
خیر اندیش
اراکین-
کل پوسٹس
166 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
2
سب کچھ خیر اندیش نے پوسٹ کیا
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara ابوبکر ، عمر ، عثمان بھی کربلا میں شہید ہوئے۔ یہ اہل بیت میں سے ہیں۔ یہ نام رکھنا بھی اہل بیت کی سنت ہے۔ ان ناموں پر لعنت بھیجنے والے حق پر نہیں ہو سکتے۔ حضرت علی کے دو بیٹے عمر تھے۔ بڑے عمر کا نام ہی حضرت عمر نے رکھا تھا اور چھوٹے کا نام حضرت علی نے خود عمر رکھا جو کہ حضرت عمر کی وفات کے دن پیدا ہوا تھا۔ (ایسے ہی 45ھ میں حضرت عبداللہ بن جعفر طیار کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت معاویہ کی فرمائش پر آپ نے معاویہ رکھا). شیخین کے ناموں کی طرح حضرت عثمان کے نام پر حضرت علی نے اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا جس کے متعلق مقاتل الطالبیین کے مصنف نے حضرت عثمان کو کافر کہتے ہوئے حضرت عثمان بن مظعون کو وجہ تسمیہ بتایا۔ یہ وجہ تسمیہ معروف عثمان کو کافر قرار دینے کے ساتھ بتائی گئی۔ تکفیر کا قول جھوٹ ہونے کے ساتھ یہ ساری وجہ جھوٹ بن جاتی ہے۔ پھر مقاتل الطالبیین کے مصنف نے اپنی دوسری کتاب الاغانی میں جو جھوٹ حضرت سکینہ بنت الحسین کے متعلق بولے ہیں تو کیا شیعہ ان میں بھی اسے معتبر مانتے ہیں؟ یقیناً نہیں مانتے۔ پس وہ غیر معتبر ہے تو اس کے قول سے وجہ تسمیہ کو معروف سے نہیں پھیرا جا سکتا اور نہ ہی معروف عثمان کی تکفیر کی جا سکتی ہے۔ یہ نام تبرے کے تو لائق ہی نہیں تھے یہ نام اماموں نے بچوں کے رکھے ہیں
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم وفات کس تاریخ کو ہے ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔اور ذوالحج کے اخری ایام اور یکم محرم کو ملا کر عشرہ شہادت فاروق اعظم کا نام دیا جا سکتا ہے بعض شیعہ اب کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کی شہادت میں یکم محرم کا قول کرنا اہل بیت کی مخالفت ہے (معاذ اللہ) جبکہ ماضی میں جمہور شیعہ کا موقف یہ لکھا ہؤا ملتا ہے کہ حضرت عمر کا قتل نو ربیع الاول کو ہؤا اور اس دن خوشی میں وہ عید شجاع مناتے اور تین دن مرفوع القلم رہتے ہیں۔ اگرچہ ذوالحجۃ کے ایام فاروق میں وہ اپنی خوشی ایک اور عنوان (عید مباہلہ) سے کرتے ہیں جس کی تاریخ بھی صحیح ثابت نہیں کر سکتے۔ حضرت عمر فاروق کے یوم شہادت کے بارے میں مختلف اقوال جو ملتے ہیں تو ان میں اگر چشم دید گواہ (حضرت کعب، حضرت مسور، حضرت عبدالرحمن بن یسار وغیرہ) کے اقوال دیکھیں اور لفظ قتل بمعنی قاتلانہ حملہ کی تاویل ملحوظ رکھیں(مسبب بول کر سبب مراد لینا) تو تطبیق کی جا سکتی ھے۔ یہاں حضرت عبدالرحمن بن یسار کا صحیح سند کے ساتھ چشم دید قول یہ ملتا ہے کہ سورج گرھن لگنے والے آپ کی وفات ہوئی(تاریخ الخلفاء سیوطی ، مجمع الزوائد وغیرہ) اب ہم گوگل سے پوچھتے ہیں کہ سن 23 ھ میں سورج گرھن کب لگا تھا تو جواب آتا ہے۔ 5 نومبر 644 ء بروز جمعہ سورج گرھن لگا تھا۔ اب گوگل سے مزید سن ہجری کنورٹر کو دیکھتے ہیں تو 5 نومبر 644ء کو (ایک دن کم و بیش کے ساتھ) 28 ذوالحجہ لکھا ہوا ملتا ہے یعنی جمعہ 27,28,29 ذوالحجۃ میں سے کسی ایک دن تھا۔ اگر ذوالحجۃ 29 دن کا ہو تو مغرب کے ساتھ ہی ہفتہ یکم محرم 24 ھ شروع ہو گیا ہوگا۔ اور اگر دونوں سنین کے سنگم کے وقت وفات ہو تو ذوالحجۃ کا آخری اور محرم کا ابتدائی دونوں وقت ہی جمع ہو سکتے ہیں۔ اور جس نے 30 دن کا ذوالحجۃ سمجھا اس نے قاتلانہ حملہ کے بعد چار دن زندہ رہنے کا قول کیا اور جس نے 29 دن کا ذوالحجۃ سمجھا تو اس نے تین دن ژندہ رہنے کی بات کی اور 26 ذوالحجۃ بدھ کو قاتلانہ حملہ ھوا ۔بدھ،جمعرات اور جمعہ کو تین دن گزرنے پر مغرب کے وقت چوتھا دن شروع۔ تو مذکورہ بالا گزارشات کے مطابق اگر کوئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت یکم محرم 24 ھ کا قول کرتا ہے تو اس قول کی علمی طور پر گنجائش موجود ہے۔ اور کربلا کا جانگداز واقعہ اس کے 37 سال بعد پیش آیا تھا تو 37 سال پہلے کی تاریخوں میں موت فوت پر پابندی لگانا کسی کے بس کی بات تو نہیں تھی۔
