Jump to content

داغ سجد� کی حقیقت از اعلحضرت امام احمد رضا خاں


Ghulam e Raza

تجویز کردہ جواب


داغ سجدہ کی شرعی حیثیت
از
اعلیحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
استفتاء
بعض نمازیوں کو سبب کثرت نماز کے ناک یا پیشانی پر جو سیاہ داغ ہو جاتا ہے اس سے نمازی کو قبر میں اور حشر میں خداوند کریم جل جلالہ کی پاک رحمت کا حصہ ملتا ہے یا نہیں اور زید کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت سے اس کی ناک یا پیشانی پر کالا داغ ہو جاتا ہے یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں؟
الجواب
اللہ عزوجل صحابہ کرام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں فرماتا ہے:
سیماھم فی وجوھہم من اثر السجود (پارہ ۲۶ آیت ۲۹ الفتح)
"ان کی نشانی ان کے چہروں میں ھے۔"
سجدے کے اثر سے صحابہ و تابعین سے اس نشانی کی تفسیر میں چار قول ماثور ہیں۔
اول: وہ نور کہ روز قیامت ان کے چہروں پر برکت سجدہ سے ہو گا یہ حض رات عبداللہ بن مسعود وامام حسن بصری و عطیہ و خالد حنفی ومقاتل بن حیان سے ہے
دوم:خشوع وخضوع و روشن نیک جس کے آثار صالحین کے چہروں پر دنیا ہی میں بے تصنع ظاہر ہوتے ہیں۔یہ حضرت عبداللہ بن عباس و امام مجاہد سے ہے۔
سوم:چہرے کی زردی کہ قیام اللیل و شب بیداری میں پیدا ہوتی ہے یہ امام حسن بصری و ضحاک و عکرمہ و شمر بن عطیہ سے ہے
چہارم:وضوکی تری و خاک کا اثر کہ زمین پر سجدہ کرنے سے ماتھے اور ناک پر مٹی لگ جاتی ہے یہ امام سعید بن جبیر و عکرمہ سے ہے۔
ان میں پہلے دو قول اقوی(سب سے قوی)و اقدم(سب سے اول) ہیں کہ دونوں خود سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مروی ہیں اور سب سے قوی اور مقدم پہلا قول ہے کہ وہ حضور اقدسﷺ کے ارشاد سے بسند حسن ثابت ہے
رواہ الطبرانی فی معجمیہ الاودط والصغیر و ابن مردویۃ عن ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قولہ عزوجل سیماھم فی وجوھہم من اثر السجود قال النور یوم القیمۃ
ترجمہ: کہ طبرانی نے معجم اوسط اور ابن مردویہ نے ابی بن کعب سے رویت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نشان سجود کی تفسیر میں فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے چہروں کا نور مراد ہے
ولہذا امام جلال الدین محلی نے جلالین میں اسی پر اقتصار کیا
اقول سوم میں قدرے ضعف ہے کہ وہ اثر بیداری ہے نہ اثر سجود وھاں بیداری بغرض سجود ہے اور چہارم سب سے ضعیف تر ہے کہ وضو کا اثر سجود نہیں اور مٹی بعد نماز چھڑا دینے کا حکم ہے یہ "سیماو"نشانی ہوتی تو زائل نہ کی جاتی۔ امید ہے کہ سعید بن جبیر سے اس کا ثبوت نہ ہو بہر حال یہ سیاہ دھبہ کہ بعض کے ماتھے پر کثرت سجود سے پڑتا ہے تفاسیر ماثورہ میں اس کا پتہ نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس و سائب بن یزید و مجاھد رضی اللہ تعالی عنہم سے اس کا انکار ماثور۔
تفسیر ماثورہ میں ودم ثبوت ہی نہیں بلکہ آثار صحابہ میں اس کے خلاف روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر ۱:طبرانی نے معجم کبیر اور بیہقی نے سنن میں حمید بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے ۔ سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس حاضر تھا اتنے میں ایک شخص آیا جس کے چہرے پر سجدہ کا داغ تھا۔ سائب رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
"بے شک اس شخص نے اپنا چہرہ بگاڑ لیا سنتے ہو خدا کی قسم یہ وہ نشانی نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے میں اسی(۸۰)برس سے نماز پڑھتا ہوں میرے ماتھے پر داغ نہ ہوا۔"
روایت نمبر ۲:سعید بن منصورو عبد بن حمید و ابن نصر و ابن جریر نے مجاھد سے روایت کی اور یہ سیاق اخیر ہے۔
