Jump to content

Kya Hazrat Essa zinda awr Jism sameet asman per uthae gai (Qurani Aayat se )


Aamir Malik

تجویز کردہ جواب

 

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام  بیان فرماتے ہیں:۔

 

       ۔     ’’ہمارے ہادی اور سیّد مولیٰ جناب ختم المرسلین نےمسیح اوّل اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔ظاہر فرمایا ہے کہ مسیح اوّل اور مسیح ثانی کے حلیہ میں بھی فرق بیّن ہو گا۔چنانچہ مسیح اوّل کا حلیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کی رات میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ درمیانہ قد اور سرخ رنگ اور گھنگروالے بال اور سینہ کشادہ ہے دیکھو صحیح بخاری صفحہ489 لیکن اسی کتاب میں مسیح ثانی کا حلیہ جناب ممدوح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ گندم گوں ہے اور ا س کے بال گھنگر والے نہیں ہیں اور کانوں تک لٹکتے ہیں .اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ دونوں ممیز علامتیں جو مسیح اول اورؔ ثانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہیں کافی طور پریقین نہیں دلاتیں کہ مسیح اول اورؔہے اور مسیح ثانی اور ان دونوں کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے جو باعتبار مشابہت طبع اور روحانی خاصیت کے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

 

                                                                (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب و اذکرفی الکتاب مریم)

 

                                                                           (توضیح مرام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 59)
Link to comment
Share on other sites

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر:

 

1۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔

 

2۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔

 

3۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔

 

4۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔

 

5۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔

 

6۔ پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔

 

7۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟

 

قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت 6) میں فرمایا ’’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبیین ہوا اور وہی خاتم النبیین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

 

8۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 

ترجمہ :۔ کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔

 

 (تفسیر القرآن الحکیم جزء 5 صفحہ 247)

 

ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔

 

تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:

 

ترجمہ :۔ ’’  مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔

 

(تفسیر الدر المنثور جزء2 صفحہ 226)

 

دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

 

’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت 19)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔

 

ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔

 

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کُلُّ مُؤْمِن صِدِّیْقٌ وَ شَہِیْدٌ‘‘

 

(الدر المنثور الجزء 6 صفحہ 176)

 

کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔

 

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔

 

9۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔
Link to comment
Share on other sites

          حیاتِ عیسیٰؑ کے قائلین ’’ختم نبوت‘‘کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں

 

’’ہم لفظی اور حقیقی ہر معنی میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبییّن تسلیم کرتے ہیں اور بادب اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جرأت کرتے ہیں کہ مُنکرینِ حدیث کے سوا ہمارے تمام مخالف فرقوں کے علماء آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان معنوں میں خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتے۔ وہ یہ کہنے کے باوجود کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں یہ متضاد ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ کو نہ تو جسمانی لحاظ سے ختم فرما سکے نہ ہی رُوحانی لحاظ سے۔ آپ ؐ کے ظہور کے وقت ایک ہی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ تھا مگر افسوس وہ آپ ؐ کی زندگی میں ختم نہ ہو سکا آپؐ وفات پاگئے لیکن وہ زندہ رہا اور اَب تو وصالِ نبوی ؐ پر بھی چودہ سَو برس گزرنے کو آئے لیکن ہنوز وہ اسرائیلی نبی زندہ چلا آرہا ہے۔ ذرا انصاف فرمائیے کہ خاتَم کے جسمانی معنوں کے لحاظ سے حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک دونوں میں سے کون خاتَم ٹھہرا۔

 

