Jump to content

مطالع� کی ا�میت


Raza

تجویز کردہ جواب

مطالعہ کی اہمیت وفوائد پر بہترین معلوماتی رسالہ

تحفۃ الاحباب لمطالعۃ الکتاب

مطالعہ کی اہمیت

از قلم:شیخ التفسیر والحدیث اُستاذ العلماء رئیس التحریر علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ

عرض مؤلف

فقیر ابو الصالح محمد فیض احمد اویسی سن 1366ھ 1947ء (جب کہ ہندوپاک کی تقسیم ہوئی) میں حفظ کلام الٰہی سے فارغ ہوکر کتب فارسیہ و عربیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگیا۔ ایک سال فارسی کتب پڑھنے کے بعد صرف و نحو دیگر فنون معقول وغیرہ سے 1371ھ 1952ء میں فراغت پائی۔ اس میں دورہ حدیث کا وقت بھی شامل ہے پھر 1383ھ 1963ء تک مدرسہ منبع الفیوض حامد آباد میں مسلسل تعلیم و تدریس کا مشغلہ رہا۔ اب عرصہ تین سال سے بہاولپور جامعہ اویسیہ رضویہ میں مشغول درس ہے۔ اس میں پانچ سالہ درس دورہ تفسیر القرآن بھی شامل ہے۔

اتنا طویل وقت تعلیم و تعلم میں گزارنے سے اس نتیجہ کو پہنچا کہ" العلم نور و نور اللہ لا یعطی للعاصی" علم نور الٰہی ہے اور نور الٰہی مجرم کو نہیں ملا کرتا۔ گذشتہ صدیوں کے طلباء کے حالات کتابوں میں دیکھے پھر موجودہ طلباء کی ناگفتہ بہ حالتیں دیکھیں دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ ذرا غور تو فرمائیے کہ گذشتہ زمانے میں نہ کہیں ریل گاڑی تھیں اور نہ ہی بسیں چلتی تھیں اور نہ ہی سائیکل اور تانگے تھے اور نہ شاندار سڑکیں اور بجلی جیسی شاندار روشنی تو زہے نصیب۔ ان کو تو مٹی کا تیل مل جاتا تب بھی غنیمت سرسوں کا تیل اپنا نہیں۔ دوسروں کے گھروں کی روشنی میں کھڑے ہوکر مطالعہ کرتے کھانے کے لئے مدت تک تازی روٹی تو زہے قسمت باسی روٹی کے کبھی ٹکڑے مل جاتے تو اسے فضل ایزدی سمجھتے۔ مشتے نمونہ خرورے۔

چند واقعات پیش خدمت ہیں۔

حکایات:

خوراک کا مسئلہ

(1) حافظ الحدیث حجاج بغدادی شبابہ کو تعلیم کے لئے تشریف لے گئے تو اپنے گھر سے سو کلچے پکواکر لے گئے۔ وہاں بغیر سالن کے پانی میں بھگو کر روزانہ کھاتے۔ جب وہ سو کلچے ختم ہوگئے کھانے کا کوئی دیگر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے واپس گھر لوٹے۔

(2) شیخ الاسلام بقی بن مخلانے چقندر کے پتے کھا کر اتنا بلند مرتبہ حاصل کیا۔

(3) امام بخاری نے کھانا نہ ملنے پر تین دن متواتر جنگل کی بوٹیاں کھائیں۔

(4) طبرانی جیسے محدث اور ان کے دو ساتھی طالب علمی کے دور میں بھوکے اور فاقوں کے نڈھال ہوگئے۔ آخر تنگ آکر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرنا پڑا۔

(5) شیخ الفقہاء امام برنانی جب خراسان پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اپنا کچھ خرچ ساتھ تھا وہ ختم ہوگیا لیکن علم کی خاطر بڑے بھوک و فاقہ سر پر اٹھانے سے کئی روز ایسے ہی گزارے پھر جب بھوک کی اذیت برداشت نہ ہوسکی تو نانبائی کی دوکان پر اس غرض سے جا بیٹھے کہ کھانے کی خوشبو سے ہی کچھ تقویت طبیعت کو پہنچائیں۔

(6) امام ابو حاتم رازی محدث نے طالب علمی میں بھوک سے اپنے کپڑے بیچ ڈالے۔

(7) امام ابن جریر طبری نے طالب علمی میں تنگی خرچ سے اپنے کُرتے کی دونوں آستینیں بیچ ڈالیں۔

(8) شیخ ابو العلا بغدادی مسجد کی روشنی میں کھڑے کھڑے لکھ رہے تھے اگر تیل کے خریدنے کی قدرت ہوتی تو اتنا دکھ نہ اٹھاتے۔

(9) حکیم ابو نصر فارابی رات کو چوکیدار کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتے تھے۔

طلب علمی میں دور دراز سفر

(1)حضرت سعید بن المسیب تابعی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایک حدیث کی خاطر کئی راتوں اور دنوں کو پا پیادہ چلاہوں۔

(2)امام دارمی نے حدیث کی طلب میں حرمین شریفین خراسان عراق شام اور مصر کا سفر کیا۔

(3)امام بخاری نے چودہ برس کی عمر میں اپنی والدہ اور خواہر(بہن) کی نگرانی میں بخارا سے لے کر مصر تک سارے ممالک طلب علم میں چھان ڈالے۔

(4)امام تسوی نے تیس برس سفر میں بسر کردیئے۔

(5)شیخ الاسلام بقی بن مخلا نے دو سو اسی شیوخ سے حدیث روایت کی خود فرماتے ہیں کہ میں ہر ایک شیخ کے پاچ پیدل گیا۔ (6)ابن حیان محدث اندلس (اسپین) نے حدیث اندلس عراق حجاز اور یمن کے شیوخ سے حاصل کی اور یمن اسپین سے براہ راست ساڑھے تین ہزار میل سے زیادہ ہے۔

(7)ابن المقری نے صرف ایک نسخہ ابن فضالہ کی خاطر ستر (70) منزل کا سفر کیا تھا۔ اور ایک معمولی منزل بارہ میل کی ہوتی ہے کل سفر آٹھ سو چالیس میل ہوا۔

(8)مادر زاد نابینا حافظ الحدیث ابو العباس رازی نے حدیث شریف کے لئے بلخ بخارا، نیشاپور اور بغداد کا سفر کیا، بلخ سے بغداد (365) میل ہے۔

(9)حافظ طاہر مقدسی نے تمام سفر پیادہ کئے اور کتابوں کی گٹھڑی بھی سر پر ہوتی۔ سفر کی کوفت اور بوجھ کی مشقت سے پیشاب میں خون آنے لگتا۔ محدث موصوف کے مقامات سفر درج ذیل ہیں۔ بغداد،مکہ،جزیرہ تنس(واقع بحیرہ روم)،دمشق،حلب،جزیرہ اصفہان،نیشاپور،ہرات،وحبہ،لوفان،مدبہہ،نہا

