Jump to content

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم وفات کس تاریخ کو ہے ؟


خیر اندیش

تجویز کردہ جواب

تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی 
https://www.facebook.com/altaf.khiara

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم وفات کس تاریخ کو ہے ؟
اس میں مختلف اقوال ہیں۔اور ذوالحج کے اخری ایام اور یکم محرم کو ملا کر عشرہ شہادت فاروق اعظم کا نام دیا جا سکتا ہے
بعض شیعہ اب کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کی شہادت میں یکم محرم کا قول کرنا اہل بیت کی مخالفت ہے (معاذ اللہ)
جبکہ ماضی میں جمہور شیعہ کا موقف یہ لکھا ہؤا ملتا ہے کہ حضرت عمر کا قتل نو ربیع الاول کو ہؤا اور اس دن خوشی میں وہ عید شجاع مناتے اور تین دن مرفوع القلم رہتے ہیں۔ اگرچہ ذوالحجۃ کے ایام فاروق میں وہ اپنی خوشی ایک اور عنوان (عید مباہلہ) سے کرتے ہیں جس کی تاریخ بھی صحیح ثابت نہیں کر سکتے۔
حضرت عمر فاروق کے یوم شہادت کے بارے میں مختلف اقوال جو ملتے ہیں تو ان میں اگر چشم دید گواہ (حضرت کعب، حضرت مسور، حضرت عبدالرحمن بن یسار وغیرہ) کے اقوال دیکھیں اور لفظ قتل بمعنی قاتلانہ حملہ کی تاویل ملحوظ رکھیں(مسبب بول کر سبب مراد لینا) تو تطبیق کی جا سکتی ھے۔
یہاں حضرت عبدالرحمن بن یسار کا صحیح سند کے ساتھ چشم دید قول یہ ملتا ہے کہ سورج گرھن لگنے والے آپ کی وفات ہوئی(تاریخ الخلفاء سیوطی ، مجمع الزوائد وغیرہ)
اب ہم گوگل سے پوچھتے ہیں کہ سن 23 ھ میں سورج گرھن کب لگا تھا تو جواب آتا ہے۔ 5 نومبر 644 ء بروز جمعہ سورج گرھن لگا تھا۔
اب گوگل سے مزید سن ہجری کنورٹر کو دیکھتے ہیں تو 5 نومبر 644ء کو (ایک دن کم و بیش کے ساتھ) 28 ذوالحجہ لکھا ہوا ملتا ہے یعنی جمعہ 27,28,29 ذوالحجۃ میں سے کسی ایک دن تھا۔
اگر ذوالحجۃ 29 دن کا ہو تو مغرب کے ساتھ ہی ہفتہ یکم محرم 24 ھ شروع ہو گیا ہوگا۔
اور اگر دونوں سنین کے سنگم کے وقت وفات ہو تو ذوالحجۃ کا آخری اور محرم کا ابتدائی دونوں وقت ہی جمع ہو سکتے ہیں۔
اور جس نے 30 دن کا ذوالحجۃ سمجھا اس نے قاتلانہ حملہ کے بعد چار دن زندہ رہنے کا قول کیا اور
جس نے 29 دن کا ذوالحجۃ سمجھا تو اس نے تین دن ژندہ رہنے کی بات کی اور
26 ذوالحجۃ بدھ کو قاتلانہ حملہ ھوا ۔بدھ،جمعرات اور جمعہ کو تین دن گزرنے پر مغرب کے وقت چوتھا دن شروع۔ تو مذکورہ بالا گزارشات کے مطابق اگر کوئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت یکم محرم 24 ھ کا قول کرتا ہے تو اس قول کی علمی طور پر گنجائش موجود ہے۔ اور کربلا کا جانگداز واقعہ اس کے 37 سال بعد پیش آیا تھا تو 37 سال پہلے کی تاریخوں میں موت فوت پر پابندی لگانا کسی کے بس کی بات تو نہیں تھی۔
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...