Jump to content

ساجد خائن دیوبندی کے تفسیر نعیمی پر اعتراضات کا جواب


محمد حسن عطاری

تجویز کردہ جواب

 

ساجد خائن نے اپنی بدنام زمانہ کتاب مسلک اعلی حضرت میں انتہائی خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراضات کیے ہیں۔
 ہم بصورت پوسٹ آپ کے سامنے مع جواب پیش کر رہے ہیں۔

فرعون، موسیٰ ،ابوجہل اور نبی ﷺ آپس میں بھائے تے۔
 (تفسیر نعیمی)

الجواب: معزز قارئین کرام! یہاں بھی دیوبندیوں نے دجل و مکاری سے کام لیا کیونکہ یہاں اولاد آدم علیہ السلام ہونے کے اعتبار سے بات کی جارہی ہے چنانچہ تفسیر نعیمی میں عبارت اس طرح ہے:

حضرت آدم علیہ السلام ایک ہیں مگر ان کی اولاد مومن بھی ہے، کافر بھی، مشرک بھی، منافق بھی، پھر مومنوں میں اولیاء بھی ہیں، انبیاء بھی، حضور محمد مصطفی بھی۔ گویا ایک درخت میں ایسے مختلف پھل لگادینا کہ اسی میں فرعون ہے، اسی میں موسیٰ علیہ السلام ، اسی میں ابوجہل ہے، اسی میں حضور محمد مصطفی ﷺ۔ یہ کمال قدرت ہے اور اس کی رحمت کی بھی دلیل ہے کہ سارے انسان اس رشتے سے بھائی بھائی ہیں۔ 
(تفسیر نعیمی ج 7 ص 670)

یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے اعتبار سے سب آپس میں بھائی بھائی  ہیں۔ خود علماء دیوبند نے لکھا ہے:
اخوۃ نفس بشریت میں اور اولاد آدم ہونے میں ہے۔ 
(براہین قاطعہ ص 7)

اسی طرح دیوبندی اکابر مزید کہتا ہے کہ
پس اگر کسی نے بوجہ آدم ہونے کے آپﷺ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کے کہہ دیا وہ تو خود نص کے موافق ہی کہتا ہے۔

(ایضا ص 7)

یعنی نبی پاک ﷺ بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور باقی بھی تو اگراس اعتبار سے کوئی نبی پاک ﷺ کو کسی کا بھائی کہہ دے تو نص کے خلاف نہیں۔
اسی طرح علماء دیوبند کے امام سرفراز صفدر کہتے ہیں
اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد حضرات انبیائے کرام علیھم السلام کو اپنی امت اور قوم کا بھائی فرمایا ہے حالانکہ ان امتوں کے بیشتر افراد اوراکثریت کفروشرک پر مصر رہی اور یہ اخوت قومی اور لسانی درجہ کی تھی۔
(عبارات اکابر ص 68)

تو معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک بھی کافر و مشرک بھی قومی و لسانی اعتبار سے انبیاء علیھم السلام کے بھائی ہوسکتے ہیں بالکل اسی طرح تفسیر نعیمی میں اولاد آدم ہونے کے اعتبار سے انہیں بھائی کہا گیا۔ لہذا بزبان دیوبندی یہ نص کے خلاف نہیں۔

اب آئیے علماء دیوبند کے امام کی عبارت دیکھیے
البتہ نفس بشریت میں مماثل آپ ﷺ کے جملہ بنی آدم ہیں

(براہین قاطعہ ص7)

یعنی نفس بشریت میں نبی پاک ﷺ جملہ بنی آدم کی طرح ہیں۔ تو اب دیوبندی بتائیں کہ نبی پاک ﷺ کی بشریت کو جملہ بنی آدم کی مثل بتانا گستاخی ہے کہ نہیں؟ 
آخری بات یہ ہے کہ دیوبندی حضرات یہاں اپنے  دہلوی کی عبارت کا عین ایمان ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ دہلوی کی عبارت میں اصل اختلاف بھائی کہنے پر نہیں بلکہ بڑے بھائی کی سی تعظیم کرنے پر ہے۔ چنانچہ دہلوی نے لکھا
انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجیے اور مالک سب کا اللہ ہے بزرگی اس کو چاہیے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء انبیاء امام و امام زادہ، پیر و شہید، یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہی ہیں اور بندے عاجز اور ہمارے بھائی، مگر ان کو اللہ نے بڑائی دی وہ بڑے بھائی ہوئے ہم کو ان کی فرمانبرداری کا حکم ہے ہم ان کے چھوٹے ہیں۔
(تقویۃ الایمان ص 42)

اسماعیل دہلوی کی اس عبارت میں محض بڑا بھائی کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ ان کی تعظیم بڑے بھائی جیسی کرنے پر ہے۔

