Jump to content

ڈاکٹرپادری کے لانگ مارچ پر تبصرے


Sybarite

تجویز کردہ جواب

25999_524241770943880_1883262775_n.jpg

 

 

 

 

روزنامہ نئی بات

عبداللہ طارق سہیل

 

کھیل

 

علامہ ناگہانی کہتے ہیں، وہ روحانی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔

کس قسم کا روحانی انقلاب۔ یہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ہیڈ سلیمانکی میں علامہ صاحب کے نوجوان اور ادھیڑ عمر روحانیین لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک65 سالہ غازی محمد یار کو روک کر حکم دیا، لانگ مارچ میں چلو۔ یار محمد نے کہا کہ وہ بوڑھا اور بیمار ہے، اتنی دور نہیں جا سکتا۔ یہ سن کر روحانیین کا مقامی گرو غلام فخری طیش میں آگیا اور بزرگ کو ٹھڈے، مکے اور لاتیں مار مار کر بے ہوش کر دیا۔

روحانی لوگ وفورِ روحانیت سے اکثر بے خود ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسروں کو اس طرح بے خود کرنا پہلی بار سنا۔ بے خود کرنے کے لئے لاتوں ، ٹھڈوں اور گھونسوں کا استعمال علامہ صاحب کے روحانیین کی بالکل نئی ایجاد ہے۔ سچ ہے، موصوف روحانیت کے بھی مجدّد ہیں۔

___________________________

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے تحت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور بم دھماکے اسی کھیل کا حصہ ہیں اور اسی کے دوران طاہر القادری بھی اچانک سامنے آگئے اور دوسری طرف بھارت نے سرحد پر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کے آئینی خاتمے میں دو ماہ رہ گئے ہیں ۔اخبار نے لکھا ہے کہ یہ واقعات ایک لکھے گئے سکرپٹ کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ ایک اور اخبارہٹنگٹن پوسٹ نے حیرت ظاہر کی ہے کہ علامہ موصوف آئینی تبدیلیوں کے لئے غیر آئینی مطالبات کیوں کر رہے ہیں۔ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اتنے بھاری فنڈز انہیں کہاں سے مل رہے ہیں۔ بہت زیادہ درست تجزیئے کرنے والے برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ قادری کی خواہش ’’راولپنڈی‘‘ کی خواہش ہے اور وہ فوج کے گھوڑے پر سوار ہیں اور پاکستان کی تاریخ کی بھیانک ترین غلطی ہونے جا رہی ہے اور یہ پاکستان کا افسوسناک موڑ ہوگا۔

ممتاز دفاعی ماہر اور مبصر جنرل اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ نے الیکشن روکنے کے لئے قادری کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ہوئے تو نواز شریف حکومت میں آئیں گے اور امریکہ کو نواز شریف کا حکومت میں آنا گوارا نہیں کیونکہ وہ امریکہ کا حکم نہیں مانتا۔

کہانی صاف ہے۔ تشریح کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدر ادارے کرپشن پر پریشان ہیں حالانکہ کرپشن تو ’’زیر سرپرستی‘‘ ہے اور یہ کیسی پریشانی ہے جو الیکشن سے عین پہلے پیدا ہوگئی ہے۔ اصل بات وہی ہے یعنی یہ ڈر کہ امریکہ کا حکم نہ ماننے والے آجائیں گے۔افغان صورت حال اور کشمیر کے مسئلے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام، ٹوٹتی پھوٹتی ریاست بنا دیا جائے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے اور ’’پریشان‘‘ حضرات کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ آخر یہ ’’تقاضا‘‘ ہی تو ہے کہ مشرف اور اس کے مرید بے صفا شیخ رشید سمیت سارے ’’پارسا اور متقی پرہیز گار‘‘لوگوں نے اچانک ہی علّامہ کی حمایت شروع کر دی ہے۔

___________________________

لانگ مارچ کے نتیجے ابھی نہیں نکلیں گے تو بعد میں نکلیں گے۔ یہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے لیکن ایک نتیجہ تو نکلا، زبردست ’’اکنامک ایکٹویٹی‘‘ کی شکل میں۔ جلسے پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے، لانگ مارچ پر5 سے7 ارب روپے کا خرچہ ہوا۔ یہ محتاط اندازہ ہے، صحیح تو زیادہ کا ہوگا۔ پانچ پانچ کروڑ کی رقم تو چار اینکر پرسنوں کے پروگرام خریدنے پر لگی۔ فی اینکر نہیں، فی پروگرام۔ کل دس پروگرام ہوں گے۔ 50 کروڑ تو یہی لگے۔ بیضوی پیٹ اور نیم بیضوی چہرے والے ’’خان‘‘ نے سب سے زیادہ ہاتھ رنگے۔ ملک ریاض کی سخاوت بھی اسی اینکر پر سب سے زیادہ برسی تھی۔

