Jump to content

جاہل پیروں جعلی صوفیوں اور بدمذہب سیدوں کا رد


Zafirhaider

تجویز کردہ جواب

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

از قلم غلامِ احمدرضاعلی حیدرسنی حنفی بریلوی
جاہل پیروں جعلی صوفیوں اوربدمذہب سیدوں کارد


•          *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم*ِ    
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ                    وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ                  وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ


سب سے پہلے دیوبندیوں اور وہابیوں کے ایک بے ایمانی اعتراض کا جواب دیتا چلوں کچھ عرصہ قبل ایک دیوبندی شخص نے مجھ سے مخاطب ہوکر جاہلوں کی خرافات پیری مریدی اور مزاروں پر موجودہ گندی رسمیں مسلک اہلسنت بریلویوں کی طرف کرکے کہا ہے کہ تم بریلویوں نے مزارات پر کتنی بری بدعتیں ایجاد کر رکھی ہیں اور پیری مریدی کا دھندا کھول رکھا ہے پھر اس دیوبندی نے سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ جاہل ننگے نقلی لامذہب شیطانی صفت نما پیروں کی تصاویر اور ویڈیوز سینڈ کرکے اعتراض کیا کہ سنیوں کے پیر اور انکے مرید ایسے ہوتے ہیں "معاذ اللہ" 
اور الحمد للہ میں نے اسکے جواب میں ایک لاجواب تحریر کتابی شکل میں لکھی  جسکانام رکھا" مزارات پر خرافات اور فعلِ جہلاء کا رد" جسمیں میں نے سینکڑوں دلائل سے خلاف شرع تمام امور کو اہلسنت کی متعدد کتابوں سے مردود ہونا ثابت کیا اور جب اس دیوبندی کو میں نے وہی تحریر جواب میں پیش کی تو اس جاہل نے بنا پڑھے ہی دوسرا جاہلانہ اعتراض کردیاکہ"یہ تمام غلط کام بریلوی ہی کیوں کرتے ہیں اسکی کیا وجہ ہے اگر جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں تو کیا پوری دنیاں میں جاہل صرف بریلوی ہیں 
اب اس تحریر میں سب سے پہلے دیوبندی کے اس اعتراض کا جواب تحریر خدمت ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی نے اپنے اعتراض میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گویا اعلیحضرت سے پہلے تمام مسلمان مزارات پر موجودہ خرافات اور منکرات شرعیہ و لہو و لعب سے بالکل پاک تھے اور جب اعلیحضرت پیدا ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو یہ تعلیم دی اور پھر یہ تمام خلاف شرع امور لوگوں میں رائج ہوئے معاذاللہ اور دیوبندیوں نے مسلک اعلیحضرت اہلسنت بریلویوں کو بدعتی کہہ کر انکو ایک نیا فرقہ بتایا جس پر انکی کتابیں شاہد ہیں جیسے "رضاخانی مذہب اور بریلوی نیافرقہ وغیرہ اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دیوبندی وہابی قدیم فرقہ ہے اور نبی علیہ السلام و صحابہ کرام کے طریقے پر ہیں جبکہ یہ صرف دیوبندیوں اور وہابیوں کی خوش فہمی اور ہٹ دھرمی ہے کیونکہ جس سابقہ دیوبندی سعید احمد نے جھوٹ بولا تھا اور رضاخانی مذہب کتاب لکھی تھی وہ توبہ کرکے سنی حنفی بریلوی بن گیا ہے اور اس نے اپنی تمام کتابیں جو بریلویوں کے رد میں تھیں سب کو جھوٹی قرار دے کر منسوخ قرار دے دیا ہے اور کہا  ہے کہ اب میری کسی کتاب سے بھی دیوبندی حوالہ پیش نہیں کرسکتے میں ان کتابوں کو رد کرتا ہوں۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ مصنف رضاخانی مذہب نے تو توبہ کرلی مگر اس اس کتاب پر تقریظ لکھنے والے اس کی تصدیق کرنے والے دیوبندی اب تک تائب نہیں ہوئے اور بڑی بے شرمی سے دیوبندی حضرات ہمارے خلاف اس کتاب کے جھوٹ بطورِ حجت پیش کرتے ہیں سچ فرمایا ہے کسی نے کہ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن اور حضور نے فرمایا کہ بے حیا بن جاپھر جو چاہےکر اور وہابیوں کی بے حیائی کا کیا کہنا کہ خود انکے ملائوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امام احمد رضا خان بریلوی قدیم مسلک سنی حنفی تھے اسکی گواہی ثناء اللہ امرتسری نے دی شمع توحید میں اور سلیمان ندوی نے دی حیات شبلی میں اور شیخ محمد اکرام نے موج کوثر میں دی ہے اسکے علاوہ عبدالحئ علی ندوی نے نزہتہ الخواتر میں دی ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ دیوبندیوں کو خود بھی اقرار ہے کہ بریلوی مسلک بنا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے اصحاب رسول کے طریقے پر چلنے والا ناجی فرقہ ہے اب آتے ہیں مزارات پر خرافات کے حوالے سے کہ یہ بدعات اعلیحضرت نے نہیں ایجاد کی ہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہردور میں جہلاء کا شعار رہا ہے  اور مزارات پر جعلی پیروں اور جاہل لوگوں کی خرافات کا ہونا بہت پہلے سے ہے اس میں اعلیحضرت کا یا ان اولیاء کرام  کا کوئی قصور نہیں وہ تو خود  اسطرح کی غیر شرعی حرکات سے دور تھے انکی تعلیمات تو قرآن و سنت کے عین مطابق تھی حضور داتا علی حجویریؓ کشف المحجوب  میں فرماتے ہیں کہ جب زمانے کے دنیادار لوگوں نے دیکھا کہ نقلی صوفی پائوں پر تھرکتے،گاناسنتے اور بادشاہوں کے دربار میں جاکر ان سے مال و منال کے حصول میں حرص و لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں، درباری دیکھتے ہیں تو وہ ان سے نفرت کرتے ہیں اور تمام صوفیوں کو ایسا ہی سمجھ کر  سب کو  برا کہنے لگتے ہیں کہ ان کے یہی طور و طریق ہوتے ہیں اور پچھلے صوفیاء کا حال بھی ایسا ہی تھا حالانکہ وہ حضرات ایسی لغویات سے پاک و صاف تھے وہ اس پر غور و فکر نہیں کرتے یہ زمانہ دین میں سستی و غفلت کا ہے کشف المحجوب صفحہ 69 شبیر برادرز لاہور
نمبر1۔ دیوبندیوں اب کیاکہوگےکہ داتا علی حجویری سے پہ

