Jump to content

خیر اندیش

اراکین
  • کل پوسٹس

    152
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

سب کچھ خیر اندیش نے پوسٹ کیا

  1. ' قائد اعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی ۔۔۔۔ اصل حقیقت '' جناب منیراحمد منیر کا ایک تحقیقی مضمون http://ibcurdu.com/news/49953/
  2. خیر اندیش

    Shiaar e Ikhtilaf ( Mufti Muneeb Ur Rehman)

    شعارِ اختلاف اہلسنت وجماعت کے حالات ان دنوں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ہم اپنے علمی اختلافات کوداخلی سطح پر طے کرنے کی بجائے عوام میں لے آتے ہیں، پھر سوشل میڈیا پر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے باوجود بعض علماء کو یہ شوق لاحق ہوگیا ہے کہ اُن کی ہر بات، ہر ادا، ہر قول وفعل بلاتاخیر سوشل میڈیا پر آجائے، یہ روش انتہائی حد تک نقصان دہ ہے، سوشل میڈیا پر چیزوں کو ایڈٹ کر کے ڈالنا چاہیے اور فائدے کے حصول پر نقصان سے بچنے کوترجیح دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک شعار یہ ہے کہ اگر کسی سے کسی مسئلے میں اختلافِ رائے ہوگیا ہے، تو بلاسوچے سمجھے انتہائی درجے کاحکم لگادیا جاتا ہے اور پھر واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا، جبکہ افتاء کا اصول یہ ہے کہ جس درجے کی خطا یا لغزش ہو، اُسی درجے کا حکم لگایا جائے اور اس میں بھی احتیاط برتی جائے، فقہائے کرام نے تو اس حد تک احتیاط کا حکم دیا ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی نکلتی ہو تو اُسے ترجیح دی جائے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے:اے کافر! تو بے شک دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا" (بخاری:6103)۔ یعنی اگر مخاطَب درحقیقت کفر کامرتکب ہوچکا ہے، تو اس پر کفر کا اطلاق درست ہوگا، ورنہ مسلمان کو کافر کہنے والے پر یہ کفر لوٹ جائے گا، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: "یہ اس صورت میں ہے کہ وہ اسے اعتقاداً کافر سمجھ کر کہے اور اگر محض گالی کے طور پر کہے تو قائل کافر نہیں ہوگا(بلکہ گناہگار ہوگا)"۔ بعض لوگ اختلافِ رائے کے وقت ازخود کسی شخص کے ایمان، اخلاص، قلبی کیفیات، نیت اورعمل کے محرّکات کے بارے میں گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اختلافِ رائے کے حوالے سے ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس نظریے سے بات کا آغازکیا جاتا ہے کہ وہ حق کے آخری درجے پر کھڑاہے اور سامنے والا مِن کل الوجوہ باطل ہے، لوگ دیانتداری کے ساتھ دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنا ہی نہیں چاہتے، انانیت کا غلبہ ہوتا ہے۔ جو مراد آپ لے رہے ہیں، سامنے والا اس کی نفی کر رہا ہے، مگراصلِ مقصود معاملہ سلجھانا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی فتح کو منوانا اور دوسرے کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ان سب وجوہ سے ہم تہذیب وشائستگی سے دور چلے جاتے ہیں۔ پس، اختلاف ِ رائے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کے نقطہ ٔ نظر کو پوری طرح سے سمجھا جائے، فریقِ مخالف کی وضاحت، اگر قابلِ قبول ہے تو اُسے قبول کرلیا جائے، اصلِ مقصود اصلاح ہونی چاہیے، نہ کہ پندارِ فتح۔ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : "نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی وبددینی ہے۔ عصمتِ انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کاوعدہ ہولیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً مُحال ہے، بخلاف ائمہ واکابر اولیا کہ اللہ عزوجل انہیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً مُحال بھی نہیں۔ انبیاء علیہم السلام شرک وکفر اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کذب وخیانت وجہل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروّت کے خلاف ہیں، قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ قصداً صغائر سے بھی قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت معصوم ہیں "(بہارِ شریعت، ج:1، ص:38-39)۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ امورِ تبلیغیہ میں نبی سے سہو ونسیان اور خطا کا صدور مُحال ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : "خلاصہ" ودیگر کتبِ فتاویٰ میں ہے :جب ایک مسئلے میں کئی وجوہِ کفر ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو کفر کا اطلاق کرنے میں مانع ہوتو مفتی پر لازم ہے کہ مسلمان کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اسی وجہ کی طرف مائل ہو جو کفر کے اطلاق میں مانع ہے، سوائے اس کے کہ جب وہ کفر کا سبب بننے والی وجہ کی تصریح کرے توپھر تاویل اس کو فائدہ نہیں دے گی"(ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:6ص:272)۔ علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں : "اس حوالے سے ظاہر بات یہ ہے کہ جس مسلمان کے کلام کو کسی صحیح مفہوم پرمحمول کرنا ممکن ہو اس کی تکفیر نہ کی جائے یا جس کے کفر میں روایتِ ضعیفہ کی وجہ سے اختلاف ہو، اس کی بھی تکفیر نہ کی جائے۔ پس، اس سبب اکثر کفریہ کلمات (جو ماقبل عبارت میں ) مذکور ہوئے ہیں، ان پر تکفیر نہ کی جائے اور میں نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی فتویٰ نہ دوں " (البحر الرائق، ج:5ص:210)۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ آپس کے اختلافات کو بازاروں اور چوراہوں میں نہ لایا جائے، آج کل سوشل میڈیا کی مثال بازار اور چوراہے ہی کی ہے، بلکہ اس سے بھی ہزاردرجے آگے ہے۔ نیز وہ امور جو اہلسنت وجماعت میں مسلّم ہیں، عوام میں انہی کا ابلاغ کیا جائے، اگر کسی مسئلے میں کسی کی رائے جمہور سے جدا ہے تو وہ اُسے کلاس روم تک محدود رکھیں، عوام میں نہ لائیں، اس کا نقصان نفع سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتہائی باصلاحیت شخص جومختلف شعبوں میں معرکہ آراء کام انجام دے سکتا ہے، اس کی صلاحیتیں ان الزامات کے جواب اور جوابی الزامات پر صرف ہوتی ہیں اور بحیثیت مجموعی اہلسنت کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں، مخالف حلقوں کویقینا اس سے تسکین ملتی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ وہ آگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:؎ تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے جس نے کفر کا ارتکاب کیا ہو یا ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کیا ہو یا ضروریاتِ مسلک اہلسنت وجماعت میں سے کسی بات کا انکار کیا ہو یا کوئی علانیہ حرام اور فسق وفجور کا ارتکاب کر رہا ہو، توفقہی اعتبار سے ایسے اشخاص سے اعلانِ برأت ضروری ہوجاتا ہے، لیکن جس کے کسی قول کی تاویل کی جاسکتی ہو یا وہ خود کوئی قابلِ قبول تاویل کر رہا ہو تو زبردستی اس پر کوئی معنی ٹھونسنا مناسب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہم معاصرین کے بارے میں انتہائی سنگ دلی اور قساوتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُن کی گرفت میں حد سے گزر جاتے ہیں ؛حالانکہ وہی یا اس سے ملتا جلتا کوئی قول بعض متقدمین کے ہاں بھی مل جاتا ہے، جو مسلّمہ طور پر ہمارے اکابر میں سے ہیں، پھر یاتوہم اُن کے ایسے اقوال سے صرفِ نظر کرتے ہیں یا حتی الامکان ان کی تاویل کرتے ہیں، ان پر فتویٰ صادر نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ ہرشخص دین کا سٹیک ہولڈر بن گیا ہے، بعض لوگ اپنی ناموس پر ناموسِ رسالت کے قانون کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو کسی کے دامِ عقیدت میں گرفتار ہیں، وہ اپنے مرجعِ عقیدت سے اختلافِ رائے کرنے والے کے منصب کو نظر انداز کر کے اس کی توہین، تضحیک اور تحقیر کو اپنا شعار بنالیتے ہیں، بزرگوں کو چاہیے کہ اپنے ایسے عقیدت مندوں کو لگام دیں۔ آج جنہیں ہم اپنے جسدِ ملّی سے کاٹ کر پھینکنا چاہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کل کسی دینی ضرورت یا کسی مسلکی مصلحت کے تحت انہیں قبول کرنا پڑے یا اللہ تعالیٰ ان کے دل میں جمہوراہلسنت کے ساتھ مل کر چلنے کا جذبہ پیدا فرمادے اور ہمیں پھر مل بیٹھنا پڑے تو شرمندگی نہ ہو۔ اسی طرح ہر فریق کو اختلافِ رائے کرتے وقت دوسرے کے علمی مقام اور منصب کی پاسداری کرنی چاہیے، جو علمی احترام ہم اپنے لیے چاہتے ہیں، دوسروں کے لیے بھی ہمیں اس کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ مجھے حیرت اس پر ہے کہ جن بزرگوں نے اعلانِ برا ت کیا ہے، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جو چیز اُن کے نزدیک کسی کی خطا یا لغزش ہے، وہ اصولِ اِفتاء کے اعتبار سے کس درجے کی ہے اور اس پر کیا حکم لگتا ہے۔ حالیہ ناخوشگوار فضا میں ایک افسوس ناک روش یہ سامنے آئی کہ بعض حضرات نے مسلک کا مخلص اور ہمدرد بن کر بعض ذمے دار اکابر سے بات کی، انہوں نے اپنے انداز سے وضاحت کی اور انہوں نے خیانت کرتے ہوئے اسے ریکارڈ کیااور پھر سوشل میڈیا پر ڈال دیا، رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: "مجلس میں ہونے والی گفتگو امانت ہے، (پس، اُسے بلا اجازت اِفشا نہ کیا جائے )"( ابودائود: 4869)۔ میرے نزدیک موجودہ دور میں کسی کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کوبلااجازت ریکارڈ کر کے افشاکرنا یا سوشل میڈیا پر ڈالنا بھی مجلسی امانت میں خیانت ہے، لہٰذا اس سے لوگوں کو احتراز کرنا چاہیے اور اگر کسی کی بات کو افشاکرنا ہے تو پہلے اس سے اجازت لیں، اگر وہ اجازت دے فبہا، ورنہ امانت کی پاس داری کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ مصلح کے روپ میں آکر نقصان پہنچاتے ہیں، حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے بارے میں شیطان نے اسی شعار کو اختیار کیا تھا، وہ خیرخواہ کے روپ میں اُن کے سامنے نمودار ہوا اور قسمیں کھاکھاکر اپنے اخلاص کی یقین دہانیاں کرانے لگا ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے: "بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"(یوسف:5)۔ پاک وہند کے مسلمانوں کو چند عبارتوں نے ہمیشہ کے لیے تقسیم کردیا، ان کی تاویلیں بیان کرنے میں درجنوں کتابیں لکھی گئیں، لیکن شاید ایسے ہی " خیرخواہ" ان کے اردگرد تھے، جنہوں نے شاید یہ باور کرایا ہوگا کہ اگر آپ ان عبارتوں کو بدل دیں گے تو اسے آپ کی شکست پرمحمول کیا جائے گا، اس سے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ وضاحت! ’’شعارِ اختلاف ‘‘کے عنوان سے میں نے کالم لکھا، اس کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی ہے ،اس پر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکُّر وامتنان ہوں۔اس کالم کو چھاپنے سے پہلے میں نے ایک سے زائد بار اپنے ثقہ مفتی صاحبان :مفتی محمد وسیم اختر المدنی، شارحِ سنن ابودائودشیخ الحدیث علامہ مفتی احمد علی سعیدی، علامہ مفتی خالد کمال ، شارح جامع ترمذی علامہ مفتی محمد عبداللہ ضیائی اور آخر میں علامہ مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی سے بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے کے لیے کہااور ان سب حضرات نے اس کی تائید وتوثیق کی ۔ چھپنے کے بعد علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری ، علامہ مفتی محمد رفیق حسنی اور علامہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے بھی تائید وتحسین کے کلمات کہے۔ چونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن وسنت کی تعلیمات کے برعکس ’’ظَنِّ سُوْ ء‘‘ کی روایت ہے ، سو بعض حضرات نے اپنی مَن پسند تاویلات کیں کہ کسی کی حمایت مقصود ہے، حَاشَا وَکَلّا! ہمارے خواب وخیال میں بھی ایسا نہیں تھا،ہم نے صرف اصولی بات کی اور اب بھی اس پر شرحِ صدر ہے، اہلسنت کی غالب اکثریت نے کہا: یہ وقت کی ضرورت تھی ۔ البتہ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّۃ ، بَضْعَۃُ الرَّسُوْل،اَلسَّیِّدَۃُ فَاطِمَۃُ الزَّہْرَاء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہم سب کا موقف وہی ہے جو جمہورِ علمائے اہلسنت کا ہے : بفضلہ تعالیٰ وہ ’’مَحْفُوْظَۃٌ عَنِ الْخَطَاء‘‘ہیںاور’’مَبْحُوْث عَنْھَا‘‘ مسئلہ میں خطا کا اطلاق کرنا خود ایک خطا ہے اور جب سید المرسلینﷺ نے فرمادیا: ’’فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِنِّیْ ،فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ، (صحیح البخاری:3714)‘‘،تو اس کے بعد کسی کلام کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ لیکن جس درجے تک ہمارا ایک طبقہ اس مسئلے کو لے جارہا ہے، یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ معرکہ اہل حق اور اہل باطل کے مابین بپا نہیں ہے، اہلسنت کے دو طبقات کے درمیان ہے، ابھی تک کسی نے دوسرے فریق کو مسلک سے خارج نہیں قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے فرمایا: انبیائےکرام علیہم السلام کے لیے قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں جہاں زَلّت اور عتاب کے کلمات ماثور ہوئے ہیں، قرآن وحدیث کا ترجمہ اورتفسیر وشرحِ حدیث کے بیان تک اسے محدود رکھا جائے اور عام خطابات اور تحریروں میں ان کا بیان نہ کیا جائے تاکہ ابتذال نہ ہو۔ بعض علمی اصطلاحات جو متقدمین کی کتب میں مذکور ہیں،ان کا اطلاق ان کے عرف ورواج کے مطابق درست تھا، لیکن آج کے پرفتن دور اور موجودہ حساس صورتِ حال کے مطابق ہی اندازِ بیان اختیار کیا جائے اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو اجتناب بہتر ہے ، حدیث پاک میں ہے: ’’اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ أَیْقَظَہَا‘‘،( ترجمہ:’’فتنہ سورہا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اُسے جگائے )، (فتاویٰ رضویہ،ج:21،ص:253،بحوالہ کَشْفُ الْخِفَاء:1817،رضا فائونڈیشن لاہور)‘‘۔ 9جولائی2020ء
  3. ہر بچہ بریلوی پیدا ہوتا ہے ڈاکٹر شہباز منج ہر بچہ بریلوی پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو دیوبندی یا اہل حدیث بنا دیتے ہیں۔یہ حدیث میں نے وضع کی تھی،اور فطری مسلمان کے عنوان سے اس موضوع سے متعلق کوئی ایک ڈیڑھ سال قبل ایک طویل تحریر بھی لکھی تھی ،جسے کسی مناسب موقعے پر شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن خوفِ فساد خلق سے تاخیر ہوتی گئی۔ گزشتہ دنوں میں نے ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کی ایک پوسٹ کے حوالے سے شرارتی کمنٹ والی پوسٹ لگائی، جس میں دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کو بریلویوں کے اندر سے پیدا ہونے والی بدعت قرار دیا گیا تھا، توڈاکٹر زاہد صدیق مغل نے اس پر اپنے کمنٹ میں یہی آئیڈیا پیش کر دیا ( پتہ نہیں انھوں نے میرے شئیر کیے بغیر کیسے اسے چرا لیا، شاید یہ سامنے کی حقیقت ہے، اس لیےفوراً ان کے ذہن میں آ گئی ۔۔۔مسکراہٹ ) میں نے ان کے کمنٹ کے جواب میں کہا کہ اپنی وہ پرانی تحریر کہیں سے ڈھونڈ کر لگاتا ہوں، مگر دیوبندی اور اہل حدیث بھائیوں کی خوش قسمتی ملاحظہ ہو کہ تلاشِ بسیار کے باوصف وہ تحریر میرے ہاتھ نہیں لگی، شاید دوسرے کمپیوٹر میں تھی جس کی ونڈو کرپٹ ہونے کے باعث بہت سی فائلیں کھو گئی ہیں۔ وہ تحریر تو اب بنتی دکھائی نہیں دیتی، البتہ اس تحریر کی کچھ باتیں قلم برداشتہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ جاننے میں دلچسپی رہی ہے کہ میرے ارد گرد جو سادہ مسلمان بریلویوں ، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کے اختلافات سے ناواقف ہیں، ان کے مذہبی نظریات کس طرح کے ہیں؟ میں نے اس حوالے سے جتنے لوگوں کے خیالات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ، ان میں تقریباً تمام کے نظریات بریلویوں کے سے یا ان سے بہت حد تک مشابہ تھے۔ کچھ کچھ لوگوں کے افکار شیعوں سے مشابہ ملے، لیکن مجھے کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا، جس کے مذہبی افکار دیوبندیوں یا اہلِ حدیثوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ پھر میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میرے ارد گرد جو لوگ غالی دیوبندی اور اہلِ حدیث ہیں ، ان کے آبا و اجدا کے مذہبی نظریات کیا تھے؟ تحقیق پر ان میں سے اکثر لوگوں کے آبا و اجدا دبھی اسی مذہب کے نکلے ، جس کو اب وہ شرک قرار دیتے ہیں، ہاں اپنی ضرورت ہو تو اس شرک میں البتہ وہ آرام سے تخفیف کر لیتے ہیں۔ ایک جاننے والے مماتی دیوبندی صاحب جو بریلوی کے نام ہی سے نفرت کرتے ہیں، ان سے بہ طور شرارت یہ بات ہوتی رہی ہے کہ آپ کے آبا اور دادا مشرک تھے، تو شرعاً آپ ان کے وارث نہیں ہو سکتے، ان کی وراثت پر کیوں ناجائز قبضہ کر رکھا ہے آپ نے، ان کی وراثت ان کے مذہب کے لوگوں کا حق نہیں بنتا کیا؟ ایک اور صاحب جو اپنےمشرف بہ اہلِ حدیث ہونے کا قصہ بڑے فخر سے سناتے ہیں، بھی بریلویوں کو مشرک مانتے ہیں، البتہ اپنے بریلوی والدین کو رعایت دیتے ہیں،ان کو مشرک ماننے سے انکاری ہیں۔ لوگ بریلویوں سے کیسے دیوبندی اوراہلِ حدیث ہوتے آئے ہیں؟ مسجدیں کیسے بریلویوں سے اہلِ حدیث اور دیوبندی بنتی رہی ہیں، یہ قصہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔ مثالیں تو یقیناً موجود ہوں گی ، لیکن میں اپنے مشاہدے کی بات کر رہا ہوں۔ میں ایسے کسی ایک بھی شخص کو نہیں جانتا، جو دیوبندی یا اہل ِحدیث سے بریلوی بنا ہو، لیکن ایسے بیسیوں لوگوں کو جانتا ہوں جو بریلویوں سے دیوبندی یا اہلِ حدیث ہوئے، ایسی بیسیوں مسجدوں سے بھی واقف ہوں، جو بریلوی سے دیوبندی یا اہلِ حدیث بن گئیں، اور ایک بھی ایسی مسجد سے واقف نہیں ہوں ، جو اہلِ حدیث سے دیوبندی یا بریلوی بنی ہو۔ کئی مسجدوں کے آثار تو پکار پکار کر ان کے بریلوی ہونے کی گواہی دیتے ہیں، لیکن ان بے چاریوں کو مشرف بہ دیوبندیت یا اہلِ حدیثیت کرلیا گیا ہے۔ مثلاً ہمارے آبائی علاقے گکھڑ (گوجرانوالہ) میں جی ٹی روڈ پر ایک مسجد ،مسجد شاہ جمال کے نام سے ہے،اب یہ مولانا سرفراز صفدرمرحوم کے اخلاف کے پاس ہے۔ اس مسجد کا نام اور اس کے ساتھ کسی بابے شاہ جمال کا دربار( جس پر آج بھی ایسے ہی بریلوی میلہ لگتا ہے، جیسے عام دیہاتی نوعیت کے بریلوی درباروں پر لگتا ہے) اس کے بریلوی ہونے کی ناطق شہادت ہے۔۔