ابلیس آدم علیہ السلام کے استاد تھے۔ معاذاللہ۔
📕 (معلم تقریر ص 95)
الجواب: یہ بھی دیوبندیوں کا صریح جھوٹ اور زبردست بہتان و افتراء ہے۔ کیونکہ ہم نے معلم تقریر کو صفحہ نمبر 92 سے صفحہ نمبر 101تک پڑھا مگر کہیں بھی دیوبندی مولوی کی مفروضہ عبارت شیطان نبی کا استاد ہے، نہ پایا۔ بلکہ حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے الرحمن  علم القرآن کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا
 رحمن نے انہیں سکھایا تو معلوم ہوا کہ وہ نہ جبریل کے شاگرد تھے اور نہ کسی اور مخلوق کے بلکہ وہ خاص شاگرد رشید حق تعالیٰ کے ہیں اور حضرت جبریل تو فقط پیغام لانے والے ہیں۔ 
(معلم تقریر ص 95)

قارئین کرام! آپ نے دیوبندی  مولوی کا دجل و فریب ملاحظہ فرمایا لیکن اب ایک سچ ملاحظہ کیجیے کہ علماء دیوبند نے خود کو نبی پاک ﷺ کا استاد بتایا۔

ایک صالح فخر عالم علیہ السلام کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے تو آپ کو اردو میں کلام کرتے دیکھ کر پوچھا آپ کو یہ کلام کہاں سے آگیا آپ تو عربی ہیں فرمایا کہ جب سے علماء مدرسہ دیوبند سے ہمارا معاملہ ہوا ہم کو یہ زبان آگئی۔ سبحان اللہ اس س مرتبہ اس مدرسہ کا معلوم ہوا📕(براہین قاطعہ)

تو دیکھے دیوبندی حضرات نبی پاک ﷺ کو اپنا شاگرد بتا رہے ہیں یاد رہے کہ خوا ب کا معاملہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دیوبندیوں نے اس سے اپنے مدرسہ کی فضیلت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

جس سے حضور ﷺ بے توجہی فرما لیتے ہیں وہ بدبخت ہوجاتا ہے پھر گناہ کرتا ہے یہی حال آدم علیہ السلام کے ساتھ ہوا (حضور نے بے توجہی اختیار کرلی تھی)

معاذاللہ
📕 (شان حبیب الرحمن ص 146)

الجواب
 ہمارا پالا ایسے دجالوں سے پڑا ہے جنہوں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ دجل و فریب سے ہی کام لینا ہے، معزز قارئین کرام! آئیے ملاحظہ کیجیے کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے شان حبیب الرحمن میں کیا لکھا ہے:
جب کبھی حضور ﷺ کسی سے بےتوجہی فرمالیتے ہیں تو وہ بدبخت بنتا ہے اور گناہ کرتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے خطا کا ہونا اس سبب سے ہوا کہ توجہ محبوب علیہ السلام کچھ ہٹ گئی تھی۔ 
📕(شان حبیب الرحمن ص 146)

تو اب دیکھیے کہ پہلا جملہ الگ ہے اور دوسرے جملے میں بدبختی کی ہرگز بات نہیں بلکہ وہاں تو صرف توجہ ہٹ جانے کی بات ہے اور پھر یہاں یہ بھی نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کیا بلکہ یہاں تو صرف خطا کا لفظ ہے۔ علماء گناہ اور خطا کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے نہ تو حضرت آدم علیہ السلام کو بدبخت کہا نہ ہی گناہ کی نسبت ان کی طرف کی۔
اب آئیے دیکھیے علماء دیوبند کے امام محمد بن عبدالوہاب نجدی نے لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے شیطان کی بات مانی ہے اور شرک فی الاطاعۃ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 
(ملخصا کتاب التوحید ص 145)
اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ شرک کرنے والا جہنم میں جائے گا۔ (ایضا ص 9)
*تو اصول وہابیہ کے مطابق معاذاللہ ثم معاذاللہ حضرت آدم علیہ السلام مشرک و جہنمی ہیں۔ استغفراللہ)*

اسی طرح علماء دیوبند کے اشرف علی تھانوی نے اپنے قرآن کے ترجمے میں لکھا ہے کہ
 اور ان (یوسف علیہ السلام) کو بھی اس عورت کا کچھ کچھ خیال ہوچلا تھا۔ 
(ترجمہ اشرف علی تھانوی، سورہ یوسف آیت 24)

یعنی تھانوی کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام بھی معاذاللہ اس عورت کے ساتھ گناہ کبیرہ کی جانب مائل ہوگئے تھے۔ (استغفراللہ)

منقول از رد اعتراضات مخبث


 

Link to comment
Share on other sites

  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...