Jump to content

Shiaar e Ikhtilaf ( Mufti Muneeb Ur Rehman)


خیر اندیش

تجویز کردہ جواب

شعارِ اختلاف

 

اہلسنت وجماعت کے حالات ان دنوں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ہم اپنے علمی اختلافات کوداخلی سطح پر طے کرنے کی بجائے عوام میں لے آتے ہیں، پھر سوشل میڈیا پر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے باوجود بعض علماء کو یہ شوق لاحق ہوگیا ہے کہ اُن کی ہر بات، ہر ادا، ہر قول وفعل بلاتاخیر سوشل میڈیا پر آجائے، یہ روش انتہائی حد تک نقصان دہ ہے، سوشل میڈیا پر چیزوں کو ایڈٹ کر کے ڈالنا چاہیے اور فائدے کے حصول پر نقصان سے بچنے کوترجیح دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک شعار یہ ہے کہ اگر کسی سے کسی مسئلے میں اختلافِ رائے ہوگیا ہے، تو بلاسوچے سمجھے انتہائی درجے کاحکم لگادیا جاتا ہے اور پھر واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا، جبکہ افتاء کا اصول یہ ہے کہ جس درجے کی خطا یا لغزش ہو، اُسی درجے کا حکم لگایا جائے اور اس میں بھی احتیاط برتی جائے، فقہائے کرام نے تو اس حد تک احتیاط کا حکم دیا ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی نکلتی ہو تو اُسے ترجیح دی جائے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے:اے کافر! تو بے شک دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا" (بخاری:6103)۔ یعنی اگر مخاطَب درحقیقت کفر کامرتکب ہوچکا ہے، تو اس پر کفر کا اطلاق درست ہوگا، ورنہ مسلمان کو کافر کہنے والے پر یہ کفر لوٹ جائے گا، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: "یہ اس صورت میں ہے کہ وہ اسے اعتقاداً کافر سمجھ کر کہے اور اگر محض گالی کے طور پر کہے تو قائل کافر نہیں ہوگا(بلکہ گناہگار ہوگا)"۔  

بعض لوگ اختلافِ رائے کے وقت ازخود کسی شخص کے ایمان، اخلاص، قلبی کیفیات، نیت اورعمل کے محرّکات کے بارے میں گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اختلافِ رائے کے حوالے سے ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس نظریے سے بات کا آغازکیا جاتا ہے کہ وہ حق کے آخری درجے پر کھڑاہے اور سامنے والا مِن کل الوجوہ باطل ہے، لوگ دیانتداری کے ساتھ دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنا ہی نہیں چاہتے، انانیت کا غلبہ ہوتا ہے۔ جو مراد آپ لے رہے ہیں، سامنے والا اس کی نفی کر رہا ہے، مگراصلِ مقصود معاملہ سلجھانا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی فتح کو منوانا اور دوسرے کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ان سب وجوہ سے ہم تہذیب وشائستگی سے دور چلے جاتے ہیں۔ پس، اختلاف ِ رائے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کے نقطہ ٔ نظر کو پوری طرح سے سمجھا جائے، فریقِ مخالف کی وضاحت، اگر قابلِ قبول ہے تو اُسے قبول کرلیا جائے، اصلِ مقصود اصلاح ہونی چاہیے، نہ کہ پندارِ فتح۔

علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : "نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی وبددینی ہے۔ عصمتِ انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کاوعدہ ہولیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً مُحال ہے، بخلاف ائمہ واکابر اولیا کہ اللہ عزوجل انہیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً مُحال بھی نہیں۔ انبیاء علیہم السلام شرک وکفر اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کذب وخیانت وجہل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروّت کے خلاف ہیں، قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ قصداً صغائر سے بھی قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت معصوم ہیں "(بہارِ شریعت، ج:1، ص:38-39)۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ امورِ تبلیغیہ میں نبی سے سہو ونسیان اور خطا کا صدور مُحال ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : "خلاصہ" ودیگر کتبِ فتاویٰ میں ہے :جب ایک مسئلے میں کئی وجوہِ کفر ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو کفر کا اطلاق کرنے میں مانع ہوتو مفتی پر لازم ہے کہ مسلمان کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اسی وجہ کی طرف مائل ہو جو کفر کے اطلاق میں مانع ہے، سوائے اس کے کہ جب وہ کفر کا سبب بننے والی وجہ کی تصریح کرے توپھر تاویل اس کو فائدہ نہیں دے گی"(ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:6ص:272)۔

علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں : "اس حوالے سے ظاہر بات یہ ہے کہ جس مسلمان کے کلام کو کسی صحیح مفہوم پرمحمول کرنا ممکن ہو اس کی تکفیر نہ کی جائے یا جس کے کفر میں روایتِ ضعیفہ کی وجہ سے اختلاف ہو، اس کی بھی تکفیر نہ کی جائے۔ پس، اس سبب اکثر کفریہ کلمات (جو ماقبل عبارت میں ) مذکور ہوئے ہیں، ان پر تکفیر نہ کی جائے اور میں نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی فتویٰ نہ دوں " (البحر الرائق، ج:5ص:210)۔  

