Jump to content

فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


محمد حسن عطاری

تجویز کردہ جواب

 

Hazrat Ameer Muaviya Hazrat ibne Abbas ki Nazar mein


Hazrat Ibne Abbas say Pocha Gaya Kay Aap Hazrat  Ameer ul Mominin Ameer Muaviya Kay Baare Mei Kya Raaye  Hai Jab Ki Wo witar KI Ek hi Rakaat Padhtay Hain Hazrat Ibne Abbas Nay Farmaya BE shak Wo Faqeeh Hain

*Bukhari Shareef vol 2 page 436*

IMG_20210524_132605_252.jpg

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...
  • جوابات 101
  • Created
  • Last Reply

Top Posters In This Topic

  • محمد حسن عطاری

    102

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1987987085_2021-06-0214_29_29.png.aed213eacfef3f29c91daf8c9d8fcc85.png

1052849903_2021-06-0214_25_58.png.2a0799ca36d7c4fe5c8e3c38d9e86f26.png

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ | متوفٰی١٩٨٨ء 

پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب " جمال مقصود " میں درج ہے کہ : ایک مرتبہ آپ رحمة الله علیہ کی مجلس عالیہ میں جنگ جمل کا تذکرہ ہوا آپ نے فرمایا : کہ میرا گزر اس میدان سے ہوا جہاں یہ جنگ لڑی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ یہ جنگ کیوں اور کیسے لڑی گئی؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بڑی گرج دار آواز مجھے سنائی دی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے " خبر دار اس بارے میں دوبارہ نہ سوچنا ورنہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 

جمال مقصود ، صاحںزادہ سید محمد عبد الرزاق شاہ بخاری ، باب چھارم ، تحت " جنگ جمل ، ص 237 ، مطبوعة دار الکتب مقصودیہ غوثیہ ، کوٹ گلہ شریف ( تلہ گنگ ) ضلع چکوال ، طبع اول ۱٤٣٧ه‍/٢٠١٦ء )

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

1975571327_2021-06-0215_35_19.png.edc6f5c36e10b2c1b488276e2b3a3bf0.png

962544703_2021-06-0215_31_51.png.d3fccaa125eda5ab473ef22d1291ce72.png

1170016297_2021-06-0215_32_18.png.057607c6f74c4131487270bb7ee1e817.png

773364277_2021-06-0215_32_46.png.064cc380ea1f17999bfa2e3d65bd2ac0.png

1267129647_2021-06-0215_33_10.png.269fecccb7213aeb2cb4bf4a95d5fcb2.png

2097729344_2021-06-0215_33_38.png.58648715050013609e74d3595b91cf91.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو اسحاق ابراھیم بن علی بن یوسف بن عبد الله فیروز آبادی الشیرازی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ه‍ 

سوال : اگر کہا جائے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا اس میں حق ان کے ساتھ تھا جو ان دونوں سے تعلق رکھتے تھے ؟

جواب : ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔ پس کچھ کہتے ہیں کہ حق حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علی حق پر ہیں اور حق علی کے ساتھ جہاں پھریں ۔ کچھ علماء فرماتے ہیں : کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مجتہد مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر مجتہد مصیب ہے ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کا اختلاف اصول میں نہ تھا ۔ بلکہ ان کا اختلاف فروع میں تھا ۔جیسے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحہما الله کا اختلاف تھا ۔ لوگ اس  مسئلہ میں دو قول پر ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ حق ایک جہت میں تھا ۔ اور اس جہت میں مخالف مخطئ تھا جس کیلئے ایک اجر تھا مگر اس کی خطا اسےکفرو فسق تک نہ لے جانے والی تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : جو شخص ( کسی مسئلہ میں ) اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک نہ پہنچے چوک جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے ان ائمہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک خیر پر ہونے کے باعث مصیب تھا انہوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے معاملہ کو اس پر محمول کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ خلیفہ تھے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے چچا زاد تھے ۔ انہیں ظلم سے قتل کیا گیا ان کے بعد خلافت کی زمام کار حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کے ہاتھ آئی پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کے پاس خون عثمان کا مطالبہ لے کر آئے ۔ تو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ  نے پوچھا کس

نے عثمان کو قتل کیا ۔ تو پیچھے رہ جانے والے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے پس ان کا اجتہاد اس وقت قاتلین کو اس وقت  ترک کرنے( یعنی کچھ نہ کہنے ) کا ہوا کیونکہ ان سب سے لڑنا ممکن نہ تھا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو خدشہ ہوا کہ خود انہیں نہ قتل کر دیں ۔جیسے انہوں نے عثمان کو قتل کیا ۔ پس جب ان سے تعرض نہ کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے گمان کیا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ترک کی ۔ کیونکہ امامت کی شرط اہل حق کیلے حقوق کا کامل حصول ہے ۔ پھر جب حقوق پورے نہ لئے تو شروط امامت میں سے ایک شرط ترک کر دی اور امامت باطل ہو گئی ۔ جب کہ فی الوقت امام و حاکم کا ہونا ضروری ہے پس اس اجتہاد سے انہوں نے معاویہ کو حاکم بنایا ۔

پس ان میں سے ہر ایک مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسا معاملہ نہ ہوا جو کفر و فسق پر منتج ہو ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ جب کافروں سے قتال فرماتے تو خوشی مسرت کا اظہار فرماتے ۔ جب کہ معاویہ کے ساتھ پیکار میں دکھ اورغم کا ظہور ہوا یہاں تک کہ جاں بلب ہو گئے ۔ ابو الحسن علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : یہ سب ہمارے درمیان ہوا میں اپنے دکھ اور پریشانی کا شکوہ بارگاہ خداوندی میں کرتا ہوں کاش میں بیس سال پہلے جام موت پی لیتا ۔ آپ اپنے ساتھیوں سے فرماتے : پیٹھ دینے والے کا تعاقب نہ کیا جائے زخمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ اگر محاربین سے کوئی بات کفر و فسق تک پہنچانے والی بات پاتے تو اپنے ساتھیوں کو اس کا حکم نہ دیتے ۔ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں : حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ مجتہد مصیب تھے ان کیلئے دو اجر ہیں جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ مجتہد مخطئ تھے ان کیلئے ایک اجر ہے ۔ اس مسئلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات میں زبان روکی جائے اور ان کےمحاسن یعنی خوبیوں کا ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عنقریب میرے اصحاب کے درمیان خرابی پیدا ہوگی ۔ جسے الله تعالی ان کی سابقہ نیکیوں کے سبب معاف فرما دے گا ۔ پس تم ان کے اختلافات میں نہ پڑو ۔ بخدا تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے تو ان کے ایک یا نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
( الإشارة الى مذهب اهل الحق ، لامام ابى اسحاق الشيرازى ، تحت " ترتیب الصحابة فی الفضل ، ص 184 تا 188 ، مطبوعة المجلس الاعلى للشئون الاسلامية وزارة الاوقاف )
__________________________________


 

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

1744221289_2021-06-0312_21_42.png.c91ddc61772b384ea823facaebfa49a9.png

358546009_2021-06-0312_22_08.png.9549e3456d6538562cc3bcbec2150ef7.png


عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی۱۰۵۲ھ

تمام صحابہ کرام قطعی طور پر جنتی ہیں اس ( یعنی ان کو جہنمی کہنے ) سے رسول الله ﷺ کی تنقیص شان لازم آتی ہے کیونکہ آپ ﷺ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا گیا ان کی راہنمائی فرمانا اور انہیں کفر و ضلالت سے نکالنا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے ، اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں چھ یا سات کے علاوہ سب کے سب ہدایت نہ پا سکے اور نہ ان کا ایمان ہے خاتمہ ہوا ، ایسے کلمات ادا کرنے سے ہم الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اس لیے اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کا تزکیہ کرے ان کو عادل قرار دے ، ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر طعن کرنے سے باز رہے اور ان کی مدح و ستائش کرے ، کیونکہ الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے ان کو عادل قرار دیا ہے ان کا تزکیہ کیا اور ان کی تعریف بیان فرمائی ۔

اور اسی کی مثل حضرت شہاب الدین عمر سہروردی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب " اعلام الہدی " میں فرمایا : اے خواہش نفس اور تعصب سے پاک لوگو! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم پاکیزہ نفسی اور صاف دلی کے باوجود انسان تھے ۔ ان کے بھی نفس تھے اور نفسوں کی کچھ صفات ایسی ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس لئے اگر ان کے نفسوں سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوتی جو دلوں کے لئے ناگوار ہوتی تو وہ دلوں کی طرف رجوع کر کے ان کا فیصلہ مانتے اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 لمعات التنقیح فى شرح مشكاة المصابيح ، العلامة المحدث عبد الحق الده‍لوى ، کتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة ،  ، جلد 9 ص 579 ، مطبوعة دار النوادر ، طبع اول ١٤٣۵ھ/۲٠١٤ء

