Jump to content
IslamiMehfil

دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے


Recommended Posts

دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 

ازقلم:حسن رضا حنفی 

دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں

الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو

(تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 

محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 

تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 

صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 

{ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه

یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 

(تفسیر نسفی ص 334)

علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 

فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً

جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 

(تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)

امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 

قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال

اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 

(حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)

علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 

لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال

کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے

(تفسیر روح البیان صفحہ 296)

محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے

اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Link to post
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • Recently Browsing   0 members

    No registered users viewing this page.

  • Similar Content

    • By Sunni Haideri
      جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      روایت کی تحقیق
      25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ.
      ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ  جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
      (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.)
      (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.)
      (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.)
      ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ 
       
      ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔
      اسکا صحیح  درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇
      3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا».
      ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔
      (سنن النسائي 6/11)۔
      ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇
      (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.)
      (شعب الإيمان: 7448.)
       (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.)
      (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.)
       واسناد صحیح 
      لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔

      حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔
      ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں.
      حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏  الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔
      ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ  ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء  ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے:  باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی»  (میری ماں)  کہا اور کبھی «إن أبی»  (میرا باپ)  کہا۔   
       
      امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔  
      (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔
      (سنن ابن ماجه :- 3663.)
      صحیح
      ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔
      واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
      ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔
      19.03.2023.
      چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
    • By Hasan Raza Hanfi
      دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے 
      ازقلم:حسن رضا حنفی 
      دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں
      الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو
      (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98)
      اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ 
      محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں 
      تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد 
      صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں 
      {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه
      یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے 
      (تفسیر نسفی ص 334)
      علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں 
      فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً
      جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے 
      (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226)
      امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں 
      قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال
      اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب  راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے 
      (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169)
      علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
      لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال
      کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے
      (تفسیر روح البیان صفحہ 296)
      محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے
      اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین





    • By Aquib Rizvi
      یہ ان الفاظ کے ساتھ مشہور ہے
       
      إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم
       
       بلاشبہ زنا ایک قرض ہے، اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو، تو یاد رکھو! اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی
       
      نہ تو یہ حدیث ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا قول بلکہ یہ اصول شریعت کے بھی خلاف ہے 
       
      کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا قرآن کی نص ہے 
       
      وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ
       
      اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی
       
      سورۃ فاطر :- 18
       
       
      یہ اشعار ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دیوان الشافعی میں موجود ہیں 
       
      اسی بنیاد پر بعض لوگ اسے امام شافعی کا قول کہتے ہیں لیکن امام شافعی کی ذات مبارکہ اس سے بری ہے والحمدللہ
       
      دیوان شافعی امام شافعی سے ثابت نہیں 
       
      فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب
       
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی 
    • By Aquib Rizvi
      یہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے مکمل روایت درج ذیل ہے :
       
      عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "أرحم أمتي بأمتي أبو بكر, وأقواهم في دين الله عمر, وأشدهم حياءً عثمان, وأقضاهم علي بن أبي طالب, ولكل نبي حواري وحواريي طلحة والزبير وحيثما كان سعد بن أبي وقاص كان الحق معه, وسعيد بن زيد من أحباء الرحمن, وعبد الرحمن بن زيد من تجار الرحمن, وأبو عبيدة بن الجراح أمين الله وأمين رسوله, ولكل نبي صاحب سر وصاحب سري معاوية بن أبي سفيان, فمن أحبهم فقد نجا ومن أبغضهم فقد هلك" أخرجه الملاء في سيرته.
       
      ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحیم ابوبکر صدیق اور دین کی باتوں میں سب سے زیادہ قوی عمر اور حیا میں سب سے زیادہ عثمان اور علم قضاء میں سب سے زیادہ علی اور ہر نبی کے کچھ حواری ہوتے ہیں میرے حواری طلحہ اور زبیر اور جہاں کہیں سعد بن ابی وقاص ہوں تو حق انہی کی طرف ہوگا اور سعید بن زید ان دس آدمیوں میں سے ہیں جو الرحمٰن کے محبوب ہیں اور عبدالرحمن بن عوف الرحمٰن کے تاجروں میں سے ہیں اور ابو عبیدہ ابن جراح اللہ اور رسول اللہ کے امین ہیں ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرے راز دار معاویہ بن ابی سفیان ہیں جو شخص ان سب سے محبت رکھے گا نجات پائے گا جو شخص ان سے بغض رکھے گا ہلاک ہوگا رضی اللہ عنھم
       
      محب الدین طبری اسے نقل کرنے کے بعد کہتے ہے
       
      أخرجه الملاء في سيرته
       
      یعنی اسے أبو حفص عمر بن محمد الموصلي،المعروف بالملاء (المتوفی570) نے وسيلة المتعبدين في سيرة سيد المرسلين میں روایت کیا ہے ۔
       
