Jump to content

AshiqeRasool

اراکین
  • کل پوسٹس

    30
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    4

سب کچھ AshiqeRasool نے پوسٹ کیا

  1. دیباچہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلحَمْدُلِلِّٰہ الَّذیْ لَہُ الْبَقَاءُ وَالدَّوَامْoوَالصَّلوٰۃ وَالسَّلاَمُ عَلٰی خَےْرِ الْاَنَامِoمُحَّمَدٍوَّاِلِہٖ وَاَصْحَابہ وَاَتْبَاعِہٖ الْعِظَامْoوَعَلٰی اِمَامِنَااِمَامِنَااِمِامِ الْاَ عْظَمِ وَالْھُماَ مِ اَلاَکْرَمِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ الْکِرَامْo وَعَلٰی مُرْشِدِ نَا وَھََا دِیْنَا قُطُبِ الْاَقْطَابِ الْمَحْبُوبِ السُّبْحَانِیْ اَلسَّیَّد عَبْدِ الْقَادِرِ الْحَسَنِیْ الْحُسَیْنِیْ الْفِخَامِ o بعد حمد وصلوٰۃ کے مترجم کتاب ہذااحقرالعبادسید شاہ محمد عبدالغفار قادری الحنفی اعلیٰ مدرس مدرسہ ء عربیہ جامع العلوم معسکر بنگور ابن جامع معقول حاوی منقول ْ حضرت مولانا مولوی قاضی سید شاہ محمد عبد القدوس قادری الحنفی بنگور ی مدظلہ العالی عرض کرتا ہے کہ انسان کی حیات مستعار کا اعتبار نہیں اور یہ وجود ظاہری پائیددار نہیں ,یہ دنیا ئے دون اقامت کی جانہیں ہے بلکہ ابک گزرگاہ ہے کہ اس سے گزر کے منزلِ عقبیٰ پرپہنچنا ہوتا ہے جیسا کہ رسولِ خدا (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے فرمایا دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے مسافر کو گرمی کے دن میں کوئی درخت ملے اس کے سایہ کے نیچے تھوڑا آرام لے پھر چل دے اور اس کو چھوڑ جائے ۔ اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ انسان کی حیات مانند حباب دریا کے ہے اس کو قیام و دوام نہیں پس یہاں کی زندگی کی مدت حقیقت میں محض بے حقیقت ہے۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ دنیا ایک پل ہے اس پر سے گزر جاؤ اس لیے کہ دنیا جائے سفر ہے نہ اقامت کا گھر۔ جب کہ اس مستعار گھر میں ایک مدت تک ٹھہرنا لازم قرار دیا گیا ہے توچاہیے کہ جانے سے پہلے اس کا حال معلوم کرکے جائیں تاکہ پہنچنے کے وقت اجنبیت محض نہ ہو اور جو عقائد واعمال وافعال وہاں زیادہ مفید ہیں ان کے حاصل کرنے میں یہاں سعی کی جائے اور جووہاں مضر ہیں ان سے یہاں بچے جیسا کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی قدس اللہ سرہ السامی کتاب مثنوی شریف میں جو مقبول علمائے شریعت وطریقت ہے,لسان فیض ترجمان سے ارشاد فرماتے ہیں۔ تومکانی اصل تو در لا مکان این وکان بربند وبکشا آن دوکان اے خنک آنرا کزین ملکت بجست کہ اجل این ملک راویران گراست صالحان را کار عقبیٰ اختیار جاہلان راکارِ دنیا اختیار این جہان زندان دمازند انیال حفرہ کن زندان خود رادارہان گفت دنیا لعب ولہو است وشمار کو وکید دراست فرماید خدا اس لیے امامانِ عظام وعلماء کرام نے اس باب میں بہت کتابیں لکھیں ہر امر کی خوب تحقیق و تنقیح کی آیات شریفہ,احادیث عظیمہ ,آثار کریمہ جمع کیے۔ ان کتب سے شرح برزخ لکھی جس کو امام ابوسعید سلمی حنفی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ)نے جو علماء متاخرین سے تھے جمع کیا ہے جس کے اکیاسی باب اور چھ فصلیں ہیں۔