Jump to content

والدین کے بلانے پر نماز توڑ دینے والی روایت کی تحقیق


Aquib Rizvi

تجویز کردہ جواب

★تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال★

 

الـســــــوال ↓↓↓↓↓

 

 

☆اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ☆

 

نماز کی حالت میں ماں کے آواز دینے پر نماز توڑ دینے والی روایت کی تحقیق فرما دیں کیا یہ روایت صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو کیا یہ ہر نماز کے لئے ہے یا کسی نماز کے ساتھ خاص ہے مکمل تفصیل بتا دیں اور کیا باپ کے بلانے پر بھی نماز توڑ سکتے ہیں ؟؟ جزاک اللہ

 

❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖

 

 

📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب

 

اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ

 

★وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ★

 

┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄

 

روایـتــــ کــی مـکمــل تحـقیـق درج ذیـــل ہـــے ⇊

 

✍️ یہ روایت متصلاً ہمیں دو قسم کے الفاظوں کے ساتھ ملتی ہے👇

امام بیہقیؒ (المتوفى: 458هـ) نے فرمایا

 

7497 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، أنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، نا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، نا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ تُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، لَأَجَبْتُهَا: لَبَّيْكِ " يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ ضَعِيفٌ

 

📓شعب الإيمان 10/284

📒كتاب مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري 1/210

 

اور جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت مشہور ہے 👇

 

 

امام ابن الجوزیؒ (المتوفى: 597هـ) نے فرمایا

 

25 - أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَ أَبُو بَكْرٍ الْخَيَّاطُ، قَالَ: أَنْبَأَ ابْنُ دُوسْتَ الْعَلَّافُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُنَادِي، قثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قثنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قثنا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُوَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْقَ بْن عَلِيٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ *فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ:* يَا مُحَمَّدُ لَقُلْتُ لَبَّيْكِ "

 

📙كتاب البر والصلة لابن الجوزي ص57

📕كتاب كنز العمال 16/470

 

 

ترجمہ: اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ﷺ ، تو میں جواباً لبیک کہتا

 

============================

 

اس حدیث کی سند کا دارومدار  ياسين بن معاذ پر ہے جو روایت کرتا ہے عبد الله بن قریر اور وہ روایت کرتے ہیں طلق بن علی سے

 

عبداللہ کے والد کا نام مختلف اسانید میں

محرف آیا ہے مرثد ٫ قرین ٫ قوید مگر اصل نام  قُرَیر) ہے )

 

ملاحظہ ہو 👇

 

📗 الاکمال لابن ماکولا (7/ 84)

 

============================

‼️ متصل سند میں یاسین بن معاذ سخت ترین مجروح راوی ہے اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ملاحظہ ہو 👇

 

◈ محمد بن إسماعيل البخاريؒ : *منكر الحديث*

◈ مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ : *منكر الحديث*

◈ أحمد بن شعيب النسائيؒ : *متروك الحديث*

◈ أبو بكر البيهقيؒ : *متروك، وضعيف*

◈ أبو حاتم بن حبانؒ البستي : يروى الموضوعات عن الثقات، وينفرد بالمعضلات عن الأثبات، لا يجوز الاحتجاج به

 

خلاصہ یہ ہوا کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے اس کی روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور وہ قابل اعتبار بھی نہیں

 

 

مزید اس سند کو نقل کر کے ائمہ نے کیا فرمایا 👇

 

◉ امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا 👇

 

هَذَا مَوْضُوع عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ ياسين

 

📓 كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/85

 

 

◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا 👇

 

مَوْضُوع: آفَتُهُ ياسين (قُلْتُ) أخرجه الْبَيْهَقِيّ وَالله أعلم.

 

📕 كتاب اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250

 

 

◉ امام محمد طاہر الفَتَّنِيؒ نے فرمایا 👇

 

مَوْضُوع قلت أخرجه الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز هُوَ حَدِيث طلق عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ وَفِيه يس بن معَاذ يروي الموضوعات قلت قَالَ الْبَيْهَقِيّ ضَعِيف

 

📙 كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص202

 

 

‼️ ائمہ جرح و تعدیل و محدثین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ روایت متصلاً ہرگز قابل احتجاج نہیں اور قابل اعتبار نہیں

 

◉➻═════════════➻◉

 

✍️ ہاں مگر اس طرح کی روایت کو مرسلاً بھی دو طرق سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ⇊

 

 

8013 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ»

 

📓 مصنف ابن أبي شيبة 2/191

 

8014 - حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: «إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ»

 

📕 مصنف ابن أبي شيبة 2/191

📗 شعب الإيمان 10/285

 

 

ترجمہ: امام ابن ابی شیبہؒ نے محمد بن المنکدرؒ اور مکحولؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ

 

 

[ ھذا حدیث مرسل صحیح ]

 

============================

 