دانشمندی کا تقاضا ہے کہ آپس کے اختلافات کو بازاروں اور چوراہوں میں نہ لایا جائے، آج کل سوشل میڈیا کی مثال بازار اور چوراہے ہی کی ہے، بلکہ اس سے بھی ہزاردرجے آگے ہے۔ نیز وہ امور جو اہلسنت وجماعت میں مسلّم ہیں، عوام میں انہی کا ابلاغ کیا جائے، اگر کسی مسئلے میں کسی کی رائے جمہور سے جدا ہے تو وہ اُسے کلاس روم تک محدود رکھیں، عوام میں نہ لائیں، اس کا نقصان نفع سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتہائی باصلاحیت شخص جومختلف شعبوں میں معرکہ آراء کام انجام دے سکتا ہے، اس کی صلاحیتیں ان الزامات کے جواب اور جوابی الزامات پر صرف ہوتی ہیں اور بحیثیت مجموعی اہلسنت کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں، مخالف حلقوں کویقینا اس سے تسکین ملتی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ وہ آگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:؎ 

تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے

جس نے کفر کا ارتکاب کیا ہو یا ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کیا ہو یا ضروریاتِ مسلک اہلسنت وجماعت میں سے کسی بات کا انکار کیا ہو یا کوئی علانیہ حرام اور فسق وفجور کا ارتکاب کر رہا ہو، توفقہی اعتبار سے ایسے اشخاص سے اعلانِ برأت ضروری ہوجاتا ہے، لیکن جس کے کسی قول کی تاویل کی جاسکتی ہو یا وہ خود کوئی قابلِ قبول تاویل کر رہا ہو تو زبردستی اس پر کوئی معنی ٹھونسنا مناسب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہم معاصرین کے بارے میں انتہائی سنگ دلی اور قساوتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُن کی گرفت میں حد سے گزر جاتے ہیں ؛حالانکہ وہی یا اس سے ملتا جلتا کوئی قول بعض متقدمین کے ہاں بھی مل جاتا ہے، جو مسلّمہ طور پر ہمارے اکابر میں سے ہیں، پھر یاتوہم اُن کے ایسے اقوال سے صرفِ نظر کرتے ہیں یا حتی الامکان ان کی تاویل کرتے ہیں، ان پر فتویٰ صادر نہیں کرتے۔

مزید یہ کہ ہرشخص دین کا سٹیک ہولڈر بن گیا ہے، بعض لوگ اپنی ناموس پر ناموسِ رسالت کے قانون کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو کسی کے دامِ عقیدت میں گرفتار ہیں، وہ اپنے مرجعِ عقیدت سے اختلافِ رائے کرنے والے کے منصب کو نظر انداز کر کے اس کی توہین، تضحیک اور تحقیر کو اپنا شعار بنالیتے ہیں، بزرگوں کو چاہیے کہ اپنے ایسے عقیدت مندوں کو لگام دیں۔ آج جنہیں ہم اپنے جسدِ ملّی سے کاٹ کر پھینکنا چاہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کل کسی دینی ضرورت یا کسی مسلکی مصلحت کے تحت انہیں قبول کرنا پڑے یا اللہ تعالیٰ ان کے دل میں جمہوراہلسنت کے ساتھ مل کر چلنے کا جذبہ پیدا فرمادے اور ہمیں پھر مل بیٹھنا پڑے تو شرمندگی نہ ہو۔ اسی طرح ہر فریق کو اختلافِ رائے کرتے وقت دوسرے کے علمی مقام اور منصب کی پاسداری کرنی چاہیے، جو علمی احترام ہم اپنے لیے چاہتے ہیں، دوسروں کے لیے بھی ہمیں اس کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ مجھے حیرت اس پر ہے کہ جن بزرگوں نے اعلانِ برا ت کیا ہے، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جو چیز اُن کے نزدیک کسی کی خطا یا لغزش ہے، وہ اصولِ اِفتاء کے اعتبار سے کس درجے کی ہے اور اس پر کیا حکم لگتا ہے۔  

حالیہ ناخوشگوار فضا میں ایک افسوس ناک روش یہ سامنے آئی کہ بعض حضرات نے مسلک کا مخلص اور ہمدرد بن کر بعض ذمے دار اکابر سے بات کی، انہوں نے اپنے انداز سے وضاحت کی اور انہوں نے خیانت کرتے ہوئے اسے ریکارڈ کیااور پھر سوشل میڈیا پر ڈال دیا، رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: "مجلس میں ہونے والی گفتگو امانت ہے، (پس، اُسے بلا اجازت اِفشا نہ کیا جائے )"( ابودائود: 4869)۔