گکھڑ، وزیر آباد ، گوجرانوالہ کی بہت سی مسجدوں کی ایسی ہی تاریخ میں دکھا سکتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ برصغیر کے لوگوں کا عمومی یا فطری مذہب بریلوی یا بریلویوں جیسا ہی ہے، اس لیے عرض کیا تھا کہ دیوبندی اور اہل حدیث مذاہب اس فطری مذہب سے انحراف کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ (ویسے مجھے ذاتی طور پر برصغیر کے اس نوعیت کے سنیوں کے خود کو بریلوی کہلانے پر تحفظات ہیں، اس طرح انھوں نے خود کو محدود کیا اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے، جس کی بنا پر دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کو ان کے بندے توڑکر اپنے مذاہب میں داخل کرنے میں زیادہ کامیابی ملی ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے) میری گزشتہ پوسٹ “ہر بچہ بریلوی پیدا ہوتا ہے” فقط اس حقیقتِ واقعہ کا اظہار تھی کہ ہمارے یہاں کے دیوبندی اور اہلِ حدیث عمومی طور پر بریلویوں یا ان سے ملتے جلتے مذہبی نظریات رکھنے والے مسلمانوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ اس پوسٹ میں کہیں بھی نہ تو دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کو کافر و گمراہ قرار دیا گیا تھا، اور نہ ہی بریلویوں کو اسلام کے واحد ٹھیکیدار بتایا گیا تھا،اس پوسٹ میں ان سب گروہوں کی کسی بھی بات سے کلی اختلاف یا کلی اتفاق نہیں کیا گیا تھا اورنہ ہی کسی ایک سے متعلق ایسا رویہ اپنانے کی دعوت دی گئی تھی۔ اہلِ تحقیق اس بات کو بخوبی سمجھ گئے تھے، لیکن ہمارے یہاں کے عمومی فرقہ وارانہ مزاج کا کیا جائے کہ وہ اس نوعیت کے کسی مبحث کو معروضی اور تحقیقی انداز میں دیکھنے کا اہل ہی نہیں، سو اس مزاج کے طرح طرح کے فرقہ وارانہ رد عمل ہی آئے، اور یہ خلافِ توقع نہیں تھے، یہاں کے اس مزاج کو بدلتے ہوئے وقت لگے گا۔ میں نے اپنی ایک تحقیق اور مشاہدہ پیش کیا تھا، اس کی علمی تردید کا طریقہ یہ تھا کہ اسی نوعیت کی تحقیق اور مشاہدے کی بنیاد پر بتایا جاتا کہ نہیں جی! فلاں فلاں دلائل شاہد ہیں کہ دراصل بریلوی دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں سے نکلے ہیں، اور فلاں فلاں مسجدیں بریلویوں سے دیوبندی اور اہلِ حدیث ہوئی ہیں ۔لیکن خدا شاہد ہے کسی کی طرف سے اس پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کی گئی، حتی کہ کہ کوئی دلیل پیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی، پیش کی بھی کیسے جا سکتی ہے ،کوئی سنجیدہ اورتحقیقی مزاج کا حامل دیوبندی اور اہلِ حدیث بھی اس معاملے میں اس حقیقتِ واقعہ کا انکار نہیں کرتا،جو میں نے پیش کی۔علامہ احسان الہی ظہیر مرحوم کی “البریلویۃ”(جس میں بریلویوں کی تردید میں نہایت سختی برتی گئی ہے) کا ہی مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، وہ آپ کو یہ بتاتے نظر آئیں گے کہ ان سے کچھ پہلے کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کے عقائد ونظریات بریلیوں ہی کی طرح تھے۔۔۔۔۔۔۔کوئی واقعاتی اور تحقیقی دلیل پیش کرنے کی بجائے، میری گذشتہ پوسٹ کی “تردید” کرنے والوں کا زور عموماً اس بات پر رہا کہ بریلوی ہندوؤں سے نکلے ہیں اور بدعتی ہیں، جیسے دیوبندی اوراہلِ حدیث تو آسمانوں سے اترے ہوں ، اور ہندوستان سے تعلق نہ رکھتے ہوں!۔۔۔مذکورہ پوسٹ کے کمنٹس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بریلویوں کے طرف داروں میں سے شاید ہی کسی نے دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کے خلاف عدالت لگائی ہو، لیکن دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کے طرف داروں نے شاید ہی کوئی ایسا کمنٹ کیا ہو ، جس میں بریلویوں کے “بدعتی اور گمراہ” ہونے کا فیصلہ نہ سنایا گیا ہو۔ گذشتہ پوسٹ پر تبصرہ اور اس پوسٹ کی تمہید ذرا لمبی ہو گئی ،اس پوسٹ میں گزشتہ پوسٹ کے تسلسل میں یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ آیا بریلوی بھی ایک الگ فرقہ ہیں یا نہیں ؟ اور سنی اور بریلوی ایک ہی چیز کے دونام ہیں یا الگ الگ وجودکے حامل گروہ؟ اس پر تفصیلی بات آئندہ پوسٹ میں کی جائے گی۔ سنی یا بریلوی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور کی بات نہیں ، میرے بچپن، لڑکپن کی بات ہے، موجودہ فرقوں کی “لچ کڑچیوں”سے ناواقف عام دیہاتی سادہ مسلمانوں میں بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث کے الفاظ اجنبی تھے، ہاں سنی ، وہابی اور شیعہ سنا کرتے تھے۔ ختم درود ، الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھنا، حضور ﷺ اور اہلِ بیت سے اظہار محبت کا وفور، بزرگوں سے توسل ، مزارات کا احترام وغیرہ چیزیں سنیوں کی علامت سمجھی جاتی تھیں اور ان چیزوں کی مخالفت کرنے والوں کو وہابی کہا جاتا تھا۔ مذکورہ نوعیت کے مذہبی خیالات و رسوم ان لوگوں میں بھی موجود تھے ، جو مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ مولانا احمد رضا خان کے نام سے ناواقف ان عام لوگوں کی کثیر تعداد البتہ وہابی کے لفظ سے واقف تھی،لیکن اس بات سے مطلق آگاہ نہ تھی کی یہ وہابی کون ہیں اور کہاں سے آئیں ہیں اور ان کو وہابی کس کی نسبت سے کہا جاتا ہے؟ پھر رفتہ رفتہ اس ماحول میں بھی بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث کی اصطلاحات متعارف ہوئیں۔ مذکورہ نوعیت کے افکارو رسوم کے حامل لوگ بریلوی اور ان کی مخالفت کرنے والے یا اس مخالفت میں مشہور گروہ دیوبندی اور اہلِ حدیث کے عنوان سے نمایاں ہونے لگے۔ دراصل ابن وہاب نجدی کی تحریک (عالم عرب کے مسلمانوں کے روایتی عقائد ونظریات، جو برصغیر کے سنیوں ہی کی طرح تھے، کو چیلنج کرنے کے بعد) عرب سے نکل کر برصغیر کے بعض علما کے اعصاب پر سوار ہوگئی ، جس کے نتیجے میں انھوں نے یہاں کے سنی مسلمانوں کے مذکورہ افکارو رسوم کو گمراہی اور بدعت وشرک سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا، اور اس کے اثرات پھیلتے جا رہے تھے۔ بریلی سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا احمد رضا خان نے ان وہابی اثرات کے خلاف برصغیر کے عام مسلمانوں کے افکار و نظریات کی علمی ترجمانی اور وہابی اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہابی ذہن رکھنے والے علما و قلم کاروں نے نے برصغیر کے مسلمانوں کے مذکورہ نوعیت کے تصورات کو بریلوی نظریات و افکار سے تعبیر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ مولانا بریلوی سے ان کا تعلق اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ انھوں نے ان کا دفاع کیا تھا، اور ان کے مخالف وہابیوں کی تردید میں سختی برتی تھی۔ مولانا احمد رضا خان اسی طرح ایک عالم تھے ، جس طرح کوئی بھی عالمِ دین ہو سکتا ہے، اور ان سے اسلام اور عام مسلمانوں کی ترجمانی وغیرہ امور میں اسی طرح غلطی اور خطا کا امکان تھا، جس طرح کسی بھی عالمِ دین کے بارے میں مسلمہ ہے، ان کے کسی بھی قول اور فتوے سے اسی طرح اختلاف ہو سکتا ہے ، جیسے کسی بھی عالم دین سے ہو سکتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے اور یہ بظاہر کوئی غیر فطری چیز دکھائی نہیں دیتی کہ مولانا بریلوی وہابیوں کی تردید میں نہایت سخت تھے(مولانا بریلوی ہی کیا خود حجاز وعرب میں وہابیوں کے خلاف ایسی ہی سختی پائی جاتی تھی، وہاں ابن وہاب اور ان کے افکارو نظریات کو عام مسلمانوں کے نظریات میں بگاڑ اور فسق و زندقہ تک سے تعبیر کیا جاتا تھا)۔ مولانا بریلوی کو جہاں کوئی شائبہ بھی نظر آتا کہ یہاں وہابی اثرات ہیں، وہ اس کے خلاف نہایت سخت موقف اپناتے۔ وہابی تحریک کے علمی اثرات میں ایک چیز حضورﷺ کی شان و عظمت کو ہلکے انداز میں لینا بھی تھی۔ مولانا بریلوی کو جب بعض جگہوں پر یہ جراثیم نظر آئے تو انھوں نے ان کا توڑ کرنے کے لیے کمر کس لی، ہندوستان کے بعض علما کی بعض تحریروں میں انھیں ایسے الفاظ نظر آئے ، جو ان کے خیال میں آئے آں جنابﷺ کی توہین اور آپ کی شان وعظمت کے استخفاف کا پہلو لیے ہوئے تھے۔ وہ اس پر سخت بر افروختہ ہوئے اور ان کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا۔ اس زمانے کے علماے حرمین کا اس نوعیت کے خیالات کو وہابیوں کے مذہبی نظریات کا نتیجہ سمجھنا ایک بدیہی بات تھی۔ انھوں نے جب ان الفاظ و عبارات پر دیے گئے فتوے پرعلماے حرمین سے تایید چاہی تو انھوں نے آسانی سے ان کے فتوے کی تایید کر دی۔ جن چند ہندوستانی علما کے خلاف کفر کا یہ فتوی جاری کیا گیا تھا، ان میں دارالعلوم دیوبند کے نمایاں ترین علما بھی شامل تھے۔یہ دیوبندی علما اور ان کے پیروکار عمومی طور پر اسی طرح کے مذہبی نظریات کے حامل تھے، جن کا دفاع مولانا بریلوی کر رہے تھے۔ علماے حرمیں کی تایید کے ساتھ مولانا بریلوی کے فتویِ کفر سے ایک ہلچل پیدا ہوگئی۔علماے دیوبند نے وضاحت کی کہ ہماری عبارات کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ مولانا بریلوی کی طرف سے قابلِ اعتراض عبارتوں سے، جن سے ان کے نزدیک شان رسالت میں نقص لازم آتا تھا، براءت اور ان پر توبہ کا مطالبہ کیا گیا۔ دیوبندی علما کا موقف تھا کہ ان مقصد ان عبارتوں سے ہر گز یہ نہیں تھا، جو لیا گیا۔ فریقین کی جانب سے اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہنے کا رویہ سامنے آیا۔ دونوں اطراف اور ان کے علما انسان تھے اور انسانی نفسیات و جذبات کے اسیر۔ ضدم ضدا کی نفسیات کے تحت ایک دوسرے کی تردید ہوتی رہی اور فریقین میں خلیج گہری ہوتی گئی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، ان دونوں فریقوں کے مذہبی نظریات میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں تھا،لیکن فریق ثانی نے الگ پوزیشن لے لی تھی، جو برصغیر کے سنی مسلمانوں کے عمومی رجحان سے قدرے مختلف تھی،سو ادھر وہابی اثرات کا نفوذ آسان ہوتا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ، دیوبندیوں میں وہ لوگ سامنے آنے لگے ، جو ان نظریات کی شدت سے مخالفت کرنے لگے، جن کا دفاع مولانا بریلوی کر رہے تھے۔ وہابی ، بریلوی: اصلیت کی بحث (گذشتہ سے پیوستہ، چوتھی قسط( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا بریلوی کی مخالفت کے تناظرمیں دیوبندیوں میں وہابی نفوذ کے پنپنے یا کو کم ازکم اسے برداشت کرنے کا رویہ پروان چڑھتا رہا، پھر وہ وقت آیا کہ وہ دیوبندی بھی وہابییوں سے منسوب ہوگئے، جو اپنی اصل میں اسی صوفی سنی اسلام پر تھے ، جس کے دفاع میں مولانا بریلوی نمایاں ہو چکے تھے۔ دیوبندیوں کا عمومی مذہبی مزاج بریلویوں کا سا تھا، مگر ان میں شدت اختیار کرنے والے مماتی اور اہلِ حدیث گروہوں کی شکل میں نمایاں ہونے لگے۔ مماتی دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کا مین سٹریم دیوبندیوں سے نکلنے اتنا واضح ہےکہ مین سٹریم دیوبندی ہی نہیں، مماتی اور اہلِ حدیث خود بھی اس کے قائل ہیں، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کے عرف میں دیوبندیوں اور بہ طور خاص مماتیوں اور اہلِ حدیثوں کو جب وہابی کہا جاتا ہے تو اس کا پس منظر یہی ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ (بہ طور مزاح ہی سہی) بہت دفعہ مین سٹریم دیوبندی بھی بریلویوں کے مقابلے میں خود پر وہابی کی اصطلاح کا اطلاق کرتے نظر آئیں گے، یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ دیوبندیت کے برصغیر کے عام سنی اسلام سے الگ ہونے کی بنیادوں میں وہابی اثرات کارفرما ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دیوبندی اور اہلِ حدیث وہابی اثرات کا نتیجہ ہیں، اور وہابی ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، ایک زمانے میں (آل سعود کے برسر اقتدار آنے سے پہلے) خود عرب علما اور عوام کے یہاں اپنے شدت پسندانہ رویوں کے باعث ایک اجنبی اور ناپسندیدہ مخلوق تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج اپنے لیے وہابی کی اصطلاح خود قبول کر لینے والے دیوبندی اور اہلِ حدیث ابتدا میں وہابی کے لفظ سے اتنی ہی نفرت کرتے تھے، جتنی دیگر عام علما اورعوام۔ مولانا بریلوی کے فتویِ کفر کی سینکڑوں علما ے حرمین نے جو تصدیق کی تھی ، اس میں بنیادی کردار اس بات کا تھا کہ مولانا بریلوی ان کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے تھے، کہ میں جن لوگوں کے خلاف فتویِ کفر حاصل کر رہا ہوں، وہ وہابی یا ان سے متاثر لوگ ہیں، ورنہ شاید وہ اس وسیع پیمانے پر اس کی تصدیق نہ کرتے۔ اس سے بھی زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ فتوے میں کافر قرار دیے جانے والے علما کی جانب سے ، جب علماے حرمین کو وضاحت پیش کی گئی، تو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم وہابی نہیں ہیں، نہ ہمارا وہابیوں سے کوئی تعلق ہے، ہمارے عقائدو نظریات تو عام مسلمانوں کی طرح ہیں، ہم پر وہابیوں سے نسبت کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔ لطف پر لطف یہ کہ وہابیوں سے براء ت کا یہ موقف اہلِ حدیث نے بھی پورے شدو مد سے اپنایا، مولانا نذیر حسین محدث (جو برصغیر میں اہلِ حدیث کے بانی سمجھے جاتے ہیں) نے باقاعدہ انگریز حکومت سے درخواست کی تھی کہ انھیں وہابی کہنے پر پابندی عائد کی جائے۔(بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے) گرفتار مسلکیت ہو شیار باش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں فرقوں کی پوری تاریخ پر طائرانہ نظر ڈال کر ان کے بنیادی مسئلے کو نمایاں کرنا چاہتا تھا،لیکن کچھ مجبوریوں، اور کچھ عام لوگوں کے اس بحث کو اس کے صحیح تناظر میں نے سمجھنے کے باعث اس سلسلے کو فی الوقت بیچ میں روک رہا ہوں، لیکن اس کو روکتے ہوئے، کچھ کلوزگ ریمارکس پیش کیے دیتا ہوں: تاریخ اپنا فیصلہ خود سناتی ہے ، اس نے قادیانیوں کے معاملے میں مولانا بریلوی کے فتوے کو انڈوس کر دیا ہے اور علمائے دیوبند کے معاملے میں رد کر دیا ہے۔ علمائے دیوبند کے معاملے میں خود کئی سنی علما نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ یہ فتوی اپنی کلیت میں اس صوفی سنی اسلام کے منافی ہے،اپنی عمومیت میں جس کا دفاع صاحب “حسام الحرمین” خود کر رہے تھے۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ مولانا بریلوی کے غالی معتقدین نے اس فتوے کا عقیدہ بنا لیا۔ دوسری طرف علماے دیوبند کے غالی معتقدین کا حال یہ ہے کہ وہ ان عبارتوں کی ابھی تک توجیہ کر رہے ہیں، جنھیں بہت پہلے کہیں گھڑا کھود کر دفن کر دینا چاہیے تھا۔ اگر یہ دونوں فریق اس معاملے سے جڑے اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں، تو بریلویت اور دیوبندیت خطے کے اصلی صوفی سنی اسلام میں تحلیل ہو جائیں گی۔ رہے اہلِ حدیث تو اس کے بعد وہ بھی ان کے قدموں پر واپس آ جائیں گے، جب تک اصلی سنیت میں واپس آنے والے مقدم الذکر گروہوں کو موخر الذکر کو انجوائے کرنا چاہیے۔ تاویل مالم تستیع علیہ صبرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام موجودہ مسلکوں کو خود کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
  4. Mufti Muhammed Bilal Raza Qadri اس وقت پوری دنیا معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں ہے خاص کر مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے خالق کائنات رازق ارض وسما وات عزوجل کے پسندیدہ دین سے اپنا تعلق منقطع کرلیا ہے اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اصول و قواعد سے منہ موڑ کر دشمنان اسلام کے بنائے ہوئے قانون کو گلے لگا لیا ہے تو جب ایسے کرتوت ہونگے تو نتیجہ یہی آنا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے اسلام نے زندگی گزارنے کے ہر شعبہ کو بیان فرمایا ہے کسی بھی گوشہ کو خالی نہیں چھوڑا جہاں عبادات کے طریقے بتلائے وہاں معاملات پر بھی روشنی ڈالی تاکہ اسلام کے ماننے والوں کے لئے کسی شعبہ میں تشنہ باقی نہ رہے مگر ہم نے تجارت و معاشیات میں یہود و نصاری کے بیان کردہ اصولوں کو اپنا زیور بنا لیا ہے آج مسلمان خرید و فروخت کے معاملہ میں سود ر،شوت ،دھوکہ دہی اور نہ جانے کتنے ہی خرافات میں مبتلاء ہے آج نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایماندار اور شریف انسان کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینا لازمی ہوگیا ہے اور یہ سب بدعنوانیا ں ، جرائم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے روگردانی کا نتیجہ ہے آج مسلاان کاروبار میں برکت کے وظائف کرتا نظرآتا ہے مگر وہی مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تعلیمات کو نظر انداز کرتا دیکھائی دیتا ہے تو پھر صرف ان وظائف سے برکت کس طرح ممکن ہے آج کئی مسلمانB.B.A M.B.A M.P.A کی ڈگریاں لیے موجود ہیں مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے کیا آداب بیان فرمائے ہیں بیع باطل و فاسد کس بلاء کا نام ہے پھر بھی یہ لوگ اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے اور معزز سمجھے جاتے ہیں سرمایہ دار لوگ ان کے مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں تو پھر برکت کہاں سے آئے گی محترم دوستو شریعت نے جس طرح عبادات کے آداب جائز وناجائز صورتیں بیان فرمائی ہیں اسی طرح تحصیل مال (تجارت)کے آداب اور جائز وناجائز صورتوں کو بھی بیان فرمایا ہے لہذا ہر پیشہ ور کو اپنے پیشے کے متعلق شرعی احکام کا علم ہونا چاہیے تاکہ اس کی کمائی میں حرام کی آمیزش نہ ہو اور یہ اسی وقت ممکن جب بندے کو جائز وناجائز کا علم ہو۔ کیونکہ مال حرام یہ برکت ختم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے اور مال حرام سے دیا گیا نہ کوئی صدقہ قبول اور نہ کوئی حج مبرور بلکہ سارا کا سارا ہی مردود ہے کسب حرام پر وعیدیں وکسب حلال کے فضائل عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللَّہَ طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ إِلاَّ طَیِّبًا وَإِنَّ اللَّہ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَبِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِینَ فَقَالَ(یَا أَیُّہَاالرُّسُلُ کُلُوامِنَِالطَّیِّبَات وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ)َوَقَالَ (یَا أَیُّہَا الَّذِین آمَنُواکُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ)ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَب وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایااے لوگوں بیشک اﷲ پاک ہے اور پاک ہی کو دوست رکھتا ہے اور اﷲ تعالی نے مومنین کو بھی اسی کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا ۔ اس نے رسولو ں سے فرمایااے رسولوں !پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو بیشک میں جاننے والا ہوں جو تم کرتے ہو۔اور مومنین سے فرمایا اے ایمان والوں! کھاؤہماری دی ہوئی ستھری چیزیں۔پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے قبول ہو)وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر’’یارب یارب ‘‘کہتا ہے (دعا کرتا ہے)حالت یہ ہے کہ اس کھا ناحرام پینا حرام ،لباس حرام اور غذا حرام پھر اسکی دعا کیونکر قبول ہوگی(یعنی اگر دعا کے قبولیت چاہتے ہو تو حلال کھاؤ) (الصحیح المسلم حدیث نمبر۲۳۹۳ دار الفکر بیروت) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یُبَالِی الْمَرْءُ بِمَاأَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ حَلاَلٍ أَمْ مِنْ حَرَام حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرئیگا کہ اس نے مال کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے (الصحیح البخاری حدیث نمبر۲۰۸۳) قَالَ رَسُولُ اللَّہﷺ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَہَا وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْہَا فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ خُذُوامَا حَلَّ وَدَعُوا مَا حَرُمَ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ اے لوگوں اﷲ سے ڈرو اور رزق تلاش کرنے میں اعتدال اختیار کروبیشک کسی جان کواس وقت تک موت نہیں آئیگی جب تک کہ ااس کا رزق اس کو پورا نہ مل جائے اگرچہ کہ تاخیر سے ملے پس تم اﷲ سے ڈرو اوررزق تلاش کرنے میں اعتدال سے کام لو اور جو حلال ہو اسے لے لو اور حرام کو چھوڑ دو (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۲۲۷) طَلَبُ کَسْبِ الْحَلاَلِ فَرِیضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیضَۃِ حلال کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر۱۲۰۳۰ دار الفکر بیروت) مَا کَسَبَ الرَّجُلُ کَسْبًا أَطْیَبَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَی نَفْسِہِ وَأَہْلِہِ وَوَلَدِہِ وَخَادِمِہِ فَہُوَ صَدَقَۃٌ آدمی کا سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر حاصل کرئے اور آدمی کا اپنی جان پر ،اپنے گھروالوں پراپنی اولاد پر اوراپنے خادم پر مال خرچ کرنا صدقہ ہے (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۱۳۸دار الفکر بیروت) وروی عن أنس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القیامۃ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن امانت دار،صداقت شعارتاجر عرش کے سائے تلے ہونگے۔ [الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۵ مکتبہ محمودیہ] قال رسول اللہ ﷺالتاجر الأمین الصدوق المسلم مع الشہداء یوم القیامۃ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ امانت دارسچامسلمان تاجر کل بروز قیامت شہداء کے ساتھ ہونگے ۔ [الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۵ مکتبہ محمودیہ] سبحان اللہ رب العالمین جلالہ نے ہمارے لئے کتنی آسانی فرمادی کہ اپنے اہل و عیال کے لئے مال خرچ کریں تو وہ بھی صدقہ یعنی نیکی ہے اور امانت داری کے ساتھ تجارت کریں تو کل بروز قیامت جس مقام پر شہداء ہونگے سچے امین تاجر بھی وہیں ہونگے ۔ قارئین کرام آج کے اس کالم میں ایسا وظیفہ بتا جائے گا جو کہ مستند ہو گا اور احادیث کی رو سے ہوگا تا کہ بے جا اعتراض کی نوبت ہی نہ آئے اور یہ بات یا د رہے کہ یہ عام وظائف نہيں ہیں کہ یہ کسی عامل نے یا کسی بابا نے دیے ہوں اور ان میں کسی کمی کا کوتاہی کا پہلو باقی رہے بلکہ یہ وہ وظائف ہیں کہ جو رب تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلوۃ و السلام کی زبان مبارک سے ہمیں عطا فرمائے ہیں اور ہمیں کاروبار و تجارت میں برکت پیدا کرنے کا طریقہ سکھلادیا ہے اب ہر کسی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو ایک عام انسان یا عامل کی بات پر عمل کرے اور برکت کا خواہاں ہو یا رب تعالی کے بتائے طریق پر چل کر برکت حاصل کرے کاروبار میں برکت کا طریقہ اورآداب تجارت (۱) خریدو فروخت میں سچائی سے کام لے (۲)اگر چیز میں کوئی عیب (خرابی) ہو تو وہ بھی بیان کردے (۳) حسن اخلاق کو اپنائے خاص کرنرمی کو لازم جانے (۴)قسم کھانے سے پرہیز کرئے اگرچہ سچا ہو (۵)منافع کی شرح کا حد سے زیادہ نہ ہونا (۶) صدقات کی کثرت کرئے (۷) دوران خریدوفروخت بھی حقوق اﷲ کاخاص خیال رکھے (۸)قرض دے یا لے تو اس کو لکھ لے اور اس پر گواہ بھی بنالے (۱) خریدو فروخت میں سچائی سے کام لے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک تجار قیامت کے دن فجار(بدکار) اٹھائے جائیں گے مگر وہ تاجر جو اﷲ سے ڈرے اور( لوگوں پر )احسان کرئے اور سچ بولے (یہ نیک لوگوں میں شامل ہونگے) (سنن الترمذی حدیث نمبر۱۲۱۰دار الفکر بیروت) نبی کریم ﷺ نے خریدو فروخت میں جھوٹ بولنے سے سختی سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیںکہ رسول اکرم ﷺ ہم تجار حضرات کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے گروہ تجار تم خاص کر جھوٹ سے بچو ۔ [الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۹ مکتبہ محمودیہ] عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ کوفرماتے سناکہ بے شک تاجر فجار(بدکار) ہیں لوگوں نے عرض کی یارسول اﷲ کیا اﷲ نے خرید و فروخت کو جائز نہیں فرمایا ؟ فرمایا ہاں کیوں نہیں لیکن تاجر قسمیں کھاتے ہیں پس گناہگار ہوجاتے ہیں اور بات بڑھا چڑھا ک ر بیان کرتے ہیں تو جھوٹ بول جاتے ہیں۔ [الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۶ مکتبہ محمودیہ] حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تمام کمائیوں میں سب سے پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جب وہ بات کریں توجھوٹ نہ بولے جب ان کے پاس مانت رکھوئی جائے تو وہ خیانت نہ کریں اور جب وعدہ کریں تو اس کے خلاف نہ کریں اور جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی مذمت نہ کریں (عیب نہ نکالیں)اور جب کوئی چیزفروخت کریں توانکی تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کریں اور ان پر کسی کا آتا ہو تو دیر نہ کریں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں (الآداب للبیہقی حدیث نمبر۷۸۷ا) اب ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم کاروبار میں چیز بیچتے وقت اور خریدتے وقت سچ بولتے ہیں یا اپنی چیزوں کی بے جا مبالغہ آرائیوں کے ساتھ تعریفات کے پل باندھتے ہیں اور دوسرے دوکاندار کی چیزوں کے بلا وجہ عیب بیان کرتے ہیں تو ہما را مشاہدہ ہے کہ اکثر دوکاندار ان برائیوں میں مبتلاء ہیں اب رزق میں برکت کے اس پہلے اصول کو یاد رکھیں کہ جب اپنی کسی چیز کو فروخت کریں توسچ کو لازم جانیں اور اس چیزکی صحیح تعریف کریں بے جا تعریفات اور مبالغہ آرائیوں سے اجتناب کریں اور جب کسی چیز کو خرید نے کا ارادہ ہو تو بلا وجہ عیب نہ نکالیں اور نہ جھوٹ بولیں کہ فلا ں دوکاندار تو یہ مجھے اتنی کی دے رہا تھا یہ توہلکا مال ہے وغیرہ جملے بول کر دوکاندار کا دل نہ توڑیں بلکہ جو آُ کی گنجائش ہے اور چیز سمجھ میں آتی ہے تو لے لیں خوامخواہ عیب نہ نکا لیں (۲)اگر چیز میں کوئی عیب (خرابی) ہو تو وہ بھی بیان کردے نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی کہ سب سے پاکیزہ کمائی کونسی ہے فرمایا کہ بندے کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور دھوکے سے پاک خرید وفروخت کرنا السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر۱۰۷۰۱) وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَع رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے کو فرماتے سناکہ جس نے عیب والی چیز کو فروخت کیا اور عیب کو ظاہر نہ کیا وہ ہمیشہ اﷲ تعالی کی ِ ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۳۳۲) عقبہ بن عامررضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سناکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور جب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی چیز بیچے جس میں عیب ہو تو جب تک بیان نہ کرئے اسے بیچنا حلال نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۳۳۱ا) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک غلہ کی ڈھیری کے پاس سے گزرے اس میں ہاتھ ڈال دیا حضور ﷺ کوانگلیوں میں تری محسوس ہوئی ارشاد ِ فرمایا اے غلہ والے یہ کیا ہے اس نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اس پر بارش کا پانی پڑ گیا تھا ارشاد فرمایا کہ تو نے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کردیا کہ لوگ دیکھتے جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں (الصحیح المسلم حدیث نمبر۲۹۵) ملاوٹ کرنے والوں اور خراب مال بیچنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جس سے رب العالمین ناراض ہو فرشتے اس پر لعنت کرنے والے ہوں نبی علیہ السلام اس سے دوری اختیار فرما رہے ہوں تو کس طرح اس کے کاروبار میں برکت ہوگی اور کس طرح وہ مصائب و آلام سے بچا ہوا ہوگا اللہ تعالی عقل سلیم عطا فرمائے لہذا اول تو کسی بھی طرح کی ملاوٹ نہ کریں اور اگر بالفرض مال خراب ہے یا کسی اور نے ملاوٹ والا مال آپ کو دیا ہے تو آپ حدیث پر عمل کرتے ہوئے خریدار کو وہ بتا دیں ویسے بھی عموما لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ کس مال میں کیا ملاوٹ ہے اور کیا خرابی ہے کہ لوگوں سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے مثلا دودھ میں پانی ،لال مرچ میں کلر ،چینی میں چاول کے ٹکڑے،گوشت میں پانی کاپریشر،دال میں کنکر وغیرہ لہذا جب لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ دوکاندارزیادہ تر جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں تاکہ ان کا مال بکے تو حدیث پر عمل کریں اور بتا دیں اس سے انشاء اﷲ آپ کے کاروبار میں برکت ہوگی نیزوہ آپ کی سچائی کو دیکھ کر ہمیشہ آپ سے ہی چیز خریدے گا (۳) حسن اخلاق کو اپنائے خاص کرنرمی کو لازم جانے دوکاندار اور خریدار دونوں کو ہی بوقت خریداری حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ اسلام نے تو ہمہ وقت ہی ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا درس دیا ہے