Jump to content

Meaning Of 786 خطوط پر 786 لکھنا کیسا ہے؟


Asif_RazaAttari

تجویز کردہ جواب

  • 2 weeks later...
  • 1 month later...
  • 3 years later...

bismillah.gif
saw.gif
salam.gif


اوہام ذہنیہ کو دور کرنے کے سلسلے میں اہم فتوٰی
 

مفتیان کرام
فقہیہ العصر حضرت علامہ مولانا شریف الحق امجدی مدظلہ

حضرت علامہ مولانا نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ

 

مسئلہ نمبر 1:- کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اپنے خطوط وغیرہ کے اوپر 786 لکھتے ہیں جبکہ سنت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا ہے جیسا کہ ان دعوت ناموں سے ظاہر ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اطراف و جوانب کے سلاطین کے نام بھیجے تھے۔ 786 ایک گنتی ہے یہ بسم اللہ کی جگہ نہیں لے سکتی، اور یہ کہنا کہ "786 بسم اللہ کا عدد ہے اس لئے ہم اس کو بسم اللہ کی جگہ لکھتے ہیں" اس لئے صحیح نہیں کہ یہی اعداد "ہری کرشنا" کے بھی ہیں۔ آج کل وہابی لوگ اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔


الجواب:-
یہ صحیح ہے کہ خطوط وغیرہ کی ابتداء تسمیہ سے کرنا سنت ہے، مگر یہ سنت موکدہ نہیں کہ اس کا چھوڑنا ممنوع ہو اور اس کی عادت گناہ ہو، سنت غیرموکدہ ہے کہ اگر کوئی اس پر عمل کرے تو ثواب پائے گا، لیکن خطوط وغیرہ کولوگ لاپرواہی سے ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں جس سے بے ادبی ہوتی ہے اور بسماللہ شریف قرآن شریف کی آیت ہے جسے بے وضو چھونا بھی جائز نہیں۔ ارشاد ہے لا یمسہ الا المطھرون "اسےصرف وہی لوگ چھوئیں جو خوب پاک ہوں" جس پر غسل واجب نہ ہو وہ بھی خوب پاکنہیں، خوب پاک اس وقت ہوگا جبکہ باوضو ہو۔ خط کے سرنامے (یعنی خط کیپیشانی) پر بسم اللہ شریف لکھی ہوگی تو بے وضو لوگوں کا ہاتھ پڑ جائے گا۔پھر ڈاکخانے کے ذریعے جو خطوط بھیجے جاتے ہیں ان ـخطوط کی کیا درگت بنتیہے وہ سب کو معلوم ہے۔ ڈاکخانے والے ان پر پاؤں بھی رکھ دیا کرتے ہیں پھرعموماً وہ مشرکین1، ہوتے ہیں۔ یہ مشرکین لیٹربکس سے نکالتے ہیں، انتہائیبدتمیزی سے اس پر مہریں مارتے ہیں، تھیلوں میں بند کرتے ہیں، گھسیٹتے ہوئےجہاں چاہتے ہیں لے جاتے ہیں حتٰی کہ اس پر بیٹھتے بھی ہیں۔ پھر یہی مشرکیناپنے ہاتھوں سے اسے چھانٹتے ہیں اور کئی بار میں نے دیکھا ہے کہ خطوط کومکتوب الیہ2، کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔ کیا یہ سب اللہ عزوجل کے اسمائےمبارکہ اور قرآن مجید کی ایتوں کی بے ادبیاں نہیں، کیا کسی مسلمان کو یہجائز ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ قرآن مجید کی ضرور توہین ہوگی اس کی اجازت ہےکہ اللہ عزوجل کے اسمائے مبارکہ یا قرآن مجید کو اس طرح غیر کے ہاتھوں میںدے دے۔ علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ قران مجید کو کفار کی بستیوں میںنہ لے جائیں کہ اس کا اندیشہ ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے اور کفاراس کی بے حرمتی نہ کرنے لگیں۔ تو جب خطوط میں اس کا اندیشہ ہی نہیں بلکہیقین ہے کہ ضرور اس کی بے حرمتی ہوگی تو اس لئے اہلسنت نے خطوط پر بسماللہ شریف لکھنے کو پسند نہیں فرمایا۔ یہ مسلمہ (یعنی تسلیم شدہ) قاعدہ ہےکہ کسی چیز میں نفع و نقصان دونوں ہوں تو اس کو ترک کر دیا جائے جلبِمنافع (یعنی منافع کے حاصل کرنے) پر دفعِ مضرت (ضرر کا دور کرنا) مناسب ہے۔