چنانچہ غور فرما لیجئے، کتنے لوگوں کا بھلا ہوا ہوگا۔ کتنے تشہیری اداروں نے اپنے ملازموں کو بونس دیئے ہوں گے۔ ہزاروں دیہاڑی داروں کی ہفتے بھر کی نہیں تو دو چار دن کے لئے چولہا گرم کرنے کی تدبیر تو ہوگئی۔

کچھ لوگ مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاہور سے تین لاکھ افراد لے کر نکلنے کا دعویٰ تھا، صرف سات ہزار کا ’’لانگ مارچ‘‘ کیوں نکلا اور اسلام آباد میں40لاکھ کا دعویٰ تھا، ایک لاکھ بھی نہیں آئے ۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سات آٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری تو ہوگئی۔اور یہ پوچھنا تو نادانی ہے کہ اتنے ارب در ارب کی دولت کہاں سے آئی۔ پہنچے ہوئے بزرگوں کو ’’دست غیب‘‘ تک غیبی رسائی ہوتی ہے۔

اور غریبوں کی بات آئی تو وہ دو غریب یاد آگئے جو ایک غریب پر ور ملک ریاض کا دامن پکڑ کر آستانہ انقلاب جا پہنچے تھے۔ انقلابِ دوراں نے فرمایا کہ ملک ریاض کی موجودگی میں بات نہیں کروں گا۔ (یہ سچ ہی تھا۔ اضافی بدنامی مول لینے سے کیا فائدہ) دونوں غریب بھائیوں نے انہیں بتایا کہ ملک ریاض غریبوں کو بہت کھلاتے ہیں‘‘

دونوں غریبوں کو ملک ریاض نے یقیناً پیٹ بھر کر کھلایا ہوگا اور دونوں غریبوں نے جھولیاں اٹھا اٹھاکر دعائیں بھی دی ہوں گی۔ جس طرح اب تک وہ زرداری کیلئے جھولیاں اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے پہلے مشرف کے لئے اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے بھی پہلے نواز شریف کے لئے اٹھاتے رہے۔

غریبوں کی اس سدا بہار جھولی بردارجوڑی کی خیر!

Link to comment
Share on other sites

روزنامہ نئی بات

پروفیسر مظہر

 

 

انقلاب انقلاب انقلاب

 

 

 

 

انگڑائی لے کر بیدار ہونے والی حق و صداقت کی آندھیوں نے ہر مقہور کے ذہن میں یہ الفاظ رکھ دیئے ہیں کہ ہماری ماؤں نے ہمیں غلام نہیں جنا، نہ ہم سدھائے ہوئے بندر ہیں جو ہر صاحبِ مکر و ریا کی ڈُگڈی پر ناچنے لگیں ۔منزل قریب آ لگی تو کچھ شعبدہ باز اپنے کرتب دکھانے میدان میں اُتر آئے ۔حکمرانوں کو تو گزرے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہی ہو گااور قوم بد دیانتوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھیکنے کے لئے بیتاب بھی ہے لیکن اِن ’’درآمدی رہزنوں‘‘ کے ذہنوں میں چھُپے زہر سے آگہی بھی ضروری ہے ۔اہالیانِ فکر و نظر اور صاحبانِ بصارت و بصیرت کا فرض ہے کہ وہ دھرتی ماں کا قرض اتارتے ہوئے قوم کو آگاہ کریں کہ یہ نو وارد جو یک سو قوم میں تفرقہ ڈالنے آئے ہیں منصورِ حقیقت نہیں ابنِ ابی ہیں اور حسینیت کا پرچار کرنے والے در اصل یزیدیت کے علمبردار ہیں کہ خلفائے راشدین کا نظام لوٹانے کا دعویٰ کرنے والے کبھی بارہ بارہ کروڑ لاگت کے بُلٹ پروف اور بم پروف کنٹینروں میں سفر کرتے ہیں نہ بُلٹ پروف لینڈ کروزروں میں ۔تینوں خلفائے راشدینؓ نے یکے بعد دیگرے شہادت قبول کر لی لیکن بیت المال سے اپنی حفاظت کے لئے ایک درہم بھی صرف کرنا گوارا نہ کیا ۔لیکن یہ غیر ملکی مولوی موت کے خوف سے لرزہ براندام چوہے کی طرح اپنے بُلٹ پروف بِل میں گھُسا بیٹھا ہے ۔اُس شعبدہ باز نے لانگ مارچ سے پہلے اپنی وصیت لکھوائی حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اُس پر خود کُش حملے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خود کُش حملہ حکیم اللہ محسود کے حکم سے ہونا ہے اور حکیم اللہ امریکی ایجنٹ جبکہ مولوی امریکہ کا چہیتا اور دونوں کا مقصد اور ایجنڈا ایک ، انارکی اور صرف انارکی ۔میں نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہر طالبان کمانڈر کو حکیم اللہ کی مخبری پر ڈرون کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔کالم کی اشاعت کے اگلے ہی روز جنوبی وزیرستان کے کمانڈر مُلّا نذیر کو ڈرون کی غذا بنا دیا گیا ۔مُلّا نذیر کے بارے میں ہماری ایجنسیاں ہی نہیں بلکہ بہت سے واقفانِ حال بھی جانتے تھے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کا جذباتی حامی تھا اور اسی بنا پر اُس کے حکیم اللہ محسود سے شدید اختلافات بھی پیدا ہو چکے تھے ۔

