Jump to content
IslamiMehfil

زمین و آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور علیہ اسلام کی ہے۔


Recommended Posts

زمین آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور        صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے

              یا اللہ عزوجل       یارسول اللہ 

                      صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہؐ

✍️اللہ نے مرتبہ دیا ہے ۔ تم کیوں جلتے ہو؟

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم :

 

رَوَاهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.31 /31)
3-4: أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 /366، الرقم: 109، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /65، الرقم: 25، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 /388، والثعالبي في الکشف والبيان، 7 / 468.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو نورانی منبر لائے جائیں گے، ایک عرش کی دائیں جانب اور دوسرا عرش کی بائیں جانب نصب کیا جائے گا، اِن منبروں پر دو شخص نمودار ہوں گے، پس وہ جو عرش کی دائیں جانب ہو گا ندا دے گا: اے گروہانِ مخلوقات! جس نے مجھے پہچان لیا اُس نے جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا (تو وہ جان لے) کہ میں جنت کا داروغہ رضوان ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کی کنجیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تھما دوں، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُنہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) کو تھما دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو جنت میں داخل کر سکیں۔ پس تم آگاہ ہو جاؤ۔ پھر وہ شخص جو عرش کی بائیں جانب ہو گا ندا دے گا: جس نے مجھے جان لیا سو جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا تو وہ جان لے کہ میں مالک، جہنم کا داروغہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جہنم کی کنجیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ کنجیاں ابو بکر و عمر کو دے دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ بغض رکھنے والوں کو جہنم میں دھکیل سکیں۔ سو تم سب اِس پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘ اِسے محب الدین الطبری نے روایت کیا ہے۔
اس روایت کو کتاب موجبات الجنہ لابن الفاجر میں ابن الفاجر نے بھی نقل کیا ہے۔


317 - ثنا الإمام عمي قال، ثنا أبو علي الوزير إملاءً قال، ثنا يوسف بن محمد الزاهد.

-وأنبا أبو طاهر الصوفي بقراءاتي عليه قال، ثنا يوسف بن محمد في كتابه، قال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن أحمد قال، ثنا القاسم بن محمد السراج، ثنا محمد بن أحمد الضبي الدينوري بمكة في المسجد الحرام قال، ثنا أحمد بن يحيى قال، ثنا الصابر الجارود قال، ثنا هشيم عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

((إذا كان يوم القيامة ينصب ميزانٌ من ذهبٍ أمام العرش فيأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو أحدهما فيقول من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا رضوان خازن الجنة، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله -عز وجل- أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر رضي الله عنه يدخل الجنة محبيه ومحبي عائشة بغير حسابٍ، ويأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو المنبر الثاني، ويقول: من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا مالكٌ خازن النار، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه يدخل النار مبغضيه ومبغضي عائشة بغير حسابٍ)).

قال أبو بكر: سمع هذا الحديث الكرخي، وقال: لو كان هذا الحديث مكتوباً على الجدار لكان الواجب أن يكتب بماء الذهب.

           كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر.
  
                         ابن الفاخِر

بابٌ في ذكر أن محبي أبي بكر وعائشة -رضي الله عنها- يدخلون الجنة بغير حساب.


                      ✍️ اس کی سند پر کلام ہے

                        اس حدیث کا متن بالکل قرآن و صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے

            وَلَـلۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لَّكَ مِنَ الۡاُوۡلٰىؕ.
                           4    سورۃ الضحى            
                                     :    ترجمہ
اور بیشک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر 

📖تفسیر میں مفسرین نے کیا فرمایا دو کتب سےمفہوم

 کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں  گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں  آپ کے مَراتب ترقیوں میں رہیں  گے۔

مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ:4 تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ4

                2 : وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيۡكَ رَبُّكَ فَتَرۡضٰىؕ.

                      ( الضحی 5)
                                            :ترجمہ
اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے.