اگر گاہک کی کوئی بات برئی بھی لگے تو بجائے غصہ کرنے کے اس سے درگزر فرمائیں انشاء اﷲ اس عمل سے کاروبار میں برکت پیدا ہوگی کہ اﷲ تعالی غصہ پینے والے اور درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں سورہ العمران آیت۱۳۴ (۴)قسم کھانے پرہیز کرئے اگرچہ سچا ہو کسی شئے کو فروخت کرنے کے لئے یا خرید نے کے لئے سچی قسم بھی کھانے سے منع فرمایا ہے کہ اس سے کاروبار میں سے برکت اٹھ جاتی ہے بلکہ بوقت خرید و فروخت آواز کے ساتھ ذکر واذکار کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتےسناکہ قسم کھانے سے سامان تو بک جاتا ہے لیکن برکت ختم ہوجاتی ہے سنن ابی داؤدحدیث نمبر۳۳۳۷) (۵)منافع کی شرح کا حد سے زیادہ نہ ہونا بیچنے والے کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی چیز کو کتنی ہی قیمت پر فروخت کرئے لیکن اگر وہ کم منافع پر کسی چیز کو فروخت کرئے توایسے شخص کے لئے شریعت مطھرہ نے جنت کی خوشخبری دی ہے جوخریدار پر کسی شئے کی خرید پر آسانی کرئے کہ نیز جو آج دنیا میں مسلمانوں پر کسی بھی طرح آسانی کرئے گا تو اﷲ تبارک وتعالی اس کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آسانیاں پیدا فرمائے گا حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالی اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا جو خریدو فروخت میں آسانی پیدا کرئے گا (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۲۰۲) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالی نرمی کرنے والے بندے پر رحم فرماتا ہے کہ جب وہ کوئی چیز بیچے تو نرمی کرئے اور جب خریدےتو نرمی کرئے اور جب فیصلہ کرئے تو نرمی کرئے۔ (الصحیح البخاری حدیث نمبر۲۰۷۶) سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنت میں جانے کا طریقہ بیان فرمادیا ساتھ ہی ساتھ ئی بھی بتا دیا کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں آسانیاں ہو یعنی مشکلات نہ ہو تنگی رزق یا کسی بھی قسم کی کوئی مصبیت تم کو نہ پہنچے تو تم بھی اللہ کی مخلوق پر آسانیاں کرو تمہارے ساتھ بھی آسانی کی جائے گی (۶) صدقات کی کثرت کرئے تجارحضرات کو چاہیے کہ کاروبار میں خیر وبرکت پانے کے لئے وہ بیوہ ،یتیم بچوں،مسجد ومدرسہ وغیرہ کی صدقہ و خیرات کی صورت میں مدد کرتے رہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے تجارت کرنے والوں کو صدقہ کثرت سے ادا کرنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے اے گروہ تجار بیشک خریدوفروخت میں لغو بات (جھوٹی اور فضول بات) اور قسم ہوجاتی ہے پس تم اس کے ساتھ صدقہ ملا لیا کرو (سنن ابی داؤد حدیث نمبر۳۳۲۸) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسکینوں اور بیواؤں پر خرچ کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثل ہے اورپوری رات قیام کرنے والے اور دن میں روزہ رکھنے والے کی مثل ہے َ(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۱۴۰) حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ رب عزوجل کے غضب کو بجھاتاہے اور بری موت کو دفعہ کرتاہے رواہ ترمذی [۱۸۱۴،مرآۃ المناجیح ، ج: ۳، ص: ۱۱۴] (۷) دوران خریدوفروخت بھی حقوق اﷲ کاخاص خیال رکھے جب نماز کا وقت ہوجائے تو سب کام چھوڑ کر اپنے پروردگار عزوجل کی عبادت کرنے مسجد جائے اور آرام واطمینان سے نماز ادا کرئے یہ توکل(یقین) رکھتے ہوئے کہ میں جس کی عبادت کررہا ہوں وہی رزاق ہے(سب کو رزق دینے والا ہے) وہ مجھے بہتر اور کشادہ ور برکت والا رزق عطا فرمائے گا۔ نیز جب صاحب زکوۃ (جو حاجت اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کا مالک ہو) پر ایک پورا سال ہوجائے تو وہ فورا سے اپنی زکوۃ کو خود مستحقین تک پہنچائے۔ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ۱ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ تم فرماؤ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ کا رزق سب سے اچھا [سورہ جمعہ آیت۹] (۸)قرض دے یا لے تو اس کو لکھ لے اور اس پر گواہ بھی بنالے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہ اے ایمان والوں جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو (سورہ بقرہ آیت۲۸۲) اور قرض لیتے یا دیتے وقت گواہ بھی بنا لینے چاہیے اور اس کو لکھ بھی لینا چاہیے تاکہ کوئی بھول نہ جائے نیز اگر طویل عرصہ کے لئے ادھار دیا جارہا ہو جیسے کہ دوکان کرائے پر لی جاتی ہے تو ایڈوانس کے نام پر ادھار دیا جاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ کسی مستحکم کرنسی (مثلا پاؤنڈ ،ڈالر وغیرہ) میں دیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بیس سال بعد بھی آپ اپنی رقم واپس لیں گے تو اس سے ویلیو (قوت خرید) زیادہ کم نہیں ہوگی اور اگر روپے میں آپ ادھار دیں گے تو آج آپ پچاس ہزار دیں گے تو اس کی مارکیٹ ویلیو(قوت خرید) کچھ اور ہوگی اور بیس سال بعد اس پچاس ہزار کی مارکیٹ ویلیو(قوت خرید) کچھ اور ہوگی یعنی بہت زیادہ تفاوت ہوگا جبکہ اگر ڈالر میں یہ رقم دی گئی ہو تو زیادہ فرق نہیں آئے گا۔اورقرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینا یاقرض کا جزو یا کل معاف کردینا سبب اجرِ عظیم ہے وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بہترہے اگر جانو (سورہ بقرہ آیت۲۸۰) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو تنگدست پر آسانی کرئے گا اﷲ تعالی اس کے لئے دنیا وآخرت دونوں میں آسانی کرئے گا (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۴۱۷) حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو یہ ٍ چاہتاہے کہ اس کی دعائیں مقبول ہوں اور اس کی تکالیف دور ہوں پس اسے چاہیے کہ وہ تنگدست کے لئے آسانی کرئے (مسند احمد حدیث نمبر۴۸۵۲) (۱)۱ا مختصر سوالات وجوابات (۲)خیر وبرکت کے وظائف سوال نمبر ۱ :کسی چیز کونقد کم قیمت پر اور ادھار زیادہ قیمت پر بیچنا کیسا ہے الجواب :نقد اور ادھار قیمتوں میں میں فرق کو فقہاء کرام نے درست بیان فرمایا ہے یعنی بیچنے والے کو اختیا ر ہے کہ وہ نقد چیز کم پیسوں میں ادھار زیادہ ہ پیسوں میں فروخت کرئے لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ خریدار کے جدا ہونے سے پہلے بیچنے والا ایک رقم مقرر کردے اور یہ شرط نہ لگائے کہ اگر تم نے پیسوں میں تاخیر کی تو تم پر کچھ جرمانہ لگایا جائے گا نیز ادھار بیچنے میں سود کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص دو ماہ کے ادھار پر کوئی چیز ۲۰۰ کی خریدے اور پھر دو ماہ گزر جانے کے بعد وہ یہ کہے کہ تم مجھ سے ۲۰۰ کے بجائے ۴۰۰ لے لینا مگر اب میں تمہیں اب مزید دو ماہ بعد قیمت ادا کروں گا سوال نمبر ۲: ڈاکٹر حضرات کو جو دوائیں اس طور پر دی جاتیں ہیں کہ وہ بغیر معاوضہ لئے مریضوں کو لگائے یا دے انہیں بیچنا کیسا ہے الجواب ناجائز ہے کہ مذکورہ کپنی نے ڈاکٹر کو بغیر معاضہ کے دوا دینے کا وکیل بنایا ہے لہذا ڈاکٹراسے بیچ کر اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتا سوال نمبر ۳:سنار کو دو تولہ کی ۶چوڑیا ں دیں اوراس کے بدلے میں دو تولے کے ہی دوکڑے لئے اور کچھ پیسے بھی دیئے تو کیا یہ جائز ہے الجواب یہ ناجائز و سود ہے سونے کو سونے سے یا چاندی کی چاندی سے خرید وفروخت ہو توبرابر برا بر اور نقد ہونی چاہیے کہ کمی بیشی اور ادھار دونوں ناجائز ہے . یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً۱ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے اور اُس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہے (سورۃ العمران آیت ۱۳۰) قاعدہ: جب دونوں اشیاء ایک جنس ہو(سونے کی سونے ، چاندی کی چاندی اورگندم کی گندم سے خریدو فروخت ہو یعنی دونوں ایک ہی طرح کی چیز ہو) اور قدر بھی ایک ہو(یعنی وہ دونوں اشیاء یا توماپ سے یا وزن سے بکنے والی ہو) تو ادھار بیچنا اور کمی بیشی کے ساتھ بیچنا دونوں ہی ناجائز ہے اور اگر جنس ایک ہو مگر قدر ایک نہ ہو مثلا عدد کے سا تھ بکنے والی اشیاء جیسے انڈے کو انڈے سے فروخت کرنا تو کمی بیشی جائز ہے مگر ادھار ناجائز ہے یعنی دس انڈوں کو پندرہ انڈوں سے ہاتھوں ہاتھ خریدنا جائز اور ادھار ناجائز ہے اور اگر جنس اور قدر دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں جیسے کہ گندم کو سونے سے خریدنا یا ڈالر کو روپیہ سے خریدنا تو جنس بھی مختلف ہیں اور قدر(ماپ یا وزن) بھی مختلف یا سرے سے قدر ہے ہی نہیں(یعنی نہ ماپ سے اور نہ ہی وزن سے بکنے والی ہو) لہذا اس اصول کو یاد رکھا جائے سوال نمبر ۴ :نوٹ کی نوٹ کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدو فروخت جائز ہے الجواب جائز ہے مگر ادھار ناجائز ہے کہ جنس ایک ہے اور اگر جنس مختلف ہو ں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں مثلا ڈالر کو روپوں سے ادھار خریدنا جائز ہے سوال نمبر ۵: جانور مر گیا اس کی چمڑی بیچنا جائز ہے یا نہیں الجواب اگر اس کی چمڑی کی دباغت کردی پھر بیچا تو جائز ہے ا ور اگر کھال بھی نہیں اتاری یا کھال اتار تو لی ہے مگر اس کی دباغت نہیں کی تو یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں دباغت یہ ہے کہ چمڑے کو سکھا لیا جائے خواہ دھوپ میںیا نمک لگا کر سکھا لیا جائے یا کسی بھی طریقے سے چمڑے کو سکھا لیا جائے اور اس کی تمام رطوبت ختم ہو جائے اور بدبو بھی جاتی رہے سوال نمبر ۶: بیع (خرید وفروخت)نہ ہونے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرنا کیسا ہے الجواب بیعانہ ضبط کر لینا حرام وناجائز کام ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ 29. اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو(سورہ النساء آیت ۲۹) سوال نمبر ۷: کھڑی فصل اس شرط پر خریدنا کہ جب تک فصل تیار نہ ہوجائے کاٹی نہیں جائے گی الجواب بیع فاسدہے کہ بیع (خریدوفروخت) میں ہر وہ شرط کہ عقد جس کا تقاضہ نہ کرئے( ایسی شرط کہ بیچنے والے یا خریدنے والے میں سے کسی ایک کا فائدہ ہو) وہ شرط فاسد ہے نبی کریم ﷺ نے بیع اور شرط کو جمع کرنے سے منع فرما یا ہے لہذا اس کے جواز کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے فصل کو خرید لیا جائے پھر یا تو مالک زمین خود اپنی رضا سے فصل کو زمین پر رہنے دے یا پھر زمین کو کرایے پر لے لے سوال نمبر ۸: سرسوں کے بیج اس طرح خریدے کہ ان کی قیمت پہلے ادا کردی اور مال دو ماہ بعد ملے گا کیا یہ جائز ہے الجواب یہ بیع سلم کی صورت ہے کہ جس میں ثمن(یعنی قیمت) پہلے ادا کردی جاتی ہے اور مبیع(جو چیز خریدی جارہی ہے یعنی سامان)کچھ مدت بعد دی جاتی ہے تو اگر بیع سلم کی تمام شرائط پائی گئیں تو یہ جائز ہے ورنہ ناجائز ہے ۔ بیع سلم کی شرائط (۱)جنس کو بیان کرنا یعنی کیا خریدنا ہے گندم ، جو،باجرا ،سرسوں کے بیج وغیرہ(۲)نوع کو بیان کرنا مثلا سرخ گیہوں یا سفید گیہوں(۳)بیان صفت مثلا اچھی گیہوں یا خراب گیہوں(۴)قیمت بیان کرئے اور چیز کی مقدار بھی بیان کرئے کہ اتنے من گیہوں اتنے روپے میں لوں گا (۵) مدت بیان کرئے کہ کتنے ماہ میں چاہیے اور مدت ایک ماہ سے کم نہیں ہونی چاہیے (۶)اس جگہ کو بھی بیان کرئے جہاں پر وہ سامان بیچنے والا خریدار کو دیگا اور یہ اس وقت ہے جبکہ سامان ایسا ہو کہ جس کی بار برداری صرف کرنی پڑتی ہو (۷)اسی مجلس میں خریدار اس مال کی تمام قیمت بھی ادا کردے سوال نمبر ۹:کیااس طرح کاروبار کے لئے مال دینا جائز ہے یا نہیں کہ مجھے دس ہزار روپے ہر ماہ دیتے رہنا اور اس کے علاوہ جتنا بھی نفع ہو وہ تمہارا ہے الجواب ایسا کرنا جائز نہیں کہ یہ حرام وسود کی صورت ہے سوال نمبر ۱۰:زید نے ایک لاکھ روپے کی بیسی(کمیٹی)ڈالی جس میں ماہانہ ۴ہزار روپے دینے ہیں زید کی بیسی کا نمبر ۱۸ ہے اور بکر کی بیسی کا نمبر ۲ ہے زید کو ابھی کاروبار کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے لہذ اس نے بکر کو کہا کہ آپ مجھے دوسر ا نمبر دیدو اور میرا نمبر آپ لے لیں اور میں آپ کو ۵ہزار روپے زائد دوں گا کیا یہ جائز ہے الجواب یہ ناجائز و سود ہے کہ یا تو زید نے بکر سے یہ رقم قرض کے طور پرلی ہے اور قرض پر نفع لینا سود ہے یا روپوں کی روپوں سے خریدو فروخت کی ہے اور جب جنس ایک ہو تو ادھار ناجائز ہوتی ہے اور یہاں پر ادھارہے لہذا یہ ناجائز ہے سوال نمبر ۱۱ ایک موٹر سائیکل کی اسکیم ہے کہ ۵۰ لوگ اس کے ممبر ہوتے ہیں اور آپ۲۵ماہ تک ہر مہینے ۲ ہزار روپے جمع کرواتے رہیں اور ہر ماہ کے آکر میں قرعہ اندازی ہوگی جس کی پرچی نکل آئی وہ باقی ماہ لاٹری نہیں بھرے گا اور اسے اسی وقت بائیک دیدی جاتی ہے اوراس طر ح اسے دو ہزار میں بائیک مل گئی پھر دوسرے ماہ بھی اسی طرح پرچی ڈالی جاتی ہے جس کا نام نکلتا جائے گا س کو بائیک ملتی جائے گی اور وہ لاٹری بھرنا چھوڑ دے گا اس طرح ۲۵ ماہ تک ہوتا ہے پھر جب ۲۵ ماہ مکمل ہوجاتے ہیں تو سب کو بائیک دیدی جاتیں ہیں اور انہیں یہ بائیک ۵۰ہزار کی پڑتی ہے کیا یہ طریقہ درست ہے الجواب مذکورہ طریقہ ناجائز ہے کہ اس میں مبیع (بائیک) کی قیمت مجہول (معلوم نہیں )ہے کہ کسی کو ۵۰ ہزار کی پڑتی ہے اورکسی کو ۲ ہزار کی اور اگریہ مان بھی لیا جائے کہ بیچنے والے نے سب کو اس کی قیمت بتا دی ہے کہ میں تم کو یہ چیز ۵۰ ہزار میں فروخت کروں گا اور پھر جس کا پرچی میں نام نکل آتاہے اسے باقی رقم معاف کردیتا ہوں تو بھی یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ ادھار بیع ہے اور ادھار بیع کا حکم یہ ہے کہ مبیع(سامان،بائیک) کو خریدار کے فورا حوالے کرنا لازم ہے اور یہاں پر اکثر کو۲۵ ماہ سے پہلے بائیک نہیں ملتی ہے لہذا یہ طریقہ جائز نہیں ہے ۔ کاروبار اور اپنی روزی میں برکت کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم رزاق وقہار عزوجل کے بتائے ہوئے تجارتی اصولوں کو اپنائے اور یہ ہی کاروبار اور روزی میں برکت کا وظیفہ ہے اور ناصرف کاروبا ر و روزی میں برکت کا وظیفہ ہے بلکہ زندگی کے ہر گوشہ میں کامیابی کا وظیفہ ہے ان اصولوں پر عمل کرنے کے بعد کسی اضافی وظیفے کی حاجت نہیں رہے گی ان شا ء اللہ عزوجل لیکن پھر بھی کوئی شخص خیر میں اضافہ چاہتا ہے تو ان اصولوں کو اپنانے کے بعد وہ یہ وظیفہ پڑھے گا تو انشا ء اللہ کاروبار میں مزید برکت ہوگی یا رزاق فجر کی نماز اور عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ۱۰۰ مرتبہ اول آخر درود پاک کے ساتھ پڑھیں اور سورہ اخلاص و سورۃ الفلق اور سورۃ الناس درست قواعد کے ساتھ گھر میں داخل ہونے کے فورا بعد ایک ایک مرتبہ پڑھیں والسلام مع الاکرام ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری AddThis Sharing Buttons Share to Email Share to TwitterShare to MessengerShare to WhatsAppShare to Facebook
  5. Zaeef-Hadees-aur-Ghair-Muqalideen.pdf Download link : http://www.ja-alhaq.com/wp-content/uploads/2015/02/Zaeef-Hadees-aur-Ghair-Muqalideen.pdf Article: https://zafarulqadribakharvi.blogspot.com/2018/03/blog-post_75.html
  6. احادیثُ الموضوعہ فی فضائلِ معاویہ – قاری ظہور احمد فیضی ka jawab 1.Alswarim Ul Heyderia Ala Taain E Ameer Muawia / الصوارم الحیدریۃ علی منحر طاعن معاویۃ https://archive.org/details/alswarimulheyderiaalataaineameermuawia/page/n13/mode/2up 2. Alhadees il Rawiyya Li Madhi Ameer e Muavia Fazail E Sayyiduna Ameer E Muavia / الاحادیث الراویۃ لمدح الامیر معاویۃ by علامہ ظفر القادری بکھروی https://archive.org/details/2019_20190922_201909 PDF download: https://ia601005.us.archive.org/10/items/fazailesayyidunaameeremuavia/Fazail e Sayyiduna Ameer e Muavia.pdf قاری ظہور فیضی کے نزدیک معیار صرف بغض معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے
  7. Alhadees il Rawiyya Li Madhi Ameer e Muavia Fazail E Sayyiduna Ameer E Muavia / الاحادیث الراویۃ لمدح الامیر معاویۃ by علامہ ظفر القادری بکھروی https://archive.org/details/2019_20190922_201909 PDF download: https://ia601005.us.archive.org/10/items/fazailesayyidunaameeremuavia/Fazail e Sayyiduna Ameer e Muavia.pdf Qari Zahoor Ahmad Faizi Kay Jawab Main Likhi Gayi Books
  8. ان سے ملئے ۔۔۔۔۔۔۔ In say mileay آغا شورش کاشمیری
  9. Molvi Islami dehlvi saahib syed ahmad sahib kay hi mureed thay. aor bad nam e zamana kitab 'Sirat e mustaqeem' hay wo wahabion kay mutabiq syed Ahmad kay hi aqwal hain. halankeh iski daleel koi naheen, phir bhi wahabi hazrat kay nazdeek yeh unhi ki kitab hay iskay ilawa Syed Ahmad Barailwi K Fsana-E-Jihad Ki Haqeeqat. yeh book bhi dekhain, link end par diya hay Sirat e mustaqeem ki kufria ibarat:
  10. topic say hat kr aik bat, Mateen Khalid sahib deobandi hain? wo ittehad k daayi hain, unhon nay apni kutub main Alahazrat ki naatain aor meelad par tahareer shamil ki hain. yeh bat thik hy k deobndi ulama ki bahut taharir likhi hain but deobandi gustakhana ibarat ka difa un say sabit nahi hay... lihaza aesay logon par deobandiat ka label drust nahi yeh aap unki tahrir khud hi dekh lain, kitab 'بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں '' par post ki hay sath hi Ahmad Tarazi sahib ki post bhi dekhain
  11. Jnab yeh forum default font size to bara krain, har dafa likh kar select kar kay font bada karna padta hay Default font size kam az kam 24 krain. Shukriya @سگِ عطار
  12. lm E Wajoh Ul Quran Ke Tanazur Me Kanzzuliman Ka Mutalia / علم وجوہ القرآن کے تناظر میں کنزالایمان کا مطالعہ by پروفیسر دلاور خان Ilm e Wajoh ul Quran Ke Tanazur Me Kanzzuliman.pdf
  13. خیر اندیش

    .ataunnabi.com

    https://www.ataunnabi.com
  14. https://urdumehfil.net/dora-e-tafseer-ul-quran-دورہ-تفسیر-القرآن-مکمل/ Khushgawar Zindagi Complete Tafseer E Quran Audio Khushgawar Zindagi Mufassir : Mufti Asif Abdullah Qadri 577 Clips Just one Zip File خوشگوار زندگی مکمل تفسیر قرآن آڈیو ایم پی تھری مفتی آصف عبداللہ قادری 2. ALLAMA HAFIZ MUHAMMAD AKBAR علامہ حافظ محمد اکبر
  15. الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد http://www.alahazratnetwork.org/data/01-alahazrat_books/01B-alahazrat_books_pdf/227-AlistimdadAlaIjyalilIrtidad.pdf
  16. Dawateislami Thalassemia Kay Mareezon Kay Liye 17500 Zaaid Blood Bag Jama Kar Chuki Hai International Religious Organization Dawat-e-Islami organized many blood donation camps for the children those were affected by Thalassemia. On this occasion, a large number of volunteers donated blood.
