Jump to content

Hazir o Nazir ke Aqeede ki Wazahat chahiye


محمد آفتاب احمد

تجویز کردہ جواب

1)Huzur AAQA Sallallahu ALAIHI WASALLAM ke Duniya mein Tashreef laane se pehle bhi Kya Aap Hazir o Nazir the??

2)Agar Hazir o Nazir the Tab Kya Aap SALLALLAHU ALAIHI WASALLAM  Qabl ke Saare hi Waqiyat ko mushaida farma Rahe the??

3) Agar Jawab Haan hai tab Ulama e Ahlesunnat ke Aqeeda e Ilme ghaib ke mutalliq is MAUQIF se Kya Matlab niklega ke

"Hamara Aqeeda yeh nhi ke Huzur Sallallahu ALAIHI WASALLAM Awwal din se hi saara Ilm e ghaib(Yaani Jitna Aapko Hasil hai ,Mehdood Ilm) Jaante hain balke Jaise Jaise Quran nazil hua waise waise aapke Ilm me izaafa hota rha".

 

Edited by عبدالله قادرى
Link to comment
Share on other sites

Salam alaykum. 

Q2 Jawab: Hazir nazir ka talluq mushayda amaal say heh jo  ilm ghayb ki shakh mushayda alal ghayb ka aik juz banta heh.  Saray ilm ghayb ya yoon kahen kay saray mushayda alal ghayb ka mushayda nahin.

Q3Jawab: Alam e arwah kay ilm ka rabta munkata ho jata heh. Sab arwa nay misaqun nabiyyeen mulaiza farmaya magr us ka ilm aap ko mujjay waghayra ko nahin ... Keun kay alam e arwah say jab alam e jism mein transition huwi toh rabta toot gaya aur joh hamara ilm thah hammen yad nah raha ... Keun kay rooh pehlay jism ku mohtaj nahin thee magr jism mein dali gahi toh maadi jism kay asool o zawabat ki mohtaj aur paband huwi aur rabta alam e arwa say toota ... Is leyeh joh jantay thay woh bhool gay. Issee tara RasoolAllah par bi yeh waqt guzra rabta toota aur joh jantay thay abh yaad na raha. Quran mein moadad baar Allah nay yeh farma kar guzray huway waqiat ki yaad karwahi ... Alam tara ... Kia jantay nahin ... Yeh bhoolay huway ki taraf tawajjoh dalana heh. Allah nay is bhoolay huway tamam ilm ko phir yad karwaya joh lawh e mafooz waghyra ka thah aur woh bi stage by stage jaisay aap nay zikr keeya. 

Hazir nazir ilm ghayb ki aik shaakh heh. Yeh masla bhot confusion paida karta heh aam banday wasteh. English section mein khadam say is ko suljanay kay wasteh kaam shoroon keeya huwa heh ... Check keren. 

Edited by MuhammedAli
Link to comment
Share on other sites

عقیدہ حاضر و ناظر

حاضروناظر کا معنی
 مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں: الناظر فی المقلۃ السواد الاصغر الذی فیہ الماء العین۔ 
(المختار الصحاح ص 491)


جہاں تک  ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ تک ہماری دسترس ہو کہ تصرف کرلیں وہاں تک  ہم حاضر ہیں۔

روح اعظم کی کائنات میں جلوہ گری
 نبی اکرم ﷺ کے لیے لفظ حاضروناظر بولا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی بشریت مطہرہ اور جسم خاص ہر جگہ ہر شخص کے سامنے موجود ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنے مقام رفیع پر فائز ہونے کے باوجود تمام کائنات کو ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ملاحظہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے اعتبار سے بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوسکتے ہیں اور اولیائے کرام بیداری میں آپ کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور انور ﷺ بھی انہیں نظر رحمت و عنایت سے مسرور و محفوظ فرماتے ہیں۔ 
گویا حضور ﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا، سرکار کے حاضروناظر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھناحضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ عقیدہ ظنیہ اور از قبیل فضائل ہے۔ اس کے لیے دلائل قطعیہ کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ دلائل ظنیہ بھی مقید مقصد ہیں۔ 

قرآن سے ثبوت
1: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یایھاالنبی انا ارسلنک شاھدا 

