Jump to content

فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


محمد حسن عطاری

تجویز کردہ جواب

59_0000.jpg.882b36b4ccc3a7fb6c6066de94c52be6.jpg

543018609_2021-06-1314_17_36.png.fb1d6e97207b7b5f121648eeb4f93a78.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

میرے بعد  گروہ بندی سے بچنا اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھو کے امیر معاویہ شام میں ہوں گے( یعنی اگر تم نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے

ابن عساکر جلد 59 صفحہ 124

 

Link to comment
Share on other sites

  • جوابات 101
  • Created
  • Last Reply

Top Posters In This Topic

  • محمد حسن عطاری

    102

1466020473_2021-06-1316_43_12.png.ec6a8893c94e69fecb2f761b21806139.png

 

فاتح مصر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا 

ابن عساکر جلد 59 صفحہ 161

Link to comment
Share on other sites

A66aba9at_06_0000.jpg.7c800078a3efbb42ae37c0f85a6f1353.jpg

1869112791_2021-06-1411_12_58.png.65d9ac6d7e2172ba5ea9981efc420ebf.png

 

حضرت سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

جیسی حکمرانی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کی ہے ویسی حکومت اس امت کا کوئی فرد نہیں کرے گا 

طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ نمبر 20

Link to comment
Share on other sites

387117082_2021-06-1415_09_15.png.bbe29a0a6ce90aead2ad650edc4b1770.png

1903540471_2021-06-1415_09_36.png.34b32503df608a34d8ef26c6d96360fb.png

 

حضرت سیدنا عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

جس نے صحابہ اکرام علیھم الرضوان کی عزت پر حملہ کیا یقینا اس نے اپنے ایمان پر حملہ کیا  اسی لیے اس کا سدباب لازم ہے خاص طور پر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ زیادہ اہم ہے

الیواقیت والجواہر صفحہ 445

Link to comment
Share on other sites

364927845_2021-06-1415_43_14.png.4702f3b18865143307f2100612de5e39.png

1772720849_2021-06-1415_55_43.png.75e859cae5203bc5c731925ffb268bff.png

 

حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا 

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب زیادہ حلیم و بردبار تھے 

السنتہ الخلال صفحہ 443 رقم 681

478791147_2021-06-1415_50_28.png.274660f15d42b1bc22e02bfb3c93a44b.png

حضرت سیدنا مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

اگر تم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہی مہدی یعنی ہدایت یافتہ ہیں 

السنتہ الخلال صفحہ 438 رقم 669

714020012_2021-06-1415_48_00.png.daff46d71e9d97482836893467cfced7.png

امام عمش رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے عدل و انصاف کا تذکرہ ہوا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کاش اپ لوگ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے

السنتہ الخلال صفحہ437 رقم 667

603482018_2021-06-1415_44_18.png.cdbab47bcf6ee83ab1df398ad30cb1ae.png

ایک دفعہ امام احمد بن حنبل رحتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے عرض کی اے ابو عبداللہ میرا ماموں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بدگوئی کرتا ہے بعض اوقات مجھے اس کے ساتھ کھانا پڑتا ہے ؟ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فورا ارشاد فرمایا اس کے ساتھ کھانا مت کھایا کرو

السنتہ الخلال صفحہ 448 رقم693

351887809_2021-06-1415_43_41.png.5b5443cc8a638fc0287e870404bbc488.png

حضرت معافی بن عمران رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل ہیں

السنتہ الخلال صفحہ 435 رقم 664

Link to comment
Share on other sites

972003989_2021-06-1522_11_04.png.285b809bdc690e673ca19ea1df2fb97c.png

124421385_2021-06-1522_10_39.png.48963a64d77cca08aa99890cd7b64d6f.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ادریس بن عبد الرحمن الصنهاجى القرافی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٨٤ھ

اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ یا کسی دوسرے صحابی کو گالی دے ( تو اس کے حکم میں  تفصیل ہے ) اگر انہیں گمراہی اور کفر کی طرف منسوب کرے تو واجب القتل ہے یا عوامی حماقتوں میں سے کسی حماقت کا اظہار کرے تو اسے سخت سزا دی جائے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
الذخيرة فى فروع المالكية ، لامام شهاب الدين ابى العباس احمد بن ادريس بن عبد الرحمن القرافى المالكى ، تحت " كتاب الجنايات ، جلد 9 ص 320 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء 

Link to comment
Share on other sites

1748233135_2021-06-1522_21_30.png.ae359c45199c39c2ceae575c4a3682a1.png

1748839063_2021-06-1522_21_56.png.803a4aeba80764f31dfb52da696a002f.png

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعانى الشافعی رحمة الله علیہ  متوفٰی٤٨٩ه‍

یہ بات حاشیہ ادراک میں رکھ لیجئے کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم عدول ہے ( یعنی اہل عدالت ہیں ) اور ان سب کی روایت بلا تخصیص قبول کرنا واجب ہے معتزلہ کا مذہب ہے کہ صحابہ میں فاسقوں کا گروہ تھا اور ان میں سے کثیر نے فسق کیا اور یہ وہ اصحاب جنہوں نے حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ سے جنگ کی خصوصاً حضرت امیر معاویہ ، حضرت عمرو بن العاص اور دیگر صحابہ و تابعین میں سے جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے اور بعض فوت ہوئے ، ( ان میں ) حضرت ابو طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی الله عنہم اجمعین ( بھی شامل تھے ) ان میں سے  کثیر معتزلہ نے دعویٰ کیا کہ ان صحابہ نے فسق کیا اور پھر تائب ہوئے ۔ معتزلہ کہتے ہیں : ہمیں ان تین کی توبہ کا علم ہے مگر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ کا علم نہیں  ۔ ہم الله تعالی کی بارگاہ میں معتزلہ کے اس قول سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم کے ساتھ تاویل کی بناء پر قتال کیا کیونکہ امامِ حق حضرت عثمان رضی الله عنہ کو ناحق شہید کیا گیا ۔ اور قاتلین حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ کے اعوان و انصار تھے اور سب ان کے ساتھ تھے اور اس کے ساتھ یہ دعوی بھی ہے کہ حق حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا لیکن ہم ان لوگوں کو فاسق نہیں کہتے کیونکہ وہ اس معاملے میں تاویل کرنے والے تھے ۔ اس لیے بھی ان کی تفسیق نہیں کرتے کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عدالت قطعی ہے اس لئے دلیل قطعی کے بغیر ان سے عدالت زائل نہ ہو گی ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
قواطع الأدلة في الأصول ، لامام ابى المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعاني الشافعی ، تحت " احوال الراوى و الشرائط المعتبرة فيه ، جلد 1 ص 343 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤١٨ه‍/١٩٩٧ء 

 