 پھر یہی علماء رُوحانی لحاظ سے بھی عملاً مسیح ناصری ؑ ہی کو خاتَم تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم فیض رسانی کے لحاظ سے بھی مسیح ناصری ؑ کی فیض رسانی کو ختم نہ فرما سکے۔ دیگر نبیوں کے فیض تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے اور نجات کی دوسری تمام راہیں بند تھیں۔ ایک مسیح ناصری ؑ زندہ تھے مگر افسوس کہ ان کے فیض کی راہ بندنہ ہو سکی۔ یہی نہیں ان کی فیض رسانی کی قوت تو پہلے سے بھی بہت بڑھ گئی اور اُس وقت جبکہ اُمّتِ محمدیہ آنحضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی عظیم الشان قوتِ قدسیہ کے باوجود خطرناک رُوحانی بیماریوں میں مُبتلا ہو گئی اور طرح طرح کے رُوحانی عوارض نے اُسے گھیر لیا تو براہِ راست آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قُدسیہ تو اِس اُمّتِ مرحومہ کو نہ بچا سکی ہاں بنی اسرائیل کے ایک رسُول کے مسیحی دَموں نے اُسے موت کے چنگل سے نجات دلائی اور ایک نئی رُوحانی زندگی عطا کی۔ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کیا صریحاً اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو افاضۂ  فیض کے لحاظ سے بھی سب نبیوں کا ختم کرنے والا نہیں سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نبی جو اُس وقت زندہ تھا اُس کی فیض رسانی کی قوت کو بھی آپ ؐ ختم نہ فرما سکے بلکہ نعوذ باﷲ وہ اِسرائیلی نبی اِس حال میں فوت ہؤا کہ اُمّتِ محمدیہ کا آخری رُوحانی مُحسن بن چُکا تھا۔

 

 غور فرمائیے! کہ کیا جسمانی اور رُوحانی دونوں معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم النّبییّن تسلیم نہیں کیا جارہا؟ کیا یہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح گُستاخی نہیں؟ کیا یہ آیت خاتم النّبییّن کی رُوح کو سبوتاژ کرنے کے مترادف نہیں؟ اور پھر بھی یہ دعویٰ ہے کہ احمدی خاتم النّبییّن کے مُنکر اور ہم خاتم النّبییّن کے قائل بلکہ محافظ ہیں۔ کیا دُنیا سے اِنصاف بالکل اُٹھ چکا ہے؟ کیا عقل کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا؟ کیا اِس قضئے کو عَدل کے ترازو پر نہیں تولا جائے گا بلکہ محض عددی اکثریت کے زور پر حق و باطل اور اُخروی نجات کے فیصلے ہوں گے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ خدا ہر گز نہ کرے کہ ایسا ہو۔ لیکن ایسا اگر ہو تو پھر تقویٰ اﷲ کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں اسے جنگل کا قانون کہا جاتا اور کیوں اِس نااِنصافی کے لئے اﷲ اور رسول ؐ کے مقدّس نام استعمال کئے جاتے ہیں۔ ویرانے کا نام کوئی اچھا سا بھی رکھ لیں ویرانہ ویرانہ ہی رہے گا۔

 

 ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم مطلق طور پر آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور تاویلیں کر کے ایک اُمّتی اور ظِلّی نبی کے آنے کی راہ نکال لیتے ہو اور اِس طرح ختمِ نبوت کو توڑنے کے مُرتکب ہو جاتے ہو۔

 

 ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ایسے اُمّتی نبی کا اُمّتِ محمدیہ ہی میں پیدا ہونا جو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا کامل غلام ہو اور اپنے ہر رُوحانی مرتبے میں سَرتا پا آپؐ ہی کے فیض کا مرہونِ منّت ہو ہر گز آیت خاتم النّبییّن کے مفہوم کے منافی نہیں کیونکہ فانی اور کامل غلام کواپنے آقا سے جُدا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اِس بات کے مکلّف ہیں کہ اپنے اس مؤقف کو قرآنِ حکیم سے، ارشاداتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے، اقوالِ بزرگانِ اُمّت سے اور محاورہئ عرب سے ثابت کریں اور اِس سلسلہ میں ایک سیر حاصل بحث آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے مگر اس سے پہلے ہمیں رخصت دیجئے کہ ہم اُن لوگوں کا کچھ محاسبہ کریں جو ہم پر مُہرِنبوت کو توڑنے کا اِلزام لگاتے ہیں کہ خود ان کے عقیدہ کی حیثیت کیا ہے۔ وہ بظاہر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو مطلقاً بلا شرط و بِلا اِستثناء ہر معنٰی میں آخری نبی مانتے ہیں اور آپ ؐ کے بعد کسی قسم کے نبی کی بھی آمد کے قائل نہیں لیکن ساتھ ہی اگر پوچھا جائے تو یہ اقرار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ”سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو ضرور ایک دن اِس اُمّت میں نازل ہوں گے”۔