"786" بقاعدہء جمل3، بسم اللہ کا عدد ہے۔ علمائے کرام نے اس کا لحاظ کرتےہوئے خطوط کی ابتداء میں اسے لکھنے کا رواج دیا تا کہ من وجہ (یعنی کچھ نہکچھ) بسم اللہ شریف نہ لکھنے کی مکافات (یعنی بدلہ) ہو جائے، اسمائےمبارکہ کو ان کے اعداد کے ساتھ خاص مناسبت ہے اور ان اعداد میں فوائد بھیہیں جس پر تجربہ شاہد (یعنی گواہ) ہے، دیوبندیوں اکابرین تعویذیں لکھتےتھے اور ان تعویذوں کے اوپر 786 لکھتے تھے اور تعویذوں میں بھی صرف اعدادلکھتے تھے اگر اسمائے مبارکہ کے اعداد میں کوئی اثرو فائدہ نہ ہوتا تودیوبندی اکابر اسے کیوں لکھا کرتے تھے۔


پھر یہ چیز مسلم الثبوت (یعنی مانی ہوئی) مشائخ سے متوارث (یعنی موروثیطور پر) چلی آرہی ہے حتٰی کہ دیوبندی اور غیرمقلدین کے مشترکہ پیشوا اورمستند شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہتعالٰی علیہما بھی تعویذیں لکھا کرتے تھے جو صرف اعداد ہی سے پُر ہوتیتھیں۔ ہر حرف کو اس کے عدد کے ساتھ ایک باطنی ربط (یعنی پوشیدہ تعلق) ہےجسے اہل کشف (یعنی غیب کی باتوں کو ظاہر کرنے والوں) نے دریافت کیا۔ یہایسا نہیں کہ کسی نے اٹکل پچو (یعنی صرف اندازے سے) اسے بنا لیا ہو۔ یہیوجہ ہے کہ حروف کے اعداد حرج تہجی کی ترتیب سے نہیں بلکہ اس کی ترتیبالگ4، ہے جو ابجد، ہوز، حطی میں مذکور ہے بلکہ علامہ قاضی بیضاوی کے ارشادسے پتہ چلتا ہے کہ اللہ عزوجل اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہوسلم نے بھی ان اعداد کا اعتبار فرمایا۔


الم مقطعات قرآنیہ کی بحث میں لکھتے ہیں اولیمدد اقوام واجال بحساب الجمل کما قالہ ابو العالیۃ متمسکا بماروی انہ علیہالصلاۃ والسلام لما اتاہ الیھود تلے علیھم الم بقرۃ فحسبوہ وقالوا کیفندخل فی دین مدتہ احدا وسبعون سنۃ فتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلموقالوا فھل غیرہ فقال المص والر فقالوا خلطت علینا فلا ندری بایھا ناخذفان تلاوۃ ایاھا بھذا الترتیب علیھم وتقریرھم علی استنباطھم دلیل علی ذالک۔
یا یہ حروف قوموں کی مدت اور میعاد کی طرف اشارہ ہے جمل کے حساب سے جیساکہ اس کا ابوالعالیہ نے کہا اس حدیث سے دلیل لاتے ہوئے کہ "یہود حضور اقدسصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے سورہءبقرہ کا الم پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اس کا حساب لگایا اور کہا "ہم اس دینمیں کیسے داخل ہوں جس کی مدت 71سال ہے" یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہتعالٰی علیہ وسلم نے پڑھا: المص۔ الرا۔ المرا۔، یہ سن کر یہود نے کہا "آپ نے ہماری سوچی ہوئی بات کو خلط ملط کر دیا ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کس کو لیں۔

