Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'حدیث کی تحقیق'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. اس روایت کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے مولا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کرکے بیان کیا مسند الفردوس میں حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ نے امام دیلمی سے اس کی سند بیان کی قال أبو عبد الرحمن السلمي حدثنا محمد بن مالك التميمي بمرو حدثنا أبو منصور الرباطي حدثنا محمد بن نهشل بن حميد حدثنا عبد الله بن رجاء عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن الحارثعن علي رفعه "يأتي على الناس زمان همتهم بطونهم، وشرفهم متاعهم، وقبلتهم نساؤهم، ودينهم دارهم ودنانيرهم، أولئك شر الخلق، لا خلاق لهم عند الله" ( كتاب زهر الفردوس 8/335 ) ترجمہ :- لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا اور دولت ان کی عزت ھوگی عورت انکا قبلہ ھوگا روپیہ انکا دین ہوگا وہ بدترین لوگ ہوں گے آخرت میں اللہ کے نزدیک ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا یہ روایت شدید ضعیف و ساقط ہے اور ظلمات میں سے ہے اس کو فضائل کے باب میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا اس کی سند میں *"الحارث بن عبد الله الأعور"* متھم بالکذب ہے ( كتاب تهذيب التهذيب 2/145 ) اسی طرح سند میں *"أبو عبد الرحمن السلمي"* بھی متھم ہے ( كتاب سير أعلام النبلاء - ط الرسالة 17/252 ) باقی سند میں عبد الله بن رجاء تک سارے مجھول ہیں ہمیں یہ روایت کسی دوسری سند سے نہیں ملی فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
  2. اس کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے مسند الفردوس میں روایت کیا اور امام دیلمی سے اس کو باسند شیخ الاسلام حافظ ابن حجرعسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے نقل کیا قال: أنا حمد بن نصر أنا الميداني نا محمد بن يحيى العاصمي نا أحمد بن إبراهيم البعولي نا أبو علي بن الأشعث، نا سريج بن عبد الكريم، نا جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل في كتاب "العروس" نا الوليد بن مسلم، نا محمد بن راشد، عن مكحول عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "ذكر الأنبياء من العبادة وذكر الصالحين كفارة الذنوب وذكر الموت صدقة، وذكر النار من الجهاد وذكر القبر يقربكم من الجنة وذكر القيامة يباعدكم من النار، وأفضل العبادة ترك الحيل، ورأس مال العالم ترك الكبر، وثمن الجنة ترك الحسد، والندامة من الذنوب التوبة الصادقة" ( كتاب زهر الفردوس 4/538/39 ) ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 ) ترجمہ :- حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء کا ذکر عبادت ہے صالحین کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے موت کا ذکر صدقہ ہے اور جہنم کا ذکر جہاد میں سے ہے اور قبر کا ذکر تمہیں جنت کے قریب کردیتا ہے اور قیامت کا ذکر تمہیں جہنم سے دور کر دیتا ہے بہترین عبادت چالوں ( حیلے بہانوں ) کا ترک کرنا ہے، دنیا کا سرمایہ تکبر کو ترک کرنا ہے اور جنت کی قیمت حسد کا ترک کرنا ہے اور گناہوں پر ندامت سچی توبہ ہے ➊ : جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل متھم بالوضع ہے اس کے بارے میں امام ابو عبداللّہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وضع الحديث على الثقات" یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے ( المدخل إلى الصحیح :- 31 ) ➋ : محمد بن محمد بن الأشعث أبو الحسن الكوفي یہ رافضی احادیث گھڑنے والا راوی ہے امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے کتاب العلویات کو گھڑا ہے ( سؤالات السهمي :- 52 ) امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں میں نے اس سے ایک نسخہ لکھا جو تقریباً ایک ہزار روایات پر مشتمل تھا اور وہ ساری مناکیر ( یعنی باطل ) ہیں پھر آگے فرماتے ہیں اور اس پر اس نسخہ کو گھڑنے کا الزام ہے پھر فرماتے ہیں مجھے اس نسخے میں موجود روایات کی کوئی اصل نہیں ملی ( الكامل لابن عدي 6/351 ) لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا کیونکہ آپ اس کو اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں لائے جس کے مقدمے میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ آپ اس میں وہ موضوع روایات لائیں گے جو ابن الجوزی رحمہ اللہ الموضوعات میں نہیں لائے ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 و مقدمة الكتاب ص31 ) اس روایت کو امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 2/396 ) لہذا اس روایت کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  3. اس کو احیاء العلوم میں ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرکے نقل کیا پوسٹر میں بھی تخریج احیاءالعلوم مرتضی