( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 3/397 )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی روایت ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں
فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
-
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.