اور ہر حدیث سے جو مسائل فقیہہ نکلتے ہیں اس کو وقال(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) سے خوب تشریح کیا چونکہ یہ کتاب عربی اور کمیاب ہے کہیں مطبوعاً نظرنہ آئی ۔ پس راقم نے پہلے استخارہ شرعی کیا اور مؤلف(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی روح سے اس کے ترجمہ مع الشرح کے لیے استعانت چاہی اور اصل عربی کو بحال رکھ کر بطورمتن کے داخل نصاب کیا اور اس کا ترجمہ ذیل میں مع الشرح کیا اور فائدہ میں دیگر کتب مشہور ہ برزخ سے اصل مضامین کو بڑھا دیا جیسا کہ شرح الصدور بشرح حال الموتیٰ والقبور فارسی رسالہ تالیف حضرت قاضی ثناء للہ پانی کی وغیر ذلک من الرسائل امعتبرۃ امنیفۃجس کی تفصیل آخر کے رسالے میں مندرج ہے اور تاریخی نام تصریح الاوثق فی ترجمہ شرح البرزخ رکھا۔ترجمہ میں اصل عربی کو بحال رکھ کے بطور متن کے داخل کتاب کیا تاکہ اُن علماء کو جنہیں اصل کتاب میسر نہیں ہوئی فائدہ حاصل ہو اور ترجمہ میں اکثر مقامات پر بحسب ضرورت (فائدہ) کے تحت اس کے مسائل کو ادلّہ معتبر اور اسناد لائقہ سے مبر ہّن اور مزیّن کیا ۔اس تشریح میں ازروئے مناسب دیگر مسائل ضروریہ کو معہ ادلّہ معتبرہ بڑھا دیا تاکہ طالب کو تنقیح دلائل وبراہین میں تشنگی باقی نہ رہے۔جس حدیث کو مؤلف(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) نے اپنی اصل کتاب میں کتب احادیث سے حوالہ نہیں دیا مترجم نے اکثر مقامات پر اس کا ماخذ کتب احادیث سے بتلا دیا ہے۔ خاصتہً اس کے تجس کے لیے بہت محنت بلیغ وسعی جمیل کی ہے۔ تاکہ ہر خاص وعام اس سے مستفید ومستفیض ہوں اور اس کی تنقیح پر اور کتب احادیث وقفہ سے اس کے نظائر وامثال بخوبی ظاہر کیا اورمؤلف(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کتاب ہذانے جس جگہ فقط راوی کا نام لکھا اور اس کی تشریح صحابی وتابعی سے نہیں کی۔ احقر نے اکثر مقام پر اس کی تفصیل وتشریح کردی ہے اور اس کا حوالہ بھی کتب احادیث وتواریخ سے بتلا دیا ہے مثل التسیر شرح جامع الصیغرامام مناوی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) اور مجمع بحار الانوارمحدث محمد طاہرفتنی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) ۔اور شرح صحیح مسلم امام نووی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور عمدۃ القاری شرح صحیح بخاریامام بدرالدین عینی حنفی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور فتح الباری شرح صحیح بخاریامام ابن حجر عسقلانی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ)کی اور ارشاد الساری شرح صحیح بخاریامامِ قسطلانی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور تیسیر القاری شرح صحیح بخاریمحدث نور الحق حنفی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی۔ اور شیخ الاسلام علی البخاریمحدث شیخ الاسلام(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور میزان الاعتدال امام ذہبی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ)کی اور شرح نخبتہ الفکراور تقریب التہذیبامام ذہبی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور شرح الشرح الفکر ملاعلی قاری حنفی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی اور فتح القدیر حاشیہ ہدایہ مام ابن الہام حنفی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ)کی اور البنایہ شرح ھدایہامام عینی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کی وغیر ذلک من الرسائل امعتبرۃ امنیفۃ۔یہ کتاب باوجود فن حدیث میں ہوتے ہوئے مثل کتابِ فقہ کے مروج ومستند ہوگئی چونکہ یہ جامع احادیث شریفہ وآثار قویہ واقوال سلف عظیمہ و حکایات صالحین جخیمہ ہے۔علماء کرام وصوفیان عظام نے اس کونہایت پسند کیا اور بطور کتب فقہ کے اس کے مسائل کو سندگردانا۔پس یہ کتاب ایسی بے نظیر ہوگئی جواحادیث شریفہ اورمسائل فقہیہ سے حملواور جامع ہے۔ خصوصاً اس رسالے میں مسائل اہل سنت وجماعت اس طرزسے مندرج ومدلل ہیں جس میں مشککون کا وہم و تشکیک بالکلیہ زائل کردیتاہے اور ان کے اعتقاد کو اہلسنت و جماعت پر مستحکم ومضبوط بناکر جدید خیالات سے دور کر دیتاہے گوکہ حتی الوسع تصحیح کتاب اور تنقیح مسائل میں میں نے بہت محنت وجانفشانی کی بااین ہمہ اپنی قلت بصاعت کا معترف ہوں اگر کسی جگہ غلطی ہونا ناظرین عالی ہمم سیامیدوار معافی ہوں۔ نیاز بسرمائیہ فضل خویش ہمہ دیدہ آوردہ ام دست پے خدائے تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ واتباعہ وسلم کے فضل سے امیدواثق رکھتا ہوں جیسا کہ اصل کتاب عرب وعجم کے باشندوں میں مقبول اور مختار وپسندیدہ ہے یوں ہی اس ترجمہ مع الشرح کو پسند ارباب دین واصحاب یقین فرمائے اور اس سعی کو مشکور ومنصور کرکے باقیات الصالحات میں کرے اور اس رسالے سے سب کو نفع حاصل ہو۔ ہم سب کو دنیا سے باایمان اٹھاوے اور قبروبرزخ کے عذاب سے بچائے۔ رَبَّبَا تَقَبَلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَاٰخِرُدَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابہٖ وَاَتْبَاعِہٖ وَاَوْلِیَاءِہٖ وَعُلْمَآءِہٖ وَمَنْ تَبِعَھُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلْی یَوْمِ الدِّیْنِ۔اٰمین ثم اٰمین ***** کتاب کا نام ’’شرح البرزخ‘‘رکھنے کی وجہ تسمیہ کی تفصیل شرح معنی برزخ اللہ تعالیٰ نے لفظ برزخ کا قرآن شریف میں ذکر کیا ہے جیسا کہ سورہ مومنون میں ہے۔وَمِنْ وَرَاءھِمْ بَزْزَخُ اِلیٰ ےَوْمِ ےُْعَثُوْنَoیعنی اُن کے آگے ایک حجاب ہے اُس دن تک کہ اٹھائے جائیں گے۔علامہ ابونعیم نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ برزخ نام ہے اس چیز کا جودرمیان دوشئی کے ہو۔ یہاں برزخ وہ زمانہ ہے جوکہ زندگی کے بعد موت کے ہے بعثت کے درمیان تک مجمع بحار الانوارمیں ہے کہ برزخ حائل ہے درمیان دوشئی کے اور برزخ وہ ہے جو درمیان دنیا و آخرت کے ہے یعنی پہلے وقت موت سے حشرتک سیوطی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) نے کہا برزخ انتقال ہونے کے دن سے بعثت کے دن تک ہے جو انتقال کیا وہ برزخ میں داخل ہوا حاصل یہ ہے کہ عالمِ برزخ عالم قبر ہے جو کہ موت سے بعثت تک ہے جو انتقال کیا وہ برزخ میں داخل ہوا حاصل یہ ہے کہ عالمِ برزخ عالمِ قبر ہے جو کہ موت سے بعثت تک کے درمیان ہے۔ چونکہ یہ کتاب حالات برزخ سے مخصوص ہے لہٰذا شرح برزخ نام رکھا گیا۔ کتب خانہ مکہ معظّمہ سے جو یہ کتاب نقل مطابق اصل پائی گئی ہے اس کے اوپر مؤلف(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) کا نام بدین طور مرقوم ہے مُؤَلِّفُ ھٰذَا الْکِتَابِ الشَّیْخُ النَبِیْذُ قُدْوَۃُ الْمُتَآخِّرِیْنَ اَلْاِمَامُ اَبُوْسَعِیْدُ السُّلَمِیّ الْحَنِفِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جامع اس رسالے کے حضرت امام ابوسعیدسلمی حنفی(رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) ہیں جوشیخ کبیر اور پیشواعلماء ومتاخرین کے ہیں راضی ہواللہ تعالیٰ ان سے۔ ***** مواہیر علماء قسطنطینہ المعروف بہ استانبول بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعد ورضی اللہ عن الصحابت والقرابۃ وال بیت رسول اللہ اجمعین وعن الا ولیاء والعارفین خصوصاً عن سیدنا وجدنا ومولانا سلطان الاولیاء العظام السیدمحی الدین عبدالقادر الجیلانیؓ اما بعدانی طالعت رسالۃ المبارکۃ الموسوم بالتصریح الا وثق الترجمۃ شرح لبرزخ من تالیف الفاضل الاجل والعالم الا کمل شمس العلمابدر الفضلا مولانا المولوی القاضی المفتی السیدالشاہ محمد عبدالغفار القادری الحنفی بنجلوری اعلی المدرس فی المدرسۃ العربیۃ الجامع العلوم فوجدت مطابق اھل السنت والجماعت ومحتویا بجمع المسائل الشریفہ کتبت بیدی السید سیف الدین من اعضاء انجمن معارف عمومیہ فی استانبول گیلانی زادہ مفتی استانبول ابن السیدمرتضی افندی الگیلانی نقیب اشراف حما السیدسیف الدین ۱۰۳۱ مواہیر علماء العرب بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ الذی شرح صدورنا باحکام الاسلام والصلوٰۃ والسلام علی شفیع الا نام محمد والہ اصحابہ واتباع الکرام خصوصا علی امامنا وقدوتنا وھدانا الا مام الا عظم ابی حنیفۃ العظام وخصوصاًً علی قطب الا قطاب المحبوب السبحانی السید عبدالقادر الحسنی الحسینی الفخام فقد طالعت ھذا الرساۃ المبارکت الموسوم بالتصریح الاوثق الترجمۃ شرح البرزخ من تالیف شمس العلماء مولانا المولوی القاضی المفتی السیدالشاہ محمد عبدالغفار القادری الحنفی اعلی المدرس فی المدرست العربیت لجامع العلوم الساکن فی الشھر الینجلور فی الھند وجدت محتویا بالاحادیث الشریفۃ والفقہ الفخمیۃ وحامعا باعتقاد اھل السنت والجماعت فلہ درالمؤلف حیث سلک مسلک الا قتصارفی اماطت الاذی عن طریق الحق وسبیل السوی فبشری المن یطلب الثواب وطوبی لا ولی لالباب۔ کتب السید محمد الحنفی القادری الیمنی السیدمحمدالحنفی القادری الیمنی ۰۱۳۱ واناطالعت ایضا الرسالۃ المذکورۃ فوجدت مطابقا لاھل السنۃ والجماعۃ کتب السید یحیی الشافعی القادری الیمنی السیدیحییٰ الشافعی الیمنی ۵۱۳۱ موہیر علماء الحلب بسم اللہ الرحمن الرحیم فیعد الحمد النعت اقول انی طالعت ھذا الرسالۃ الموسوم بالتصریح الاوثق للفاضل الاجل والمفتی الا کمل لمولانا القاضی السید شاہ محمد عبد الغفار القادری الحنفی بنجلوری فوجدت مطابقا للقران والحدیث والا جماع والقیاس فللہ درالمؤلفؒ کتبہ الفقیر السید محمد الحنفی المفتی بحلب الحنفے السید محمد مواہیر علماء الولایۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم امابعد انی طالعت الرسالۃ الموسوم بالتصریح الاوثق للعالم الا کمل مولانا القاضی المفتی السیدشاہ محمد عبد الغفار القادری الحنفی الساکن فی البنجلور فوجدت مطابقا لاھل السنۃ والجماعۃ فللہ درۃ۔ کتبہ لمسکین شھاب الدین ولدایوب الساکن فی القندھار شھاب الدین مواہیر علماء بدایوں بسم اللہ الرحمن الرحیم حامد اومصلیا ومسلما گردش لیل ونہار وانقلاب احوال روزگار کے کرشمے اور خواب تغافل دنیوی کے جھگڑے ایسے نہیں کہ کوئی نئی بات ہوں ہمیشہ سے اولیاء علماء وَ عاظ صلحا مشائخ فقرا اہل دنیا کو اس خواب غفلت سے جگاتے اور پردہ دوری کو ہٹاتے چلے آئے ہیں لیکن اس دورہ آخر میں کچھ ایسا تلاطم طوفان امواج خود فراموشی وناحق کوشی عالمگیری ہو ریا ہے کہ ایک عالم ورطہ تحیر وضلال میں اسیر ورہا ہے۔عالم غیب سے جتنی تنبیہات ملتی ہیں اتنی ہی غفلت کی ترقی ہے ۔ صلحائے اہل دین علما و واعظین جتنا ہوشیار کرتے ہیں اتنی ہی بے دینی بڑھتی ہے حدیہ ہوگئی کہ مبتدعہ لیام نجدبہ بدانجام نے آنکھوں پر ضلالت کی تاریک پٹی باندھ کراحادیث صحیحہ نصوص کثیرہ صریحہ سے جو امور اجماعاً ثابت تھے مثل سماع اموات وایصال ثواب وزیارت قبور وتوسل وتبرک باولیاء مقربین باگاہ رب العالمین وغیرہ دیگر امور مذہب اہل سنت اور ان کا نکار باتباع اہل ضلال ارباب اعتزال کرکے عوام کو بہکانا آغاز کیا۔ایسے وقت میں سخت ضرورت تھی کہ احادیث صحیحہ واقوال معتمدہ صریحہ سے امور مذکورہ کا اثبات ہو اور یونہی نہیں بلکہ مدلل بہ نصوص وآیات ہو۔اگرچہ چند رسائل ان مباحث میں شائع ہوئے اور ہورہے ہیں لیکن ہمارے مخدوم معظم حاجی السنن السنیہ ماحی الفتن البدعیہ سلالتہ السادات الابرار نقاوت بیت الاشرف الاطہار حزن الاسرار والا نوار مولانا مولوی مفتی شاہ عبد الغفار صاحب بارک الموتی تعالیٰ فی ایامہ ولیالیہ زاد وبرکاتہ ومعالیہ مدرس اعظم مدرسہ عربیہ جامع العلوم نے بطرز جدید آئین مفید بالفعل اس ضرورت کو بخوبی دفع فرمایا ۔یعنی کتاب شرح برزخ جو جامع احادیث وا قوال وتفاسیر و روایات ہے اس کی بزبان فصیح اردوشرح فرمائی اور حسب مققضائے مقام جابجا فوائد تائید مذہب اہل سنت وتردید اہل بدعت کے لیے زائد کئے ۔راقم الحروف نے ملتقطا اس کو دیکھا نافع اہل ایمان دوافع وساوس ارباب طغیان پایا والحمدللہ اولا وآخر وجزا اللہ خیرالجز اور زقہ اجرا عظیما وافر مولای تعالیٰ اس کو نافع ومفید بنائے اور حضرت ممدوح کو اجر جزیل وثواب جمیل عطافرمائے آمین۔ حررۃ العبد المفتقر عطیع الرسول عبدالمقتدر القادری الحنفی اللہ الولے کان اللہ تعالٰی خادم مدرسہ قادریہ بدایون لاریب ان المولوی الشارع الفاضل جزاک اللہ تعالٰی خیر الجزاء اذاشرحت السید السندفخرالا ماثل احق الحق الصدور المومنین واحبیت سنن سید وابطل الباطل رفاہ اللہ الانبیاء وکشفت العظاء عن احوال الموتی اعلی المنازل وحشرنا والقبور وقعت اعناق المبتدعۃ النجدیۃ وایاہ تحت ذیل جیبہ اھل الشرور نفع اللہ تعالٰی بھد الشرح لمصطفی یوم الفتن والزلازل امین فقط اھل الا سلام وتقبل منک سعیک فی حند حررہ العبد المتصم بذیل سیر الا مجد المرام وحشرنا یوم القیام فی زمرہ سید عبدالر سول محب احمد القادری الحنفی الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام فقط الصدیقی المدرس الا علی بالمدرسہ حررہ محمد حافظ بخش المدرس الشمسیہ القادریۃ بجامع بلدۃ بدایون بالمدرسہ المحمدیہ القامۃ تیلدہ بدایون مواہیر علماء بریلی وجبلپور بسم اللہ الرحمن الرحیم اللھم لک الحمد سرمد اصل وسلم علی رسولہ والہ وصحبہ ابدا اما بعد ہم نے رسالہ مبارکہ تصریح الاوثق کو مطالعہ کیا بے شک اس کو شمس العلما بدرالفضلا مولانا مولوی قاضی سیدشاہ محمد عبدالغفار صاحب قادری حنفی اعلی مدرس مدرسہ عربیہ جامع العلوم الواقعۃ فی المسجد الجامع بمعسکر بنجلور مقبول بارگاہ نوری نے کمال محنت سے بہت عمدہ لکھا ہے جو اہلسنت کے لیے نہایت مفید ہے اللہ تعالیٰ بطفیل رسول اکرم وغوث پاک مؤلف کے علم وعمر میں ترقی عطا فرمادے۔ کتب عبدالمذنب احمد رضاالبر یلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفی النبی الامی صلی اللہ علیہ وسلم محمدی سنی حنفی قادری ۱۰۳۱ عبدالمصطفے احمد رضا خان سنی حنفی قادری محمدی ولد مولوی احمد رصا خان محمد عرف حامد رضا خان کتب عبدالسلام حنفی قادری عبدالسلام حنفی قادری مواہیر علماء مصطفی آباد عرف رامپور افغانان بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ الحی القیوم الذی لا یموت خلق الموت والحیوۃ لیبلو کم ایکم احسن عملا والصلوٰۃ والسلام علی برزخ الملک والملکوت شرح الحقائق والدقائق وماترک لنااملامابعد فقیر خادم بارگاہ احمدی محمدی سلامت اللہ عفی عند نے اس رسالہ مبارکہ تصریح الاوثق ترجمہ شرح برزخ مولفہ قرۃ العین سعادت فروغ بصرسیادت عالم ربانی عارف حقانی صاحب المجدوالافتخار جناب مولانا محقق مدقق سید شاہ محمدعبدالغفار صاحب مدرس اعظم مدرسہ عربیہ جامع العلوم متع اللہ المسلمین بطول بقاۂ کو دیکھا،مطابق مسلک اہل سنت و جماعت وموافق مختارات مذہب حنفی کے پایا طالبین آخرت کے عمل درآمد کے واسطے یہ رسالہ کافی اور وائی ہے اور جملہ امراس شکوک وشبہات کے لیے نافی اور شافی فجزہ اللہ الکریم المکانی فی الدارین خیرالجزا العبد الموانی فقط العبد اللہ امانت محمد محمدالدین محمدس ابوالذکرکاسراج ولد حبیب اللہ خان محمد عنایت اللہ خان رامپوری محمدامانت اللہ ابوالذ کاسراج الدین محمد سلامت محمد عنایت اللہ خاں ولد حبیب الہ کیا خوب رسالہ ہے العبد خواجہ احمد عفی عنہ العبد محمد امداد اللہ عفی منہ رامپوری محمد ہدایت اللہ عفی عنہ رامپوری مواہیر علماء پٹنہ عظیم آباد بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاہ والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الذی ارسلہ بالحق بشیرا ونذیراہ وعلی الہ واصحابہ الذین جھدوا فی اشاعۃ الدین جھدا بلیغا تبارک الذی بیدہ الملک موت وحیات باہم متضاد کے پیدا کرنے میں کیسی کچھ حکمت بلیغہ رکھی کہ فہم انسان میں نہیں آسکتی،آزمائش حسن عمل کی توتصریح فرمائی گئی ۔