Jump to content
IslamiMehfil

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مسئلہ تقلید


Recommended Posts

  • 9 months later...

ابن تیمیہ وہابی کے نام کے ساتھ آپ نے دعائیہ کلمات استعمال کیے جبکہ ابن تیمیہ وہابی ہے ضال مضل ہے۔ تصویر آپ نے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی لگائی ہوئی ہے کچھ خدا کا خوف کریں۔

آپ کا تعلق اہلسنت سے ہے یا کسی اور سے ؟

Ibn e tammyah ko gumrah kehne ki kia waja ha jnab ...is bare me bata den?
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن تیمیہ گمراہ و بدمذھب ہے۔
ابن تیمیہ کا اصل نام احمد،اس کی کنیت ابو العباس اور مشہور ابن تیمیہ ہے،661ھ میں پیدا ہوا اور قلعهٔ دمشق میں بحالت قید 20 ذی قعدہ 728ھ میں انتقال ہوا۔
    ابن تیمہ نے مسلمانوں کے اجماعی عقائدواعمال سے ہٹ کرایک نئی راہ ڈالی جس کے باعث اس کے ہم عصراوربعد میں انے والے بڑے بڑے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے بعض نے اس کی تکفیرکی ،بعض نے گمراہ کہااوربعض نے بدعتی کے نام سے موسوم کیا۔چنانچہ، امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میں نے ابن تیمیہ کا انجام یہ دیکھا کہ اس کو ذلیل کیا گیا اوراس کی برائی بیان کی گئی اور حق وباطل سے اس کی تضلیل اور تکفیر ہوئی اور وہ ان خرافات میں پڑنے سے پہلے اپنی زندگی ہی میں سلف(بڑے بڑے علماء) کے نزدیک (اپنے علم کے باعث) منوروروشن تھا ۔ پھر وہ (ابن تیمیہ) غلط اور بدعتی مسائل کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک اندھیرے والا اور گرہن والا غبار آلودہ ہوگیا۔اور اپنے اعداء اور مخالفین کے نزدیک دجال،افاک (بڑا بہتان تراش) کافر ہو گیا اور عاقلوں،فاضلوں کے گروہوں کی نظر میں فاضل محقق بارع(ماہر) بدعتی ہوگیا۔''
    حضرت ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:(نام کے) حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے تفریط ( کوتاہی اور کمی) کی ہے (معاذاللہ عزوجل) اس طرح کہ''روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو حرام کہا۔'' جیسا کہ اس کے غیر نے (یعنی اس کے مخالف اور رد کرنے والے نے) زیادتی کی حد سے بڑھا کر اس طرح کہا کہ زیارت شریف کا قربت ہونا یہ ضروریات دین سے معلوم ہے۔اور اس کے منکرپرحکمِ کفرہے۔    
    پھرملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''امیدہے کہ یہ دوسرا(یعنی منکرزیارت پرکفرکافتویٰ دینے والا)صواب(صحیح ہونے )کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اس چیزکوحرام کہناجوباجماع واتفاق علماء مستحب ہو(جیسے مسئلہ زیارت)وہ کفرہے،کیونکہ اس معاملہ میں یہ تحریم مباح(یعنی مباح کوحرام کہنے ) سے بڑھ کرہے۔جب مباح کوحرام کہناکفرہے تومستحب کوحرام کہنابطریق اولیٰ کفرہوگا۔''
(شرح الشفالعلامہ القاری،ج3،ص514،علی ھامش نسیم الریاض۔شواھد الحق ص147)
ابن تیمہ کے بعض من گھڑت عقائدومسائل :
٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا جسم ہے٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نقل مکانی کرتا ہے٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ عرش کے برابر ہے نہ اس سے بڑا نہ چھوٹا،حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بہتان شنیع اور کفر قبیح سے پاک ہے۔اس کے متبع ذلیل ہوئے اور اس کے معتقد خائب وخاسر ہوئے ٭۔۔۔۔۔۔ دوزخ فنا ہوجائے گی ٭۔۔۔۔۔۔انبیاء علیہم السلام غیر معصوم ہیں ٭۔۔۔۔۔۔ حضور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عند اللہ کوئی مقام نہیں ان کا وسیلہ جائز نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سفرِ زیارت کرنا گناہ ہے اور اس سفر میں نماز قصر نہ پڑھی جائے گی ٭۔۔۔۔۔۔ کوئی حائضہ کو طلاق دے تو واقع نہ ہوگی ٭۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص عمد ا نماز ترک کردے تو اس پرقضا ضروری نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ حائضہ کو طواف کعبہ جائز ہے اور اس پر کوئی کفارہ بھی نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ تین طلاقیں ایک ہی ہوگی حالانکہ اپنے دعوی سے پہلے اس نے اس کے خلاف (اُمت محمدیہ کا) اجماع نقل کیا ،ان کے علاوہ بھی ابن تیمیہ کی خرافات ہیں اللہ عزوجل مسلمانوں کوان کے شرسے بچائے (اٰمین )
(فتاوی حدیثیہ ،ص 99،تا 101،مطبوعہ حلبی مصر)(ملخصًاازتعارف چندمفسرین محدثین مؤرخین کا،ص58۔59اور88تا90)

 

 

Link to post
Share on other sites

Ibn Taymiyyah aik khalas Khariji khalis shaytan thah jissay Tawheed aur Shirk kia hen aur kin bunyadaat qaim aur nafi hoteen hen un ka ilm nahin thah. Is Shaytan nay Istighathah ko Shirk tehraya, ahle kalma ki Takfir ki, sirf Tawheed aur shirk ka ilm nah honay ki waja say. 

Banda ki yahi samaj heh, jissay Tawheed aur Shirk ka pata nahin Kafir heh.  Bilkhasoos wo jo auroon ko Kafir kahay aur khud ilmi okaat yeh ho keh sahih Taheed aur Shirk ka bi pata nah ho. Lehaza mein nay ibn Taymiyyah aur jo is ki taleem par chalay ahle kufr aur ibn taymiyyah ko Kafir hi samajta hoon.

Aisay Kafir ko  Shaykh ul Islam likhna jaiz nahin. Agar kafir nahin toh gumra zeroor heh. Balkeh Khariji yaqeenan heh. Keun kay Musalman Ilahiyyah/rububiiyah kay izhar par Shirk ka hukm jari kartay hen. Magr kharijiyun nay sift Hakim ki bunyad par Hazrat Ali aur ashab ko Shirk ka ilzam deeya. Aur kaha Allah Hakim heh tum nay mkhlooq ko Hakim maan kar Shirk keeya. Yehni jistera baghayra  ilahiyyah/rububiyya kay ibn taymiyyah aur wahhabi Shirk ka ilzam detay hen issi tara Kharijiyun nay deeya. Sabat huwa Ibn Taymiiyah fehm Tawheed/shirk mein Kharijiyun jaisa thah. Aur yahi fehm sab Kharijiyun ko apas mein jorta heh.  Aur Khariji  Kafir hen. 

Edited by MuhammedAli
Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Sunni Haideri
      *ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق*
      حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی 
      ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔
      ✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔

      *طریق نمبر 1:.*
      2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب
      📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي "
       1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث.
      *قال الخطيب أيضا (3/ 475):*
      ✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔ 
       📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
      هذامنكر جدا.
      *قال الدارقطني: كذاب.*
      طریق نمبر 2:.
       نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد
      *ابن عساکر جلد30.ص141*
      ✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔
      مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے
      ✍️2724 - سهل بن سعد:
      حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي
      *مسند الفردوس 142/2*
      امام اصبھانی  رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا
      85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي»
      *فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89*
      ✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔
      وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى.
      هذا منكر جدا.
      قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب.
      *میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ*
      اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔
      ✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:-
      ✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔
      ✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے

      ✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔
      ✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم  كذاب ہے۔
      ✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب.
            📖خلاصہ کلام:-✍️✍️
      اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین  نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔
      اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔
      اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔
      ✍️الحکم الحدیث: موضوع
      (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
    • By Syed Kamran Qadri
      قربانی واجب ہو اور رقم نہ ہو،تو کیا حکم ہے؟

    • By Syed Kamran Qadri
      مرد کا سرخ لباس پہننا کیسا ؟؟؟

    • By Syed Kamran Qadri
      بٹیر،تیتر،ہدہد،چڑیا،بگلا،مرغابی،بلبل،مور،طوطا و دیگر چند پرندوں اورخرگوش کے حلال ہونے کے بارے میں فتویٰ

    • By kashmeerkhan
      کسی آیت ، حدیث اثر یا اجماع و قیاس سے ایسی دلیل پیش کرو کہ جس سے ہمارا امام اعظم رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنا فقہ میں ناجائز ٹھہرے اور اہلحدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کا محدثین (مثلا امام بخاری ، امام مسلم ، امام ترمذی، امام ابن ماجہ ، امام حاکم اور امام نسائی وغیرہ) کی تقلید کرنا تمام دین میں جائز ٹھہرے (تمام دین اس لیے کہا کہ اگر یہ قرآن پر عمل کا دعوی کریں تو تشریح و توضیح کیلئے تو احادیث کے محتاج ہوں گے۔ جب احادیث کے محتاج ٹھہرے تو احادیث کے متن، احادیث کی اسناد کی صحت و غیر صحت کے ڈھیروں کیا سینکڑوں مسائل در پیش آئیں گے۔ اب ایک راوی کو امام بخاری نے منکر الحدیث مان لیا تو یہ اندھی تقلید کرتے ہوئے پیچھے بھاگ پڑے اسی بات کے ۔۔۔ اگر اسی راوی کو کسی دوسرے محدث نے ثقہ مان لیا تو اب غیر مقلدین کے پاس کونسی وجہ ترجیح ہے کہ خود ہی مختلف اقوال کی کانٹ چھانٹ اور صواب و خطا کو پرکھ لیتے ہیں؟؟ کسی محدث نے ایک ہی حدیث کو ایک باب میں درج کردیا اورا اسکی مناسبت سے باب کا نام تک تجویز کردیا جبکہ دوسرا محدث وہی کی وہی حدیث بالکل مختلف باب میں لے کر آ جاتا ہے اور اس سے کوئی اور مطلب اخذ کر کے باب کا نام رکھ دیتا ہے ،، اب غیر مقلدین کے پاس کونسی دلیل شرعی ہے جس سے اسکا اصل محمل بھی پہچان لیتے ہیں اور ترجیح بھی دے ڈالتے ہیں اپنے زعم میں؟؟ محدثین کسی راوی پر جرح فرما دیں تو فورا بغیر مطالبہ شرعی دلیل اسکا قول سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں؟؟ وغیرہ)۔

      إإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإإ

      غیر مقلدین سے انہی کے ایک فورم پر تقلید کے سلسلے میں میری بحث ہوئی تو مجھ پر انہوں نے یہ قید لگائی کہ تقلید کی تعریف صرف اسی ہستی سے ثابت کرو جسکی تقلید تم نے منوانی ہے۔۔ میں نے ان سے پوچھا کہ  امام  بخاری و امام مسلم کو تم لوگ محدث مانتے ہو؟ فورا بولے جی بالکل۔۔۔ میں نے کہا کہ پہلے ان دونوں اماموں سے علم اصول حدیث کی تعریف ثابت کردو ، میں بھی امام اعظم علیہ رحمہ سے تعریف تقلید پیش کر دوں گا۔۔۔ ایک نجدی بھڑک اٹھا اور بولا کہ تم نے کبھی مقدمہ مسلم بھی پڑھا ہے ، اسی میں تعریف لکھی ہے ، میں نے کہا جی ہاں کئی بار پڑھا ہے مگر میرے پاس جو مقدمہ ہے ، اسمیں مذکورہ تعریف شاید پرنٹنگ ایریر کی وجہ سے نہیں ہے تو مہربانی کر کے سکین یا کوئی فوٹو اسی پیج کا لگا دیں مگر آج تک انہوں نے اسکا جواب نہیں دیا اور قیامت تک نہیں دے سکیں گے۔۔۔

×
×
  • Create New...