Link to comment
Share on other sites

654370251_2021-06-1610_08_22.png.a277d9b97bc9306098b6b47ec2ea6ad5.png

2032079361_2021-06-1610_08_54.png.2b8a6182cfd73502a6093c47831dfa36.png

384757632_2021-06-1610_10_36.png.9de821d047f05b1fcc9ddc2fc61550cc.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذهبی رحمة الله علیہ  متوفٰی۷٤٨ھ

پس جب تمام اہل ایمان کا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر اجماع و اتفاق ہو گیا اور سیدنا امام حسن بن علی رضی الله عنہما نے امر خلافت سے نزول فرمایا تو اس سال کو عام الجماعة ( یعنی مسلمانوں کے اجماع و اتحاد ) کا نام دیا گیا اور ساری امت ایک شخص پر متفق ہو گئی ۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ اس سال مملکت اسلامیہ میں موجود تمام لوگوں نے افضل شخص کی موجودگی میں مفضول کی خلافت کو جائز سمجھا ۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی بیعت کی حالانکہ وہ بالیقین ان سے افضل تھے ۔ جیسے حضرت سعد ، حضرت ابن عمر ، حضرت حسن اور متعدد اصحاب بدر و حدیبیہ رضی الله عنہم اجمعین ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیا تھے؟ بشری کمزوریوں کے باوجود ( بخدا ) وہ منصبِ امارت کے قابل صاحبِ شرف و ھیبت ، صاحبِ حلم ، بہت سخی ، بڑی خوبیوں کے مالک تھے ۔ اسی بناء پر الله تعالی ان سے مسامحت فرما کر ان سے درگزر فرمائے گا ۔ اسلامی سلطنت کے پہلے بادشاہ تھے بہت زیرک اور دوراندیش ۔ مگر خلفائے راشدین کے مقام و مرتبے کو نہ پہنچے ۔ حاشا و کلا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 المقدمة الزهرا في إيضاح الإمامة الكبرى ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، ص 22 تا 23 ، مطبوعة دار الفرقان للنشر و التوزيع القاهرة ، طبع اول ١٤٢٩ه‍/٢٠٠٨ء 

 

Link to comment
Share on other sites

1620931627_2021-06-1610_57_14.png.9c614d0790646204d33e8c18cebafb11.png

917175374_2021-06-1610_58_26.png.308b14abd4502a168c84163cd37f0ded.png

1343750398_2021-06-1610_58_50.png.5e333b5c08643de0b64aa2b29df2736f.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف كاتب جلبي و حاجي خليفة رحمة الله عليہ متوفٰى١٠٦٧ه

حضرت معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب رضی الله عنہ بمقام خیف میں پیدا ہوئے بنو امیہ میں سے تھے ان کی ماں کا نام حضرت ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس رضی الله عنہا تھا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ امیر المؤمنین تھے ان کا لقب " الناصر لدین الله " تھا ایک اور قول ہے لقب " الناصر لحق الله " تھا ۔ دوسرا لقب زیادہ مشہور ہے " مور اللطافة " میں اسی طرح ہے ۔ ان کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے اپنے باپ حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ سے پہلے مسلمان ہوئے ایک اور قول ہے وہ اپنے باپ کے ساتھ روز فتح مکہ مسلمان ہوئے ۔حنین کی لڑائی میں شامل ہوئے وہ مولفة القلوب میں سے تھے دراز قد گورے رنگ کے خوبصورت رعب دار شخص تھے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ انہیں دیکھتے تو فرماتے یہ عرب کے کسریٰ ہیں ۔ ان کی انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " وہ کاتبانِ وحی میں سے تھے نبی اکرم ﷺ سے ایک سو چھتیس احادیث روایت کیں ۔ اور ان سے حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابو درداء حضرت جریر اور حضرت نعمان رضی الله عنہم وغیرھم نے روایت کیں ان کی فضیلت میں احادیث مروی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ جسے امام ترمذی نے اخراج کیا کہ حضور ﷺ نے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو ہادی مہدی بنا دے " مسند امام احمد میں ہے : اے الله! معاویہ کو کتاب و حساب کا علم دے اور اسے عذاب سے بچا ۔ "طبرانی معجم کبیر میں روایت کرتے ہیں : میں نے جب سے حضور ﷺ کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے انہیں حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ کے بعد سن 18 ہجری میں دمشق شام کے صوبے کا حاکم (گورنر) بنایا پھر وہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی خلافت کے بقیہ دور اور خلافت حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ میں متواتر بیس سال تک گورنر رہے خلافت حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ میں جب معزول کئے گئے تو ملک شام پر تغلب کیا اور روز تحکیم خلافت کی بیعت لی اہل شام نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی مگر اہل عراق نے اختلاف کیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن رضی الله عنہ نے سن 25 ربیع الاول 41 ھ میں خلافت سے دستبرداری کر کے ان سے صلح کر لی اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت جاری رہی یہاں تک کہ ماہ رجب سن 60 ھجری دمشق میں وصال ہوا ۔ اور باب جابیہ اور باب صغیر کے درمیان دفن ہوئے اٹھتر سال عمر پائی اور حکومت کی باگ ڈور اپنے بیٹے یزید کو سونپی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ خوش عیش تھے دین و حلم سے متصف تھے ان کے حلم کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 سلم الوصول الى طبقات الفحول ، لامام مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـكاتب جلبي ، تحت باب المیم ، جلد 3 ص 343 تا 344 ، رقم : 5017 ، مطبوعة منظمة المؤتمر الاسلامي مركز الابحاث للتاريخ و الافنون و الثقافة الاسلامية باستانبول 

Link to comment
Share on other sites

787229245_2021-06-1611_48_26.png.72b73ba63d63d910111017ed52233fb4.png421559286_2021-06-1611_49_50.png.5bf724c168e88b3417afc870a9e218e8.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام عبد الله بن مبارک المروزی رحمة الله علیہ  متوفٰی۱۸۱ھ

 

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔

باب الاخلاص و النية ، ص 95 ، رقم 199

579152840_2021-06-1611_49_18.png.aeb55ac8ffa13aa3fb768cd87b701033.png

 

عباس بن ذریع سے روایت ہے فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی طرف تحریر فرمایا : کہ جو شخص ایسا عمل کرتا ہے جس پر الله تعالی ناراض ہوتا ہے تو اس کی تعریف کرنے والے لوگ بھی مذمت اور بدگوئی کرنے لگ جاتے ہیں ۔