"
علامہ بیضاوی فرماتے ہیں "حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا استرتیب سے پڑھ کر یہود کو سنانا اور انہوں نے جو حساب لگایا تھا رد بہ کرنااس کی دلیل ہے کہ یہ قوموں کی میعاد بتانے کے لیے ہے۔" اس کے تحت شیخ زادہمیں ہے فانتلاوتہ علیہ الصلاۃ والسلام تلک الفواتح بھذا الترتیب وھو ذکر انا کثر بعدالاقل فی معرض الجواب عن قولھم فھل غیرہ وکذا تقریرہ علیھم الصلاۃ والسلامایاھم علی استنباطھم ذالک وعدم انکارہ علیھم فی تسلیم ذالک یدل علی انہسلم ان المراد منھا الاشارۃ الی المدۃ۔


"حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ان فواتح سور (یعنی سورتوں کے شروع کرنےوالے حروف) کا یہود کے سامنے اس ترتیب سے پڑھنا کہ اکثر (یعنی زیادہ تعدادوالوں) کو اقل (یعنی کم تعداد والوں) کے بعد پڑھا ان کے اس قول کے جوابمیں "کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟" اور ایسے ہی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیمکا ان کے استنباط (یعنی نتیجہ اخذ کرنے) کو مان لینا اور اس پر انکار نہکرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کےنزدیک بھی اس سے اشارہ مدت کی طرف ہے۔"


ان سب کا حاصل یہ ہے کہ "الم کےعدد 71" ہیں۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے یہ تلاوت کی تواس عدد کا لحاظ کرکے یہود نے کہا اس دین کی مدت 71 سال ہے اس لیے کہ جملکے حساب سے الم کے "71" عدد ہیں۔ اگر اعداد کا اعتبار کچھ نہیں تھا توکوئی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم فرما دیتے کہ "تم کیا بکتےہو حروف کے اعداد کا کوئی اعتبار نہیں یہ کالعدم (نہ ہونے کی طرح) ہیں۔بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ترتیب اور دوسرے مقطعاتپڑھے وہ بھی اس ترتیب سے کہ پہلے چھوٹے اعداد کے پڑھے`پھر بڑے اعداد کےمثلاً المص، اس کے عدد 161 ہیں، پھر الرا جسکے اعداد231 ہیں، پھر المرا جس کے اعداد271 ہیں اور یہ قاعدہء مقررہ (یعنیثابت شدہ) ہے کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنےکوئی بات کہی جائے اور اسے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رد نہفرمائیں تو وہ حدیث مرفوع ہے اور یہاں صرف سکوت ہی نہیں بلکہ انہیں الزامدینے کے لیے ترتیب وار مقطعات کی تلاوت بھی ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ حروفکے ان مخصوص اعداد کا اعتبار خود حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہوسلم سے ثابت ہے اور یہ منزل من اللہ (یعنی اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا)بھی ہے۔ نیز ملا عبدالحکیم خیالی لکھتے ہیں:۔ والمقصودمنھا الشارۃ باعتبار مسمیا تھا الی مدد بقاء اقوام واجال امور قال الجوفیقد استخرج بعض الائمۃ من قولہ تعالی الم غلبت الروم ان البیت المقدس یفتحالمسلمون فی سنۃ ثلاث وثمانین وخمسمائۃ ووقع کما قال وقال السھیلی لعل عددحروف اللتی فی اوائل السور مع حرف المکرر للاشارۃ الی مدۃ بقاء ھذہالامۃ۔۔۔ ان امور سے مقصود ان کے مسمیات(یعنی نام رکھے گئے) کےاعتبار سے کچھ قوموں کی بقاء کی مدت اور کچھ امور کی میعاد کی طرف اشارہہے جوفی نے کہا "آیۃ کریمہ""الم غلبت الروم"سےبعض ائمہ نے یہ استخراج فرمایا (یعنی نتیجہ نکالا) کہ بیت المقدس کومسلمان 583ء؁ میں فتح کریں گے جیسا انہوں نے کہا تھا ویسے ہی ہوا ۔ سہیلینے کہا ہو سکتا ہے کہ ان حروف کے عدد جو سورتوں کے اوائل (یعنی شروع) میںہے اس امت کی بقا کی مدت کے اشارے کے لیے ہے۔"