"یعنی منصور بن المعمر کہتے ہیں امام مجاھد نے فرمایا اس نشانی سے خشوع مراد ہے میں نے کہا بلکہ داغ جو سجدے سے پڑتا ہے فرمایا ایک کے ماتھے پر اتنا بڑا داغ ہوتا ہے جیسے بکری کا گھٹنا اور باطن میں ویسا ہے جیسی اس کے لئے خدا کی مشیت ہوئی یعنی یہ دھبہ تو منافق بھی ڈال سکتا ہے"
روایت نمبر ۳ : ابن جریر نے بطریق مجاھد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ فرمایا:"خبردار یہ وہ نہیں جو تم لوگ سمجھتے ہو بلکہ یہ اسلام کا نور،اس کی خصلت،اس کی روش،اس کا خشوع ہے"
روایت نمبر ۴:بلکہ تفسیرخطیب شربینی پھر فتوحات سلیمانیہ میں ہے۔"یعنی یہ نشان سجدہ جو ریاکار ماتھے پر بنا لیتےہیں یہ اس نشانی سے نہیں یہ خارجیوں کی نشانی ہے اور ابن عباس سے روایت مرفوع آئی کہ میں آدمی کو دشمن و مکروہ رکھتا ہوں جبکہ اس کے ماتھے پر سجدے کا اثر دیکھتا ہوں۔"
اقول: اس روایت کا حال اللہ جانے اور بفرض ثبوت وہ اس پر محمول جو دکھاوے کے لئے ماتھے اور ناک کی مٹی نا چھڑائے کہ لوگ جانیں یہ ساجدین میں سے ہے اور وہ انکار بھی سب اسی صورت ریا کی طرف راجع ورنہ کثرت سجود یقینا محمود اور ماتھے پر اس سے نشان خود بن جانا نہ اس کا روکنا اس کی قدرت میں ہے نہ زائل کرنا، نہ اس کی اس میں کوئی نیت فاسدہ ہے تو اس پر انکار کرنا متصور اور مذمت نا ممکن بلکہ وہ من جانب اللہ اس کے عمل حسن کا نشان اس کے چہرے پر ہے تو زیر آیت کریمہ سیما ھم فی وجوھہم من اثر السجود داخل ہو سکتا ہے کہ جو معنی فی نفسہ صحیح ہو اور اس پر دلالت لفظ مستقیم اسے معانی آیات قرآنیہ سے قرار دے سکتے ہیں کما صرح بہ الامام حجۃالاسلام و علیہ درج عامۃالمفسرین الاعلام۔اب یہ نشان اسی محمود نشانی میں داخل ہو گا جس کی تعریف اس آیت کریمہ میں اس کی گنجائش ہے۔
لاجرم:تفسیر نیشاپوری میں اسے بھی اس آیت میں برابر کا متحمل رکھا۔تفسیر کبیر میں اسے بھی تفسیر آیت میں ایک قول بتایا۔
کشاف و ارشاد العقل میں اسی پر اعتماد کیا۔
بیضاوی نے اسی پر اقتصار کیا اور اس کے جائز بلکہ محمود ہونے کو اتنا بس ہے کہ سیدنا امام سجاد زین العابدین علی بن حسین بن علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہم کی پیشانی پر سجدہ کا یہ نشان تھا۔
مفاتیح الغیب میں ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان "سیماھم" میں دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ یہ نشانی قیامت کے سن سے متعلق ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا سے متعلق ہے اور اس دوسری وجہ میں پھر مزید دو احتمال ہیں ایک یہ ہے کہ "سیما" سے مراد وہ نشان ہے جو کثرت سجود کی وجہ سے پیشانیوں پر ظاہر ہوتا ہے"
انوارالتنزیل میں ہے"کہ وہ داغ مراد ہے جو ان کی پیشانیوں میں کثرت سجدہ سے پیدا ہوتا ہے"
غرائب القرآن میں ہے"یہ جو علامت سجدہ کہ آیت میں ذکر فرمانی جائز ہے کہ امر محسوس ہو۔امام علی بن حسین زین العابدین و حضرت علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کو گٹھ والا کہا جاتا کہ کثرت سجدہ سے دونوں صاحبوں کی پیشانی وغیرہ مواضع سجود پر گٹھے پڑ گئے تھے اور وہ جو حدیث میں آیا کہ اپنی صورتیں داغی نہ کرو اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے چہرے (یعنی ناک) پر سجدے کا نشان ہو گیا تھا اس سے فرمایا:تیرے ناک اور منہ تیری صورت ہیں تو اپنا چہرہ داغی نہ کرو اور اپنی صورت عیبی نہ بناو۔یہ اس صورت پر محمول ہے کہ دکھاوے کیلئے قصدا گھٹے ڈالے اور جائز ہے کہ وہ علامت امر معنوی ہو یعنی صفا و نورانیت"