وند،ہمدان،واسطہ سادہ اسد آباد،انبار،اسفرائن،آمل،ہواز،بسطام،خسرو حرد،جرجان،آمد،استر آباد،بوسنج،بصرہ،دینورری،سرخش،شیراز،قزوی

ن،کوفہ مزید واقعات کی تفصیل فقیر کی کتاب میں ہیں۔

یہ چند نمونے موجودہ طلبہ سمجھداروں کے لئے کافی ہیں۔ لیکن افسوس ہے ہمیں موجودہ طالب علموں سے کہ باوجود یہ کہ چپہ چپہ مدارس اور پھر ان میں اعلٰی انتظام اور پھر گھر واپس آنے جانے کے لئے کرایہ جات کے علاوہ جیب خرچ۔ والدین سے علیحدہ اور مدارس سے علیحدہ اور کتب ضروریہ مفت،مطالعہ کا انتظام،مدرسین کی خدمات مفت مہتمم کی شب و روذ جدوجہد سوا عوام کی نیاز مندی کے علاوہ، دنیوی عزت مزید، لیکن بایں ہمہ ناقص بلکہ انقص واقع ہوتے ہیں۔ نہ کتاب سے انس نہ مطالعہ میں دلچسپی نہ استاد کی عزت نہ رفقاء سے محبت اور نہ مدرسے سے لگاؤ۔ بلکہ خود دین سے بیزاری،سینما بینی کا مشغلہ نماز سے بے تعلقی،اخلاق حسنہ سے دوری،نفسانیت و ہوائے نفس سے بھرپور، زنانہ بناؤ سنگار میں مصروف خدا تعالٰی کا ترس،نہ اپنے پیارے نبی کریم خلق العظیم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی پاسداری کا خیال۔

نہ رات کو مطالعہ کریں گے نہ دن کو اسباق پڑھتے وقت دل لگائیں گے بلکہ اثناء درس میں بھی دل کا رخ کسی اور طرف ہوگا۔ کتابوں کی حالت دیکھو تو جہاں مرضی آئی پھینک ڈالیں۔ نہ ہی استاذ صاحب کے احترام کا خیال بلکہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ استاذ سے بغض و عناد شاید وہی زمانہ آگیا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے اٹھنے کا ذکر فرمایا تو حضرت زیاد بن بعید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی "کیف یذھب لمعلم و نحن نقرأ القران و نقرأہ ابنائنا و نقرأ ابنائنا ابنائھم الی یوم القیمہ" کیسے علم اٹھ جائے گا حالانکہ قرآن ہم بھی پڑھتے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھائیں گے پھر ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی یہ سلسلہ تاقیامت چلا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھئیے یہ یہود و نصاری اپنی کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے نہیں رہے لیکن صرف پڑھنا مقصود نہیں بلکہ اس کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا مقصود ہے۔

یہی حالت آج ہماری ہے کاش ہمارے احباب اپنی حالت کو درست کرلیں میں نے صرف الدین النصیحۃ کی غرض سے کتابچہ لکھا تاکہ ہمارے احباب دینی کتب کے مطالعہ کا ذوق پیدا کریں۔ خدا کرے یہ میری حقیر خدمت قبول ہو جائے۔ جو حضرات اس سے مستفید ہوں فقیر مؤلف کے لئے دعا فرمائیں۔ اگر کوئی غلط لفظ یا مضمون لکھا گیا تو اطلاع دیں۔

فقیر اویسی 2 ربیع الاول 85ھ بروز جمعہ

اگر آپ کو خدا تعالٰی توفیق دے

 

بوقت فرصت فقیر کی دیگر تصانیف کا مطالعہ فرمایا کریں۔ ثواب دارین کے علاوہ آپ کی دینی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ مختصر فہرست کتب پچھلے صفحات پر ملاحظہ ہو۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ الحمدللہ وکفی والصلوۃ والسلام

علی عبادہ اصطفی

 

تمھید

 

علم کی دولت ایسی نایاب چیز ہے کہ جو نہ زر سے ملے اور نہ زور سے بلکہ یہ ایک فضل ایزدی ہے جسے نصیب ہوجائے کما قال علیہ السلام من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین یہ دولت جس طرح عطائی ہے اسی طرح کسبی بھی ہے لیکن اس کسبی کو بھی عطائی سے تعبیر کیا جائے گا۔ جبکہ طالب علم اس کے حصول میں پورے شرائط کو بجالانے کی کوشش کرے اور معطی العلم سے توفیق و فیض کے لئے دست بدعا رہے۔

منجملہ ان شرائط کے ایک مطالعہ کتب بھی ہے لیکن افسوس کہ زمانہ حال کے طلبہ و علماء حضرات عموماً بے پرواہی فرمارہے ہیں جس سے علم کے اٹھنے کی یہی ایک وجہ ہے کہ جب تک کتاب کو مفہوم اور مطلب سمجھ نہ آئے اپنا ااجتہاد کہاں تک کام آئے گا۔ اس مختصر رسالہ میں مطالعہ کے چند فضائل و فوائد پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں

گر قبول افتد زہے عزّ و شرف

فقیر اویسی غفرلہ

باب اول

 

(1) قال اللہ تعالی: فلو لا نفر من کل فرقہ منہم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین۔ ترجمہ: کیوں نہیں کہ ان کے ایک گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں

فائدہ:۔ اس آیت شریف میں علم دین کے حصول کی نہ صرف ترغیب و تحریص دلائی جارہی ہے بلکہ اس کے سمجھنے کے لئے بھی ارشاد ہو رہا ہے اور مطالعہ کتب کے بغیر دین کی سمجھ خاک حاصل ہوگی۔ لامحالہ اس سے کتب بینی کی تحریص و ترغیب بھی ہے۔

(2)قال علیہ السلام لان تغد فتعلم با با من العلم خیر من ان تصلی مائتہ رکعتہ( ابن عبدالبرو الطبرانی) ( احیاء ص 8 ج 1) علم کا ایک باب (مسئلہ وغیرہ) حاصل کرنا سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔

(3)قال علیہ السلام باب من العلم یتعلمہ الرجل خیر لہ من الدنیا و مافیہا (احیاء العلوم) ( ابن عبدالبرو و الطبرانی ج 1 ص 8) علم کا ایک باب ( مسئلہ قاعدہ وغیرہ) حاصل کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

(فائدہ) ظاہر ہے کہ کتاب کے مطالعہ سے ہر فن کا نیا مسئلہ اور نیا قاعدہ حاصل ہوتا ہے خواہ اس کتاب کو ہزار بار مطالعہ کریں جیسا کہ آگے چل کر عرض کروں گا۔ انشاء اللہ العزیز