بدایہ اور نہایہ میں ہے کہ "اس استخراج کو سب سے پہلے علامہ ابو الحکم ابن برجام اندلسی نے 522ء؁ کے حدود میں ذکر کیا۔" (جلد نمبر12 ص:326)


حاصل یہ نکلا کہ جمل کے حساب سے حروف کے اعداد کا اعتبار خود حضور اقدسصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور اس وقت سے اس وقت، سلف(پہلے گزر جانے والوں) سے لیکر خلف (بعد میں آنے والوں) تک اس کا اعتباررہا ہے اور نہ یہ بدعت ہے اور نہ لغو 5،و مہمل6،۔۔ اس لیے خطوط کی ابتدامیں؂786 لکھنا یا اس کے ساتھ 92 لکھنا لغوومہمل نہیں بلکہ سلف کے طریقوںسے مستخرج (نکالا ہوا) و مستحسن (پسندیدہ) ہے۔ وہابیوں کا یہ کہنا کہ یہہری کرشنا کا عدد ہے ان کی "جہالت اور شرارت" ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جملکا حساب عربی حروف کے ساتھ خاص ہے، ہندی یا سنسکرت میں نہ یہ طریقہ رائجنہ ان کے حروج تہجی کے مطابق۔ غور کیجئے جمل کے حساب میں جو گنتیاں ہیں وہبھی 28 ہی اور عربی کے حروف تہجی بھی 28 ہیں۔ اور سنسکرت کے حروج تہجی 36ہیں جس میں سرے سے الف ہے ہی نہیں "الف ک یہ شبد (حرف) نہیں مانتے۔" ماترا(یعنی ہندی حرفوں کے اعراب) مانتے ہیں" جبکہ جمل کے حساب میں پہلا حرف الفہے جس کا عدد ایک ہے نیز جمل کے بہت سے حروف سنسکرت میں غائب ہیں مثلاًحاء، خاء، ذ، ظا، ص، ض، طا، ظا، ع، غ، فاء، ق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت سے ایسےحروف سنسکرت کے حروف تہجی میں ہیں جو جمل مین نہیں۔ مثلاً، بھ، پ، ٹ، ٹھ،جھ، چ، چھ، دھا، ڈھا، کھا، گ، گھا، وغیرہ۔ اگر جمل کا حساب سکسرتے ہندیوغیرہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کے لیے ہوتا تو ان کے ہر حرف تہجی کاکوئی نہ کوئی عدد ہوتا۔ سنسکرت اور ہندی کے تمام حروفِ تہجی کا عدد نہہونا اور عربی کے ہر ہر حرف تہجی کا عدد ہونا اس کی دلیل ہے کہ جمل کاحساب صرف عربی کلمات اور حروف میں معتبر ہے۔" دیگر زبانوں کےکلمات اورحروف میں اس کا اعتبار نہیں" اس لیے یہ کہنا کہ "786 ہری کرشنا کے بھی عددہیں" فریب دینا ہے۔ اعداد کی مطابقت سے کچھ نہیں ہوتا جس زبان میں اور جسزبان کے کلمات کے لیے ان اعداد کا اعتبار رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہوآلہ وسلم نے اور اسلاف نے فرمایا وہ صرف عربی ہے اس لیے صرف عربی کلماتکے جو اعداد ہیں ان کا اعتبار ہے۔ اس سے بھی قطع نظر اعتبار ان حروف کاہوتا ہے جو لکھے جائیں، خواہ پڑھے جائیں یا نہ پڑھے جائیں اگر کچھ الفاظپڑھے جا رہے ہیں مگر لکھے نہیں جا رہے ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں مثلاًاسمِ جلالت، اللہ کے عدد 66 ہیں، حالانکہ جب لام کے بعد الف پڑھا جا رہاہے تو 67 ہونا چاہئیے، مگر چونکہ درمیانہ الف لکھا نہیں جاتا اس لیے اس کاجمل کے حساب میں اعتبار نہیں نیز اسمِ کریم "الرحمٰن" کے اعداد 329 ہیںحالانکہ لام پڑھا نہیں جاتا مگر چونکہ لام لکھا جاتا ہے اس لیے اس کے عددکا اعتبار ہے اور درمیانی الف پڑھا جاتا ہے مگو چونکہ لکھا نہیں جاتا اسلیے اس کے عدد کا اعتبار نہیں۔ چنانچہ اپنی جہالت اور جمل کے حساب سےناواقفی یا شرارت کی وجہ سے وہابیوں کو یہ دھوکہ لگا اور انہوں نے کہہ دیاکہ بسم اللہ شریف کے اعداد 786 نہیں787 ہیں۔ جمل کے اس قاعدے کی رو سے ہریکرشنا کے اعداد 786 ہرگز نہیں اس لیے کہ اعتبار اسی رسم الخط(یعنی طرزِتحریر) کا ہوگا جس زبان کا وہ کلمہ ہے۔ ہری کرشنا سنسکرت کا لفظ ہے سنسکرتمیں اسے جیسے لکھتے ہیں انہیں آپ کود جوڑیئے ان کو کسی بھی طرح مان کر786عدد پورا کرنا جمل کے حساب سے خارج ہے اور وہابی شرارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ یہلفظ اردر کا ہے اور نہ اردو رسم الخط کا اعتبار ہوگا، جس زبان کا لفظ ہےاسی زبان کے رسم الخط کا اعتبار لازم ہے اور اس لحاظ سے سنسکرت میں بسماللہ کے اعداد 786 نہیں بلکہ 436 ہیں۔"