-
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara جب تک برصغیر میں انگریز کا راج تھا تو اس دور میں ایک کتاب "تحفةالعوام" چھاپی گئی اور اس میں بتایا گیا کہ امام زمانہ کے بغیر کوئی جہاد نہیں ہے۔ انگریزی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی یہ مسئلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ رہ گیا کافروں کو قتل کرنے کا جذبہ اور ثواب تو اسے "انوار نعمانیہ" نامی کتاب میں چھپی ہوئی حدیث سے ژندہ رکھا گیا کہ جو بھی اپنی (دائمی / موقتہ) عورت سے جماع کرتا ہے تو اسے کافر مارنے کا ثواب ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کافر مارنے اور غازی بننے کا کام جب اتنا آسان ہو جائے تو غازی بن کر غازی کا علم لگانے سے کون گریز کر سکتا ہے۔ امام کے بغیر جہاد نہ ہونے کی پرانی سوچ اور جہاد کئے بغیر کافر مارنے کے ثواب لینے کی باتیں ملاحظہ فرمائیں
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara شیعہ حضرات کی روایات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت علی کی مولائیت مشتہر کرنا چاہتا تھا مگر ان کی (بلا فصل) حکومت نہیں چاہتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ وہی ہوتا ہے جو رب چاہے۔ ==========(1)========= نبی پاک حریص برائے امارت علی مگر اللہ تعالیٰ مانع ھے۔۔ ------------------ التفسير الصافي - الفيض الكاشاني - ج ١ - الصفحة ٣٧٩ (128) ليس لك من الأمر شئ العياشي عن الباقر (عليه السلام) ..... أن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) كان حريصا على أن يكون علي (عليه السلام) من بعده على الناس وكان عند الله خلاف ما أراد فقال له ليس لك من الأمر شئ يا محمد في علي الأمر إلي في علي وفي غيره =========2======== اللہ تعالیٰ مولائیت علی مشتہر کرنا چاہتا ہے مگر نبی پاک گریزاں رھے۔ ------------------ التفسير الصافي - الفيض الكاشاني - ج ٢ - الصفحة ٥١ (67) يا أيها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك يعني في علي صلوات الله عليه فعنهم (عليهم السلام) كذا نزلت وإن لم تفعل فما بلغت رسالته إن تركت تبليغ ما انزل إليك في ولاية علي (عليه السلام) وكتمته كنت كأنك لم تبلغ شيئا من رسالات ربك في استحقاق العقوبة وقرء رسالته على التوحيد والله يعصمك من الناس يمنعك من أن ينالوك بسوء إن الله لا يهدى القوم الكافرين ------------- في الجوامع عن ابن عباس وجابر بن عبد الله رضي الله عنه إن الله تعالى أمر نبيه (صلى الله عليه وآله) ان ينصب عليا عليه الصلاة والسلام للناس ويخبرهم بولايته فتخوف أن يقولوا حامى ابن عمه وأن يشق ذلك على جماعة من أصحابه فنزلت هذه الآية فأخذ بيده يوم غدير خم وقال (صلى الله عليه وآله) من كنت مولاه فعلي مولاه
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara عید غدیر کے تین دن 18,19,20 ذوالحجۃ کو مومنین و مومنات کے گناہ نہیں لکھے جاتے جو چاہیں کریں۔ موجاں ای موجاں
