Jump to content
IslamiMehfil

دم اور تعویز کا قرآن و حدیث سے ثبوت


Recommended Posts

 \ دم و تعویزٍ \  

             بسم اللہ الرحمن الرحیم

        یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ           یارسول ﷺ

اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ             وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ 
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ                  وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ

                 فیض رضا جاری رہے گا


 دم و تعویز قرآن و حدیث سے ثابت ہے.
                                المختصر:۔
شرکیہ تعویذ ممنوع ہیں جن میں شرکیہ کلیمات ہوتے ہیں اگر جس تعویذ میں شرکیہ جملہ کلمہ لفظ وغیرہ نہ ہو وہ جائز ہے۔ اور وہ ثابت شدہ ہے اور اسی طرح دم کا حکم بھی ایسے ہی ہے۔ جیسا کہ آپ آگے اسی پوسٹ میں پڑھیں گے۔

۔إن شاءالله 

سورۃ نمبر الإسراء آیت82

          أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
           بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا‏۔
ترجمہ کنزالایمان :اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے۔
   تفسیر مختصر:.
قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں  اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں  اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ  ہوتے ہیں  کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں  کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں  اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔
         (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲۔)
      (روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲۔)
 خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ:(۸٢)
            (محمد عمران علی حیدری)

                 1 نمبر 

بخاری شریف۔باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب ۔حدیث5736
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ:۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ در حالت سفر عرب کے ایک قبیلہ پر گزرے۔ قبیلہ والوں نے ان کی ضیافت نہیں کی کچھ دیر بعد اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، اب قبیلہ والوں نے ان صحابہ سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی دوا یا کوئی جھاڑنے والا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں مہمان نہیں بنایا اور اب ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اس کی مزدوری نہ مقرر کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے چند بکریاں دینی منظور کر لیں پھر  ( ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ )  سورۃ فاتحہ پڑھنے لگے اور اس پر دم کرنے میں منہ کا تھوک بھی اس جگہ پر ڈالنے لگے۔ اس سے وہ شخص اچھا ہو گیا۔ چنانچہ قبیلہ والے بکریاں لے کر آئے لیکن صحابہ نے کہا کہ جب تک ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لیں یہ بکریاں نہیں لے سکتے پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ سورۃ فاتحہ سے دم بھی کیا جا سکتا ہے، ان بکریوں کو لے لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔
(محمد عمران علی حیدری)

                        2 حدیث نمبر 
بخاری شریف۔ باب فی المرأۃ ترقی الرجل حدیث 5751
حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے پھر جب آپ کے لیے یہ دشوار ہو گیا تو میں آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔  ( معمر نے بیان کیا کہ )  پھر میں نے ابن شہاب سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کیا کرتے تھے؟ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے پھر ان کو چہرے پر پھیر لیتے۔
            (محمد عمران علی حیدری)
                    3 حدیث نمبر

 حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏عَنْعَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏   لِلإِنْسَانِ إِذَا اشْتَكَى يَقُولُ بِرِيقِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ بِهِ فِي التُّرَابِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا۔
سنن ابی داؤد جلد4.حدیث 3895۔ ھذا حدیث صحیح  سنن ابن ماجہ جلد٤ حدیث3521         الحکم حدیث صحیح
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اپنی بیماری کی شکایت کرتا تو آپ اپنا لعاب مبارک لیتے پھر اسے مٹی میں لگا کر فرماتے: «تربة أرضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا»  یہ ہماری زمین کی خاک ہے ہم میں سے بعض(بزرگوں) کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے

 
            (محمد عمران علی حیدری)
         :  اب تعویذات کے حوالہ سے

                    1 حدیث نمبر 
الجامع سنن الترمذی جلد3.حدیث 352.
                 ھذا حدیث صحیح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ:.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ 
جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے تو

 ( یہ دعا )  پڑھے: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون 
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل و جامع کلموں کے ذریعہ اللہ کے غضب، اللہ کے عذاب اور اللہ کے بندوں کے شر و فساد اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ ہمارے پاس آئیں۔
 یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھا دیتے تھے، اور جو بچے نابالغ ہوتے تھے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے.
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔۔
(محمدعمران علی حیدری)
اس حدیث ثابت ہوا تعویذ کا ثبوت بھی۔بس یہ ایک مختصر سا جواب لکھا ہے ورنہ اس پر ہمارے علماء کی بڑی بڑی تحریرات موجود ہیں۔اور کتب موجود ہیں۔
وہابیوں تمہارا بابا کیا کہتا ہےاس کی ہی مان لو قرآن وحدیث تو تم لوگ مانتے نہیں ہو!
وہابی سے  سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
 (فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298۔نذیر حسین دہلوی)
لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے.
لگتا ہے اب ابا کی جوتے کی نوک پر ہونگے یا پھر تین طلاق🤭🤭🤭🤭۔