جب کروڑوں ڈالرز سالانہ کی سیکولر دانشوروں اور این جی اوز پر سرمایہ کاری کے باوجود امریکہ حصولِ مقصد میں ناکام رہا تو اسے بھی ادراک ہو گیا کہ پاکستان کے دین سے والہانہ محبت کرنے والے مسلمانوں کے لیے یہ سیکولر دانشور اور این جی اوز، ناکافی ہیں ۔تبھی اُس نے ایک ایسا مولوی بھیجنے کا فیصلہ کیا جو دینِ اسلام کی وہی تشریح کرتا ہے جو امریکہ کو مرغوب ہے ۔میرا دین تو جھوٹے پر ہزار لعنت بھیجتا ہے لیکن اِس’’مسیلمہ کذاب ‘‘ کی پوری زندگی ہی جھوٹ سے عبارت ہے ۔اُس نے پہلے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے مجمعے کو پچیس لاکھ اور پچیس میل تک پھیلا دیا اور اب جب کہ خفیہ ایجنسیاں اور سارا میڈیا چیخ رہا ہے کہ لانگ مارچ کا مجمع کسی بھی صورت میں چالیس ،پینتالیس ہزار سے زیادہ نہیں تو مولوی صاحب اسے چالیس لاکھ قرار دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہ ابھی دس لاکھ لوگ پیدل بھی آ رہے ہیں ۔جب لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد دس سے پندرہ ہزار رپورٹ کی جا رہی تھی تب ایک ٹاک شو میں منہاج القرآن کے ترجمان ریاض قریشی نے یہ تعداد ایک لاکھ بتائی اور عین اسی وقت مولوی صاحب یہ تعداد دس لاکھ بتا رہے تھے ۔مولوی صاحب سے اندھی عقیدت میں گُم اس کے پیرو کاروں کو عقلِ سلیم کا تھوڑا سا استعمال کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا دینِ مبیں کے علمبردار اتنے جھوٹے بھی ہوا کرتے ہیں؟۔انہیں یہ بھی مدِّ نظر رکھنا ہو گا کہ

قول کے کچے لوگوں سے نسبت پر کیسا ناز

دھوبی کے کُتّے کا کیا ہے ،جس کا گھر نہ گھاٹ

جو شخص 23دسمبر سے اب تک سینکڑوں بار اپنے بیانات بدل چکا ہو ، حکومت سے تحریری معاہدہ کرکے مکر چکا ہو اور جس کے قول و فعل میں تضاد ہی تضاد ہو اسے دینِ مبیں کا علمبردار کہنا بذاتِ خود گناہِ کبیرہ ہے ۔مولوی صاحب نے اعلان فرمایا ہے کہ صدر ،وزیرِ اعظم اور وزراء سابق ہو گئے ، اسمبلیاں ختم ہو چکیں اور اب سفرِ انقلاب شروع ہو گیا ۔اُس نے زرداری ، پرویز اشرف ،نواز شریف اور اسفند یار ولی کو قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے کا حکم بھی دیا ہے ۔ایسی باتیں کوئی مخبوط الحواس شخص ہی کر سکتا ہے اور سچ کہا ہے سینیٹر پرویز رشید نے کہ ایسے شخص کو جیل بھیج دینا چاہیے یا پاگل خانے لیکن شاطر رحمٰن ملک کا پروگرام کچھ اور ہے ۔جس طرح وہ مولوی قادری کو ڈھیل دیتے جا رہے ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ ملک صاحب نے مولانا قادری کو بھی سوات کے صوفی محمد کے سے انجام کو پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔حکومت نے صوفی محمد کو ڈھیل دیتے دیتے اُس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ آپے سے باہر ہو گیا اور یہی حربہ اب مولوی طاہر القادری کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

Link to comment
Share on other sites

روزنامہ نئی بات

مستنصر حسین تارڈ کے کالم سے اقتباس۔

 

 

اے قائداعظم ترا احسان ہے احسان

 

 