لےبھی سب لوگ بریلوی تھے نمبر2۔ داتا علی حجویری کے زمانے میں بھی یہ لغویات موجودتھیں کیا دیوبندیوں کے نزدیک داتاعلی حجویری بھی بدعتی تھے کیا انکی بھی یہی تعلیمات تھیں کیاوہ ولی نہیں تھے جسطرح اعلیحضرت پر دیوبندی فتویٰ لگاتے ہیں ذرا ادھر بھی جرات کریں نمبر3۔ جسطرح داتا صاحبؓ نے فرمایا کہ لوگ نقلی صوفیوں کو دیکھ کر تمام صوفیوں کو نقلی صوفیوں کیطرح برا سمجھنے لگتے ہیں یہی حال دیوبندیوں اور وہابیوں کا بھی ہے کہ وہ کچھ جاہلوں کی وجہ سے تمام اہلسنت پر تہمت لگاتے ہیں اور مزارات اولیاء سے بغض رکھتے ہیں۔ اللہ پناہ دے ان شرپسندوں سے
نمبر 4۔ اعلیحضرت کی وفات 1340ھ میں ہوئی اور داتا علی ہجویری کی قریباً 456ھ  ہے تو اعلیحضرت سے قریباً 884 سال پہلے بھی بقول داتا صاحب کے جعلی پیری مریدی کا سلسلہ چالو تھا اور ان میں تمام لغویات گانابجانا وغیرہ موجود تھا اور فرماتے ہیں کہ یہ زمانہ دین میں سستی و غفلت کا ہے جب 884 سال پہلے داتا صاحب نےلکھا کہ یہ زمانہ  دین میں سستی اور غفلت کا اس وجہ سے داتا صاحب کے زمانے میں لغویات و خرافات موجود تھیں تو دیوبندیوں ذرا سوچ کر بتائو کہ آج کے اس زمانے میں اس پرفتن دور میں بنسبت  داتا صاحب کے دور کے کتنی جہالت پھیل چکی ہے کتنی بےحیائی بڑھ چکی ہے تو اس دور میں خلاف شرع امور کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ امام ابن حجر ہیتمی مزارات  پر خرافات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ  سائل نے مزارات پر ہونے والی جن خرافات کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے سبب مزار کو جانے کو نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ انسان پر لازم ہے کہ وہ ان مزارات پر ہونے والی بدعات کا انکار کرے اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے الفتاویٰ الفقیہة الکبرٰی کتاب الصلوٰة باب الجنائز جلد2صفحہ 24 المکتبة الاسلامیہ۔ 
اعلیحضرت بزرگان دین کے حوالے سے  لکھتے ہیں کہ
ایك بارحضرت محبوب الٰہی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کسی نے عرض کی آجکل بعضے خانقاہ دار درویشوں نے مزامیر کے مجمع میں وجد کیا۔ فرمایا:
اچھا نہ کیا جو بات شرع میں ناروا ہے وہ کسی طرح پسندیدہ نہیں۔
سیرالاولیاء باب نہم مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد ص ۵۳۰
 کسی نے عرض کی کہ جب وہ لوگ وہاں سے باہرآئے ان سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو مزامیر تھے تم نے وہاں جا کر کیوں قوالی سنی اور وجد کیا، وہ بولے ہم ایسے مستغرق تھے کہ ہمیں مزامیر کی خبرنہ ہوئی، حضرت شیخ المشائخ نظام الحق والدین نے فرمایا:
یہ جواب بھی محض مہمل ہے سب گناہوں میں یہی حیلہ ہو سکتاہے۔
سیرالاولیاء باب نہم مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد ص ۵۳۱
 اعلیحضرت فرماتے ہیں دیکھو کیسا قاطع جواب ارشاد ہوا۔ آدمی شراب پئے اور کہہ دے کمال استغراق کے سبب ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یا پانی، زنا کرے اور کہہ دے ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جوروہے یا بیگانی۔ فتاویٰ رضویہ جلد 21 ص562
اب ذرا وہابی دیوبندی انصاف کی نظر سے دیکھیں  کہ جن لغویات کو وہ امام احمد رضا کی طرف تھوپتے ہیں اسی امام احمد رضا نے ان لغویات و خرافات کا کسطرح رد فرمایا ہے۔
مزید اگلے صفحے پر لکھتے ہیں کہ
ایك بار کسی نے عرض کی کہ فلاں موضع میں بعض یاروں نے مجمع کیا اور مزامیر وغیرہ حرام چیزیں ہیں، حضرت سلطان المشائخ رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا:
میں نے منع فرمادیا ہے کہ مزامیر ومحرمات درمیان نہ ہوں، ان لوگوں نے اچھا نہ کیا۔
فتاویٰ رضویہ جلد21ص 563
اب دیوبندی کیا کہیں گے کہ حضرت سلطان المشائخؓ کے منع کرنے کے بعد بھی لوگ منکرات شرعیہ سے بعض نہ آئے تو اسمیں پیر صاحب کا قصور ہے یقیناً آپ کا قصور نہیں ہے کیونکہ آپ نے تو واضح رد فرمایا ہے ٹھیک اسی طرح ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ علمائے اہلسنت نے ہمیشہ سے منکرات شرعیہ کا رد فرمایا ہے ہمارے بزرگوں کی یہ تعلیم ہرگزنہیں ہے جو آج کل جہلاء میں رائج ہے مسلک اعلیحضرت اس سے  بالکل بری ہے ۔
لہذا مزارات  پر اگر بعض جاہل لوگ  غیر شرعی حرکات کرتے ہیں تو ہرگز  اسکا یہ حل نہیں  کہ سنیت کو چھوڑ کر نجدی ہوجائیں یا اس مزار کو شہید کیاجائے اگر کسی نجدی کا باپ بے نمازی هوگا  تو کیا نجدی اسکی اصلاح کرے گا یا اپنا باپ بدل لے گا یا اس باپ ہی کو ماردے گا؟  جسطرح امام ابن حجر نے ان منکرات کا رد فرماکر عمل مستحب کو جائز و رواں رکھنے کا حکم دیا ٹھیک اسی طرح اعلیحضرت نے بھی تمام منکرات شرعیہ کا رد فرماکر مزارات اولیاء سے صحیح عقیدت رکھنے کی تعلیم دی ہے  مگر وہابی اپنے کفر کو چھپانے کیلیے اعلیحضرت پر وہ الزام لگاتے ہیں جسکا اعلیحضرت سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ امام اہلسنت اور علمائے اہلسنت نے ان تمام لغویات کا بڑی شدومد  سے رد فرمایاہے۔ اس پر میں الحمدللہ پہلے کتاب لکھ چکاہوں جس بھائی کو ضرورت ہو مجھ سے اس نمبر پر رابطہ کرکے مانگ سکتاہے پی ڈی ایف میں 03423111899 ۔ جوکہ میرے  ٹیلی گرام چینل "تحقیق" پر بھی 
مزارات پرخرافات اورفعلِ جہلاء کار۔ کے نام سے موجود ہے
اب

میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کیطرف کہ کسطرح علمائے اہلسنت نے جعلی صوفیوں اور جعلی پیروں عاملوں اور بدمذہب سیدوں وغیرہ کا رد بلیغ کیا ہے
پیر کیسا ہونا چاہئے ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ (1) سنی صحیح العقیدہ ہو۔ (2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ (3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔ (4) اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل یعنی ملا ہواہو۔   فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳،
ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت کرے جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔
لیکن ہمارے اس معاشرے میں جاہل پیروں اور شیطانی صفت صوفیوں نے لوگوں میں علماء کرام کے بارے میں بغض بھر رکھا ہے جب علماء انکی اصلاح کیلیے جعلی پیروں کا رد کرتے ہیں تو جاہل عوام خاص کر کے سنی عوام علماء کے مخالف آکر انکو گالیاں دینے شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
یہاں پیر کے کامل ہونے کیلیے مرید کا جاہل ہونا ضروری ہے جتنا بڑا جاہل مرید ہوگا پیر اتنا ہی بڑا کرنی دا اور پہنچا ہوا ہوگا۔ہمارے معاشرے میں اکثر جاہل پیروں میں مذکورہ شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے وہ لوگ اپنے مریدوں کو شریعت و طریقت کو دو الگ راہیں بتاکر اپنا مرید بنالیتے ہیں اور پھر انکو گمراہ اور کنگال کرتے رہتے ہیں جبکہ شریعت و طریقت جدا نہیں ہیں  مفتی امجد علی اعظمی نے بہار شریعت کے حصہ اول ص 265 پر بحوالہ اعلیحضرت لکھا کہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان ارشاد فرماتے ہیں :  ’’حاشا! نہ شریعت و طریقت دو راہیں  ہیں  نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں ، علامہ مناوی ’’شرح جامع صغیر ‘‘پھر عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی ’’حدیقہ ندیہ ‘‘میں  فرماتے ہیں :  امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : علم الباطن لا یعرفہ إلاّ من عرف علم الظاہر [’’الحدیقہ الندیہ‘‘، النوع الثاني، ج۱، ص۱۶۵] ۔ علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے، امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  :  وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاہلاً، اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا، یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا کہ جو علم ظاہر نہیں رکھتا علم باطن  کہ اسکا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر پاسکتا ہے ‘‘  ’’فتاوی رضویہ‘‘ ،ج۲۱، ص۵۳۰۔  اور اسی صفحہ 265 پر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں   کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ اور ولایت بے علم کو نہیں   ملتی، (4)  خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر اﷲ عزوجل نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں ۔ ص265
اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ جس  حقیقت کو شریعت رد کردے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے۔فتاویٰ رضویہ جلد21 ص546
پھر آپ نے حضرت جنیدؓ کا ارشاد نقل فرمایا کہ شریعت کی پرواہ نہ کرنے والے جعلی صوفیاء سے چور اور زانی بہتر ہیں ۔ ص546 ذرا غور کریں کہ چور کی سزا شریعت میں ہاتھ کاٹنا ہے اور زناہ کا قتل کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کے بعد زنا کو گناہ کبیر بیان فرمایا ہے اورحضرت جنیدؓ نے جعلی صوفیوں کو ان دونوں سے بدتر بتایا ہے کیونکہ زانی جسم و عزت کا دشمن ہے  اور چور مال و دولت کا مگر جاہل صوفی سب سے بڑا دشمن یعنی دین و ایمان اور شریعت محمدی کا دشمن ہے تو اسکی سزا کیا ہونی چاہیے؟
احکام شرع کی پابندی نہ کرنے والا زندیق ہے اور اسکے ہاتھ پر ظاہر ہونیوالے خوارق  عادات مکرواستدراج ہیں۔ ص 546
مدعی تصوف اگر شریعت و طریقت کو جدا بتائے تو دروغ گو اور لاف زن ہے۔ ص 548
سوبات کی ایک بات یہ ہے کہ ولی کا علم کتاب و سنت سے باہر نہ جائے گا۔ ص 549
اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ بالجملہ شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایك ایك سانس ایك ایك پل ایك ایك لمحہ پر مرتے دم تك ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو اور زیادہ کہ راہ جس قدر باریك اس قدر ہادی کی زیادہ حاجت ولہذا حدیث میں آیا حضور سیدی عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:بغیر فقہ کے عبادت میں پڑنے والا ایساہے جیسا کہ چکی کھینچنے والا گدھا کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں(اسے ابونعیم نے حلیہ میں واثلہ بن الاسقع رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ترجمہ ۳۱۸ خالد بن معدان دارالکتاب العربی بیروت ۵/ ۲۱۹۔ فتاویٰ رضویہ جلد21ص527
امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں:دو شخصوں نے میری پیٹھ توڑدی(یعنی وُہبلائے بے در ماں ہیں)جاہل عابد اور عالم جو علانیہ بیباکانہ گناہوں کا ارتکاب کرے۔ اعلیحضرت نے لکھا کہ
اولیائے کرام فرماتے ہیں صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔اسی لئے حدیث میں آیا حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی ع