رہے رموز خفیہ و دقائق معنویہ تو انسان ضعیف البنیان کی کیا تاب وتوان جو اُس حکیم مطلق کی حکمت کو سمجھ سکے۔اس کی کیا ہستی جو اس میدان بے پایاں میں قدم بڑھائے مگر ظاہری طور پر سب سے بڑھ کر بقدر فہم احقریہ رمزسمجھ میں آتا اور اس طرف خیال ناقص جاتا ہے کہ اکثر آدمی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے اور جام انائیت سے ہر دم مخمورہتے الملک والحکم للہ الجبار القہار سے منہ موڑتے۔ماؤمن کی مٹی تنددبلا کرتی۔این وان کی شورش رہاکرتی۔صدہا امور میں فتور پڑجاتا عجب تماشا نظر آتا ۔اس پر ہی بعض سلاطین مفرورین متکبرین سابقین نے خدائی کا دعویٰ کیا مگر اس ہاذم اللذلت نے اس دعوے میں ان کو کامیاب نہ ہونے دیا ۔اس کے تشریف لاتے ہی تمام نشہ ہرن ہوگیا۔ کہ زاد وبنا چار بایدش نوشیا زجام مرگ مٹی کل من علیہا فان عاقل وہی ہے جو انجام پر غور فرمائے اومیکاو حیان ہر آن قلب ناتوان میں لائے اسی کی فکر میں صبح سے شام اور شام سے صبح کی جائے اور اس کا تذکرہ ہر دم آئے ۔فراموشی کا گزرنہ ہونے پائے ہر شئی پر وہ تقدیم پائے ۔کلام قادر غلام نے اسی کی ہدایت فرمائی خلق الموت والحیاۃ سے یہ حکمت سمجھ میں آئی۔حیات کے پہلے لفظ موت ہے۔یہ ہمارے لئے تعلیم قادر حییّ لایموت ہے کہ اس چند روزہ حیات میں موت کو مقدم رکھو۔اس کو کسی آن نہ بھولو،حسن عمل کی طرف دوڑو۔ اقامت گاہ توان ساختن گلزار ونیارا نسیم صبح گوید این سخن آہستہ درگوشم افسوس کہ ہم موت کو بھولے دنیا پہ پھولے۔شہر خموشاں میں بھی اگر بھولے سے کبھی گزر ہوجائے توبیت مرقوم ذیل کے مضمون پر نظر کرنے سے کچھ نہ کچھ ضرور عبرت آئے۔ اس زندگی پہ آج جو مغرور یار ہیں اپنی ہی صورتیں ہیں جو اتنے مزار ہیں موت سے ایسی بیزاری اور فراموشی کہ اس کے احکام اور اس کے مسائل متعلقات سے محض بے خبری ۔علما اتمام حجت فرما چکے سب کچھ بتاچکے۔زبان عربی میں رسائل لکھے پھر آسانی کے لیے فارسی میں کیے انتہایہ کہ اردو میں ہوئے ۔وہی یہ بات کہ کسی میں موت کی حالت میت کی کیفیت ۔کسی میں وعید وبشارت کس میں مسائل کی صراحت بیان کی گئی ، مجموعی حالت کسی خاص ایک کتاب اردر میں نہیں دی دکھائی دی اب یہ بھی عذرنہ رہا۔بحمدللہ تعالیٰ حامی سنن ماحی فتن سید شاہ محمد عبدالغفار صاحب قادری دام فیضہ المعنوی والصوری مدرس اعظم مدرسہ عربیہ جامع العلوم نے کتاب مستطاب عربی شرح برزخ کو بدقت تمام دستیاب فرما کر بزبان اردو ترجمعہ کیا نام نامی تصریح الاوثق رکھا۔اس ہیچمد ان نے اس کو مختلف مقامات سے دیکھا معلوم ہوا کہ صرف ترجمعہ ہی نہیں کیاگیا ہے بلکہ جابجا فوائد جلیلہ مسائل مفیدہ مطالب نفیسہ مضامین موئد دین وملت قاتل گمراہی وبدعت نیمکن ضل نیچریت خرمن سوزندویت و وہابیت وغیر ہا کا بھی اضافہ ہوا ہے فی الحقیقہ بہ مجموعہ متعلق مسائل موت اموات وحالات موت وسکرات قابل دید اہل سنت ہیں۔حضرات اس کتاب کو بغور ملاحظہ فرمائیے اور اس کے مضامین پر کا ربند ہوجائے ۔