Search the Community
Showing results for tags 'امام یحییٰ بن معین'.
-
امام ابن معین الحنفی اور امام احمد بن حنبل کے درمیان امام ابو حنیفہ و امام شافعی کی وجہ سے چپکش کا پس منظر بقلم اسد الطحاوی الحنفی البریلوی! أخبرنا أبو طالب عمر بن إبراهيم، قال: حدثنا محمد بن خلف بن جيان الخلال، قال: حدثني عمر بن الحسن، عن أبي القاسم بن منيع، قال: حدثني صالح بن أحمد بن حنبل، قال: مشى أبي مع بغلة الشافعي، فبعث إليه يحيى بن معين، فقال له: يا أبا عبد الله، أما رضيت إلا أن تمشي مع بغلته؟ فقال: يا أبا زكريا لو مشيت من الجانب الآخر كان أنفع لك. (تاریخ بغداد ، سند صحیح ) صالح بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل کو امام شافعی کی سواری کے ساتھ جاتے ہوئے یحییٰ ابن معین نے دیکھا تو اُن کے پاس کہلا بھیجا کہ ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل کی کنیت ہے) آپ شافعی کی سواری کے ساتھ چلنے کو پسند کرتے ہیں؟ والد نے اُس کے جواب میں کہا کہ ابو زکریا! (یحییٰ ابن معین کی کنیت ہے) اگر آپ اُس کے بائیں جانب چلتے تو زیادہ فائدہ میں رہتے۔ اس واقعے کو امام القاضی عیاض مالکی نے بھی صالح بن احمد سے ان الفاظ سے نقل کیا ہے وقال ابن معين لصالح بن أحمد ابن حنبل: أما يستحي أبوك رأيته مع الشافعي، والشافعي راكب وهو راجل، ورأيته قد أخذ بركابه. قال صالح فقلت لأبي فقال لي: قل له إن أردت أن تتفقه، (الكتاب: ترتيب المدارك وتقريب المسالك ، المؤلف: أبو الفضل القاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى: 544هـ) قیام بغداد میں آپ کے مشہور تلامذہ میں سے ایک احمد بن حنبل (متوفی 241ھ) ہیں۔ ایک مرتبہ یحییٰ ابن معین نے احمد بن حنبل کے صاحبزادے صال بن احمد سے کہا کہ آپ کے والد کو شرم نہیں آتی ہے؟ میں نے اُن کو شافعی کے ساتھ اِس حال میں دیکھا ہے کہ شافعی سواری پر چل رہے ہیں اور آپ کے والد رکاب تھامے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔ صالح بن احمد نے یہ بات اپنے والد احمد بن حنبل سے بیان کی تو اُنہوں نے کہا کہ اُن سے کہہ دو کہ اگر آپ فقیہ بننا چاہتے ہیں تو شافعی کی سواری کی دوسری رکاب کو آپ تھام لیں تاریخ بغداد کی روایت کی سند کی تحقیق! سند کا پہلا راوی ابو طالب عمر بن ابراھیم: 3979- الزهري الفقيه العلامة، أبو طالب؛ عمر بن إبراهيم بن سعيد، الزهري الوقاصي، من ذرية صاحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سعد بن أبي وقاص، بغدادي من كبار الشافعية ببغداد، ويعرف بابن حمامة. مولده في سنة سبع وأربعين وثلاث مائة. كتب عن: أبي بكر القطيعي، وابن ماسي، وعيسى بن محمد الرخجي، وعدة. روى عنه: الخطيب ووثقه. توفي سنة أربع وثلاثين وأربع مائة. (سیر اعلام النبلاء) سند کا دوسرا راوی : محمد بن خلف 749- محمد بن خلف بن محمد بن جيان بالجيم بن الطيب بن زرعة أبو بكر الفقيه المقرئ الخلال سمع: عمر بن أيوب السقطي، وقاسم بن زكريا المطرز، وعبد العزيز بن محمد بن دينار الفارسي، وعلي بن إسحاق بن زاطيا، وأحمد بن سهل الأشناني، وأبا بكر بن المجدر، ومحمد بن يحيى العمي، وحامد بن شعيب البلخي، ومحمد بن بابشاذ البصري، وكان ثقة، سكن بستان أم جعفر. (تاریخ بغداد) سند کا تیسرا راوی : محمد بن