الاحزاب 33
اے غیب کی خبریں دینے والے بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضروناظر ۔
علامہ ابوالسعود اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اے نبی! ہم نے تمہیں ان لوگوں پر شاہد (حاضروناظر) بنا کر بھیجا جن کی طرف آپ مبعوث ہیں۔ آپ ان کے احوال و اعمال کا مشاہدہ اور نگرانی کرتے ہیں۔ آپ ان سے صادر ہونے والی تصدیق و تکذیب اور ہدایت و ضلالت کے بارے میں گواہی حاصل کرتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے حق میں یا ان کے خلاف جو گواہی آپ دیں گے مقبول ہوگی۔

تفسیر ابوالسعود ج 7 ص 42، احیاء التراث العربی، بیروت

علامہ سلمان جمل نے الفتوحات الالٰہیہ ج 2 ص 442 اور علامہ سید محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی ج 22 ص 45 میں یہی تفسیر کی ہے۔

امام محی السنۃ علاءالدین خازن رحمہ اللہ علیہ نے نے ایک تفسیر یہ بیان کی ہے
شاھدا علی الخلق کلھم یوم القیامۃ۔ 
آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے۔ 
(تفسیر لباب التاویل فی معانی التنزیل ج 5 ص 266، مصطفیٰ البابی مصر)

نبی اکرم ﷺ کی دعوت اسلام ہرمومن و کافر کو شامل ہے۔ لہذا امت دعوت میں ہر مومن و کافر داخل ہے۔ البتہ! امت اجابت میں صرف وہ خوش قسمت افراد داخل ہیں جو حضور ﷺ کی دعوت پر مشرف بااسلام ہوئے۔ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علی من بعثت الیھم (جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا) اور علی الخلق کلھم کہہ کر حضرات مفسرین نے اشارہ کیا ہے کہ آپ صرف اہل ایمان کو ہی نہیں، بلکہ کافروں کے احوال بھی مشاہدہ فرمارہے ہیں۔ اسی لیے آپ مومنوں کے حق میں اور کافروں کے خلاف گواہی دیں گے۔
امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے فرمان شاھدا میں کئی احتمال ہیں (پہلا احتمال یہ ہے کہ )آپ قیامت کے دن مخلوق پر گواہی دینے والے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ویکون الرسول علیکم شھیدا (رسول تم پر گواہ ہوں گے اور نگہبان) اس بنا پر نبی اکرم ﷺ شاہد بنا کر بھیجے گئے ہیں، یعنی آپ گواہ بنتے ہیں اور آخرت میں آپ شہید ہوں گے یعنی اس گواہی کو ادا کریں گے جس کے آپ حامل بنے تھے۔
📘 ( تفسیر کبیر ج 25 ص 216)

علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں
رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا مطلب یہ ہے کہ اس ظاہر و باطن میں آپ ﷺ کی سنت کی حقیقی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ آپ موجودات کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔ آپ ہی محبوب ازلی ہیں، باقی تمام مخلوق آپ کے تابع ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔

چونکہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی پہلی مخلوق ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ربوبیت کے شاہد ہیں اور عدم سے وجود کی طرف نکالی جانے والی تمام ارواح ، نفوس، احرام و ارکان، اجسام و اجساد، معدنیات ، نباتات، حیوانات، فرشتوں، جنات، شیاطین اور انسانوں وغیرہ کےشاہد ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کے اسرار عجائب صنعت اور غرائب قدرت میں سے جس چیز کا ادراک مخلوق کے لیے ممکن ہو وہ آپ کے مشاہدہ سے خارج نہ رہے، آپ کو ایسا مشاہدہ عطا کیا کہ کوئی دوسرا اس میں آ پ کے ساتھ شریک  نہیں ہے۔
اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
علمت ماکان وما یکون (ہم نے جان لیا وہ سب جو ہوچکا اور جو ہوگا) کیونکہ آپ نے سب کا مشاہدہ کیا۔ اور ایک لمحہ بھی غائب نہیں رہے۔ آپ نے آدم علیہ السلام کی پیدائش ملاحظہ فرمائی، اسی لیے فرمایا: ہم اس وقت بھی نبی تھے جب کہ آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے، یعنی ہم پیدا ہوگئے تھے اور جانتے تھے کہ ہم نبی ہیں اور ہمارے لیے نبوت کا حکم کیا گیا ہے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا جسم اور ان کی روح ابھی پیدا نہیں کی گئی تھی۔
 آپ نے ان کی پیدائش، اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کیا اور خلاف ورزی کی بنا پر جنت سے نکالا جانا ملاحظہ فرمایا:
آپ نے ابلیس کی پیدائش دیکھی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے سبب اس پر جو کچھ گزرا ، اسے راندہ درگاہ اور ملعون قرار دیا گیا، سب کچھ ملاحظہ فرمایا، ایک حکم کی مخالفت کی بنا پر اس کی طویل عبادت اور وسیع علم رائگاں گیا۔ انبیاء ورسل اور ان کی امتوں پر وارد ہونے والے حالات کے علوم آپ کو حاصل ہوئے۔
📘 (روح البیان ج 9 ص 18)

