Jump to content

اعلی حضرت کی طرف منسوب حدائقِ بخشش حصہ سوم پر اعتراض کا جواب


تجویز کردہ جواب

 کہتے ہیں کہ حسد و بغض انسان کو اندھا بنا دیتا ہے اور پھر میں جھوٹ و سچ سمجھنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ٹھیک اسی طرح وہابیوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہا ہے انہوں نے بغض کی وجہ سے بغیر تحقیق کئیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ پر بیہودہ الزامات عائد کیئے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ہے، مندرجہ ذیل اعتراض بھی اسی کی ایک کڑی ہے

جواب نمبر 1 : اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امامِ احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ پہ دیابنہ اور وہابیہ وغیرہ جاہل نما عالم،اعتراض کرتے ہیں کہ امام احمد رضا نے " اماّں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے حدائق بخشش حصہ سوم میں کچھ اشعار لکھیں ہیں جو گستاخی پہ مبنی ہیں ۔ آیئے پہلے وہ اشعار پڑھتے ہیں پھر اس جاہلانہ اعتراض کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔ حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر 37 پہ رقمطراز ہیں تنگ و چست انکا لباس اور وہ جوبن کا ابھار مسکی جاتی ہے قبا سے کمر تک لیکن یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن میرے دل کی صورت کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر محترم قارئین : اس پہ ایک لطیفہ یاد آیا ، ایک شخص پہ شاعری کا بھوت سوار تھا تو اس نے یہ لاجواب شعر کہا ۔ چہ خوش گفت سعدی در زلیخا کہ عشق نمود اول ولے افتاد شکلہا اسے یہ فکر نھیں تھی کہ دونوں مصرعوں کا وزن بھی صحیح ہوا ہے یا نھیں، اور اسے یہ تو خبر ہی نھیں تھی کہ زلیخا مولانا جامی کی تصنیف ہے اور دوسرا مصرعہ حافظ شیرازی کا ہے ۔ اس نے یہ دونوں چیزیں شیخ سعدی کے کھاتے میں ڈال دیں اور اس پر خوش کہ شاندار شعر بن گیا ۔ بس یہی حاصل معترضین کا ہے انھیں یہ علم ہی نھیں کہ حدائق بخشش حصہ سوم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف و ترتیب نھیں اور نھیں ان کی زندگی میں شائع ہوا ۔ یہ حصہ (حدائق بخشش سوم) مولانا محبوب علیخان نے ترتیب دیا اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے دو سال بعد شائع ہوا ۔ مولانا محبوب علیخاں نے ابتدائیہ کی صفحہ نمبر 10 پر ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ کی تاریخ درج کی ہے، جب کہ اعلی حضرت امام احمد رضا کی تاریخ وصال ۱۴۴۰ھ ماہ صفر میں ہو چکا تھا، مولانا محبوب علی خاں سے تیسرے حصہ کی ترتیب و اشاعت میں واضح طور پر چند فروگزاشتیں ہوئیں ۔ انہوں نے اس حصہ کا نام حدائق بخشش حصہ سوم رکھا، صرف یہی نھیں بلکہ ٹائیٹل پر ۱۳۲۵ھ کا سن بھی درج کر دیا حالانکہ حدائق بخشش صرف پہلے اصل دو حصوں کا تاریخی نام تھا جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئے اور تیسرا حصہ ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوا یعنی تقریباً ۱۶ یا ۱۷ سال بعد شائع ہوا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انہوں نے مسودہ نابھ سسٹیم پریس نابھہ کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے خود ہی کتابت کروائی اور خود ہی چھاپ دیا، مولانا نے اس کے پروف بھی نھیں پڑھے کاتب نے دانستہ یا نادانستہ چند اشعار جو بلکل تھے,ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں کہے گئے اشعار کے ساتھ ملا کر لکھ دیئے ، ان غلطیوں کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ علامہ مشتاق احمد نظامی رحمۃ اللہ علیہ نے ممبئ کے ایک ہفتہ روزہ میں ایک مراسلہ شائع کروا دیا اور مولانا محبوب علی کو اس غلطی کی طرف متوجہ کیا ، مولانا محبوب علی نے اپنی اس غلطی سے توبہ کی جو رسالہ سنی لکھنؤ اور روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا اور باربار زبانی توبہ کی ۔ اعلان توبہ : حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر ۳۷،۳۸ میں بےترتیبی سے اشعار شائع ہو گئے تھے اس غلطی سے بارہا یہ فقیر توبہ کر چکا ہے ، اللہ و رسول کریم میری توبہ قبول فرمائے آمین ثم آمین، اور سنی مسلمان خدا و رسول کے لئے معاف فرما دیں ۔ (فیصلہ شرعیہ قرآنیہ صفحہ ۳۱،۳۲) اس تفصیل سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا پہ گستاخی کا الزام درست نھیں ہے بلکہ یہ سراسر بہتان ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور اکابر دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : مولانا احمد رضا عاشق رسول ہیں وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور وہ ہمیں کافت نہ کہتے تو خود کافر ہو جاتے ۔(ملفوظات حکیم الامت) مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں : امام احمد رضا ایک عاشق رسول ہیں میں سوچ بھی نھیں سکتا کے ان سے توہین نبوت ہو ۔