 

Link to comment
Share on other sites

1396033147_2021-06-0312_48_06.png.9e7f8ce34dff8d07ae0f23b51bb37b88.png

1858979318_2021-06-0312_48_34.png.316f60847fc0166187a1044bce11a2b8.png

913259169_2021-06-0312_49_14.png.43aefa93095304ea14ca7f1084dd8558.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى رحمة الله عليہ  متوفٰی۷۸٦ھ

ہم رسول الله ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں کسی ایک کی محبت میں افراط نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں کسی سے بیزاری کرتے ہیں ۔ ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھے اور ان کے بارے میں برا ذکر کرے ۔ ہم ان کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی محبت دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان کے ساتھ بغض کفر ہے نفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ ہم ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ الله ان سے راضی وہ الله سے راضی ہیں ۔ اور ان کی شان تورات ، انجیل اور قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمائی : محمد ﷺ! الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں ( اے مخاطب! ) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے ، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، وہ الله کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے ، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں ۔ صحابہ کرام نے غلبہ دین اور اعلائے کلمة الله کیلئے پوری کوششیں کیں محبت رسول ﷺ  میں وطن چھوڑے حضور ﷺ کو ٹھکانہ دیا آپ کی نصرت و حمایت کی اور آپ کے سامنے جانبازی کی پس ان کی محبت واجب ہوئی ۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، گویا اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو ایذاء پہنچائی تو وہ دوزخ کا زیادہ حق دار ہے ۔ یہ کہ ہم اصحاب رسول ﷺ میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی چیز میں افراط فساد اور دوسروں کیلئے بغض و عداوت کا موجب ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ روافض نے سیدنا علی رضی الله عنہ کی محبت میں افراط و غلو کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کی تنقیص و عداوت میں پڑ گئے الله تعالی ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے ۔ ان روافض نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی شان میں الوہیت و نبوت کا دعویٰ کیا ۔ جیسا کہ غالی روافض کا عقیدہ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے فرمایا : تیری وجہ سے دو جماعتیں ہلاک ہوں گی ایک وہ جو بغض میں افراط سے کام لے گی دوسری جو تیری محبت میں غلو کرے گی ۔ اور جیسا کہ رسول الله ﷺ کا بھی فرمان ہے بیشک خوارج آپ کے بغض میں افراط سے کام لے کر ہلاک ہوں گے جیسا کہ روافض آپ کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔

جہاں تک ان سے برآت یعنی بیزاری کا تعلق  ہے تو یہ کجروی اور گمراہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم منہج قویم اور دین مستقیم ( پختہ اور سیدھے راستے اور دین ) پر تھے ہدایت ان کی اقتداء سے وابستہ ہے نبی اکرم ﷺ نے اس سلسلہ میں فرمایا : " میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ لہذا ان سے تبری اور بیزاری عدم اھتداء ہے اور یہی گمراہی ہے ہم ان بدبختوں سے عداوت رکھتے ہیں جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں ۔ دراصل صحابہ کرام سے بغض ان کے دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو الله تعالی نے ان کیلئے پسند فرمایا اور منتخب کیا ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا : اور میں نے اسلام بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔ صحابہ کرام سے بغض ، خبث عقیدہ کی دلیل ہے اور نفاق و فساد کا نتیجہ ہے پس ان لوگوں سے عداوت رکھنا اور برائی سے ان کا ذکر کرنا واجب ہے جو صحابہ کرام سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ہم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات میں نہیں پڑتے ان اختلافات کو ہم اجتہاد ہر محمول کرتے ہیں اور ان کاذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دین کے اصول یعنی جڑیں ہیں ۔ پس ان میں طعن دراصل دین میں طعن ہے اور ان کی محبت دین ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض اور کینہ کفر نفاق اور طغیان ہے اور یہ سب ضروریات شرع سے ظاہر ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
( شرح عقيدة اهل السنة و الجماعة ، لامام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى ، تحت " القول في حب أصحاب رسول الله ﷺ ، ص 141 تا 142 ، مطبوعة وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية سلسلة الرسائل التراثية ، طبع اول ١٤٠٩ه‍/١٩٨٩ء


Link to comment
Share on other sites

1069845485_2021-06-0313_10_10.png.d3772ae2f831be70b5796e8d7e709953.png

576584979_2021-06-0313_10_42.png.ac387867ec282c5aada0f73602ebaffd.png

1532471094_2021-06-0313_11_05.png.dd8f3bc90334644487f562b1820c5edf.png

1223022385_2021-06-0313_11_32.png.972c1a4bc484c79f5c66e8f6944ec626.png

576388727_2021-06-0313_12_00.png.16687189ab755340eb6b693c34b3e31e.png

170162534_2021-06-0313_12_39.png.21eab7ce60ddc01f46ed0b09f03adf89.png

59344631_2021-06-0313_13_09.png.09417e5e89af6157b67f9ac31bf0a758.png

1685425455_2021-06-0313_13_33.png.f064ff36be54e243b415131830b69f66.png

1399434750_2021-06-0313_14_24.png.28aeb6e27510a81fad4abbf151234aa1.png

1929370674_2021-06-0313_14_46.png.8491863d1a5e9e0e5209920338a36ef6.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمة الله علیہ متوفی۷٤٨ه‍ 

صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الله تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اسے لڑائی کا چیلنج کرتا ہوں ۔ اور رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنانا پس جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا ۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں ان لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے جنہوں نے رسول الله ﷺ کے بعد صحابہ کرام کو نشانہ بنایا ان کو گالیاں دی ان پر جھوٹ باندھا ، ان کو عیب لگایا ان کو خلافت قرار دیا اور ان پر جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ 

کلمہ " الله الله " ڈرانے کے لیے جس طرح اس شخص کو ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے " السار " یعنی آگ سے بچو اور ڈرو ۔ لا تتخذوهم غرضاً بعدي " تک یہ عبارت صحابہ کرام کے فضائل مناقب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ ہیں ۔ انہوں نے آپ کی مدد کی ، آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تعظیم کی اور جان و مال کے ذریعے آپ کی غمخواری کی ۔ پس جس نے ان سے محبت کی اس نے رسول الله ﷺ سے محبت کی تو صحابہ کرام کی محبت  ، رسول الله ﷺ کی محبت کا عنوان ہے اور ان سے بغض رسول الله ﷺ سے بغض کا عنوان ہے صحیح حدیث میں ہے : انصار سے محبت ایمان ہے اور ان سے بغض منافقت سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اور رسول الله ﷺ کے سامنے الله تعالی کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔اسی طرح حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت کی علامت ہے ۔ صحابہ کرام کے فضائل کا علم اس طرح حاصل ہوگا کہ ان کے احول ، سیرتوں اور آثار کا مطالعہ کیا جائے ان میں غور و فکر کیا جائے وہ رسول الله ﷺ کی حیات طیبہ میں ہوں یا آپ کے بعد ۔ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اسی طرح کفار سے جہاد کیا ، اشاعت اسلام ، شعائر اسلام کے اظہار ، الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے کلمہ کو بلند کرنے ، آپ کے بتائے ہوئے فرائض و سنن کی تعلیم میں سبقت کی ۔ اگر یہ نفوس قدسیہ نہ ہوتے تو ہمارے پاس دین کی اصل اور فرع کچھ بھی نہ پہنچتا ، اور ہمیں فرائض و سنن میں سے کسی فرض اور سنت کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم احادیث و اخبار علم حاصل کر سکتے ۔ 