زبیدی کا حوالہ ہے فقد روي عن ابن عباس وأبي هريرة رضي الله عنهما إن من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أو ليلة الجمعة أو يوم الجمعة أعطي نورا من حيث يقرؤها إلى مكة وغفر له إلى يوم الجمعة الأخرى وفضل ثلاثة أيام وصلى عليه سبعون ألف ملك حتى يصح وعوفي من الداء والدبيلة وذات الجنب والبرص والجذام وفتنة الدجال ابن عباس اور ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جو شخص شب جمعہ یا جمعہ کے روز سورہ کہف کی تلاوت کرتا ہے اسے ایک نور عطا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ پڑھتا ہے وہاں سے لے کر مکہ مکرمہ تک اگلے جمعہ تک کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں بلکہ تین دن زائد کے بھی ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اسے پیٹ کے پھوڑے برص پہلو کے درد کوڑھ کے مرض اور دجال کے فتنے سے محفوظ کر دیا جاتا ( كتاب إحياء علوم الدين 1/187 ) اس کو انہی الفاظ کے ساتھ باسند امام سیوطی نے الزیادات علی الموضوعات میں اور المستغفری نے فضائل القرآن میں روایت کیا دونوں کی سند ایک ہی ہے الديلمي: أخبرنا حمد بن نصر أخبرنا أبو طالب بن الصباح أخبرنا محمد بن عمر أخبرنا إبراهيم بن محمد حدثنا الحسين بن القاسم حدثنا إسماعيل بن أبي زياد عن ابن جريج عن عطاء عن أبي هريرة وعن ابن عباس مرفوعا: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أعطي نورا من حيث قرأها إلى مكة، وغفر له إلى الجمعة الأخرى وفضل ثلاثة أيام، وصلى عليه سبعون ألف ملك حتى يصبح، وعوفي من الداء والدبيلة وذات الجنب والبرص والجذام والجنون وفتنة الدجال امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں إسماعيل كذاب، والحسين وإبراهيم مجروحان اس کی سند میں اسماعیل بن ابی زیاد جھوٹا راوی ہے اور حسین بن قاسم اور ابراہیم بن محمد دونوں مجروح ہیں ( كتاب الزيادات على الموضوعات 1/131 ) ( كتاب فضائل القرآن للمستغفري 2/562 ) نوٹ :- امام سیوطی کا اس روایت کو " زیادات " میں لانا ان کے نزدیک اس کے موضوع ہونے کی دلیل ہے جیسا کہ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں تصریح کی ہے . سند میں "إسماعيل بن زياد السكوني" کذاب یضع الحدیث ہے اس کے بارے میں آئمہ کا کلام درج ذیل ہے 1 : امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں شيخ دجال، یہ دجال ( جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے والا ) شیخ تھا ( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 1/138 ) 2 : امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں يضع كذاب متروك ( كتاب الضعفاء والمتروكون للدارقطني 1/256 ) 3 : امام ذہبی رحمہ اللہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں قال ابن معين: كذاب متروك يضع ( كتاب تاريخ الإسلام - ت بشار 4/581 ) 4 : امام سبط ابن العجمی نے اس کو دجال قرار دیا امام ابن حجر نے متروک و کذبوہ اور امام ابو طاہر پٹنی نے کذاب رحمہمُ اللہ تعالیٰ ( الكشف الحثيث ص69 ) ( تقريب التهذيب :- 450 ) ( كتاب تذكرة ص78 ) لہذا خلاصہ یہ کہ ثابت ہوا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موضوع ہے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو موضوع قرار دیا ( كتاب الفوائد المجموعة :- 43 ) البتہ صحیح مسلم شریف میں صحیح حدیث ہے : من حفِظ عشرَ آياتٍ من أولِ سورةِ الكهفِ ، عُصِمَ من الدَّجَّالِ جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچا لیا جائے گا صحیح مسلم :- 809 اسی طرح عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه؛ أنَّ النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: "مَن قرأ سورةَ {الكهف} في يومِ الجمعةِ؛ أضاء له من النور ما بين الجمعتين" رواه النسائي، والبيهقي مرفوعاً، والحاكم مرفوعاً وموقوفاً أيضاً، وقال: "صحيح الإسناد" حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جمعہ کے دن سورة الکہف پڑھے اس کیلئے دونوں جمعوں (یعنی اگلے جمعے تک) کے درمیان ایک نور روشن کردیا جائے گا اسے امام نسائی اور امام بیہقی نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور امام حاکم نے مرفوعاً و موقوفاً دونوں طریقے سے اور امام حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ( كتاب صحيح الترغيب والترهيب 1/455 ) ایسے ہی ایک اور صحیح روایت میں آیا ہے «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ» حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے كتاب مسند الدارمي - ت حسين أسد :- 3450 اسی طرح درجنوں صحیح احادیث اور روایات موجود ہیں لہذا موضوع اور شدید ضعیف روایات کے بجائے صحیح احادیث کی اشاعت بھی کی جائے اور ان پر عمل بھی کیا جائے فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  4. یہ ایک موضوع ( منگھڑت ) روایت ہے اس کو امام الحسن الخلال