میرے نزدیک موجودہ دور میں کسی کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کوبلااجازت ریکارڈ کر کے افشاکرنا یا سوشل میڈیا پر ڈالنا بھی مجلسی امانت میں خیانت ہے، لہٰذا اس سے لوگوں کو احتراز کرنا چاہیے اور اگر کسی کی بات کو افشاکرنا ہے تو پہلے اس سے اجازت لیں، اگر وہ اجازت دے فبہا، ورنہ امانت کی پاس داری کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ مصلح کے روپ میں آکر نقصان پہنچاتے ہیں، حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے بارے میں شیطان نے اسی شعار کو اختیار کیا تھا، وہ خیرخواہ کے روپ میں اُن کے سامنے نمودار ہوا اور قسمیں کھاکھاکر اپنے اخلاص کی یقین دہانیاں کرانے لگا ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے: "بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"(یوسف:5)۔

پاک وہند کے مسلمانوں کو چند عبارتوں نے ہمیشہ کے لیے تقسیم کردیا، ان کی تاویلیں بیان کرنے میں درجنوں کتابیں لکھی گئیں، لیکن شاید ایسے ہی " خیرخواہ" ان کے اردگرد تھے، جنہوں نے شاید یہ باور کرایا ہوگا کہ اگر آپ ان عبارتوں کو بدل دیں گے تو اسے آپ کی شکست پرمحمول کیا جائے گا، اس سے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔  

 

وضاحت!


’’شعارِ اختلاف ‘‘کے عنوان سے میں نے کالم لکھا، اس کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی ہے ،اس پر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکُّر وامتنان ہوں۔اس کالم کو چھاپنے سے پہلے میں نے ایک سے زائد بار اپنے ثقہ مفتی صاحبان :مفتی محمد وسیم اختر المدنی، شارحِ سنن ابودائودشیخ الحدیث علامہ مفتی احمد علی سعیدی، علامہ مفتی خالد کمال ، شارح جامع ترمذی علامہ مفتی محمد عبداللہ ضیائی اور آخر میں علامہ مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی سے بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے کے لیے کہااور ان سب حضرات نے اس کی تائید وتوثیق کی ۔
چھپنے کے بعد علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری ، علامہ مفتی محمد رفیق حسنی اور علامہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے بھی تائید وتحسین کے کلمات کہے۔ چونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن وسنت کی تعلیمات کے برعکس ’’ظَنِّ سُوْ ء‘‘ کی روایت ہے ، سو بعض حضرات نے اپنی مَن پسند تاویلات کیں کہ کسی کی حمایت مقصود ہے، حَاشَا وَکَلّا! ہمارے خواب وخیال میں بھی ایسا نہیں تھا،ہم نے صرف اصولی بات کی اور اب بھی اس پر شرحِ صدر ہے، اہلسنت کی غالب اکثریت نے کہا: یہ وقت کی ضرورت تھی ۔
البتہ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّۃ ، بَضْعَۃُ الرَّسُوْل،اَلسَّیِّدَۃُ فَاطِمَۃُ الزَّہْرَاء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہم سب کا موقف وہی ہے جو جمہورِ علمائے اہلسنت کا ہے : بفضلہ تعالیٰ وہ ’’مَحْفُوْظَۃٌ عَنِ الْخَطَاء‘‘ہیںاور’’مَبْحُوْث عَنْھَا‘‘ مسئلہ میں خطا کا اطلاق کرنا خود ایک خطا ہے اور جب سید المرسلینﷺ نے فرمادیا: ’’فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِنِّیْ ،فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ، (صحیح البخاری:3714)‘‘،تو اس کے بعد کسی کلام کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
لیکن جس درجے تک ہمارا ایک طبقہ اس مسئلے کو لے جارہا ہے، یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ معرکہ اہل حق اور اہل باطل کے مابین بپا نہیں ہے، اہلسنت کے دو طبقات کے درمیان ہے، ابھی تک کسی نے دوسرے فریق کو مسلک سے خارج نہیں قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے فرمایا: انبیائےکرام علیہم السلام کے لیے قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں جہاں زَلّت اور عتاب کے کلمات ماثور ہوئے ہیں، قرآن وحدیث کا ترجمہ اورتفسیر وشرحِ حدیث کے بیان تک اسے محدود رکھا جائے اور عام خطابات اور تحریروں میں ان کا بیان نہ کیا جائے تاکہ ابتذال نہ ہو۔
بعض علمی اصطلاحات جو متقدمین کی کتب میں مذکور ہیں،ان کا اطلاق ان کے عرف ورواج کے مطابق درست تھا، لیکن آج کے پرفتن دور اور موجودہ حساس صورتِ حال کے مطابق ہی اندازِ بیان اختیار کیا جائے اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو اجتناب بہتر ہے ، حدیث پاک میں ہے: ’’اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ أَیْقَظَہَا‘‘،( ترجمہ:’’فتنہ سورہا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اُسے جگائے )، (فتاویٰ رضویہ،ج:21،ص:253،بحوالہ کَشْفُ الْخِفَاء:1817،رضا فائونڈیشن لاہور)‘‘۔

9جولائی2020ء

 

4.jpg

3.jpg

2.jpg

1.jpg

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...