Jump to content

محمد عاقب حسین

Members
  • Posts

    84
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    8

محمد عاقب حسین last won the day on May 30 2022

محمد عاقب حسین had the most liked content!

1 Follower

About محمد عاقب حسین

Previous Fields

  • Not Telling

Recent Profile Visitors

The recent visitors block is disabled and is not being shown to other users.

محمد عاقب حسین's Achievements

Collaborator

Collaborator (7/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

23

Reputation

  1. امام ابو داؤد رحمہ اللہ کا "السنن" میں سکوت امام ابو داؤد سجستانی م275ھ رحمہ اللہ اپنی کتاب میں جن احادیث پر سکوت اختیار کرتے ہیں انکے بارے میں خود امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ما لم اذكر في شيئا فهو صالح وبعضها اصح من بعض جس حدیث کے متعلق میں نے سکوت اختیار کیا وہ حدیث میرے نزدیک صالح ہے اور بعض احادیث صالح کے درجے سے زیادہ صحیح درجے والی ہیں ¹ ۔ امام نووی م676ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَعَلَى هَذَا مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِهِ مُطْلَقًا، وَلَمْ يُصَحِحْهُ غَيْرُهُ مِنَ الْمُعْتَمَدِينَ ، وَلَا ضَعَّفَهُ فَهُوَ حَسَنُ عِنْدَ أَبي دَاوُدَ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی سنن میں ایسی روایات ہیں جن پر انہوں نے سکوت اختیار کیا ہے اور ان کے علاوہ معتمد علماء نے نہ انہیں صحیح قرار دیا ہے اور نہ ضعیف تو وہ روایات امام ابو داؤد کے نزدیک حسن درجہ کی ہیں ² ۔ امام الحافظ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ صَالِحٍ ، وَالصَّالِحُ يَجُوزُ أَن يَكُونَ صَحِيحًا وَأَن يَكُونَ حَسَنًا فَالْاخْتِيَاطُ أَن يَحْكَمَ عَلَيْهِ بِالْحَسَنِ جس حدیث پر امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا ہے وہ حدیث صالح ہے جبکہ صالح کا اطلاق کبھی صحیح اور کبھی حسن پر ہوتا ہے لیکن احتیاط اسی بات میں ہے کہ صالح سے مراد حسن حدیث ہے ³ ۔ حافظ ابن عبدالبر اندلسی م463ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَر: كُلُّ مَا سَكَتَ عَلَيْهِ أَبُو دَاوُد فَهُوَ صَحِيحٌ عِنْدَهُ لَا سِيَمَا إِنْ كَانَ لَمْ يَذْكُرْ فِي الْبَابِ غَيْرَه ایسی روایات جن پر امام ابو داؤد نے سکوت اختیار کیا ہے وہ ان کے نزدیک صحیح ہیں خاص کر اس باب میں جب کوئی دوسری حدیث موجود نہ ہو ⁴ ۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی م852ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَمِنْ هُنَا يَتَبَيِّنُ أَنَّ جَمِيعَ مَا سَكَتَ عَلَيْهِ أَبُو دَاوُدَ لَا يَكُونُ مِنْ قَبِيْلِ الْحَسَنِ الإصطلاحِي بَلْ هُوَ عَلَى أَقْسَامٍ مِنْهُ مَا هُو فِي الصَّحِيحَين أو عَلَى شَرْطِ الصَّحَّةِ. وَمِنْهُ مَا هُوَ مِنْ قَبِيْلِ الْحَسَنِ لِذَاتِهِ. وَمِنْهُ مَا هُوَ مِنْ قَبِيلَ الْحَسَنِ إِذَا اعْتَضَدَ. وَمِنْهُ مَا هُو ضَعِيفُ، لَكِنَّهُ مِنْ رِوَايَة مَنْ لَمْ يَجْمَعُ عَلَى تَرْكِهِ غَالِبًا. وَكُلُّ هَذِهِ الْأَقْسَامِ عِنْدَهُ تَصْلُحُ لِلْإِحْتِجَاج ها جن احادیث پر ابوداؤد نے سکوت اختیار کیا انکے نزدیک وہ صرف حسن نہیں بلکہ انکی چار اقسام ہیں ۔ اس سے مراد وہ احادیث ہیں جو صحیحین میں سے ہوں یا ان کی شروط پر ہوں اس سے مراد وہ احادیث ہیں جو حسن لذاتہ کے درجہ کی ہیں اس سے مراد وہ احادیث ہیں جو حسن لغیرہ ہیں اس سے مراد ایسی ضعیف حدیث ہے جس کو ترک کرنے پر محدثین کا اجماع نہ ہو یہ تمام اقسام ابو داؤد رحمہ اللہ کے نزدیک قابل حجت ہیں ⁵ ۔ ( ¹ رسالة أبي داود الى اهل المكة ص27 ) ( ² التقريب والتيسير 1/30 ) ( ³ النكت على كتاب ابن صلاح لابن حجر 1/432 ) ( ⁴ توضيح الأفكار 1/179 ) ( ⁵ النكت على كتاب ابن صلاح لابن حجر 1/435 ) ✍🏻 محمد عاقب حسین