(تحقیقات صفحہ نمبر ۱۲۵) خلاصہ یہ ہے کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب ہی نھیں لکھی بلکہ الگ الگ اشعار لکھے ہوئے تھے، مولانا محبوب علی نے ان اشعار کو جمع کیا اور پریس میں دے دیا، اور جو اشعار مشرکین عورتوں کی مذمت کے بارے میں لکھے تھے، اسے اماں عائشہ کی شان میں لکھے گئے اشعار کے ساتھ ملا دیا اور یہ غلطی پریس والوں کی تھی نہ کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ نہ تو امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب لکھی نہ چھپائی اور نہ ہی دیکھی پھر الزام کیسا.؟ اللہ ہدایت دے ایسے جاہل نما متعصب علماء کہلانے والوں کو  جو بہتان لگ

اتے ہیں اور فضول اعتراض کرتے ہیں آمین ۔ نوٹ: تفصیل کے لئے فیصلہ مقدسہ کا مطالعہ فرمائیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انتہائی متعصب غیر مقلاد وہابی عالم احسان الٰہی ظہیر لکھتا ہے : بریلوی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایسے کلمات کہے کہ انہیں سنی کبھی زبان پر نہیں لا سکتا۔‘‘ (ظہیر: البریلویۃ ص ۲۱) اللھم سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم ۔ جواب نمبر 2 : حدائق بخشش حصہ سوم : امام احمد رضا بریلوی کا نعتیہ دیوان دو حصے پر مشتمل ہے ۔ یہ ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء میں مرتب اور شائع ہوا۔ ماہِ صفر ۱۳۴۰ھ/۹۱۲۱ء کو آپ کا وصال ہوا۔ وصال کے دو سال بعد ذوالحجہ ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء میں مولانا محمد محبوب علی قادری لکھنوی نے آپ کا کلام متفرق مقامات سے حاصل کر کے حدائق بخشش حصہ سوم کے نام سے شائع کر دیا۔ انہوں نے مسو وہ نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ (پٹیالہ، مشرقی پنجاب۔ بھارت)کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے کتابت کروائی اور کتاب چھاپ دی۔ کاتب بد مذہب تھا، اس نے دانستہ یا نادانستہ چند ایسے اشعار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مدح کے قصیدے میں شامل کر دئیے جو ام زرع وغیرہ مشرکہ عورتوں کے بارے میں تھے ، ان عورتوں کا ذکر حدیث کی کتابوں مسلم شریف ، ترمذی شریف اور نسائی شریف وغیر میں موجود ہے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں سے چند ایک تسامح ہوئے : (1) چھپائی سے پہلے انہوں نے اپنی مصروفیات اور پریس والوں پر اعتماد کر کے چھپنے سے پہلے کتابت کو چیک نہ کیا۔ (2) کتاب کا نام ’’حدائق بخشش حصہ سوم رکھ دیا، حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ ‘‘ باقیاتِ رضا یا اسی قسم کا کوئی دوسرا نام رکھتے ۔ (3) ٹائیٹل پیج پر کتاب کے نام کے ساتھ ۱۳۲۵ھ بھی لکھ دیا، حالانکہ یہ سن پہلے دو حصوں کی ترتیب کا تھا جو مصنف کے سامنے ہی چھپ چکے تھے ۔ تیسرا حصہ تو ۱۳۴۲ھ میں مرتب ہو کر شائع ہوا۔ (محمد محبوب علی خاں ، مولانا۔: حدائق بخشش (نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ) ص ۱۰) ۔ اسی لیے ٹائیٹل پیج پر امام احمد رضا بریلوی کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ورحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھا ہوا ہے ۔ اگر ان کی زندگی اور ۱۳۲۵ھ میں یہ کتاب چھپتی ، تو ایسے دعائیہ کلمات ہر گز نہ درج ہوتے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) (4) یہ مجموعہ مرتب کر کے امام احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے مولانا مصطفے ٰ رضا خاں یا بھتیجے مولانا حسنین رضا خاں کو دکھائے اور منظوری حاصل کیے بغیر چھاپ دیا۔ (5) کتاب چھپنے کے بعد جیسے ہی صورتِ حال سامنے آئی تھی، اس غلطی کی تصحیح کا اعلان کر دیتے تو صورتِ حال اتنی سنگین نہ ہوتی، لیکن یہ سوچ کر خاموش رہے کہ اہلِ علم خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ اشعار غلط جگہ چھپ گئے ہیں اور آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر دی جائیگی۔ محمد ثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھو چھوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں فرماتے ہیں : مجھے محبوب الملت (مولانا محمد محبوب علی خاں ) کے خلوص سے انکار نہیں اور نہ ہی یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ انہوں نے امام احمد رضا کی کسی قدیم رنجش کی بناء پر ایسا کیا ، لیکن میں اس حقیقت کے اظہار سے بھی اپنے کو روک نہیں پا رہا ہوں کہ محبوب الملت نے کسی سے مشورہ کیے بغیر حدائق بخشش میں تیسر ی جلد کا اضافہ کر کے اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا تسامح کیا ہے ۔ ایک ایساتسامح جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسی فاش غلطی جس کی تنہا ذمہ داری محبوب الملت پر عائد ہوتے ہوئے بھی امام احمد رضا کو مخالفین کے اتہام کی زد سے بچا نہ سکی۔ سوچ کر بتائے کہ اس میں امام احمد رضا کی کیا غلطی ؟ غیر شعوری ہی کیوں نہ ہو، آنے والا مؤ رخ اس طرح کی خوش عقیدگی کو ظلم ہی سے معنون کرے گا‘‘۔ (شرکتِ حنفیہ ، لا ہور: انوارِ رضا ص ۲۱) ایک عرصہ بعد دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف سے پورے شدومد سے یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ مولانا محمد محبوب علی خاں نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں گستاخی کی ہے ، لہٰذا انہیں بمبئی کی سنی جامع مسجد سے نکال دیا جائے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور وہ کچھ کیا جو ایک سچے مسلمان کا کام ہے ۔ انہوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں اپنا توبہ نامہ شائع کرایا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی (مصنف خون کے آنسو) نے ایک ہفت روزہ کے ذریعے انہیں غلطی کی طرف متوجہ کیا تھا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آج ۹ ذیقعد ہ ۱۳۷۴؁ ھ کو بمبئی کے ہفتہ وار اخبار میں آپ کی تحریر ’’حدائق بخشش‘‘ حصہ سوم کے متعلق دیکھی ، ’’جواباً پہلے فقیر حقیر اپنی غلطی اور تساہل کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور اس خطا اور غلطی کی معافی چاہتا ہے اور استغفار کرتا ہے ، خدا تعالیٰ معافی بخشے ، آمین ! ‘‘(ماہنامہ سنی دنیا شمارہ ذوالحجہ ۱۳۷۴ھ ص۱۷۔ (محمد مظہر اللہ دہلوی ، مفتی: فتاویٰ مظہری (مدینہ پبلشنگ کمپنی ، کراچی)ج۲، ص ۳۹۳) ۔ اس کے باوجود مخالفین نے اطمینان کا سانس نہ لیا، بلکہ پروپیگنڈا کیا کہ