ویکون الرسول علیکم شھیدا۔
 اور یہ رسول تمہارے گواہ (اور حاضروناظر ہیں)
 (البقرہ آیت 143)
علامہ اسماعیل حقی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہم الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
رسول اللہ ﷺ کے گواہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نور نبوت کے ذریعہ ہر دیندار کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس کے دین کا مرتبہ کیا ہے ، اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور اس حجاب کو بھی جانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمال دین سے روک دیا گیا ہے۔ پس آپ امتیوں کے گناہ، ان کے ایمان کی حقیقت، ان کے اعمال ، نیکیوں، برائیوں اور اخلاص و نفاق وغیرہ کو جانتے ہیں۔   

روح البیان ج  9 ص248
 تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 518

امام ابن الحاج فرماتے ہیں
نبی اکرم ﷺ اپنی امت کو ملاحظہ فرماتےہیں۔ ان کے احوال نیتوں، عزائم اور خیالات کو جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کی حیات مبارکہ اور وصال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ آپ پر عیاں ہے اور اس میں کچھ اخفا نہیں ہے۔

(المدخل، ج 1 ص 262، )

وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔
 اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔ 
(النساء 41)
ان آیات مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کو شاہد اور شہید کہا گیا ہے۔ ان دونوں کا مصدر شہود اور شہادت ہے۔
 آئیے دیکھیں کہ علماء لغت اور ائمہ دین نے اس کا کیا معنی بیان کیا ہے
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں
الشھود والشھادۃ الحضور مع المشاھدۃ اما بالبصر او بالبصیرۃ والشھادۃ قول صادر عن علم حصل بمشاھدۃ بصیرۃ او بصر۔۔۔ واما الشھید فقد یقال للشاھد والمشاھد للشئ وکذا قولہ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھؤلاء شھید۔
ترجمہ: شہود اور شہادۃ کا معنی مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ مشاہدہ آنکھ سے ہو یا بصیرت سے شہادت اس قول کو کہتے ہیں جو آنکھ یا بصیرت کے مشاہدہ سےحاصل ہونے والے علم کی بنا پر صادر ہو، رہا شہید تو وہ گواہ اور شے کا مشاہدہ کرنے والے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہی معنی ہے (جس کا ترجمہ ہے) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔

( المفردات ص 269، 70)

امام رازی فرماتے ہیں
شہادت ، مشاہدہ اور شہود کا معنی دیکھنا ہے، جب تم کسی چیز کو دیکھو تو تم کہتے ہو شھدت کذا (میں نے فلاں چیز دیکھی) چونکہ آنکھ کے دیکھنے اور دل کے پہچاننے میں شدید مناسبت ہے، اس دل کی معرفت اور پہچان کو بھی مشاہدہ اور شہود بھی کہا جاتا ہے۔
(تفسیر کبیر ج 4 ص 113، 114)

امام قرطبی فرماتے ہیں
شہادت کی تین شرطیں ہیں جن کے بغیر وہ مکمل نہیں ہوتی
 1: حاضر ہونا 
2: جو کچھ دیکھا ہے اسے محفوظ رکھنا
3: گواہی کا ادا کرنا 
📘( التذکرہ ص 183)

امام ابوالقاسم قشیری فرماتے ہیں
ومعنی الشاھد الحاضر فکل ما ھو حاضر قلبک فھو شاھد لک

(الرسالہ القشیریہ ص 47)

قرآن پاک سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شاہد ہیں اور شاہد کا معنی حاضر ہے جیسے کہ امام قشیری نے فرمایا کہ امام اصفہانی کے مطابق شہادت کا معنی حضور مع المشاہدہ ہے۔ خواہ مشاہدہ سر کی آنکھوں سے ہو یا دل کی بصیرت سے۔
کہنے دیجیے کہ قرآن پاک  کی آیات سے ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نےحاضروناظر بنایا ہے۔
 اس عقیدے کو اپنی نادانی کی بنا پر کوئی شخص نہیں مانتا تو بے شک نہ مانے لیکن اسے شرک قرار دینے کا کوئی قطعا جواز نہیں ہے۔
حضور ﷺ کس کی نسبت سے حاضروناظر ہیں؟
 اس سے پہلے مستند تفاسیر کے حوالہ سے بیان کیا جاچکا ہے۔  امام رازی اور امام خازن نے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے، امام ابوسعود نے فرمایا: جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے جو امام رازی نے بیان کیا کیونکہ حدیث پاک میں ہے:
ارسلت الی الخلق ۔ ہم تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ 
(صحیح مسلم حدیث نمبر 1167، ج 2)