پس جو شخص ان پاکیزہ ذاتوں پر طعن کرے یا ان کو گالی گلوچ کرے تو وہ دین سے نکل گیا اور مسلمانوں کی ملت سے بھی خارج ہوگیا ۔ کیونکہ طعن کی وجہ سے ان کے بارے میں بر عقیدہ رکھنا اور دل میں کینہ رکھنا ہے نیز الله تعالی نے اپنی کتب میں ان کی تعریف میں جو کچھ فرمایا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے فضائل و مناقب اور ن سے محبت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا انکار کرنا ہے ۔ علاوہ ازیں جو کچھ ہم تک منتقل ہوا ، اس کا سب سے عمدہ وسیلہ صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں اور وسائل میں طعن ، اصل میں طعن ہوتا ہے اور نقل کرنے والے کو حقیر جاننا منقول کو معمولی سمجھنا ہے ۔ یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے ظاہر ہے اور اس طرح منافقت اور بے دینی سے بچ سکتا ہے اور تمہارے لیے وہی بات کافی ہے جو احادیث میں آتی ہے جیسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام کو پسند فرمایا پس میرے لیے ان کو وزیر ، مددگار اور سسرالی بنائے ، پس جو ان کو گالی دے اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن الله تعالی اس کے کسی فرض اور نفل کو قبول نہیں فرمائے گا ۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں گالی دی جاتی ہے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اور انہی سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور میرے صحابہ ، بھائی اور سسرال والے بنائے اور عنقریب ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو ان میں عیب نکالیں گے اور ان کی توہین کریں گے ۔ نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ پینا اور نہ ہی ان کے ساتھ نکاح کرنا ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور ان کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھنا ۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خاموش رہو جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر ہو تو خاموش رہو ۔

علماء کرام فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق کے بارے میں تقدیر کے راز پر بحث کو تو خاموش رہو کیونکہ یہ خاموشی ایمان کی علامت ہے اور الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا ہے ۔ یہی حال ستاروں کا ہے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خود عمل کرنے والے ہیں یا ان ستاروں میں ارادۂ خداوندی کے بغیر تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اسی طرح جو شخص نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کی کسی طرح برائی بیان کرے ، ان کی خامیاں تلاش کرے اور عیب بیان کرے اور ان عیبوں کو ان کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرے وہ منافق ہے ۔ بلکہ مسلمانوں پر الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ سے محبت واجب ہے ۔ وہ جو کچھ لائے ہیں اور جس حکم کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، اس سے محبت کرنا نیز آپ کی سیرت و سنت پر عمل کرنے والے ، آپ کی آل ، صحابہ کرام ، آپ کی ازواج مطہرات ، اولاد ، غلاموں اور خادموں سے محبت کرنا بھی ضروری ہے ۔ جو لوگ ان شخصیات سے محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا اور جو ان سے بغض رکھتے ہیں ، ان سے بغض رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایمان کی مضبوط رسی الله تعالی کے لیے محبت اور الله تعالی کے لیے بغض ہے ۔ حضرت ابو ایوب سختیانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے دین کا مینار کھڑا کیا ، جس نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے راستہ واضح کیا ، جس نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے محبت کی وہ الله تعالی کے نور سے روشن ہوا اور کس نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط رسی کو تھاما اور جا نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھی بات کہی ، وہ منافقت سے بری ہوگیا ۔ 

حوالہ درج ذیل ہے 
١_( الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الندوة الجديدة 

٢_( الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت 
 

 

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

344469107_2021-06-0320_48_30.png.d661b49559d70718364d9d1e32a4da2e.png

1842052980_2021-06-0320_49_08.png.0bd6ab8a372e22f1ad9f39a60ce4b91c.png

1000773295_2021-06-0320_49_52.png.3c7550bc81511e4b0418e44859442cab.png

147113952_2021-06-0406_07_46.png.9d9e42cf3ace03dbebb826b0a37fdebd.png

1559852872_2021-06-0406_08_11.png.e18b3cbe658aad06b8da01c4f893d84e.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از شیخ اکبر امام ابو بکر محی الدین محمد بن علی المعروف ابن عربی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٣٨ه‍ 

کاتبین رسول ﷺ : نبی اکرم ﷺ کیلئے ( وحی و دیگر امور کی ) کتابت کرنے والے اصحاب رضی الله عنہم حسب ذیل ہیں : ١_حضرت عثمان  ٢_حضرت علی ٣_حضرت ابی بن کعب ٤_حضرت زید بن ثابت ۵_حضرت معاویہ ٦_حضرت خالد ابن سعید بن العاص ٧_حضرت ابان بن سعید ٨_ حضرت علاء بن الحضرمی ٩_ حضرت حنظلہ بن الربیع ١٠_ حضرت عبد الله بن سعید بن ابی سرح ، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی یہ سب اصحاب رضی الله عنہم وحی کے کاتبین تھے ۔ ( دیگر امور کے کاتبین کی تفصیل اس طرح ہے ) حضرت زبیر بن عوام اور حضرت جہم بن صلت رضی الله عنہما صدقات کے اموال ( کا ریکارڈ ) تحریر فرماتے تھے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھجوروں کے حوض لکھ کر شمار فرماتے تھے ، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حصین بن نمیر رضی الله عنہما مداینات و معاملات تحریر میں لاتے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہ بادشاہوں کے نام خطوط لکھتے تھے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے سفر ہجرت میں حضور ﷺ کیلئے تحریر کی ۔

 تحت كتابه ﷺ ، ص 47 تا48

خلافت حضرت معاویہ بن ابی سفیان  رضی الله عنہ : معاویہ بن سفیان ابن صخر ابن امیہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف یہاں رسول الله ﷺ کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف سے شجرہ مل جاتا ہے ۔ صلح امام حسن رضی الله عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بیعت ٢۵ ربیع الاول سنہ اکتالیس ھجری کو ہوئی ۔ ان کی مہر و انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " ان کا کاتب ( منشی ) عبد الله بن اوس الغسانی تھا ۔ جب کہ حاجب ان کا مولی زیاد بن نوف اور قاضی فضالہ بن عبد الله الانصاری تھا ۔ رجب سنہ ساٹھ ہجری میں وفات پائی ، نماز جنازہ ان کے بیٹے یزید نے پڑھائی ۔ ایک اور قول ہے کہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق شہر میں باب الجابیہ اور باب الصغیر کے درمیان دفن ہوئے ، بوقت وصال ان کی عمر اٹھتر سال ایک دن کم نو مہینے تھی ۔ بیعت خلافت سے پہلے بیس سال سے زائد شام کے گورنر رہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
( محاضرة الابرار و مسامرة الاخيار ، الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربي ، ذكر الخلفاء و تاريخ مدتهم خاصة ، تحت " خلافة معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، جلد 1 ص 66 ، مطبوعة دار اليقظة العربيعة ، طبع عام ١٣٢٤ه‍

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

876195886_2021-06-0406_32_42.png.69d5545adcf292d09bc363c45bf46012.png

463581595_2021-06-0406_33_08.png.4b85b3bdc32891c45a55f68ec85e96a4.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بنحجر الهيتمى الشافعى رحمة الله علیہ متوفی۹۷٤ھ

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاويہ اور مقتولین صفین رضی الله عنہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے پاس ایسا جواب لے کر جاؤں جس کے بارے میں مجھ سے سوال ہو اور اگر خاموش رہتا ہوں تو اس سے سوال نہ ہوگا تو جس کیساتھ میں مکلف ہوں اس میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 

الخيرات الحسان فى مناقب الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، لامام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى ، الفصل السادس و العشرون و السابع و العشرون فى شيء من حكمه و آدابه ، ص 140 ، مطبوعة دار الهدى و الرشاد ، طبع اول ١٤٢٨ه‍/٢٠٠٧ء 

Link to comment
Share on other sites

899528952_2021-06-0408_37_51.png.923f4117cd6f6c455ab2a364d63bf9f0.png

1011903554_2021-06-0408_37_23.png.1d75ab38211b360dead0c3a3ac1771fe.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۵۵ھ

اہل سنت کا برحق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد اور تاويل کرنے والے تھے ، انہوں نے نہ ہی کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الإيمان ، تحت " باب " وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ ، جلد 1 ، ص 335 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء 

 

1064371301_2021-06-0408_27_29.png.7d7880b27423c956f42c6e25e45df1db.png

75664552_2021-06-0408_26_50.png.e4835974752fc691bcf17105c0189275.png

 

درست جواب یہ ہے کہ وہ سب صحابہ مجتھد تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ وہ سب جنت کی طرف بلانے والے ہیں اگرچہ نفس الامر میں اس سے خلاف ہو ۔ ان کے اپنے گمان پر فیصلے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے اگر توں یہ اعتراض کرے کہ مجتھد جب درست فتوی دے تو دو ثواب جب غلطی کرے تو ایک یہاں کیسے یہ ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں : یہ جواب کافی ہے اس پر گزارا کروں کہ صحابہ کے حق میں اس کے خلاف بات ذکر کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ ان کی تعریفیں تو رب تعالیٰ نے کی ہیں اور ان کی فضیلتوں کی گواہی دی ہے ۔ فرمایا : تم لوگوں میں نکلنے والی بہترین امت ہو ۔ مفسرین کرام فرماتے : اس سے مراد آقا کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں ۔
 
حوالہ درج ذیل ہے 
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الصلوة ، تحت " باب التعاون فى بناء المسجد ، جلد 4 ، ص 308 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء 

Link to comment
Share on other sites

559495197_2021-06-0409_04_59.png.df1704b6e27867702a10f13007078258.png

1328740897_2021-06-0409_04_13.png.63608f8fdf195ab48d78292c7d0e7031.png

1491218733_2021-06-0409_04_35.png.8babd4cbd25b41778fa3ac03e7a41f2f.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الشافعی رحمة الله علیہ  متوفی٧٤٨ھ

 

حضرت قتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ جیسے کام کرنے لگو تو لوگ پکار اٹھیں گے یہ مہدی ہے ۔ احمد بن حواس کہتے ہیں ۔ مجھے ابو ہریرہ المکتب نے بتایا کہ اعمش کے ہاں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ اور ان کے عدل و انصاف کا ذکر چل پڑا تو اعمش نے کہا : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیا آپ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی بردباری کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟ اعمش نے فرمایا : نہیں الله کی قسم! میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے عدل کی بات کر رہا ہوں ۔ ابو اسحاق سبعیی حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی شان میں فرماتے ہیں ۔ اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہی امام مہدی ہیں ۔ ابو بکر بن عیاش ، ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ۔ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے بعد ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ امام بغوی رحمة الله علیہ ، ابو قیس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ہر قبیلہ میں ایک آدمی مقرر فرما رکھا تھا جو اس کے حالات سے ان کو باخبر رکھتا تھا ، ایک شخص جس کی کنیت ابو یحیی تھی ہر صبح ہر مجلس میں جا کر پوچھتا کیا تمہارے ہاں شبِ گزشتہ کوئی بچہ پیدا ہوا یا کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے یا کوئی مہمان باہر سے آیا ہے ؟ لوگ بتایا کرتے کہ ہاں اہل یمن میں سے فلاں آدمی اپنے کنبہ میں آیا ہے ، وہ اس شخص اور اس کے قبیلہ کا نام ذکر کر دیا کرتے تھے ۔ قبائل سے فارغ ہو کر وہ دفتر میں آتا اور وہاں ان کے نام تحریر کیا کرتا تھا ۔

عطیہ بں قیس کہتے ہیں کہ ميں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : تنخواہ تقسیم کرنے کے بعد بیت المال میں کچھ مال بچ گیا ہے اب وہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر آئندہ سال بھی حسب دستور کچھ مال بچ گیا تو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں گا ورنہ مجھے معتوب نہ کریں ۔ اس لیے کہ یہ میرا نہیں ، بلکہ یہ الله تعالی کا مال ہے جس نے تمہیں یہ عطا فرمایا ۔ سیرت و کردار اور عدل و احسان کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا دامن ایسے فضائل و مناقب سے پر ہے ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا : حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کی نماز نبی اکرم ﷺ سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو ۔ یہ ہے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی شہادت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے تدوین و تفقہ کے بارے میں فقاہت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے گواہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ ہیں ، اور حسن صلوة کی گواہی دینے والے حضرت ابو درداء رضی الله عنہ دونوں جس پایہ کے صحابی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس کے مؤید آثار اور بھی بہت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سابقین اولین صحابہ میں شمار نہیں ہوتے ۔ بخلاف ازیں کہا گیا ہے آپ فتح مکہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے ۔ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ خود اس بات کے معترف تھے کہ وہ فضلاء صحابہ میں شامل نہیں ہیں ، اس کے باوجود آپ کثیر اوصاف کے حامل تھے ۔ آپ کی سلطنت حدود خراسان سے لیکر مغرب میں بلاد افریقہ اور قبرص سے لیکر یمن تک پھیلی ہوئی تھی ، اس بات پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما تو درکنار عظمت و فضیلت میں حضرت عثمان غنی و حضرت علی المرتضی رضی الله عنہما کے قریب بھی نہ تھے ۔ پھر کسی اور بادشاہ کو ان کے مشابہ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نیز مسلم سلاطین میں سے کوئی مسلم سلطان سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا حریف کیسے ہو سکتا ہے ؟

حوالہ درج ذیل ہے 

المنتقى من منهاج الاعتدال ، لامام ابى عبد الله محمد بن عثمان الذهبى ، تحت " ثناء الأئمة الاعلام على معاوية و حكمه و سيرته و انه خير ولاة المسلمين بعد الراشدين ، ص 402 تا 403 ، مطبوعة الرئاسة العامة لإدارة البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد السعودية ، طبع ثالث ١٤١٣ه‍ 

Link to comment
Share on other sites

798928987_2021-06-0511_41_22.png.57c147ab262195ba5e2728971eb77628.png

2103845733_2021-06-0511_41_50.png.9918a65b417cbb8b6fbbca134f2e2a4a.png

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط رحمة الله علیہ  متوفٰی۷۱۸ھ 

حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما بہت زیادہ سخی اصحاب رسول ﷺ  میں سے تھے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں : میں نے حضور انور ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے زیادہ سخی نہیں دیکھا ۔ آپ رضی الله عنہ پہلے شخص ہیں جس نے صلہ ( انعام ) میں لاکھوں دیئے ، آپ رضی الله عنہ امام حسن مجتبی ، امام حسین اور حضرت عبد الله بن جعفر رضی الله تعالی عنہم کو عطا کرتے تھے … حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس عطا ( داد و دہش ) کی چمکتی حکایت ہے کہ آپ رضی الله عنہ نے حج کیا پھر جب مدینہ منورہ سے لوٹے تو حضرت  امام حسین بن علی رضی الله نے اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے فرمایا : معاویہ ( رضی الله عنہ ) سے جا کر نہ ملیں اور نہ سلام پیش کریں ۔ فرمایا : میں زیر بارِ قرض ہوں ان کے پاس جانا ضروری ہے پس سوار ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پیچھے چلے یہاں تک ان سے جا ملے ٬ سلام کیا اور اپنے قرض سے آگاہ کیا ۔ جب دونوں باہم گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک بختی اونٹ گزرا جو بوجھ کی گرانی سے درماندہ تھا لوگ اسے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے تاکہ اسے باربردار اونٹوں سے ملا دیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے پوچھا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ تو حاضرین نے بتایا کہ لدے ہوئے مال کے بوجھ سے درماندہ ہے ۔ فرمایا : اس پر کتنا بوجھ ہے؟ حاضرین نے بتایا کہ ( 80 ) اسی ہزار دینار ہیں ۔ فرمایا : اسے پھیر کر ابو محمد ( امام حسن بن علی رضی الله عنہما ) کو دے دو ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 غرر الخصائص الواضحة و عرر النقائص الفاضحة ، لامام ابى اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط ، الباب التاسع في السخاه ، ص 313 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٩ه‍/٢٠٠٨ء 

 

 

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1865810957_2021-06-0610_54_03.png.e3836138fcfb21e8d26e56366771261b.png

157453869_2021-06-0610_54_31.png.3f502d6a6f29ab572a58f9bd44172b6a.png

378678808_2021-06-0610_54_52.png.f27362e34f4afff12557588207c73923.png

488246367_2021-06-0610_55_15.png.ee97dc7a67ab5c9adad6e8eccf5854af.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محمد بن احمد بن سالم بن سليمان السفارينى الحنبلى رحمة الله عليہ متوفٰی۱۱۸۸ھ

 

ناظم رحمه الله و رضی الله عنہ فرماتے ہیں  و خالنا معاویہ ) ہمارے ماموں حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو خال المؤمنین کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نبی اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے بھائی ہیں اس لئے آپ پر خال المومنین کا اطلاق کیا کیونکہ ماں کا بھائی اس کے بیٹے کیلئے ماموں ہوتا ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا کا نام رملہ تھا ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام ہند تھا ۔ مگر زیادہ صحیح یہی ہے کہ ان کا نام رملہ بنت ابی سفیان خواہر معاویہ تھا ابو سفیان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی الاموی ان کانسب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عبد مناف میں مل جاتا ہے امیر المومنین حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی الله عنہما فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے ۔ اور مؤلفة القلوب میں سے تھے پھر اسلام میں حسن و کمال پیدا ہو گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ماں کا نام ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا وہ بھی فتح مکہ کے بعد اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کو سابقہ نکاح پر باقی رکھا ۔ وہ فصاحت عقل اور رزانت وقار و سنجیدگی کی مالک تھیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ابو عبد الرحمن کنیت کرتے تھے وہ نبی اکرم ﷺ  کے کاتب تھے ایک قول یہ ہے کہ صرف مکاتیب کی کتابت کرتے تھے وحی نہیں لکھتے تھے ۔ ترمذی میں بحکم تحسین مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نےحضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو ہادی مہدی بنا ۔ مسند امام احمد میں حضرت عرباض رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله ﷺ سے سنا آپ نے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو حساب و کتاب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ طبرانی معجم کبیر میں عبد المک بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے جب سے حضور اکرم ﷺ کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ! جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 لوائح الأنوار السنية ولواقع الأفكار السنية ، لامام محمد بن احمد بن سالم بن سلیمان السفارینی الحنبلی ، تحت " ترجمة معاوية رضي الله عنه ، جلد 2 ص 74 تا 75 ، مطبوعة مكتبة الرشد الرياض ، طبع اول ١٤١۵ھ/۱۹۹٤ء 

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1110520686_2021-06-0712_02_47.png.79c1effeac663ea6b0ccfe6acfa997e3.png

1872514300_2021-06-0712_03_27.png.da095722290524674a4d37255e699ec0.png

1353951652_2021-06-0712_03_48.png.d38eff4f77c591094e75098c08638324.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام جمال الدين ابو زكريا يحيى بن يوسف بن یحیی بن منصور الانصاری الصرصری الحنبلی رحمة الله علیہ  متوفٰی٦۵٦ھ

 

یہ بھی فضیلت کی دلیل ہے ، کہ میرے عقیدہ کے مطابق ، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ردیفِ مصطفٰے ﷺ ہونا بھی باعثِ فضیلت ہے اس کی فضیلت ضائع نہ جائے گی ۔ وہ کاتبِ وحی تھے صاحبِ حلم تھے اور ان کی بہن مصطفےٰ کریم ﷺ کے ساتھ جاوداں جنت میں ثمرات جنت سے لطف ہو رہی ہیں ۔ ہر صحابی کیلئے فضیلت ہے جس نے حضور اکرم ﷺ کا دیدار کیا اور اس کی یہ فضیلت دوسروں پر کامیابی و نعمت کے لحاظ سے ایسی ہے کہ اس کی طمع نہیں کی جاسکتی ۔ اور اصحاب نبی ﷺ کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کی تفتیش کا خواہش مند وہی ہوگا جو نامراد گمراہ اور طعنہ باز ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 منظومة فى مدح النبي ﷺ و بيان عقيدة أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى زكريا يحيى بن يوسف الأنصاري الصرصري ، ص 61 تا 62 ، نثر : 211 تا 214 ، مطبوعة بيت الأفكار الدولة ، طبع اول ١٤٢٧ه‍/٢٠٠٦ء

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1829037411_2021-06-0712_59_15.png.2f76a61f4859268def759f87e6fca884.png

967612354_2021-06-0712_56_53.png.b794aca70a2cf9fe1d78c7789115b94e.png

1790279729_2021-06-0712_58_51.png.f50662cd1d2dc3d7fe504fa6173faef3.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو القاسم محمد بن احمد بن جُزَیّ الكلبى الغرناطی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی۷٤١ھ

جہاں تک حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما اور دونوں میں سے ہر ایک کا ساتھ دینے والے اصحاب رضی الله عنہم کے درمیان مشاجرت و اختلاف کا تعلق ہے تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس نزاع کے ذکر سے زبان کو روکا جائے اور ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ذکر کلمات خیر سے کیا جائے اور ان کیلئے عمدہ تاویل تلاش کی جائے کیونکہ یہ معاملہ اجتہادی تھا اس میں حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی حق پر تھے کیونکہ انہوں نے اجتہاد کیا اور صحیح فیصلے پر پہنچے اور ماجور ہوئے ۔ جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے انہوں نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی پس وہ اس میں معذور ٹھہرے ۔ ان کی عزت و توقیر ضروری ہے نیز دیگر تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی بھی توقیر و محبت لازم ہے کیونکہ قرآن حکیم میں ان کی مدح و ثناء آئی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کی ہم نشینی اور صحبت کی وجہ سے بھی ان کی تعظیم و توقیر واجب ہے ۔ پس تحقیق رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، تحقیق اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی ۔ 

حوالہ درج ذیل ہے 
 القوانين الفقهية ، لامام محمد بن احمد بن جُزَيّ الغرناطى المالكى ، تحت " الباب الثامن في الإمامة ، ص 39 تا 40 ، مطبوعة دار ابن حزم ، طبع اول ١٤٣٤ه‍/٢٠١٣ء 

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1840748271_2021-06-0715_04_13.png.2f4c4ea42cdcb9d05ca345e8972212cc.png

1676642032_2021-06-0715_05_08.png.cb8ef0d1798b23e0dad5e34c9f3d2eb5.png

اس میں روافض کا رد ہے وہ اپنی بدگمانی و بد اعتقادی کے سبب اہل سنت کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں ۔ یہ اُن کی بد گمانی ہے اہل حق ( یعنی اہل سنت ) تمام صحابہ اور تمام اہل بیت کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ خوارج کی طرح نہیں ہیں جو اہل بیتِ نبوت کے دشمن ہیں اور روافض کی طرح بھی نہیں جو جمہور صحابہ کرام اور اکابر امت سے عداوت رکھتے ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب القريش و ذكر القبائل ، جلد 11 ص 135 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء 

1842305215_2021-06-0715_04_39.png.68aaf00df983cd0e787670ca5ba0305b.png

حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ عادل ، فاضل اور بہترین صحابہ میں سے تھے وہ جنگیں جو ان کے درمیان ہوئیں ان میں سے ہر ایک گروہ شبہہ پر تھا جس کے سبب وہ اپنے آپ کو صواب پر ہونے کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ اور یہ تمام اپنی جنگوں میں تاویل کرنے والے تھے اس سبب ان میں سے کوئی عدالت سے خارج نہیں ہوا اس لیے کہ یہ تمام مجتہد تھے ۔ اور انہوں نے مسائل میں اختلاف کیا جیسا کہ ان کے بعد آنے والے مجتہدین نے مسائل میں اختلاف کیا ۔ اور ان میں سے کسی کے حق میں بھی اس سبب سے تنقیص کرنا لازم نہیں آتا ۔

حوالہ درج ذیل ہے
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة رضي الله عنهم ، جلد 11 ص 151 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء 

154456040_401px-______.jpg.26bdf1b81f13db64fc2cc64a2d5fd71f.jpg

1742695272_2021-06-0715_01_13.png.672ef59e7e1b9e43c3f58e43ca0393c9.png

1100806437_2021-06-0715_00_51.png.9ad121372c6ce51964efeeaa15c96fbe.png

بہر حال صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی مدد نہ کرنا آپ کے ساتھ جنگ پر نکلنے سے رکنا اور ان میں سے ایک گروہ کا آپ رضی الله عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا جو واقعہ پیش آیا ۔ جیسا کہ جنگ جمل و صفین تو یہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی خلافت کی عدم صحت پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی حکومت میں آپ سے مخالفت کرنے والوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ نزاع حقیقتاً حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ ان کے اجتہاد کی وجہ سے تھا جیسا کہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینے پر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ پر انکار کیا ۔ بلکہ ان میں سے بعض نے تو یہ گمان کیا کہ آپ رضی الله عنہ قتلِ عثمان کی طرف مائل تھے ۔ اور معتمد قول کے مطابق اجتہاد میں خطا کرنے والے کی نہ تضلیل کی جاتی ہے نہ تسفیق کی جاتی ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 

 منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 191 تا 192 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء

384994181_2021-06-0715_00_26.png.cfadee6d8485438afa09b4d560aed403.png

ہم رسول الله ﷺ کے ہر ایک صحابی کا ذکر خیر کیساتھ ہی کرتے ہیں ۔ یعنی اگرچہ ان میں سے بعض سے بعض سے وہ کام صادر ہوئے جو صورتا شر ہیں ، کیونکہ یہ امور ان سے اجتہاد کی بنیاد پر صادر ہوئے نہ کہ اصرار و عناد کے سبب فساد کی وجہ سے ۔ ان سے حسن ظن کی بنیاد پر ان تمام کا مقصود بہترین انجام کی طرف تھا

حوالہ درج ذیل ہے 
 منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 209 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء 

 

1862583382_2021-06-0715_03_01.png.25c2b40ac51440d231ca6c13cf9f1a44.png

1369597958_2021-06-0715_03_45.png.199cbfc534a528bd0eb9694852c02e1b.png

جو صحابہ کرام رضی الله عنہم میں کسی کو بھی برا کہتے وہ بلاجماع فاسق ، بدعتی ہے جب کہ اس کا اعتقاد یہ ہو کہ برا کہنا مباح ہے ۔ 

حوالہ درج ذیل ہے 
شم العوارض فى ذم الروافض ، للملا على بن سلطان بن القارى ، تحت " مسألة من اعتقد ان سب الصحابة مباح فهو كافر ، ص 28 ، مطبوعة مركز الفرقان ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء 

345132567_2021-06-0715_02_05.png.117df618397d3b03962f247224993330.png

1544737572_2021-06-0715_02_28.png.a28431bd06aff8677b5f01e4128df398.png

 

وہ احادیث بھی جن میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ، حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ اور بنی امیہ کی مزمت اور منصور و سفاح کی تعریف پائی جاتی ہے اور اسی طرح یزید ، ولید اور مروان بن حکم کی مزمت پائی جاتی ہے وہ بھی موضوعات میں سے ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
الاسرار المرفوعة و اخبار الموضوعة ، للملا على بن سلطان بن القارى ، فصول في الأدلة على وضع الحديث ، تحت " أحاديث الفضائل و المثالب ، ص 455 ، مطبوعة المكتب الاسلامي ، طبع ثانى ١٤٠٦ه‍/١٩٨٦ء 

 


 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

725359706_2021-06-0715_45_59.png.9b214cac785c814fc6933a6faec6fba8.png

446072090_2021-06-0715_46_42.png.ae29ef0e2a353b40284496aa3a367882.png

1958071806_2021-06-0715_47_14.png.6e19eaeafb1a8eabaa493f7f0cdc11a9.png

392795140_2021-06-0715_47_41.png.2bb956260d7701b92921f7d7b3212865.png

1169161772_2021-06-0715_48_09.png.a34869319815b91686513a2bbc1b8d9a.png

77569372_2021-06-0715_48_40.png.0b8e8f3ff16d14433a282ceb73efda42.png

 

2091160371_2021-06-0716_00_28.png.c6046eca3a904e1f3913b93747a82cec.png

1805101366_2021-06-0715_55_49.png.7bd51b0105c8c2124ebf466180239029.png

123883878_2021-06-0715_56_12.png.f3d431ec62182292266a3182049bc9fd.png

468370495_2021-06-0715_56_37.png.899d2e7ae38825f7d98a7e2eada151da.png

1852695186_2021-06-0715_56_58.png.46b262e73eb9481348c7d80aacd98f87.png

857894187_2021-06-0715_57_20.png.8c76c3ceeaffbb899e261b26d4daf67c.png

 

2013544899_2021-06-0715_57_48.png.d1ba655d47542f6765a9babb1688b2ae.png

1464819692_2021-06-0715_58_13.png.1e669ba008743980fba998a56f35724c.png

2066107488_2021-06-0715_58_35.png.e3863db7146a613c3bf1083c1cc60f66.png

1438810367_2021-06-0715_58_58.png.48588747b064dc5d5cceacbd0979317a.png

260982116_2021-06-0715_59_18.png.4ae30a5e86a03ac93f133fbb9ccb5be1.png

870231177_2021-06-0716_00_02.png.ae0ce57ad1b1a4617ab5443d7c5641f3.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائی الطبری الشافعى رحمة الله علیہ متوفٰی٤١٨ه‍ 

انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ۔ میں نے کہا : یا رسول الله ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری ( جہاز ) پر سوار تھے ، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں ، میں نے کہا : الله تعالی سے دعا فرما دیجئیے کہ الله تعالی مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے ، آپ نے فرمایا : تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو ، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی ، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ الله تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو ۔ آپ نے فرمایا : تم ( سوار ہونے والوں کے ) پہلے دستے میں ہو گی ۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا ، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی ( اور ان کا انتقال ہو گیا ) ۔ 
 

یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سعید بن عمرو بن سعید بن عاص کو بیان کرتے سنا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ پانی کا برتن لے کر رسول الله ﷺ کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے ، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد حضرت امیر معاویہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول الله ﷺ آپ کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا : اے معاویہ! اگر تو والئ حکومت بنا تو الله سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ فرماتے ہیں کہ میں جان گیا کہ میں آزمایا جاؤں گا رسول الله ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے ۔

 

عبد الله بن بسر سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے میرے گھر میں حضرت ابو بکر اور  حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما سے مشورہ طلب کیا ۔ تو انہوں نے عرض کیا الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معاویہ ( رضی الله عنہ ) کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اس سے حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کو خفگی ہوئی ۔ انہوں نے عرض کیا : یہ لوگ رسول ﷺ  کا جو حکم پاتے ہیں کیا رسول الله ﷺ اور قریش کے ان   بزرگوں میں اس کا نمونہ نہیں پاتے ۔ تو رسول الله ﷺ نے فرمایا : معاویہ کو بلا لاؤ ۔چنانچہ جب معاویہ آئے اور حضور ﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ فرمایا : اپنا معاملہ معاویہ ( رضی الله عنہ ) کے سپرد کرو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے

 

حضرت حارث بن زیاد رضی الله عنہ جو کہ رسول الله ﷺ کے صحابی ہیں ان سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا

 

حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ المزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے سعید کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے نبی کریم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو ہادی ( یعنی ہدایت والا ) اور مہدی ( یعنی ہدایت یافتہ بنا ) اس کو ہدایت عطا فرما اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔
 

جبلہ بن سحیم روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سردار کوئی نہیں دیکھا ۔ 

 

امام جعفر صادق بن امام محمد باقر اپنے والد گرامی رضی الله عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی الله عنہما حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے عطیے قبول فرماتے تھے ۔
 

 

مصعب زبیری سے مروی ہے ۔ دراوردی نے ہم سے بیان کیا کہ جعفر بن محمد رحمة الله علیہ آئے اور بارگاہِ رسالت ﷺ میں سلام پیش کیا پھر تعریف کرنے کرنے کے بعد حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما پر سلام کیا پھر مجھے حالت تعجب میں دیکھ کر فرمایا : مجھے اچھا لگا ( یعنی مجھے اس سے خوشی ہوئی ) راوی بیان کرتے ہیں پھر فرمایا : بخدا یہ دین ہے جس پر میں عمل پیرا ہوں بخدا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بددعا کرتے ہوئے کہوں کہ الله اسے رسوا کرے یا اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے ۔ اور ( مجھے اس کے بدلے ) دنیا ملے

 

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : تم قریش سے محبت کرو بیشک جس نے ان سے محبت رکھی الله تعالی اس سے محبت فرمائے گا ۔

 

ریاح بن جراح الموصلی سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو حضرت معافی بن عمران رحمة الله عليہ سے سوال کرتے ہوئے سنا عرض کیا : اے ابو مسعود! امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليہ کے مقابلے میں کیسے ہیں؟ اس کی یہ بات سن کر آپ رحمة الله عليہ کو اتنہائی شدید غصہ آیا اور فرمایا : رسول الله ﷺ کے کسی صحابی پر کسی ( غیر صحابی ) کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول الله ﷺ کے صحابی ، سسرالی رشتہ آپ ﷺ کے کاتب اور وحی الہی  پر آپ ﷺ کے امین ہیں بے شک رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے اصحاب اور میرے سسرال والوں سے درگزر کرو ۔ جس نے ان میں سے کسی کی بھی بدگوئی کی اس پر الله تعالی اس کے فرشتوں اور تمام دنیا کے انسانوں کی لعنت ہو

 

عبد الملک بن عبد الحمید المیمونی رحمة الله عليہ فرماتے  ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمة الله عليہ سے عرض کی کہ : کیا نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : " ہر سسرالی و نسبی رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جاۓ گا مگر میرا سسرالی و نسبی رشتہ ( منقطع نہیں ہوگا ) ؟ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : کیوں نہیں ، ایسا ہی ہے . عبد الملک بن عبد الحمید فرماتے ہیں میں نے عرض کی : کیا یہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ہے ؟ آپ رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہاں ، ( حضور کے سسرال و نسب کے لیے ہے ) 

