Jump to content

تمام سرگرمیاں

This stream auto-updates

  1. Today
  2. گزشتہ کل
  3. May Allah (SWT)guide us to the right path & give us the necessary strength to fully fill this responsibility in our ibadat. 10 Muharram ki Fazilat
  4. منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کی الٰہی روز و ماہ و سن انہیں گزرے محرم س
  5. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara جب تک برصغیر میں انگریز کا راج تھا تو اس دور میں ایک کتاب "تحفةالعوام" چھاپی گئی اور اس میں بتایا گیا کہ امام زمانہ کے بغیر کوئی جہاد نہیں ہے۔ انگریزی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی یہ مسئلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ رہ گیا کافروں کو قتل کرنے کا جذبہ اور ثواب تو اسے "انوار نعمانیہ" نامی کتاب میں چھپی ہوئی حدیث سے ژندہ رکھا گیا کہ جو بھی اپنی (دائمی / موقتہ) عورت سے جماع کرتا ہے تو اسے کافر مارنے کا ثواب ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کافر مارنے اور غازی بننے کا کام جب اتنا آسان ہو جائے تو غازی بن کر غازی کا علم لگانے سے کون گریز کر سکتا ہے۔ امام کے بغیر جہاد نہ ہونے کی پرانی سوچ اور جہاد کئے بغیر کافر مارنے کے ثواب لینے کی باتیں ملاحظہ فرمائیں
  6. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara شیعہ حضرات کی روایات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت علی کی مولائیت مشتہر کرنا چاہتا تھا مگر ان کی (بلا فصل) حکومت نہیں چاہتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ وہی ہوتا ہے جو رب چاہے۔ ==========(1)========= نبی پاک حریص برائے امارت علی مگر اللہ تعالیٰ مانع ھے۔۔ ------------------ التفسير الصافي - الفيض الكاشاني - ج ١ - الصفحة ٣٧٩ (128) ليس لك من الأمر شئ العياشي عن الباقر (عليه السلام) ..... أن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) كان حريصا على أن يكون علي (عليه السلام) من بعده على الناس وكان عند الله خلاف ما أراد فقال له ليس لك من الأمر شئ يا محمد في علي الأمر إلي في علي وفي غيره =========2======== اللہ تعالیٰ مولائیت علی مشتہر کرنا چاہتا ہے مگر نبی پاک گریزاں رھے۔ ------------------ التفسير الصافي - الفيض الكاشاني - ج ٢ - الصفحة ٥١ (67) يا أيها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك يعني في علي صلوات الله عليه فعنهم (عليهم السلام) كذا نزلت وإن لم تفعل فما بلغت رسالته إن تركت تبليغ ما انزل إليك في ولاية علي (عليه السلام) وكتمته كنت كأنك لم تبلغ شيئا من رسالات ربك في استحقاق العقوبة وقرء رسالته على التوحيد والله يعصمك من الناس يمنعك من أن ينالوك بسوء إن الله لا يهدى القوم الكافرين ------------- في الجوامع عن ابن عباس وجابر بن عبد الله رضي الله عنه إن الله تعالى أمر نبيه (صلى الله عليه وآله) ان ينصب عليا عليه الصلاة والسلام للناس ويخبرهم بولايته فتخوف أن يقولوا حامى ابن عمه وأن يشق ذلك على جماعة من أصحابه فنزلت هذه الآية فأخذ بيده يوم غدير خم وقال (صلى الله عليه وآله) من كنت مولاه فعلي مولاه
  7. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara عید غدیر کے تین دن 18,19,20 ذوالحجۃ کو مومنین و مومنات کے گناہ نہیں لکھے جاتے جو چاہیں کریں۔ موجاں ای موجاں
  8. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد والے اوصیاء (یعنی تین خلفائے راشدین ؟) حضرت مولا علی کے امام (پیشوا) ہیں۔ حضرت علی پاک کا ارشاد ملاحظہ ہو۔ والأوصياء من بعده أئمتي رسول کے بعد والے اوصیاء میرے پیشوا ہیں۔ صحیفہ علویہ وغیرہ
  9. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں کے حاکم تھے اور خیبر کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کے بھی حاکم تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا صرف اور صرف مسلمانوں کے تھے اور یہودیوں عیسائیوں کے حاکم تھے مگر مولا نہیں تھے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی حاکم لینا درست نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سید العالمین اور سید اولاد آدم بتایا مگر حضرت علی کو سید العرب بتایا تو دونوں کے سید اور سردار ہونے کے دائرہ کار بھی برابر نہیں ہیں جبکہ دونوں کا مولا ہونے کا دائرہ کار ایک ہے۔ پس حدیث (جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے) میں مولا کا معنی سید / سردار / آقا/master کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔ حضرت علی نے مولا کا معنی دوست محبوب لیا اور حضرت طلحہ سے فرمایا کہ جب میں تمہارا مولا ہوں تو مجھ سے لڑائی کیوں؟ حضرت طلحہ بولے: میں بھول گیا تھا۔ (حاکموں اور سرداروں سے تو لوگ لڑتے رہتے ہیں مگر محبوبوں دوستوں سے تو لڑائی نہیں ہوتی) مستدرك حاكم:- كنا مع علي يوم الجمل فبعث إلى طلحة بن عبيد الله ان القنى فاتاه طلحة فقال نشدتك الله هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من كنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه قال نعم قال فلم تقاتلني قال لم اذكر قال فانصرف طلحة اصول کافی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (حدیث غدیر خم کے بعد) اپنے چچا حضرت عباس کو پیشکش کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے وارث (وصی) بننا چاہتے ہو؟ اگر حدیث من کنت مولاہ سے وارث نامزد ہو چکا ہوتا تو یہ پیشکش نہ کی جاتی
  10. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت عثمان غنی کی شہادت 18 ذوالحجۃ کو ھوئی۔ سند بھی صحیح اور جمہور کا قول بھی یہی۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت کس تاریخ کو ھوئی؟ اگرچہ اقوال تو زیادہ ہیں مگر دو قول صحیح سند سے ملے ہیں :- ایک قول 12 ذوالحجۃ 35 ھ کا ھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو عثمان النہدی تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ زہری نے اسے "بعض الناس" کا زعم کہا ھے۔ ایک قول 18 ذوالحجۃ 35ھ کا ھے ۔ تاریخ ابوزرعہ دمشقی میں حضرت جبیر بن نفیر تابعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔ طبری نے اس قول کو "جمہور کا قول" کہا ھے۔ یہی قول شعبی تابعی، نافع تابعی، مخرمہ، محمد بن اسحاق ، ابو معشر، مصعب زبیری وغیرہ حضرات سے بھی منقول ھے۔ نیز 18 ذوالحجۃ والے کئی حضرات نے یوم جمعہ بھی ذکر کیا ھے جو زیادہ جاننے پر دلالت کرتا ھے اور جو تقویم کے مطابق ھے۔ ایک تازہ پوسٹ نظر سے گزری جس میں لکھا ہے کہ حضرت عثمان روزے کی حالت میں شہید ہوئے اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج روزہ ہمارے پاس کھولنا اور ظاہر ہے کہ 12 ذوالحجۃ کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا 18ذوالحج کو شہادت عثمان کی روایت بھی صحیح سند سے ملتی ہے ------- جمہور کا قول بھی یہی ہے ------- افطر عندنا اللیلة (آج شام روزہ ہمارے پاس کھولنا) بھی صحیح سند کے ساتھ ہے اور 12ذوالحج روزہ نہیں ہوتا۔ --------- مزید عرض ہے ابو عثمان سے اگر 12ذوالحج کا قول ملتا ہے تو طبری نے اس کے تین ساتھیوں کے ساتھ اس سے 18ذوالحج کی تاریخ روایت کی ہے۔ ===== اور 12ذوالحج کی روایت ابو عثمان تک صحیح ہے مگر ابو عثمان موقع پر چشم دید گواہ تو نہیں لکھا گیا۔ جبکہ آج شام افطار بیان کرنے والے اس دن حضرت عثمان کے ملنے والے لوگ بیان کر رہے ہیں۔ اور اگر کامن سینس اور انصاف ہو تو اتنی بات کافی ہے۔
  11. خیر اندیش

    غدیر خم کا واقعہ

    تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara غدیر خم کا واقعہ اٹھارہ ذوالحجۃ کو نہیں بلکہ پندرہ ذوالحجۃ کو ہؤا تھا کیونکہ یہ واقعہ خمیس / جمعرات/ Thursday کو پیش آیا تھا ۔ جبکہ حج جمعة المبارک کے دن ہوا تھا۔ جب 9 ذوالحج10 ھ کو جمعہ کا دن تھا تو 15ذوالحج 10ھ کو خمیس کا دن بنتا ہے اور اسی دن غدیر خم کا واقعہ پیش آیا تھا تو اسے 18 ذوالحج کا دن سمجھنا ریاضی میں کمزور ہونے کا نتیجہ ہے اور غلط بات ہے۔ -------- واقعہ غدیر جمعرات کے دن کا واقعہ ہے۔ نور الثقلین ترجمہ فرائد السمطین ۔ ناشر ابن صائم چشتی ، صفحہ 65 تا 68۔ المناقب - الموفق الخوارزمي - الصفحة ١٣٥ مقتل الحسين للخوارزمي ، الصفحة 80. عبقات الأنوار في إمامة الأئمة الأطهار ( فارسي )، ج ٩، السيد حامد النقوي، ص ٢٣٦ كتاب سليم بن قيس - الصفحة ٣٥٥ بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٣٧ - الصفحة ١٩٥ الأنوار النعمانية، ج ١، السيد نعمة الله الجزائري، ص ١٠٠ الانتصار - العاملي - ج ٣ - الصفحة ٤٨٥ الغدير - الشيخ الأميني - ج ١ - الصفحة ٢٣٣ غاية المرام - السيد هاشم البحراني - ج ١ - الصفحة ٢٩٦ نفحات الأزهار - السيد علي الميلاني - ج ٨ - الصفحة ٢٩٥ تفسیر انوار النجف، حسین بخش جاڑا ۔ ج5 ص139-144۔
  12. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara جس کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام سے چِڑ ہے اس بیچارے نے یہ سکین کہیں سے تلاش کر کے اپنی وال پر سجایا ہوا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت مولا علی کی وفات پر الحمدللہ کہا تھا۔ ---------- اس روایت کا راوی مسلمہ بن محارب ہے جس کی کوئی بھی توثیق نہیں کرتا اور یہ وہی راوی ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عمر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا گھر جلانا چاہتا تھا۔ توثیق سے محروم اس راوی کی بولی بھی بتاتی ہے کہ یہ کہاں سے بولتا ہے۔ پروپیگنڈو کو راوی بھی اپنے مزاج کا مل جاتا ہے۔