       
      اس کتاب کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
       
      وَلَمْ نَذْكُرْ مَنْ لَا يَرْوِي بِإِسْنَادِ - مِثْلَ كِتَابِ وَسِيلَةِ الْمُتَعَبِّدِينَ لِعُمَرِ الملا الموصلي وَكِتَابِ الْفِرْدَوْسِ لِشَهْرَيَارَ الديلمي وَأَمْثَالِ ذَلِكَ - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ دُونَ هَؤُلَاءِ الطَّبَقَاتِ ؛ وَفِيمَا يَذْكُرُونَهُ مِنْ الْأَكَاذِيبِ أَمْرٌ كَبِيرٌ
       
      [مجموع الفتاوى:1/ 261] 
       
      یعنی اس کتاب میں بے سند روایات ہیں اور اس کتاب میں اکثر من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں
      نوٹ :- اس حدیث کو کئی محدثین نے اپنی اپنی کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ اضافے اور کمی کے ساتھ نقل کیا 
       
      حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس کو پانچ سندوں سے نقل کیا 
       
      ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 39/95 )
      ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 58/401 )
       
      امام ابو یعلی موصلی رحمہ اللہ نے اس کو اپنی سند سے نقل کیا 
       
      ( كتاب مسند أبي يعلى - ت السناري 8/62 )
       
      امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا 
       
      ( كتاب مسند البزار = البحر الزخار 13/259 )
       
      امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا 
       
      ( كتاب صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع 4/306 )
       
       
      امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سند صحیح کے ساتھ نقل کیا :
       
      ( كتاب سنن ابن ماجه - ت الأرنؤوط 1/107 )
       
       
      اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند صحیح کے ساتھ 
       
      ( كتاب سنن الترمذي - ت شاكر 5/644 )
       
      اور اسی طرح درجنوں محدثین نے 
       
      مگر کسی نے بھی حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ نہیں کیا کہ معاویہ میرے رازداں ہیں حالانکہ امام ابن ماجہ نے حضرت معاذ بن جبل ابی بن کعب بن زید بن ثابت کی فضیلت کا بھی اضافہ کیا لیکن حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ کسی محدث نے باسند یا بے سند نہیں کیا
       
      حضرت معاویہ کی فضیلت کا اضافہ اس کتاب میں موجود ہے جو کتاب موضوع من گھڑت روایات کی اکثریت پر مشتمل ہے اور بے سند روایات پر مشتمل ہے 
       
       
      لہذا حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ باطل ہے . عدم متابعت و شواہد و سند و معتبر مآخذ کی بنا پر
       
      جن تین صحابہ کی فضیلت کا اضافہ سند صحیح سے ثابت ہے وہ درج ذیل ہے
       
      سنن ابن ماجہ :- 154 صحیح
       
      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"،
       
      انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“ 
       
      فقط واللہ و رسولہ اعلم 
       
      خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
    • By Sunni Haideri
      *سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے وفات کے وقت  تین باتوں کا اقرار جرم کیا تھا؟*
      *اس کی حقیقت کیا  ہے؟*
      *✍️شیعہ کی جہالت کا جواب✍️*
       *الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہؐ۔*
      *وعلی الک واصحبک یاسیدی یا خاتم المرسلین۔*
      *صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم*
      *⚔️🗡️ضرب حیدری🗡️⚔️*
      عبد الرحمن ابن عوف ، ابوبکر کی بیماری کے ایام میں اسکے پاس اسکی عیادت کرنے گیا اور اسے سلام کیا، باتوں باتوں میں ابوبکر نے اس سے ایسے کہا:
      مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا، اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا.
        
