Search the Community
Showing results for tags 'khalil rana'.
-
Maa Ayesha r.a frmati hen- Nabi saw k bimari k waqt aapne frmya - ALLAH lanat kre yahud or nasra pr, in logo n apne ambiya ki qabro ko ibadatgah (masjid) bana diya h.?(Sahih Muslim 1080)Ab dekhte hai ki yhe kitaben Mazar ke bare me kya khti hai- Maa Ayesha r.a kehti h ki nabi saw k marzul mout k waqt umme habiba or umme salama n ek church ki khubsurati ki tarif ki, tb aap saw n frmyaa- jb yahud or nasara m koi naik shaksh mar jata tha to y log uski Qabr per masjid yani ibadat gah bna dete the or uski sajawat krte.yhe log qayamat ke din ALLAH k samne sbse badtreen makhlooq honge.?(Sahih Muslim 1076)
-
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الصــلوة والسلام عليك يارسول الله ﷺ Wahabiyon k Taraf Se Hamesha Tawassul Per Aitraz Pesh Kiya Jata Hai Jahan Yeh Log Quran-e-Pak Ki Chand Ayatein Pesh Karte Hain Or Sada Dil Musalmano Ko Padh Kar Zahir Karte Hain k Suno/Padho/Dekho ALLAH ﷻ Ka Farman Hai: 1) ما نعبد هم الا ليقربونا إلى الله زلفى. ترجمہ کنزالایمان: کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں. 》سورہ زمر، آیت 3. 2) فلا تدعوا مع الله احدا". ترجمہ: تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو. 》سورہ جن، آیت 18. 3) له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشىء. ترجمہ: اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے. 》سورہ رعد، آیت 14. 4) وما ادريك ما يوم الدين ثم مآ ادريك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شىء"اوالأمر يوم ء ذلله. ترجمہ: اور تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن ہے، پھر تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن ہے جس دن کوئ جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ رکھےگی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے. 》سورہ انفطار، آیت 19. 5) ليس لك من الأمر شىء. ترجمہ: یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں. 》سوره آل عمران، آيت 128. 6) قل لا املک لنفسی نفعا" ولا ضرا". ترجمہ: تم فرماو میں اپنے جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں. 》سورہ اعراف، آیت 188 In Ayaton Ko Suna Kar Wahabi Dhoka Dete Hain Hum Isi Ayaton Per Hi Wahabiyon Ko Jawab Usi k Peshwa Or Imam Allama Shokani Se De Rahe Hain Jahan Shokani Ne Wahabiyon k Batil Aitrazaat Ka Behtareen Jawab Diya Hai: #القول الثاني- أن التوسل به -صلى الله عليه و آله وسلم- يكون في حياته و بعد موته، وفي حضرته و مغيبه. ولا يخفاك أنه قد ثبت التوسل به - صلى الله عليه و آله وسلم - في حياته، وثبت التوسل بغيره من الأحياء بعد موته بإجماع الصحابة سكوتيا لعدم إنكار أحد منهم على عمر - رضى الله عنه - في توسله بالعباس - رضى الله عنه - ترجمہ: #دوسرا قول: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے توسل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات، ان کے انتقال کے بعد، ان کی موجودگی، ان کی عدم موجودگی ہر طرح سے جائز ہے- کیونکہ یہ بات ہر شخص پر ظاہر باہر ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں ان کی ذات سے توسل ثابت ہے اسی طرح ان کے انتقال کے بعد بھی صحابہ کرام کے اجماع سکوتی کے ذریعہ ان کی ذات سے توسل کرنا ثابت ہے، کیونکہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کیا تھا تو کسی بھی صحابی نے ان کے اس توسل کا انکار نہیں کیا- أن ما يورده المانعون من التوسل إلى الله بالأنبياء [5] والصلحاء من نحو قوله تعالى:} ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى {([الزمر:3].)، ونحو قوله تعالى: فلا تدعوا مع الله أحدا ([الجن18:].) ونحو قوله تعالى: {له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشيء} ([الرعد14:]) ليس بوارد بل هو من الاستدلال على محل النزاع بما هو أجنبى عنه؛ فإن قوله: {ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى} ([الزمر3:]) مصرح بأنهم عبدوهم لذلك، والمتوسل بالعالم مثلا لم يعبده بل علم أن له مزية عند الله بحمله العلم فتوسل به لذلك، ترجمہ: انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام اور صلحائے کرام رحمہم اللہ سے توسل کے مخالفین بعض آیات کریمہ سے توسل کو جائز قرار دینے والوں پر اعتراضات کرتے ہیں اور وہ آیتیں یہ ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہے: ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى [کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کر دیں، سورہ الزمر3:] اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: [فلا تدعوا مع الله أحدا، سورہ الجن18:] تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو [سورہ الجن18:] ایک جگہ اور ارشاد فرماتا ہے: له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشيء[اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے،سورہ الرعد14:]. مگر ان اعتراضات کی کوئ حیثیت ہی نہیں کیونکہ مذکورہ بالا بیان سے واضح ہو گیا کہ ان آیتوں سے ان پر اعتراضات وارد ہی نہیں ہوتے بلکہ ان آیتوں کا زیر بحث مسئلہ سے کوئ تعلق ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا قول ہے: ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى [کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں، سورہ الزمر3:] اس امر پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتا ہے کہ اس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اللہ تعالی سے تقرب کے لئے اصنام کی عبادت کی تھی، اور مثلا عالم سے توسل کرنے والا اس کی عبادت نہیں کرتا البتہ چونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین اپنے علم کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک مکرم و مقبول ہوتا ہے اس لئے وہ اس عالم دین سے توسل کرتا ہے. وكذلك قوله: {فلا تدعوا مع الله أحدا} ([الجن18:]) فإنه نهي عن أن يدعى مع الله غيره، كأن يقول: بالله ويا فلان، والمتوسل بالعالم مثلا لم يدع إلا الله وإنما وقع منه التوسل إليه بعمل صالح عمله بعض عباده كما توسل الثلاثة الذين انطبقت عليهم الصخرة بصالح أعمالهم، وكذلك قوله: {والذين يدعون من دونه} ([الرعد14:]) الآية، فإن هؤلاء دعوا من لا يستجيب لهم، ولم يدعوا ربهم الذي يستجيب لهم، والمتوسل بالعالم مثلا لم يدع إلا الله ولم يدع غيره دونه، ولا دعا غيره معه. ترجمہ: اسی طرح اللہ تعالی کا قول: فلا تدعوا مع الله أحدا[تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، سورہ الجن18:] اللہ کے ساتھ کسی اورکو صنم کرکے پکارنے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے مثلا کوئ کہے: یا اللہ و یا فلان، اور مثلا عالم سے توسل کرنے والا صرف اللہ کو ہی پکارتا ہے، اس کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتا، وہ تو صرف بعض بندوں کے عمل صالح کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف توسل کرتا ہے جیسا کے ان تینوں نے جن کے سامنے چٹان گر گئ تھی اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ توسل کیا تھا، اسی طرح اللہ تعالی کا یہ قول: والذين يدعون من دونه [اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے، سورہ الرعد14:] اس آیت سے وہ افراد مراد ہیں جنہوں نے ایسے لوگوں کو بلایا جو دعا قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اور اپنے رب تعالی کو نہیں پکارا جو ہر ایک کی سنتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے، اس لئے ان کی دعا قبول نہیں ہوئ- اور رہی بات عالم دین سے توسل کرنے کی وہ تو صرف اللہ تعالی کو ہی پکارتا ہے اس کے سوا کسی اور کو یا اس کے ساتھ کسی اور شخص کو نہیں پکارتا، اور دونوں کے درمیان فرق واضح ہے. وإذا عرفت هذا لم يخف عليك دفع ما يورده المانعون للتوسل من الأدلة الخارجة عن محل النزاع خروجا زائدا على ما ذكرناه، كاستدلالهم بقوله تعالى: {وما أدراك ما يوم الدين ثم ما أدراك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شيئا والأمر يومئذ لله} ([الانفطار 19:]) فإن هذه الآية الشريفة ليس فيها إلا أنه تعالى المتفرد بالأمر في يوم الدين، وأنه ليس لغيره من الأمر شيء، ولا يملك لغيره من الأمر شيئا، والمتوسل بنبي من الأنبياء أو عالم من العلماء هو لا يعتقد أن لمن توسل به مشاركة لله -جل جلاله- في أمر يوم الدين، ومن اعتقد هذا لعبد سواء كان نبيا أو غير نبي فهو في ضلال مبين. ترجمہ: ان بعض آیتوں کے ذریعہ جو محل نزاع سے خارج ہیں توسل کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہیں، نیز وہ اللہ تعالی کے اس قول سے بھی اعتراض کرتے ہیں: وما أدراك ما يوم الدين ثم ما أدراك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شيئا والأمر يومئذ لله [اور تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن، پھر تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن جس دن کوئ جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ رکھے گی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے، سورہ انفطار 19.] یہ آیت محل نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا یہ فرمان صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی ہی قیامت کے دن سارے امور کا مالک ہے اس کے کوئ دوسرا مالک و مختار نہیں اور نبی یا کسی عالم سے توسل کرنے والا اس بات کا ہر گز اعتقاد نہیں رکھتا وہ نبی یا عالم قیامت کے دن اللہ تعالی کے اختیار میں شریک ہے جس نے بھی اس طرح کا اعتقاد کسی نبی یا کسی اور بندے کے حق میں رکھا تو یقینا" وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ہے. وهكذا الاستدلال على منع التوسل بقوله: {ليس لك من الأمر شيء ([آل عمران 128:])،} قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا {([الاراف 188:]) فإن هاتين الآيتين مصرحتان بأنه