(4)قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من احیائہا (رواہ الدارمی) رات کے کسی حصے میں علم کا پڑھنا ساری رات کے زندہ رکھنے(عبادت کرنے) سے بہتر ہے۔

(فائدہ) حضرت شاہ عبدالحق صاحب محدث دہلوی قدس سرہ اشعۃ اللمعات ص 185 ج 1 میں فرماتےہیں، درس گفتن علم و خواندن بایکدیگر و بحث و تحقیق و مذاکرہ کردن علم یک ساعت از شب بہتر است از زندہ گردانیدن تمام شب و نماز دن دراں۔

(ف)شاہ صاحب قدس سرہ کا قول حدیث شریف کے ترجمہ کی تائید کے لئے ہے۔ ورنہ دانا را اشارہ کافیست۔ اب سوچئے کتاب کے صرف ایک گھنٹہ یا کم و بیش مطالعہ سے انسان کو ساری رات نہ صرف عبادت کا ثواب ملتا ہے بلکہ( کما قال الشیخ المحقق قدس سرہ تجت ھذا الحدیث زندہ دلوا نیدن نفس خود رادر شب الخ) وہ مکاشفات و مشاہدات جو صوفیائے کرام یا اونچے طبقہ کے لوگوں کو شب بداری سے نصیب ہوتے ہیں ان سے بڑھ کر مطالعہ کا درجہ ہے۔

لیکن ہائے افسوس کہ آج مطالعہ کتب کی چاشنی علماء و طلبہ سے اٹھتی جارہی ہے

قال ابو الدرداء لان اتعلم مسئلتۃ احب الی من قیام لیلتۃ (احیا ص ۹ ج ۱) یعنی میرے نزدیک ساری رات کے جاگنے سے کسی ایک مسئلہ کا سمجھنا بہتر ہے۔

امام شافعی کا مسلک

طلب العلم افضل من النافلتہ علم کی طلب نوافل پڑھنے سے افضل ہے۔ (احیاء ص 9 ج 1)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی اپنے شاگرد کو تنبیہ

عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ظہر کی اذان کے بعد میں کتابیں لپیٹتا ہوا نماز کی طرف اٹھنے لگا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا " فقال یا ھذا ماالذی قمت الیہ بافضل مما کنت فیہ اذا صحت النیتہ" اے فلاں یہ کیا کررہا ہے جس عبادت میں تو بیٹھا ہے وہ اس عبادت سے افضل ہے جس کی طرف تو جارہا ہے۔ اگر نیت نیک ہے تو (اقول) اس سے یہ سمجھنا کہ آپ نے فرض کی ادائیگی سے بھی روکا ہے یا نماز باجماعت ہے، آپ کا روکنا صفر سنن کے بغیر نوافل کے لئے پے۔

باب دوم

مطالعہ کتب ایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے کہ جس سے انسان نہ صرف دینہ پیشوا بن سکتا ہے۔ بلکہ روحانی مقتدا بننے کے علاوہ دین و دنیا کی مرکزیت حاصل کرلیتا ہے۔ اب میں چند فضالہ کا ذکر حکایات میں پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے صر کتب بینی کے ذریعہ سے دنیا کو اپنے قدموں میں جھکایا۔

(1) حکیم ابو نصر فارابی جن کا عالم میں بڑا شہرہ ہے زمانہ طالب علمی میں رات کو راستہ میں پاسبانوں کی قندیلوں تلے کھڑے ہو کر کتاب کا مطالعہ کرتے تھے (تذکرۃ الحفاظ ص 120 ج 4)

(فائدہ) ان کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ اپنا تیل خرید کر کے مطالعہ کا انتظام کرتے لیکن آج ہم ہیں کہ بجلیاں قمقمے شاندار روشنی یا کم از کم مٹی کا تیل عام مہتمم و منتظمین کی طرف سے بھی اور عوام بھی خدمت کرنے کو ہیں لیکن شومئے قسمت کہ کتاب کے مطالعہ سے پھر بھی محروم۔

(2)سیدنا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مطالعہ اور کتب بینی کا حال خود یوں بیان فرماتے ہیں۔

 

محدث قدس سرہ نے اشعار میں اپنا شب و روز کا مشغلہ بتایا ہے۔ گویا اس کی شرح ذیل کا واقعہ ہی ہے دور طالب علمی میں شغل مطالعہ کا تذکرہ خود اپنے قلم سے رقم طراز ہیں کہ

از ابتدائے ایام طفولیت نمی دانم کہ بازی چیست و خواب کدام مصاحبت کیست و آرام چہ و آسائش کو دسیر کجا

بچپن سے میرا یہ حال تھا کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ کھیل کود کیا ہے خواب مصاحبت آرام و آسائش کے کیا معنی ہیں میں نہیں جانتا کہ سیر کیسی ہوتی ہے

شب خواب چہ و سکون کداست

خود خواب بعاشقاں حراست

خورد و نوش

ہر گز در شوق کسب دکار طعام بوقت نخوردہ و خواب در محل بزدہتحصیل علم میں مشغولیت کی بناء پر کھانا کبھی وقت پر نہیں کھایا اور نیند بھر کر نہیں سویا

حصول تعلیم کے لئے مشقت

ہر روز باوجود غلبہ برودت ہوائے زمستان و شدت حرارت تابستاں دو بار بمد دہلی کہ شاید از منزل ما بعد دو میل مے کردم درمیان روز ادنی و فقہ در غریب خانہ بسبب تناول چند لمقہ کہ سبب عادی قوام حرکت ارادی است واقع می سند دائم پدر و مادر من درپے آن لودند کہ یکدم باکود کان جاء بازی کنم یا شب بوقت متعارف پادراز کشم و من می گفتم کہ آخر غرض از بازی خٓطر خوش کرد نست و مرا خاطر بہ ہمیں خوش است کہ چیزے بخوائم یا مشقے کنم

میں جاڑے کی ٹھنڈی اور گرمی کے جھلسا دینے والے جھونکوں میں ہر روز دوبار دہلی کے مدرسہ میں جاتا تھا، جو ہمارے مکان سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر ہوگا دوپہر کو تھوڑی دیر گھر ٹھر کر چند لقمے ضرورۃً کھالیتا تھا میرے والدین ہر چند کہتے تھے کہ تھوڑی دیر کے لئے قوم کے لڑکوں کے ساتھ کھیل لو اور وقت پر سو جاؤ میں کہتا تھا کہ آخر کھیلنے سے مقصد دل کا خوش کرنا ہی تو ہے میرے طبیعت اس سے خوش ہوتی ہے کہ کچھ پڑھوں یا لکھوں۔

مطالعہ کتب اور شب بیداری

گاہے در اثنائے مطالعہ کہ از نیم شب درمی گذشت والدم قدس سرہ مرا فریادمے زدکہ بابا! چہ می کنی۔ من فے الحال درازی کشیدم تادروغ واقع نشود و می گفتم کہ خفتہ چہ می فرمایند باز بر من می نشستم و مشغول می شدم