( طالب دعا :محمد عمران علی حیدری)


31جولائی 2021.
20ذولحجہ 1442ھ

Screenshot_2021-09-29-10-31-53-79.jpg

Screenshot_2021-09-29-10-31-25-50.jpg

IMG_20210929_115044.jpg

IMG_20210929_114825.jpg

IMG_20210929_115120.jpg

Edited by Sunni Haideri
پوسٹ کو مزید بہتر بنانے کے لے
  • Like 1
  • Thanks 1
Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین





    • By Sunni Haideri
      یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے                   سردا  ہوں گے۔
                         روایت کی تحقیق
               جامع ترمذی :3664 وسند حسن
      حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،‏‏‏‏ لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
      ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ :  رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا:  یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔   
       امام ترمذی کہتے ہیں: 
      یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔   
       
      📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما"
       
      .كتاب مسند أبي يعلى-ت السناري 1/5وسند حسن
      امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ  
       تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة.
      یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں
      كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 20ص

      490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد
      (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.)

      ✍️:
      عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔
      ✍️:
      عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔

      10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي»
                                                   
       الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر               الشافعی 1/60۔
       وسند حسن۔

      ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع  طرق کی وجہ سے۔
      والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم
      ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.)
      تخریج
      ✍️:
      حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن
      "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه."
      1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔)
      2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر  2/288. الرقم: 1878.)
      2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.)
      3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.)
      4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.)
      5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.)
      6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،)
      7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،)
      8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔)
      9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري)
      10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.)
      واللہ و رسول اعلم
      محمد عمران علی حیدری
    • By Aquib Rizvi
      مسجد میں باتیں کرنے سے اعمال برباد
       
      یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے
       
      من تكلم بكلام الدنيا في المسجد أحبط الله أعماله أربعين سنة
      جو شخص مسجد میں دنیاوی باتیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اعمال کو ضائع کر دے گا۔
       
      امام صغانی٬ امام ملا علی قاری٬ محدث أبو طاہر پٹنی٬ علامہ شوکانی اور عجلونی اور علامہ محمد بن خلیل الحنفی رحمہم اللہ تعالی ان ساروں نے اس روایت کو موضوع قرار دیا
       
      ( كتاب الموضوعات للصغاني ص39 )
      ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص36 )
      ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص338 )
      ( كتاب الفوائد المجموعة ص24 )
      ( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/285 )
      ( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص178 )
       
       
      اس روایت کو امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ نے بھی فتویٰ رضویہ میں نقل کیا جو کہ ان کا تسامح ہے
      ( فتویٰ رضویہ 16/311 مسئلہ نمبر :- 149 )
       
      نثار احمد خان مصباحی صاحب نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے مفتی حسان عطاری صاحب کی کتاب " تحقیق المعتمد في رواية الكذاب ودرجات السند " کی تقریظ میں اصل کتاب کا اسکین ساتھ دے دیا جائے گا
       
      انہوں نے ثابت کیا کہ اس پر وضع کا قرینہ ظاہر ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے ... اور صاحب کتاب مفتی حسان عطاری صاحب نے بھی موافقت کی کوئی تعاقب نہیں کیا
      ( تحقیق المعتمد ص32/34 )
       
      امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ وضع حدیث کے ایک قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں
      وما به وعد عظيم او وعيد ... على حقير وصغيرة شديد
      یعنی جس میں کسی چھوٹے عمل پر عظیم بشارت ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر شدید وعید
       
      کتاب کے محقق شیخ محمد بن علی بن آدم اثیوبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
       
