Jump to content

حدیث کے چند اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں


خیر اندیش

تجویز کردہ جواب

از
مفتی ابو اسامہ سائر القادری حفظہ الله|

 

اقسام حدیث باعتبار اصل یعنی اصل کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مرفوع (۲) موقوف (۳) مقطوع

پھر حدیث خواہ مرفوع ہو یا موقوف ہو یا مقطوع ہو ان میں سے ہر ایک کی تین قسمیں ہیں۔  

(۱) قولی  (۲) فعلی  (۳) تقریری ۔

 

اقسام حدیث باعتبار نقل یعنی نقل کے اعتبار سے حدیث کی دوقسمیں ہیں  (۱) متواتر  (۲) غیر متواتر۔

 

پھر راویوں کے تعداد کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مشہور  (۲) عزیز  (۳) غریب۔

 

پھر مراتب کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں ہیں۔ (۱) صحیح لذاتہ  (۲) صحیح لغیرہ  (۳) حسن لذاتہ  (۴) حسن لغیرہ۔

(ماخوذ: اصول علم حدیث صفحہ ۵ ، تا ۹)

 

اور حدیث کے منکر پر حکم شرع یہ ہے کہ اگر کسی نے حدیث کا انکار کیا تو وہ کافر ہے

میرے آقا اعلٰی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: حدیث متواتر کے انکار پر حکم تکفیر کی جاتی (یعنی حکم کفر لگایا جاتا) ہے خواہ متواتر باللفظ ہو یا متواتر المعنیٰ اور حدیث ٹھہرا کر جو کوئی استخفاف کرے تو یہ مطلقا کفر ہے اگرچہ حدیث احاد بلکہ ضعیف بلکہ فی الواقع اس سے بھی نازل (یعنی کم درجہ) ہو۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۰)

 

نوٹ: حدیث ٹھہرا کر انکار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ قائل یہ مراد لے کہ فلاں بات سرکار کائنات ﷺ نے معاذ اللہ غلط ارشاد فرما دی تو یہ قائل قطعی کافر و مرتد ہے۔

 

اور رہی بات مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے یا کسی خاص حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے؟ تو جان لیجئے کہ مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے اور کسی خاص حدیث کا انکار کرتا ہے اور وہ حدیث مجروح ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور اگر کسی حدیث صحیح کا انکار کرتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ شخص گمراہ ہے۔ اس پر توبہ تجدید ایمان لازم و ضروری ہے۔

 

جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے: حدیث کا مطلقاً انکار کرنے والا کافر ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں حدیث نہیں مانتا۔ لیکن اگر کسی نے کسی خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں مانتا اور وہ حدیث مجروح ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن اگر کسی حدیث صحیح کے بارے میں یہ کہا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ گمراہ ہے اور اگر کسی نے یہ کہا میں پوری کتاب (مشکوٰۃ) میں جو حدیثیں ہیں (یعنی یہ کہا کہ مشکوٰۃ میں جتنی حدیثیں ہیں ان میں سے کسی کو نہیں مانتا) اس کو نہیں مانتا تو وہ بھی ضرور کافر ہے اس پر توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ہے۔ ( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ ۵۶۴، ۵۶۵)

 

 

اور فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے: اگر کسی شخص نے حدیث کا انکار کیا اگر وہ بیان کردہ حدیث متواتر ہے اور وہ شخص اس کا منکر ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں اس پر علانیہ توبہ استغفار واجب ہے۔ بیوی والا ہو تو نکاح جدید بمہر جدید کرے اور تجدید ایمان بھی کرے اگر مرید ہے تو بیعت بھی کرے اگر وہ حدیث مشہور ہے تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ وہ گمراہ مسلمان ہے۔ (فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۱۰۹)

 

 

اور منکرِحدیث کے بارے میں   میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت ، مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں : جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے اور جو نبی  صَلَّی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے وہ قرآن مجید کا منکر اور جو قراٰن مجید کا منکر ہے اللّٰہ واحد قہار کا منکر ہے اور جو اللّٰہ کا منکر ہے صریح مرتد کافِر ہے ۔       

(فتاوٰی رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۱۲)

 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...