 

 جب آپ ان پر یہ جرح کریں کہ ابھی تو آپ نے یہ فرمایا تھا کہ آنحضورؐ مطلقاً، بِلااستثناء ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر اَب آپ کو یہ اِستثناء قائم کرنے کا حق کیسے مِل گیا؟ تو اس کے جواب میں اِنتہائی بے معنی اور بے جان تاویل پیش کرتے ہیں کہ وہ چونکہ پہلے نبی تھے اِس لئے ان کا دوبارہ آنا ختمِ نبوت کی مُہر کو توڑنے کا موجب نہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ موسوی شریعت ساتھ لے کر آئیں گے؟ تو جواب مِلتا ہے نہیں بلکہ وہ بغیر شریعت کے آئیں گے۔ پھر جب پوچھا جائے کہ اس صورت میں اوامرونواہی کا کیا بنے گا؟ کس بات کی نصیحت فرمائیں گے اور کِس سے روکیں گے تو ارشاد ہوتا ہے کہ پہلے وہ اُمّتِ محمدیہ کے ممبر بنیں گے پھر اس شریعت کے تابع ہو کر نبوت کریں گے۔ مزید سوالات کے جوابات ان کے اختیار میں نہیں کہ آیا مسیح ناصری ؑ کو شریعتِ محمدیہ کی تعلیم علماء دیں گے یا براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ ان کو قرآن، حدیث اور سُنّت کا عِلم دیا جائے گا لیکن یہ امر تو اس جِرح سے قطعاً ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مطلقاً آخری نبی نہیں مانتے بلکہ یہ استثناء رکھتے ہیں کہ ایسا نبی جو پُرانا ہو صاحبِ شریعت نہ ہو اُمّتی ہو اور لفظاً لفظاً شریعتِ محمدیہ کا تابع ہو اور اسی کی تعلیم و تدریس کرے مُہرِ نبوت کو توڑے بغیر بعد ظہورِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آسکتا ہے۔

 

 ہم اہلِ عقل و دانش اور اہلِ انصاف سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ایسا اعتقاد رکھنے والے کے لئے کسی بھی منطق یا انصاف کی رُو سے یہ کہنا جائز ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا۔‘‘

 

(محضرنامہ ۔ صفحہ29تا32)
Link to comment
Share on other sites

  • 1 year later...

 اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ۔بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِ۔يْمًا اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بےشک بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا(سورہ نسا ۔۱۵۷۔۱۵۸)
یہود کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا (نعوذ باللہ) یہاں اللہ پاک نے یہود کہ اس قول کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کریدی اور ما قتلوہ اور ما صلبوہ کہ کر ان کے قتل مطلق کی نفی فرما دی اور یہ فرما دیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ، بلکہ اللہ نے اٹھا الیا اس کو اپنی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو موت سے بچا کر اوپر آسمانوں میں اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔
۱۔ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔
۲۔ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ کیوں کہ قتل و صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے اپنی طرف اٹھا لیا۔یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔مثلا
۱۔ علامہ ابن جریر طبری تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت سدی سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔نیز حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں سیدنا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔(جامع البیان جز ۶ص ۱۴،۱۵)۲۔علامہ ابن کثیر حضرت مجاہد کی روایت کو یوں نقل فرمایا ہے"یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھاصلیب پر لٹکایاجبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔(ج۳ص۱۲)۳۔اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا
مثال۱۔ رفع جسمانی
و رفع ابویہ علی العرش (یوسف ۱۰۰) اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔ ۲۔ رفع ذکر
و رفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔
۳۔ رفع درجات
ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت(الزخرف ۳۲) اور بلند کر دیئے درجے بعض کے بعض پر ۔ اب یہاں جیسی شے ہے ویسے ہی اس کے مناسب رفع کی قید ہے جیسا کہ آخر میں خود ذکر و درجے کی قید موجود ہے۔ رفع کی مذکورہ تعریف اور مثالوں سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا کہ قرآن میں جہاں کہیں رفع آئے گا وہ روحانی یا درجات کا ہی رفع ہوا گا محض ایک جہالت کی بات ہ۔ ۔
 یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں آسمان کا لفظ تو نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کواوپر آسمانوں کی طرف اٹھا یا ہو کیونکہ اللہ پاک تو ہر جگہ موجود ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اللہ رب العزت کے لیے فوق و علو ہے ،گو کہ وہ جہت و مکان سے منزہ ہے لیکن انسانی تفہیم کے لیے اور کسی جہت و جگہ کی تکریم کے لیےاس نے اسے اپنی طرف منسوب بھی فرمایا ہے، انہی معنوں میں قرآن میں کہا گیا ہے:
[ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْر(سورہ ملک ۱۶)
ترجمہ: کیا تم اس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ لرزنے لگے۔
اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْر(سورہ ملک ۱۷)
کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔(مرزا بشیر الدین نے ام امنتم من فی السما کا ترجمہ آسمان میں رہنے والی ہستی سے کیا ہے۔تفسیر صغیر ص ۷۶۰)
اسیا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف دیکھا کرتےتھے۔ قَدْ نَرٰى تَ۔قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ(بقرہ ۱۴۴) ترجمہ: بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔ 
نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمایئے۔
وعن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ " . رواه أبو داود (بحوالہ مشکوٰۃ حدیث ج۲ نمبر ۳۴)
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما " (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ ( ابوداؤد )

نیز مزے کی بات یہ ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔
"رافعک کے معنی یہی معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکےتو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی (ازالہ اوہام ص ۲۶۶، خزائن ج۳ص۲۳۴)۔ نیز حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کرآسمانوں پر جا بیٹھے۔(حاشیہ براہیں احمدیہ ص ۳۶۱، خزائن ج۱ ص ۴۳۱)۔نیز مرزا نے مزید لکھا ہے کہ"شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہےایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہےاور دوسری طرف شیطان کی اور بہت نیچی ہےاور اس کا انتہا زمین کا پاتال۔غرض یہ کہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہم مسئلہ ہےکہ مومن مر کر خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔تحفہ گولڑویہ ص ۱۴)
گویا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئےقادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ رفع آسمانوں کی طر ف ہوا یعنی جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہاں حالت رفع میں ہے جس کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔چنانچہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا کہ معنی یہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ  تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ (معارج ۴)چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح ۔ (اس کی طرف یعنی اللہ کیطرف) سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف چڑھتے ہی

Link to comment
Share on other sites

تفوفیتنی ، توفی، وفاۃ وغیرہ یہ سب الفاظ مشتق ہیں وفا سےاور اس لفظ کے لغوی معنی ہیں پورا کرنے کے۔یہ مادہ خواہ کسی شکل و ہیئت میں ظاہر ہو،کمال و اتمام کے معنی کو ضرور لیے ہوئے ہو گا۔وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم (تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔بقرہ ۴۰)۔
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُم]ْ(اور ناپ تول کر دو تو پورا ناپو)اسراء۔۳۵۔
يُوْفُوْنَ بِالنَّذْر(پورا کرتے ہیں منت کو)دہر۔۷
وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَة (اور تم کو پورے بدلے ملیں گے قیامت کے دن)۔آل عمران ۔۱۸۵