          اسکا متن آپ خود دیکھ لیں گے۔


آپ ایک بار اوپر والی روایت کو غور سے پڑھیں پھر ان احادیث کو پڑھتے جائیں ۔إن شاءالله۔۔آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔

📘 1 : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ،    أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا۔

                          صحیح بخاری جلد1 حدیث. 1344.2977.3596

 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا  مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔

             (محمد عمران علی حیدری)

✍️اس میں واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے یہی بات اوپر والی روایت میں کی گئی بات  ہے۔

✍️یہ حدیث بخاری میں چار جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب میں درج ہے الفاظ مختلف مفہوم ایک ہی ہے کہ ذات محبوب کبریا عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اب اسکا تعین کرنا کون کون سے خزانے ہیں ہمارے بس کی بات نہیں۔

✍️اور نہ ہم اس مسلہ میں قید و بند لگا سکتے ہیں حدیث پر کہ ہاں یہ ہوگا یہ نہیں۔ ایسا کرنا وہابیہ کا کام ہے ہمارا نہی۔

✍️ہم نے بس مان لیا کہ ہاں دے دی گئی ہیں اب دینے والا اور لینے والا جانے۔

✍️میرے خیال میں اور حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کنجیاں کا لفظ کہنا یہ مقصد تھا کہ رسائی،(پہنچ) اختیار ،بادشاہت اللہ نے دےدی ہے۔ 

📘 2: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ, ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ, وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ, أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ, وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا.

صحیح بخاری جلد2 حدیث 4085

 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض  ( حوض کوثر)  کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ 

✍️اب اس حدیث پر غور کریں تو نبی علیہ السلام فرما رہے ہین کہ اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں حوض کوثر کہاں ہے اور لفظ حضورؑ نے فرمایا اپنے یعنی میرا۔ مالکیت ظاہر ہورہی ہے۔

✍️ سلطنت آسمان پر بھی ہے جس کی سلطنت ہو اختیار ہو و چابیاں بھی اسی کے پاس ہوتی ہیں

✍️جیسا کہ ایک بادشاہ کا وزیر ہوتا ہے بادشاہ اس کو بہت سارے اختیار دیتا ہے وزیر اسے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وزیر کو سب دے دیا جاتا ہے ہر چیز پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ جیسا حدیث میں ہے واللہ یعطی انا القاسم اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔

اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں. 

               ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔

                (محمد عمران علی حیدری)

📘 3 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ.

صحیح بخاری جلد1 حدیث 120.

ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  ( علم کے )  دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔ 

               (محمد عمران علی حیدری)

📘 4 :حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ دَاوُدُ،‏‏‏‏ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ۔

سنن الترمذی جلد2 حدیث 3666
              ھذا حدیث صحیح
 
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا“۔

              (محمد عمران علی حیدری)

✍️جسے چاہیں جو جو عطا کریں سب دیا آپ کی سلطنت میں

📘 5 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏   الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا۔

سنن ابن ماجہ جلد١حدیث 118
                   ھذا حدیث صحیح

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ 

📘 6: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا. قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

                            مشکوۃ شریف

ترجمہ: حضرت ام سلمہ   ؓ  سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فاطمہ   ؓ  کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رو پڑیں ، پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑی ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو میں نے ان کے رونے اور ان کی ہنسی کے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میں فوت ہو جاؤں گا تو میں رو پڑی ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا کہ مریم بنت عمران کے علاوہ اہل جنت کی خواتین کی میں سردار ہوں ۔‘‘ اس پر میں ہنس دی ۔ رواہ الترمذی.

              (محمد عمران علی حیدری)

📘 7 :ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﺛنا ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺩﺣﻴﻢ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻓﺪﻳﻚ، ﻋﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﺰﻣﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻇﻨﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺣﺪﺛﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻋﺸﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻭﻋﻠﻲ، ﻭاﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻭﻃﻠﺤﺔ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﺳﻌﺪ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪﺓ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻭﻫﺆﻻء ﺗﺴﻌﺔ» ، ﺛﻢ ﺳﻜﺖ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻧﻨﺸﺪﻙ اﻟﻠﻪ ﺃﻻ ﺃﺧﺒﺮﺗﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺷﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻧﺸﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ اﻷﻋﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ»

                   ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ اﻟﺘﻠﺨﻴص

(المستدرك علي الصحيحين: رقم الحديث 5858جلد3                     498صفحہ,ط:دارالكتب العلمية۔)

             اگر وہابی یہ آیت پیش کریں

لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ.