 باب الاخلاص و النية ، ص 95 ، رقم  200

531664658_2021-06-1611_48_50.png.85b891dc02fc23c6973f8727cb42ae37.png

مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص شفیا جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے ہاں جلاد تھا وہ آدمی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پاس آیا اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے حدیث سماعت کی ( کہ قیامت کے دن تین اشخاص سے پہلے حساب کتاب لیا جائے گا اور وہ اپنی فاسد نیات اور غلط ارادوں کی بنا پر اس میں محاسبہ میں نا کام رہیں گے ۔ ) حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا : ان لوگوں کیساتھ اس طرح محاسبہ و گرفت کا معاملہ کیا جائے گا تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ ( خشیت الہی کی وجہ سے ) پھر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر سخت گریہ طاری ہوگیا ۔ پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا : الله اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا ہے ۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ مَنْ كَانَ يُرِيد … الخ ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
كتاب الزهد و الرقائق ، لامام عبد الله بن المبارك المروزي ، تحت " باب ذم الرياء و العجب و غير ذلك ، ص 162 تا 163 ، رقم 469 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع ثانى ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء 

Link to comment
Share on other sites

418795044_2021-06-1612_09_43.png.aaf9649c126a2435386cba5d4473009f.png

1227403749_2021-06-1612_10_10.png.086836d72edc6ddd7dee1c5f2d50161f.png

1394311262_2021-06-1612_10_35.png.3c72e54c6d49ddf7703b0324e87589cf.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام موفق الدین ابو محمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامه المقدسى رحمة الله علیہ متوفی٦۲۰ھ 

 

نبی اکرم ﷺ کیلئے وحی کتابت کرنے والے اصحاب رضی اللہ عنہم حسب ذیل ہیں : حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت خالد ، حضرت ابان بن سعید بن عاص ، حضرت حنظلہ اسيدى ، حضرت عبد الله بن عبد الله بن ابی بن سلول ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ، حضرت عمرو بن عاص ، حضرت معاويہ بن سفیان ، حضرت جہیم بن صلت ، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ ، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہم ۔

 التبيين فى انساب القرشيين ، تسمية كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ص 74 تا 75 

 

2044975971_2021-06-1612_11_06.png.9cc95aff03e40b3f32d98bdaea38051a.png

1909072082_2021-06-1612_11_28.png.7c889eb4700df22d255beef4155f8138.png

233604672_2021-06-1612_11_51.png.5fddd7cae09a9a749e4869fc018a6ff3.png

 

معاویہ بن ابی سفیان ، کنیت ابو عبد الرحمن رضی الله عنہ ، فتح مکہ کے سال مشرف باسلام ہوئے نبی اکرم ﷺ کی طرف سے وحی ( و مراسلات ) کی کتابت کرتے تھے ان سے ان کا اپنا بیان مروی ہے کہ میں روز قضیہ ( بوقت صلح حدیبیہ )حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔ اور نبی اکرم ﷺ سے اس حال میں ملا کہ میں مسلمان تھا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے انہیں ان کے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ کی موت کے بعد شام کا گورنر بنایا - صالح بن الوجیہ کہتے 

ہیں یہ سنہ انیس ھجری کا واقعہ ہے ۔ ( قبل ازیں ) حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے غزوہ قیساریہ کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اہل قیساریہ سے لڑائی کی ۔ قیساریہ میں روم کے بطارقہ ( یعنی عیسائیوں کے مذہبی راہنما پیٹرکس ) تھے حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ نے ان سے کئی روز جہاد کیا ۔ قیساریہ میں ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بھی تھے پس وہاں اپنے نائب کی حیثیت سے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو کمان سونپی اور خود دمشق کو روانہ ہوئے پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ قیساریہ کے محاذ پر رہے یہاں تک کہ ماہ شوال سنہ انیس ہجری قیساریہ فتح ہوا ادھر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ اسی سال ماہ ذی الحج میں وصال فرما گئے اور ( وصال سے پہلے ) حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو اپنی عملداری میں اپنا نائب بنایا پس حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے شام کے اس تمام علاقے کا حاکم مقرر کیا جس پر ان کے بھائی حضرت یزید رضی الله عنہ کی عملداری تھی اور ایک ہزار دینار ماہانہ وظیفہ عطا کیا ۔دوسرے مورخین نے لکھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ دور عمر میں چار سال گورنر رہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے بھی انہیں بارہ سال تک اس منصب پر قائم رکھا 

جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے سفر شام میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا : معاویہ! عربوں کا کسری ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو ایک بڑے لاو لشکر ( پروٹوکول ) کے ساتھ ملے جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے قریب ہوئے تو پوچھا اچھا یہ لاو لشکر اور جلوس شاہانہ کے ساتھ تم ہو ؟ جواب دیا ہاں اے امیر المومنین! ، فرمایا : کیا یہ خبر مجھ تک صحیح پہنچی ہے کہ ارباب حاجات تمہارے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں ؟ عرض کیا : جی ایسا ہی ہے ۔ فرمایا : تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ عرض کیا ہم ایسی سرزمین میں ہیں جس میں جاسوسوں اور دشمنوں کی کثرت ہے پس ضروری ہے کہ ان کے سامنے شاہی وقار کا اظہار ہو جس سے ان پر رعب اور ھیبت طاری ہو اگر آپ حکم دیتے ہیں تو ایسا جاری رکھتے ہیں اور اگر منع فرماتے ہیں تو اسے موقوف کردیتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے فرمایا معاویہ! میں تم سے جو پوچھتا ہوں تم مجھے امتحان میں ڈال دیتے ہو ۔ ( یعنی وسیع فضاء میں جہاں سے بچ نکلنے کی گنجائش ہو ) تم نے جو کہا اگر وہ سچ ہے تو یہ ایک عقل مند  کی رائے ہے اور اگر یہ غلط بیانی ہے تو صاحب ادب کی چال ہے ۔ عرض کیا : امیر المومنین! پھر مجھے کچھ حکم دیجئے ۔ فرمایا : نہ حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔ پھر فرمایا : کیا خوبصورت بات اس جوان سے اس کے مقاصد کے بارے اس سے صادر ہوئی معاملات میں پڑنے اور ان سے نکلنے کے متعلق  بہترین رائے کے بارے ہم نے جو فیصلہ کرنا تھا کر دیا ۔ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی بارگاہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا تذکرہ کیا گیا ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا : " قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا ۔ 

حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سرداری والا کوئی نہیں دیکھا ۔ ان سے عرض کیا گیا : کیا حضرت ابو بکر ، حضرت عمر و حضرت عثمان و حضرت علی رضی الله عنہم بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے ؟ فرمایا : بلاشبہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے افضل و بہتر تھے ، لیکن حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ ان سب سے زیادہ سرداری والے تھے ۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول الله ﷺ کو دعا فرماتے ہوئے سنا : اے الله! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ ابن اسحاق رحمة الله علیہ کہتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بیس سال امیر ( گورنر ) اور بیس سال خلیفہ رہے ۔ پھر جب حضرت معاویہ کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو اپنے بیٹے سے کہا ۔ بیٹا! بے شک میں رسول الله ﷺ  کی رفاقت و صحبت میں رہا ۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے میں لوٹا لے کر پیچھے گیا ۔ تو آپ ﷺ نے مجھے اوڑھنے کو یہ کپڑا عطا فرمایا جو میرے جسم سے لگا ہے میں نے اسے روز وصال کیلئے چھپا کر رکھا نیز حضور اکرم ﷺ نے اپنے مبارک بالوں اور ناخنوں کے تراشوں سے لے کر مجھے نوازا وہ بھی میں اس روز کے لیے محفوظ کر کے رکھے پس جب میرا وصال ہو تو میرے کفن کے نیچے وہ قمیص پہنا دینا جو میری جلد کے ساتھ لگی ہو اور ان بالوں اور ناخن کے تراشوں کو لے کر میرے مونہہ آنکھوں اور مقام سجدہ ( پیشانی ) پر رکھ دینا کہ مجھے ان سے نفع ہوگا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
التبيين فى انساب القرشيين ، لامام موفق الدین ابی محمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامه المقدسي ، ذكر ولد أسيد بن ابى العيص بن أمية ، تحت " معاوية بن ابى سفيان ، ص 176 تا 178 ، مطبوعة المجمع العلمي العراقي



Link to comment
Share on other sites

1920408299_2021-06-1616_16_23.png.92ffe2e260fdd4c346d293efe862abda.png

206615768_2021-06-1616_16_03.png.6d0f1b2f0bcd2640b94302e7cb3a09bd.png

2136782968_2021-06-1616_16_42.png.4a06e0f36710439aef4340d82a9b7e86.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام احمد بن حمدان بن شعيب بن حمدان النمري الحرانی الحنبلی رحمة الله علیہ  متوفٰی٦٩۵ھ

حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ اور آپ کے صاحبزادے امام حسن مجتبیٰ رضی الله عنہما کے بعد اسلامی سلطنت کے امام حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں ۔ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی محبت واجب ہے اور ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات و نزاعات کے متعلق لکھنے ، پڑھنے ، پڑھانے اور سننے سنانے سے باز رہنا لازم ہے ۔ ان کے محاسن بیان کرنا ، ان کیلئے دعائے رضائے خداوندی کرنا ، ان سے محبت کرنا ، ان پر طعن سے باز رہنا ( اختلافی معاملات میں ) ان کی معذوری کا یقین رکھنا واجب ہے نیز یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ! انہوں نے اس میں جو کچھ کیا جائز اجتہاد سے کیا وہ موجب کفر و فسق نہیں بلکہ اس پر ان کو ثواب ملے گا کیونکہ جائز اجتہاد ہے ایک قول ہے کہ اس سے سکوت کیا جائے ایک اور قول ہے کہ توقف کیا جائے ایک قول ہے کہ اس میں مصیب علی ہیں اور سے قتال کرنے والے ایسی خطاء پر ہیں جو معاف ہے ایک قول یہ ہے کہ مخطئ غیر معین ہے اور وہ مستحق ثواب ہے ابو الفضل تمیمی رحمة الله عليہ کہتے ہیں امام احمد رحمة الله عليہ احادیث فضائل پیش کرتے تھے اور جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان مفاضلہ کرتا اس کا رد و انکار کرتے تھے ۔ اور فرماتے وہ اس مفاضلہ سے افضل اور برتر تھے جو حلال جانتے ہوئے ان میں سے کسی کو گالی دے وہ کافر ہے اگر حلال نہ جانے تو فاسق ہے ایک اور قعل اس کے بارے ہے کہ وہ مطلقاً کافر ہے اگر ان کی تفسیق کرے یا ان کے دین میں طعن کرے یا ان کی تکفیر کرے وہ کافر ہے اور جو الله تعالیٰ یا رسول الله ﷺ کو گالی دے کافر ہے ان سے یہ بھی ہے کہ اگر حلال نہ جانے تو قتل کیا جائے  اس کی تکفیر نہ کی جائے امام احمد فرماتے ہیں کوئی معصوم نہیں سوائے رسول الله ﷺ کے اور انبیائے کرام کے اور حضور ﷺ ان سے افضل ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 نهاية المبتدئين فى اصول الدين ، لامام احمد بن حمدان بن شعيب بن حمدان النمري الحنبلي ، الباب السادس : فى الامامة و ما يتعلق بها ، ص 66 تا 67 ، مطبوعة مكتبة الرشد ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء 

Link to comment
Share on other sites

00_73651_0000.thumb.jpg.df479e0333573e89e0b94f2e5088bb18.jpg

1367601854_2021-06-1618_30_24.png.098b4b96c27f612c3722536e113d5b8b.png

687988041_2021-06-1618_27_57.png.cb5b83ee23f204b7df2513202dbcbf68.png

1916337127_2021-06-1618_28_28.png.768a90c532815c8aad75df0875a8e059.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابو بکر الاندلسی القرطبى رحمة الله عليہ  متوفٰی٦٧١ه‍ 

میں کہتا ہوں کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم عادل ہیں الله تعالی کے اولیاء اور اصفیاء ہیں انبیاء کرام اور رسل کے بعد وہ اس کی بہترین مخلوق ہیں یہ اہل سنت کا مذہب ہے ۔ اس امرجو کے آئمہ کرام کی جماعت کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ۔ ایک چھوٹے سے گروہ کی رائے یہ ہے کہ جس کو کوئی حیثیت نہیں کہ صحابہ کرام کا حال دوسروں کے حال کی طرح ہے اس وجہ سے ان کی عدالت کے بارے میں بحث ضروری ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو انکے احوال کے درمیان بداءة امر کے حوالے سے فرق کرتے ہیں ۔ کہا : پہلے پہل وہ عادل تھے پھر ان کے احوال بدل گئے ان میں جنگیں اور خون خرابہ ہوا اس لیے بحث ضروری ہے ۔ ان کا یہ قول مردود ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے بہترین اور جلیل القدر ہستیاں جیسے حضرت علی المرتضی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی الله عنہم جو ان ہستیوں میں سے ہیں جن کی الله تعالی نے تعریف بیان فرمائی ، ان کا تذکرہ بیان فرمایا ۔ الله تعالی ان سے راضی ہوا انہیں راضی کیا اور اس ارشاد کے ساتھ ان کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا : " مَغْفِرَةً وَّ أَجْرًا عَظِيْماً " خصوصا دس صحابہ کرام جن کو جنت کی بشارت رسول الله ﷺ نے دی وہ سردار ہیں جبکہ ان کے بارے میں کثیر آزمائشیں اور امتحانات آتے رہے یہ سب کچھ نبی اکرم ﷺ کے بعد ہوا جس کی خبر نبی اکرم ﷺ انہیں ارشاد فرما گئے تھے ایسے امور ان کے مرتبہ و فضیلت کو ساقط کرنے والے نہیں کیونکہ یہ امور اجتہاد پر مبنی ہیں اور ہر مجتہد ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 الجامع لاحكام القرآن ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن ابى بكر القرطبى ، تحت سورة الفتح ، الآیة : 29 ، جلد 19 ص 350 تا 351 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ، طبع اول ١٤٢٧ه‍/٢٠٠٦ء 