کبی مطالعہ کے دوران میں ایسا بھی ہو کہ آدھی رات گذر گئی میرے والد صاحب نے مجھ سے فریاد کی کہ بابا! کیا کرتے ہو میں سنتے ہی فوراً لیٹ جاتا کہ جھوٹ واقع نہ ہو اور کہتا کہ میں سوتا ہوں آپ کیا فرماتے ہیں جب وہ مطمئن ہوجاتے تو پھر اٹھ بیٹھتا اور مشغول ہوجاتا۔

اور بسا اوقات یوں بھی ہوا مطالعہ کے اثناء میں نیند کے غلبہ سے سر کے بال اور عمامہ جلتے چراغ میں جل جاتے لیکن شیخ مطالعہ کے ذوق سے بدستور منہمک رہتے۔(سوانح شیخ عبدالحق محدث دہلوی)

یہی وہ شیخ محدث ہیں جن کی بدولت آج ہندو پاک میں علم حدیث پڑھ کر علماء کی صف میں بیٹھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے طلبہ و بعض علمائے کرام مطالعہ کا نام تک نہیں لیتے۔

(3) استاذی مولانا سردار احمد صاحب لائلپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کا مطالعہ کا ذوق اتنا تھا کہ رات ہو یا دن سفر ہو یا حضر، تندرست ہوں یا بیمار،ہروقت اور ہر حالت میں کتب بینی میں مصروف نظر آتے۔ اجمیر شریف زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ آپ گر پڑے اور سر پر سخت چوٹ آئی۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا اور کتب بینی کی ممانعت کردی لیکن اس کے باوجود آپ کی شدت اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ اپنی تکلیف کی پرواہ کئے بغیر تیمارداروں سے نظر بچا کر مطالعہ میں مصروف رہتے۔

(نوری کرن بریلی۔ رضائے مصطفیٰ گوجرنوالہ)

(4)حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کا وقت یہ عالم ہوتا کہ ادھر ادھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔ بیوی کو کب گوارا ہوسکتا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی اس قدر گنجائش شوہر کے دل میں ہو چنانچہ ایک روز بگڑ کر کہا" واللہ لھذا الکتب اشد علی من ثلث ضرائر" اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سو کنوں سے زیادہ بھاری ہیں(ابن ج 1 ص 451)

(5)امام شافعی کے جلیل القدر شاگرد امام مزنی نے اپنے استاد کی کتاب الرسالہ کا پچاس برس مطالعہ کیا ۔ اور وہ خود ناقل ہیں کہ ہر مرتبہ کے مطالعہ میں مجھ کو نئے نئے فوائد حاصل ہوتے گئے۔

(6)ارسطو کی کتاب النفس کا ایک نسخہ کسی کے ہاتھ لگا جس پر حکیم ابو نصر فارابی کے قلم کی یہ عبارت تھی" انی قرات ھذا الکتاب مائتہ مرۃ" میں نے اس کتاب کو سو مرتبہ پڑھا ہے۔ (بن ج 2 ص 72)

(7)مولانا حماد الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رات طلبہ کے حجروں میں مخفی طور پر گشت کیا ایک طالب علم کو دیکھا کہ تکیے سے لگا ہوا مطالعہ کتاب میں مصروف ہے۔ دوسرے کو دیکھا کہ دوزانو مستعد بیٹھا ہے کتاب زیر مطالعہ ہے اور موقعہ موقعہ سے لکھتا جاتا ہے یہ دیکھ کر تجربہ کار استاد نے پہلے کی نسبت کہا" انہ لا یبلغ درجتہ الفضل" یہ مرتبی فضیلت کو کسی طرح نہیں پہنچ سکتا۔ دوسرے کی نسبت فرمایا" سیحصل الفضل و یکون لہ شان فی العلم" یہ البتہ فاضل ہوگا اور شان علماء حاصل کرے گا تجربہ نے ثابت کردیا کہ پیشن گوئی سچی تھی (شق ج 1 ص 35)

(8)شیخ الرئیس فرماتے ہیں طالب علمی میں میں نے کتاب "مابعد الطبیعتہ" کا چالیس برتبہ مطالعہ کیا۔ لیکن کچھ پرہ نہ چلا اگرچہ عبارت تمام یاد ہوگئی اتفاقاً اسی عرصہ میں میرا کتب فروشوں سے گذر ہوا ایک شخص میرے ہاں کتاب لایا اور مجھ سے کہا یہ "مابعد الطبیعتہ" کے فن میں ہے میں نے انکار کیا اس کے اصرار سے مجبوراً خریدلی کھولی تو ابو نصر فارابی کی تصنیف نکلی بڑی خوشی ہوئی چنانچہ مطالعہ سے مشکل حل ہوگئی۔ (عیون ج 2 ص 4)

(9)امام رازی مصنف تفسیر کبیر وغیرہ فرمایا کرتے "انی انا سف فی الفوات عن الاشغال بالعلم فی وقت الاکل فان الوقت والزمان عزیز" خدا کی قسم مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے کیوں کہ فرصت کا وقت بہت عزیز چیز ہے۔(عیون ص 23 ج 2)

(10)امام یحییٰ ناقل مؤطا مدینہ منورہ میں ایک روز امام مالک کے درس میں حاضر تھے کہ غوغا اٹھا کہ ہاتھی آیا۔ عرب میں ہاتھی عجوبہ چیز ہے اس آواز سنتے ہی سارے طلبہ درس چھوڑ کر بھاگ اٹھے۔ مگر یحییٰ اسی طرح اطمینان سے بیٹھے رہے۔ امام صاحب نے فرمایا اے یحییٰ تمھارے اندلس میں ہاتھی نہیں ہوتا تم بھی جاکر دیکھ آؤ جواب دیا حضور اندلس سے میں آپ کو دیکھنے اور علم سیکھنے آیا ہوں ہاتھی دیکھنے کے لئے یہاں نہیں آیا ہوں۔ (ابن ج ص216)

چہ کنم چشم بدمن نکند بہ نگاہے

(11)ابو بکر بن بشار ادب کے مشہور امام بغداد میں شاہزادوں کے اتالیق (ادب سکھانے والا معلم)تھے ایک روز قصر خلافت کو جاتے ہوئے نخاس سے گزرے وہاں ان دنوں ایک حاریہ آئی ہوئی تھی جس کے حسن و سلیقے کا سارے بغداد میں شہرہ تھا ابن بشار اس کو دیکھ کر مفتون ہوگئے۔

جب دارلخلافہ میں پہنچے تو خلیفہ نے پوچھا آج کیوں دیر ہوگئی انہوں نے ماجرا سنایا خلیفہ نے سن کر خفیہ طور پر وہ جاریہ خرید کر کے ابن بشار کے مکان پر ان

