Jump to content

شیعہ بدعتی راوی اگر اپنی بدعت کی دعوت دے تو کیا اس کی روایت قبول ہوگی؟


تجویز کردہ جواب

شیعہ بدعتی کی روایت کے قابل قبول کے لیے غیر داعی کی شرط کا تحقیقی جائزہ

سید احمد غماری صاحب فتح الملک العلی مترجم ص۲۵۹ پر لکھتے ہیں:

اسی طرح بدعتی کی روایت کے قابل قبول ہونے کے لیے محدثین نے جو یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو فی نفسہ باطل ہے اور ان کے لیے اپنے تصرف کے خلاف ہے۔ پھر ص ۲۶۰ پر لکھتے ہیں:حالانکہ امام بخاری،امام مسلم اور جمہور جن کے بارے میںابن حبان او رامام حاکم نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے ،نے ان بدعتیوں کی روایت کردہ احادیث سے حجت پکڑی ہے جو اپنی بدعت کے داعی ہیں جیسے حریز بن عثمان،عمران بن حطان،شبانہ بن سوار، عبدالحمید الحمانی اور ان جیسے بہت سارے راوی ہیں۔

مزید فتح الملک العلی مترجم ص ۲۶۱ پر اس اصول کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ بدعتی جو اپنی بدعت کا داعی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں۔یا تو وہ دیندار اور متقی ہوگا یا فاسق و فاجر۔اگر وہ دیندار اور متقی ہو تو اس کی دینداری اور اسکا تقویٰ اسے جھوٹ بولنے سے منع کرے گا او ر اگر وہ فاسق و فاجر ہو تو اس کی خبر اس کے فسق و فجور کی وجہ سے مردود ہوگی نہ کہ اس کے بدعت کا داعی ہونے کی وجہ سے لہذا یہ شرط اپنے اصل کے اعتبار سے باطل ہے۔

جواب:۔

 عرض یہ ہے کہ سید احمد غماری صاحب نے جو لکھا وہ اصول کے خلاف ہے۔امام بخاری اور امام مسلم کا داعی الی بدعت راویوں سے احتجاج کرنا،تو اس بارے  میں امام سخاوی ؒ  لکھتے ہیں:

امام بخاریؒ نے عمران بن حطان السدوسی سے جو روایت کی ہے تو وہ اس کے بدعت سے قبل کی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے آکر عمر میں اپنی بدعت سے توبہ کر لی ہو اور یہ روایت اس کے رجوع کے بعد کی ہو۔پھر امام بخاریؒ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث(کتاب التوحید میں)تخریج کی ہے اور وہ بھی متابعات میں سے ہے۔پس یہ تخریج متابعات میں مضر نہیں ہے۔(فتح المغیث للسخاوی ج۲ ص ۶۸،فتح الباری ج۱۰ ص ۲۹۰)

اب احمد غماری صاحب نے جن راویان کے نا م لیے ہیں انکے بارے میں تحقیق پیش خدمت ہے۔

۱۔حریز بن عثمان: حریز بن عثمان پر جرح یہ ہے کہ وہ ناصبی تھا [ غماری صاحب یا محشی ص ۲۶۰  کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ ؓ پر لعن طعن کرتا تھا بعض علماء نے اس کے کفر پر فتویٰ  دیا ہے۔تہذیب التہذیب ج۱ ص ۴۶۵]اور ناصبیت کا داعی بھی تھا پھر بھی امام بخاری نے اس سے استدالال کیا۔

عرض یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی[یہ حریز بن عثمان کے شاگرد بھی تھے۔] سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۲۳۸)

بلکہ حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا: انہ رجع عن النصب یعنی حریز بن عثمان نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی۔(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۲۴۰)

۲۔عمران بن حطان:احمد غماری صاحب یا محشی کتاب فتح الملک االعلی ص ۲۶۰ کے حاشہ میں لکھتے ہیں: یہ وہ بدبخت انسان ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کے قصیدے پڑھتا تھا۔(تہذیب التہذیب ج۴ ص ۳۹۷)اس کے باوجود بھی امام بخاری نے اس سے احتجاج کیا۔

اس بارے میں عرض یہ ہے کہ عمران بن حطان السدوسی نے خارجیت سے آخری عمر میں توبہ کر لی تھی۔حافظ ابن حجرؒ تقریب میں لکھتے ہیں: رجع عن ذلک یعنی اس نے خارجیت سے رجوع کر لیا تھا۔(تقریب التہذیب ص۴۲۹)