  13. خیر اندیش

    خالد بن ملجم

    تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara خالد بن ملجم حضرت عثمان کے قاتلوں میں تھا اور اس کا بھائی عبدالرحمن ابن ملجم حضرت علی کا قاتل ہے یہ کہانی محض قطامہ خارجیہ کے حسن بلا خیز سے ہی شروع نہیں ہوتی اسحاق ابن راہویہ اپنی مسند میں لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی آللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب معاویہ رضی آللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے متعلق مشورہ لیا تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب معاویہ کے متعلق صرف یہی ایک کمی بیان فرمائی کہ وہ عائل ہے یعنی مفلس ہے پس (امام اسحاق بن راہویہ کے مطابق) سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے جناب معاویہ کے وہ سب فضائل ثابت ہو گئے جو نکاح میں دیکھے جاتے ہیں۔ رہا مفلس ہونا اور مالدار نہ ہونا تو وہ کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ---------- اور یہی امام اسحاق بن راہویہ روایت کے کرتے ہیں کہ میرا یہ بیٹا(حسن) سید ہے اور اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ صلح برائے نام صلح نہیں بلکہ جناب امیر معاویہ کو امور مسلمین سونپے جانے کی صلح ہے --------- جو لائق نکاح ہونے کے اوصاف بھی رکھتا ہو اور حکومت مسلمین کی اہلیت کے اوصاف بھی رکھتا ھو تو وہ امام اسحاق بن راہویہ کے نزدیک فضیلت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے ؟ --------- رہ گیا وہ قول کہ ان کے فضائل میں کوئی حدیث صحیح نہیں تو اولاً تو خود اس منسوب قول کی اپنی سند بھی اسحاق ابن راہویہ تک توثیق طلب ہے۔ بر سبیل تسلیم (حدیث صحیح نہیں) کہنے سے (حدیث حسن ہے) کا قول تضاد نہیں رکھتا اور امام ترمذی نے ( معاویہ کو ہادی مہدی بنا ) والی حدیث کو حسن کہا ہے۔ پھر فضائل میں تو ضعیف حدیث بھی قبول کر لی جاتی ہے۔ (لم یصح) کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی فضیلت کی روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں۔ باقی ان کے متعلق موضوع اور من گھڑت روایات بھی یقینا موجود ہیں اور تین لاکھ روایات حضرت علی مرتضیٰ اور اہل بیت حضرات کے متعلق بھی گھڑی گئی ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے متعلق صحیح حسن اور ضعیف روایات کو من گھڑت اور جھوٹ کہا جائے۔ میں ظہور فیضی کی کتاب الاحادیث الموضوعہ صفحہ نمبر 34 سے صفحہ نمبر 41 تک خود ہی پڑھ لیتا۔ ----------- شاہ جی تھوڑی ہمت اور کرتے اور اگلے صفحہ 42 کا سکین بھی دے دیتے تاکہ سب کو پتہ چلتا کہ مولوی اسحاق غیر مقلد کے مقلد اور ظہور فیضی مقلد کے مقلد تم سبھی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل ابن ملجم خبیث کو فقیہ و مجتہد مانتے ھو ۔ پس تمہارے اس گندے عقیدے کے مطابق ابن ملجم کو حضرت علی کے قتل کرنے پر ایک ثواب ملا (لاحول ولا قوۃ الا باللہ)۔ کن جاہلوں کے پیروکار بنے پھرتے ہو؟ شرم کرو۔ یہی حب علی ہے!!!. ----------- جن جن علماء کو ظہور فیضی نے اسحاق بن راہویہ کی تائید کرنے والے ظاہر کیا ہے ان میں سے اکثر حضرات نے حضرت معاویہ کے فضائل میں احادیث بیان کی ہیں۔ تو کیا وہ جھوٹی حدیثیں پھیلانے والے تھے؟(معاذ اللہ)۔ ---------- میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اسحاق بن راہویہ کا واحد اکلوتا شاگرد جس نے یہ نادر قول آگے بیان کیا، اس کو ثقہ تو ثابت کرو مگر وہ توثیق نہ تمہارا ظہور فیضی بیان کر سکا اور نہ تمہارے جیسے کاپی پیسثر کے بس کی بات ہے۔ میرا اصل سوال وہیں کا وہیں کھڑا ہے اس کو دیکھو اور جواب دو۔ یا دیکھ کر آنکھیں بند کر لو۔ ---------- اسحاق بن راہویہ کے قول کی سند پیش کریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کتنے عرصے کے بعد یہ قول منظر عام پر ایا جو معاصرین کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ------------ جب ہمعصر امام احمد بن حنبل نے جناب معاویہ کے گستاخ کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے روکا تو اسحاق بن راہویہ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ معاویہ کے کیا فضائل ہیں جو ایسا کہہ رہے ہو۔بغیر فضیلت آدمی کی گستاخی کرنے پر تو نماز کی اقتدا ممنوع نہیں ہو جاتی۔ باقی ابن ملجم کو فقیہ ومجتہد ماننے والوں کے متعلق میرا وہی سخت موقف ہے خواہ کوئی خود کو سید کہلائے یا کچھ اور ابن ملجم کو مجتہد مانو قتل حیدر پہ اس کو نیکی دو حب حیدر کے ٹھیکے دار ہو تم شرم تم کو مگر نہیں اتی --------- میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