  2. میری تحریر میں کہیں بھی صحابہ اور تابعین کے اقوال کی اہمیت کا انکار نہیں بلکہ ان کے اقوال سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے
  3. #کسی_کا_بھی_قول_رد_کیا_جاسکتا_ہے سید المحدثین امام محمد بن اسماعیل البخاری م256ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ , عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَيُتْرَكُ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ( كتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة ص73 وسندہ صحیح سفيان هو ابن عيينة وهو لا يروي إلا عن ثقة ) تابعی کبیر امام مجاہد بن جبر م104ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں مگر یہ کہ اسکا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد میں کیا جاسکتا ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ( آپکا ہر ثابت شدہ قول ہماری سر آنکھوں پر ہے ) امام دار الحجرۃ امام مالک م179ھ رحمہ اللہ نے فرمایا : كل يؤخذ من قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر، ويشير إلى قبر الرسول صلى الله عليه وسلم ۔ ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے اس قبر (انور) کے مقیم کے سوا اور پھر آپ نے قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ فرمایا ۔ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ نے کہا یہ قول امام مالک رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے ۔ ( إرشاد السالك إلى مناقب مالك ص402 ) ان اکابرین کے کلام سے واضح ہوگیا کہ دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ایسا کوئی بھی شخص نہیں کوئی امام ، بزرگ ، ولی نہیں جس کی ہر بات قبول کی جائے یہ شرف صرف اور صرف نبی کریم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ آپکی خصوصیات میں سے ہے کہ آپکی ہر بات حجت ہے ہمارے سر آنکھوں پر ہے بدقسمتی سے آج کچھ بدعتی اور راہ حق سے بھٹکہ ہوئے لوگ کچھ بزرگوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہماری ان پر آنکھیں بند ہیں یا فلاں بزرگ نے کہ دیا فلاں امام نے کہ دیا تو ہمارے لئے حجت ہے ہم اس سے اختلاف نہیں کریں گے . اللہ ہمیں ایسی اندھی عقیدت سے محفوظ فرمائے آمین ۔ محمد عاقب حسین
  4. صحابہ کرام کا ذکر ہو تو خاموش رہنا امام الائمہ حافظ عبدالرزاق بن ہمام صنعانی م211ھ رحمه الله فرماتے ہیں أخبرنا أبو علي إسماعيل، ثنا أحمد، ثنا عبد الرزاق، أنا معمر، عن ابن طاووس، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا، وإذا ذكر النجوم فأمسكوا» ( كتاب الأمالي في آثار الصحابة لعبد الرزاق الصنعاني :- 51 ) ترجمہ :- طاؤوس بن کیسان ( تابعی ) رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو خاموش رہنا ، جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہنا اور جب تقدیر کے مسئلے کا ذکر ہو تو خاموش رہنا ” میں ( راقم الحروف ) کہتا ہوں یہ سند صحیح ہے ماسوائے اس کے کہ یہ روایت مرسل ہے مگر امام طاوؤس بن کیسان رحمہ اللہ کی مراسیل عند الآئمۃ الحدیث کم از کم حسن درجہ کی ہوتی ہیں ﴿ مقدمة تحقيق المراسيل ص 7 ﴾ نیز یہ کہ اس حدیث کے کئی شواہد و متابعات بھی ہیں جو