مخالفین کہتے ہیں کہ شاہد اور شہید کے الفاظ دوسرے لوگوں کے لیے بھی وارد ہوئے ہیں کیا آپ انہیں بھی نبی اکرم ﷺ کی طرح حاضروناظر مانیں گے؟

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر شاہد اپنی شہادت کے دائرہ کار تک حاضروناظر رہتا ہے، نبی اکرم ﷺ تو تمام امت اور تمام مخلوق کے شاہد ہیں، کوئی ایسا شاہد نہیں پیش کیا جاسکتا جس کی شہادت کا دائرہ اتنا وسیع ہو، لہذا نبی اکرم ﷺ کی طرح کسی کو حاضروناظر ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم۔
(الاحزاب آیت 6)
علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا
النبی اولی) ای احق واقرب الیھم (من انفسھم) 
نبی ان کی جانوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کے زیادہ قریب ہیں۔
 (روح المعانی ج 21 ص 151)

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے
پیغمبر نزدیک تر است بمومناں از ذات ہائے ایشاں۔ 
(مدارج النبوۃ فارسی ج 1 ص 81)
پیغمبر مومنوں کے زیادہ قریب ہیں ان کی ذوات سے بھی۔

دیوبندی مکتب فکر کا پہلا امام قاسم نانوتوی کہتا ہے
النبی اولی بالمومنین من انفسھم جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نزدیک ہے مومنوں سے بہ نسبت ان کی جانوں کے یعنی ان کی جانیں ان سے اتنی نزدیک نہیں جتنا نبی ان سے نزدیک ہے۔ اصل معنی اولیٰ کے اقرب ہیں۔

(آب حیات ، ص 73
تحذیرالناس ص 10)

اللہ اکبر! عقیدہ حاضروناظر کی کتنی کھلی تائید اور ترجمانی ہے۔ اب بھی اگر کوئی شخص نہ مانے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے؟
کیا یہ قرب صرف صحابہ کرام سے خاص تھا یا قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کو شامل ہے؟ 
اس سلسلےمیں امام بخاری کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں۔
ما من مومن الا وانا الناس بہ فی الدنیا والاخرۃ
ہم دنیا اور آخرت میں دوسرے تمام لوگوں کی نسبت ہرمومن کے زیادہ قریب ہیں۔ 
(صحیح البخاری ج 2 ص 705، حدیث نمبر 2399)

 

Link to comment
Share on other sites

 

*عقیدہ حاضر و ناظر*
 *احادیث مبارکہ کی روشنی میں*

حدثنا ابو نعیم: قال، حدثنا الاعمش، عن شفیق بن سلمۃ، قال: قال عبداللہ:  کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ ، قلنا السلام علی جبریل، ومیکائیل، السلام علی فلان وفلان، فالتفت الینا رسول اللہ ﷺ فقال: ان اللہ ھو السلام ، فاذا صلی  احدکم فلیقل التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عبادللہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللہ صالح فی السماء والارض  اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ
📘 (بخاری حدیث نمبر 831)

جب ہم نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے سلام ہو جبرائیل اور میکائل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر ۔ نبی کریم ﷺ ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود  سلام ہے۔ (تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو) اس لیے جب تم میں سے کوئی سلام نماز پڑھے تو یہ کہے : تمام عبادات قولیہ، فعلیہ اور مالیہ اللہ تعالیٰ کے لیے، اے نبی ! آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہم پر اور اللہ تعالیٰ کےتمام نیک بندوں پر سلام۔ جب تم یہ کلمات کہو گے تو اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان میں رہنے والے ہر نیک بندے کو پہنچیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔

غورکیجیے کہ نماز پڑھنے والا شرق و غرب، بحروبر، زمین یا فضا جہاں بھی نماز پڑھے۔ اس کے لیے سرکار دو عالم ﷺ کا حکم ہے کہ اپنی تمام عبادتوں کا ہدیہ بارگاہ الٰہی میں پیش کرنے کے بعد بصیغہ خطاب و نداء نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ سلام پیش کرے۔