یہ توبہ قابل قبول نہیں ہے ۔ اس پرعلمائے اہل سنت سے فتوے حاصل کے گئے کہ ان کی توبہ یقیناً مقبول ہے ، کیونکہ انہوں نے یہ اشعار نہ تو ام المومنین کے بارے میں کہے اور نہ لکھے ہیں ، ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ کتابت کی دیکھ بھال نہ کر سکے ۔ اس کی انہوں نے علی الاعلان اور بار بار توبہ کی ہے اور درِ توبہ کھلا ہوا ہے ۔ پھر کسی کے یہ کہنے کا کیا جواز ہے کہ توبہ قبول نہیں ۔ یہ فتاویٰ فیصلہ مقدسہ کے نام سے ۱۳۷۵ھ میں چھپ گئے اور تمام شورِ اور شر ختم ہو گیا، اس میں ایک سو انیس علماء کے فتوے اور تصدیقی دستخط ہیں ۔ الحمد للہ! کہ فیصلہ مقدسہ ، مرکزی مجلس رضا لاہور نے دوبار چھاپ دیا ہے ۔ تفصیلات اس میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مقامِ غور ہے کہ جو کتاب امام احمد رضا بریلوی کے وصال کے بعد مرتب ہو کر چھپی ہو، اس میں پائی جانے والی غلطی کی ذمہ دار ی ان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے ؟ ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵ء میں بھی جب یہ ہنگامہ کھڑ ا کیا گیا تو تمام تر ذمہ داری مولانا محمد محبوب علی خاں مرتب کتاب پر ڈال دی گئی تھی۔ کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ امام احمد رضا بریلوی نے حضرت امام المومنین کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ لیکن آج حقائق سے منہ موڑ کر گستاخی کا الزام انہیں دیا جا رہا ہے ۔ آج تک امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم مسلک علماء پر یہی الزام عائد کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی محبت و تعظیم میں غلو سے کام لیتے ہیں ۔ پھر یکا یک یہ کایا پلٹ کیسے ہو گئی کہ انہیں گستاخی کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے ؟ دراصل امام احمد رضا بریلوی نے بارگاہِ خداوندی اور حضرات انبیاء واولیاء کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سخت علمی و قلمی محاسبہ کیا تھا ، جس کا نہ تو جواب دیا جا سکا اور نہ ہی توبہ کی توفیق ہوئی، الٹا انہیں بے بنیاد الزام دیا جانے لگا کہ یہ گستاخی کے مرتکب ہیں ۔ مولوی محمد اسماعیل دہلوی اپنے پیر و مرشد سید احمد (رائے بریلی) کے بار ے میں کہتا ہے کہ کمالات طریقِ نبوت اجمالاً تو ان کی فطرت میں موجود تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہ کمالات راہِ نبوت تفصیلاً کمال کو پہنچ گئے اور کمالاتِ طریقِ ولایت بطریقِ احسن جلوہ گر ہو گئے ۔ ان کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جناب علی مرتضیٰ نے حضرت کو اپنے دستِ مبارک سے غسل دیا اور ان کے بدن کو خوب دھویا، جیسے باپ اپنے بچوں کو مل مل کر غسل دیتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرانے بیش قیمت لباس اپنے ہاتھ سے انہیں پہنایا۔ پھر اسی واقعہ کے سبب کمالاتِ طریقِ نبوت انتہائی جلوہ گر ہو گئے ۔(صراط مستقیم ) یہ اگرچہ خواب کا واقعہ بتا یا جا رہا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ایسے واقعات کا کتابوں میں درج کرنا اور پھر فارسی اور اُردو میں انہیں بار بار شائع کرنا حضرت خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں سو ادبی نہیں ہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت کے توجہ دلانے کے باوجود علماء اہل حدیث نے اس کا تدارک نہ کیا اور نہ ہی توبہ کی۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے ۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...