حافظ ابن حجرؒ تہذیب التہذیب ج۸ ص ۱۱۴ لکھتے ہیں:

خلاصہ یہ کہ ابو زکریا الموصلی نے اپنی تاریخ موصل میں بروایت محمد بن بشر العبدی بیان کیا ہے کہ عمران بن حطان نے اپنی آخر عمر میں موت سے قبل اس رائے سے خوارج سے رجوع کر لیا تھا۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

امام بخاری نے عمران بن حطان کے خارجی ہونے سے قبل روایت کیا ہو۔(ھدی الساری ص ۴۳۳)

۳۔شبابہ بن سوار :شباب بن سوار پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ارجاء کی طرف داعی تھا یعنی بدعت کی طرف داعی تھا پھر بھی امام بخاری نے اپنے اصول لے برعکس اس سے احتجاج کیا۔

عرض یہ ہے کہ احمد بن صدیق الغماری یا تو حقیقت حال معلوم نہیں ہے یا پھر اس مسئلہ کو الجھا کر عوام الناس کے ذہن میں احتمالات ڈالنا چاہتے ہیں۔مگر ان کی یہ کوشش فضول ہے۔کیونکہ شبابہ بن سوار پر ارجاء کی داعی ہونے کا اعتراض صحیح نہیں کیونکہ شبابہ بن سوار نے ارجاء والے عقیدے سے رجوع کر لیا تھا۔

امام ابو زرعہ الرزایؒ  لکھتے ہیں:رجع شبابہ عن الارجاء یعنی شبابہ نے ارجاء سے رجو ع کیا اور تائب ہوگئے تھے۔(میزان الاعتدال ج۲ ص ۲۶۱، الضعفاء لابی زرعہ ج ۲ ص ۴۰۷،ہدی الساری ص ۴۰۹)

۴۔عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی: اس پر اعتراض ہے کہ یہ راوی ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا اور پھر بھی امام بخاری نے احتجاج کیا۔

عرض یہ ہے کہ اس راوی کے بارے میں علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں: لعلھم تابوا یعنی پس ممکن ہے کہ عبدالحمید نے بھی توبہ کر لی ہوں۔(میزان الاعتدال ج۲ ص ۵۱۵)

مزید یہ کہ اس کی صرف ایک روایت صحیح بخاری :۵۰۴۸ پر موجود ہے اور یہ روایت دوسری سند کے ساتھ صحیح مسلم:۷۹۳ پر بھی موجود ہے۔

    اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ احمد بن محمد الصدیق الغماری نے العتب الجمیل نامی کتاب سے جو اعتراضات اٹھانے کی کوشش کی ہے وہ تمام کے تمام اعتراضات مردود اور خلاف تحقیق ہیں۔ العتب الجمیل کتاب جو کہ محدثین پر افتراء اور جھوٹ کا پلندہ ہے ۔

مزید یہ کہ بدعتی کی روایت کو ترک اس کے فسق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کاوہ جذبہ ترویج بدعت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعت کو حسین الفاظ میں بتانے کو شش میں مصروف ہوتا ہے۔کیو نکہ بدعتی اپنی بدعت کو خوشنما بنانے کا خیال اسے روایت میں تحریف کرنے اور انہیں اپنے مسلک کے مطابق بنانے کی تحریک پید اکرسکتا ہے۔لہذا غماری صاحب کا یہ کہنا کہ بدعتی کے فسق کی وجہ سے روایت رد کردی جاتی ہیں ،ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا بلکہ بدعتی کے اندر وہ چھپا  ہوا خیال ہوتا ہے جو روایت میں تحریف کرنے کا خیال پیدا کر سکتا ہے۔لہذ اہم اس کی روایت کو احتیاط کے پیش نظر چند شرائظ کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ غماری صاحب کی خواہش پر ہم محدثین کے اصولوں سے انحراف کریں اور تمام ضوابط کو رد کردیں۔اللہ تعالیٰ کی ہزار نعمتیں اور انعامات ان جلیل القدر ہستیوں پر جنھوں نے اپنی ساری زندگی آقا دو جہاں ﷺ کی احادیث کو محفوظ کرنے کی لیے خرچ کردی۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...