اور لفظ توفی جو اسی مادہ وفا سے مشتق ہے اس کے حقیقی معنی و اخذ الشئی وافیا کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پوارا پورا لے لینا۔یہی وجہ ہے کہ مجازا توفی سے مراد موت بھی لی جاتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہےاتمام عمر یعنی عمر کا پورا ہوجانا اور جس کا نتیجہ موت ہوتی ہے۔
مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے ۔توفي الميت: استيفاء مدته التي وفيت له وعدد أيامه وشھورہ و عوامہ فی الدنیا
یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پورا کرنا اور اس کی دنیوی زندگی کے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے کہ فلا بزرگ کا وصال یا انتقال ہو گیا اب وصال کے معنی ملنے کے ہیں اور انتقال کے معنی منتقل ہوجانے کے ہیں۔ لیکن کیا وصال اور انتقال ،موت کے علاوہ دیگر معنوں میں استعمال نہیں ہوتے ۔کیا وصال صنم اور انتقال وراثت بھی اردو میں عام نہیں ہیں؟ بالکل ایسے ہی توفی کے مجازی معنی موت کے ہیں لیکن یہ لفظ دیگر معنوں میں بھی خوب استعال ہوتا ہے ۔
خود اگر قرآن مجید پر ہی غور کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ دیگر معنیوں میں بھی آیا ہے۔مثلا
آیت نمبر ۱۔ اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّ۔۔قَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ
ترجمہ:اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
کیا اس آیت شریفہ سے صاف ظاہر نہیں ہورہا کہ توفی ، موت سے الگ کوئی چیز ہے ۔جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور کبھی نیند کے ساتھ۔اور جن لوگوں کی موت کا حکم نہیں ہوتا توفی کے بعد بھی وہ زندہ رہتے ہیں؟
آیت نمبر۲۔وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ
ترجمہ: اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ۔(انعام ۶۰)
غور کیجے کہ اس مقام پر بھی توفی نیند کے معنوںمیں استعمال ہورہا ہے موت کے معنوں میں نہی

Link to comment
Share on other sites

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ۔۱۱۶۔
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ
الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔۱۱۷۔
ترجمہ: اور جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا ۔میں نے کچھ نہیں کہا ان کو مگر جو تو نےحکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان میں رہار

              پوری آیت کا مفہوم تہ و بالا کرنے کی کوشش کی ہے ذار غور کیجئے اس سوال پر جو اللہ پاک بروز قیات حضرت عیسیٰ سے کریں گئے وہ سوال یہ ہے ۔]ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ (تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ) یعنی پوچھا حضرت عیسیٰ سے یہ جا رہا ہے کہ تم نے کہا کہ عیسائیوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ تم کو ان کے شرک کا علم تھا یا نہیں تھا، اور ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جا رہا کہ تم ان کے بگاڑ سے وقف ہو کہ نہیں ہو۔تو جو بات حضرت عیسیٰ سے پوچھی ہی نہیں جارہی اسی بات کے اوپراپنی پوری عمارت کھڑی کر رہے ہیں اور، جانے یہ ہو گا، وہ کہیں گئے، شرک کا علم ہے کہ نہیں ، کیا کیا اناپ شناپ بول جارہے ہیں؟ سوال بس اتنا ہے کہ کیا تم نے عیسائیوں کو میرے سوا معبود بنانے کو کہا تو اس جواب بھی یہی ہے کہ" تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا" یعنی یہاں اس بات سے براءت ہے حضرت عیسیٰ کی کہ میں نے تو یہ حکم ان کو دیا نہیں اور معبود تو جانتا کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔

اب بتائیے اس مکالمے میں یہ ساری باتیں کہاں سے آگئیں کہ شرک حضرت عیسی کے بعد ہوا یا پہلے ہوا وہ اس سے باخبر تھے یا نہیں تھے وغیرہ وغیرہ؟
۲۔ اور اگر یہاں توفی سے مراد موت سے ہی کی جائے کہ حضرت عیسیٰ کو بذریعہ موت اہل فلسطین سے جدائی ہوئی اور بقول ۔ اب آج دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ عیسائی قوم شرک میں کئی صدیوں سے گرفتار ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ واضع طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں۔ اور اگر وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں تو پھر اس آیت کی رو سے ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی ابھی تک شرک میں گرفتار نہیں ہوئے "تو ایک اور بڑا خرابی قادیانیوں کے لیے ہو جاتی ہے کیوں کہ قادیانیوں کا صرف یہی مذہب نہیں کہ عیسائی توفی مسیح کے بعد بگڑے بلکہ ان کا یہ بھی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے اور ۱۲۰ برس تک زندہ رہے(تذکرۃ الشہادتین ص ۲۷۔ خزائن ج ۲۰ ص ۲۹)  اور اس طرح کہ مرزا صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھےکہ بجائے خدا کی پرستش کےایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسیٰ خدا بنائے گئے(چشمہ معرفت ص ۲۵۴)
اب اگر حضرت عیسیٰ کشمیر چلے گئے تھے اور ۱۲۰ برس تک زند ہی رہےا ور بقول مرزا کے انجیل کے تیس برس بعد ہی شرک پھیل گیا تب تو حضرت عیسیٰ کو اس شرک علم ہو گیا اب اگر  یہ سوال جواب اس بارے میں تھا کہ حضرت عیسیٰ کو علم شرک تھا کہ نہیں تھا تو اب تو قادیانیوں کے مطابق تو انہیںعلم شرک تھا لہذا وہ کیسے خدا کے سامنے اپنی لا علمی کا اظہار کر سکتے ہیں؟