      *الجواب بعون الوہاب*
      ✍️پہلی بات اس روایت کی تین اسنادہیں اور تینوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سند بھی درجہ صحیح و حسن تک نہیں جاتی۔
      *طریق نمبر 1*
      أنا حميد أنا عثمان بن صالح، حدثني الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي، حدثني علوان، عن صالح بن كيسان، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أباه عبد الرحمن بن عوف، دخل علي أبي بكر الصديق رحمة الله عليه في مرضه الذي قبض فيه ... فقال [أبو بكر] : « أجل إني لا آسي من الدنيا إلا علي ثَلاثٍ فَعَلْتُهُنَّ وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُنَّ، وثلاث تركتهن وددت أني فعلتهن، وثلاث وددت أني سألت عنهن رسول الله (ص)، أما اللاتي وددت أني تركتهن، فوددت أني لم أَكُنْ كَشَفْتُ بيتَ فاطِمَةَ عن شيء، وإن كانوا قد أَغْلَقُوا علي الحرب.
      *الخرساني،زنجويه الأموال، ج 1، ص 387۔* *الدينوري، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 21، تحقيق: خليل المنصور، باتحقيق شيري، ج1، ص36، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.*
      *تاريخ الطبري، ج 2، ص 353.* *العقد الفريد، ج 4، ص 254.* *مروج الذهب، ج 1، ص 290*
      ترجمہ اوپر والا ہی ہے یہ اس کی عربی عبارت ہے۔
      ✍️اس سند میں علوان بن داود البجلی منکر الحدیث ہے۔۔ 
      *1* قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح *منكر الحديث.*
      *2* وقال العقيلي: *له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.*
      *3* وقال أبو سعيد بن يونس: *منكر الحديث.*
      *طریق نمبر 2*
      أخبرنا أبو البركات عبد الله بن محمد بن الفضل الفراوي وأم المؤيد نازيين المعروفة بجمعة بنت أبي حرب محمد بن الفضل بن أبي حرب قالا أنا أبو القاسم الفضل بن أبي حرب الجرجاني أنبأ أبو بكر أحمد بن الحسن نا أبو العباس أحمد بن يعقوب نا الحسن بن مكرم بن حسان البزار أبو علي ببغداد حدثني أبو الهيثم خالد بن القاسم قال حدثنا ليث بن سعد عن صالح بن كيسان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه.
      *ابن عساكر الشافعي.*
      *تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 30، ص417 ـ 419۔*
      ✍️اس نقل کرنے کے بعد امام مدائنی نے کہا سند مختصر ہے مطلب سند میں انقطاع ہے۔ 
      *كذا رواه خالد بن القاسم المدائني عن الليث وأسقط منه علوان بن داود وقد وقع لي عاليا من حديث الليث وفيه ذكر علوان.*
      ✍️امام عقیلیؒ نے علوان والے طریق کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اور  لیث  والا بھی اور آخر میں فرمایا کہ *ابو بکر والی حدیث  اضطراب کا شکار ہے۔*
      ✍️ *وأورد العقيلي أيضًا من طريق الليث:* حدثني علوان بن صالح عن صالح بن كيسان أن معاوية قدم المدينة أول حجة حجها بعد اجتماع الناس عليه ... فذكر قصة له مع عائشة بنت عثمان , وقال: لا يعرف علوان إلا بهذا مع اضطرابه في حديث أبي بكر.
      طریق نمبر 2 کی سند میں ایک راوی ہے
      ✍️أبو الهيثم خالد بن القاسم اس پر کذاب، متروک اور وضح  تک ہی جرح ہے۔✍️
      اس کا پورا نام: *خالد بن قاسم* 
      ہے اور اس نے شہرت: *خالد بن القاسم المدائني*
       کے نام سے پائی اور اس کی کنیت:*أبو الهيثم* ہے
      *1* إسحاق بن راهويهؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.*
      *2* إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فرماتے ہیں کہ: *کذاب يزيد في الأسانيد*
      *3* محمد بن إسماعيل البخاريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك تركه علي والناس.*
      *4* مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك الحديث.*
      *5* أبو أحمد بن عدي الجرجانيؒ فرماتے ہیں کہ: *له عن الليث مناكير.*
      *6* امام الذهبيؒ فرماتے ہیں کہ : *ذكر فيه ما يقتضي الوضع.*
      *طریق نمبر 3*
      حدثني حفص بن عمر، ثنا الهيثم بن عدي عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري أن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت علي أبي بكر في مرضه.
      *البلاذري. أنساب الأشراف، ج 3، ص 406 ، طبق برنامه الجامع الكبير.*
      ✍️اس طریق میں *الهيثم بن عدي* متروک الحدیث ہے۔
      اور اضطراب بھی تینوں اسناد میں ہے۔
      اس کا پورا نام:.
      *الهيثم بن عدي بن عبد الرحمن بن زيد بن أسيد بن جابر بن عدي بن خالد بن خيثم بن أبي حارثة* ہے
      *1:* أبو بكر البيهقيؒ فرماتے ہیں کہ *متروك الحديث، ونقل عن ابن عدي أنه: ضعيف جدا*
      *2:* أبو حاتم الرازيؒ فماتے ہیں کہ  *متروك الحديث۔*
      *3:* أبو داود السجستانيؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.*
      *4:* أبو زرعة الرازي فرماتے ہیں کہ : *ليس بشيء*
      *5:* امام يحيى بن معين الحنفیؒ فرماتے ہیں کہ: *ليس هو بثقة، ومرة: ليس بشيء، ومرة: ليس بثقة كان يكذب*
      خلاصہ کلام آپ کی پیش کردہ روایت سے استدلال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کیوں کہ تینوں طریق میں ایک طریق بھی قابل استدلال نہی ہے۔
      تینوں اسناد میں وضح،کذاب اور متروک راوی موجود ہیں۔
                           الحکم الحدیث: متروک
      (طالب دعا : محمد عمران علی حیدری)
      17.09.2021.
      09 صفر المظفر 1443ھ
×
×
  • Create New...