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں کے حاکم تھے اور خیبر کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کے بھی حاکم تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا صرف اور صرف مسلمانوں کے تھے اور یہودیوں عیسائیوں کے حاکم تھے مگر مولا نہیں تھے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی حاکم لینا درست نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سید العالمین اور سید اولاد آدم بتایا مگر حضرت علی کو سید العرب بتایا تو دونوں کے سید اور سردار ہونے کے دائرہ کار بھی برابر نہیں ہیں جبکہ دونوں کا مولا ہونے کا دائرہ کار ایک ہے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی سید / سردار / آقا/master کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔ حضرت علی نے مولا کا معنی دوست محبوب لیا اور حضرت طلحہ سے فرمایا کہ جب میں تمہارا مولا ہوں تو مجھ سے لڑائی کیوں؟ حضرت طلحہ بولے: میں بھول گیا تھا۔ (حاکموں اور سرداروں سے تو لوگ لڑتے رہتے ہیں مگر محبوبوں دوستوں سے تو لڑائی نہیں ہوتی) مستدرك حاكم:- كنا مع علي يوم الجمل فبعث إلى طلحة بن عبيد الله ان القنى فاتاه طلحة فقال نشدتك الله هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من كنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه قال نعم قال فلم تقاتلني قال لم اذكر قال فانصرف طلحة اصول کافی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (حدیث غدیر خم کے بعد) اپنے چچا حضرت عباس کو پیشکش کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے وارث (وصی) بننا چاہتے ہو؟ اگر حدیث من کنت مولاہ سے وارث نامزد ہو چکا ہوتا تو یہ پیشکش نہ کی جاتی
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت عثمان غنی کی شہادت 18 ذوالحجۃ کو ھوئی۔ سند بھی صحیح اور جمہور کا قول بھی یہی۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت کس تاریخ کو ھوئی؟ اگرچہ اقوال تو زیادہ ہیں مگر دو قول صحیح سند سے ملے ہیں :- ایک قول 12 ذوالحجۃ 35 ھ کا ھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو عثمان النہدی تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ زہری نے اسے "بعض الناس" کا زعم کہا ھے۔ ایک قول 18 ذوالحجۃ 35ھ کا ھے ۔ تاریخ ابوزرعہ دمشقی میں حضرت جبیر بن نفیر تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ طبری نے اس قول کو "جمہور کا قول" کہا ھے۔ یہی قول شعبی تابعی، نافع تابعی، مخرمہ، محمد بن اسحاق ، ابو معشر، مصعب زبیری وغیرہ حضرات سے بھی منقول ھے۔ نیز 18 ذوالحجۃ والے کئی حضرات نے یوم جمعہ بھی ذکر کیا ھے جو زیادہ جاننے پر دلالت کرتا ھے اور جو تقویم کے مطابق ھے۔ ایک تازہ پوسٹ نظر سے گزری جس میں لکھا ہے کہ حضرت عثمان روزے کی حالت میں شہید ہوئے اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج روزہ ہمارے پاس کھولنا اور ظاہر ہے کہ 12 ذوالحجۃ کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا 18ذوالحج کو شہادت عثمان کی روایت بھی صحیح سند سے ملتی ہے ------- جمہور کا قول بھی یہی ہے ------- افطر عندنا اللیلة (آج شام روزہ ہمارے پاس کھولنا) بھی صحیح سند کے ساتھ ہے اور 12ذوالحج روزہ نہیں ہوتا۔ --------- مزید عرض ہے ابو عثمان سے اگر 12ذوالحج کا قول ملتا ہے تو طبری نے اس کے تین ساتھیوں کے ساتھ اس سے 18ذوالحج کی تاریخ روایت کی ہے۔ ===== اور 12ذوالحج کی روایت ابو عثمان تک صحیح ہے مگر ابو عثمان موقع پر چشم دید گواہ تو نہیں لکھا گیا۔ جبکہ آج شام افطار بیان کرنے والے اس دن حضرت عثمان کے ملنے والے لوگ بیان کر رہے ہیں۔ اور اگر کامن سینس اور انصاف ہو تو اتنی بات کافی ہے۔