‼️ جیسا کہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے البتہ متصلاً جو الفاظ ہیں وہ ہرگز قابل احتجاج اور اعتبار نہیں

 

مرسل حدیث پر مطلقاً ضعیف ہونے کا حکم دور حاضر کے وہابی غیرمقلدین لگاتے ہیں

 

🌟 جب کہ مرسل تمام صحابہ کرامؓ و تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں حجت ہے البتہ امام شافعیؒ کے ہاں مرسل معتضد حجت ہے

 

 

اس موضوع پر جامع اور مفصل تحریر لکھی جا سکتی ہے مرسل کی حجیت پر مگر اختصاراً ایک دلیل ہی عرض کر دیتا ہوں 👇

 

وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ

 

ترجمہ: علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔

 

📓 كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/223

 

 

‼️ جیسا کہ واضح ہوگیا کہ تمام تابعینؒ کا مرسل کی حجیت پر اتفاق تھا اسی طرح مذہب احناف مالکیہ اور حنابلہ کا بھی لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ مرسل حجت ہے اور یہ حدیث مرسل صحیح ہے

 

❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖

 

 

خـــــــــــــلاصـــــــــــــہ کـــــــــــــــــــلام

 

 

✍️ چناچہ پوری تحقیق سے ثابت ہوا کہ جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت متصلاً ملتی ہے وہ صحیح نہیں البتہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے

 

1 جیسا کہ بتایا گیا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے 👇

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ

 

2 جی بالکل یہ روایت نوافل نماز کے ساتھ خاص ہے ہاں البتہ فرض نماز بھی اگر پڑھ رہا ہو اور والدین مصیبت میں پکاریں تو پھر یہ حکم فرض کا ہے کہ وہ نماز ترک کر دے اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے اور اگر کسی سخت ضرورت اور مدد کے لیے نہ پکاریں تو فرض نماز توڑنا جائز نہیں

 

اگر نفل نماز پڑھ رہا ہے اور والدین کو معلوم نہیں کہ بیٹا نماز پڑھ رہا ہے تو ان کے پکارنے یا آواز دینے پر نماز توڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے

 

اور اگر انہیں معلوم ہے تو پھر تلاوت کو بلند کرے یا سبحان اللہ کہہ کر احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے

 

3 جی بالکل باپ کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا اگر فرض ہو اور سخت مصیبت اور پریشانی میں بلائے تو ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اگر نفل ہو اور ان کو معلوم نہ ہو تو پھر بلائیں تو پھر ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اور اگر ان کو معلوم ہو تو احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے

 

دلیل ملاحظہ ہو 👇

 

"قلت: لکن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز وبه صرح في الإمداد بقوله: أي: لایجوز قطعها بنداء أحد أبویه من غیر استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لایجوز إلا لضرورة، وقال الطحطاوي: هذا في الفرض، وإن کان في نافلة إن علم أحد أبویه أنه في الصلاة وناداه لا بأس أن لایجیبه، وإن لم یعلم یجیبه قوله: إلا في النفل أي فیجیبه وجوبًا و إن لم یستغث لأنه لیم عابد بني إسرائیل علی ترکه الإجابة وقال ﷺ ما معناه: لو کان فقیهًا لأجاب أمّه، وهذا إن لم یعلم أنه یصلي، فإن علم لاتجب الإجابة لکنّها أولی کما یستفاد من قوله: لا باس"

 

📓 كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين 1/654

📕كتاب مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص138

📙كتاب حاشية الطحطاوي ص372

 

╭┄┅─══════════════─┅┄╮

  ༻◉ لبیک یا رسول اللہ ﷺ ◉༺

  ╰┄┅─══════════════─┅┄╯

 

 

فقـــــــــــــط واللہ ورسولـــــــــــــہٗ اعلـــــــــم

 

____خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی____★᭄🌸

 

20210804_235003.png

20210804_235012.png

20210804_235025.png

20210804_235034.png

20210804_235048.png

20210804_235058.png

20210804_234942.png

20210804_234954.png

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

امام محمد بن المنکدر کو خاص استثناء بھی حاصل ہے 

محمد بن منکدر کی مراسیل کو امام ابن عيينة نے قبول کیا ہے یعنی یہ آپ کو خاص استثناء حاصل ہے جیسا کہ سعید بن مسیب اور دیکر کبار تابعین کی مراسیل کو آئمہ نے قبول کیا ہے

كتاب تهذيب التهذيب 9/475📙

 

لہذا اگر اوپر تحریر میں مراسیل کی حجیت کے دلائل کو دیکھنے کے باوجود بھی کوئی وہابی کہے کہ ہم نہیں مانتے تو اب تو اسے ماننا ہی ہوگا کیونکہ محمد ابن منکدر کی مراسیل کو جلیل القدر ائمہ اور محدثین میں سے ایک امام سفیان بن عیینه نے قبول کیا ہے

20210929_102239.png

Notes_210929_102556_b2d.jpg

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...