لیہ وسلم نے فرمایا:کہ ایك فقیہ شیطان پرہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے(اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔جامع الترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۳،سنن ابن ماجہ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰۔

بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے منہ میں لگام،ناك میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے "وَ ہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا ﴿۱۰۴﴾ اور وہ اپنے جی میں سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ص528
لوگوں کو گمراہ کرنے والے گمراہ پیروں کے متعلق اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ
گمراہ اور گمراہی کی طرف بلانے والا وارث نبی نہیں نائب ابلیس ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ ص 530۔ اعلیحضرت عالم کے علم کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ جو عالم شریعت ہو مگر اپنے علم پر عمل نہ ہو صرف اسکے علم کی وجہ سے شریعت میں اسکا کیا مقام و مرتبہ ہے  چنانچہ ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ عالم شریعت اگراپنے علم پر عامل بھی ہو چاند ہے کہ آپ ٹھنڈا اور تمھیں روشنی دے ورنہ شمع ہے کہ خو دجلے مگر تمھیں نفع دے،رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کہ اس شخص کی مثال جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتاہے اس فتیلہ کی طرح ہے کہ لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتاہے اس کو بزار نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اور طبرانی نے حضرت جندب بن عبداﷲ ازدی اور حضرت ابوبرزہ السلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے بسند حسن روایت کیا۔ت)
الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی والبزار مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۷۔۱۲۶ و ۳/۲۳۵ ص 531۔ اسی طرح ایک اور روایت نقل کی کہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:جب آدمی قرآن مجید پڑھ لے اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثیں جی بھر کر حاصل کرے اور اس کے ساتھ طبیعت سلیقہ دار رکھتا ہو تو وہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے نائبوں سے ایك ہے۔(اسے امام رافعی نے اپنی تاریخ میں ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)۔کنز العمال بحوالہ الرافعی فی تاریخہ حدیث ۲۸۶۹۴ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/ ۱۳۸۔اسی حدیث کے تحت اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ دیکھوحدیث نے وارث تو وارث خلیفۃ الانبیاء ہونے کے لئے صرف تین شرطیں مقرر فرمائیں قرآن وحدیث جانے اور ان کی سمجھ رکھتاہو،خلیفہ ووارث میں فرق ظاہر ہے آدمی کی تمام اولاد اس کی وارث ہے مگر جانشین ہونے کی لیاقت ہر ایك میں نہیں۔ پھر آگے قرآن کی آیات سے مزید دلائل دیکر فرمایا کہ:ظاہر ہے کہ یہ سب اوصاف علمائے شریعت میں ہیں تو وہ ضرور ربانی ہیں۔ پھر آگے مزید احادیث بیان کرکے علماء کرام کو شیطان کہنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ:جبکہ اﷲ عزوجل علمائے شریعت کو اپنا چنا ہوا بندہ کہتا ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انھیں اپنا وارث اپنا خلیفہ انبیاء کا جانشین بتاتے ہیں تو انھیں شیطان نہ کہے گا مگر ابلیس یا اس کی ذریت کا کوئی منافق خبیث یہ میں نہیں کہتا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کہ تین شخصوں کے حق کو ہلکانہ جانے گا مگر منافق منافق بھی کون سا کھلا منافق۔ایك بوڑھا مسلمان جسے اسلام ہی میں بڑھاپا آیا،دوسرا عالم دین،تیسرا بادشاہ مسلمان عادل،(اس کو ابوالشیخ نے توبیخ میں جابر سے اور طبرانی نے کبیر میں ابوامامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے بسند حسنہ الترمذی فی غیر ھذا الحدیث۔المعجم الکبیر عن ابی امامہ حدیث ۷۸۱۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸/ ۲۳۸،کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ فی التوبیخ حدیث ۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶/ ۳۲ ۔ ایک اور روایت میں ہےکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لوگوں پر زیادتی نہ کرے گا مگر ولد الزنا یا وہ جس میں اس کی کوئی رگ ہو۔(اسے طبرانی نے کبیر میں ابو موسٰی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت) 
مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب الخلافۃ باب فی عمال السؤالخ دارالکتاب بیروت ۵/ ۲۳۳ و ۶/ ۲۵۸،کنز العمال بحوالہ طب حدیث ۱۳۰۹۳ مؤسسۃالرسالہ بیروت ۵/ ۳۳۳ ۔
جب عام لوگوں پر زیادتی کے بارے میں یہ حکم ہے پھر علماء کی شان ارفع واعلٰی ہے بلکہ حدیث میں لفظ ناس فرمایا،اور اس کے سچے مصداق علماء ہی ہیں۔امام حجۃ الاسلام محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:سئل ابن المبارك من الناس فقال العلماء   یعنی ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے تلمیذ رشید عبداﷲ بن مبارك رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حدیث وفقہ ومعرفت وولایت سب میں امام اجل ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ ناس یعنی آدمی کون ہیں،فرمایا:علماء۔امام غزالی فرماتے ہیں:"جو عالم نہ ہو امام ابن المبارك نے اسے آدمی نہ گنا اس لئے کہ انسان اور چوپائے میں علم کا فرق ہے، احیاء العلوم کتاب العلم الباب الاول مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ۱/۷
ان سب دلائل کے بعد اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ:بیانات بالا سے واضح ہے کہ علمائے شریعت ہر گز طریقت کے سدر