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara غدیر خم کا واقعہ اٹھارہ ذوالحجۃ کو نہیں بلکہ پندرہ ذوالحجۃ کو ہؤا تھا کیونکہ یہ واقعہ خمیس / جمعرات/ Thursday کو پیش آیا تھا ۔ جبکہ حج جمعة المبارک کے دن ہوا تھا۔ جب 9 ذوالحج10 ھ کو جمعہ کا دن تھا تو 15ذوالحج 10ھ کو خمیس کا دن بنتا ہے اور اسی دن غدیر خم کا واقعہ پیش آیا تھا تو اسے 18 ذوالحج کا دن سمجھنا ریاضی میں کمزور ہونے کا نتیجہ ہے اور غلط بات ہے۔ -------- واقعہ غدیر جمعرات کے دن کا واقعہ ہے۔ نور الثقلین ترجمہ فرائد السمطین ۔ ناشر ابن صائم چشتی ، صفحہ 65 تا 68۔ المناقب - الموفق الخوارزمي - الصفحة ١٣٥ مقتل الحسين للخوارزمي ، الصفحة 80. عبقات الأنوار في إمامة الأئمة الأطهار ( فارسي )، ج ٩، السيد حامد النقوي، ص ٢٣٦ كتاب سليم بن قيس - الصفحة ٣٥٥ بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٣٧ - الصفحة ١٩٥ الأنوار النعمانية، ج ١، السيد نعمة الله الجزائري، ص ١٠٠ الانتصار - العاملي - ج ٣ - الصفحة ٤٨٥ الغدير - الشيخ الأميني - ج ١ - الصفحة ٢٣٣ غاية المرام - السيد هاشم البحراني - ج ١ - الصفحة ٢٩٦ نفحات الأزهار - السيد علي الميلاني - ج ٨ - الصفحة ٢٩٥ تفسیر انوار النجف، حسین بخش جاڑا ۔ ج5 ص139-144۔
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara جس کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام سے چِڑ ہے اس بیچارے نے یہ سکین کہیں سے تلاش کر کے اپنی وال پر سجایا ہوا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت مولا علی کی وفات پر الحمدللہ کہا تھا۔ ---------- اس روایت کا راوی مسلمہ بن محارب ہے جس کی کوئی بھی توثیق نہیں کرتا اور یہ وہی راوی ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عمر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا گھر جلانا چاہتا تھا۔ توثیق سے محروم اس راوی کی بولی بھی بتاتی ہے کہ یہ کہاں سے بولتا ہے۔ پروپیگنڈو کو راوی بھی اپنے مزاج کا مل جاتا ہے۔
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara خالد بن ملجم حضرت عثمان کے قاتلوں میں تھا اور اس کا بھائی عبدالرحمن ابن ملجم حضرت علی کا قاتل ہے یہ کہانی محض قطامہ خارجیہ کے حسن بلا خیز سے ہی شروع نہیں ہوتی اسحاق ابن راہویہ اپنی مسند میں لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی آللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب معاویہ رضی آللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے متعلق مشورہ لیا تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب معاویہ کے متعلق صرف یہی ایک کمی بیان فرمائی کہ وہ عائل ہے یعنی مفلس ہے پس (امام اسحاق بن راہویہ کے مطابق) سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے جناب معاویہ کے وہ سب فضائل ثابت ہو گئے جو نکاح میں دیکھے جاتے ہیں۔ رہا مفلس ہونا اور مالدار نہ ہونا تو وہ کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ---------- اور یہی امام اسحاق بن راہویہ روایت کے کرتے ہیں کہ میرا یہ بیٹا(حسن) سید ہے اور اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ صلح برائے نام صلح نہیں بلکہ جناب امیر معاویہ کو امور مسلمین سونپے جانے کی صلح ہے --------- جو لائق نکاح ہونے کے اوصاف بھی رکھتا ہو اور حکومت مسلمین کی اہلیت کے اوصاف بھی رکھتا ھو تو وہ امام اسحاق بن راہویہ کے نزدیک فضیلت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے ؟ --------- رہ گیا وہ قول کہ ان کے فضائل میں کوئی حدیث صحیح نہیں تو اولاً تو خود اس منسوب قول کی اپنی سند بھی اسحاق ابن راہویہ تک توثیق طلب ہے۔ بر سبیل تسلیم (حدیث صحیح نہیں) کہنے سے (حدیث حسن ہے) کا قول تضاد نہیں رکھتا اور امام ترمذی نے ( معاویہ کو ہادی مہدی بنا ) والی حدیث کو حسن کہا ہے۔ پھر فضائل میں تو ضعیف حدیث بھی قبول کر لی جاتی ہے۔ (لم یصح) کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی فضیلت کی روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں۔ باقی ان کے متعلق موضوع اور من گھڑت روایات بھی یقینا موجود ہیں اور تین لاکھ روایات حضرت علی مرتضیٰ اور اہل بیت حضرات کے متعلق بھی گھڑی گئی ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے متعلق صحیح حسن اور ضعیف روایات کو من گھڑت اور جھوٹ کہا جائے۔ میں ظہور فیضی کی کتاب الاحادیث الموضوعہ صفحہ نمبر 34 سے صفحہ نمبر 41 تک خود ہی پڑھ لیتا۔ ----------- شاہ جی تھوڑی ہمت اور کرتے اور اگلے صفحہ 42 کا سکین بھی دے دیتے تاکہ سب کو پتہ چلتا کہ مولوی اسحاق غیر مقلد کے مقلد اور ظہور فیضی مقلد کے مقلد تم سبھی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل ابن ملجم خبیث کو فقیہ و مجتہد مانتے ھو ۔ پس تمہارے اس گندے عقیدے کے مطابق ابن ملجم کو حضرت علی کے قتل کرنے پر ایک ثواب ملا (لاحول ولا قوۃ الا باللہ)۔ کن جاہلوں کے پیروکار بنے پھرتے ہو؟ شرم کرو۔ یہی حب علی ہے!!!. ----------- جن جن علماء کو ظہور فیضی نے اسحاق بن راہویہ کی تائید کرنے والے ظاہر کیا ہے ان میں سے اکثر حضرات نے حضرت معاویہ کے فضائل میں احادیث بیان کی ہیں۔ تو کیا وہ جھوٹی حدیثیں پھیلانے والے تھے؟(معاذ اللہ)۔ ---------- میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اسحاق بن راہویہ کا واحد اکلوتا شاگرد جس نے یہ نادر قول آگے بیان کیا، اس کو ثقہ تو ثابت کرو مگر وہ توثیق نہ تمہارا ظہور فیضی بیان کر سکا اور نہ تمہارے جیسے کاپی پیسثر کے بس کی بات ہے۔ میرا اصل سوال وہیں کا وہیں کھڑا ہے اس کو دیکھو اور جواب دو۔ یا دیکھ کر آنکھیں بند کر لو۔ ---------- اسحاق بن راہویہ کے قول کی سند پیش کریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کتنے عرصے کے بعد یہ قول منظر عام پر ایا جو معاصرین کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ------------ جب ہمعصر امام احمد بن حنبل نے جناب معاویہ کے گستاخ کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے روکا تو اسحاق بن راہویہ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ معاویہ کے کیا فضائل ہیں جو ایسا کہہ رہے ہو۔بغیر فضیلت آدمی کی گستاخی کرنے پر تو نماز کی اقتدا ممنوع نہیں ہو جاتی۔ باقی ابن ملجم کو فقیہ ومجتہد ماننے والوں کے متعلق میرا وہی سخت موقف ہے خواہ کوئی خود کو سید کہلائے یا کچھ اور ابن ملجم کو مجتہد مانو قتل حیدر پہ اس کو نیکی دو حب حیدر کے ٹھیکے دار ہو تم شرم تم کو مگر نہیں اتی --------- میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
-
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت اسماء بنت عمیس نہیں بلکہ حضرت اسماء بنت یزید حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی میں شب زفاف کے موقع پر حضرت اسماء بنت عمیس کے وہیں مدینہ منورہ میں ھونے اور دعا کرتے رہنے کا ذکر ملتا ہے اسی طرح حضرت حسن کی پیدائش کے موقع پر بھی ان کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے قابلہ کا کام کیا یہ دونوں باتیں حضرت اسماء بنت عمیس سے ممکن نہیں ہیں اور حضرت اسماء حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی سے بہت پہلے حبشہ چلی گئی تھی اور غزوہ خیبر کے موقع پر واپسی ہوئی تھی چنانچہ کشف الغمہ اربلی 693ھ میں اور بحار الانوار مجلسی 1111ھ میں کہا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء کی شادی کے موقع پر اسماء بنت عمیس نہیں بلکہ اسماء بنت یزید بن السکن الانصاریہ موجود تھی۔ اور اس سے پہلے حضرت عائشہؓ کی شادی پر انکی والدہ حضرت اُمّ رُومانؓ نے بھی آرائش دلہن کے لیے حضرت اسماءؓ بنتِ یزید کا ہی انتخاب کیا تھا(اسدالغابہ 23/7)۔ دیگر تمام عورتوں کو چھوڑ کر صرف حضرت اسماء بنت یزید کا انتخاب کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت اسماء بنت یزید نسوانی معاملات میں خاصی ماہر تھی۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسن کی پیدائش کے موقع پر بھی یہی حضرت اسماء موجود تھیں۔ جعفر مرتضی لکھتا ھے کہ ذخائر عقبیٰ کا جو نسخہ میرے پیش نظر ہے اس میں حضرت حسن کی ولادت کے وقت (اسماء بنت عمیس) کی بجائے صرف (اسماء) کا نام لکھا گیا ہے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم:ج7ص44)۔ پس یہ قول کہ حضرت امام حسن کی دائی حضرت اسماء بنت عمیس ہیں(اور حضرت امام حسن فتح خیبر کے بعد پیدا ہوئے ) تو یہ خطا ہے اور کسی راوی کے وہم کا نتیجہ ہے۔ میرے محترم یہ حضرت اسماء بنت یرید بن السکن انصاریہ کی بات ہو رہی ہے اور یزید بن معاویہ کی پیدائش سے 20 سال پہلے کی بات ہو رہی ہے اس کا یزید بن معاویہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ضرورت گفتگو کی اس لئے ہو رہی ہے ک حضرت اسماء بنت عمیس کو حضرت حسن علیہ السلام کی دائی بتا کر یزیدی پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس غزوہ خیبر کے موقع پر حبشہ سے واپس آئی تھیں اور اس کے بعد حضرت حسن پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت یہ بمشکل 3سال کے تھے اور حضرت حسین 2سال کے تھے اور وہ صحابی نہیں ہیں اور ان کی بیان کردہ احادیث بھی براہ راست ثابت نہیں اور مباہلہ کے وقت وہ دعا پر آمین کہنے کی عمر بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور یہ بات باقر مجلسی کی جلاء العیون اور حیات القلوب سے پیش کر رہے تھے۔
-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مباہلہ کیلئے حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلانا
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شخصیات اسلام
تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مباہلہ کیلئے حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلانا) حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے پوچھا کہ علی میں وہ کیا ہے کہ تم اس کے خلاف کوئی سخت بات نہیں کرتے؟ تو انہوں نے حضرت علی کی تین خوبیاں بیان کیں اور ان میں تیسری یہ تھی کہ ولما نزلت هذه الآية : فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم۔۔۔۔۔ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا ، وفاطمة ، وحسنا ، وحسينا ، فقال : اللهم هؤلاء اهلي اور جب مباہلہ والی آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہم ) کو بلایا اور کہا کہ اے اللہ یہ میرے بہت ہی اپنے ہیں۔ (صحیح مسلم:4427) ........... میں نے کب کہا ہے کہ مباہلہ ہوا تھا اور نہ ہی میں نے دوسروں کی تیاری کی نفی کی ہے ۔ ہاں جتنی تیاری صحیح مسلم کی اس روایت میں ملی ہے وہ میں نے پیش کی ہے جو حسنین کریمین کی عمر ، فہم اور جذبہ اور فتح نجران میں ان کا حصہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے میں نے یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرا وہاں کوئی نہیں گیا تھا اور کون تیار اور کون نہیں تھا۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ جھوٹ سچ کے معاملے میں لوگ قسم اپنے بچوں کے سر کی اٹھاتے ہیں ۔ عن جعفر بن محمد، عن أبيه [محمد بن علي الباقر]، في هذه الآية: ﴿تعالوا ندع أبناءنا﴾ الآية، قال: فجاء بأبي بكر وولده، وبعمر وولده، وبعثمان وولده، وبعليٍّ وولده (أخرجه ابن عساكر ٣٩/١٧٧. تفسير روح المعاني ، تفسير درمنثور) عن مقاتل بن سليمان: أنّ عمر قال للنبي ﷺ: لو لاعنتَهم بيدِ مَن كُنتَ تأخذ؟ قال: «آخُذُ بِيَدِ عليٍّ، وفاطمة، والحسن، والحسين، وحفصة، وعائشة» ( تفسير مقاتل بن سليمان ١/٢٨١-٢٨٢) ان دو روایات میں سے ایک بھی لیں تو تفسیر المنار رشيد رضا 1354ھ اور آفتاب ھدایت کرم الدین 1365ھ کا (نساء نا کے متعلق) اشکال بھی دور ہو جاتا ہے۔ تفسیر المنار : فإن كلمة ونساءنا لا يقولها العربي ويريد بها بنته لا سيما إذا كان له أزواج ولا يفهم هذا من لغتهم۔ -
Audio Answer میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ پر نفع
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Meezan bank main saving account par nafa جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ پر نفع.mp3 -
Samaan carry ka karobar? courier service ka karobar جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ سامان کیری کرنے کا کاروبار.mp3
-
Audio Answer کیری کے کام میں بروجردی کمیشن کا حکم
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Carry kay kaam main commission ka hukam? جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ کیری کے کام میں بروجردی کمیشن کا حکم.mp3 -
Audio Answer قرآنی آیات پر انگلی پھیر کر استخارہ کرنا کیسا
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Qurani aayaat par ungli phair kar istikharah karna kaisa? جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ قرآنی آیات پر انگلی پھیر کر استخارہ کرنا کیسا.mp3 -
Audio Answer صف پر کرنے کےلئے نمازی کے آگے سے گزرنا کیسا-
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Saf pur karnay kay leay namazi kay aagay say guzarna kaisa? جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ صف پر کرنے کےلئے نمازی کے آگے سے گزرنا کیسا-.mp3 -
Hajj e badal say muraad جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ حج بدل سے متعلقہ مسائل.mp3
-
Audio Answer اپنے شر سے دوسروں کو بچانے سے مراد
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Apnay shar say doosron ko bachanay say muraad جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ اپنے شر سے دوسروں کو بچانے سے مراد.mp3 -
بینک میں انویسٹ کی گئی رقم کا ظاہر نہ ہونا- Audio answer
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Bank main invest ki gayi raqam ka zahir na hona? جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ بینک میں انویسٹ کی گئی رقم کا ظاہر نہ ہونا-.mp3 -
Join Facebook Group (Fiqhi Group) for your questions فقہی مسائل گروپ
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
apnay shar'i masail kay free jawabat kay leay yeh facebook group join krain. https://www.facebook.com/groups/fiqhigroup/ -
Non Muslim in Mosque Ghair Muslim ka masjid main daakhila? جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ غیر مسلم کا مسجد میں داخلہ.mp3
-
Audio Answer جاز کیش میں رقم ٹرانسفر پر کیش بیک
اس ٹاپک میں نے خیر اندیش میں پوسٹ کیا شرعی سوال پوچھیں
Jazz Cash main Raqam transfer par cashback جواب از علامہ ابو سعد محمد عثمان سائر القادری حفظہ اللہ جاز کیش میں رقم ٹرانسفر پر کیش بیک.mp3