ليس لرسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ من أمر الله شيء، وأنه لا يملك لنفسه نفعا ولا ضرا، فكيف يملكه لغيره وليس فيهما منع التوسل به أو بغيره من الأنبياء، أو الأولياء، أو العلماء. وقد جعل الله لرسوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ المقام المحمود مقام الشفاعة العظمى، وأرشد الخلق إلى أن يسألوه ذلك ويطلبوه منه، وقاله له: " سل تعطه، واشفع تشفع " وقيد ذلك في كتابه العزيز بأن الشفاعة لا تكون إلا بإذنه، (لقوله تعالی: (ولا تنفع الشفاعة عنده إلا لمن أذن له) [سبأ: 23]) ولا تكون إلا لمن ارضى. ولعله يأتي تحقيق هذا المقام إن شاء الله. ترجمہ: اسی طرح توسل سے روکنے کے لئے مانعین اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ليس لك من الأمر شيء [یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں، سورہ آل عمران 128:] اور اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا [تم فرماءو میں اپنی جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں، سورہ اعراف 188: ] یہ دونوں آیتیں بھی محل نزاع سے خارج ہیں کیونکہ پہلی آیت اس بات پر صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کے کسی حکم کے مالک نہیں اور دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کو نفع و ضرر پہونچانے کے مالک نہیں تو پھر دوسروں ان دونوں آیتوں میں کوئ ایسی بات نہیں جو انبیاء، اولیاء اور علماء سے توسل کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہو اس لئے ان آیتوں کو استدلال میں ذکر کرنا بے جا ہے- حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کی عطا سے بہت ساری چیزوں کے مالک ہیں اللہ جل شانہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے مقام محمود اور مقام شفاعت عظمی تیار کیا اور مخلوق کو حکم بھی دیا کہ وہ اس سے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعت طلب کرین- اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے فرمایا: سل تعط واشفع تشفع [اے میرے محبوب مانگو دیا جائےگا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائےگی] نیز قرآن کریم میں اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ شفاعت کا حق اسی کو ہے حاصل ہوگا جس کو وہ اجازت دے گا اور جس سے وہ راضی ہوگا. وهذا الاستدلال على منع التوسل بقوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لما نزل قوله تعالى:} وأنذر عشيرتك الأقربين {([الشعراء 214:].)، " يا فلان ابن فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا فلانة بنت فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا بني فلان لا أملك لكم من الله شيئا" (أخرجه البخارى رقم 4771، و مسلم رقم 206/351، و الترمزى رقم 3185، و النسائ رقم 248/6) من حدیث أبى هريرة)، فإن هذا ليس فيه إلا أنه -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ- لا يستطيع نفع من أراد الله ضره، ولا ضر من أراد الله نفعه، وأنه لا يملك لأحد من قرابته فضلا عن غيرهم شيئا من الله، وهذا معلوم لكل مسلم، وليس فيه أنه لا يتوسل به إلى الله فإن ذلك هو طلب الأمر ممن له الأمر والنهي، وإنما أراد الطالب أن يقدم بين يدي طلبته ما يكون سببا للإجابة ممن هو المتفرد بالعطاء والمنع، وهو مالك يوم الدين. ترجمہ: اسی طرح توسل سے منع کرنے والے اللہ تعالی کے فرمان: وأنذر عشيرتك الأقربين {([الشعراء 214:].) کے نزول کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا اس کے ذریعہ توسل کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا: يا فلان ابن فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا فلانة بنت فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا بني فلان لا أملك لكم من الله شيئا" (اے فلاں ابن فلاں اور اے فلانہ بنت فلاں میں تیرے لئے اللہ کی جانب سے کسی چیز کا مالک نہیں) حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اس قول میں صرف اس بات کی صراحت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس شخص کو نفع نہیں پہونچا سکتے جس کو اللہ تعالی نے ضرر دینے کا ارادہ کر لیا ہو یا اس کے بر عکس، اور یہ کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کی جانب سے اپنے قریبی لوگوں کے معاملات کے مالک نہیں چہ جائے کہ دوسرے لوگوں کے مالک ہوں اور یہ تو ہر مسلم کو معلوم ہے مگر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس فرمان میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذریعہ توسل کی ممانعت نہیں کیونکہ توسل میں مسئلہ سے حل کے لئے اسی سے طلب کرنا ہے جو اس کا مالک ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ طلب کرنے والے نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے مطلوب کو حاصل کرنے کے لئے ایسی چیز پیش کی ہے جو ہر چیز کے مالک و مختار اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کا سبب ہے. 》الفتح الربانى من فتاوى امام شوكانى، صفحہ 314 سے 318.