2127420302_2021-06-1618_29_07.png.a707c1c286aeca7a2c178d55a47dfec6.png

 

میں کہتا ہوں : کہ ان کے درمیان جو جنگ واقع ہوئی اس کا سبب بھی یہی قول تھا جلیل القدر علماء کہتے ہیں کہ بصرہ میں ان کے درمیان جو واقع ہوا وہ جنگ کے ارادہ سے نہ تھا بلکہ اچانک ہوا تھا ہر ایک فریق نے اپنا دفاع کیا کیونکہ اس کا گمان یہ تھا کہ دوسرے فریق نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے کیونکہ معاملہ ا۔ کے درمیان منظم ہو چکا تھا صلح مکمل ہوچکی تھی باہم رضا مندی سے وہ الگ الگ ہونے والے تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلین کو خوف ہوا کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا اورانکو گھیر لیا جائے گا وہ اکٹھے ہوئے ، باہم مشاورت کی اور اختلاف کیا پھر ان کا اس رائے پر اتفاق ہوا کہ وہ فریقوں میں بٹ جائیں اور دونوں لشکروں میں سحری کے وقت جنگ شروع کر دیں تیر ان کے درمیان چلے وہ فریق جو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے لشکروں میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما نے دھوکہ کیا اور فریق حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما کے لشکر میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے دھوکہ کیا اس طرح وہ امر تکمیل پزیر ہوا جس کی انہوں نے تدبیر کی تھی اور جنگ نے ان میں اپنی جگہ بنالی ہر فریق اپنے کیے کا اپنے ہاں دفاع کر رہا تھا اور خون بہائے جانے سے مانع تھا ۔ یہ دونوں فریقوں کی جانب سے درست عمل تھا اور الله تعالی کے حکم کی اطاعت تھی کیونکہ باہم جنگ اور دفاع اس طریقہ سے ہوا تھا یہی قول صحیح اور مشہور ہے ، الله تعالی بہتر جانتا ہے ۔

866532108_2021-06-1618_29_29.png.f983f0cfe69beefc1291bf18d38951c0.png

142656199_2021-06-1618_30_01.png.c56308eecfd7e4b24f11b1befb397fa4.png

 

یہ جائز نہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی طرف قطعی طور پر خطاء کو منسوب کیا جائے کیونکہ ہر ایک نے جو بھی عمل کیا اس میں وہ مجتہد تھا وہ اب الله تعالی کی رضا کا ہی ارادہ کرتے تھے وہ سب ہمارے آئمہ ہیں ان کے درمیان جو اختلاف ہوا ہم اس سے باز رہنے کے پابند ہیں ہم ان کا ذکر احسن انداز میں ہی کریں گے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم احترام کے مستحق ہیں اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے اور الله تعالی نے ان کی مغفرت کا ذکر فرمایا ہے ان سے راضی ہونے کی خبر دی ہے ۔ یہ چیز مختلف سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ شہید ہیں جو روئے زمین پر چل رہے ہیں جس جنگ کے لیے وہ نکلے تھے وہ نافرمانی ہوتی تو اس میں قتل ہونے والا شہید نہ ہوتا اسی طرح جس جنگ میں وہ نکلے تھے تو وہ تاویل میں غلطی کرتے اور واجب میں کوتاہی کرتے کیونکہ شہادت تو اسی وقت ہوتی ہے جب اطاعت کی صورت میں قتل ہو ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے معاملہ کو اس امر پر محمول کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ اس امر پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی روایات میں سے صحیح اور عام یہ روایت ہے کہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کو قتل کرنے والا جہنم میں جائے گا ۔ اور ان کا یہ قول ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

 

ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ۔ جب معاملہ اس طرح ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما نافرمانی کرنے والے اور قتال کے ذریعے گناہ گار نہ تھے کیونکہ اگر معاملہ اس طرح ہوتا یعنی وہ عاصی اور گناہ گار ہوتے تو نبی اکرم ﷺ حضرت طلحہ رضی الله عنہ کے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ وہ شہید ہے اور یہ خبر نبی دیتے کہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کا قاتل آگ میں ہے اسی طرح جو گھر میں بیٹھ گیا وہ تاویل میں غلطی کرنے والا نہیں بلکہ وہ درست ہے الله تعالی نے انہیں اجتہاد کی راہ دکھائی جب معاملہ اس طرح ہے تو یہ امر انہیں لعن و طعن کرنے ان سے براءت کا اظہار کرنے اور ان کو فاسق قرار دینے کو ثابت نہیں کرتا ، ان کے فضائل اور ان کے جہاد کو باطل نہیں کرتا اور دین میں جو ان کا عظیم مقام ہے اس کو ختم نہیں کرتا ۔

 بعض سے اس خون ریزی کے بارے میں پوچھا گیا جو ان کے درمیان واقع ہوئی تو یہ آیت پڑھی : " تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ‌ۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ‌ۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞ بعض سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : وہ ایسی خون ریزی تھی جس سے الله تعالی نے میرا ہاتھ پاک رکھا ، میں آپ ی زبان کو اس سے آلودہ نہیں کروں گا یعنی خطاء میں واقع ہونے اور بعض پر ایسا حکم لگانے سے جو درست نہ ہو اس سے بچوں گا ۔ ابن فورک رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہمارے دونوں میں سے کچھ نے کہا صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان جو تنازعات ہوئے ان کے بارے میں وہی رویہ اپناؤ جو حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان تنازعہ ہوا اس میں اپناتے ہو اس کے باوجود وہ ولایت اور نبوت کے دائرہ سے باہر نہ نکلے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان جو معاملہ ہوا وہ بھی اسی طرح ہے ۔   امام محاسبی رحمة الله عليہ نے فرمایا : جہاں تک خون ریزی کا تعلق ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے ہمارے لیے قول کرنا بہت مشکل ہے ۔ حضرت امام حسن بصری رحمة الله عليہ سے ان کے قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : اس میں حضرت محمد ﷺ کے صحابہ حاضر ہوئے جبکہ ہم غائب تھے ، وہ عالم تھے ہم جاہل ہیں ، وہ اکٹھے ہوگئے تو ہم نے ان کی اتباع کی اور انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف کیا ۔ امام محاسبی رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہم وہی بات کرتے ہیں جس طرح حضرت امام حسن بصری رحمة الله عليہ نے فرمائی ہے ، ہم جانتے ہیں جو اس میں داخل ہوئے تھے وہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے جس امر پر انہوں نے اتفاق کیا ہم اس کی پیروی کریں گے جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہم اس کے متعلق توقف کریں گے اور ہم اپنج جانب سے کسی رائے کو پیش نہیں کریں گے ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا ۔ الله تعالی کی رضا سے توفیق کے طالب ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
الجامع لاحكام القرآن ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن ابى بكر القرطبى ، تحت سورة الحجرات ، الآیة : 9 ، جلد 19 ص 378 ، 382 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ، طبع اول ١٤٢٧ه‍/٢٠٠٦ء 

 

Link to comment
Share on other sites

1120912964_2021-06-1705_29_28.png.291fed3012b0f5b88472c0472bc5cc7e.png

1479816918_2021-06-1705_28_43.png.47a51e07447b79e77eec5cc5c290ffab.png

1322696791_2021-06-1705_29_06.png.5ff312d4943efeb4b51b80251a36ba47.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو جعفر أحمد بن محمد بن صابر بن محمد بن صابر القيسى الاندلسی رحمة الله عليہ متوفٰى٦٦٢ه‍ 


جو شخص آزاد شخص پر دنیا تنگ کرے وہ حاسد ہے وہ چالبازی کرتا ہے اس سے سخت مخالفت کا پورا عزم رکھتا ہے ۔

وہ سمجھتا ہے کہ اس کی برائیاں شمار نہ کی جائیں گی اور نہ کوئی ان کو دیکھے گا مگر اس کی برائیوں کا شمار ہونے لگتا ہے ۔

پس تم بلند شان والے شخص کے پیچھے بھونکنے والے سے تعجب نہ کرو کیونکہ مخلوق میں ہر علی کیلئے معاویہ ہوتا ہے ۔

اس قبیح تضمین کے اندر لپٹی تنقیص پر اس گستاخ کا رد و انکار کیا اور صراحت کے ساتھ اس لذید تعریض کو لاحق کیا یہاں تک کہ اس سے آگاہ ہونے والے بعض اربابِ علم جن کا علم حدیث میں بڑا حصہ ہے ، اور جو صحابی رسول ﷺ کاتبِ وحی خال المومنین رضی الله عنہ کا دفاع کرنے والے ہیں نے فرمایا : اے لعین دفع ہو ۔۔ اور جان لے!  

ہر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی شان پر کوئی مشکوک النسب حرف زن ہوتا ہے حالانکہ ان کے قدموں کی جوتی بھی اتنی بلند ہے کہ وہ بد نسل اس کے قریب نہیں پہنچ سکتا ۔

اس حرام زادے کمینے نے حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی عزت پر مذمت کا ارادہ کیا جیسے اس نے خال المومنین حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی مذمت کی ۔ تو ایسا نہیں جو امت احمد سے ہو ہاں تو ان سے ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 الذيل و التكملة لكتابى الموصول و الصلة ، لامام ابى عبد الله محمد بن محمد بن عبد الملك الانصاري ، تحت أحمد بن محمد بن صابر بن محمد بن صابر القيسى ، جلد 1 ص 605 تا 606 ، رقم : 652 ، مطبوعة  دار الغرب الاسلامي ، طبع اول ٢٠١٢ء 


580369495_2021-06-1705_30_11.png.1860b1d092e9e553e1d42ea301f916e5.png

1394864213_2021-06-1705_29_49.png.af97faa56dada883e83054bb796837cf.png

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو محمد عبد الله بن ابی زید القيروانى رحمة الله عليہ  متوفٰی۳۸٦ه‍

بیشک بہترین زمانہ ان لوگوں کا زمانہ ہے جنہوں رسول الله ﷺ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لائے ، پھر ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ، پھر ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ اور صحابہ کرام رضی الله عنہم میں افضل خلفاء راشدین مہدیین حضرت ابو بکر صدیق ، پھر حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان غنی ، پھر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہم اجمعین ہیں ۔ اور یہ کہ رسول الله ﷺ کے ہر ایک صحابی کا ذکر عمدہ طریقے سے ذکر کیا جائے ان کے درمیان جو مشاجرات ہوئے اس سے اپنی زبانوں کو روکا جائے وہ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے بارے بہترین مخارج و محامل یعنی تاویلات تلاش کریں اور ان کے ساتھ بہترین نکتہ ہائے نگاہ کا گمان و یقین رکھا جائے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 الرسالة الفقهية ، لامام ابى محمد عبد الله بن ابى زيد القيروانى ،  تحت " باب ما تنطق به الألسنة و تعتقده الافئدة من واجب أمور الديانات ، ص 80 ، مطبوعة دار الغرب الاسلامي ، طبع ثانى ١٩٩٧ء 

Link to comment
Share on other sites

115130_0000.jpg.bf80d5a2efb021b6c2787e4cb7835540.jpg

597953554_2021-06-1708_17_15.png.57ca3497dac5deca0319eb51edad2fec.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محمد بن احمد بن عبد البارى الاهدل رحمة الله عليہ  متوفٰی۱۲۹۸ھ

قوله نسکت عنه : ( ہم اس سے سکوت اختیار کرنے ہیں ) مراد یہ ہے کہ  ہمارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات میں پڑیں جو کسی صحابی کے حق میں تنقیص شان کی متقاضی ہو کیونکہ ان سے جو کچھ صادر ہوا اس کا انداز وہی ہے جو اجتہادی مسائل کا ہے اسی لیے ناظم رحمه الله نے فرمایا : و اجر الاجتهاد : یعنی ہم ان میں سے ہر ایک کیلئے اجر اجتہاد ثابت کرتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ظنی مسئلہ میں اجتہاد پر مبنی تھا جس میں مصیب کو اجتہاد پر دو اجر اور مخطئ کو ایک اجر ملے گا ۔ پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ و کرم الله وجہہ کے ساتھ مقاتلہ میں مخطئ مجتہد ہیں اور حضرت علی رضی الله عنہ مصیب مجتہد ۔لیکن ان میں سے کسی کو گمراہ نہ قرار دیا جائے گا کیونکہ وہ ہم سے زیادہ الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نیز اس کے احکام کی معرفت رکھتے تھے اور الله تعالی نے سب سے بھلائی ( یعنی جنت ) کا وعدہ کر رکھا ہے ۔حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ہمارے مقتولین اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے مقتولین جنت میں ہیں ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 افادة السادة العمد بتقرير معانى نظم الزبد ، لامام محمد بن احمد بن عبد البارى الاهدل ، تحت مقدمة فى علم اصول الدين ، ص 113 ، مطبوعة دار المنهاج للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٢٦ه‍/٢٠٠٦ء 

Link to comment
Share on other sites

1-990b275aeb.thumb.jpg.ba3c249a36f6400e3d5942167ccfa576.jpg

114-9b78e6204c.thumb.jpg.936d613a66f7526ff6165c4e524e0451.jpg

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از حضرت امام شاہ فقیر الله بن عبد الرحمن علوی نقشبندی شکارپوری رحمة الله عليہ متوفٰی۱۱۹۵ھ

کتب عقائد میں مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے تمام اصحاب رضی الله عنہم اجمعین عادل تھے خواہ وہ تارکین دنیا ( زاھدین ) تھے یا دنیا سے تعلق رکھنے والے خواہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعد آپس میں قتال کیا یا نہیں ۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم پر فرض ہے کہ ہم  اصحاب کا ذکر صرف اچھائی سے کریں اور نکتہ چینی سے زبان روکیں ان کی باہم آویزش کا محمل یہ ہے کہ اس کا سبب ان کا اجتہاد تھا اور یہ کہ دونوں گروہ مجتہدین تھے اور اپنے اجتہاد سے حق کے طلبگار تھے جب کہ حق الله تعالیٰ کے نزدیک ایک ہی تھا  لیکن ان کے اجتہاد کے سبب سے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ قابل عتاب نہیں بلکہ مستحق ثواب ہیں ۔ پس ان میں سے مصیب کیلئے دو اجر اور مخطئ کیلئے ایک اجر ۔ اس لحاظ سے ان کی برائیاں بیان کرنے سے زبان روکنا فرض ہے بلکہ تمام وفات یافتگان کی برائی بیان کرنے سے باز رہنا فرض ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : مردوں کو گالی نہ دو  وہ اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کے انجام تک پہنچ چکے ۔ اس کو امام بخاری رحمة الله عليہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت کیا اس کے ساتھ یہ بھی کہ فاسق کی غیبت حرام ہے بھلا صحابہ کرام کی غیبت کی قباحت کس قدر زیادہ ہے!جب کہ رسول خدا ﷺ  نے بکثرت احادیث میں ان کی تعریف فرمائی ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے

 قطب الارشاد ، المقصد الاول ، تحت " الحسن ما الحسنه الشرح او العقل السليم ، ص 100 ، مطبوعة امیر حمزه كتب خانه کانسی روڑ کوئٹہ 

Link to comment
Share on other sites

846124240_2021-06-1708_51_25.png.6a0aae87de6ba683e685ac5d1049cf32.png

345368479_2021-06-1708_45_48.png.b9617181f3d0a20cc482704093661a3b.png

1115914441_2021-06-1708_46_12.png.cab325a252904bf940175e3d163cdcd1.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو الفتح محمد بن محمد بن علي بن همام المعروف ابن الامام رحمة الله عليہ  متوفی٧٤۵ھ

حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا فرماتی ہے کہ رسول الله ﷺ نے مجھے یہ دعا مانگتے ہوئے سن لیا : یا الله! مجھے فیض یاب فرما میرے زوج رسول الله ﷺ سے ، مجھے فائدہ پہنچا میرے باپ ابو سفیان رضی الله عنہ سے اور میرے بھائی امیر معاویہ رضی الله عنہ ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے الله تعالی سے محدود عرصہ ، چند ایام اور مقدر میں پہلے سے لکھے ہوئے اوقات کی دعا کی ہے جو اپنے وقت سے نہ پہلے مل سکتا ہے اور نہ مؤخر ہو سکتا ہے ۔ اگر تم الله تعالی سے یہ سوال کرتیں کہ وہ تمہیں دوزخ سے ، عذاب قبر سے محفوظ رکھے تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا ۔

 ص 147 ، رقم : 242

75152491_2021-06-1708_47_03.png.8dca445a8bd25d9f96fde61964f46e65.png

ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے ، انہوں نے کہا میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کو دیکھا آپ منبر پر تشریف فرما تھے ، مؤذن نے اذان دی « الله أكبر الله أكبر ‏» حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « الله أكبر الله أكبر‏ » مؤذن نے کہا : « أشهد أن لا إله إلا الله‏ » حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « و أنا‏ » اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا : « أشهد أن محمدا رسول الله ‏» حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « و أنا ‏» اور میں بھی محمد کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے فرمایا : حاضرین! میں نے رسول الله ﷺ سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ تشریف فرما تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرما رہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا ۔

( ص 312 ، رقم : 566 )

 

1779267509_2021-06-1708_47_28.png.319f76f19681d21bc138cdfe68c448b1.png

حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی الله عنہ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول الله ﷺ  کو سنا آپ فرما رہے تھے : اے الله! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
سلاح المؤمن فی الدعاء و الذکر ، لامام ابی الفتح محمد بن محمد بن علی بن ھمام ، الباب السابع في التخصيص في الدعاء و تسمية المدعو له ، ص 221 ، رقم : 395 ، مطبوعة دار ابن كثير بيروت ، طبع اول ١٤١٤ه‍/١٩٩٣ء 

Link to comment
Share on other sites

1286531309_2021-06-1709_59_46.png.802be8581b7adc4cbb7d5495ec965712.png

1228397355_2021-06-1709_57_16.png.4f7aeff58a7a3b93c89ee00ae4bcf89b.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوری القاضی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی۳۳۳ھ

حضرت بشر بن حارث رحمة الله علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمة الله علیہ کو فرماتے ہوا سنا ۔ وہ فرما رہے تھے : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک الله تبارک وتعالی نے ہر بدعتی سے توبہ کو اٹھا لیا ہے اور اھل بدعت میں سب سے برے وہ ہیں جو رسول الله ﷺ کے صحابہ سے بغض رکھتے ہیں ۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے ۔ اور مجھ سے فرمایا : کہ الله کی بارگاہ میں اپنا سب سے مضبوط عمل نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی محبت کو بناؤ ۔ پس اگر تم زمین کے ذرات کے برابر بھی گناہ لے کے جاؤ تو بھی الله اس کو بخش دے گا ۔ اور اگر تیرے دل میں بغض صحابہ کا ایک ذرہ بھی ہوا تو تجھے تیرا کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکتا ۔ 

حوالہ درج ذیل ہے 
المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 5 ص 412 ، رقم : 2288 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه‍ / ١٩٩٨ء 

 

1241499926_2021-06-1709_56_35.png.37c3bffabbbb51d0f0f4fc0ed04cc495.png

 

سارے لوگوں کو توبہ کی توفیق مل جاتی ہے ، مگر اصحابِ رسول ﷺ پر تنقید کرنے والوں کو نہیں ملتی کیوں کہ الله ﷻ نے اُن سے توبہ کی توفیق سلب کرلی ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 6 ، ص397 ، رقم : 2816 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه‍ / ١٩٩٨ء 

 

627697004_2021-06-1709_56_55.png.710aa083c595f63019e2d5a25e8b78dc.png

حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے حضرت صعصعہ بن صوعان رحمة الله علیہ سے فرمایا : حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے اوصاف بیان کیجئے ۔ تو انہوں نے عرض کی : حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ رعایا کے احوال جاننے والے ، رعایا کے مابین عدل و انصاف کرنے والے ، عاجزی فرمانے والے اور عزر قبول فرمانے والے تھے ، حاجت مندوں کے لیے آپ کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے ۔ حق بات کے لیے جدوجہد کرنا اور برے عمل سے دور رہنا آپ کی صفات تھیں ، اور آپ کمزوروں پر شفقت فرمانے والے ، دھیمے لہجے والے ، نہایت کم گو اور عیب سے بے حد دور رہنے والے تھے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 4 ص 132 ، رقم : 1300 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه‍ / ١٩٩٨ء 

 

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

161843434_2021-06-1718_04_34.png.4e4da4371bc7b5bb34e5a61b5fa8e24b.png

1308387073_2021-06-1718_04_56.png.97bc5a97e76798dd573de830b64b7f88.png

 

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 28 ہجری میں اسلام کی سب سے پہلی بحری فوج کی قیادت فرمائی اور قُبْرُص کو فتح کیا 

شرح ابن بطال ،ج5، ص11، تحت الحدیث: 2924

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

cover.jpg.3215642e8252075f7eff5ad597f76360.jpg

1312017086_2021-06-1718_20_25.png.26594bddc9cbd5fdb320c5d6270f9b77.png

 

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےبحری جہاز بنانے کے لئے  49ہجری  میں کارخانے قائم فرمائے اور ساحل پر ہی تمام کاریگروں کی رہائش وغیرہ کا انتظام کردیا تاکہ  بحری جہاز بنانے کے اہم  کام میں  خَلل واقع  نہ ہو ۔

(فتوح البلدان،ص161)
 

1133997233_2021-06-1718_21_13.png.935130f0b7eaabc8bf00fc06bd70bf8f.png

اَنْطَرطُوس، مَرَقِیَّہ جیسے غیر آباد علاقے بھی دوبارہ آباد فرمائے  

(فتوح البلدان، ص182)

2031274636_2021-06-1718_20_48.png.7aa29af6bbb45c000993928a7af9ff21.png

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےعوام کی خیرخواہی کیلئے شام اور روم کے درمیان میں واقع ایک  مَرْعَش نامی غیر آباد علاقے میں فوجی چھاؤنی قائم فرمائی 

(فتوح البلدان، ص265)

 

1115986749_2021-06-1718_21_40.png.13446e00ae3379ba7ee01d4b71ad5343.png

نئے آباد ہونے والے علاقوں میں جن جن چیزوں کی ضرورت تھی ،اُن کا انتظام فرمایا مثلاً لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے نہری نظام قائم فرمایا  

(فتوح البلدان، ص499)

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

116623978_2021-06-1809_05_50.png.6458da1dcd948183acf9d803144e5ee1.png

278149446_2021-06-1809_05_31.png.457ca3365a13eda8ef4549e0a17afa2d.png

1348347758_2021-06-1809_05_05.png.6154b75e39f8aa6facab131687fbe4be.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام برهان الدين ابو الوفاء ابراهيم بن فرحون اليعمری المالكی رحمة الله علیہ  متوفٰی٧٩٩ه‍

فصل : ازواج و اصحاب رسول ﷺ کو سب وشتم کرنے والوں کا حکم : نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات اور اصحاب رضی الله عنہن و عنہم کو گالی دینا اور ان کی تنقیص شان کرنا حرام ہے اور گالی گلوچ اور تنقیص کرنے والا ملعون ہے ۔ اور جو شخص اصحابِ رسول ﷺ میں سے کسی صحابی مثلا حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی المرتضٰی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہم کو گالی دے تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ( ١ )_اگر بکے کہ وہ گمراہی پر تھے تو کافر ہو جائے گا اور واجب القتل ہو گا ۔ ( ٢ )_اگر ایسی گالی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کی گالیوں کی طرح ہو تو سخت سزا کا مستحق ہوگا ۔ ابن حبیب فرماتے ہیں : جو شیعہ غلو کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے بغض رکھے اور ان سے اظہار برآت کرے تو اسے شدید تادیب و تعزیر کی جائے گی اور جس کی عداوت بڑھ کرحضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کے بغض تک چلی جائے تو اس کی سزا شدید ہوگی ۔ اسے بار بار پیٹا جائے اور لمبی قید میں رکھا جائے ۔ یہاں تک کہ اسے موت آ جائے پس گستاخ شخص صرف اہانت و تنقیص رسول ﷺ سے واجب القتل ہوگا ۔ امام ابو محمد بن ابی زید رحمة الله علیہ امام سحنون رحمه الله سے حکایتاً بیان کرتے ہیں کہ جو شخص حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہم کے بارے کہے کہ وہ گمراہی و کفر پر تھے وہ واجب القتل ہے اور جو دیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو اس نوع کی گالی دے وہ کڑی سزا کا مستحق ہے ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
 تبصرة الحكام في اصول الأقضية و مناهج الأحكام ، لامام برهان الدين ابراهيم بن فرحون اليعمري المالكي ، القسم الثالث من الكتاب ، تحت " فصل فيمن سب أزواجه و أصحابه ﷺ ، جلد 2 ص 213 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤١٦ه‍/١٩٩۵ء

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

1542201745__0000.jpg.bf3f6d8a38b6a35c33b85d4ea005a126.jpg

1788746371_2021-06-1809_18_55.png.7228b9b262ff082ae8950cdf8a09145b.png

2000687333_2021-06-1809_19_18.png.a4903c6f8a949b446e0a921bb2d78940.png

 

 

السوال
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حق پر نہیں تھے کیا ایسا کہنا درست ہے؟ 

الجواب
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حق پر نہیں تھے نری جہالت وگمراہی ہے-اس پر لازم ہے کہ توبہ کرے
(فتاوی فقیہ ملت، ج١،ص ١٨)

 

Edited by محمد حسن عطاری
Link to comment
Share on other sites

2050230320_2021-06-2016_07_01.png.5dcafb4de340d9430586522d35bb6b77.png

1952128143_2021-06-2016_07_21.png.5a168b01f503c444fdd226238d06e359.png

 

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام زین الدین عمر بن مظفر بن محمد ابن الوردی الشافعی رحمة الله علیہ متوفٰی٧٤٩ھ

سرکار رسالت مآب ﷺ کے کاتبین حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی المرتضٰی ، حضرت ابی بن کعب ( اولین کاتب یہی تھے ) حضرت زید بن ثابت اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہم تھے 

 

1229850691_2021-06-2016_07_45.png.b7c6f034a4ae98db584671fffaa93614.png

 

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بڑے حلم و ہیبت والے تھے ۔ ان کا حلم ان کے غضب پر قاہر اور ان کی سخاوت ان کی منع ( یعنی کنجوسی ) پر غالب تھی ۔

حوالہ درج ذیل ہے 
تاريخ ابن الوردي ، لامام زين العابدين عمر بن مظفر الشهير بابن الوردي ، تحت أخبار معاوية ، سنة ٦٠ ، جلد 1 ص 131 ، 162 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤١٧ه‍/١٩٩٦ء 

  • Like 1
Link to comment
Share on other sites

Guest
مزید جوابات کیلئے یہ ٹاپک بند کر دیا گیا ہے
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا

×
×
  • Create New...