کہیں کسی کینیڈین پادری صاحب کو یکدم خیال آتا ہے کہ پاکستانی عوام میری مسیحائی کے منتظر ہیں۔۔۔ اور چونکہ میں وہ واحد شخص ہوں جس پر دن رات بشارتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اس لئے کچھ حرج نہیں کہ میں ایک مُوسیٰ کا کردار ادا کرتے ہوئے اس قوم کو دریائے نیل کے پار لے جاؤں۔۔۔بے شک اس مقدس لبادے پر میرے خون کے دھبے نہ تھے، بکرے کے خون کے تھے اور ایک ناہنجار جج نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے آغاز میں مجھے جھوٹا اور فریبی قرار دیا گیا تھا۔ اگر تفصیل درکار ہے تو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کا وہ شمارہ دیکھ لیجئے جس میں یہ عدالتی فیصلہ شائع ہوا۔

Link to comment
Share on other sites

روزنامہ نوائے وقت

اثرچوہان

 

 

مانگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شَیخ اُلاِسلام

 

 

علّامہ طاہراُلقادری کی قیادت میں، اُن کے عقیدت مندوں کا، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع ہے۔ خُدا کرے کہ مارچ کے شُرکا محفوظ رہیں۔ علّامہ صاحب فرماتے ہیں۔ ”میری قیادت میں، لانگ مارچ، عوامی جمہوریہ چِین کے قائد، ماﺅزے تنگ کے لانگ مارچ کے بعد، سب سے بڑا لانگ مارچ ہو گا“۔ پھر فرمایا۔ مَیں حضرت امام حسینؓ کا غلام ہوں اور حسینی مِشن پر نِکلا ہوں“۔ علّامہ القادری نے کبھی ”ماﺅ کیپ“۔ نہیں پہنی۔ وہ پہلے ”جناح کیپ“۔ پھر۔ ”سندھی“ ٹوپی پہنتے رہے، لیکن۔ ”شیخ الاِسلام“۔ کا لقب اختیار کرنے کے بعد موصوف پاپائے روم کی طرح، ایک منفرد ٹوپی یا عمامہ پہننے لگے ہیں۔ علّامہ صاحب کو امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؑ سے تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک!

ماﺅزے تنگ کی قیادت میں (1934ئ۔ 1935ءمیں) ہونے والے لانگ مارچ میں (بقول ماﺅزے تنگ) اُن کے ساتھ، نظریات سے مسلّح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ سُرخ فوج کے جوان اور معمر لوگ چل رہے تھے۔ ماﺅزے تنگ نے، لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لئے، اپنے لئے زندگی کی تمام آسائشوں سے لبریز، بم پروف کنٹینر نہیں بنوایا تھا اور نہ ہی اُن کی سیکورٹی کے لئے 313 گاڑیاں اور کمانڈوز کی 90 گاڑیاں چل رہی تھیں۔ انہوں نے زندگی میں دولت جمع نہیں کی۔ ماﺅزے تنگ، جب آنجہانی ہُوئے تو، چھ جوڑے کپڑے (یونیفارم) ایک لائبریری اور بنک میں ایک ہزار سے بھی کم ڈالرز چھوڑے۔ علّامہ صاحب نے تو ماشااللہ اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ ہر نیوز کانفرنس میں، اُن کے دائیں بائیں بیٹھے اُن کے دونوں پی ایچ ڈی، بیٹوں کی سات پشتیں کینیڈا میں بیٹھ کر آرام سے کھا سکتی ہیں۔ لانگ مارچ پر روانہ ہونے سے پہلے علّامہ صاحب نے (اپنے دونوں بیٹوں سمیت) اہلِ خانہ کو وصیت بھی کی کہ۔ ”میرے قتل کی صورت میں میرے مشن کو جاری رکھا جائے“۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ علّامہ القادری کے اہلِ خانہ لانگ مارچ میں شریک نہیں ہیں۔ علّامہ القادری کے بقول وہ پاکستان میں۔ ”انقلاب“۔ لانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ماﺅزے تنگ نے 1927ءمیں۔ ”ھونان کی کسان تحریک کے بارے میں تحقیقی رپورٹ“۔ میں۔ ”انقلاب“۔ کے حوالے سے لِکھا تھا۔۔۔

”انقلاب کوئی دعوتِ طُعام، یا مضمون نویسی، یا مصّوری، یا کشِیدہ کاری نہیں۔ یہ اتنا نفِیس، اتنا پُرسکون اور کرِیم اُلنفس، اتنا مُعتدل، رحم دل، مودب، محتاط اور عالی ظرف نہیں ہو سکتا۔ انقلاب ایک بغاوت ہے، ایک ایسی تشدد آمیز کاروائی ہے جس کے ذریعے ایک طبقہ، دوسرے طبقے کا تختہ اُلٹتا ہے۔ دیہی انقلاب ایک ایسا انقلاب ہے، جس کے ذریعے کسان طبقہ، جاگیردار زمیندار طبقے کے اقتدار کا تختہ اُلٹتا ہے۔ انتہائی قوت استعمال کئے بغیر کسانوں کے لئے زمینداروں کے اس انتہائی مستحکم اقتدار کا تختہ الٹنا ممکن نہیں جو ہزاروں برس سے قائم ہے“۔

