خیر اندیش مراسلہ: 19 جون Report Share مراسلہ: 19 جون تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت عثمان غنی کی شہادت 18 ذوالحجۃ کو ھوئی۔ سند بھی صحیح اور جمہور کا قول بھی یہی۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت کس تاریخ کو ھوئی؟ اگرچہ اقوال تو زیادہ ہیں مگر دو قول صحیح سند سے ملے ہیں :- ایک قول 12 ذوالحجۃ 35 ھ کا ھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو عثمان النہدی تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ زہری نے اسے "بعض الناس" کا زعم کہا ھے۔ ایک قول 18 ذوالحجۃ 35ھ کا ھے ۔ تاریخ ابوزرعہ دمشقی میں حضرت جبیر بن نفیر تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ طبری نے اس قول کو "جمہور کا قول" کہا ھے۔ یہی قول شعبی تابعی، نافع تابعی، مخرمہ، محمد بن اسحاق ، ابو معشر، مصعب زبیری وغیرہ حضرات سے بھی منقول ھے۔ نیز 18 ذوالحجۃ والے کئی حضرات نے یوم جمعہ بھی ذکر کیا ھے جو زیادہ جاننے پر دلالت کرتا ھے اور جو تقویم کے مطابق ھے۔ ایک تازہ پوسٹ نظر سے گزری جس میں لکھا ہے کہ حضرت عثمان روزے کی حالت میں شہید ہوئے اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج روزہ ہمارے پاس کھولنا اور ظاہر ہے کہ 12 ذوالحجۃ کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا 18ذوالحج کو شہادت عثمان کی روایت بھی صحیح سند سے ملتی ہے ------- جمہور کا قول بھی یہی ہے ------- افطر عندنا اللیلة (آج شام روزہ ہمارے پاس کھولنا) بھی صحیح سند کے ساتھ ہے اور 12ذوالحج روزہ نہیں ہوتا۔ --------- مزید عرض ہے ابو عثمان سے اگر 12ذوالحج کا قول ملتا ہے تو طبری نے اس کے تین ساتھیوں کے ساتھ اس سے 18ذوالحج کی تاریخ روایت کی ہے۔ ===== اور 12ذوالحج کی روایت ابو عثمان تک صحیح ہے مگر ابو عثمان موقع پر چشم دید گواہ تو نہیں لکھا گیا۔ جبکہ آج شام افطار بیان کرنے والے اس دن حضرت عثمان کے ملنے والے لوگ بیان کر رہے ہیں۔ اور اگر کامن سینس اور انصاف ہو تو اتنی بات کافی ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