Jump to content

محبت غوثِ اعظم اور امام احمد رضا


NAJAMMIRANI

تجویز کردہ جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

امام احمد رضا کے عشق کی کہانی بڑی نرالی ہے۔ جس پر لکھتے چلے جایئے، نئے نئے اندازِ عشق و محبت نظر آئیں گے۔ اور کیوں نہ ہو کہ انہوں نے قرآن و احادیث سے درسِ محبت و الفت سیکھا ہے۔ صحابہ کرام کے مبارک گوشوں سے اپنی فکر کو تازگی بخشی اور تصورات و خیالات کو نئی زندگی بخشی۔ اسی لیے آج بڑی بڑی شخصیتیں ان کے عشق و ادب کی داد دے رہی ہیں۔

عاشقِ صادق تو وہی ہوتے ہیں جو صرف محبوب سے ہی محبت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان سے منسوب ہر چیز کو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ محبوب کے کوچہ و بازار، محبوب کے خاندان والوں سے بھی محبت و عشق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میرے رضا کا شمار بھی انہی عشاق و محبین میں ہوتا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو عقیدت و محبت کی مثالیں پیش کیں انہیں پڑھ کر اور سن کر ایمان و یقین کی پختگی کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے یہ اشعار بہترین دلیل ہیں

 

اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ

ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

 

نورِ الٰہ کیا ہے محبت حبیب کی

جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے

(حدائقِ بخشش)

 

اور اہلِ بیت مصطفی سے امام موصوف نے جو محبت و عشق کیا وہ بھی معاصرین میں انہیں ممتاز کرتا ہے۔ آلِ مصطفی سے اپنی قلبی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”یہ فقیر بحمدہ تعالیٰ حضرات سادات کرام کا ادنیٰ خادم و خاکپا ہے ان کی محبت و عظمت ذریعہئ نجات و شفاعت جانتا ہے۔” [١]

 

محبت مصطفی و آلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں مثالیں امام احمد رضا کی تصانیف اور ان کے منظوم کلام میں دیکھی جاسکتی ہیں نیز نوجوان محقق و مصنف سید صابر حسین شاہ بخاری (پاکستان) کی تصنیف ”احترامِ سادات اور فاضلِ بریلوی” اس سلسلے میں بہت خوب ہے۔ سرِ دست شہزادہئ رسول حضور پیرانِ پیر سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی المعروف غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کی عقیدت و محبت کے کچھ نمونے ہدیہ قارئین کررہا ہوں کہ یہ پہلو بھی ابھی تشنہ تحریر ہے۔

 

محبت حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رضا کے قلب و جگر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ کی مجلس میں سرکار غوثیت مآب کا تذکرہ بڑے ادب و احترام کے ساتھ کیا جاتا جس سے محبت و الفت کے سوتے پھوٹتے نظر آتے۔ تادمِ زیست آپ نے بغداد شریف کی طرف پاؤں پھیلانا گوارا نہ کیا۔ حضور غوثِ اعظم کی نگاہ کرم بھی آپ پر خوب رہی۔ عنایات و نوازشاتِ غوثِ پاک سے آپ کو وافر حصہ ملا۔ یہاں تک کہ سرکار پیرانِ پیر نے امام احمد رضا کو اپنا نائب فرمایا۔ اس سلسلہ میں مشائخ کرام سے کئی ایک واقعات منقول ہیں۔ عارف باللہ شیخِ وقت حضرت شیر محمد میاں صاحب شرقپوری قدس سرہ، العزیز ایک بار عالمِ خواب میں حضرت غوث الوریٰ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت شرقپوری نے سوال کیا کہ حضرت! اس وقت دنیا میں آپ کا نائب کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ”بریلی میں احمد رضا”۔ [٢]

 

اور مفتی محمد غلام سرور قادری (ایم۔اے) لکھتے ہیں:

 