      وحاصل المعنى : أنه يعرف كون الحديث موضوعاً بالإفراط في الوعد العظيم على الفعل الحقير، والوعيد الشديد على الأمر الصغير، وهذا كثير في أحاديث القصاص
      خلاصہ کلام یہ کہ معلوم ہوا وہ حدیث موضوع ہوتی ہے جس میں حقیر ( چھوٹے ) عمل پر عظیم ( حد سے زیادہ ) بڑی وعد ( بشارت ) سنائی جائے اور اسی طرح چھوٹے ( گناہ ) پر شدید وعید سنائی جائے اور یہ قرینہ کثرت سے قصاص کی احادیث میں پایا جاتا ہے
      ( شرح ألفية السيوطي في الحديث ص293 )
       
       
      اب یہ بات ایک عام انسان بھی بتا دے گا کہ مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد ہو جانا یہ یقیناً چھوٹے گناہ پر بہت بڑی وعید ہے جو کہ وضع کی دلیل ہے. اسی وجہ سے آئمہ حدیث نے اس روایت کو بالجزم موضوع کہا
       
      اسی طرح اس روایت پر وضع حدیث کا دوسرا قرینہ بھی ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کا وجود کتب احادیث میں نہیں ہے
       
      علم حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی
       
       
      امام ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ تعالیٰ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں
       
      إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع
      جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے
       
      امام ابن الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابن الجوزی کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں
       
      ومعنى مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة
      امام سیوطی فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو . ( یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو )
       
      ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/106 )
      ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/327 )
       
       
      امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں
       
      ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب
      امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے )
      ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 )
       
      یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں
       
      " اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں "
      ( فتویٰ شارح بخاری 1/307 )
       
      لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت منگھڑت ثابت ہوتی ہے والحمدللہ
       
       
      خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے محدثین کا کلام بھی اس روایت کے تحت پیش کیا کہ انہوں نے اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا اور ہم میں وضع حدیث کے دو قرائن پر بھی اس روایت کو موضوع ثابت کیا لہذا اس روایت کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے
       
       
      فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
       
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
       
       
      مؤرخہ 22 ذو الحجہ 1443ھ
    • By Aquib Rizvi
      آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق
       
       
      امام خطیب البغدادی م463ھ رحمہ اللہ نے فرمایا
      وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسي بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنس، قال: صنع أنس لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتي المنديل، " فجاءت بمنديل درن، فقال اسجري التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه وسلم وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدي الأنبياء "
      ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار 11/589 )
      دینار مولی انس بیان کرتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ . وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا حضرت انس بن مالک نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام نے پوچھا یہ کیسے تو حضرت انس بن مالک نے فرمایا یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی
       
      یہ روایت موضوع ہے
       
      أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشي متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہذا اس کی حضرت انس بن مالک سے روایت موضوع قرار دی جائے گی
      امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
      وقال الحاكم: روى، عَن أَنس قريبا من مِئَة حديث موضوعة
      اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں
      امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں
      قال ابن حبان: يروي، عَن أَنس أشياء موضوعة
      یہ انس بن مالک سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
      ( لسان الميزان :- 3077 )
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اندازاً فرمایا کہ
      أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب
      اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں
      ( ميزان الاعتدال 2/31 )
       
      نیز سند میں " أبو عمير الأنسي " بھی مجہول ہے
       
      امام احمد بن علی المقریزی م845ھ رحمہ اللہ نے حافظ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا
      فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء- عليهم السلام
      عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا . میں نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ انور پونچھتے تھے ، اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو
      ( كتاب إمتاع الأسماع 11/254 )
       
       
      یہ بھی موضوع ہے
       
      1 : محمد بن رميح العامري مجہول ہے
       
      2 : عبد الله بن محمد بن المغيرة متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے
       
      امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
      ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/75 )
       
      امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابن یونس نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا
      ( كتاب الزهر النضر في حال الخضر ص76 )
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا
      ( كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري 14/219 )
      ( كتاب ميزان الاعتدال 2/487 )
       
      3 : أبو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے
       
      امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو " واہ " قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے
      ( كتاب ميزان الاعتدال 2/369 )
      ( فتح المغيث للسخاوي 2/128 )
       
      شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالک سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے
      ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 4/393 )
       
      اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں
      اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے روٹیاں لگائیں اور نبی علیہ السلام نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبی علیہ السلام نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو کہاں سے نکل کر لیا اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92/93 پر
       
      فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
       
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
       
       
      مؤرخہ 15 ذو الحجہ 1443ھ
       
       
×
×
  • Create New...