یہ خیال ہرگز نہ کیا جائے کہ ہمارا سلام نبی اکرم ﷺ کو نہیں پہنچتا۔ محض خیالی صورت سامنے رکھ کر سلام عرض کیا جارہا ہے۔ کیونکہ امام بخاری کی روایت کردہ حدیث مذکورہ کے مطابق جب ہر نیک بندے کو سلام پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حبیب اکرم ﷺ کو کیوں نہیں پہنچتا؟

اس جگہ سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ روش کلام کے مطابق غائب کا صیغہ السلام علی النبی لانا چاہیے تھا، خطاب کا صیغہ (السلام علیک ایھا النبی )کیوں لایا گیا ہے؟ 
علامہ طیبی نےجواب دیا کہ ہم ان کلمات کی پیروی کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو سکھائے ۔
دوسرا جواب یہ ہے جسے علامہ بدرالدین عینی علامہ ابن حجر عسقلانی اور دیگر شارحین حدیث نے نقل کیا، حسب ذیل ہے:
ارباب معرفت کے طریقے پر کہا جاسکتا ہے کہ جب نمازیوں نے التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو انہی کی لایموت کے دربار میں حاضر ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ مناجات کی بدولت ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، انہیں آگاہ کیا گیا، کہ یہ سعادت نبی رحمت ﷺ اور آپ کی پیروی کی برکت سے ہے۔
اچانک انہوں نے توجہ کی تو پتہ چلا کہ الحبیب فی حرم الحبیب حاضر محبوب کریم رب کی بارگاہ میں حاضر ہیں تو السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے آپ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ 
📘(عمدۃ القاری ج 2 ص 111،
📘 فتح الباری ج 2 ص 250،
📘 شرح مواہب لدنیہ ج 7 ص 377،
📘 السعایہ فی کشف شرح الوقایہ ج 2 ص 227)

*علامہ عبدالحی لکھنوی مذکورہ بالا تقریر کے بعد فرماتے ہیں:*
میرے والد علام  اور استاذ جلیل (علامہ عبدالحکیم لکھنوی) اپنے رسالہ نور الایمان بزیارۃ آثار حبیب الرحمن میں فرماتے ہیں کہ التحیات میں صیغہ خطاب (السلام علیک ایھا النبی)  لانے کا راز یہ ہے کہ گویا حقیقت محمدیہ ہر وجود میں جاری و ساری اور ہر بندے کے باطن میں حاضر ہے۔ اس حالت کا کامل طور پر انکشاف نماز کی حالت میں ہوتا ہے لہذا محل خطاب ہوگیا۔
📘 (الساعیہ ج 2 ص 228)

دراصل یہ روحانیت کا مسئلہ ہے ، جس شخص کا روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو، جسے معرفت کے ساتھ کوئی علاقہ ہی نہ ہو وہ اس مسئلے کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارا روئے سخن بھی ان کی طرف نہیں ہے، ہمارا تو خطاب ہی ان لوگوں سے ہے جو اولیائے کرام اور انبیاء عظام کی روحانی عظمتوں کو ماننے والے ہیں۔

*شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:*
آنحضرت ﷺ ہمیشہ تمام احوال و واقعات میں مومنوں کے پیش نظر اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، خصوصاعبادت کی حالت میں اور (بالخصوص) اس کے آخر میں نورانیت اور انکشاف کا وجود ان احوال میں بہت زیادہ اور نہایت قوی ہوتا ہے۔
بعض عارفوں نے فرمایا کہ یہ خطاب اس بنا پر ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے ذروں اور افراد ممکنات میں جاری و ساری ہے، پس آنحضرت ﷺ نمازیوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہیں۔ 
لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس حقیقت سے آگاہ رہے اور نبی اکرم ﷺ کے اس حاضر ہونے سے غافل نہ رہے۔ تاکہ قرب کے انوار اور معرفت کے اسرار سے منور اور فیض یاب ہو۔ 
📘(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 401،
📘 تیسیرالقاری شرح بخاری ج 1 ص 172، 173)

لطف کی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین کے امام اور پیشوا نواب صدیق حسن خاں بھوپالی نے مسک الختام شرح بلوغ المرام ج 1 ص 244 میں بعینہ یہی عبارت درج کی ہے۔
اس مقام پر تھوڑی دیر کے لیے ہم غیرمقلدین سے صرف اتنا پوچھتے ہیں کہ
 عقیدہ حاضروناظر کی بنا پر تم اہلسنت کو مشرک کہتے ہو ، کیا ان کےساتھ نواب بھوپالی کو بھی زمرہ مشرکین میں کرو گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