علّامہ القادری تو، محض آئینی اصلاحات کا جھنڈا لے کر، لانگ مارچ کے لئے نِکلے ہیں، لیکن یہ تو، بہت ہی مہنگا لانگ مارچ ہے۔ اتنے مہنگے سیٹ تو ہالی ووڈ کی کسی جنگی فلم کی تیاری میں بھی نہیں لگائے جاتے۔ فلم کی تیاری میں بھی، ہر کردار کو ایک سکرپٹ دِیا جاتا ہے، ریہرسل کرائی جاتی ہے۔ مکالمے یاد کرائے جاتے ہیں، لیکن علّامہ صاحب کے مارچ میں شریک لوگ تو، محض ایک ہجوم کی صورت ہیں۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کر کے، اپنی اپنی جان چھڑا لی ہے۔ اور علّامہ صاحب کی۔ ”اخلاقی حمایت“۔ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ علّامہ صاحب خود بلند اخلاق ہیں۔ ایک زمانہ اُن کے اخلاق کا دم بھرتا ہے۔ بھلا انہیں دوسروں کی اخلاقی حمایت کی کیا ضرورت ہے؟ چودھری شجاعت حسین۔ اپنے نائب وزیرِاعظم کزن چودھری پرویز الہی اور اُن کے بیٹے چودھری مونس الہی کو لے کر، لانگ مارچ رکوانے کے لئے جب، علّامہ صاحب کے گھر پہنچے تو، علّامہ صاحب کے دونوں بیٹے متحرک تھے۔ لانگ مارچ۔ چودھری خاندان اور طاہرالقادری خاندان کا مسئلہ معلوم ہو رہا تھا، ملک محمد ریاض آف بحریہ بھی، چودھری صاحبان کے ساتھ تھے، لیکن علّامہ القادری نے ملک ریاض کو، ریاست کا اسٹیک ہولڈر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

لانگ مارچ کے ڈرامے میں، ملک ریاض کے اچانک نمودار ہونے سے، پتہ چلا کہ جِس طرح، ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اُسی طرح ہمارے بہت سے، سیاستدانوں کی کامیابی کے پیچھے، ملک ریاض کا ہاتھ بلکہ کندھا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ۔ حضرت موسیٰؑ کے دور کے، بنی اسرائیل کے ایک شخص ”قارون“۔ کے پاس بھی اتنی دولت نہیں تھی کہ جتنی، ملک ریاض کے پاس ہے۔ روایت ہے کہ قارون کے پاس اتنا خزانہ تھا کہ 40 خچر، اُس خزانے کی چابیاں لے کر چلا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے قارون کو، اپنے ایک ہزار دینار پر، ایک دِینار زکوٰة ادا کرنے کا حُکم دیا تھا، لیکن اُس نے یہ حُکم نہیں مانا اور وہ حضرت موسیٰؑ کی بددُعا سے اپنی دولت سمیت زمین میں غرق ہو گیا۔

چودھری شجاعت حسین نے، ملک ریاض کو پاکستان کا سب سے بڑا مخیر قرار دیا اور خلقِ خُدا کے ساتھ اُن کے حُسنِ سلوک کی بہت تعریف بھی کی۔ علّامہ القادری اگر چاہتے تو، پُر امن رہنے کی شرط پر، وہ اپنے لانگ مارچ، کے سارے اخراجات ملک ریاض سے وصول کر سکتے تھے، لیکن علّامہ صاحب کو، اللہ تعالیٰ نے اتنا کچھ دیا ہے کہ انہیں کسی بھی، ملک ریاض کی ضرورت نہیں۔ یوں بھی، ملک ریاض اپنے ہر۔ ”کارخیر“۔ کی خُفیہ طور پر ویڈیو فلم بنوا لیتے ہیں۔ علّامہ القادری نے چودھری صاحبان کو مایوس بھیج دیا، لیکن۔ ”ہنوز اسلام آباد دُور است“۔ چودھری شجاعت حسین اب بھی پُراُمید ہیں۔ کہتے ہیں۔ ”راستے میں، مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں اور لانگ مارچ رُک سکتا ہے“۔ ایسی صورت میں صدر زرداری کی خدمت میں جو رپورٹ پیش کی جائے گی۔ اُس کا منظوم خلاصہ یہ ہو گا۔۔۔

”چودھریوں سے، مُک مُکا میں، ملک ریاض کا، کیا ہے کام؟

مانگتا ہے، شَیخ اُلاِسلام ، پاکستان میں اُونچا مقام“

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...