 

ابو علی الحسین بن خلیل العنزی سے  مروی ہے میں لکھاریوں کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا تھا ۔ انہوں معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ پر تنقید کی تو میں غصے سے کھڑا ہو گیا جب رات ہوئی تو خواب میں سرکارٍ کائنات ﷺ کو دیکھا ۔ آپ فرما رہے تھے : تم ام حبیبہ! کا مقام میرے ہاں جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا : ہاں یا رسول الله ﷺ  ۔ فرمایا : جس نے ام حبیبہ ( رضی الله عنہا ) کو اسکے بھائی کے بارے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔
 

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔

 

جعفر بن برقان سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیر کرنے پر عتاب کرتے ہوئے لکھا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا : بھلائی کے کام میں غور و فکر سے کام لینا زیادتی اور راست روی کا باعث ہے ۔ دراصل راشد اور راست رو وہی ہے جو عجلت کی بجائے معاملہ فہمی اختیار کرتا ہے اور مضبوطی سے قدم رکھنے والا حق تک پہنچ جاتا ہے یا اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ اور عجلت باز خطا کرتا ہے یا قریب ہے کہ خطا میں مبتلا ہو ۔ جس شخص کو نرمی فائدہ نہ دے اسے بے عقلی نقصان دیتی ہے جسے تجربات فائدہ نہ دیں وہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتا ۔ اور نصب العین تک نہیں پہنچتا ۔ یہاں تک کہ اس کی جہالت اس کے علم پر اور اس کی شہوت پر غالب آ جاتی ہے وہ مقاصد تک صرف حلم سے پہنچ سکتا ہے ۔

 

امام شعبی رحمة الله علیہ کا ارشاد مروی ہے کہ زیرک مدبر چار آدمی ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے اور حلم میں ، حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ مدبر ہونے اور جنگی حکمت عملی میں ۔ حضرت مغیرہ رضی الله عنہ سخت اور پیچیدہ معاملات کے حل میں ۔

حوالہ درج ذیل ہے


كاشف الغمة فى شرح اعتقاد أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت باب ذكر فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، ص 453 تا 457 ، مطبوعة مكتبة الطبري للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٣٠ه‍/٢٠٠٩ء 

 

شرح اصول اعتقاد اھل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت " ما روي عن النبي ﷺ في فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، جلد 8 ص 1524 تا 1534 ، مطبوعة دار الطيبة

 


 

 

 



 

 

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1758759370_2021-06-0811_00_59.png.9885e24a0735f1196cb9e9ae2f5d8d0a.png

179527083_2021-06-0811_01_32.png.78549281f371fbd4f9ffbabbe1f75a17.png

1569557220_2021-06-0811_04_52.png.491638a019b48a571c979b11b2dec5d1.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو طالب محمد بن علی بن عطیہ المکی الحارثی رحمة الله علیہ متوفٰی۳٨٦ھ

 

حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کا عبید الله بن موسی عبسی کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا پھر آپ کو اس کا بدعتی ہونا معلوم ہوا مثلاً آپ سے عرض کی گئی کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے افضل مانتا ہے اور یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا تذکرہ غیر موزوں الفاظ میں کیا تو امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ نے اس کے پاس نہ صرف آنا جانا چھوڑ دیا بلکہ اس سے جتنی احادیث حاصل کی تھیں سارہ مسوّدہ چاک کر دیا اور اس سے کوئی حدیث روایت نہ کی ۔ 

حوالہ درج ذیل ہے 
 قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الحادي و الثلاثون : فيه كتاب العلم و تفضيله ، و أوصاف العلماء ، تحت " ذكر تفصيل العلوم : معروفها و منكرها ، قديمها و محدثها ، جلد 1 ص 463 تا 464 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء 

 

 

1120734757_2021-06-0811_19_13.png.fea21caeede131f4e8cea021c23719a9.png

1386407394_2021-06-0811_19_34.png.7d07844ef819fb7a26e87dbbdc99ff84.png

1992559336_2021-06-0811_19_58.png.26eb1561c60ae93ab9e6e50ac3423b6a.png

 

ہم اصحاب رسول ﷺ اور اہل بیتِ نبوت رضی الله عنہم و رضوا عنه کافة کی تفضیل کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کے بارے خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ اور دلوں میں الفت پیدا کرنے کیلئے ان کے فضائل و محاسن پھیلاتے اور عام کرتے ہیں ۔ اور ان میں سے جس نے جو کیا اسی کے سپرد کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ علم و عقل رکھتے تھے پس ہر ایک نے اپنے علم و منتہائے عقل کے مطابق  اپنے اجتہاد کی روشنی میں عمل کیا ۔ اگرچہ ان میں سے بعض بعض سے علم میں زیادہ تھے جیسے بعض دوسروں سے زیادہ فضیلت رکھتے تھے البتہ ہمارے علوم اور ہماری عقلیں ان کے ادنیٰ صحابی سے بھی علم کے لحاظ سے کمزور اور قاصر ہیں ۔ جیسے انہیں دینی سبقتوں میں ہم پر فضیلت حاصل ہے ۔ اور ہم ان کو مقدم جانتے ہیں جن کو الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے تقدیم دی ہے ۔ اور تمام مسلمانوں نے اس پر اجماع کر لیا جن کو الله تعالی نے ہدایت پر جمع کرنے کی ذمہ داری لی اور رسول الله ﷺ کو صحابہ کی تفضیل و تشریف ضمانت دی اور یہ کہ ان کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا ۔ جب حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم سے سوال ہوا کہ ہم پر خلیفہ کیوں مقرر نہیں کرتے ؟ تو فرمایا : میں تم پر خلیفہ نہ بناوؑں گا بلکہ تمہیں الله تعالی کے سپرد کرتا ہوں اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے گا تو نبی اکرم ﷺ کے بعد تم کو بھلائی پر جمع فرما دے گا ۔ ابراھیم نخغی کہتے ہیں کہ جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے خلافت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے سپرد فرمائی تو اس سال کا نام جماعت کا سال رکھا گیا ۔ اور ایک شخص نے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے کہا : اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا : بلکہ میں مومنوں کو عزت دینے والا ہوں میں نے اپنے باپ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم معاويہ ( رضی الله عنہ ) کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ میرے بعد آزمائش میں ڈالے جائیں گے اور اگر تم نے معاويہ ( رضی الله عنہ ) کی حکومت کو کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سروں کو اس طرح سینوں سے کاٹا جائے گا جیسے حنظل گرتی ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الرابع و الثلاثون : فى تفضيل الإسلام و الإيمان و عقود شرح معاملة القلب من مذهب أهل الجماعة ، جلد 3 ص 1271 تا 1272 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء ) 

 

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

1567168035_2021-06-0915_00_41.png.50a7f46cc20e5faa131373ddb294f3a8.png

1648119383_2021-06-0915_01_25.png.1adc904ad16b1bfd362f528be87e36b9.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو الحسن على بن بسام الشنترينى رحمة الله علیہ متوفٰی۵٤٢ھ

 صلح امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے بعد ) تمام مسلمانوں کا کاتبِ وحی ، صہر مصطفٰے ﷺ ( یعنی خسر رسول ﷺ ) ردیفِ حضور ﷺ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما پر اجماع و اتفاق ہو گیا ۔ پس وہ ضبط امورِ خلافت ، نرمئ حکومت و ولایت جہاد کفار اخذ و وصول غیمت و فئ  ، قیام عدل اور بخشش اموال کے اس مقام تک پہنچے جو کسی مسلمان یا ذمی کافر سے پوشیدہ نہیں

حوالہ درج ذیل ہے

الذخيرة فى محاسن أهل الجزيرة ، لامام ابى الحسن على بن بسام الشنترينى ، تحت " فصل في ذكر وزير الكاتب ابى حفص بن برد الاكبر و اثبات جملة … ، القسم الاول جلد 1 ص 110 ، مطبوعة دار الثقافة بيروت ، طبع ١٤١٧ه‍/١٩٩٧ء 

 

1506734992_2021-06-0915_10_17.png.c200a3192d445fab36922fc71158ab1d.png

383008948_2021-06-0915_09_50.png.b4c32fd133dc7de24f8725a6cafd1c60.png

يعنى امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے حین حیاة حکومت کا معاملہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو سونپا اور حکومت سے کنارہ کش ہو گئے اور ابن ابی سفیان یعنی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے عدل و احسان  کے چلن سے کاروبار حکومت چلایا ۔ وہ عقل و دانش اور حلم یعنی بردباری میں یکتا اور  بے نظیر تھے ۔ یہاں تک کہ موت نے ان کی طرف پیکان اجل پھینکا ۔ یعنی دم واپسین تک وہ ان صفات سے متصف رہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے

الذخيرة فى محاسن أهل الجزيرة ، لامام ابى الحسن على بن بسام الشنترينى ، فصل في ذكر الأديب أبي طالب عبد الجبار ، تحت " الخلفاء الأربعة و من تلاهم من بني أمية ، القسم الاول جلد 2 ص 930 ، مطبوعة دار الثقافة بيروت ، طبع ١٤١٧ه‍/١٩٩٧ء 

 

Link to comment
Share on other sites

  • محمد حسن عطاری changed the title to فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ - قسط نمبر 12
مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1468246121_2021-06-1009_34_14.png.0338f4d3836b52564941837a92c18037.png

1577613455_2021-06-1009_14_31.png.eff627bf5037f333e421795fbedbead1.png

 

ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہ سے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو

حوالہ درج ذیل ہے 

حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، ص22

از ابی بکر عبداللہ بن محمد بن عبید بن سفیان رحمتہ اللہ علیہ متوفی 781ھ

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

1227740192_(1)_0000.jpg.8c32a3f57f452291a6277adcb510a8b4.jpg

1313276207_(1)_0001.jpg.669e7c55ff1201721eb355589a414193.jpg

395039417_(1)_0178.jpg.46dde1a54a219592d740cf9676a4387a.jpg

1494132766_(1)_0179.jpg.69df7bd0074618350aaab95bd7fbacc4.jpg

 حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔

بحوالہ 

حلیۃ الاولیاء،ج1،ص126مختصراً

حلیتہ الاولیاء مترجم بنام اللہ والوں کی باتیں  ج1 ص174  تا 175

Link to comment
Share on other sites

903513909__0000.jpg.660a08298cf7a0d5eaf57da611f14eae.jpg

1427199482__0107.jpg.9dfe951a4b29ff76be2e269cb87a3dab.jpg

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1034ھ

امام ربّانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں

 امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبت اہلسنت و جماعت کی شرط ہے اور جو شخص یہ محبت نہیں رکھتا اہلسنت سے خارج ہے، اس کا نام خارجی ہے اور جس شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبت میں افراط کی طرف کو اختیار کیا اور جس قدر کہ محبت مناسب ہے،اس سے زیادہ اس سے وقوع میں آتی ہے، اور محبت میں غلو کرتا ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلاۃ و السلام کے اصحاب کو سب و طعن کرتا ہے اور صحابہ و تابعین اور سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریق کے برخلاف چلتا ہے وہ رافضی ہے

 بحوالہ 

مکتوبات امام ربانی اردو ترجمہ دفتر 2 صفحہ 104 ادارہ مجددیہ کراچی

Link to comment
Share on other sites

1280004846_2021-06-1109_04_13.png.54476effe1ddbc762840d94fb17fb050.png

389167448_2021-06-1109_04_39.png.0f11f0db2396512fed944ddaa203c6aa.png

 


عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محی الدین ابو زکریا احمد بن ابراهيم ابن النحاس الدمشقی رحمة الله علیہ  متوفٰی٨١٤ھ 

کئی ائمہ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جو شخص ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کو سب و شتم کرے وہ کافر ہے ۔البتہ شیخین ( حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق ) رضی الله عنہما کو گالی دینے والے کی تکفیر کے بارے علماء کا اختلاف ہے ۔ اسی طرح دیگر اصحاب رسول ﷺ پر لعن طعن کرنے والے کے بارے اختلاف یے ۔ اس مسئلہ میں اقوال ائمہ بہت ہیں ۔ ان اقوال کا حاصل یہ ہے کہ ساب یعنی گالی دینے والے کا معاملہ ارتکابِ کفر اور ارتکابِ گناہ کبیرہ کے درمیان دائر ہے ۔ ہم الله تعالی سے اس کی ناراضگی کے اسباب اور موجبات عذاب سے حفاظت کے طلبگار ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
تنبيه الغافلين عن اعمال الجاهلين ، لامام محی الدین ابی زکریا احمد بن إبراهيم ابن النحاس الدمشقي ، الباب الخامس : في ذكر جملة من الكبائر و الصغائر ، تحت " سب الصحابة رضي الله عنهم ، ص 163 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٠٧ه‍/١٩٨٧ء 


Link to comment
Share on other sites

483374856_2021-06-1215_46_06.png.409ef05a94c4466737217d82f4e300e8.png

1447496681_2021-06-1215_46_29.png.9a6f0d385a508f20ffc53a16fb8a4ed8.png

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو العباس احمد بن محمد بن احمد المقری التلسمانی المالكى رحمة الله علیہ متوفٰی١٠٤١ھ

 

ان میں سے کسی ( بدبخت ) نے شعر پڑھا 
 *فلا تعجبا من عوى خلف ذي علا … لكل علي في الأنام معاويه* 

میں کہتا ہوں : اس شعر میں صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے ساتھ بے ادبی کا جو معاملہ ہے وہ پوشیدہ نہیں ۔ الله تعالی اس اندلسی شاعر پر رحم فرمائے کہ اس نے رجز کبیر میں کہا ۔

من یکن ۔۔ جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی الله  عنہ کے بارے قدح کرے ۔ وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک بھونکنے والا کتا ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 نفح الطيب من غصن الاندلس الرطيب ، لامام ابى العباس احمد بن محمد بن احمد المقري التلمساني المالكى ، الباب الخامس ، تحت " احمد بن صابر القيسى ، جلد 2 ص 655 ، رقم : 291 ، مطبوعة دار صادر بيروت 

Link to comment
Share on other sites

1811332197_2021-06-1311_20_20.png.17602aeb4d1579658f2f4dec04ef212b.png

919556211_2021-06-1311_12_56.png.6019a2681e85e1222cb8f50b4c867ca2.png

853589906_2021-06-1311_13_16.png.cfd29efaf1bcc9d9fe62c4282f65843f.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام جمال الدين ابو اسحاق ابراھیم بن على بن يوسف فیروز آبادی الشیرازی الشافعى رحمة الله علیہ  متوفٰی٤٧٦ھ

یہ سلف کے بارے بہت بڑا بول ہے ( یعنی طعن ہے ) ان معترضین کے فساد قول کی دلیل ائمہ کا یہ ارشاد ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عدالت ثابت اور نزاھت (طہارت نفسی ) معلوم و معروف ہے ۔ اس لئے ان کی عدالت و نزاہت زائل نہیں ہو سکتی سوائے قطعی دلیل کے ۔ اور اس لئے بھی کہ ان سے کوئی ( مانع عدالت اور ) قابل اعتماد معصیت ظاہر نہ ہوئی ۔ بلاشبہ ان میں جنگیں ہوئیں جن میں وہ متاولین تھے ( یعنی ان کی جنگیں تاویل پر مبنی  تھیں ) اسی بناء پر خیار صحابہ و تابعین کی بڑی تعداد حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس لڑائی سے کنارہ کش رہی ۔ اور جب انہیں شبہ لاحق ہوا تو حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کی معیت میں لڑنے سے معذرت کر لی جیسے  حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عبد الله بن عمر ، حضرت ابن مسعود کے ساتھی اور دیگر صحابہ رضی الله عنہم  ۔ حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ ان کی گواہی قبول کرنے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے اس لئے جائز نہیں کہ ان کی عدالت میں قدح  کی جائے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 اللمع فى اصول الفقه ، لامام أبى إسحاق إبراهيم بن على الفيروز اباذي الشيرازي ، تحت " باب القول في الجرح و التعديل ، ص 206 تا 207 ، مطبوعة مكتبة نظام يعقوبى الخاصة البحرين ، طبع اول ١٤٣٤ه‍/٢٠١٣ء 

Link to comment
Share on other sites

267311444_AhkameShariyyatComplete_0000.jpg.409eeb292ff9d8b7823f321d4b2f798f.jpg

332621291_AhkameShariyyatComplete_0119.jpg.5e0ac82b2868511b690a5e23a9833c12.jpg

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ متوفی 1340ھ

جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے

بحوالہ

احکام شریعت  صفحہ 118 مطبوعہ نظامیہ کتاب گھر لاہور 

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

Guest
مزید جوابات کیلئے یہ ٹاپک بند کر دیا گیا ہے
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا

×
×
  • Create New...