”حضور مولانا پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری نقشبندی رضی اللہ عنہ کو خواب میں حضور پرنور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو آپ کو سرکار نے فرمایا کہ: ”ہندوستان میں میرے نائب مولانا احمد رضا بریلوی ہیں۔” چنانچہ حضرت میاں شیر محمد صاحب (شرقپوری) اور حضرت محدث علی پوری کو اعلیٰ حضرت سے اس خواب کے بعد اور زیادہ عقیدت ہوگئی۔ آپ بریلی شریف میں حاضر ہوئے، اعلیٰ حضرت بریلوی کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا اور خواب بھی بیان کیا۔” [٣]

 

امام احمد رضا کو سرکار بغداد سے جو قلبی لگاؤ اور وابستگی تھی وہ اپنے اور بعد کے زمانے کے عشاقِ غوثِ اعظم میں ان کو ممتاز کرتی ہے۔ زندگی بھر غلامی غوث پر فخر کرتے رہے اور ان کی غلامی کا پٹہ گلے کا ہار بنائے رکھا۔ یہ آپ کی بے مثال و بے نظیر وابستگی و شیفتگی کا ہی نتیجہ ہے کہ خود فرماتے ہیں: ”ایک بار میں نے دیکھا کہ حضرت والد ماجد کے ساتھ ایک بہت نفیس اور اونچی سواری ہے۔ حضرت والد ماجد نے کمر پکڑ کر سوار کیا اور فرمایا گیارہ درجے تک تو ہم نے پہونچا دیا، آگے اللہ مالک ہے۔ میرے خیال میں اس سے سرکارِ غوثیت رضی اللہ عنہ کی غلامی مراد ہے۔” [٤]

 

امام احمد رضا کے نہاں خانہ دل میں عشقِ غوثیت مآب کی جو قندیل روشن تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے مشہور ادیب و ناقد نیاز فتحپوری لکھتے ہیں: ”مولانا حسرت موہانی اور مولانا بریلوی میں ایک شئے قدرِ مشترک تھی اور وہ ہے غوث الاعظم کی ذات والا صفات جس سے دونوں کی گہری وابستگی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کی زبان سے اکثر میں نے مولانا بریلوی کا یہ شعر سنا ہے

 

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

 

نسبتِ قادریت کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباس بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ مولانا محمد احمد مصباحی، صدر المدرسین، جامعہ اشرفیہ، مبارکپور لکھتے ہیں: ”نسبتِ قادری اور غیرتِ عشق کا اثر بھی امام احمد رضا پر ویسا ہی تھا جو اکابر اولیا کو اپنے شیوخ کی بارگاہوں میں ہوتا ہے۔ ایک بار عرض کیا گیا، حضور سیدی احمد زروق رضی اللہ عنہ (جو بزرگوں میں ہیں) نے فرمایا، جب کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو یازروق کہہ کر نداء کرے، میں فوراً اس کی مدد کروں گا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا، مگر میں نے کبھی اس قسم کی مدد طلب نہ کی، جب کبھی میں نے استعانت کی، ”یاغوث” ہی کہا۔ یک در گیر محکم گیر۔” [٥]

 

مرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں

ہاں اصل ایک نوا سنج رہے گا تیرا

(حدائقِ بخشش)

 

امام احمد رضا نے جس طرح محبتِ رسول کے ساتھ متعلقاتِ رسول سے محبت کی اسی طرح محبتِ غوثیت کے ساتھ منسوباتِ غوثِ اعظم سے بھی الفت و محبت کی مثالیں پیش فرمائی ہیں۔ اس کی عمدہ اور نفیس مثال دیکھنی ہو تو خلیفہ اعلیٰ حضرت محدثِ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہما کا یہ واقعہ پڑھئے۔ فرماتے ہیں: ”دوسرے دن کارِ افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی، اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھاکر اور شیرینی رکھ کر فاتحہئ غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔ اچانک اعلیٰ حضرت پلنگ سے اٹھ پڑے۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے کہ شاید کسی شدید حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے۔ لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہورہا ہے۔دیکھا تو دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گرگیا تھا اور اعلیٰ حضرت اس ذرہ کو نوکِ زبان سے اٹھارہے ہیں اور پھر اپنی نشست گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے۔ اس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکار غوثیت مآب کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہ غوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرّے کے تبرک ہوجانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔” [٦]

 

ایسی محبت و عقیدت اسی کے قلب و جگر میں پیوست ہوسکتی ہے جو دل و جان سے سرکار بغداد رضی اللہ عنہ کی عظمت شان اور بلندی درجات کا معترف ہو۔ اب آیئے امام احمد رضا کے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش سے وہ اشعار ملاحظہ کریں جن سے غوث اعظم سے والہانہ عقیدت و الفت کا اظہار ہوتا ہے۔

 

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد

ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا

اے رضا یوں نہ بلک تو نہیں جید تو نہ ہو

سید جید ہر دہر ہے مولا تیرا

(حدائقِ بخشش)

 

امام احمد رضا نے کئی ایک منقبتیں بارگاہِ غوثیت میں عرض کی ہیں جن میں آپ کی فضیلت مطلقہ اور اوصاف و کمالات کا خوب خوب ذکر کیا گیا ہے۔ اس خصوص میں مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے

 

جسے عرشِ دوم کہتے ہیں افلاک

وہ تیری کرسی منزل ہے یا غوث

تیری عزت تیری رفعت تیرا فضل

بفضلہ افضل و فاضل ہے یا غوث

 

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبد القادر

سرِّ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر

مفتیئ شرع بھی ہے قاضی ملت بھی ہے

علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر

(حدائقِ بخشش)

 

متعلقات و منسوباتِ غوثِ اعظم سے عقیدت و احترام پر مشتمل مندرجہ ذیل اشعار پڑھئے اور عشق کی انگڑائی دیکھتے جایئے

 

تجھ سے در، در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے

حشر تک میرے گلے میں رہے پٹّہ تیرا

(حدائقِ بخشش)

 

امام احمد رضا کا عقیدہ تھا کہ اللہ کے مقرب بندے ہماری فریاد سنتے ہیں اور مدد فرماتے ہیں اور بہت کچھ عطا بھی کرتے ہیں اسی لیے وہ بارگاہِ غوث میں عرض گزار ہیں

 

کہا تُو نے کہ جو مانگو ملے گا

رضا تجھ سے تِرا سائل ہے یا غوث

تو قوت دے میں تنہا کام بسیار

بدن کمزور دل قائل ہے یا غوث

(حدائقِ بخشش)

 

غوثِ اعظم کی شان میں امام احمد رضا نے متعدد اشعار کہے جنہیں پڑھ کر مشام جاں معطر ہوجاتا ہے۔ حدائقِ بخشش (جلد دوم) میں تو آپ نے پورے حروف الہجاء کی ترتیب سے رباعیات لکھیں جن میں عظمت و محبت شاہِ جیلاں کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں

 

ردیف الباء:

 

در حشر گہ جناب عبد القادر

چوں نشر کنی کتاب عبد القادر

از قادریاں مجو جداگانہ حساب

مدّے شمر از حساب عبد القادر

 

ردیف الخاء:

 

اے ظلّ الٰہ شیخ عبد القادر

اے بندہ پناہ شیخ عبد القادر

محتاج و گدائم و تو ذوالتاج و کریم

شیأا للہ شیخ عبد القادر

(حدائقِ بخشش)

 

امام احمد رضا کے اس شعر پر میں اپنی گفتگو ختم کررہا ہوں

 

رضا کے سامنے کی تاب کس میں

فلک وار اس پہ تیرا ظل ہے یا غوث

 

حوالہ جات

 

فتاویٰ رضویہ شریف، امام احمد رضا محدثِ بریلوی

امام احمد رضا اور ردِّ بدعات و منکرات: مولانا یٰسین اختر مصباحی، ص:١٤٧

الشاہ احمد رضا، مفتی غلام سرور قادری، ص:١٣٦

الملفوظ، امام احمد رضا، ج:٣، بحوالہ، رد بدعات و منکرات، ص:١٤٦

امام احمد رضا اور تصوف، مولانا محمد احمد مصباحی، ص:٩١

خطبہ صدارت، بحوالہ امام احمد رضا اور ردِّ بدعات و منکرات، یٰسین اختر مصباحی، ص:١٤٧، ١٤٨

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...