  17. آپ مولانا الیاس قادری سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ کو ان کے کچھ طریقوں پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے، آپ کا مسلک بھی ان کے مسلک سے مختلف ہو سکتا ہے ان سب کے باوجود ایک بات ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ اس بندے کے لاکھوں مرید ہیں، لاکھوں لوگ ان پر جان نچھاور کرتے ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ لیکن مجال ہے اتنی طاقت، اتنی فالوئنگ ہونے کے باوجود اس بندے نے کبھی شیشہ توڑا ہو، کبھی ہڑتال کی ہو، کبھی ہنگامہ کیا ہو، کبھی حکومت کو دھمکایا، بلیک میل کیا ہو۔ اس شخص کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا بڑا سے بڑا سیاسی لیڈر ان کے در پر ماتھا ٹیکنے کے لیے تیار ہوجائے، وزیرِ اعظم و صدر انہیں اپنے ایوانوں میں بلانے کو اعزاز سمجھیں لیکن مجال ہو اس بندے نے کبھی کسی طاقت اور حکومت کی لالچ کی ہو، سودے بازی کی ہو، ناجائز فائدہ اٹھایا ہو۔ انہوں نے حکم دیا تھیلیسمیا کے بچوں کو خون دو ان کے چاہنے والے دور کر ہزاروں بوتلیں ڈونیٹ کر آئے یہاں تک کہ فلاحی اداروں کو کہنا پڑا بہت خون ہوگیا اب ضرورت نہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف میمز بھی بنتی ہیں اور مہم بھی چلتی ہے، ان کے پاس چینل ہے، بہترین آئی ٹی کی پروفیشنل ٹیم ہے اور پیجز پر لاکھوں لائکس۔ سب جانتے ہیں کی بورڈ کا پاور کیا ہوتا ہے یہ چاہیں تو اپنے چاہنے والوں کو دوسروں کی کردار کُشی پر لگا دیں، انہیں پیسے بھی نہیں دینے پڑینگے بس ایک حکم دینے کی دیر ہے چاہت انسان سے کیا کچھ نہیں کروا سکتی؟ میں نے اور پیر، فقیر اور مولوی دیکھے ہیں جن کی فالائنگ ہے اور وہ اس فالائنگ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس شخص کے فوج میں، عدلیہ میں، پولیس میں، بیروکریسی میں، سیاست میں ہر جگہ مرید اور چاہنے والے ہیں حرام ہو کبھی انہوں نے کسی سے کوئی فائدہ اٹھایا ہو۔ قلندری مزاج اور کیا ہوتا ہے؟ منقول
  18. Lockdown has closed traditional places of worship. But it does not mean they cannot still be at the centre of the good work in the community. The Faizan e Madinah mosque in Cheviot Road, Langley is working with members of the charity Dawateislami UK to ease peoples's burden during the COVID-19 lockdown. Every day between 7pm and 8pm during Ramadan a small team of volunteers will be distributing free hot meals to people of all faiths outside the mosque - the police and nearby firefighters have already been included among the grateful customers. They can just drive through and are asked not get out of their cars while volunteers wearing face masks and gloves hand the food over. Two other projects running simultaneously from the mosque include the handing out of free bread and milk to people in need Mondays, Wednesdays and Fridays between 6pm and 7pm. While free food packages are also being delivered to peoples' doors - just call 07428 776482 to name a family or person who could use the service or to ask to use it. Social distancing is being carefully maintained in all cases. Waqas Choudhery from the Faizan e Madinah mosque said: "It is all done within Government social distancing guidelines." جب کرونا وائرس اس ملک میں پھیلا باقی ایک دوسرے پر کرونا پھیلانے کے الزامات لگاتے رہے ... کئی منہ سے جھاگ اڑاتے ایران ایران تو کئی سعودیہ سعودیہ چلاتے رہے ... ایسے وقت میں یہ بندہ تمام مسلکی بحثوں سے پرے اپنی دھن میں مگن کسی پر الزام لگانے کے بجائے حکومتی اقدامات کی تائید کرتا رہا... غریبوں کی خبر گیری کرتا رہا... محتاجوں کا سہارا بنتا رہا... آپ مزاق اڑا سکتے ہیں , بدعت بدعت کی صدائیں بلند کرسکتے ہیں, تنقید کرسکتے ہیں , حلیے کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ نے سیکھا ہی یہی ہے... مگر یہ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصہ میں دعوت اسلامی تمام مزہبی جماعتوں سے بازی لے گئی اسکا کردار بہت مثبت نظر آیا ... دعوت اسلامی نے تمام ہفتہ وار مہینہ وار اجتماعات کینسل کردیئے... جبکہ جمعہ کے اجتماع مختصر کردیئے... ناں کبھی یہودی حکومت جیسے نعرے بلند کیئے... یہی نہیں ... جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھیلسمیا کے مریض بچوں کو خون ڈونیشن کا مسئلہ درپیش آیا تو خون عطیہ کرنے کے لئے بھی دعوت اسلامی ہی سب سے پہلے آگے آئی ... اور آٹھ ہزار سے زائد خون کی بوتلیں عطیہ کردیں... اس کے علاوہ دعوت اسلامی اس وقت تک صرف کراچی میں لاک ڈاؤن کے دوران أن ریکارڈ کئی لاکھ گھروں تک راشن پہنچا چکی ہے... اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے... آپ تنقید کیجیئے , آپ مزاق اڑائیے , آپ بدعت بدعت کی صدا بلند کیجیئے... آپ آپسی فرقہ فرقہ کی لڑائی جاری رکھیئے... مگر یہ حقیقت ہے کہ الیاس قادری آپ سب سے بازی لے گیا
  19. خیر اندیش

    Ertugrul - Short Story- Chiragh Hasan Hasrat

    Ertuğrul ارطغرل چراغ حسن حسرت علامہ اقبالؒ کی وفات سے چند ماہ قبل، جون 1937ء کا کوئی دن تھا جب چراغ حسن حسرت جاوید منزل میں حاضر تھے، ان کے ساتھ عبدالمجید سالک اور احمد ندیم قاسمی بھی تھے۔ دورانِ گفتگو علامہ اقبالؒ نے اس بات کا اظہار کیا کہ : ”کچھ عرصہ سے یورپ میں سوانح نگاری کا ایک نیا انداز مقبول ہو رہا ہے یعنی سوانح نگار جس شخص کے حالات لکھنے بیٹھتا ہے، اس کی عادات و خیالات کو اس انداز میں بیان کر دیتا ہے کہ تصور کی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے۔اردو میں اس انداز کی کتابیں ابھی نہیں لکھی گئیں۔ اگر کوئی خدا کا بندہ اس کام کا بیڑا اُٹھائے اور مسلمان فرماں رواﺅں ، عالموں ، شاعروں اور ادیبوں کے حالات سیدھی سادی زبان میں اس طرح بیان کردیے جائیں کہ عام لوگ بھی انھیں ذوق وشوق سے پڑھیں ۔ یہ اُردو کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔“ [چراغ حسن حسرت،اقبال نامہ،لاہور، تاج کمپنی،س۔ن،ص۵] علامہ صاحب کی اسی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حسرت صاحب نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ، بالخصوص بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تاریخی، اسلامی، اخلاقی اور سوانحی کتابچے تحریر کیے۔ انھی میں سے ایک "ارطغرل" بھی ہے۔ 23 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ تقریباً 80 برس قبل لکھا گیا جس کی اشاعت بعد میں نیشنل بک فائونڈیشن سے بھی ہوئی۔ "ارطغرل" کے حقیقی اور تاریخی کردار کو چراغ حسن حسرت صاحب کے قلم سے دیکھیے، مختصر مگر جامع۔ ارطغرل چراغ حسن حسرت.pdf
×
×
  • Create New...