-
- toheedi bhai
- usman rizwi
-
(and 1 more)
Tagged with:
-
⏩ILM-E-SAHABA OR WAHABIYON KI TAHREEF⏪ Wahabiyon k Bahut Hi Motabar Imam Hafiz Ibn Kasir Ne Apni Tafsir Ibn Kasir Me Surah Anfal Ki Ayat أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا Ki Tafsir Karte Huwe Ek Hadees Naqal Ki Hai k Hazrat Haris Bin Malik Ansari رضي الله تعالٰی عنه Farmate Hain k Main NABI-E-KARIM ﷺ Ki Bargah-e-Aqdas Me Hazir Huwa To NABI-E-KARIM ﷺ Ne Farmaya Aye Haris Tum Ne Subah Kis Hal Me Ki...??? Main Ne Arz Kiya YA RASOOL ALLAH ﷺ Main Ne Ek Sachche Or Haqiqi Momin Ki Hasiyat Se Subah Ki NABI-E-KARIM ﷺ Ne Farmaya Gaur Kar Lo Kiya Kah Rahe Ho, Har Cheez Ki Ek Haqiqat Hoti Hai Batao Tumhare Iman Ki Haqiqat Kya Hai...??? Main Arzguzar Huwa YA RASOOL ALLAH ﷺ Main Ne Duniya Se Tark-e-Ta'luq Kar Liya, Raat Ko Jag Kar Ibadat Karta Hoon Or Din Ko Roza Rakh Kar Pyas Bardasht Karta Hoon Main Apne RAB k Arsh Ko Numaya Taur Per Dekh Raha Hoon Goya k Main Ahle Jannat Ko Ek Dusre Se Molaqatein Karte Dekh Raha Hoon Or Ahle Naar Ko Jahannam Me Bilbilate Huwe Dekh Raha Hoon NABI-E-KARIM ﷺ Ne Farmaya Aye Haris Tum Ne Haqiqat-e-Iman Ko Pa Liya Is Per Karband Rahna. Is Alfaz Ko 3 Martaba Farmaya. ➡ TAFSIR IBN KASIR, JILD 4, SAFA 12-13. NABI-E-KARIM ﷺ k ILm Per Tanz Karne Walo Is Hadees Se To SAHABI-E-RASOOL Ka ILm-e-Gaib Sabit Ho Raha Hai Woh Bhi Aisa ILm k Zameen Per Baithe Huwe Arsh Ko Dekh Rahe Hain Or To Or Jannati Abhi Jannat Me Gaye Nahi Hain Magar Advance Me Hi Jannati Ko Jannat Me Tahalte Firte Or Apas Me Molaqatein Karte Huwe Dekh Rahe Hain Or Jahannami Ko Bhi Jahannam Me Chikhte Chillate Huwe Dekh Rahe Hain Ise Bayan Bhi NABI-E-KARIM ﷺ k Samne Kar Rahe Hain Or NABI-E-KARIM ﷺ Ne Bhi Hazrat Haris Bin Malik Ansari رضي الله تعالٰی عنه Ki Is Baat Ko Yeh Farma Kar Tasdiq Farma Di k Aye Haris Tum Ne Haqiqat-e-Iman Ko Pa Liya. Is Hadees Se SAHABI-E-RASOOL Ka ILm-e-Gaib Sabit Hota Hai Is Liye Wahabiyon Ne Tafsir Ibn Kasir Ko English Me Translate Karte Huwe Is Hadees Ko Hi Nikal Diya Kyun k Yeh Hadees In Iman k Looteron Or Hadees k Choron k Aqeedey k Khelaf Hai Or Agar Yeh Is Hadees Ka English Version Me Tarjama Karte To Inhe SAHABI-E-RASOOL k ILm-e-Gaib Ko Tasleem Karna Padta Isi Liye Ahle Iblees Ne Tafsir Ibn Kasir k English Version Me Tahreef Kar Di.
-
Hadees Sharif Ki Books Ka Arbic Aur Urdu Link Chahiye Jis Me Mishkat Sharif, Darmi Sharif Or Deegar Sabhi Ahadees Ki Kitab Maujud Ho
- 2 replies
-
- toheedi Bhai
- Usman Razwi
-
(and 1 more)
Tagged with:
-
Deobandi munazire sajid khan naqshbandi ke fb post ke aitraaz ka ilmi jayeza or jawabaat Mujhe aap tamam ahle sunnat ke ahbaab ki madad chahiye. FB PE DEOBANDI MUNAZIRE SAJID KHAN NAQSHBANDI ROZ EK POST BANA KE AITRAAZ KARTA HAI. IN AITRAAZ KA JAWAB DENA MERE BUS KI BAAT NAHI ISLIYE AAP SAB SE ILTIJA HAI KI MERI MADAD KAREN. MAIN USKE POST YAHAN PASTE KARA KARUNGA OR USKE COMMENT MAIN JAWAB DUNGA. TAKI SARE DEOBANDI KE MUNH BAND HO JAYE Aitraaz post 1 %%% نبی کریم ﷺ کے بارے میں رضاخانیوں کے ایک غلیظ عقیدے کی نقاب کشائی %%% :: ساجد خان نقشبندی :: بریلوی غزالی و رازی دوراں و فلاں فلاں مولوی عمر اچھروی اپنی بدنام زمانہ کتاب ’’ مقیاس حنفیت ‘‘ میں لکھتاہے: ’’حضور ﷺ زوجین کے جفت ہونے کے وقت بھی حاضر ناظر ہوتے ہیں‘‘۔ (مقیاس حنفیت ،ص282) استغفر اللہ ! العیاذباللہ! و ہ حیاء دار نبی !