اس حدیث کو مزید تقویت دیتے ہیں درج ذیل کتب میں یہ حدیث مختلف اسانید سے مروی ہے ( كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة 4/108 ) ( كتاب التمهيد - ابن عبد البر - ت بشار 4/62 ) ( كتاب مساوئ الأخلاق للخرائطي ص350 ) ( كتاب المعجم الكبير للطبراني 2/96 ) ( كتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة 1/142 ) ( كتاب المعجم الكبير للطبراني 10/198 ) ( كتاب القضاء والقدر - البيهقي ص291 ) ( كتاب الإبانة الكبرى - ابن بطة 3/239 ) ( كتاب أصول السنة لابن أبي زمنين ص266 ) ( كتاب الترغيب والترهيب لقوام السنة 1/367 ) ( كتاب مسند الحارث = بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث 2/748 ) ( ثلاثة مجالس من الأمالي 2/191 ) ( تاريخ جرجان :- 315 ) اس کے علاوہ بھی دیگر کتب احادیث میں یہ حدیث مختلف اسانید سے مذکور ہے سلفیوں کے محدث اعظم شیخ محمد ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کی تحسین کی ہے ( كتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 1/75 ) ھذا ما عندی والعلم عند الله خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
  5. امام محمد باقر ابن علی علیہما السلام اور تعویذ امام محمد باقر علیہ السلام سے باسند صحیح ثابت ہے کہ آپ وہ تعویذ جس میں قرآن مجید لکھا ہوا ہو اسکو گلے میں لٹکانا جائز سمجھتے تھے ۔ الإمام أبو بكر بن أبي شيبة م235ھ رحمه الله فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ» امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد محترم امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جائے اور پھر اسکو گلے میں لٹکایا جائے . ( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت 5/44 ) میں (راقم الحروف) کہتا ہوں اس اثر کی سند_صحیح ہے سند کے رجال کی تحقیق ① پہلے راوی خود امام ابن ابی شیبہ ہیں جو بالاتفاق ثقہ حافظ صاحب تصانیف ہیں ۔ ( تقريب التهذيب :- 3575 ) ② عبيد الله بن موسى العبسي یہ بھی ثقہ راوی ہے ۔ ( تقريب التهذيب :- 4361 ) ③ الحسن بن صالح الثوري یہ بھی ثقہ فقیہ عابد راوی ہے ۔ ( سير أعلام النبلاء 7/362 ) ④ إمام من أئمة المسلمين وعالم جليل وعابد فاضل من ذرية الحسين بن علي بن أبي طالب جعفر بن محمد الصادق بالاتفاق ثقہ مامون اولاد علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔ ( سير أعلام النبلاء 6/255 ) اس تفصیل سے ثابت ہوا یہ اثر صحیح ہے ۔ سید شہداء امام حسین علیہ السلام کے پوتے امام محمد باقر علیہ السلام قرآنی تعویذ کو جائز سمجھتے تھے ۔ والحمدللہ محمد عاقب حسین
  6. امام ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ تعالی مشہور حسن صحیح حدیث کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے علی رضی اللہ عنہ پر سب کیا اس نے مجھ پر سب کیا کے تحت فرماتے ہیں یہ حدیث اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ پر "سب" کرنا کفر ہے
  7. شہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام امام المحدثین حافظ ابو الفرج عبدالرحمن ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام حسن مجتبیٰ ابن علی المرتضیٰ علیہما السلام کی شہادت 5 ربیع الاول بمطابق 50ھ میں ہوئی . یہی تاریخ شہادت امام جلال الدین سیوطی م911ھ رحمہ اللہ نے بھی نقل کی اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں . 28 صفر المظفر شیعوں کے نزدیک ہے اہلسنت کے نزدیک نہیں خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
×
×
  • Create New...