خیر اندیش مراسلہ: %s %s بجے Report Share مراسلہ: %s %s بجے تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں کے حاکم تھے اور خیبر کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کے بھی حاکم تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا صرف اور صرف مسلمانوں کے تھے اور یہودیوں عیسائیوں کے حاکم تھے مگر مولا نہیں تھے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی حاکم لینا درست نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سید العالمین اور سید اولاد آدم بتایا مگر حضرت علی کو سید العرب بتایا تو دونوں کے سید اور سردار ہونے کے دائرہ کار بھی برابر نہیں ہیں جبکہ دونوں کا مولا ہونے کا دائرہ کار ایک ہے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی سید / سردار / آقا/master کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔ حضرت علی نے مولا کا معنی دوست محبوب لیا اور حضرت طلحہ سے فرمایا کہ جب میں تمہارا مولا ہوں تو مجھ سے لڑائی کیوں؟ حضرت طلحہ بولے: میں بھول گیا تھا۔ (حاکموں اور سرداروں سے تو لوگ لڑتے رہتے ہیں مگر محبوبوں دوستوں سے تو لڑائی نہیں ہوتی) مستدرك حاكم:- كنا مع علي يوم الجمل فبعث إلى طلحة بن عبيد الله ان القنى فاتاه طلحة فقال نشدتك الله هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من كنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه قال نعم قال فلم تقاتلني قال لم اذكر قال فانصرف طلحة اصول کافی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (حدیث غدیر خم کے بعد) اپنے چچا حضرت عباس کو پیشکش کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے وارث (وصی) بننا چاہتے ہو؟ اگر حدیث من کنت مولاہ سے وارث نامزد ہو چکا ہوتا تو یہ پیشکش نہ کی جاتی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