یہاں پر لوگوں کا کیا عجیب رنگ ہے۔ اب اعلی حضرت کا ترجمہِ قرآن بلاشک و شبہ اعلی ہے مگ نہ تو انہوں نے ترجمہ کے اصولوں کو قائم کیا نہ اسکو ایجاد کیا۔ اب صرف اسی پر نہیں بیٹھ سکتے کہ انکے بعد کوئی اور قرآن شریف کا نہ تو ترجمہ کر سکتا ہے نہ کرنے کہ قابل ہے۔
اسکے علاوہ - اعلی حضرت نے نہ کسی مسلک کی بنیاد رکھی اور نہ اسکے بانی ہوئے۔ اعلی حضرت کے بعد بھی انکے ساتھ اہلسنت نے کنز الیمان کے ترجمے کے ساتھ احتلاف کیا ہے۔ جس طرح غلام رسول سیعدی صاحب، مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب، پیر کرم شاہ صاحب وغیرہ۔
وقت کے ساتھ ساتھ زبان بدل جاتی ہے - حیلات بدل جاتے ہیں - جسطرح سائینسی ریسرچ، دور حاضر کے نئے نئے فتنے وغیرہ۔ اسلئے مزید تراجم کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اہلسنت کو؟
یہ کیا بات ہوئی کے اب امام احمد رضا نے ترجمہ لکھ دیا ہے اب کوئی اور لکھنے کی جرت نہ کرے۔
دوسری بات: ترجمہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو علومِ دین سے ناآشنا ہوں - وگرنا ہر کوئی جو علوم سیکھتا وہ اپنا ہی ترجمہ کرتا ہے، جب زبان اور علوم سیکھ لیے تو کی تفاسیر وغیرہ پڑ سکتا ہے۔