P-1
حدیث
حدیث: حدیث کا لغوی معنی قدیم کی ضد ہے اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی طرف جس قول، فعل، تقریر یا وصف کی نسبت کی گئی ہے اس کا بیان۔
سنت: لغت میں سنت کا معنی ہے طریقہ اور سیرت۔ بعض علما کے کہا کہ سنت حدیث کے مترادف ہے۔
خبر: خبر اور حدیث مترادف ہیں اور یہی قول عام علما کا پسندیدہ ہے۔
اثر: یہ حدیث کا مترادف ہے اور ایک قول یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے اقوال اور افعال کو اثر کہتے ہیں۔
سند: راویوں کا وہ سلسلہ جو متن حدیث تک پہنچائے۔
متن: جس کلام تک پہنچ کر سند ختم ہو جائے، یعنی حدیث کی عبارت۔

کتب احادیث کی اقسام
مُسند: وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع ہوں۔
صحیح: جس کتاب کے مصنف نے صرف احادیث صحیحہ کا التزام کیا ہو۔
جامع: جس کتاب میں آٹھ عنوانوں کے تحت احادیث لائی جائیں اور وہ یہ عنوانات یہ ہیں، سیر، آداب، تفسیر، عقائد، فتن، احکام، اشراط، مناقب۔
سُنن: جس کتاب میں محض احکام سے متعلق احادیث ہوں۔
معجم: جس کتاب میں ترتیب شیوخ سے احادیث لائی جائیں۔
مستخرج: جس کتاب میں کسی اور کتاب کی احادیث کو ثابت کرنے کے لیے ان احادیث کو مصنف کتاب کے شیخ یا شیخ الشیخ کی دیگر اسناد سے وارد کیا جائے۔
مستدرک: جس کتاب میں مختلف ابواب کے تحت ان احادیث کو لایا جائے جو ان ابواب میں کسی اور مصنف سے رہ گئی ہوں۔
رسالہ: جس کتاب میں جامع کے آٹھ عنوانوں میں سے کسی ایک عنوان کے تحت احادیث ہوں۔
جزء" جس کتاب میں صرف ایک موضوع پر احادیث ہوں۔
اربعین: جس کتاب میں چالیس احادیث ہوں۔
امالی: جس کتاب میں شیخ کے املاء کرائے ہوئے فوائد حدیث ہوں۔
اطراف: جس کتاب میں حدیث کا صرف وہ حصہ ذکر کیا جائے جو بقیہ پر دلالت کرے اور پھر اس حدیث کے تمام طرق اور اسانید بیان کر دیے جائیں یا بعض کتب مخصوصہ کی اسانید بیان کی جائیں۔
مصنف: جس کتاب کی ترتیب فقہی ابواب پر ہو اور اس میں آثار صحابہ اور اقوال تابعین و تبع تابعین بکثرت ہوں۔

Part-2
علم الحدیث روایۃً
یہ وہ علم ہے جو نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال، ان اقوال اور افعال کی روایت، ان کے ضبط اور ان کے الفاظ کی تحریر پر مشتمل ہو۔

علم الحدیث درایۃً
یہ وہ علم ہے جس سے روایت کی حقیقت، اس کی شرائط، اقسام، احکام، راویوں کے احوال اور ان کی شرائط، مرویات کی اقسام اور ان کے متعلقات کی معرفت ہو۔

ہم تک حدیث پہنچنے کے اعتبار سے حدیث کی دو اقسام ہیں، خبر متواتر اور خبر واحد۔

خبر متواتر: تواتر کا لغوی معنی ہے کسی چیز کا یکے بعد دیگرے اور لگاتار آنا۔ اس کا اصطلاحی معنی ہے کہ کسی حدیث کو اس قدر زیادہ لوگ بیان کرنے والے ہوں کہ عقل کے نزدیک ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔

خبر متواتر کے لیے شرط ہے کہ اس کے روایت کرنے والے کثیر ہوں، یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتدا سے انتہا تک راوی کثیر ہوں، یہ کثرت اس درجہ کی ہو کہ ان کا عادۃً جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو، اس خبر کی سند کی انتہا احساس اور مشاہدہ پر ہو۔ خبر متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے جس کی تصدیق سننے والا غیر اختیاری طور پر کرتا ہے، گویا کہ اس نے اس کا خود مشاہدہ کر لیا ہو۔
خبر متواتر لفظی: جس کے الفاظ اور معنی دونوں متواتر ہوں۔

خبر متواتر معنوی: جس کے صرف معنی متواتر ہوں، الفاظ متواتر نہ ہوں۔

خبر واحد: از روئے لغت خبر واحد وہ حدیث ہے جس کو ایک شخص روایت کرے۔ خبر واحد کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ جس حدیث میں خبر متواتر کی کوئی ایک شرط نہ ہو وہ خبر واحد ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں:
مشہور: مشہور وہ حدیث ہے جو دو سے زائد سندوں سے مروی ہو اور حد تواتر سے کم ہو۔
عزیز: حدیث عزیز وہ ہے جس میں سند کے کسی طبقہ میں دو سے کم راوی نہ ہوں۔
غریب: غریب اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں کسی جگہ بھی راوی اس روایت میں متفرد ہو