                                      63الزمر آیت 
                                        :   ترجمہ
اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں.
 
میں پوچھنا چاھتا ہوں اوپر بیان کی گئی احادیث کو مانوں گے یا انکار کردو گے؟؟

ہاں یہ بات سنی ہی سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے ورنہ ایسے نے تو سیدنا علیؓ پر بھی شرک کا فتوئ لگا دیا تھا۔ العیاذ بااللہ۔

اس آیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تفاسیر کو پڑھیے ۔
                                          خزائن العرفان۔
                                            تبیان القرآن ۔
                                            صرط الجنان۔
                                               روح البیان۔
                                               وغیرہ۔

        ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم

       جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں۔


         ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)

  • Thanks 1
Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Sunni Haideri
      جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      روایت کی تحقیق
      25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ.
      ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ  جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.)
      (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.)
      (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.)
      ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ 
       
      ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔
      اسکا صحیح  درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇
      3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا».
      ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔
      (سنن النسائي 6/11)۔
      ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇
      (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.)
      (شعب الإيمان: 7448.)
       (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.)
      (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.)
       واسناد صحیح 
      لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔

      حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔
      ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں.
      حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏  الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔
      ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ  ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء  ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے:  باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی»  (میری ماں)  کہا اور کبھی «إن أبی»  (میرا باپ)  کہا۔   
       
      امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔  
      (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔
      (سنن ابن ماجه :- 3663.)
      صحیح
      ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔
      19.03.2023.
      چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
    • By Sunni Haideri
      یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی
      روایت کی تحقیق: 
      اسکو علامہ متقی ھندی نے کنزالعمال میں بےسند درج کیا ہے۔

      کنزالعمال: 39640
      عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كان صيحة في رمضان فإنه يكون معمعة في شوال، وتمييز القبائل في ذي القعدة، وتسفك الدماء في ذي الحجة والمحرم وما المحرم - يقولها ثلاث مرات - هيهات هيهات! يقتل الناس فيه هرجا هرجا، قلنا وما الصيحة يا رسول الله؟ قال: هدة في النصف من رمضان ليلة الجمعة فتكون هدة توقظ النائم وتقعد القائم وتخرج العواتق من خدورهن في ليلة جمعة في سنة كثيرة الزلازل والبرد، فإذا وافق شهر رمضان في تلك السنة ليلة الجمعة فإذا صليتم الفجر من يوم الجمعة في النصف من رمضان فادخلوا بيوتكم وأغلقوا أبوابكم وسدوا كواكم ودثروا أنفسكم وسدوا آذانكم، فإذا أحسستم بالصيحة فخروا لله سجدا وقولوا: سبحان القدوس، سبحان القدوس، ربنا القدوس، فإنه من فعل ذلك نجا ومن لم يفعل هلك." نعيم، ك".
      ابن مسعود ؓ سے روایت ہے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان میں ایک چیخ ہوگی تو شوال میں ایک ملی جلی آوازوں کا شور ہوگا ذیقعدہ میں قبیلوں میں غیز ہوگی ذوالحجہ میں خون بہائے جائیں گے اور محرم محرم کیا ہے تین بار فرمایا: افسوس صد افسوس! بہت زیادہ لوگ میں قتل ہوں گے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! چیخ کیا ہے فرمایا: یہ پندرویں رمضان کی ہوگی ایسی آواز ہوگی جو سوئے لوگوں کو جگادے گی اور کھڑوں کو بٹھا دے گی اور جس سال بہت سے زلزلے اور اولے ہوں گے اس جمعرات میں باپردہ عورتوں کو اپنے پردے سے نکال دے گی جب جمعرات اسی سال کا رمضان پڑے تو جب پندرویں رمضان جمعہ کے روز تم لوگ فجر کی نماز پڑھ لو تو ایسا کرنا کہ اپنے گھروں میں داخل ہوجانا دروازے بند کرلینا اپنے طاقچے بند کرلینا کمبل اوڑلینا اور اپنے کان بند کرلینا جب تمہیں چیخ کے آثار محسوس ہونے لگیں تو اللہ کے حضور سجدہ میں گرپڑنا اور کہنا: سبحان القدوس سبحان القدس ہمارے رب قدوس ہے اس واسطے جس نے ایسا کیا وہ نجات پاجائے گا جس نے ایسا نہ کیا وہ ہلاک ہوجائے گا۔
      (كتاب كنز العمال 14/ 528. الرقم:  39628.)
      طریق نمبر 01👇
      638: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ "
      (الفتن لنعيم بن حماد 1/ 228.الرقم: 638.)
      ✍️: ابْنِ لَهِيعَةَ: ضعیف فی نفسہ صدوق۔
      ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ: مجھول۔
      ✍️: محَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ : ضعیف۔
      ✍️: الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ : متھم۔

      ✍️: وسند موضوع
      طریق نمبر 02.👇
      853: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فِي أَوَّلِهِ أَو فِي وَسَطِهِ أَو فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ، إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُخْرَسُ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا، وَيُصِمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فَمَنِ السَّالِمُ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ، وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ، وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ لِلَّهِ، ثُمَّ يَتْبَعُهُ صَوْتٌ آخَرُ، وَالصَّوْتُ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصَّوْتُ فِي رَمَضَانَ، وَالمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتُمَيَّزُ الْقَبَائِلُ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيَغَارُ عَلَى الْحُجَّاجِ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَفِي الْمُحْرِمِ، وَمَا الْمُحْرَّمُ؟ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ عَلَى أُمَّتِي، وَآخِرُهُ فَرَحٌ لِأُمَّتِي، الرَّاحِلَةُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِقَتَبِهَا يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ لَهُ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»
      ( المعجم الكبير للطبراني 18/332.الرقم: 853.)
      (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري 2/21.الرقم: 1444.)
      (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 5/143.الرقم: 2682.)
      تینوں کی اسناد میں یہی راوی موجود ہے
      ✍️: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ: متهم بالوضع والكذب.
      ✍️: وسند موضوع۔

      طریق نمبر 03👇👇👇
      8580: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «تَكُونُ هَدَّةٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُفْزِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ تَظْهَرُ عِصَابَةٌ فِي شَوَّالٍ، ثُمَّ مَعْمَعَةٌ فِي ذِي الْحِجَّةِ، ثُمَّ تُنْتَهَكُ الْمَحَارِمُ فِي الْمُحَرَّمِ، ثُمَّ يَكُونُ مَوْتٌ فِي صَفَرٍ، ثُمَّ تَتَنَازَعُ الْقَبَائِلُ فِي الرَّبِيعِ، ثُمَّ الْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بَيْنَ جُمَادَى وَرَجَبٍ، ثُمَّ نَاقَةٌ مُقَتَّبَةٌ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تُقِلُّ مِائَةَ أَلْفٍ» قَدِ احْتَجَّ الشَّيْخَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِرُوَاةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ آخِرِهِمْ غَيْرَ مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ الْخُشَنِيِّ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبُ الْمَتْنِ، وَمَسْلَمَةُ أَيْضًا مِمَّنْ لَا تَقُومُ الْحُجَّةُ بِهِ
      (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 4 /563 .الرقم: 8580.)
      [التعليق - من تلخيص الذهبي]٨٥٨٠ - ذا موضوع
      (تاريخ أصبهان أخبار أصبهان 2/169.)
      دونوں کی اسناد میں مسلمہ موجود ہے۔
      ✍️: مَسْلَمَةَ بْنِ عُلَيٍّ: متروک
       الحدیث۔
      ✍️: ضعیف جدا
      طریق نمبر 4.👇👇👇
      518: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ التَّغْلِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْأَعْنَاقِيُّ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ⦗٩٧٠⦘، عَنْ عَبْدةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةُ جُمُعَةٍ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا يَتِيهُ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُصَمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُخْرَسُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَنْفَتِقُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفَ عَذْرَاءَ» قَالُوا: فَمَنِ السَّالِمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ: «وَمَعَهُ صَوْتٌ آخَرُ فَالصُّوتُ ⦗٩٧١⦘ الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالصَّوْتُ الثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصُّوتُ فِي رَمَضَانَ، وَالْمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيُغَارُ عَلَى الْحَاجِّ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَأَمَّا الْمُحَرَّمُ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ وَآخِرُهُ فَرَجٌ عَلَى أُمَّتِي، رَاحِلَةٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»
      (السنن الواردة في الفتن للداني 5/969.الرقم:518.)
      ✍️: نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ : مجھول الحال۔
      ✍️: خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ : مجھول الحال۔
      ✍️: يَحْيَى الدُّهْنِيِّ : مجھول الحالء۔
      ✍️:اسناد ضعیف جدا۔ والحدیث موضوع،
      طریق نمبر 05👇👇👇👇👇
      وَمِنْ حَدِيثِهِ: مَا حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ دَاوُدَ الْأَزْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهَا، وَفِي شَوَّالٍ هَمْهَمَةٌ، وَفِي ذِي الْقَعْدَةِ تَمَيَّزُ الْقَبَائِلُ بَعْضُهَا إِلَي بَعْضٍ، وَفَى ذِي الْحِجَّةِ تُرَاقُ الدِّمَاءُ، وَفَى الْمُحْرِمِ أَمْرٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ عِنْدَ انْقِطَاعِ مُلْكِ هَؤُلَاءِ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ: «الَّذِينَ يَلُونَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ» لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ مِنْ حَدِيثِ ثِقَةٍ، وَلَا مِنْ وَجْهٍ يَثْبُتُ
      (الضعفاء الكبير للعقيلي 2/52. الرقم: 1012.)
      ✍️: عُبَيْسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ الْهَمْدَانِيُّ  : متھم باالوضع۔
      ✍️: عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ قَيْسٍ : 
      قال امام ابن حجر العسقلاني صدوق له أوهام ومراسيل
      ✍️: وسند ،موضوع۔
      محدثین نے ان کی کچھ اسناد کو اور کچھ محدثین نے تفصیلی کلام اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے۔۔
      1: (اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسیوطی  2/320.)
      2: ( الموضوعات لابن الجوزي 3/191.)
      3: (الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير الجوزقانی 2/109.)
      4: (تلخيص الموضوعات للذھبی 324ص۔الرقم:874وغیرہ)
      خلاصہ کلام: بیان کردہ روایت کی جتنی بھی اسناد ہیں ہمارے علم کے اندر ان میں سے ایک بھی بیان کرنے کے قابل نہیں لہذا دلائل کی بنیاد پر اسکو سیدی معصوم الکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف منسوب کرنا گویا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونا اور جہنم میں لے جانے والا فعل(کام) ہے
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و وطالب: محمد عمران علی حیدری.
      26_03_2023.
      چار(04)رمضان المبارک 1444ھ
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین





    • By Sunni Haideri
      یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے                   سردا  ہوں گے۔
                         روایت کی تحقیق
               جامع ترمذی :3664 وسند حسن
      حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،‏‏‏‏ لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
      ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ :  رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا:  یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔   
       امام ترمذی کہتے ہیں: 
      یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔   
       
      📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما"
       
      .كتاب مسند أبي يعلى-ت السناري 1/5وسند حسن
      امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ  
       تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة.
      یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں
      كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 20ص

      490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد
      (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.)

      ✍️:
      عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔
      ✍️:
      عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔

      10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي»
                                                   
       الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر               الشافعی 1/60۔
       وسند حسن۔

      ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع  طرق کی وجہ سے۔
      والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم
      ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.)
      تخریج
      ✍️:
      حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن
      "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه."
      1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔)
      2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر  2/288. الرقم: 1878.)
      2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.)
      3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.)
      4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.)
      5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.)
      6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،)
      7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،)
      8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔)
      9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري)
      10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.)
      واللہ و رسول اعلم
      محمد عمران علی حیدری
×
×
  • Create New...