شرم و عفت کا وہ پیکر! جس کی امت کو یہ تعلیم ہو کہ جب چلو تو نگاہیں نیچی کرکے چلو ،جس حیاء دار نبی کے بارے میں سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ کنواری دلہن سے زیادہ شرم و حیاء والے ،او جن کی بیبیوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ جب تم نبی کی بیبیوں سے کچھ پوچھو تو پردے کے پیچھے سے پوچھو،جس نبی کی عفت مآب بی بی ہماری ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عفت شرم و حیاء کا یہ عالم ہو کہ فرماتی ہیں’’ جب میرے گھر میں عمر فاروق کی تدفین ہوئی تو اس کے بعد میں پردہ کرکے قبور مطہرہ کی زیارت کو آتی‘‘۔ جو صدیقہ نبی کی حیاء کو ان الفاظ میں بیان کرے کہ ساری زندگی نہ سرکار نے میرا ستر دیکھا نہ میں نے ان کا ستر دیکھا ،ارے وہ مقام جہاں شرم و حیاء کے مارے فرشتے بھی الگ ہوجائیں یہ بدبخت بے حیاء کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ وہاں بھی حاضر ہوتے ہیں موجود ہوتے ہیں سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ملاحظہ فرمارہے ہوتے ہیں یا اللہ !آسمان پھٹ کیوں نہیں پڑتا۔۔۔؟زمین شق کیوں نہیں ہوجاتی۔۔۔؟قلم ٹوٹ کیوں نہیں جاتے۔۔۔ ؟ان بد بختوں کے ہاتھوں پر یہ سب بکواس لکھتے ہوئے ریشہ طاری کیوں نہیں ہوتا۔۔۔؟ کیا کوئی بے غیرت بیٹا یہ پسند کرے گا کہ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ مخصوص حالت میں ہو تو اس کاباپ وہاں ’’حاضر و ناظر ‘‘ ہو؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں ،تو نبی کے بارے میں اس قسم کی بکواس کرتے ہوئے تمہیں موت نہیں آتی؟ ہائے ! جس نبی کے دین میں میاں بیوی کو یہ حکم ہو کہ اگر آس پاس کوئی جانور ہو تو اس مخصوص حالت میں نہ آؤ آج اسی دین کے نام لینے والے بد بخت ’’مقیاس حنفیت ‘‘ کا نام لیکر نبی کو وہاں حاضر ناظر مان رہے ہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔خدا کی قسم ہم پیشاب کی بوتل پر لگے ہوئے اس زمزم کے لیبل کو ہر گز فروخت ہونے نہیں دیں گے ۔ یہ بکواس ’’مقیاس الکفر‘‘ تو ہوسکتی ہے ،مقیاس حنفیت نہیں ۔ پھر اس بدبخت مولوی نے جس حدیث کو آڑ بناکر یہ بکواس کی ہے حضرت ابو طلحہؓ کی اس حدیث میں تو اتنا ہے کہ حضرت ابو طلحہؓ کے بیٹے بیمار تھے اس رات وہ فوت ہوگئے حضرت ابوطلحہؓ جب سفر سے رات کو گھر آئے تو بیوی نے اس خبر کو ان سے چھپائے رکھا کانوں کان خبرنہ ہونے دی کہ رات کا وقت ہے پوری رات غمگین و حزین رہیں گے ان کی بیوی نے بالکل عام حالات کی طرح ان سے برتاؤ کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔حضرت ابو طلحہؓ نے ان سے رات کو جماع فرمایا جب صبح ہوئی تو ام سلیم نے یہ خبر جاگزیں سنائی: ’’ رات آ پ کے بیٹے فوت ہوگئے تھے میں نے آپ کو خبر نہ کی کہ آپ پریشان ہوں گے اب ان کی تجہیز و تکفین کا بندو بست کردیں‘‘۔صبح حضرت ابو طلحہؓ نے خود سارے واقعہ کی خبر نبی کریم ﷺ کو دی جس پر حضرت ابوطلحہ کی زوجہ کے صبر و استقلال پر بطور تعجب سوالیہ انداز میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اعرستم اللیلۃ اعرستم اللیلۃ کیا اس اندو دہناک واقعہ کے بعد تم نے گھر والی سے جماع بھی کیا اور وہ پھر بھی کچھ نہ بولی؟ حضرت ابوطلحہ نے فرمایا’’ جی ہاں‘‘۔ اس میں یہ کہا ں ہے کہ نبی کریم ﷺ خود وہاں موجود تھے ؟ زید اگر الیاس عطار سے پوچھے کے حضور رات گھر والی سے جماع کیا؟ اور عطار صاحب بولے جی ، تو اس کا مطلب ہے کہ زید وہاں بیٹھا تھا؟ کچھ تو عقل کو ہاتھ لگاؤ ۔ چنانچہ علام نووی نے ’’اعرستم اللیلۃ ‘‘ کا یہی معنی بیان کیا جو میں نے ذکر کیا: السوال للتعجب من صنیعھا و صبرھا و سروراً بحسن رضاھابقضاء اللہ ثم دعا صلی اللہ علیہ وسلم لھما بالبرکۃ فی لیلتھما فاستجاب اللہ۔( شرح مسلم ج2ص209) نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان اعرستم اللیلۃ یہ ام سلیم کے اس فعل اور ان کے اس عظیم صبر پر بطور تعجب کے تھا اور اللہ تعالی کی قضا پر اس طرح خوش اسلوبی سے راضی رہنے پر بطور خوشی کے تھا پھر نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کیلئے اس رات میں برکت کی دعا کی جو اللہ نے قبول کی یعنی اللہ نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا۔ بریلوی شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی ’’اعرستم اللیلۃ‘‘ کا مطلب بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے جو حضرت ابو طلحہ سے عمل زوجیت کے متعلق سوال کیا اس کی ان کے اس صبر اور راضی برضا ئے الٰہی رہنے کے حیرت انگیز جذبے پر تعجب کا اظہار تھا (شرح مسلم ،ج6ص505،فرید بک سٹال لاہور ،دسمبر 2002) عمر اچھروی نے یہ روایت مسلم ہی کے حوالے سے نقل کی مگر مسلم کے شارع امام نووی شافعی ؒ کو یہ شیطانی استدلال نہ سوجھا جو عمر اچھروی کو سوجھا۔خود مسلم میں اس پر یہ عنوان باندھا گیا: استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ و حملہ الی صالح یحنکہ و جواز تسمیتہ یوم ولادتہ و استحباب التسمیۃ بعبد اللہ و ابراہیم و سائر اسماء الانبیاء علیہم (الصحیح للمسلم ج2ص208) بچہ کی پیدائش کے وقت اس کو گھٹی دینے اور اس کی پیدائش کے دن اس کا نام رکھنے کا استحاب اور عبد اللہ، ابراہیم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے اسماء پر نام رکھنے کا استحسان۔ ابن اثیربھی اس روایت پریہی باب باندھتے ہیں : (جامع الاصول فی احادیث الرسول،ج1ص366) ریاض الصالحین میں حضرت نووی نے اس روایت پر’’ باب الصبر ‘‘ قائم کیا۔ ( ریاض الصالحین ،ص54) ابن قیم جوزی رح نے اس روایت پر باب قائم کیا: ’’فی استحباب تحنیکہ‘‘۔(تحفۃ المولود،ص32) غرض جس جس محدث نے اس روایت کو ذکر کیا انہوں نے اس روایت پر کم و بیش اسی عنوان کے باب قائم کئے جو ہم نے ذکر کئے۔ چیلنج پوری دنیا کے زندہ مردہ بریلویوں کو چیلنج ہے کہ چودہ سو سال کے مسلم بین الفریقین کسی بھی شارح حدیث سے اس جملے کا وہ شیطانی مطلب بیان کرنا ثابت کردیں جو عمر اچھروی کے فتنہ پرور و حیاء سوز دماغ میں آیا ۔اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو جان لو کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث پر جھوٹ بول کر تم نے اپنا ٹھکانہ جہنم بنالیاہے۔ ایک باطل تاویل کا جواب پنڈی مناظرے میں حنیف قریشی رضاخانی ،طالب الرحمن زیدی غیر مقلد کو کہتا ہے کہ تم نے آگے کی عبارت نہیں پڑھی اس میں لکھا ہے :’’ یہ الگ بات ہے مثل کراماکاتبین الجواب: یہ تاویل بالکل باطل اور خود مصنف کے موقف کے خلاف ہے اس لئے کہ وہ تو نبی کریم ﷺ کو ’’حاضر ناظر ‘‘ ثابت کرنا چاہ رہا ہے اگر نبی کریم ﷺ آنکھیں بند کرلیں تو پھر ’’ناظر‘‘ تو نہ رہے۔ تو عمر اچھروی کی عبارت میں ’’حاضر ناظر‘‘ بیک وقت دونوں لفظوں کا مقصد کیا ہوا؟نیز یہ تاویل کرنا کہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ تم بھی وہاں نبی کریم ﷺ کو ’’ناظر‘‘ ماننا گستاخی سمجھتے ہو تو اگر ’’ناظر‘‘ ہونا گستاخ اور نبی کریم ﷺ کی شان کے خلاف ہے تو ’’حاضر ‘‘ ہونا کیوں نہیں ؟ ثانیاً:اگر تمہاری اس تاویلِ باطل کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمہارے نزدیک اگر نبی کریم ﷺ آنکھ بند کرلیں تو ان کو آنکھ کے پیچھے نظر نہیں آتا تو ایک طرف تو تم مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہو کہ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں یہ گستاخ ہیں ۔دیوار تو اتنی موٹی یہاں تم آنکھوں کے پتلے پتلے پپوٹوں کے پیچھے کے علم کی نفی کررہے ہو کہ کیا ہورہا ہے حضور ﷺکو کچھ علم نہیں، کیا یہ گستاخی نہیں؟ الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں ثالثاً:آپ کے مذہب کا اصول ہے کہ ایسا ذو معنی لفظ جس میں نبی کریم ﷺ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے وہ بھی کفر و گستاخی ہے تو اس میں پہلو نہیں صراحتاً نبی کریم ﷺ کی گستاخی ثابت ہورہی ہے اس لئے اگر کوئی پہلو اچھا نکال بھی لو تب بھی یہ گستاخی ہی تسلیم کیا جائے گا۔ اگر جواب یہ دو کہ ہم آپ کے پہلو کے ذمہ دار نہیں تو اس پر ہمارا جواب ہے کہ پھر ہماری عبارتوں میں آپ کے خود ساختہ احتمالات کے ہم ذمہ دار نہیں ۔ رابعا: نصیر الدین سیالوی بن اشرف سیالوی سرگودھوی لکھتاہے: ’’اس سے پتہ چلا کہ عبارت گستاخی کی موہم ہے کیونکہ سمجھنے سمجھانے کی ضرورت وہیں پیش آتی ہے جہاں الفاظ کسی غلط معنی کے موہوم ہوں ‘‘۔ ( عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ،ج1ص128) اس کتاب پر بریلوی استاذ المناظرین اشرف سیالوی کی تقریظ ثبت ہے۔ منشاء تابش قصوری رضاخانی لکھتا ہے: ’’صا ف اور سیدھی بات ہے کہ توہین آمیز الفاظ یا عبارات کے قائل کو شرعا اخلاقااپنی صفائی کا قطعا حق نہیں پہنچتا‘‘۔ (دعوت فکر،ص16،مکتبہ شرفیہ ۔مرید کے1983) ’’کچھ دیوبندی حضرات ان کفریہ عبارات کی تاویلات کرتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر یہ عبارات کفریہ نہیں تو تاویلات کیوں ؟تاویلات دینے سے تو یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ عبارا ت کفریہ ہیں تو تاویلات کی جارہی ہے ‘‘۔(معرفت ،ص102) اس کتاب پر 36’’رضاخانی مفتیان ‘‘ کی تقریظات موجود ہیں۔ تو جناب آپ کا اس عبارت کو سمجھانا اس کی تاویل کرنا ہی اس کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔ الحمد للہ ! رضاخانیوں کے بنائے ہوئے اپنے ہی اس اصول سے اب تک بدنام زمانہ گستاخان رسول ﷺ احمد رضاخان ،احمد یار گجراتی ،حشمت علی ،نعیم الدین ،عمر اچھروی وغیرہم کی جن عبارات کی تاویل رضاخانی کرتے ہیں یا ان کی عبارات کے دفاع میں اب تک جو کچھ لکھا گیا وہ سب کالعدم ہوگیا بلکہ ان کے دفاع میں لکھی جانے والی یہ کتب ان رضاخانیوں کے گستاخان رسول ﷺ ہونے پر رجسٹری ہے۔ ۔خامساً:خود مولوی عمر اچھروی لکھتا ہے: ’’جیسا کہ اللہ تعالی پاک کی نسبت ان برے مقامات پر باوجود موجودیت کے نسبت کرنا گستاخی و کفر ہے کیونکہ اس کو ان مقامات سے نفرت ہے اسی طرح نبی ﷺ بھی حاضر ناظر تو ہیں اور اس کو جاننے والے بھی ہیں ۔اور آپ کی شہادت بھی ان مقامات کی ضرور ہوگی ۔ لیکن بوجہ آپ کی ذات پاک ہونے کے ان مقامات متنفرہ کی طرف منسوب کرنا عین گستاخی ہے اور ایمان سے بعید ہے‘‘۔ (مقیاس حنفیت ،ص279،دارالمقیاس ۔اچھرہ ۔دسمبر 1966) تو عمر اچھروی کا نبی کریم ﷺ کی طرف ان مقامات کی نسبت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عمر اچھروی گستاخ رسول ﷺ اور یہ عبارت ایمان سے بعید ہے۔ الحمد للہ ! انتہائی مختصر انداز میں اس عبارت کے متعلق رضاخانی تاویل کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں اگر بریلوی پٹاری میں مزید کوئی جواب ہو تو اسے بھی سامنے لے آئے کیونکہ ، یار زندہ صحبت باقی بریلوی حکیم الامت مفتی احمد یار گجراتی لکھتا ہے : تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر جو کام کئے جاویں وہ بھی نگاہ مصطفی علیہ السلام سے پوشید ہ نہیں ( جاء الحق ،ص79) تاریک راتوں میں تنہائی میں سوائے حرام کاریوں کے یا بیوی کے ساتھ ہم بستری او ر کونسے کام کئے جاتے ہیں ؟ رضاخانیوں کا گندہ عقیدہ ملاحظہ ہو ۔عمر اچھروی کا شاگرد اور رضاخانی امام المناظرین اپنے استاد کا سکھایا ہوا گند اس طرح ظاہر کرتا ہے : کیا سینماؤں شراب خانوں ناچ گھروں اور چکلوں پر اللہ تعالی اور رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام اور فرشتوں کا حاضر اور ناظر ہونا اور ہم جیسے بدکار انسانوں کا حاضر و ناظر ہونا دونوں برابر ہیں ؟ اور کیا اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کا فلمی کاروائیوں اور اس جیسی دیگر بے حیائی کا علم رکھنا اور عام انسانوں کا ان گندے علوم کو حاصل کرنا برابر ہے ؟(تنویر الخواطر،ص71) یہ بدبخت کہنا چاہ رہا ہے کہ نبی شراب خانوں سینماوں فلمی گھروں چکلہ خانوں میں حاضر ناظر ہیں فلمی گانوں کا علم رکھتے ہیں اور بدکار انسانوں پر انہیں قیاس مت کرورضاخانیوں کی طرح بدکار انسانوں کا ان مقامات پر حاضر و ناظر ہونا تو یقیناًان کی گستاخی ہے مگر نبی کریم ﷺ کیلئے یہ سب جائز ہے اس لئے گستاخی بھی نہیں اس لئے برابر نہیں نبی کا اور بدکار انسانوں کا ان مقامات پر حاضر و ناظر ہونا استغفر اللہ میں کہتا ہوں کہ کیا تو احمد رضاخان بریلوی ،احمد یار گجراتی ،عمر اچھروی ،الیاس عطاری اختر رضاخان کو بھی بدکار انسان مانتا ہے ؟