Part-3

قوت اور ضعف کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم
خبر الآحاد یعنی مشہور، عزیز اور غریب کی قوت اور ضعف کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں۔
مقبول: یہ وہ قسم ہے جس میں خبر کا صدق راجح ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال جائز ہے اور اس کےمقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں۔
صحیح لذاتہ: جس حدیث کی سند متصل ہو اور اس کے راوی عادل اور تام الضبط ہوں، وہ حدیث غیر شاذ اور غیر معلل ہو۔
صحیح لغیرہ: اگر حدیث صحیح لذاتہ کی صفات میں سے ضبط روایت میں کچھ کمی ہو لیکن اس کمی کی تلافی تعدد اسانید سے ہو جائے تو اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔
حسن لذاتہ: حسن وہ حدیث متصل ہے جس کے عادل راوی کا ضبط کم ہو اور وہ منکر الحدیث ہونے سے بری ہو اور اس کی حدیث شاذ اور معلل نہ ہو۔
حسن لغیرہ: حدیث حسن لغیرہ دراصل حدیث ضعیف ہے جب کہ وہ متعدد سندوں سے مروی ہو۔
مردود: یہ وہ قسم ہے جس میں خبر کا صدق راجح نہیں ہوتا اور اس کی وجہ خبر مقبول کی ایک یا ایک سے زائد شرائط کا فقدان ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ہوتا اور نہ اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے۔
حدیث ضعیف: ہر وہ حدیث جس میں صحیح اور حسن کی ایک یا ایک سے زائد صفات نہ ہوں وہ حدیث ضعیف ہے۔
حدیث معلق: جب مصنف کے تصرف سے سند کے اول سے راوی کو ساقط کر دیا جائے تو وہ حدیث معلق ہے۔
حدیث مرسل: جس حدیث کی سند کے آخر میں تابعی کے بعد راوی (صحابی) کو حذف کر دیا جائے وہ مرسل ہے۔
حدیث معضل: جس حدیث کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی متواتر ساقط ہوں۔
حدیث منقطع: منقطع وہ حدیث ہے جس میں کسی وجہ سے بھی عدم اتصال ہواور اس کا اکثر اطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس میں تابعی کے نیچے درجہ کا کوئی شخص صحابی سے روایت کرے۔
حدیث مدلّس: اس کا معنی ہے سند میں کسی عیب کا چھپانا اور اس کے ظاہر کی تحسین کرنا۔
حدیث مرسل خفی: جو حدیث راوی کے ایسے معاصر سے صادر ہوئی ہو جس نے اس شخص سے ملاقات نہ کی ہو جس نے اس کو وہ حدیث بیان کی ہو، بلکہ اس معاصر اور حدیث بیان کرنے والے کے درمیان واسطہ ہو۔
حدیث معنعن: معنعن وہ حدیث ہے جس میں راوی عن فلاں عن فلاں کہے۔
راوی میں طعن کا بیان: راوی میں طعن کا مطلب یہ ہے کہ راوی پر زبان سے جرح کی جائے اور اس کی عدالت اور دینداری اور اس کے ضبط و حفظ اور بیدار مغزی سے بحث کی جائے۔
حدیث موضوع: جب راوی میں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا طعن ہو تو اس کی حدیث موضوع کہلاتی ہے۔ جو جھوٹی بات گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دی گئی ہواس کو حدیث موضوع کہتے ہیں۔
حدیث متروک: یہ وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس پر کذب کی تہمت ہو۔
حدیث منکر: جب راوی میں فحش غلطی یا کثرت غفلت یا فسق کا طعن ہو تو اس کی حدیث کو منکر کہتے ہیں۔
حدیث معروف: اگر ضعیف راوی ثقہ کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں۔
حدیث شاذ اور حدیث محفوظ: جو راوی ضبط کی زیادتی، کثرت عدد یا دوسری وجوہ ترجیح سے راجح ہو اس کی روایت کو محفوظ کہتے ہیں اور جو اس راجح راوی کی مخالفت کرے اور وہ اس کی بہ نسبت مرجوح ہو، اس کی روایت کو شاذ کہتے ہیں۔
حدیث معلل: اگر قرائن سے راوی کے اس وہم پر اطلاع ہو جائے کہ وہ مرسل یا منقطع کو موصول قرار دیتا ہے اور اسی قسم کے اوہام جو حدیث میں طعن کا موجب ہیں، تو یہ حدیث معلل ہے۔
حدیث مدرج: جس حدیث کی سند میں تغییر کی وجہ سے ثقات کی مخالفت ہو وہ مدرج الاسناد ہے۔
حدیث مقلوب: حدیث مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں کسی لفظ کو بدل دیا جائے یا مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم کر دیا جائے۔

P-4
حدیث مضطرب: مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف سندوں سے مروی ہو یا ان کی روایت مختلف ہو اور وہ سندیں مساوی قوت کی ہوں۔ اگر سندیں مساوی نہ ہوں تو راجح اور مرجوح میں سے کوئی بھی مضطرب نہ ہو گی، راجح حدیث کو صحیح قرار دیا جائے گا اور مرجوح شاذ یا منکر قرار پائے گی۔
حدیث مصحف: جس حدیث میں ثقہ راویوں کی مخالفت کسی حرف یا حروف کے تغیر سے کی گئی اور لکھنے کی صورت باقی ہو، اگر صرف لفظوں میں مخالفت ہو تو اس کو مصحف کہتے ہیں اگر شکل میں مخالفت ہو تو اس کو محرف کہتےہیں۔
مجہول راوی: مجہول راوی اس کو کہتے ہیں جس کی ذات اور شخصیت کا پتا نہ چلے یا ذات اور شخصیت کا پتا ہو لیکن اس کی صفت کا پتا نہ ہو کہ آیا وہ عادل ہے یا غیر عادل۔ مجہول کی روایت کا کوئی مستقل نام نہیں ہے اور اس کی روایت کو حدیث ضعیف کی اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔
مبہم راوی: مبہم راوی کی روایت کو بھی مجہول کی اقسام میں شمار کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی حدیث ضعیف کی قسم ہے اور اس کا کوئی مستقل نام نہیں ہے۔
بدعتی راوی: بدعتی کی روایت کردہ حدیث کا کوئی مستقل نام نہیں ہے تاہم اس کو حدیث مردود کی اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔
حدیث مسند: جس حدیث مرفوع کی نبی کریم ﷺ تک سند متصل ہو۔
حدیث متصل: جس حدیث کی سند متصل ہو، خواہ وہ مرفوع ہو یا کسی پر بھی موقوف ہو، اس کو موصول بھی کہتے ہیں۔

P-5
یاد رکھنے والی بات:
عقائد میں علم یقین درکار ہوتا ہے اور حدیث جب تک مشہور متواتر نہ ہو اس کا ثبوت نہیں دیتی۔ حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو، ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقاد میں ظنیات کا کچھ اعتبار نہیں۔

دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ ان کے لئے اگرچہ اتنی قوت درکار نہیں لیکن حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا ضروری ہے۔ جمہور علما یہاں ضعیف حدیث قبول نہیں کرتے۔

تیسرا مرتبہ فضائل و مراتب کا ہے۔ یہاں بالاتفاقِ علما، ضعیف حدیث بھی کافی ہے۔ مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی، کہ جو ایسا کرے گا اتنا ثواب پائے گا، یا کسی نبی یا صحابی کی خوبی بیان ہوئی کہ انھیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا، یہ فضل عطا فرمایا، تو ان کے مان لینے کو ضعیف حدیث بھی کافی ہے۔

فتح المبین میں ہے کہ حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں عمل اس لیے ٹھیک ہے کہ اگر واقع میں صحیح ہوئی تو جو اس کا حق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے، وہ ادا ہو گیا، اور اگر صحیح نہ بھی ہو تو اس پر عمل کرنے میں کسی تحریم یا کسی کی حق تلفی کا مفسدہ نہیں ۔

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کا معنی یہ ہے کہ استحباب مانا جائے ورنہ نفسِ جواز تو اباحتِ اصلیہ سے خود ہی ثابت ہے، اس میں حدیث ضعیف کا کیا دخل ہوا، تو ورود حدیث کے سبب فعل کو ترجیح دی جائے، اور یہی استحباب ہے، کیونکہ یہ ضعیف حدیث پر عمل نفس اباحت سے ایک زائد چیز ہے لہٰذا مستحب ہے۔ چنانچہ جس کے پاس کوئی حدیث ضعیف پہنچے کہ جو فلاں فعل کرے گا اتنا فائدہ پائے گا، اسے چاہئے کہ نیک نیتی سے اس پر عمل کرے اور تحقیقِ صحت کے پیچھے نہ پڑے، وہ ان شاءاللہ اپنی حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ جائے گا۔

تقریب و تدریب میں ہے کہ کسی حدیث کو ضعیف کہا جائے تو معنی یہ ہیں کہ اس کی اسناد شرط مذکور پر نہیں، نہ یہ کہ واقع میں جھوٹ ہے۔ یعنی ضعیف کے یہ معنی نہیں کہ وہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ جو شرطیں محدثین نے اعتبار کیں ان پر پوری نہ اتری۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...