کشاف میں ہے"اس نشانی سے وہ داغ مراد ہے کہ کثیر السجدہ شخص کو پیشانی میں کثرت سجود سے پیدا ہوتا ہے اور وہ جو فرمایا کہ سجدے کے اثر سے یا اس مراد کو واضح کرتا ہے یعنی اس تاثیر سے جو سجدے سے پیدا ہوتی ہے اور دونوں علی،امام علی بن حسین زین العابدین و حضرت علی بن عبداللہ بن عباس پدر خلفاء رضی اللہ تعالی عنہم گھٹے والے کہلاتے ہیں کہ کثرت سجود سے ان کی پیشانی وغیرہ مواضع سجود پر گھٹے پڑ گئے تھے اور یوں ہی امام سعید بن جبیر سے اس کی تفسیر مروی ہے کہ وہ چہرہ پر نشان ہے اب اگر تو کہے کہ رسول اللہ ﷺ سے حدیث تو یہ آئی ہے کہ اپنی صورتیں داغی نہ کرو اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے چہرہ پر داغ سجدہ دیکھ کر فرمایا کہ تیرے چہرے کی سوبھا تیری ناک ہے تو اپنا چہرہ داغی نہ کر اور اپنی صورت نہ بگاڑ میں کہوں گا یہ اس کے بارے میں جو زمین پر پیشانی زور سے گھسے تاکہ یہ داغ پیدا ہو جائے یہ زیادہ نفاق ہے کہ اس سے اللہ عزوجل ہی کے لیے سجدہ کرتا ہے اور بعض سلف نے کہا ہم نماز پڑھتے تو ہمارے ہاتھوں پر کچھ نشان نہ ہوتا اور اب ہم دیکھتے کہ کسی نمازی کے ماتھے پر اونٹ کا سا گھٹنا ہے معلوم نہیں کہ اب سر زیادہ بھاری ہو گئے ہیں یا زمین زیادہ کری ہو گئی یہ بھی انہوں نے اسی کو کہا جو براہ نفاق یہ گھٹنا قصدا ڈالے۔"
تفسیر علامہ ابواسعودآفندی میں ہے(اس کا خلاصہ وہی ہے جو عبارت کشاف کا ہے)
نہایہ و مجمع البحار میں ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی ناک پر سجدہ کا داغ دیکھا فرمایا اپنی صورت نہ کر یعنی سجدے میں ناک پر اتنا زور نہ دے کہ داغ پڑ جائے"
ناظر عین الغریبین و مجمع بحارالانوار میں ہے کہ "حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کے یہ معنی ہیں کہ ناک پر بشدد زور ڈال کر اپنی صورت نہ بگاڑ"
بالجملہ!زید کا یہ قول(کہ جس شخص کے دل میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت سے اس کی ناک یا پیشانی پا کالا داغ ہو جاتا ہے) باطل محض ہے اور امام زین العابدین و حضرت علی و عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے مبارک چہروں پر یہ نشان ہونا اس کے قول کو اور بھی مردود کر رہا ہے اور ایک جماعت علما کے نزدیک آیت کریمہ میں مراد ہونا جس سے ظاھر کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی یہ نشان تھا اور یہ کہ اللہ عزوجل نے اس کی تعریف فرمائ اب تو قول زید کی شناخت کی کوئی حد نہ رکھے گا۔
تحقیق حکم
اقول اور اس بارے میں تحقیق حکم یہ ہے کہ دکھاوے کے لیے قصدا یہ نشان پیدا کرنا حرام قطعی و گناہ کبیرہ ہے اور وہ نشان معاذاللہ اس کے استحقاق جہنم کا نشان ہے جب تک توبہ نہ کرے۔
اور اگر یہ نشان کثرت سجود سے خود پڑ گیا تو وہ سجدے اگر ریائی تھے تو غافل جہنمی اور یہ نشان اگرچہ خود جرم نہیں مگر جرم سے پیدا ہوا لہذا اسی ناریت کی نشانی،
اور اگر وہ سجدے خالصا لوجہ اللہ تھے مگر یہ اس نشان پڑنے سے خوش ہوا کہ لوگ مجھے عابد ساجد جانیں گے تو اب ریا آ گیا اور یہ نشان اس کے حق میں مذموم ہو گیا،
اور اگر اسے اس کی چرف کچھ التفات نہیں تو یہ نشان نشان محمود ہے اور ایک جماعت کے نزدیک آیہ کریمہ میں اس کی تعریف موجود ہے اُمید ہے کہ قبر مین ملائکہ کے لیے اس کے ایمان و نماز کی نشانی ہو اور روز قیامت یہ نشان آفتاب سے زیادہ نورانی ہو جبکہ عقیدہ مطابق اھلسنت وجماعت صحیح و حقانی ہو ورنہ بددین گمراہ کی کسی عبادت پر نظر نہیں ہوتی ہے جیسا کہ ابن ماجہ وغیرہ کی احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یہی وہ دھبا ہے جسی خارجیوں کی علامت کہا گیا۔ بالجملہ بد مذہب کا دھبا مذموم اور سنی میں دونوں احتمال ہیں ریاء ہو تو مذموم ورنہ محمود اور سُنی پر ریا کی تہمت تراش لینا اس سے زیادہ مذموم و مردود کہ بد گمانی سے بڑھ کر کوئی بات جھوٹی نہیں قالہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ واللہ تعالی اعلم

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...