  14. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara حضرت اسماء بنت عمیس نہیں بلکہ حضرت اسماء بنت یزید حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی میں شب زفاف کے موقع پر حضرت اسماء بنت عمیس کے وہیں مدینہ منورہ میں ھونے اور دعا کرتے رہنے کا ذکر ملتا ہے اسی طرح حضرت حسن کی پیدائش کے موقع پر بھی ان کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے قابلہ کا کام کیا یہ دونوں باتیں حضرت اسماء بنت عمیس سے ممکن نہیں ہیں اور حضرت اسماء حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی سے بہت پہلے حبشہ چلی گئی تھی اور غزوہ خیبر کے موقع پر واپسی ہوئی تھی چنانچہ کشف الغمہ اربلی 693ھ میں اور بحار الانوار مجلسی 1111ھ میں کہا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء کی شادی کے موقع پر اسماء بنت عمیس نہیں بلکہ اسماء بنت یزید بن السکن الانصاریہ موجود تھی۔ اور اس سے پہلے حضرت عائشہؓ کی شادی پر انکی والدہ حضرت اُمّ رُومانؓ نے بھی آرائش دلہن کے لیے حضرت اسماءؓ بنتِ یزید کا ہی انتخاب کیا تھا(اسدالغابہ 23/7)۔ دیگر تمام عورتوں کو چھوڑ کر صرف حضرت اسماء بنت یزید کا انتخاب کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت اسماء بنت یزید نسوانی معاملات میں خاصی ماہر تھی۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسن کی پیدائش کے موقع پر بھی یہی حضرت اسماء موجود تھیں۔ جعفر مرتضی لکھتا ھے کہ ذخائر عقبیٰ کا جو نسخہ میرے پیش نظر ہے اس میں حضرت حسن کی ولادت کے وقت (اسماء بنت عمیس) کی بجائے صرف (اسماء) کا نام لکھا گیا ہے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم:ج7ص44)۔ پس یہ قول کہ حضرت امام حسن کی دائی حضرت اسماء بنت عمیس ہیں(اور حضرت امام حسن فتح خیبر کے بعد پیدا ہوئے ) تو یہ خطا ہے اور کسی راوی کے وہم کا نتیجہ ہے۔ میرے محترم یہ حضرت اسماء بنت یرید بن السکن انصاریہ کی بات ہو رہی ہے اور یزید بن معاویہ کی پیدائش سے 20 سال پہلے کی بات ہو رہی ہے اس کا یزید بن معاویہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ضرورت گفتگو کی اس لئے ہو رہی ہے ک حضرت اسماء بنت عمیس کو حضرت حسن علیہ السلام کی دائی بتا کر یزیدی پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس غزوہ خیبر کے موقع پر حبشہ سے واپس آئی تھیں اور اس کے بعد حضرت حسن پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت یہ بمشکل 3سال کے تھے اور حضرت حسین 2سال کے تھے اور وہ صحابی نہیں ہیں اور ان کی بیان کردہ احادیث بھی براہ راست ثابت نہیں اور مباہلہ کے وقت وہ دعا پر آمین کہنے کی عمر بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور یہ بات باقر مجلسی کی جلاء العیون اور حیات القلوب سے پیش کر رہے تھے۔
  15. تحریر : ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی https://www.facebook.com/altaf.khiara (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مباہلہ کیلئے حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلانا) حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے پوچھا کہ علی میں وہ کیا ہے کہ تم اس کے خلاف کوئی سخت بات نہیں کرتے؟ تو انہوں نے حضرت علی کی تین خوبیاں بیان کیں اور ان میں تیسری یہ تھی کہ ولما نزلت هذه الآية : فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم۔۔۔۔۔ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا ، وفاطمة ، وحسنا ، وحسينا ، فقال : اللهم هؤلاء اهلي اور جب مباہلہ والی آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہم ) کو بلایا اور کہا کہ اے اللہ یہ میرے بہت ہی اپنے ہیں۔ (صحیح مسلم:4427) ........... میں نے کب کہا ہے کہ مباہلہ ہوا تھا اور نہ ہی میں نے دوسروں کی تیاری کی نفی کی ہے ۔ ہاں جتنی تیاری صحیح مسلم کی اس روایت میں ملی ہے وہ میں نے پیش کی ہے جو حسنین کریمین کی عمر ، فہم اور جذبہ اور فتح نجران میں ان کا حصہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے میں نے یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرا وہاں کوئی نہیں گیا تھا اور کون تیار اور کون نہیں تھا۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ جھوٹ سچ کے معاملے میں لوگ قسم اپنے بچوں کے سر کی اٹھاتے ہیں ۔ عن جعفر بن محمد، عن أبيه [محمد بن علي الباقر]، في هذه الآية: ﴿تعالوا ندع أبناءنا﴾ الآية، قال: فجاء بأبي بكر وولده، وبعمر وولده، وبعثمان وولده، وبعليٍّ وولده (أخرجه ابن عساكر ٣٩/١٧٧. تفسير روح المعاني ، تفسير درمنثور) عن مقاتل بن سليمان: أنّ عمر قال للنبي ﷺ: لو لاعنتَهم بيدِ مَن كُنتَ تأخذ؟ قال: «آخُذُ بِيَدِ عليٍّ، وفاطمة، والحسن، والحسين، وحفصة، وعائشة» ( تفسير مقاتل بن سليمان ١/٢٨١-٢٨٢) ان دو روایات میں سے ایک بھی لیں تو تفسیر المنار رشيد رضا 1354ھ اور آفتاب ھدایت کرم الدین 1365ھ کا (نساء نا کے متعلق) اشکال بھی دور ہو جاتا ہے۔ تفسیر المنار : فإن كلمة ونساءنا لا يقولها العربي ويريد بها بنته لا سيما إذا كان له أزواج ولا يفهم هذا من لغتهم۔