کے پہنچنے سے پیشتر پہنچادی جب علامہ ممدوح اپنے مکان پر واپس آئے تو جاریہ کو بیٹھے پایا دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کو بالاخانے بھیج دیا اور خود وہیں بیٹھ کر ایک علمی مسئلہ کی تحقیق میں مصروف ہوگئے غور کرتے تو طبیعت کا لگاؤ اس جاریہ کی طرف ہوجاتا ابن بشار رحمۃ اللہ علیہ نے خادم کو آواز دی اور فرمایا اس جاریہ کو واپس لے جاؤ کیوں کہ مطالعہ میں خلل آتا ہے چنانچہ حسب الحکم خادم جاریہ کو واپس کر آیا

(12)ابو البرکات طبیب مشہور ابتداء میں موسوی ملت کے پیرو تھے ان کے استاد طب ابوالحسن کی عادت تھی کہ منکرین مسیح (علیہ السلام) کو طب نہیں پڑھاتے تھے۔ ابو البرکات ان کے پاس گئے لیکن ناکام واپس لوٹے مایوسی کے بعد شوق نے ایک راہ بتلائی کہ دربان کو بلایا اور درس کے وقت دروازے میں چھپ کر بیٹھے۔

نحواحم داد دربان ترا بہر دروں زحمت

پسند است ایں کہ گاہے بینم آں دیوار بیروں را

 

سال بھر کامل اسی طرح تعلیم کا فیض حاصل کرتے رہے ایک دن کسی مسئلہ میں الجھاؤ پڑگیا جس کا حل کسی طرح نہ ہوسکا آخر جسارت کرکے نکل آئے کہا اجازت ہوتو کچھ عرض کروں استاد صاحب نے اجازت دی اور انہوں نے کسی کے قول سے حل کرکے کہا کہ فلاں روز یہ قول آپ نے ہی نقل فرمایا تھا ابوالحسن نے حیرت سے پوچھا کہ تم نے پیرا بیان کیوں کر سنا انہوں نے گذشتہ حٓل عرض کیا حکیم موصوف کے دل پر ان کے شوق کا گہرا اثر پڑا اور اعتراف کیا کہ ایسے طالب کو محروم رکھنا جائز نہیں چنانچہ اسی روز سے ابوالبرکات کو شامل درس کرلیا۔ (عیون ص 279 ج 1)

(13)امام ادب، ابوالعباس ثعلب الحانوی کا اکانوے(91) برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ذوق مطالعہ ابھی جوان تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن جمعہ کے بعد مسجد سےمکان کو جانے لگے۔ راستہ میں کتاب دیکھتے جاتے تھے کتاب میں اس قدر محویت تھی کہ گھوڑے کا دھکا لگا اس صدمے سے بہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ لوگ غشی کی حالت میں اٹھا کر مکان پر لائے ضعف پیری نے دم بر نہ ہونے دیا آخر اسی حالت میں انتقال فرماگئے۔۔

ہمارے علماء و طلبہ ان کے ذوق مطالعہ کو دیکھیں اور ضعف پیری کو بھی اور پھر راہ نوردی میں کیا خوب کہا گیا ہے

چہ حالت است ندانم جمال سلمارا

کہ بیش دید نش افزوں کند تمنارا

 

(14)علامہ سید شریف کو ایام طالب علمی میں یہ شوق ہوا کہ شرح مطالع خود اس کے مصنف سے پڑھیں۔ اسی دھن میں ہر رات پہنچے اور علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ سے ملے۔ ان کی عمر اس وقت دسویں منزل کی انتہا کو پہنچی تھی اور قوٰی اپنی آخر بہار دکھا رہے تھے کہن سال علامہ نے جوان ہمت سید کو پڑھانا اپنی طاقت سے باہر سمجھ کر ان سے کہا کہ تم میرے شاگرد مبارک شاہ کے پاس قاہرہ چلے جاؤ اس کا پڑھانا میرا پڑھانا ہے اور چلتے وقت سفارش نامہ دیا میر سید شریف کو شوق نے خراسان سے مصر پہنچایا۔ قاہرہ پہنچ کر مبارک شاہ سے ملے اور استاذ صاحب کا خط پیش کیا۔ سفارش کی وجہ سے حلقہ درس میں شامل تو کرلئے گئے لیکن مستقل سبق مقرر نہ ہوسکا اور نہ ہی جماعت قرأت کی اجازت ملی مجبوراً سماع پر قانع ہونا پڑا۔

رات کو مطالعہ میں کافی وقت گذر جاتا ایک دن مبارک شاہ صحن مدرسہ میں ٹہل رہے تھے کہ ایک جانب سے کسی کی آواز کان میں آنے لگی۔ متوجہ ہو کر سنا کہ میر سید شریف کہہ رہے تھے قال المصنف کذا و قال الاستاذ کذا و اقول کذا یعنی مصنف نے یوں فرمایا ہے اور استاذ صاحب نے یوں کہا اور میں یوں کہتا ہوں مبارک شاہ کو سید شریف کا بیان دل میں گھر کرگیا اور صبح اٹھتے ہی ان کو سب طلباء پر مقدم کردیا(شقاق نعمانیہ ص 168 ج 1) اس قسم کے واقعات بے شمار ہیں فقیر نے صرف ذوق مطالعہ کے اضافے کے لئے چند ایک بلالحاظ شان وغیرہ لھد دیئے۔ ورنہ ہر ایک فن کے علماء و فضلاء کا یہی حال رہا اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ علم نصیب بھی مطالعہ سے ہوتا ہے یہ خام خیال ہے کہ عالم ہو اور مطالعہ نہ ہو وہ عالم نہیں بلکہ جاہل ہے اگر کوئی چاہے کہ میں وقت کا امام بن جاؤ تو اسے چاہئیے کہ جس فن کا امام بننا چاہے وہ اس فن کی ہر کتاب کا غور سے اور بار بار کرے

باب سوم

نکتہ اول۔ مطالعہ کا مادہ طلوع ہے۔ اور طلوع پر وہ غیب سے عالم ظہور میں آنے کو کہتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے "طلعت الشمس" یعنی سورج عالم غیب سے عالم ظہور میں نمودار ہوا۔ اور مطالعہ مفاعلہ کا باب اور مفاعلہ میں جانبین سے برابر کے عمل کو کہتے ہیں اب مطالعہ کا معنی یہ ہوا کہ ادھر طالب علم نے اپنی توجہ کتاب کی طرف مبذول فرمائی ادھر کتاب نے طالب علم کو اپنے فیوض و برکات سے نوازا اب دونوں کے گہرے رابطہ سے کام بن گیا۔