عمر الحسن ابو عاصم 5908- عمر بن الحسن بن علي بن الجعد بن عبيد أبو عاصم الجوهري، وهو أخو سليمان، وعلي حدث، عن زيد بن أخزم، وأبي الأشعث العجلي، ويحيى بن محمد بن السكن البزار، وعباس الدوري. روى عنه أبو بكر بن شاذان، وابن شاهين، والمعافى بن زكريا، وابن الثلاج، وكان ثقة. 1466 - نَا عمرَان بن الْحسن بن عَليّ بن مَالك قَالَ سَأَلت مُوسَى بن هَارُون الْبَزَّاز عَن أبي الْقَاسِم بن منيع فَقَالَ ثِقَة صَدُوق (الثقات لا ابن شاھین) سند کا چوتھا راوی زہیر بن صالح جو کہ بیٹے ہیں امام احمد بن حنبل ؒ کے 138 - زهير بن صالح بن أحمد بن حنبل. [المتوفى: 303 هـ] عن: أبيه. وعنه: ابن أخيه محمد بن أحمد، وأبو بكر الخلال، وأبو بكر النجاد. وهو ثقة. (تاریخ الاسلام) اس واقعے کا پس منظر امام یحییٰ ابن معین ؒ اور امام احمد بن حنبل بہت اچھے دوست تھے اور امام احمد امام ابن معین سے احادیث بھی روایت کرتے تھے یعنی ایک طرح سے احمد بن معین شیخ بھی تھے امام احمد کے اور دوست بھی لیکن امام احمد بن حنبل جو کہ پہلے امام ابو یوسفؒ سے فقہ و علم حدیث سیکھتے تھے پھر انکا رجھان امام شافعی کی طرف ہوا یہ بات امام ابن معینؒ الحنفی کو اچھی نہیں لگتی تھی اور امام ابن معین امام ابو حنیفہ پر ناز کرتے انکے اجتیہاد پر مثالیں دیتے امام ابن معین کا امام ابو حنیفہ پر فخر کرنے کا یہ عالم تھا کہ جب امام شعبہ امام ابو حنیفہ ؒ کو خط لکھتے اور احادیث اور احکامات (فقہ) کے لیے امام شعبہ کی امام ابو حنیفہؒ سے عر ض کرتے ہوئے پڑھتے تو فخریہ انداز میں کہتے کہ یہ امام شعبہ (جو علم رجال کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے ) جو امام ابو حنیفہ کو خط لکھتے ہیں اور ان سے احادیث اور مسائل کا حکم کے لیے عرض کرتے ہیں اور پھر شعبہ ؒ تو پھر شعبہ ہیں (یعنی رجال کی محارت پھر امام شعبہ پر ختم ہو جاتی ہے) اور اسی طرح دوسری طرف امام احمد بن حنبل تھے جو امام شافعی کی طرف رجھان رکھتے تھے اور انکے فضائل و مناقب بیان کرتے اور جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے امام ابن معین اور امام احمد کے درمیان فقہ حنفی و شافعی کی چپکلش کی وجہ سے امام احمد کی زبان سے امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے بارے مذمت کے کچھ الفاظ ملتے ہیں لیکن امام احمد بن حنبل نے ان سب باتوں سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ ایک وقت میں انکا موقف تھا کہ امام ابو یوسف سے بیان نہ کیا جائے کیونکہ وہ ابو حنیفہ کی رائے پر عمل کرتے ہیں لیکن وہ صدوق ہیں لیکن پھر اس قول کے مخالف امام احمد نے اپنی مسند مین امام ابو حنیفہ سے روایت بیان کی ہے یعنی اگر کوئی پڑھنے والا امام احمد کے اس اعتراض کو پڑھے تو صاف جان جائے کہ یہاں امام احمد بن حنبل جو کہ امام ابو یوسف کو ثقہ جانتے ہوئے بھی فقط اس تعصب کی وجہ سے اسکی روایت کو بیان کرنے سے روکا کہ وہ اما م اعظم کی فقہ پر عمل پیرہ ہیں جو کے امام شافعی کی فقہ سے بالکل مختلف تھی یہی حسد تعصب جو امام احمد بن حنبل میں پایا جاتا تھا جسکی نشاندہی امام ابن معین نے کی اور امام احمد اور انکے ساتھ چند اور عداوت رکھنے والے حاسد و متعصب محدثین نے جب امام ابو حنیفہ اور صاحبین پر ہاتھ صاف کیا