  16. پچھلا ہفتہ
  17. آفاقی (میقات سے باہر رہنے والا)حجِ افراد کر سکتا ہے ؟
  18. Thank you so much, that’s really useful! I appreciate you sharing a reliable tool.
  19. Great that you're exploring voluntary prayers! When I first looked into it, I also found conflicting info about Duha time in Lahore, especially since it starts after the sun has fully risen and ends before Dhuhr. The best way I found to track it is this site: https://namaz.day/nawafil/city/lahor — it gives you exact Nawafil prayer windows specific to Lahore, including Duha. Very helpful if you're trying to build a consistent routine.
  20. Lately I’ve been trying to incorporate more voluntary prayers into my daily routine. I’ve heard that Duha prayer brings a lot of spiritual benefit, but I’m having trouble figuring out the correct time for it here in Lahore. Most apps just mention it vaguely, and I want to be accurate. Can anyone share how they determine the time for Duha prayers in this city
  21. مزید پرانے
  22. In today’s digital world, learning the Quran has never been more accessible — and online Quran classes on Skype are at the heart of this transformation. One of the most impactful shifts is the growing preference for an online Quran female teacher, especially among sisters and young learners who feel more comfortable in female-led learning environments. The demand for an online Quran teacher female has increased globally, with many students benefiting from their expertise in Tajweed, Tafsir, and Quran memorization. These teachers, often based in Pakistan and other regions with strong Islamic scholarship, provide personalized instruction that blends traditional learning with modern convenience. Have you or someone you know learned from a female Quran teacher online? Share your experience, recommendations, or any platforms you found helpful!
  23. Performing Umrah: Step-by-Step Experience Islamic Travel is a leading Umrah agency in UK, providing affordable and customized Umrah Packages to British Pilgrims. They offer a complete guide to follow the step-by-step experience for performing Umrah. Their Umrah Packages are of the new guidelines for Umrah travel. Their Expert staff guide me about how to perform Umrah step by step. I want to share these guidelines with you. Ihram Entering the Ihram garments is the initial step of Umrah. Women dress in simple garments covering their bodies, and men in two white unsewn fabrics. Pilgrims must do ghusl to cleanse the body and wash all filth, make the intention (Niyya’h) to undertake Umrah, and start reciting the particular verses, including "Labbaik Allahumma Labbaik, before entering into Ihram"m. Tawaf Pilgrims walk around the Kaaba seven times on the second step of Tawaf in a clockwise direction around the Kaaba. Part of the Umrah, this is one of the most religious walks. Covered in black fabric and surrounded by millions of worshippers, the Kaaba is a vision to bring many tears. Sa’i Sa’i is the third and most significant step in performing Umrah. It is a walk between the hills of Safaa and Marwa. Pilgrims perform the ritual of Sa’i in the memory of Hazrat Hajra as she ran to find water for her infant son Ismail. This ritual highlights the faith and trust in Allah, even in the wild, to seek His mercy. Halq or Taqsir The ritual symbolizes the shaving or trimming of hair after completing the ritual of Sa’i. Men shave their heads (Halq) completely, and women cut their hair (Taqsir) to a measurable length to complete the ritual. The act of Halq or Taqsir features the purification and the start of a new chapter of life. After performing the ritual, pilgrims exit the state of Ihram and complete their Umrah. This is the simplest and easiest way to perform Umrah. JazakAllah!