نکتہ دوم۔ کسی کو بار بار غور سے دیکھا جائے تو اگرچہ وہ غیر واقف ہو لیکن بار بار دیکھنے سے وہ سمجھتا ہے کہ شاید اسے میرے سے کوئی تعلق ہے اس لئے دیکھنے والے سے وجہ پوچھتا ہے اسی طرح طالب علم نے کتاب کو جب بار بار دیکھا تو کتاب کو اس کے حال پر رحم آیا تو اس نے اپنے انوار و برکات سے طالب علم کو بھر پور کردیا۔

نکتہ سوم۔ کسی اپنے یا پرائے کے گھر جاؤ گے تو وہ آنے کا حال پوچھتا ہے پھر گھر پر آنے کی لاج رکھنے کی خاطر اس کا کام بھی کردیتا ہے اسی طرح جب طالب علم نے کتاب کھولی تو گویا وہ علم و فن کے دروازہ پر پہنچ گیا۔ اب علم کوئی ایسا بے مروت نہیں کہ اپنے گھر آنے والے سے بدسلوکی کا برتاؤ کرے بلکہ اس کو فیوض و برکات سے مالا مال کر دے گا۔

نکتہ چہارم۔ سخی کا کام ہےکہ سائل کو محروم نہیں لوٹاتا۔ کیا علم کوئی ایسا بخیل ہے کہ طالب علم سائل کو اپنی سخاوت سے محروم لوٹا دے گا۔

نکتہ پنجم۔ علم ایک مخفی خزانہ ہے جس طرح مخفی خزانہ کی ٹوہ میں وقت ہوتی ہے اور نہایت مشقت کت بعد میسر ہوتا ہے اسی طرح علم کے حصول میں کتاب کے مطالعہ میں خوب دماغ سوزی کی جائے تاکہ علمی جواہرات نصیب ہو۔

نکتہ ششم۔ جس کی ملاقات کی تمنا ہوتی ہے اس کے ملنے کے لئے اس کے دروازہ پر بار بار حٓضری دینی پڑتی ہے اور پھر طبع اکتاتی بھی نہیں عین اسی طرح علمی پیاس بجھانے کے لئے کتاب کو بار بار غور سے دیکھنا چاہئیے تاکہ محبوب علم بے نقاب ہوکر بازیابی بخشے ۔

نکتہ ہفتم۔ علم ایک معنوی نور ہے جس طرح معنوی نور کے حصول میں اوراد و وظائف اور شب بیداری و قلت طعام اور قلت کلام و ترک مجالس انام کی ضرورت ہے اس کے لئے بھی نہایت لازمی۔

نکتہ ہشتم۔ علم افعال قلب سے ہے جب تک قلت اسے پورے دھیان سے نہ حاصل کرے صرف زبانی کلام رٹ لگانے سے کام نہیں بنے گا۔

نکتہ نہم۔ علم اللہ تعالٰی کی صفات سے ہے جب تک بندہ تخلقو ابا خلاق پر کار بند نہ ہو اس مرتبہ پر پہنچنا دشوار کام ہے۔

نکتہ دہم۔ علم سے سیدنا آدم علیہ السلام ملائکہ کے مسجود اور ان سے افضل ٹھرے اسی طرح ان کی اولاد بھی اگر علم کی دولت سے بہرہ ور ہوجائے تو ملائکہ اس کی پرواز سے عاجز بلکہ خادم ہوجاتے ہیں۔

نکتہ یازدہم۔ علم تمام عبادات یہاں تک کہ جہاد سے بھی افضل ہے جیسا کہ حدیث باب اول میں گذرا۔ اور علامہ زرنوجی تلمیذ صاحب ہدایہ رحمہمااللہ تعالٰی تعلیم المتعلم میں فرماتے ہیں" ھو افضل من الغزوات عنہ کثر العلماء" وہ یعنی علم اکثر کے نزدیک غزوات سے افضل ہے۔

بہر حال علم کے حصول اور پھر اس میں دھن لگانا کسی قسمت والے کو نصیب ہوتی ہے

باب چہارم

(قاعدہ)بھوکے پیٹ یا کم از کم پیٹ کو تھوڑا خالی رکھ کر مطالعہ کیا جائے

اندروں از طعام خالی دار تادر و نور معرفت بینی

تہی از حکمتی بعلت آں کہ پری از طعام تا بینی

(قاعدہ)یکسوئی و تنہائی میں جہاں شور و غل نہ ہو اور نہ ہی کوئی امر طبیعت کے لگاؤ میں مانع ہو۔ اگر ایسا موقعہ میسر نہ ہو تب بھی خود کو تنہائی میں تصور کرکے مطالعہ میں لگ جائے۔

(قاعدہ)بہتر وقت بعد مغرب تا عشاء کا ہے سحر کا تو نہایت ہی موزوں وقت ہوتا ہے۔

(قاعدہ)کسی شئے کے ساتھ نہ تکیہ لگایا جائے اور نہ ہی کرسی یا چارپائی پر بیٹھنا چاہیئے بلکہ نیچے چٹائی پر ہاں معمولی دری یا گلیم وغیرہ اوپر بچھا سکتے ہیں۔

(قاعدہ)کتاب کو اولا اجمالی نظر سے محدود سطریں دیکھ لیں پھر دیکھی ہوئی عبارت کے ہر جملہ کو علیحدہ علیحدہ متعین کرنے کی کوشش کریں ہر جملہ کا سرسری نظر سے ترجمہ سمجھیں پھر گہری نظر سے دیکھے جائیں۔ جہاں الفاظ مشکل آجائیں اپنی طرف سے مناسب معنی بنالیں۔ پھر بعد کو لغات کی مستند کتابوں میں دیکھ لیں اسی طرح تا سبق یا ضرورت جو جملہ سمجھ نہ آئے اسے چھوڑتے جائیں جب اکثر جملے سمجھ میں آجائیں پھر ان سمجھے کو بار بار غور سے دیکھیں لیکن سمجھے ہوؤں کے ساتھ ملا کر اسی طرح بار بار کرنے سے حقیقت منکشف ہوجائے گی۔ لیکن مطالعہ کے کسی سے کوئی مطلب نہ پوچھیں اسی قاعدہ کی بدولت بہت بڑے بڑے فضلاء نے ان پڑھے فنون کو ازبر کیا۔ جیسا کہ سید میر شریف اور سیدی شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہماوا مولانا سراج احمد مکھن بیلوی رضی اللہ تعالٰی عنہم

(قاعدہ)کتاب کو اول سے آخر تک بالاستیعاب دیکھا جائے ایسا نہ ہونا چاہئیے کہ بعض اجزاء اِدھر سے اور بعض اُدھر سے۔

(قاعدہ)جو مضامین یاد ہوسکیں یاد رکھیں اور جب لکھیں جاسکے ایک جگہ لکھتے جائیں۔ بعض طلباء شکایتیں کرتے ہیں کہ اس وقت اگرچہ کتاب کے مضامین یاد ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھول جاتے ہیں۔ واقعی یہ شکایت عموماً ہے لیکن یہ میرا ذاتی تجربہ ہےکہ ایک وقت مضمون یاد کرکے پھر بھول جانے سے کسی دوسرے وقت اسی کتاب یا دوسری کتاب سے یاد شداہ اول آسانی سے سمجھ آتا ہے۔ ثانیاً دوبارہ مطالعہ جات سے پھر ایسا یاد ہوجاتا ہے کہ پھر بھولنے کا نام بھی نہیں لیتا۔

(قاعدہ)جس کتاب کا مطالعہ شروع ہو ایک دم نہ سہی لیکن اس میں ایسے وقفے بھی نہ ہوں کہ جس سے برس یا کئی ماہ گزر جائیں وقفہ کرنے سے کتاب سے انس ہٹ جاتا ہے اور پے در پے کے مطالعہ سے کتاب مانوس ہوجاتی ہے۔

(قاعدہ)مطالعہ کتاب کے وقت ایک سفید کاپی کاغذ اور قلم دوات ساتھ ہوتاکہ جدید فوائد اس میں درج ہوسکیں۔ یا کم از کم ان فوائد پرنشانات ضرور لگاتے جائیں(مگر احتیاط رہے کہ کتاب بھی خراب نہ ہونے پائے)اس لئے یا تو باریک تراشی ہوئی پنسل سے لگائیں یا ایک علیحدہ کاغذ پر نوٹ کرتے جائیں پھر فارغ وقت میں ان نشان زدہ فوائد کو جب اپنی کاپی میں درج کرلیں تو ربڑ سے وہ پنسلی نشانات ختم کردیں تاکہ کتاب بھی محفوظ اور صاف ستھری رہے کیونکہ گر گڑی کتاب بھی طبیعت کو منتشر کرتی ہے شاہ عبدالحق محدچ دھلوی و دیگر سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا بحمدہ تعالٰی فقیر کی بھی عادت طالب علمی سے یہی ہے عربی مقولہ ہے" من حفظ شیئا فرد من کتب شیئا قر" ترجمہ: جس نے کوئی چیز یاد کی وہ پختہ ہوگیا۔

(قاعدہ)جس فن کی کوئی کتاب دیکھیں اس سے قبل اس سے آسان کتاب کے سبق کا مطالعہ دیکھ لیں یا جو طالب علم بڑی کتاب کے سبق کا مطالعہ کرے اسے چاہئیے کہ وہ پہلے چھوٹی کتاب سے اسی سبق کا مقام دیکھ لے۔ مثلاً کافیہ پڑھنے والے یا اسی طرح کنز الدقائق پڑھنے والے اسی طرح حسامی پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اسباق کے مقامات ہدایۃً النحو(کافیہ کے لئے) قدوری(کنزالدقائق کے لئے) نور الانوار(حسامی کے لئے) سے دیکھیں۔

(قاعدہ)کسی سے استفادہ کے لئے عار نہ کرے

(قاعدہ)آج والے سبق کا مطالعہ سے قبل کل واے سبق کو دوبارہ ذہن نشین کرلیں تاکہ مطالعہ کے وقت ذہن ماقبل کو مابعد سے برتبط کرسکے۔

(قاعدہ)طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ کل والے سبق کو کم از کم پانچ بار ضرور دہرائے۔

(قاعدہ)سبق یا مضمون کتاب کو ایسا کھلے الفاظ اور برجستگی سے بیان کرے کہ نہ تو نہایت زور سے چلائے اور نہ ہی معمولی سے کہ طبیعت متاثر ہی نہ ہو۔

حکایت: حضرت قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ جب فقہاء کو فقہ کے مسائل نہایت قوت و برجستگی سے بیان فرماتے تو آپ کے داماد متعجب رہتے ان سے تعجب کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ آج ان کو پانچ دن سے کھانا نہیں ملا لیکن تاہم مسائل نہایت بسط و نشاط سے بیان فرمارہے ہیں(شرح تعلیم المتعلم) کذا کان استاذ حضرت مولانا سردار احمد خان لائلپوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ۔

(قاعدہ)دوسرے کو بیان سمجھاتے وقت ایسا کھلا اور واضح بیان کرے کہ اسے مضمون ذہن نشین ہوجائے اور جب تک اسے سمجھ نہ آئے یا دل گواہی نہ دے بیان سے خاموش نہ ہو۔ اس میں نہ صرف سامع کا فائدہ ہے بلکہ متعلم کو نہایت درجہ کے فوائد حاصل ہوں گے۔ چنانچہ اخفش سے جب کہ پوچھا گیا کہ تم نحو کے امام کیسے بنے تو انہوں نے کہا کہ میرے ہاں ایک بکرا تھا۔ جب میں استاد صاحب سے سبق پڑھ کر واپس لوٹتا تو اپنا سبق اس بکرے کو سمجھاتا۔ تقریر کے بعد آخر میں میں اس سے پوچھتا کہ کیا سمجھ آیا۔ جب تک وہ ہاں کے لئے سر نہ ہلاتا میں تقریر کرتا رہتا بعض طلبہہ کسی کو سبق سمجھانے سے جی چُراتے ہیں حالانکہ انہیں پتہ نہیں کہ دوسرے کو سجھانا خود اپنا علمی اضافہ ہے بحمدہ تعالی فقیر غفرلہ ربہ القدیر کا طالب علمی میں یہی دستور تھا اور بفضلہ و کرمہ ادراک تھوڑے ایام میں کھل گیا۔

(قاعدہ)کافی رات تک جاگے اور نیند کے دفعیہ کے لئے چند طریقے ہیں۔

(1)مغرب سے پیشتر کھانا کھالے تھوڑا کھائے(2)دوپہر کو تھوڑا آرام کرلیا کرے پھر صبح اٹھے تو نہایت مبارک گھڑیاں ہیں۔

(قاعدہ)مطالعہ کے وقت صرف کتاب کے مضمون کی طرف دھیان ہو اس وقت دنیا و عقبٰی کے دھندوں سے پاک ہو کر بیٹھے۔

(قاعدہ)طالب علم ہر وقت کتاب اپنے ساتھ رکھے جیسا کہ عربی مقولہ ہے: من لم یکم الدفتور فی کم لم تثبت الحکمتہ فی قلبہ" جس کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں اس کے دل میں حکمت باقی رہ نہ سکے گی۔ اسی لئے فقیر اپنے احباب طلاب سے کہا کرتا ہے کہ جس نے ہر وقت اپنے ساتھ کتاب کو ساتھی نہیں بنایا وہ علمی دولتوں سے محروم ہوگا۔

(قاعدہ)سوائے علمی مشاغل کے اپنی زبان پر مہر سکوت لگائے اور خلوت میں رہے۔

آداب مطالعہ

(1)مطالعہ گاہ میں جانے سے پہلے تمام عوائق و علائق دینوی و اخروی تفکرات کو برطرف کرکے جائیں۔

(2)مطالعہ سے پہلے وضو کرلیں کیوں کہ کتاب کو بے وضو ہاتھ لگانا علم سے محرومی کی دلیل ہے حضرت شمس الائمہ حلوانی فرماتے ہیں" انما فلت ھذا العلم بالتعظیم فانی ما اخذت الکاغذ الابالطہارۃ" مجھے علم صرف علم کی تعظیم سے نصیب ہوا کیوں کہ میں نے سادے کاغذ کو بھی وضو کے بغیر نہیں چھوا (تعلیم المتعلم)

حکایت: شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر ہے کہ وہ اسہال(پیٹ کی بیماری) میں مبتلا ہوگئے اور ادھر کتاب لا مطالعہ کرنا بھی تھا تو ایک شب مں ستائیس بار وضو کرنا پڑا(تعلیم المتعلم)

(3)اگر ہوسکے تو مطالعہ سے پہلے ایک دوگانہ نفل پڑھے

(4)گھٹنے کے بل کتاب کو کسی اچھی جگہ چوکی وغیرہ پر رک کر مطالعہ کرے پھر نہ لیٹے اور نہ ہی سہارا لگائے ہاں پالتی گا سکتا ہے اور بیٹھے ہوئے کی صورت میں جس طرح چاہے بیٹھ سکتا ہے۔

(5)بلاضرورت درمیان میں بات نہ کرے

(6)اگر کسی سے استفادہ کرنا پڑے تو عار نہ کرے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیا کہ "بما درقت العلم" آپ نے اتنا بہت بڑا علم کیسے حاصل کیا آپ نے فرمایا"بلسان مسئول و قلب عقول" یعنی زبان زیادہ سوال کرنے والی اور دل زیادہ سمجھنے والے سے( التعلیم المتعلم)

حضرت امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں" ما استنکفت من الاستفادہ مانحلت بالافادۃ" میں نے استفادہ کے لئے سوال کرنے سے عار نہیں کی اور کسی کو فائدہ دینے سے بخل نہیں کیا۔(تعلیم المتعلم)

لیکن یہ بات اس طالب علم کے لئے مضر ہے جو کل کے سبق کا مطالعہ کررہا ہے ویسے دیگر اوقات میں اور دیگر فضلاء کے لئے یہ طریقہ نہایت موزوں ہے لیکن آج کل تو ہر شخص پھنے خاں ہے دوسرے سے استفادہ اپنی ہتک سمجھتا ہے۔

(7)جتنا سمجھ آجائے الحمد اللہ جو سمجھ نہ آئے تو دوگانہ مڑھ کر مصنف کی روح کو بخشے اور اپنے استاد کا تصور لے کر سو جائے۔

(8)اٹھتے ہی بار باران سمجھےکو سمجھے اور سمجھے ہوئے کو بھی دھیان میں رکھے

(9)استاد صاحب کے سامنے جانے سے پہلے استاد صاحب کے آداب شان بجالاتے استاد صاحب کے آداب بجالانے سے بھی کئی عقدے لاینحل حل ہوجاتے ہیں۔

(10)استاد صاحب سے سبق سمجھتے وقت اپنے سمجھے ہوئے کی تصدیق کراتے اور نہ سمجھے ہوئے کو غور سے سمجھے۔ اور ان کے زائد فوائد بتائے ہوؤں کو نہایت ذوق سے یاد کرے(تلک عشرہ کاملہ)باقی زیادہ ضروری باتیں فقیر کی دوسری تصنیف میں ہیں۔

فصلی اللہ تعالی علی حبیبہ افضل الرسل والانبیاء و علی الہ و اصحابہ الکملاء و علی اولیاء امتہ و علی استاتذہ علم دینہ الطلباء

طلبائے کرام سے اپیل

آپ حضرات پر ہی ہماری نگاہیں لگی ہوتی ہیں کہ عنقریب آپ حضرات علم دین سے فارغ ہوکر دین کو چار چاند لگائیں گے۔ اگر خدا نہ کرے آپ ہی میں وہ عادتیں گھر کر گئیں ہیں جس سے اللہ تعالٰی ناراض اور شیطان راضی ہو تو فرمائیے پھر دین کا کیا حشر ہوگا۔

فلہذا

 

خدارا اپنی صورت سیرت عادات اور خصلتوں کو دین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پر ڈھالیں تاکہ آپ سے ہماری وابستہ امیدیں پھلیں پھولیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ حضرات طلبائے کرام سلف کا نمونہ بننے میں اپنے ہمجولیوں سے سبقت کرنے کی کوشش کریں گے

خادم الطلبہء

فقیر اویسی غفرلہ

کتاب سے محبت کرو

 

کتاب ہر دور میں تعلیم و تربیت کا اہم ذریعہ رہی ہے۔ اس کی ہیئت خواہ کچھ بھی رہی ہو ایک عہد سے دوسرے عہد تک ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک علم منتقل کرنے کے لئے انسان نے تحریر کا سہارا لیا۔کبھی پتھروں پر نشان بنانے پیڑوں کی چھال استعمال کی کبھی چمڑے کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا اور کبھی کپڑے نے انسان کی مدد کی۔ انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ ساتھ طریقے بھی بدلتے رہے کاغذ ایجاد ہوا اور تحریر نے علامتوں نشانوں کو منازل طے کرکے الفاظ کی شکل اختیار کی اور انتقال علم کا موجودہ وسیلہ کتاب ہمارے سامنے آئی یعنی کتاب کی موجودہ شکل ضرور جدید ہے لیکن کتاب کا تصور اتنا قدیم ہے جب انسان نے پہلی بار اپنی بات اپنی سوچ اور فکر دوسرے کو منتقل کرنے کے لئے آواز سے ہٹ کر کسی بھی دوسرے مادی ذریعے کا استعمال کیا نہ صرف انتقال علم کے لئے بلکہ حصول علم کے لئے بھی۔

حصول علم قوموں کی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے مذہب اسلام نے اس کو جو اہمیت دی ہے کسی مذہب نے نہیں دی کہ نزول قرآن کریم کی ابتداء ہی لفظ " اقراء" یعنی پڑھ سے ہوتی ہے۔ حصول علم کی وکالت میں اس سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے کہ خود اللہ تعالٰی انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ علم حاصل کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کا ہر عمل فرمان خدا کے تابع تھا فرمایا" علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے" (حدیث شریف) اور کتاب واحد ذریعہ ہے جو انتقال علم اور حصول علم میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے کتاب کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے اور اس ضمن میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ پوری دنیا یس کی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے۔

Edited by Raza
Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...