تو امام ابن معین دفاع میں نکل آئے اور انہوں نے اپنی جماعت محدثین کو مخاطب کر کے کہا کہ : ہمارے ساتھی (یعنی محدثین کی جماعت) امام ابو حنیفہ ، اور صاحبین پر بے وجہ ، نا حق جرح کر کے حد سے تجاوز کرتے ہیں یعنی امام ابن معین نے امام ابو حنیفہ و صاحبین کا کو ان سب جروحات سے پاک قرار دیا جو کہ تعصب میں ان پر کی جاتی تھی جیسا کہ اما م ابن عبدالبر نے یہ تصریح کی ہے کہ امام ابن معین ابو حنیفہ و صاحبین کی تعدیل اور انکی تعریف کرتے لیکن اہل حدیث یعنی محدثین کی ایک جماعت اما م ابو حنیفہ اور صاحبین سے حسد بغض اور عداوت کی وجہ سے جرح کرتی ہے (الاتنقاءفی فضائل الثلاثہ) یہی وجہ ہے کہ امام ابن معین نے پھر امام احمد بن حنبل کو انکی زبان میں سبق سیکھایا کہ امام شافعی جنکو امام ابن معین بھی ثقہ و محدث حافظ مانتے تھے لیکن جب انہوں نے امام احمد کو امام شافعی کی سواری کی رکاب پکڑے پیدل چلتے دیکھا تو کہا : کیاتم یہ پسند کرتے ہو ؟ کہ امام شافعی کی رکاب پکڑ کر اب پیدل چلو گے ؟ اور یہ پیغام امام ابن معین کا امام احمد کو فقیہ ابو حنیفہ اور صاحبین پر اعتراض کی وجہ سے کہاگیا جسکی تائید امام احمد بن حنبل کے جواب سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ امام احمد نے یہ پیغام سننے کے بعد یہ جواب دیا : لو مشيت من الجانب الآخر كان أنفع لك. یعنی امام احمد ابن معین کو فرماتے ہیں : اگر آپ اُس کے بائیں جانب چلتے تو زیادہ فائدہ میں رہتے۔ یعنی امام احمد کے بقول امام ابن معین چونکہ امام شافعی کی فقہ اور انکے اجتیہاد پر شدید جرح کرتے ہیں اس لیے امام احمد انکو جواب دیتے ہیں کہ اگر آپ امام شافعی کی طرف ہوتے تو زیادہ فائدہ مند ہوتے ۔۔ یعنی بقول امام احمد امام شافعی کی طرف نہ ہو کر کم فائدہ مند ہیں ؟ اور اسکی وجہ یہی ہے کہ امام ابن معین امام ابو حنیفہ کے مداح و ثنا کرنے والے تھے اس طرح ایسی اور کئی باتیں ہیں جنکی وجہ سے امام ذھبیؒ جو خود شافعی مسلک کے امام ہیں انکو یہ بات لکھنی پٖڑی کہ امام ابن معین جو کہ محدث تھے لیکن غالی حنفی تھے اور دوسری جگہ فرمایا کہ فروع میں حنفی مقلد تھے اور امام ذھبی کو امام شافعی کو الضعفاء میں د رج کیا اور امام ابن معین سے اما م شافعی کے بارے لکھا کہ وہ انکے بارے بری رائے رکھتے تھے اور غالی حنفی امام ذھبی نے اس وجہ سے قرار دیا کہ وہ امام شافعی جیسے فقیہ کو بھی انکے اجتیہاد(مخالف امام ابو حنیفہ کی وجہ سے ) ایسی جرح کرتے کہ سوائے غالی حنفی اور کوئی نہیں کر سکتا لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ امام احمد نے رجھان امام شافعی کی طرف رکھنے کے باوجود بھی اپنی فقہ اور اسکے اصول امام احمد نہ اپنا سکے بلکہ امام محمد و امام ابو یوسف جنہوں نے اما م ابو حنیفہ کے اصول اور انکی فقہ کو پروان چڑھایا اسی کی پیروی کی اور اس طرح بقول ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل کے اقوال کے سب سے زیادہ قریب ترین کوئی فقہ ہے تو وہ فقہ حنفی ہے یعنی امام ابو حنیفہ کے اصول اور اجتیہاد کے قریب کسی کے فتوے ہیں مجتہد ہوتے ہوئے تو وہ امام احمد بن حنبل ہیں دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی !
-
- 1
-
- abu hanifa
- imam abu hanifa
- (and 8 more)