لوگوں کی سوچ کس قدر منفی ہو تی جا رہی ہے کہ مثبت سوچ، سوچ ہی نہیں سکتے ۔ حیران ہوں کہ اس معاشرے میں نہ ہی کوئی اختلاف کے اصول ہیں اور نہ ہی تائید کے، سارا زور صرف اپنی اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔ جو چیز پسند نہیں اس کے حوالے سے ہر جھوٹی بات کو بغیر کسی تحقیق کے آگے پیش کر دیا جاتا ہے مثلا قادری صاحب کے حوالے سے ایک جھوٹ مسلسل بولا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا ہے حالانکہ یہ بات سو فیصد غلط ہے، کسی ہائی کورٹ نے آج تک قادری صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔

ماڈریٹر صاحب نے چن چن کر وہ آرٹیکل یہاں پیش کئے جو قادری صاحب کے مارچ خلاف لکھے گئے حالانکہ بہت سے آرٹیکل اس مارچ کے حق میں لکھے گئے ہیں۔

Link to comment
Share on other sites

لوگوں کی سوچ کس قدر منفی ہو تی جا رہی ہے کہ مثبت سوچ، سوچ ہی نہیں سکتے ۔ حیران ہوں کہ اس معاشرے میں نہ ہی کوئی اختلاف کے اصول ہیں اور نہ ہی تائید کے، سارا زور صرف اپنی اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔ جو چیز پسند نہیں اس کے حوالے سے ہر جھوٹی بات کو بغیر کسی تحقیق کے آگے پیش کر دیا جاتا ہے مثلا قادری صاحب کے حوالے سے ایک جھوٹ مسلسل بولا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا ہے حالانکہ یہ بات سو فیصد غلط ہے، کسی ہائی کورٹ نے آج تک قادری صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ ماڈریٹر صاحب نے چن چن کر وہ آرٹیکل یہاں پیش کئے جو قادری صاحب کے مارچ خلاف لکھے گئے حالانکہ بہت سے آرٹیکل اس مارچ کے حق میں لکھے گئے ہیں۔

 

یہاں ذاتی پسند ناپسند کی بات آپ نے کیوں کی اس کی وجہ تو آپ ہی جانتے ہونگے ورنہ ہم نے تو یہ تمام تبصرے بلاتبصرے یہاں پیش کئے تھے۔ ویسے ان تمام تبصروں پر آپ کا تبصرہ بھی ذاتی ہی شمار کیا جائے گا اور اس کی بھی علمی اوقات کیا ہے یہ سبھی کے سامنے ہے۔ اور قربان جاوٗ آپ کے درسِ اخلاقیات پر کہ جب ڈاکٹرپادری سے ٹی وی پر آن ائیر فیسبک پر ان کے متعلق کمنٹس پر سوال کیا جائے تو وہ چیخ چیخ کر فیسبک یوزرز کو کالے کالے کہہ کر اپنی خفت مٹانے کے باوجود آپ کے نزدیک شیخ الاسلام قرار پاتے ہیں لیکن کوئی صحافی اگر غیرجانبدارانہ تجزیہ پیش کردے جو ڈاکٹرپادری کے خلاف جاتا ہو تو وہ صحافی کا ذاتی عناد قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور جناب آپ کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ پادری لانگ مارچ ڈرامے کے حق میں لکھے آرٹیکلز کو منہاجیوں کی ویبسائٹ پر پیش کریں۔ بس یہاں گندگی کرنے سے پرہیز کیجیئے گا۔

 

 

لاہور ہائیکورٹ کا متن بلاتبصرے حاضر ہے۔

 

tahir-ul-qadri.jpg

Link to comment
Share on other sites

ورنہ ہم نے تو یہ تمام تبصرے بلاتبصرے یہاں پیش کئے تھے۔

تبصرہ کرنے کی گنجائش بھی کہاں تھی آپ جس ذہنیت کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے وہ مقصد تو ویسے ہی حاصل ہو گیا۔

 

بس یہاں گندگی کرنے سے پرہیز کیجیئے گا۔

جب اپنی پھیلائی گندگی آپ کو صفائی نظر آئے گی تو یقیناً دوسری کی صفائی آپ کو گند ہی نظر آئے گی ۔ چنتا نہ کریں آپ اپنی پھیلائی ہوئی گندگی کے ساتھ خوش رہیں میں اس کی صفائی کے لئے لانگ مارچ کے حق میں لکھا گیا کوئی آرٹیکل پیش نہیں کروں گا۔

 

لاہور ہائیکورٹ کا متن بلاتبصرے حاضر ہے۔

میرے محترم آپ کا لگایا ہوا اسکین ہرگزہرگزلاہور ہائی کورٹکے فیصلے کا متن نہیں ہے کیونکہلاہور ہائی کورٹنے آج تک ایسا کوئی فیصلہ دیا ہی نہیں۔

یہ تو پنجاب ٹریبیونل آرڈینیس کے تحت قائم شدہ یک رکنی ٹریبونل کایک طرفہ سماعتکے بعد کایک طرفہ فیصلہہے جسے آپ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

تبصرہ کرنے کی گنجائش بھی کہاں تھی آپ جس ذہنیت کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے وہ مقصد تو ویسے ہی حاصل ہو گیا۔

 