اس جگہ مخالفین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ
 تشہد سے حاضروناظر کے عقیدہ پر استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں یہ التحیات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد ہم السلام علی النبی پڑھنے لگے۔ 
*اس کا جواب حضرت ملا علی قاری کی زبانی سنیے،* وہ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات ظاہرہ میں السلام علیک ایھاالنبی پڑھا کرتے تھے، جب آپ کا وصال مبارک ہوگیا تو ہم السلام علی النبی کہتے تھے۔ یہ امام ابوعوانہ کی روایت ہے، امام بخاری  کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت ابن مسعود کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ ان کے شاگرد راوی نے جو کچھ سمجھا وہ بیان کردیا۔
امام بخاری کی روایت میں ہے فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی  
(حدیث نمبر 6265) 

جب نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوگیا تو ہم نے کہا السلام یعنی نبی اکرم ﷺ پر (لفظ یعنی بتارہا ہے کہ بعد میں کسی نے وضاحت کی ہے) اس قول میں دو احتمال ہیں:
1: یہ کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں بصیغہ خطاب سلام کرتے تھے۔ اسی طرح وصال کے بعد کہتے رہے۔
2: ہم نے خطاب چھوڑ دیا تھا۔ جب لفظوں میں متعدد احتمال ہیں تو دلالت (قطعی) نہ رہی، اسی طرح علامہ ابن حجر نے فرمایا۔ 
📘( المرقاۃ ج 2 ص 332)

*علامہ عبدالحی لکھنوی اپنے والد ماجد علامہ عبدالحلیم لکھنوی کے حوالے سے اس روایت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:*
یہ روایت دوسری روایات کے مخالف ہے جن میں یہ کلمات نہیں ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی نبی اکرم ﷺ کی تعلیم کی بنا پر نہیں ہے۔ کیونکہ ابن مسعود نے فرمایا ہم نے کہا: السلام علی۔
📘 (السعایہ ج 2 ص 228)

یہی سبب ہے کہ جمہور علماء کرام اور ائمہ اربعہ نے اس طریقے کو اختیار نہیں کیا،  بلکہ وہی تشہد پڑھتے رہے ہیں جس میں السلام علیک ایھاالنبی ہے۔

*دوسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ*
 ہم نبی اکرم ﷺ کو خطاب کر کے سلام عرض ہی نہیں کرتے، ہم تو واقعہ معراج کی حکایت اور نقل کرتے ہوئے یہ کلمات ادا کرتے ہیں اور بس لہذا ہم پر عقیدہ حاضروناظر ماننا لازم نہیں آتا۔
*اس اشکال کے کئی جواب ہیں:*
جس روایت کی بنا پر التحیات کے سلام کو واقعہ معراج کی حکایت کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں دیوبندی مکتب فکر کے مولوی انور شاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس کی سند نہیں ملی۔ 
📘(عرف الشذی ص 139)

2: جب التحیات میں حکایت اور نقل ہی مقصود ہے تو التحیات اللہ والصلوات والطیبات بھی بطور حکایت ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے سے اعراض کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہدیہ عبادات بھی پیش نہ ہوگا۔ امام احمد رضا قادری نے کیا خوب فرمایا ہے:
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

3: ابھی بخاری شریف کی حدیث گزری ہے کہ جب تم یہ کلمات کہتے ہو تو زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو سلام پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر آپ کے قول کے مطابق سلام کہا ہی نہیں گیا، محض واقعہ معراج کی حکایت اور نقل کی گئی ہے تو ہر بندہ صالح کو سلام پہنچنے کا کیا مطلب؟ 
ماننا پڑے گا کہ ہر غازی حضور ﷺ اور اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے اور پیش کرتا ہے۔ اسی کو انشاء اسلام کہتے ہیں۔

4: ہمارے فقہاء کرام نے تصریح کردی ہے کہ انشاء اسلام کا ارادہ ہونا چاہیے نہ کہ حکایت کا۔
درمختار میں ہے:
نمازی تشہد کے الفاظ سے ان معانی کا قصد کرے جو ان الفاظ سے مراد ہے اور یہ قصد بطور انشاء ہو، گویا وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تحفے پیش کررہا ہے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر، اپنی ذات پر اولیاءاللہ پر سلام پیش کررہا ہے ۔اخبار اور حکایت سلام کی نیت ہرگز نہ کرے۔ 
📘(الدر المختار ج 1 ص 77)

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...