 

ے

Link to comment
Share on other sites

 حدیث میں بیان کردہ دو حلیوں کا جواب

 حلیوں میں تفاوت سے اگر آپ دو عیسیٰ مانتے ہیں پھر آپ کو دو موسیٰ بھی ماننے پریں گئے۔

پہلی حدیث ملاحطہ کیجے

ترجمہ :حضرت موسیٰ گندمی رنگت قد لمبا ، گھونگرالے بال والے تھے جیسے یمن قبیلہ شنوہ کے لوگ (بخاری ج ۱ ص ۴۵۹)

اور کتاب الالنبیا میں ایک اور حدیث ہے۔

ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام دبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوہ کے لوگ۔ (بخاری ج ۱ ص ۴۸۹) ایک اور حدیث میں حضرت موسیٰ گٹھیلے بدن کا کہا گیا ہے۔ 

لیکن درحقیقت ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہاں لفظ جعد استعمال ہوا ہے جس کے معنی گٹھلیے جسم کہ ہیں اور یہاں یہی معنی ٹھیک ہیں نہایہ ابن الاثیر میں مجمع البحار کے حوالے سے آیا ہے کہ حدیث میں موسیٰ و عیسی کے لیے جو لفظ جعد کا آیا ہے اس کے منعی بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نا کہ بالوں کا گھونگھرالے ہونا۔ ساتھ ہی ایک اور حدیث دیکھیے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو قسم کھا کر کہتے تھے کہ آنحضرت نے حضرت عیسیٰ کی صفت میں احمر( رنگ کا سرخ ہونا) کبھی نہیں فرمایا ۔(بخاری ج ۱ ص ۴۸۹)
اس کا مطلب یہی ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا ایک رنگ تھا اور ان بال سیدھے تھے گھونگھرالے نہ تھے اس طرح اب ان حلیوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا

 

Link to comment
Share on other sites

حضور اقدس کی اس حدیث سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے ذرا اس حدیث پر غور کیجئے
إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک فأقول کما قال العبد الصالح وکنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني

یہاں یہ بات صاف ہے کہ یہ ویسا ہی ایک اعتذار ہے جو کہ حضرت عیسیٰ نے رب تعالیٰ کے حضور پیش کیا تھا اور یہاں الفاظ و مفہوم میں کلیتا یکسانی نہیں پائی جاتی کیونکہ کما قال العبد الصالح میں کما پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ جملہ حرف ک کے ساتھ ہے جو کہ تشبیہ کے لیے آیا ہے اس میں دونوں چیزوں کی کلی مطابقت مراد نہیں ہوتی ،جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ انبیا میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه  (جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے) اب ہر انسان کی پیدائش دنیا میں تو مرد و عورت کے ملاپ کے بعد ایک خاص طریقے سے ہوتی ہے تو اگر کما کے لفظ سے کلی مطابقت مقصود ہوتی تو پھر قیامت کے دن اللہ پاک سب کو اسی طرح سے پیدا فرمائیں گے جیسا کہ دنیا میں ہر انسان کی پیدائش ہوئی تھی۔اور ایسا ہے نہیں۔
ایسا مضمون قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔
پھر مرزا نے بھی تشبیہ کے بارے میں لکھا ہے 
"اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلا ایک بہادر انسان کو کہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے ۔"(خزائن ج ۳ ص ۱۳۸ حاشیہ)

اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں اقول کما قال میں حرف تشبیہ ہے جس میں کلی مطابقت ہر گز نہیں بلکہ محض ایک جزو میں موافقت کی بنا پر حرف تشبیہ ذکر کر دیا گیا ہے، وہ ہے اعتذار اور قول۔ گویا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں ارشاد فرما یا ہے کہ میں بھی بسلسلہ عذر کہوں گا جیسا حضرت عیسیٰ کہیں گے،کہ عیسیٰ کی قوم میں ان کی عدم موجودگی کی صورت میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اس طرح میری امت میں خرابیاں واقع ہو گئیں میری عدم موجودگی میں۔اب یہاں اس سے بحث نہیں کہ غیر موجودگی کس طریقہ سے واقع ہوئی، طبعی وفات سے یا رفع الیٰ السما سے ، مبحوث عنہ فساد قوم ہے نہ کہ کیفیت غیر موجودگی۔

 

post-459-0-31404800-1442247719_thumb.jpg

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

جناب خلیل احمدی صاحب

آپ کے پورے مضمون کا ایک ہی جواب ہے در حقیقت آپ خاتم النبیین ﷺ کا مفہوم درست نہیں سمجھ سکے ۔ خاتم النبیین ﷺ کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آ کر اس دروازہ کو بند کر دیا ہے جس دروازہ سے داخل ہو کر کوئی شخص نبی بنتا تھا اب کوئی بھی اس دروازے سے دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا رہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تو ان کو نبی مکرم ﷺ سے قبل نبوت عطا ہو چکی اور وہ اس دروازہ سے داخل ہو چکے ہیں اور نبوت کے دروازہ سے جب وہ داخل ہو چکے ہیں اور زندہ ہیں انتقال نہیں فرمائے اوپر سے دروازہ بھی بند ہے اب اس سے مرزا غلام قادیانی یا دیگر مدعیان نبوت داخل نہیں ہو سکتے اور قرب قیامت میں وہی زندہ عیسی ابن مریم علیہ السلام جن کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا تو اپنی سابقہ عطا کردہ نبوت کے ساتھ زمین پر نازل ہوں گے ،اور چالیس سال یا اس اس سے کچھ زیادہ عمر مبارک زمین پر گزاریں گے آخر میں طبعی موت سے انتقال فرمائیں گے ۔ اب کوئی بے وقوف ہی ہو گا کہ جو یہ کہے عیسی ابن مریم جب آئیں گے تو ان کو نبوت عطا ہو گی اور پھر خاتم النبیین کا مفہوم ختم ہو گیا ؟ حالانکہ اس بے وقوف کو خاتم النبیین کا مفہوم ہی سمجھ نہیں آیا۔

 

فضیلت امت محمدیہ

جناب پھر سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے بنی اسرائیل میں تو اللہ نے

تین کتابیں نازل کیں ، صاحب شریعت نبی بھیجے اس کے علاوہ تمام نبی مستقل تھے تو امت محمدیہ کو صرف ایک کتاب اور ایک شریعت اور بقول قادیانی اگر نبوت ہے بھی تو وہ بھی صرف ظلی اور غیر مستقل ۔ بنی اسرائیل میں ایک وقت میں کئی نبی ہوتے تھے لیکن امت محمدیہ میں 1435 سالوں میں بقول قادیانی آیا بھی تو صرف ایک اور وہ بھی ظلی اور غیر مستقل بغیر کتاب اور شریعت کے ۔

Edited by Tayyib Qadri
Link to comment
Share on other sites

  • 3 years later...
On 14/09/2015 at 2:36 PM, Tayyib Qadri said:

 اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ۔بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِ۔يْمًا اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بےشک بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا(سورہ نسا ۔۱۵۷۔۱۵۸)
یہود کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا (نعوذ باللہ) یہاں اللہ پاک نے یہود کہ اس قول کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کریدی اور ما قتلوہ اور ما صلبوہ کہ کر ان کے قتل مطلق کی نفی فرما دی اور یہ فرما دیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ، بلکہ اللہ نے اٹھا الیا اس کو اپنی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو موت سے بچا کر اوپر آسمانوں میں اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔
۱۔ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔
۲۔ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ کیوں کہ قتل و صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے اپنی طرف اٹھا لیا۔یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔مثلا
۱۔ علامہ ابن جریر طبری تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت سدی سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔نیز حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں سیدنا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔(جامع البیان جز ۶ص ۱۴،۱۵)۲۔علامہ ابن کثیر حضرت مجاہد کی روایت کو یوں نقل فرمایا ہے"یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھاصلیب پر لٹکایاجبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔(ج۳ص۱۲)۳۔اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا
مثال۱۔ رفع جسمانی
و رفع ابویہ علی العرش (یوسف ۱۰۰) اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔ ۲۔ رفع ذکر
و رفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔
۳۔ رفع درجات
ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت(الزخرف ۳۲) اور بلند کر دیئے درجے بعض کے بعض پر ۔ اب یہاں جیسی شے ہے ویسے ہی اس کے مناسب رفع کی قید ہے جیسا کہ آخر میں خود ذکر و درجے کی قید موجود ہے۔ رفع کی مذکورہ تعریف اور مثالوں سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا کہ قرآن میں جہاں کہیں رفع آئے گا وہ روحانی یا درجات کا ہی رفع ہوا گا محض ایک جہالت کی بات ہ۔ ۔
 یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں آسمان کا لفظ تو نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کواوپر آسمانوں کی طرف اٹھا یا ہو کیونکہ اللہ پاک تو ہر جگہ موجود ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اللہ رب العزت کے لیے فوق و علو ہے ،گو کہ وہ جہت و مکان سے منزہ ہے لیکن انسانی تفہیم کے لیے اور کسی جہت و جگہ کی تکریم کے لیےاس نے اسے اپنی طرف منسوب بھی فرمایا ہے، انہی معنوں میں قرآن میں کہا گیا ہے:
[ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْر(سورہ ملک ۱۶)
ترجمہ: کیا تم اس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ لرزنے لگے۔
اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْر(سورہ ملک ۱۷)
کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔(مرزا بشیر الدین نے ام امنتم من فی السما کا ترجمہ آسمان میں رہنے والی ہستی سے کیا ہے۔تفسیر صغیر ص ۷۶۰)
اسیا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف دیکھا کرتےتھے۔ قَدْ نَرٰى تَ۔قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ(بقرہ ۱۴۴) ترجمہ: بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔ 
نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمایئے۔
وعن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ " . رواه أبو داود (بحوالہ مشکوٰۃ حدیث ج۲ نمبر ۳۴)
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما " (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ ( ابوداؤد )

نیز مزے کی بات یہ ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔
"رافعک کے معنی یہی معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکےتو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی (ازالہ اوہام ص ۲۶۶، خزائن ج۳ص۲۳۴)۔ نیز حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کرآسمانوں پر جا بیٹھے۔(حاشیہ براہیں احمدیہ ص ۳۶۱، خزائن ج۱ ص ۴۳۱)۔نیز مرزا نے مزید لکھا ہے کہ"شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہےایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہےاور دوسری طرف شیطان کی اور بہت نیچی ہےاور اس کا انتہا زمین کا پاتال۔غرض یہ کہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہم مسئلہ ہےکہ مومن مر کر خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔تحفہ گولڑویہ ص ۱۴)
گویا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئےقادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ رفع آسمانوں کی طر ف ہوا یعنی جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہاں حالت رفع میں ہے جس کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔چنانچہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا کہ معنی یہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ  تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ (معارج ۴)چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح ۔ (اس کی طرف یعنی اللہ کیطرف) سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف چڑھتے ہی

Allah jazay khair atta farmay

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...