دوسری خاص بات یہ ہے کہ اہلسنت خطوط کے سرنامے پر 786 لکھتے ہیں تو نہ اسےفرض جانتے ہیں نہ واجب نہ سنت بلکہ مستحسن۔ اور استحسان کے لیے یہی کافیہے کہ امت کے معتمد (یعنی اعتماد شدہ) علماء اور مشائخ کا اس پر عمل ہے اسکے لیے قرآن و حدیث میں اس سے ممانعت نہیں اور امت کے عوام و خواص کا اسپر عمل در آمد ہے۔ اگر ہر چیز کے لیے قرآن و حدیث سے تصریح (یعنی وضاحت)تلاش کی جائے تو چلنا پھرنا جینا مشکل ہو جائے گا۔ وہابی کہتے ہیں کہ "786نہ رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم) نے لکھا، نہ صحابہء کرامنے، اس لیے یہ بدعت ہے تو لازم آئے گا کہ اردو لکھنا بھی بدعت ہو، نہصحابہء کرام نے لکھا نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نےلکھا۔ جو جواب وہابی اس کا دیں گے وہی جواب 786 کے سلسلے میں ہمارا بھی ہوگا۔


واللہ تعالٰی اعلم


fi_aman_allah.gif

Link to comment
Share on other sites

  • 4 weeks later...
  • 2 weeks later...
  • 3 years later...
  • 9 months later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...