  24. MashaAllah! Listening to Surah Yaseen recited by Qari Abdul Basit Abdul Sammad is always a spiritually uplifting experience — his voice carries immense power and emotion. When paired with the soothing and clear reading by Haji Mushtaq Attari, it becomes even more beneficial for those trying to follow along or understand the words. May Allah reward both of them immensely and guide us all to consistently connect with the Qur’an. You can also explore similar recitations, PDFs, and translations at: https://surayasin.com ✨
  25. عبد اللہ بن ابی بکر کہا: میں نے عثمان بن مظعون کی قبر کی بلند دیکھا۔"( مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱۸۶۸) اب سوال یہ ہے کہ عثمان بن مظعون قبر کتنی اونچی تھی؟صحیح بُخاری میں ہے عثمان بن مظعون کی قبر کے بارے میں لکھا ہے "خارجہ بن زید کہتے ہیں میں عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ وہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر سے چھلانگ لگا کر اس پار کود جاتا" خارجہ بن زید کی حدیث اور شارحین بُخاری اس حدیث کی شرح میں اِمام ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں اور اس میں قبر کو بلند کرنے اور زمین کی سطح سے اونچا کرنے کی اجازت ہے۔ امام ابن ملقن ، التوضیح شرح جامع الصحیح فرماتے ہیں "خارجہ کے اثر (قول) میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبروں کو زمین سے بلند کرنا اور انہیں اونچا بنانا جائز ہے، تاکہ انہیں پہچانا جا سکے، بشرطیکہ اس کا مقصد فخر و مباہات نہ ہو، امام الدمامينى "مصابيح الجامع شرح صحيح البخاري" میں فرماتے ہیں اور عثمان بن مظعون کی قبر کی بلندی کا ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ یہ واضح ہو کہ قبر کا اونچا ہونا نقصان دہ نہیں ہے شیخ الاسلام امام یحییٰ زکریا الانصاری "منحة الباري بشرح صحيح البخاري" میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں "حتّى يجاوزه" یعنی "اس سے آگے بڑھ جائے"، یعنی قبر کی بلندی کی وجہ سے۔اور اس بارے میں، جیسا کہ ہمارے شیخ(ابن حجر عسقلانی)نے فرمایا: "قبر کو اونچا کرنے اور زمین سے بلند کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔" امام قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں اس حدیث میں قبر کو بلند کرنے اور زمین کی سطح سے اونچا بنانےکا جواز کا موجود ہے
  26. قبروں کو برابر کرنے سے مراد کیا زمین برابر کرنا ہے؟ کُچھ جہلاء اِس حدیث کا غلط مطلب لیتے ہیں کہ قبروں کو زمین برابر کِیا جائے ، حالانکہ یہاں برابر سے مُراد درست کرنا ہے نہ کہ زمین برابر کرنا حضرت ابن عباس کے غلام فرماتے ہیں مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: جب تو کسی قوم کو دیکھے جس نے مردے کو دفن کرکے قبر ایسی بنائی ہو جو مسلمانوں کی قبروں کی طرح نہ ہو تو تم اس کو مسلمانوں کی قبروں کے برابر کر دو (مصنف ابن ابی شیبہ۱۱۹۱۹) *بدعتی کون؟* وہابیوں نے جنت البقیع کی تمام قبروں کو زمین برابر (چپٹا) کر دیا ، جِس میں عثمان بن مظعون کی قبر بھی شامل ہےجو صحابہ کرام کے دور میں کافی اونچی ہوا کرتی تھی ۔۔ اِمام بیہقی کہتے ہیں قبروں کو چپٹا بنانا اہل بدعت کا نعرہ ہے ایک شخص نے حضرت امام شعبی سے عرض کیا ایک شخص نے اپنی میت کو دفن کیا اور اس کی قبر زمین کے برابر بنائی کیا درست ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے شہدائے احد کی قبریں دیکھی ہیں وہ زمین سے بلند او پر اٹھی ہوئی ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱۹۲۲) یہ حدیث بھی خارجیوں( وہابیوں) کے باطل تاویلات کا رد کر رہی ہے جو قبروں کو زمین برابر کرنے کا کہتے ہیں ، اگر قبروں کو زمین برابر کیا جائیگا تو جتنی مٹی قبر سے نکلے گی وہ مٹی کہاں ڈالی جائے گی؟ اِمام بیہقی فرماتے ہیں البتہ ہمارے بعض اہل علم نے اس زمانے میں قبروں کو اُبھرا ہوا (مسنم) رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے، *کیونکہ یہ اجماعی طور پر جائز ہے۔* مزید یہ کہ *تسطیح (زمین برابر کرنا) اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے* ، لہٰذا اس پر بے جا اعتراضات اور اہل سنت پر بدعت کا الزام لگنے سے بچنے کے لیے، تسنیم (یعنی قبر کو قدرے اُبھرا ہوا رکھنا) کو اختیار کرنا مناسب ہے۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔"(السنن الکبری6761)
  27. وہابیوں اور دیوبندیوں نے ایک سکین بنایا ہے، وہ سکین ”سیرتِ غوث اعظمؓ“ نامی کتاب کے حوالے سے بنایا گیا ہے اس میں ایک صحفہ لگایا گیا کہ اس کتاب کے ”صحفہ 81“ پر ایک عنوان موجود ہے ”دستگیر کی وجہ تسمیہ“ اور اس میں عبارت لکھی گئی ہے کہ! ”ایک دن اللہ تعالیٰ اور پیر عبدالقادر جیلانی جنت میں اکھٹے سیر کر رہے تھے کہ نیچے کیلے کا چھلکا پڑا تھا، اللہ کو دکھائی نہ دیا قدم پھسل گیا، حضرت پیران پیر نے اللہ کا ہاتھ پکڑ کر گرنے سے بچا لیا تو اللہ نے فرمایا، جا آج سے تم دستگیر ہو“۔(معاذ اللہ) یہ سکین وہابیوں اور دیوبندیوں دونوں کی طرف سے اہلسنت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ اہلسنت کا عقیدہ ہے۔ اور اس سکین کو وہابی مولوی ”مولوی خلیل الرحمنٰ جاوید“ اور ”جاوید عثمان ربانی“ نے پڑھ پڑھ کر سنایا ہے کہ یہ اہلسنت بریلویوں کا عقیدہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بلکل جعلی سکین ہے اور کسی وہابی/دیوبندی کذاب دجال نے بنایا ہے۔ مولانا داؤد فاروقی نقشبندی کی کتاب ”سیرتِ غوث اعظمؓ“ کے صحفہ 81 پر ایسی کوئی عبارت موجود نہیں، بلکہ پوری کتاب میں ایسا کوئی باب ہی موجود نہیں۔ اس کتاب کے جس نسخہ کے حوالے سے وہابیوں اور دیوبندیوں کی طرف سے جعلی سکین پیش کیا جاتا ہے وہ اس کتاب کے ”سن 1983 میں مکتبہ سراجیہ خانقاہ موسیٰ زئی شریف، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان“ سے شائع ہونے والا نسخہ ہے۔ لیکن ذیل میں مُلاحظہ فرمائیں اُس نسخہ میں ”صحفہ 81“ پر ایسی کوئی عبارت موجود نہیں بلکہ اس کتاب کے رائٹنگ سٹائل اور سکین میں موجود رائٹنگ سٹائل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور اصل کتاب میں اس صحفہ پر پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی ایک مجلس کا تذکرہ موجود ہے اور اس مجلس میں موجود مشائخ کے نام درج ہیں۔ (سیرت غوث اعظمؓ، صحفہ 81) اب ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ”دستگیر کی وجہ تسمیہ“ والا صحفہ کس کتاب سے اٹھا کر ”سیرت غوث اعظمؓ“ نامی کتاب کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ یہ صحفہ ایک دیوبندی کتاب ”بریلویت کی خانہ تلاشی“ کے ”صحفہ 206“ سے اٹھا کر کچھ چیزیں حزف کر کے ”سیرت غوث اعظمؓ“ کتاب کے فرنٹ پیج کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ مُلاحظہ فرمائیں کہ ”بریلویت کی خانہ تلاشی“ کتاب کے اِس صحفہ پر یہ پورا باب بلکل اسی رائٹنگ سٹائل سے موجود ہے جیسا رائٹنگ سٹائل ”سیرت غوث اعظمؓ“ کتاب کے حوالے سے بنائے گئے سکین میں ہے۔ یہ دیوبندی مولوی اپنی کتاب میں یہ باب باندھ کر کہتا ہے کہ! ”بریلوی حضرات، پیر صاحب کو دستگیر کے لقب سے یاد کرتے ہیں، آج ہم آپ کو پیر دستگیران کو کیوں کہا جاتا ہے ”بریلویوں کی زبانی سنوائیں گے“ بغور سنیے، (آگے یہی واقعہ نقل کر کے اس کے حوالے کے طور پر لکھتا ہے) ”دروسِ حرم، صحفہ 249“۔ (بریلویت کی خانہ تلاشی، مصنف محمود کیرانوی ندوی، ناشر کتب خانہ نعیمیہ دیوبند یوپی، صحفہ 206) یہاں پر اس دیوبندی دجال نے یہ پورا واقعہ لکھا اور دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ ”بریلویوں کی زبانی سُنایا جا رہا ہے“ یعنی جس کتاب ”دروسِ حرم“ کا اس نے یہاں حوالہ دیا ہے یہاں پر یہ تاثر دے رہا ہے کہ یہ کتاب بریلویوں کی ہے اور انہوں نے یہ بات لکھی ہے۔ اور یہ بھی مُلاحظہ فرمائیں کہ جس وہابی/دیوبندی دجال نے ”سیرت غوث اعظمؓ“ کا جعلی سکین بنایا اس نے یہ الفاظ ہی کاٹ دیے جو اس دیوبندی نے اپنی کتاب میں لکھے تھے، جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خائن دجال کا بنایا گیا سکین ہے۔ اب ہم اس ”دروسِ حرم“ نامی کتاب میں دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کس طرح لکھا ہوا ہے اور یہ کتاب کن کی ہے ؟ دروسِ حرم کتاب کا مصنف اس کتاب کے صحفہ 245 پر لکھتا ہے! ”وہ کہتے ہیں (مُراد یہاں یہ لے رہا ہے کہ بریلوی کہتے ہیں، پھر یہ واقعہ لکھتا ہے اور کہتا ہے) نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ، یہ ہیں ان کے عقائد پیرانِ پیر کے بارے میں جو سراسر ولی پر بہتان ہے، اندازہ لگائيں کہ اس سے بڑا شرک اور کفر بھی دنیا میں کوئی ہے ؟“۔ (دروسِ حرم، صحفہ 245) اس کتاب کے مصنف نے بھی یہ بات بغیر کسی حوالے کے اہلسنت کی طرف منسوب کر دی کہ ”وہ کہتے ہیں“ اب یہاں سب سے پہلے اس مصنف پر اس بات کا ثبوت دینا لازم ہے کہ یہ کس بریلوی نے کہا، اور آگے کہتا ہے ”یہ ہے ان کا عقیدہ پیران پیر کے بارے میں جو سراسر ولی اللہ پر بہتان ہے“ یہاں بھی اس دجال نے دجل سے کام لیا کہ بغیر حوالے کے اہلسنت پر خود بہتان لگایا اور بہتان سے کام لیتے ہوئے اس کو اہلسنت کا عقیدہ بنا دیا، اور پھر اہلسنت پر شرک و کفر کا فتویٰ بھی عائد کر دیا۔ اب اس کتاب کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ”دروسِ حرم“ نامی کتاب کس مسلک کے مصنف کی کارستانی ہے۔ تو جان لیں کہ یہ کتاب بھی کسی ”دیوبندی دجال“ کی ہی لکھی ہوئی ہے، اس کتاب کو دیوبندی مولوی ”تقی عثمانی“ کی تقریظ اور دیوبندی مولوی ”محمد الیاس قاسمی“ کا مقدمہ حاصل ہے۔ دروسِ حرم نامی دیوبندی کتاب کو 3 محرم 1408 ہجری میں دیوبندی مولوی تقی عثمانی کی تقریظ حاصل ہوئی۔ (دروسِ حرم، صحفہ 7) اور اس کتاب کا مقدمہ، دیوبندی مولوی محمد الیاس قاسمی مالک ادارہ علم و حکمت ویوبند، نے لکھا۔ (دروسِ حرم، صحفہ 8،9) ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہابیوں اور دیوبندیوں کی طرف سے بنایا گیا یہ سکین جعلی ہے اور یہ بات اہلسنت پر بہتان سے زیادہ کچھ نہیں، اور جن دو دیوبندی مصنفین نے اپنی کتب ”بریلویت کی خانہ تلاشی“ اور ”دروسِ حرم“ میں یہ بات لکھی ہے ان دجالوں نے بھی اہلسنت پر بہتان لگایا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہے، کیونکہ یہ بات ہم اہلسنت کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ دیوبندیوں کو چاہیے کہ اب اپنی اس خیانت کو قبول کریں اور اعلانیہ اقرار کریں کہ دیوبندی ہمیشہ سے دجل و فریب سے کام لیتے آئے ہیں، کیونکہ یہ دجال دلائل کے میدان میں ہمیشہ فرار ہوتے رہے ہیں۔ تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت وجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی 1.mp4
  28. I completely agree—Surah Yaseen brings so much peace and strength to the heart. It’s amazing how reciting these powerful verses can help us through difficult times. If you’re interested in exploring more, I’ve also found that reading سورة الانفطار مكتوبة offers deep reminders and guidance. Both Surahs have such a meaningful impact on our faith and daily life. Thanks for sharing this!
  29. A very important point—preserving the original Arabic script of the Quran is essential for maintaining its authenticity and pronunciation. For those interested in reflection and meaning, reading سورة الانفطار مكتوبة in Arabic can be a powerful reminder of the Quran’s depth and divine message.
  1. مزید ٹاپکس دکھائیں
×
×
  • Create New...