جب اپنی پھیلائی گندگی آپ کو صفائی نظر آئے گی تو یقیناً دوسری کی صفائی آپ کو گند ہی نظر آئے گی ۔ چنتا نہ کریں آپ اپنی پھیلائی ہوئی گندگی کے ساتھ خوش رہیں میں اس کی صفائی کے لئے لانگ مارچ کے حق میں لکھا گیا کوئی آرٹیکل پیش نہیں کروں گا۔

 

 

میرے محترم آپ کا لگایا ہوا اسکین ہرگزہرگزلاہور ہائی کورٹکے فیصلے کا متن نہیں ہے کیونکہلاہور ہائی کورٹنے آج تک ایسا کوئی فیصلہ دیا ہی نہیں۔

یہ تو پنجاب ٹریبیونل آرڈینیس کے تحت قائم شدہ یک رکنی ٹریبونل کایک طرفہ سماعتکے بعد کایک طرفہ فیصلہہے جسے آپ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

 

نیّت کی اظہار کی تو بات ہی نہیں۔ ردِّصلح کلیت کے سیکشن میں بھی آپ امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹرپادری سے پیسے بٹور کر آکٹیکل نقل کردیا جائے گا تو یہ آپ کی بےوقوفی ہے۔ باقی خود بھی تحقیق کرلیں کہ کتنے صحافیوں نے اس لانگ مارچ ڈرامے کے حق میں لکھا اور کتنوں نے خلاف تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔

 

گندگی کی تو بات ہی نہ کریں آپ حضور! ڈاکٹرپادری کے مداحوں نے اسلام آباد کی سڑکوں پر کیسی غلاظت پھیلائی اس کی تفصیل تو کافی چینلز پر دکھائی جاچکی، ہاں ڈاکٹرپادری کی غلاظت اس کربلائی بلٹ پروف کنٹینر سے نکل کر عوامی گند میں شامل ہوئی یہ ڈاکٹرپادری کے ساتھ ہی رخصت ہوئی اس کی تفصیل نہیں ملی۔ اور ہمیں زیادہ چنتا ہوتی بھی نہیں کیونکہ چنتا تو وہاں ہو جہاں آپ جیسوں نمٹنے کا انتظام نہ ہو۔

 

جناب ڈاکٹرپادری کی ڈگڈگی پر مت ناچیے کمرمیں چک آجائے گی۔ یہ یک رکنی ٹربیونل جو کہ پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈینینس ۱۹۶۹ کے تحت قائم کیا گیا تو کیا یہ کسی چوراہے پر جرگے میں بیٹھ کر کام کرنے کے لئے بنایا گیا تھا؟ آپ نے غالباً اس کی اہمیت کو کم کرنے کی خاطر یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ پتہ نہیں شاید آپ نے اسے کسی چلتے پھرتے بندے کی ذاتی رائے سمجھ لیا۔ ورنہ

پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈینینس ۱۹۶۹ کے تحت تو اس ٹربیونل کو سول کورٹ کے برابر اختیار حاصل ہے اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ۱۹۳ اور ۲۲۸ کے تحت اسے جوڈیشل کاروائی قرار دیا گیاہے۔ ایسے تحقیقاتی ٹربیونل کورٹ کی ہدایت پر ہی تشکیل دیے جاتے ہیں اوران کا کام ہوتا ہے کہ کسی واقعہ یا واردات اور اس سے متعلقہ دوسرے معاملات کی تحقیقات کرکے یہ بتائے کہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کن پر عائد ہوتی ہے۔

 

آپ یہ بتائیں کہ آج کئی کئی فٹ اچھل اچھل کر منہ سے پسینہ پونچھتے اپنے خلاف ہر بات کی تردید کرنے والے ڈاکٹرپادری نے تحقیقاتی ٹربیونل کے اس فیصلے کو دنیا کی کس عدالت میں چیلنج کیا؟ یک طرفہ فیصلے کی بات کرنے والے اس پادری سے پوچھیں کی اس وقت اس تحقیقاتی کاروائی بائیکاٹ کرکے بھاگے کیوں تھے؟

Link to comment
Share on other sites

میرا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کچھ لوگ آپ سمیت مسلسل غلط بیانی کر رہے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے قادری صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے ۔

اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ یہ ایک یک طرفہ سماعت اور یک طرفہ ریمارکس ہیں۔

قادری صاحب نے وسیم بادامی کے پروگرام میں واضح کر دیا تھا کہ انہوں نے کیوں اس ٹریبیونل کا بایئکاٹ کیا۔

باقی جناب میں کسی کی ڈگڈگی پر نہیں ناچ رہا بلکہ آپ کے بیہودا انداز گفتگو سے یہی لگتا ہے کہ آپ اپنے شریر نفس کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں۔

اس طرح کے الفاظ بھی میں صرف آپ کی مسلسل یادہ گوئی کی بنا پر استعمال کرنے پر مجبور ہوا ہوں ۔