ایك ادب پر توامین ہے نہیں اسرار الٰہیہ پر کیونکر امین ہوگا۔الرسالۃ القشیریۃ باب الولایۃ مصطفی البابی مصر ص۱۱۷
قول ۱۳:نیز حضرت بسطامی رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں:اگر تم کسی شخص کو دیکھو ایسی کرامت دیا گیا کہ ہوا پر چار زانو بیٹھ سکے تو اس سے فریب نہ کھانا جب تك یہ نہ دیکھو کہ فرض،واجب ومکروہ و حرام ومحافظت حدود وآداب شریعت میں اس کا حال کیسا ہے۔ 
الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابو یزید البسطامی مصطفی البابی مصر ص۱۵
قول ۱۴:حضرت ابو سعید خراز رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حضرت ذوالنون مصری سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے اصحاب اور سید الطائفہ جنید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اقران سے ہیں فرماتے ہیں:
جو باطن کہ ظاہر اس کی مخالفت کرے وہ باطن نہیں باطل ہے۔
الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابو سعید خراز مصطفی البابی مصر ص۲۴
علامہ عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قد س سرہ القدسی اس قول مبارك کی شرح میں فرماتے ہیں:اس لئے کہ جب اس نے ظاہر کی مخالفت کی تو وہ شیطانی وسوسہ اور نفس کی بناوٹ ہے۔
الحدیقۃ الندیۃ الباب الاول الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۱۸۶
قول ۱۵:حضرت سیدنا حارث محاسبی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اکابر ائمہ اولیاء معاصرین حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں فرماتے ہیں:
جو اپنے باطن کو مراقبہ اور اخلاص سے صحیح کرلے گا۔لازم ہے کہ اﷲ تعالٰی اس کے ظاہر کو مجاہدہ وپیروی سنت سے آراستہ فرمادے۔
 الرسالۃ القشیریۃ ذکر حارث محاسبی مصطفی البابی مصر ص۱۳
ظاہر ہے کہ انتفائے لازم کو انتفائے ملزوم لازم تو ثابت ہواکہ جس کا ظاہر زیور شرع سے آراستہ نہیں وہ باطن میں بھی اﷲ عزوجل کے ساتھ اخلاص نہیں رکھتا۔
قول ۱۶:حضرت سیدنا ابوعثمان حیری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اجلہ اکابر اولیاء معاصرین حضرت سید الطائفہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے ہیں وقت انتقال اپنے صاحبزادے ابوبکر رحمہ اﷲ تعالٰی سے فرمایا:اے میرے بیٹے! ظاہر میں سنت کا خلاف اس کی علامت ہے کہ باطن میں ریا کاری ہے۔
الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوعثمن سعید بن اسمعیل الحیری مصطفی البابی مصر ص۲۱
قول ۱۷:نیز حضرت سعید بن اسمعیل حیری ممدوح رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ زندگانی کا طریقہ یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرے اور علم ظاہر کو لازم پکڑے۔
الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوعثمن سعید بن اسمعیل الحیری مصطفی البابی مصر ص۲۱
قول ۱۸:حضرت سید ابوالحسین احمد بن الحواری رضی اﷲ تعالٰی عنہ جن کو حضرت سید الطائفہ ریحانۃ الشام یعنی ملك شام کا پھول کہتے تھے فرماتے ہیں:
جو کسی قسم کا کوئی عمل بے اتباع سنت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کرے وہ عمل باطل ہے۔
الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوالحسین احمد بن الحواری مصطفی البابی مصر ص۱۸
قول ۱۹:حضرت سیدی ابوحفص عمر حداد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اکابر ائمہ عرفاء و معاصرین حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں فرماتے ہیں:
جو ہر وقت اپنے تمام کام احوال کو قرآن وحدیث کی میزان میں نہ تولے اور
اپنے وارادات قلب پر اعتماد کرلے اسے مردوں کے دفترمیں نہ گن۔
 الرسالہ القشیریۃ ذکر ابوحفص عمر الحداد مصطفی البابی مصر ص۱۸
قول ۲۰:حضرت سیدنا ابوالحسین احمد نوری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اصحاب اور حضرت سید الطائفہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے اقران سے ہیں فرماتے ہیں:تو جسے دیکھے کہ اﷲ عزوجل کے ساتھ ایسے حال کا ادعا کرتاہے جو اسے علم شریعت کی حد سے باہر کرے اس کے پاس نہ پھٹک۔الرسالہ القشیریۃ ذکر ابوالحسین احمد نوری مصطفی البابی مصر ص۲۱
قول ۲۵: سید نا ابوعلی رود باری بغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ خلفائے حضرت جنید بغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں حضرت عارف باﷲ سیدنا استاذ ابوالقاسم قشیری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا: مشائخ میں ان کے برابر علم طریقت کسی کو نہ تھا۔ آپ سے سوال ہواکہ ایك شخص مزامیر سنتاہے اور کہتا ہے یہ میرے لئے حلال ہے اس لئے کہ میں ایسے درجے تك پہنچ گیا ہوں کہ احوال کے اختلاف کا مجھ پر کچھ اثر نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا:
ہاں پہنچا تو ضرور ہے مگر جہنم تک،والعیاذ باﷲ تعالی۔
الرسالۃ القشیریۃ ابوعلی احمد بن محمد رودباری مصطفی البابی مصر ص۲۸
قول ۲۸:حضرت سیدی ابوالقاسم نصرآبادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حضرت سید ناابوبکر شبلی وحضرت سیدنا ابوعلی رودباری رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے اجلہ اصحاب سے ہیں فرماتے ہیں:
تصوف کی جڑیہ ہے کہ کتاب وسنت کو لازم پکڑے رہے۔
الطبقات الکبرٰی للشعرانی ذکر ابی القاسم ابراہیم بن محمد النصرآبادی مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۲۳
قول ۲۹:حضرت سیدی جعفر بن محمد خواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ مریدو خلیفہ حضرت سیدا لطائفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: 
میں کوئی چیز معرفت الٰہی وعلم احکام الٰہی سے بہتر نہیں جانتا۔ اعمال بے علم کے پاك نہیں ہوتے،بے علم کے سب عمل برباد ہیں،علم ہی سے اﷲ کی معرفت ومعرفت اطاعت ہوئی، علم کو وہ ہی ناپسند رکھے گا جو کم بخت ہو۔
الطبقات الکبرٰی للشعرانی ذکرسیدجعفربن محمدالخواص مصطفی البا

بی مصر ۱/ ۱۹۔۱۱۸
قول ۳۱:حضرت سیدنا شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سردار سلسلہ علیہ سہروردیہ اپنی کتاب مستطاب میں فرماتے ہیں:
یعنی کچھ فتنہ کے مارے ہوؤں نے صوفیوں کا لباس پہن لیا ہے کہ صوفی کہلائیں حالانکہ ان کو صوفیہ سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ وہ ضرور غلط میں ہیں بکتے ہیں کہ ان کے دل خالص خدا کی طرف ہوگئے اور یہی مراد کو پہنچ جانا ہے اور رسوم شریعت کی پابند ی عوام کا مرتبہ ہے ان کا یہ خالص الحاد وزندقہ اﷲ کی بارگاہ سے دور کیا جانا ہے اس لئے کہ جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے۔عوارف المعارف الباب التاسع فی ذکر من الصوفیۃ الخ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ص۷۱ و ۷۲
پھرجنید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ جو چوری اور زنا کرے وہ ان لوگوں سے بہتر ہے۔عوارف المعارف الباب التاسع فی ذکر من الصوفیۃ الخ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ص۷۱ و ۷۲
قول ۳۵:نیز حضرت سید محی الدین ابن عربی رضی اﷲ تعالٰی عنہ فتوحات میں فرماتے ہیں: یقین جان کر میزان شرع جو اﷲ عزوجل نے زمین میں مقرر فرمائی ہے وہ یہی ہے جو علماء شریعت کے ہاتھ میں ہے تو جب کبھی کوئی ولی اس میزا ن شرع سے باہر نکلے اور اس کی عقل کہ مدار احکام شرعیہ ہے باقی ہو تو اس پر انکار واجب ہے۔
الیواقیت والجواہر الفصل الرابع مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۶
قول ۳۶:نیز حضرت بحرالحقائق ممدوح رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
یقین جان کہ اولیاء مرشدین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی میزانیں کبھی شریعت سے خطا نہیں کرتیں وہ مخالف شرع سے محفوظ ہیں۔
الیواقیت والجواہر الفصل الرابع مصطفی البابی مصر ص۲۶ و ۲۷
 قول ۴۷:نیز ولی موصوف قدس سرہ فرماتے ہیں:
تصوف کیا ہے بس احکام شریعت پر بندہ کے عمل کا خلاصہ ہے۔
الطبقات الکبرٰی للشعرانی مقدمۃ الکتاب مصطفی البابی مصر ۱/ ۴
 قول ۴۸:پھرفرمایا:علم تصوف چشمہ شریعت سے نکلی ہوئی جھیل ہے۔
 الطبقات الکبرٰی للشعرانی مقدمۃ الکتاب مصطفی البابی مصر ۱/ ۴
قول ۵۱:نیز عارف معروف قدس سرہ فرماتے ہیں:
سچا کشف ہمیشہ شریعت کے مطابق ہی آتا ہے جیسا کہ اس فن کے علماء میں مقرر ہوچکا ہے۔المیزان الکبرٰی فصل فان قال قائل ان احدالا یحتاج الٰی ذوق مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۲
قول ۵۲:حضرت عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی فرماتےہیں:
وہ جو ہمارے زمانے کے بعض صوفی بننے والے ادعا کرتے ہیں کہ اے علم ظاہر والو ! تم اپنے احکام کتا ب وسنت سے لیتے ہو اور ہم خود صاحب قرآن سے لیتے ہیں یہ بالاجماع قطعا بوجوہ کثیرہ کفر ہے ازانجملہ یہ عقل وبلوغ شرائط تکلیف ہوتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم زیراحکام شریعت نہیں۔
یہیں فرمایا:گر علم ظاہر چھوڑ نے سے اس کا نہ سیکھنا اور اس کا اہتمام نہ کرنا مرادلے اس خیال سے کہ علم ظاہر کی طرف حاجت نہیں تو اس نے کلام الٰہی کو احمق بتایا اور انبیاء کو بیوقوف ٹھہرایا، رسولوں کے بھیجنے کتابوں کے اتارنے کو عبث وباطل کی طرف نسبت کیا تو کچھ شك نہیں کہ وہ کافر ہے اور اس کا کفر سب سے سخت تر کفر۔الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ الباب الاول الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۱۵۹
قول ۵۴:حضرت قطب ربانی محبوب یزدانی مخدوم اشرف جہانگیر چشتی سمنانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سردار سلسلہ چشتیہ اشرفیہ فرماتے ہیں:
اگر اوصاف ولایت والے ولی سے خارق عادت ظاہر ہو تو وہ کرامت ہے اور اگر مخالف شریعت سے صادر ہو تو استدارج ہے۔
لطائف اشرفی لطیفہ پنجم مکتبہ سمنانی کراچی ۱/ ۱۲۶
قول ۵۵:ولی جب تك شرعیت کو مکمل طو ر پر نہ اپنائے ولایت میں قدم نہیں رکھ سکتا بلکہ اگر اس کا انکار کرے تو کافر ہے۔(ت)
نفحات الانس ذکر ابی المکارم رکن الدین احمد بن محمد از انتشارات کتابفروشی تہران ایران ص۴۴۳
قول ۵۶:حضرت سیدی شیخ الاسلام احمد نامقی جامی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت سیدی خواجہ مودود چشتی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا:
پہلے عبادت کا مصلی طاق پر رکھ اور جا کر علم حاصل کرکیونکہ جاہل شیطان کا مسخرہ ہوتاہے۔(ت)۔نفحات الانس ذکر خواجہ قطب الدین مودود چشتی انتشارات کتابفروشی تہران ایران ص۳۲۹
قول ۵۷:حضرت مولانا نورالدین جامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں:
اگر لاکھ خارق عادات ظاہر ہوں جب تك ظاہر وباطن شریعت وآداب طریقت کے موافق نہ ہو تو وہ مکر اور استد راج ہوگا ولایت وکرامت کا مصداق نہ ہوگا۔  لطائفاشرفی لطیفہ پنجم مکتبہ سمنانی کراچی١٢٩ /۱۰
فتاویٰ  رضویہ جلد21ص537تا561
مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں کہ جو خلاف شرع کام کرے وہ پیر نہیں کاروباری ہے
بے عمل پیر و جاہل مرید ص 2
حکایت  حضرت بایزید قدس سرہ:
ایک شخص حضرت بایزید کی خدمت میں اس غرض سے آیا کہ وہ آپ کی کرامت ملاحظہ کرے اس نے سمجھا ہوا تھا کہ ولی وہ ہوتا ہے جس سے کرامت کا ظہور ہو حالانکہ یہ غلط ہے، ولی وہ ہوتا ہے جو اتباع رسول کا سر چشمہ اور مظہر ہو خیر وہ اپنے زعم کے مطابق حضرت جنید کی کرامت دیکھنے کیلیے پورا ایک سال آپ کی خدمت میں رہا لیکن اس کو آپ کی کوئی کرامت نظر نہ

آئی تو وہ پراگندہ خاطر ہوکر جانے لگا، آپ نے بڑی محبت اور شفقت سے اس سے پوچھا کہ کیوں کیا بات ہے؟ کیوں جارہے ہو؟ ہم سے تمہارے حق میں کیا قصور سرزد ہوا؟  اس نے کہا قصور تو کوئی نہیں ہوا مگر ایک سال میں مجھے آپ کی کوئی کرامت نظر نہیں آئی، آپ نے فرمایا کہ یہ بتائو  کہ تم نے اس عرصے میں میرا کوئی کام خلاف سنت دیکھا ہے ؟ اس نے برملا کہا ہرگز نہیں ہرگز نہیں! آپ نے فرمایا کہ جائو جنید کی یہی کرامت ہے 
بے عمل پیر و جاہل مرید ص،3
اور اسی صفحہ پر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ
 ہمارے معاشرے میں پیر اسے سمجھا جاتا ہے جو کرامات دکھائے حالانکہ پیری مریدی کیلیے کرامات شرط نہیں شریعت کی پابندی شرط ہے ۔
حکایت بایزید : حضرت بایزید بسطامی کا ایک مرید تھا جو اکثر آپکی خدمت میں حاضر رہتا اسکی عادت تھی کہ وہ تبرک کے طور پر آپ کا پس خوردہ کھاتا اور جانتا کہ میری کشود کار اور نجات اسی میں ہے حضرت بایزید نے اسے فرمایا کہ اگر تو مجھ کو ذبح کرکے میرا گوشت  اور ہڈیاں بھی کھاجائے تو تجھے اتباع رسول کے بغیر کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ صفحہ 3

مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جو داڑھی مونڈتا ہے، خشی داڑھی والا ہے نماز نہیں پڑھتا، حلال و حرام کا امتیاز نہیں رکھتا وغیرہ وغیرہ وہ شرعی روحانی اور حقیقی پیر و مرشد نہیں بلکہ رسمی کاروباری آدمی ہے جن کو ہم اللہ اولیاء کہتے ہیں قیامت میں یہ ان میں سے نہ ہوگا بلکہ یہ دوسری عوام میں ہوگا جن کو اپنی پڑی ہوگی جب یہ خود گم ہو قیامت میں مریدوں کے خاک کام آئے گا جو لوگ خلاف شرع پیروں کے مرید ہورہے ہیں وہ خود سوچ لیں کہ ۔
آنکہ خود گم است کرارہبری کند
ان خلاف شرع پیروں سے دنیوی کا م تو لیتے رہو  مثلاً تعویذات لینا دم درود کرانا دعائیں کرانا یہ ان کا آبائی پیشہ ہے یا وہ اگر سیاست میں حصہ لیتا ہے تو حکومتی امور کیلیے کام کرانا وغیرہ وغیرہ لیکن اولیاء اللہ نہیں بلکہ کاروباری لوگ ہیں جیسے تجارت پیشہ ہے کوئی پیشہ ہے یہ پیری مریدی
 پیشہ ور ہیں ایسے لوگوں سے اسلامی، روحانی، شرعی، حقیقی بیعت ناجائز ہے، ایسے پیروں سے  رسم ادا کرنی ہے تو لوگ جانیں انکا کام جانے ورنہ تمام سلاسل طیبہ کے تمام اولیاء کرام و مشائخ عظام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ خلاف شرع کام  کرنے والا پیرو مرشد بنے کے لائق نہیں نہ اسکی بیعت جائز ہے نہ سلسلہ بیعت کا دعویٰ صحیح وہ سبزی فروشی کی طرح ایک دھندہ ہے بلکہ اس سے بدتر کہ سبزی فروشی اور دیگر پیشہ کا نام  کسب حلال ہے اور خلاف شرع ہوکر رسول اللہ کا نائب بننا اور عوام کو دھوکا دینا ابلیسی شیوہ ہے۔ صفحہ 6
جس شخص کے اخلاق و اطوار، افعال و اقوال، سنتِ رسول خدا کے مطابق نہ ہوں، وہ کسی صورت میں بھی پیر بننے کے لائق نہیں ۔ صفحہ 7
مولانا رومؓ ایسے ہی ڈاکو اور پیشہ ور پیروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ۔
کار شیطان میکند نامش ولی
گرولی ایں است لعنت برولی
کام شیطان کے کرتا ہے ولی کہلاتا ہے اگر ولی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں تو ایسے ولی پر لعنت ہو۔ صفحہ ص 7
غرض یہ کہ پیر و مرشد کا منصب علماء کے 
سوا کسی کو زیب نہیں دیتا لہذا جو عالم دین نہیں اسکی بیعت جائز نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں ۔ صفحہ7
یاد رکھئیے پیر وہی ہے جو شریعت کا تابعدارہو ۔ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی بھی بیعت کے وقت کسی اجنبی عورت کا ہاتھ اپنے دستِ اقدس میں نہ لیا ۔ اصلی اور نقلی پیرص13بحوالہ بخاری
آج کل پیروں کو دیکھیں, عورتوں کے ماتھوں کو ، ہاتھوں کو چھوتے رہتے ہیں ۔ ہاتھوں میں ایک سے زائد انگوٹھیاں پہنتے ہیں  اپنے بالوں کوشانوں سے بھی لمبا کرتے ہیں
 نمازکی بالکل پرواہ نہیں کرتے ۔
ایسے پیرہرگز ہرگز قابل بیعت نہیں نہ ان کی ارادت جائز اور نہ ہی ان سے فیض کا حصول ،جو اَیسوں کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجے وہ حدیث کے مطابق دیُّوث یعنی 
بے غیرت ہے ۔ 
بدمذہب سیّد یا غیرسیّد کا شرعی حکم
: سَیِّد کا لغوی معنیٰ ”سردار“ ہے مگرپاک و ہند میں اِصطلاحاً وہ لوگ سَیِّد کہلاتے ہیں جو حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اَولاد ہیں جبکہ عرب میں ہرمعزز شخص کو ”سَیِّد“ اور امامین حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اَولاد کو ”شریف“ کہا جاتا ہے ۔ اعلیحضرت امامِ اہلسنّت  فرماتے ہیں : سَیِّد“ سبطین کریمین یعنی امامین حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اولاد کو کہتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ،١٣/٣٦١)
اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ: سادات کرام کی تعظیم فرض ہے اور انکی توہین حرام
فتاویٰ رضویہ جلد22ص422 
پھر مزید فرماتے ہیں کہ :
اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ اعلیحضرت فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ کی جائے گی جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔ (پارہ نمبر ۱۲،سورہ ھُود:۴۶)
ترجَمہ : فرمایا اے نو

ح (علیہ السّلام) وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)
مفتی نعیم الدِّین مُراد آبادی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (تفسیر خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)
جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ جان بوجھ کرسید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم فرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،الخ ،حدیث:۱۳۷۰)
مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلا دلیل تکذیب نہیں کر سکتے ، اَللہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)
*سید کفریہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا* 
اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ : جو کافر ہو وہ قطعاً سید نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح
ترجمہ:۔ وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اسکے کام بڑے نالائق ہیں ۔(ت) 
نہ اسے سید کہنا جائز۔
 *منافق کو سید نہ کہو*
نبی علیہ السلام فرماتے ہیں منافق کو سید نہ کہو اگر وہ تمہارا سید ہوتو بیشک تم پر تمہارے رب کا غضب ہو ۔
روایت حاکم کے لفظ یہ ہیں کہ: جو کسی منافق کو اے سید کہے اسنے اپنے رب کا غضب اپنے اوپر لیا ۔
پھر یہی نہیں کہ یہاں صرف اطلاق لفظ سے ممانعت شرعی اور نسب سیادت کا انتقائے حکمی ہو حاشا بلکہ واقع میں کافر اس نسل طیب و طاہر سے تھاہی نہیں اگرچہ سید بنتا اور لوگوں میں براہ غلط سید کہلاتا ہو ائمہ دین اولیاء کاملین علمائے عالمین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین تصریح فرماتے ہیں کہ سادات کرام بحمد اللہ تعالیٰ خباثت کفر سے محفوظ و مصئون ہیں جو واقعی سید ہے اس سے کبھی کفر واقع نہ ہوگا
جیساکہ قرآن پاک میں ہے:
اللہ یہی تو چاہتا ہے کہ تم سے نجاست دور رکھے اے نبی کے گھر والو! اور تمہیں خوب پاک کردے ستھرا کرکے
اعلیحضرت رافضیوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر سے بڑھ کر نفی سیادت پر اور کیا دلیل درکار،
آگے لکھتے ہیں کہ علمائے کرام تصریح فرماچکے کہ سید صحیح النسب سے کفر واقع نہ ہوگا۔ اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ یہ امر تو آسان ہوگیا ہے کہ ہزاروں اپنی اغراض فاسدہ سے براہ دعویٰ سید بن بیٹھے ہیں
غلہ تا ارزاں شود امسال سیدمی شوم
اس سال سید بنوں گا تاکہ خوراک میں آسانی ہو ۔
کوئی عقیدہ کفریہ رکھنے والا رافضی وہابی متصوف نیچری ہرگز سید صحیح النسب نہیں ۔
فتاویٰ رضویہ جلد 15ص731 تا 739
اعلیحضرت امام ابن حجر کے الفاظ نقل فرماتے ہیں کہ 
بے شك میں اس بات پر جزم کرتاہوں کہ صحیح النسب سید سے حقیقی کفر کا وقوع نہیں ہوتا۔الخ(ت)
اوربالفرض نفی خلود ببَلکہ بفرض غلط نفی دخول ہی قطعی مان لی جائے تو کس کےلئے،ان کے لیے جو عند الله سادات کرام ہیں،نہ ہر اس شخص کے لئے جو سید کہلاتاہو اگرچہ واقع میں نہ ہو 
فتاویٰ رضویہ جلد30 ص 77
مفتی خلیل احمد خان قادری مارہروی 
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ غیر سیّد اگر خود کو سیّد کہلاتا ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لعنت کا مستحق ہے اور اس پر جنّت حرام ہے ۔ فتاویٰ خلیلیہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 137
اعلیحضرت سے ایک تفصیلی سوال پوچھا گیا جسکا مختصر یہ ہے کہ تفضیلی شیعہ جو کہ سید ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
اعلیحضرت نے محدثین کے اقوال سے افضلیت صدیق اکبر پر اجماع  نقل کرکے تفضیلی شیعہ جو سید بھی ہو اسکے پیچھے نماز  پڑھنے کو  مکروہ تحریمی فرمایا ہے۔
چنانچہ اعلیحضرت لکھتے ہیں:
(ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز
 شدیدمکروہ ہے۔ت)تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہاور پھیرنی واجب ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 622
۔ متکلمین نے فرمایا اللہ کا ولی وہ ہے جس کا عقیدہ درست ہو، مبنی بر دلیل ہو:
ویکون بالاعمال الصالحة علی وفق ماوردت به  الشریعة.
اور جس کے اعمال شریعت کے مطابقہوں۔ 
(امام فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج: 17، ص: 126)
پوری تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم ان اولیاء کرام کے ماننے والے ہیں  جیسا اللہ و رسول اور شریعت نے ہمیں بتایا ہے۔
اور ہم خود سب سے زیادہ لغویات و منکرات شرعیہ کا رد کرنے والے ہیں جیسا کہ تحقیق پیش ہے  ہم ایسے جعلی اور لٹیرے پیروں سے بیزار ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علامہ فیض احمد اویسی فرماتے ہیں کہ:
نقلی پیروں کے خلاف

آواز بلند کرنا جہاد اکبر ہے۔ اصلی اورنقلی پیرمیں فرق ص,2

*ختم شدہ*_ازقلم_علی_حیدر___________

Edited by سگِ عطار
fixed text formatting and direction
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...