نے فضائل سورہ اخلاص میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان، ثنا عبد الله بن عامر الطائي، حدثني أبي، ثنا علي بن موسى، عن أبيه، موسى، عن أبيه، جعفر، عن أبيه، محمد، عن أبيه، علي، عن أبيه الحسين، عن أبيه علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات» كتاب فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال :- 54 ترجمہ :- علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کے اس کا ثواب مردوں کو ایصال کرے تو اس کو ان مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا اس سند عبد الله بن عامر الطائي ہے یہ خود تو متھم بالوضع ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے لیکن اس پر خاص جرح بھی ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے والد کے واسطہ سے امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹا نسخہ بیان کیا ہے چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبد الله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه ( كتاب ميزان الاعتدال :- 4200 ) یعنی عبداللہ نے اپنے والد کے واسطے سے امام علی رضا اور انکے آباؤ اجداد یعنی اہل بیت سے ایک جھوٹا نسخہ باطل نسخہ روایت کیا ہے امام ذہبی فرماتے ہیں یا تو اس نے اس نسخے کو گھڑا ہے یا اس کے باپ نے اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں نقل کیا جو ان کے نزدیک اس روایت کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتا ہے ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/577 ) اس کو دوسری سند کے ساتھ امام الرافعی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ( كتاب التدوين في أخبار قزوين 2/297 ) لیکن اس سند میں بھی داؤد بن سليمان الغازي ہے یہ راوی بھی کذاب ہے اور اس نے بھی ایک گڑھا ہوا نسخہ بیان کیا ہے امام علی رضا رضی اللہ عنہ سے اس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے کذاب قرار دیا كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا امام ذہبی فرماتے ہیں اسے یحییٰ بن معین نے کذاب قرار دیا امام ابوحاتم نے کہا میں اسے نہیں جانتا اور امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا شخص ہے جس کے پاس امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر گھڑا ہوا نسخہ تھا ( كتاب ميزان الاعتدال 2/8 ) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 3/397 ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی روایت ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  5. یہ ایک موضوع روایت ہے جو کئی کتب احادیث میں موجود ہے درج ذیل سند کے ساتھ ..... يحيى بن زهدم، عن أبيه، حدثني أبي عن أنس بن مالك قال قال رسول الله ...... ( كتاب شعب الإيمان - ط الرشد 11/426 ) ( كتاب الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني 1/369 ) ( كتاب المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط 3/106 ) ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/204 ) روایت کا متن اس طرح ہے لا تكرهوا أربعة فإنها لأربعة لا تكرهوا الرمد فإنه يقطع عروق العمى ولا تكرهوا الزكام فإنه يقطع عروق الجذام ولا تكرهوا السعال فإنه يقطع عروق الفالج ولا تكرهوا الدماميل فإنها تقطع عروق البرص چار چیزوں کو چار وجہ سے برا مت جانو آشوب چشم کو برا مت جانو کیوں کہ وہ بینائی کی جڑ کاٹتی ہے زکام کو برا مت جانو کیوں کہ وہ جذام کی جڑ کاٹتا ہے کھانسی کو برا مت کہو کیونکہ وہ فالج کی جڑ کاٹتی ہے چہرے کے دانوں کو برا مت جانو کیوں کے وہ برس کی جڑ کاٹتے ہیں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ اپنی الموضوعات میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں : هذا حديث موضوع قال ابن حبان: يحيى عن أبيه نسخة موضوعة لا يحل كتبها إلا على التعجب یہ حدیث موضوع منگھڑت ہے امام ابن حبان نے فرمایا یحیی بن زھدم نے اپنے باپ سے جھوٹی روایات کا نسخہ روایت کیا اس کی روایت کتابوں میں لکھنا جائز نہیں ما سوائے تعجب کہ شیخ الاسلام امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں هذا باطل یہ ایک جھوٹی روایت ہے ( كتاب لسان الميزان 6/255 ) دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یحیی بن زھدم فی نفسہ تو صدوق ہے لیکن اس نے اپنے باپ سے زهدم بن الحارث سے موضوع روایات کا ایک نسخہ روایت کیا لہذا اس کے باپ سے اس کی روایات جھوٹی شمار ہوں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر اور امام ابن الجوزی کا حکم واضح ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کا تذکرہ کیا : يحيى بن زهدم الغفاري له نسخة موضوعة عن أبيه عن جده عن أنس ( تلخيص كتاب الموضوعات :- 895 ) لہذا اس جھوٹی روایت کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
×
×
  • Create New...