Link to comment
Share on other sites

میرا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کچھ لوگ آپ سمیت مسلسل غلط بیانی کر رہے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نےقادری صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے

 

اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ یہ ایک یک طرفہ سماعت اور یک طرفہ ریمارکس ہیں۔

قادری صاحب نے وسیم بادامی کے پروگرام میں واضح کر دیا تھا کہ انہوں نے کیوں اس ٹریبیونل کا بایئکاٹ کیا۔

 

یہ مقصد آپ کا نہیں ڈاکڑپادری کا ہے۔ جج لاہور ہائیکورٹ کا، ٹربیونل بھی لاہور ہائیکورٹ کا تشکیل کردہ لیکن پھر بھی یہی رونا رو رہے ہیں کہ کورٹ کا فیصلہ نہیں۔ کورٹ کا فیصلہ یک طرفہ نہیں بلکہ تحقیقاتی ٹربیونل کے تشکیل پاتے ہی ڈاکٹرپادری کو اپنے ڈرامے کا ڈراپ سین صاف نظر آنے لگا اس لئے فوراً عدالتی تحقیقات سے منہ چرا کر بھاگ لئے۔ ورنہ اس ٹربیونل میں ڈاکٹرپادری کے بیانات اور دیگر بیانات کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہی ہوئی تھی۔ آج اتنے سالوں بعد جب سوشل میڈیا کی بدولت ڈاکٹرپادری کا ڈرامہ عوام کے سامنے آیا تو بھی وسیم بادامی یاد آیا۔ عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی ہمت ڈاکٹرپادری میں آج بھی نہیں۔ اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ ڈاکٹرپادری کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جہاں انہیں اپنی دال گلتی نظر نہیں آتی وہاں سے یہ فرار اختیار کرلیتے ہیں ورنہ جس طرح وسیم بادامی کے پروگرام میں اس فیصلہ کا ناکام جواب دینے کی کوشش کی اسی طرح حنیف قریشی کے مناظرے کی دعوت کا بھی جواب دے دیتے، یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ وہی ڈاکٹرپادری ہیں جو سیاستدانوں کو مناظرے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔

 

یہ عدالتی معاملہ تھا جناب، ڈاکٹرپادری کا جلسہ نہیں جہاں وہ پھدک پھدک کر جذباتی بیان کرتے جائیں اور عوام بےچاری سر ہلا کر سب کچھ مانتی جائے۔ اسی لئے عدالت نے ڈاکٹرپادری کے دعووں کی تحقیقات کے لئے ٹربیونل بنایا اور یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا ٹربیونل نہیں۔ تحقیقاتی ٹربیونل اکثر ہی کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا جاتا ہے۔ سو اسے صرف ٹربیونل قرار دے کر یہ تاثر دینا کہ گویا لاہور ہائیکورٹ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں مصطفوی انقلاب اور لانگ مارچ کی نوعیت کا ایک ڈرامہ ہی ہے اور کچھ نہیں۔ باقی اس ٹربیونل کے اختیارات پر پچھلی پوسٹ پر بات کرچکا جس سے کنی کترا گئے۔ اس ٹربیونل کے فیصلے کو کس عدالت میں چیلنج کیا گیا اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ غالباً ۲۰۰۸ میں ایسا ہی ٹربیونل شریف برادران کی الیکشن میں اہلیت کے معاملے پر بھی بنایا گیا تھا جس کے فیصلے کو بعد میں سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا تھا۔

 

باقی جناب میں کسی کی ڈگڈگی پر نہیں ناچ رہا بلکہ آپ کے بیہودا انداز گفتگو سے یہی لگتا ہے کہ آپ اپنے شریر نفس کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں۔

اس طرح کے الفاظ بھی میں صرف آپ کی مسلسل یادہ گوئی کی بنا پر استعمال کرنے پر مجبور ہوا ہوں ۔

 

ہم مہاورۃً کچھ کہہ دیں تو بیہودگی کہلاتی ہے اور اپنے خلاف تنقید کو برداشت نہ کرتے ہوئے ڈاکٹرپادری چیخ چیخ کر فیسبک یوزرز کو کالے چہرے والے کہیں تو آپ جیسوں کے نزدیک شیخ الاسلام قرار پاتے ہیں۔ میرے نفس کی تو بات ہی کیا، میرا کون سا ڈاکٹرپادری سے ذاتی نوعیت کا اختلاف ہے جو میرا نفس مجھے اکسائے۔ چلئیے اگر اسے میری یاوہ گوئی بھی مان لیجئیے تو بھی نفس کی ڈگڈگی پر ناچنے والے آپ بھی قرار پائیں گے کہ میرے الفاظ کو ذاتی طور پر لے کر اب آپ خود بھی مدافعتی طور پر یاوہ گوئی پر اتر آئے ہیں۔

 

خیر یہ باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی پہلے آپ اس عدالتی فیصلے پر تو مکمل بات کرلیں۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...