Jump to content
IslamiMehfil

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا چالیس سال عشاء کہ وضو سے فجر کی نماز پڑھنا


Recommended Posts

(امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض )


محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : 
اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے)

°°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°°

 پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو 
جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں:
______________________________________
ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰))

ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40)
__________________________________________
محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔
تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے 

اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔

اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر  محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے 
_______________________________________
 امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں 

وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة

زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے

📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88)
________________________________________
امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں:

وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة

اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔

📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399)
_______________________________________
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا

📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134)
______________________________________
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔
📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61)

محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔
یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے 

تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر 

اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین
______________________________________
ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی

20220306_185957.jpg

20220306_194437.jpg

20220306_162500.jpg

20220306_164306.jpg

20220306_170255.jpg

Link to post
Share on other sites
  • 2 months later...
On 3/8/2022 at 12:52 PM, Muhammad hasanraz said:

 

وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة

زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے

📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ

اس روایت کی مکمل سند تاریخ بغداد ( ج 15، ص 484) میں ہے جو کہ یہ ہے

أَخْبَرَنَا علي بن المحسن المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بكر أَحْمَد بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب الكاغدي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّد عبد الله بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب بن الحارث الحارثي البخاري ببخارى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن الحسين البلخي، قَالَ: حَدَّثَنَا حماد بن قريش، قال: سمعت أسد بن عمرو، يقول: صلى أَبُو حنيفة فيما حفظ عليه صلاة الفجر بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامة الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يسمع بكاؤه بالليل حتى يرحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن في الموضع الذي توفي فيه سبعة آلاف مرة

 اور یہ سند ابوبکر احمد بن محمد بن یعقوب الکاغدی اور ابومحمد بن یعقوب بن الحارث الحارثی البخاری کی وجہ سے سخت ترین ضعیف اور موضوع ہے۔ واللہ اعلم

 أحمد بن محمد بن يعقوب أبو بكر الفارسي الوراق الكا
غذي عن البغوي، وَغيرہقال ابن أبي الفوارس: ضعيف جدا فيما يدعي عن ابن منيع وكان رديء المذهب أيضًا

لسان المیزان رقم 825

وَأَمَّا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ فَإِنَّهُ كَذَّاب، لَا يُحْتَجُّ بِهِ
 أخبرنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ الْحَافِظَ يَقُولُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ الْأُسْتَاذُ يَنْسِجُ الْحَدِيثَ
(الخلافيات للبيهقي، ج 2، ص 482
)

  • Thanks 1
Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Hasan Raza Hanfi
      I
      (امام ابن جریج رحمہ اللہ پر متعہ کے الزام کا تحقیقی جائزہ)
      از✒️: حسن رضا حنفی رضوی 
      محترم قارئین کرام! اکثر روافض متعہ کے جواز پر امام ابن جریج رحمہ اللہ کو بطور حجّت پیش کرتے ہیں کہ امام ابن جریج رحمہ اللہ متعہ کرنے  کو جائز سمجھتے تھے جبکہ حقیقیتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ روافض امام جریج رحمہ اللہ کے متعلق جو حوالہ جات پیش کرتے ہیں وہ اُس وقت کے ہیں کہ جب امام ابن جریج رحمہ اللہ کے سامنے متعہ کی حرمت ظاہر نہیں ہوئی تھی اور امام ابن جریج رحمہ اللہ کے پیش نظر متعہ کی حرمت کے دلائل موجود نہیں تھے
      لیکن جب امام ابن جریج رحمہ اللہ کے سامنے متعہ کی حرمت کے دلائل واضح ہوۓ تو آپ نے متعہ کے جواز سے رجوع فرمایا اور متعہ کی حرمت کے قائل ہوۓ ملاحظہ فرمائیں 

      قال ابن جريج يومئذ اشهدوا أني قد رجعت عنها بعد ثمانية عشر حديثا أروي فيها لا بأس بها 
      امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب گواہ ہو جاؤ حرمت کے سلسلے میں مجھے اٹھارہ روایات ملی ہیں  میں اس بنا پر جواز والی رائے سے رجوع کر چکا ہوں
      📗(مسند ابی عوانہ جلد 2 صفحہ 31)

    • By Sunni Haideri
      جو شخص جمعہ کے دن یہ درود شریف اَسّی مرتبہ پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف معاف کردیے جاتے ہیں۔
      روایت کی تحقیق
      امام خطیب نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔👇
      7278:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة.
      سند:
      أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثَمَانِينَ مَرَّةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَ ثَمَانِينَ عَامًا، فَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً "
      ترجمہ: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ کے سامنے( پاس) کھڑا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھ پر جمعہ کے دن 80اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی(80) سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا یارسول اللہ کیسے آپ پر درود پڑھیں تو فرمایاکہ تم کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً۔
      (تاريخ بغداد ت بشار 15 /636.الرقم: 7278.)
      ✍️: زوائد میں امام خلدون الأحدب نے اسکو موضوع کہا۔
      (زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة.9/293. الرقم: 2069.)
      ✍️: وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ : متھم باالوضع۔

      6904: وهب بن دَاوُد المخرمي عَن ابْن علية عَن ابْن صُهَيْب عَن أنس من صلى عَليّ يَوْم الْجُمُعَة ثَمَانِينَ مرّة غفر لَهُ ذنُوب ثَمَانِينَ عَاما قَالَ الْخَطِيب لم يكن بِثِقَة ثمَّ أورد لَهُ حَدِيثا من وَضعه
      سیدنا انس مروی ہے کہ جس نے مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں
      خطیب نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں پھر انہوں نے اسکی وہ حدیث درج کی جو اس نے گھڑی ہے
      ( المغني في الضعفاء 2/727. الرقم: 6904.)
      امام خطیب بغدادی نے اسی وھب کا ترجمہ لکھ نے بعد  یہی روایت درج کی جو ہم نے اوپر  بیان کی ہے روایت 7278.اور اسی طرح اسی روایت کو وھب کے ترجمہ 7326 نمبر پر بھی درج فرمایا۔
      7326:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. 
      اس کے اوپر والی سند مکمل بیان فرمائی۔
      4583: وهب بن داود المخرمي: عن ابن علية، قال الخطيب: لم يكن ثقة.
      (كتاب ديوان الضعفاء 229ص)

      ✍️: وسند: موضوع
      طریق نمبر 02.👇
      1893: قال: أخبرنا عبدوس، أخبرنا أبو منصور البزاز، أخبرنا الدارقطني، حدثنا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب،حدثنا عون بن عمارة، حدثنا سكن البُرْجُمي، عن الحجاج بن سنان عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الصلاة عليّ نور على الصراط، ومن صلّى عليّ يومَ الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عامًا".
      ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
      (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر 5/467.الرقم: 1893.)
      ✍️: عون بن عمارة القيسي: ضعیف۔
      امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اسکو ضعیف کہا۔👇
      ✍️: 5224: عون بن عمارة القيسي، أبو محمد البصري: ضعيف، مات سنة اثنتي عشرة ومائتين.
      (تقريب التهذيب لابن حجر 424 ص.الرقم: 5224.)

      ✍️: حجاج بن سنان: متروک الحدیث۔
      ✍️: حجاج کو متروک کہا امام ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے
      (/846: حجاج بن سنان: عن علي بن زيد، قال الأزدي: متروك.
      (ديوان الضعفاء للذھبی 73ص۔الرقم: 846.) (لسان الميزان لابن حجر 2/562۔الرقم: 2150.
      ✍️: علي بن زيد بن جُدْعان : ضعيف.
      1: مصباح الزجاجة میں امام بوصیری نے ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے سندا ضعیف فرمایا
      کلام امام بوصیری: هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عَليّ بن زيد بن جدعَان۔
      (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 3/178. الرقم: 5101.)
      ✍️: واسناد ضعیف جدا بل منکر۔
      طریق نمبر 03.
      اسکو امام سخاوی اور ابن حجر ھیتمی نے ابن بشکول کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن اسکی سند ساتھ زکر نہیں کی یعنی بے سند
      وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً أخرجه ابن بشكوال
      ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی (80) مرتبہ پڑھے اُس کے اَسّی (80) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اُس کے لیے اَسّی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے
      (القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع للسخاوی 199ص۔)
      (الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر ھیتمی 213ص۔)
      ✍️: حسين بن محمد المغربي نے شرح بلوغ المرام کے حاشیہ میں اسے ساقطة من کہا۔یعنی ساقط ہے۔
      (البدر التمام شرح بلوغ المرام ت الزبن 10/399.)
      یہ روایت ( جس میں عصر کے بعد درود کا زکر ہے) بھی سند کے ساتھ نہیں ملی کافی تلاش بسیار کے بعد دلائل کو مدنظر رکھتے ہو یہی کہا جا سکتا ہے اسکو موقوف رکھا جاۓ کیونکہ یہ روایت بیان کرنے و سیدی کی طرف منسوب کرنے کے قابل نہیں دلائل کی بنیاد پر۔
      خلاصہ کلام: 
      📖: لہذا یہ تینوں مرویات  اس قابل نہیں ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر ان کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاۓ۔ پس ان کو  سیدی معصوم الکائنات کی طرف منسوب کرنا گویا جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔  
      اعتراض
      ✍️: کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ جو بغیر سند کے روایت ہوتی ہےوہ موضوع نہیں ہوتی۔ 
      ✍️: بس اتنی بات کی جاتی کہ شاید انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کہیں جب موضوع نہیں تو بیان کر سکتے عرض یہ ہے اگر موضوع نہیں ہوتی نہیں کہے سکتے تو صحیح یا ضعیف بھی تو نہیں کہے سکتے لہذا وہ ساقط ہے اسکو چھوڑ دینا چاھیے بیان بھی نہ کی جاۓ بس۔
      ✍️: دوسری بات ایسے لوگوں کو سند کی ضرورت کے بارے میں پڑھنا چاھیے حدیث میں سند کی اہمیت کتنی ہے
      ✍️: سند کی ضرورت مختصر سا تعارف۔ تفصیل کے لیے درج ذیل حوالہ جات کو مکمل پڑھیں
      یہاں انکو مختصر کر کے لکھا گیا ہے۔
      📖: امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو آدمی جو چاھتا کہے دیتا۔
      مزید فرماتے ہیں کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں۔
      صحیح مسلم : 32.
      📖: اسی طرح امام ابن سرین فرماتے ہیں کہ  پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات و فتنے داخل ہونے لگ گۓ سند بیان کی جانے لگ گئی۔
      صحیح مسلم : 27.
      📖: اللہ پاک ہماری مغفرت فرماۓ اور سیدی کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنے ی توفیق دے۔
       
      📖: مفہوم حدیث جس نے جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت(منسوب) میری طرف کیا گویا اس نے اپنا راستہ جہنم کی طرف بنایا۔
                 ✍️✍️✍️✍️
      ✍️: نوٹ درود شریف جتنا پڑھیں ثواب ملے گا۔ جب چاھیں پڑھیں یہی والا پڑھیں یا کوئی اور جس صیغہ کے ساتھ مرضی پڑھیں ثواب ضرور تو ملے گا لیکن اسکی جو  تعداد اور وقت  بتایا گیا ہے یہ ثابت نہیں اور اصل بات  گناہ معاف والی بات کہی گئی ہے فکس کر کے 80سال یہ درست نہیں۔
      ✍️: عام طور پر جیسے پڑھتے ہیں پڑھیں دورد کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن جو خاص فضیلت ان تینوں رویات میں وارد ہیں وہ سیدی سے ثابت نہیں۔
      ✍️: دورد پڑھنا ثواب ہی ثواب کا کام ہے لیکن جو فضیلت ثابت نہیں اسکو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل درست نہیں بلکہ گناہ کبیرہ و جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔
       12_03_2023
      انیس(19) شعبان المعظم 1444ھ۔
    • By Aquib Rizvi
      آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق
       
       
      امام خطیب البغدادی م463ھ رحمہ اللہ نے فرمایا
      وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسي بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنس، قال: صنع أنس لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتي المنديل، " فجاءت بمنديل درن، فقال اسجري التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه وسلم وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدي الأنبياء "
      ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار 11/589 )
      دینار مولی انس بیان کرتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ . وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا حضرت انس بن مالک نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام نے پوچھا یہ کیسے تو حضرت انس بن مالک نے فرمایا یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی
       
      یہ روایت موضوع ہے
       
      أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشي متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہذا اس کی حضرت انس بن مالک سے روایت موضوع قرار دی جائے گی
      امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
      وقال الحاكم: روى، عَن أَنس قريبا من مِئَة حديث موضوعة
      اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں
      امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں
      قال ابن حبان: يروي، عَن أَنس أشياء موضوعة
      یہ انس بن مالک سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
      ( لسان الميزان :- 3077 )
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اندازاً فرمایا کہ
      أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب
      اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں
      ( ميزان الاعتدال 2/31 )
       
      نیز سند میں " أبو عمير الأنسي " بھی مجہول ہے
       
      امام احمد بن علی المقریزی م845ھ رحمہ اللہ نے حافظ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا
      فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء- عليهم السلام
      عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا . میں نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ انور پونچھتے تھے ، اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو
      ( كتاب إمتاع الأسماع 11/254 )
       
       
      یہ بھی موضوع ہے
       
      1 : محمد بن رميح العامري مجہول ہے
       
      2 : عبد الله بن محمد بن المغيرة متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے
       
      امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے
      ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/75 )
       
      امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابن یونس نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا
      ( كتاب الزهر النضر في حال الخضر ص76 )
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا
      ( كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري 14/219 )
      ( كتاب ميزان الاعتدال 2/487 )
       
      3 : أبو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے
       
      امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے
       
      امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو " واہ " قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے
      ( كتاب ميزان الاعتدال 2/369 )
      ( فتح المغيث للسخاوي 2/128 )
       
      شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالک سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے
      ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 4/393 )
       
      اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں
      اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے روٹیاں لگائیں اور نبی علیہ السلام نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبی علیہ السلام نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو کہاں سے نکل کر لیا اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92/93 پر
       
      فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
       
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
       
       
      مؤرخہ 15 ذو الحجہ 1443ھ
       
       
    • By Aquib Rizvi
      السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
       
      حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس اظہر من الشمس جھوٹی روایت کو اپنی الموضوعات میں نقل کیا :
      «حُضُورُ مَجْلِسِ عَالِمٍ أَفْضَلُ مِنْ صَلاةِ أَلْفِ رَكْعَةٍ وَعِيَادَةِ أَلْفِ مَرِيضٍ وَشُهُودِ أَلْفِ جَنَازَةٍ»
      عالم کی مجلس میں حاضری ہزار رکعت نماز پڑھنے سے افضل ہزار مریضوں کی عیادت سے افضل اور ہزار جنازوں میں شریک ہونے سے افضل ہے  
      كتاب الموضوعات لابن الجوزي1/223 
       
      حافظ ابن جوزی نے اسکو نقل کرکے کہا
      هذا حديث موضوع
      اسکی سند میں
       
      1 : محمد بن علي بن عمر المذكر متروک كما قال ابن الجوزي 
       
      2 : إسحاق ابن نجيح کذاب
       
      ابن جوزی امام احمد سے نقل کرتے ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا ہے اسی طرح امام ذہبی نے بھی اس کو کذاب کہا اور ابن حجر عسقلانی نے بھی موافقت کی 
       
      3 : أحمد بن عبد الله الجويباري یہ مشہور احادیث گھڑنے والا راوی ہے .
       
      اس کے بارے میں شیخ الاسلام حافظ الدنیا امیر المؤمنین فی الحدیث ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
       
      أما الجويباري فإني أعرفه حق المعرفة بوضع الأحاديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد وضع عليه أكثر من ألف حديث
       
      جہاں تک تعلق رہا جویباری کا تو میں اسے بہت اچھے سے احادیث گھڑنے کے حوالے سے جانتا ہوں اس ( خبیث ) نے نبی علیہ السلام پر ایک ہزار سے زائد احادیث کو گھڑا ہے .
      ( كتاب لسان الميزان 1/194 )
       
      اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور امام ذہبی نے اس کے ترجمے میں اس کی اس جھوٹی روایت کو نقل کرکے بطور ثبوت یہ روایت پیش کی کہ اس نے اس کو وضع کیا ہے جو روایت زیر بحث ہے .
      چناچہ امام ذہبی فرماتے ہیں 
      ومن طاماته: عن إسحاق ابن نجيح الكذاب ..... قال: حضور مجلس عالم خير من حضور ألف جنازة ...... الخ
      اور یہ روایت جویباری کی گمراہیوں میں سے ایک ہے جو اس نے اسحاق بن نجیح کذاب سے نقل کی آگے پھر اسی روایت کا ذکر کیا .
      ( كتاب ميزان الاعتدال 1/107 )
      لہذا جب اس روایت کا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو اب اس کی نسبت نبی علیہ السلام کی طرف کرنا حرام ہے 
      فقط واللہ و رسولہ اعلم
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
    • By Sunni Haideri
      *جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔*
      1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه
      (حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254)
      2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها»
      (حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465)
      دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں

      1 *إسماعيل بن يحيى* 
      اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔
      ✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں 
      ✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔
      ✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔
      ✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔
      خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ: 
      12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك،
      کہتے ہیں کہ اسماعیل  مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔
      2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے،
      ✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے
      ✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔
      اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے
      الحکم الحدیث:- موضوع
      (محمد عمران علی حیدری)
      01.04.2022.
      28شعبان 1443ھ
×
×
  • Create New...