اگر نہیں تو انہیں کبھی چکلنے خانے شراب خانے اور انڈین فلمیں دیکھنے اور بنانے کیلئے حاضر ناظر کیا ہے ؟ ایک طرف تو رضاخانی کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے برابر نہیں سمجھتے اور پھر جب نبی کریم کے متعلق ان کے کسی خدائی عقیدے پر اعتراض کیا جاتا ہے تو فورا معاذاللہ اللہ پر قیاس کرنے لگ جاتے ہیں مثلا اگر اللہ کے نبی ہر جگہ حاضرناظر تھے تو تو اپنے صحابہ کے بیر معونہ میں کیوں بھیج دیا زہر آلود گوشت کیوں کھالیا تو جھٹ سے جواب دیں گے کہ اللہ بھی تو یہ سب جانتا تھا خدا کے بندے اللہ تو فعال لما یرید لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون اس کی شان ہے کل تو کو کوئی تمہاری طرح عقل سے پیدل کسی کو قتل کردے کسی کی ٹانگ یاتھ توڑ دے کسی کو آگ میں ڈال دے اور یہی قیاسی شگوفہ چھوڑے کہ جب اللہ یہ سب کچھ کررہا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں تو مجھ پر کیوں ان سے کہا جاتا ہے کہ جب ہر جگہ حاضر ناظر تو کیا گندے مقامات پر بھی تو جھٹ سے جواب کیا اللہ کو وہاں کا علم نہیں ظالمو! اللہ اللہ ہے اور مخلوق مخلوق میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتی میں ان کیلئے یہ جائز تھا کہ وہ ان مقامات پر جائے غیر محرم عورتوں کو دیکھے? ایک ساتھی نے کہا کہ میں نے ان رضاخانیوں سے سوال کیا کہ جب حضور حاضر ناظر ہیں ہر جگہ تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے تو کہا اللہ کیوں نظر نہیں آتا پھر اللہ کو مثال میں پیش کردیا کیا تم نبی کو اللہ مانتے ہو ? جاہلو اللہ جسم سے پاک ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جسم رکھتے تھے وہ بھی جسم کثیف حیاتی میں ہر ایک کو جب موجود تھے تو نظر بھی آتے تھے خدا تو اس وقت بھی نظر نہیں آتا اب جب حضور موجود نہیں تو نظر بھی نہیں آتے ایسے جاہلوں کو یوں جواب دو کہ قرآن میں اللہ کے ہاتھ و چہرے کا ذکر ہے اب لازم ہوا کہ اللہ کا معاذاللہ نبی کریم کی طرح ہاتھ بھی ہے اور چہرہ بھی ہے اس لیے کہ جب تم نبی کو اللہ پر قیاس کرسکتے ہو تو کوئی اور اللہ کو نبی پر قیاس کیوں نہیں کرسکتا اب پوچھو منظور ہے یہ سیاسی شگوفہ? ان حضرات کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ مخلوق کو اللہ پر قیاس کرتے ہیں اس لئے خدا ئی صفات بھی ان کیلئے تسلیم کرتے ہیں اگر یہ مخلوق کو مخلوق کی حد تک محدود رکھتے تو ان شرکیہ عقائد میں کیوں گرفتار ہوتے۔۔۔!!! ایک اور بدبخت رضاخانی سید فیض علی شاہ نبی کریم ﷺ سے اپنی دلی بغض کا اظہار یوں کرتا ہے : جس جگہ کوئی زنا کررہا ہے جس جگہ کوئی رشوت حاصل کررہا ہے جس جگہ کوئی شراب نوشی کررہا ہے یا جس جگہ کوئی بدکاری کررہا ہے یا خلوت میں بدفعلی کررہا ہے یا چوری کررہا ہے حضور اس کے شاہد ہیں حضور مشاہدہ فرمارہے ہیں (تفسیر اسرار البیان ،ص23) استغفر اللہ۔شرم۔۔۔۔۔۔۔شرم۔۔۔۔شرم حیرت ہے کہ اگر یہودی عیسائی نبی کریم ﷺ پر زیادہ شادیاں کرنے اور اس پر ایک گندہ اعتراض کریں تو سب کی زبانیں باہر نکل آتی ہیں اور یہ پاکستانی سلمان رشدی تمہاری بغلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ ان ننگی باتوں کو نبی کریم ﷺ کا کمال بتارہا ہے آخر کوئی حد ہے اس بے ایمانی کی یعنی سور کو بکرے کا گوشت بتاکر بیچا جارہا ہے اور اعتراض کرنے والوں کو الٹا الزام کے یہ بکرے کی حلت کے منکر وہابی گستاخ ہیں ۔ Ye uska complet post hai usne inke sath scan bhi dhale the vo mujhr yahan dalna nahi aate kyinki main mobile se chalata hun. KHALIL RANA SB SAEEDI SB TOHEEDI SB SAG E ATTAT SB AAP SAB SE REQUEST HAI KI ISKA JAWAB DEVEN AAP MAIN SE KOI FB PE HAI TO MUJHE APNI ID BATA DEN MY EMAIL gulammoin8 at gmail.com Fb user name. Gulam.moin.14 (gulam moin mansuri) ..........
- 3 replies
-
- sag e attar
- tauheedi bhai
-
(and 2 more)
Tagged with: