محمد عاقب حسین Posted September 28, 2021 Report Share Posted September 28, 2021 ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ ◉◎➻═•━══→﷽←══•━═➻◎◉ آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓 اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒 اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں ★ محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه ★ أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه ★ أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث ★ الدارقطني :- ضعيف الحديث ★ يحيى بن معين :- له احاديث منكرة ★ ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث ★ أبو بكر البيهقي :- ضعيف روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕 البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙 شعب الایمان للبیہقی 9/508📒 مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓 جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗 ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار الهجر📔 اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے ❖◉➻════════════════➻◉❖ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی 2 Quote Link to comment Share on other sites More sharing options...
محمد عاقب حسین Posted October 18, 2021 Author Report Share Posted October 18, 2021 Quote Link to comment Share on other sites More sharing options...
Muhammad hasanraz Posted October 31, 2021 Report Share Posted October 31, 2021 On 9/28/2021 at 2:00 PM, Aquib Rizvi said: ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ ◉◎➻═•━══→﷽←══•━═➻◎◉ آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓 اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒 اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں ★ محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه ★ أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه ★ أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث ★ الدارقطني :- ضعيف الحديث ★ يحيى بن معين :- له احاديث منكرة ★ ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث ★ أبو بكر البيهقي :- ضعيف روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕 البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙 شعب الایمان للبیہقی 9/508📒 مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓 جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗 ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار الهجر📔 اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے ❖◉➻════════════════➻◉❖ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی ماشااللہ Quote Link to comment Share on other sites More sharing options...
محمد عاقب حسین Posted March 30, 2022 Author Report Share Posted March 30, 2022 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوپر پیش کی گئی تحقیق میں میں نے اس روایت کو بیان کرنے کی اجازت دی تھی جو کہ میرا تقریباً ایک سال پرانا سابقہ مؤقف تھا میں اپنے اس مؤقف سے رجوع کرتا ہوں کیونکہ یہ روایت شدید ضعیف ہے اور اس کو بیان کرنے میں سلام بن سلم أبو عبد الله الطویل کا تفرد ہے اور یہ راوی چونکہ متروک الحدیث ہے اسی لیے یہ روایت شدید ضعیف ہے اور شدید ضعیف روایت کو شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر ائمہ کے اصول کے مطابق فضائل میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی وگرنہ اسے رد کر دیا جائے گا وہ شرائط ملاحظہ ہوں أَنْ يَكُونَ الضَّعْفُ غَيْرَ شَدِيدٍ، فَيَخْرُجُ مَنِ انْفَرَدَ مِنَ الْكَذَّابِينَ وَالْمُتَّهَمِينَ بِالْكَذِبِ، وَمَنْ فَحُشَ غَلَطُهُ، نَقَلَ الْعَلَائِيُّ الِاتِّفَاقَ عَلَيْهِ ترجمہ: اس کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں امام صلاح الدین علائی رحمہ اللہ نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے [ كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/351 ] [ كتاب القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص255 ] اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ متروک الحدیث راوی کی روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں جاء في تدريب الراوي في شرح تقريب النووي: 1/409 [ وإذا قالوا متروك الحديث أو واهيه، أو كذاب فهو ساقط لا يكتب حديثه ولا يعتبر به ] امام جلال الدین سیوطی تدریب الراوی میں فرماتے ہیں جب کسی راوی کو متروک الحدیث کہا جائے یا واھیات بیان کرنے والا کہا جائے یا کذاب کہا جائے تو وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہ لکھی جائے اور نہ ہی اس پر اعتبار کیا جائے لہذا اس روایت کو تب تک بیان نہیں کر سکتے فضائل میں جب تک کسی دوسری سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں سلام الطویل کا تفرد ٹوٹ جائے محمد عاقب حسین رضوی Quote Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.