اللہ جل جلالہ اس کے مترجم اور اس کی اشاعت میں مال صرف کر نیوالے کو مصائب دنیا وآخرت سے بچائے اور خاتمہ بخیر فرمائے آمین یا مجیب الداعین بحرمت سید المرسلین علیہ وعلی الہ فصحبہٖ الصلاۃ والسلام مادامت الیالی والایام۔کتبہ خادم اھلَ السنۃ عبدالصدیق محمد وحید عفے عنہ عبدالصدیق مواہیر علماء بہار بسم اللہ الرحمن الرحیم حمد وثنا اسی ذات کو زیبا ہے جس نے تمام مخلوقات کو خلعت وجود پہنایا اور جوجملہ موجودات کو حجاب عدم سے میدان شہودمیں لا یا ہم عامیان بہتر ین اسم کو لقد کرمنابنی آدم کا مثردہ سنایا۔ہرشی خصوصاً ملائکہ سے بھی رتبہ بڑھایا۔اپنے خاص برگزیدہ بندے کو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں وہاں پہنچایا۔خاص اس کو لامکاں کی سیر کے ساتھ مختص فرمایا۔طرح طرح کے اسرار کو بتایا۔ عجائبات قدرت کو دکھایا ۔تائید کے لیے ایسے چار یار ہوئے جن سے چہارو وانگ عالم میں اسلامی ڈنکے بجے جنہوں نے وہ داد نصرت دینی دی کہ قیامت تک لئے ظلمت کفر کا فور ہوئی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہم اجمعین الی یوم الدین جب اس خالق بیچوان نے کل اشیاء کو لباس وجود بخشا تو ساتھ ہی اس کے فنا کو پیدا رفرمایا عالم برزخ کا راستہ بتایا۔عن الینا راجعون کا حکم سنایا لیبلوکم ایکم احسن عملا اسی وجہ سے عقلانے موتو اقبل ان تموتوا کو پیش نظر رکھا اور اس کو اپنا معمول ٹھہرایا۔کل شئی ہالک الاوجہہ کی پوری جلوہ گری ہوئی۔ کل شئی یرجع الی اصلہ کی حقیقت کماہی کھلی۔پانی جب تک دریا میں ساکن تھا پانی ہی کہلاتا تھا جب حرارت بڑی جوش میں آیا کہیں کف کہیں جباب کہیں موج کہیں گرداب کا اسم پایا ۔پھر تھوڑی ہی دیر میں نہ وہ جوز دندنہ وہ طغیانی بیدنہ حباب وکف و گرداب سارا دریا مآب ہی آب کل شئی یرجع الی اصلہ کی پوری آب وتاب ۔وحدت سے کثرت۔کثرت سے وحدت۔یہ سارا اوسیکا کرشمہ اوسیکی قدرت ۔پس اسی قدر پر اکتفا کروں آگے نہ بڑھوں کیونکہ یہ وہ دریائی بے پایا ں وبحرنا پیدا کنارہے جس میں ہزار وں کشتیاں اس طرح ڈوبیں کہ مطلق پتہ نہ چلا۔لاکھوں بڑے بڑے تیرنے والے ایسے غرق ہوئے کہ نشان تک نہ ملا۔سیکڑوں غواصوں نے غواصی میں کوئی وقیقہ باقی نہ رکھا ۔مگر درآرزوسے دامن جستجو خالی ہی رہا۔ دریں ورطہ کشتی فروشد ہزار کہ پیدانشد تختہ برکنار جب بڑے بڑوں کی یہ حالت تو مجھ ناچیز کی کیا حقیقت کہ دم مارے اور اس بحروخار میں قدم رکھے۔بہتر یہ ہے کہ اس سے خاموشی اختیار کروں اور مقصود کو مختصر طور پر رنگ تحریردوں۔میں نے اپنے مخدوم ومکرم فاضل اجل واقف رموز شریعت کاشف اسرار طریقت غواص بحر حقیقت مدرس اعظم مدرسہ عربیہ جامع العلوم مولانا مولوی سید شاہ محمد عبدالغفار صاحب بنگلوری عم فیضہ المعنوی الصوری کے رسالہ تصریح الاوثق فی ترجمعہ شرح البرزخ کو ابتدا سے انتہا تک دیکھا۔عجب لطیف پایا۔اس کی ہر سطر سلک مردار یدشریعت۔اس کا ہر لفظ گوہر آبدار طریقت ہر نقطہ درشہوار حقیقت۔ہر مرکز دائرہ معنی۔سلسلہ سطرخط مستقیم ہدی۔سپیدی یدبیضا۔سیاہی طورسینا۔سچ تویہ ہے کہ اس کتاب کو جس نے مطالعہ کیا۔نقشہ برزخ اسی عالم میں اس نے دیکھ لیا۔یہ رسالہ اس قابل ہے کہ اب زر سے قرطاس حریر پر تحریر ہو۔نقش الواح دلہا سے برنادپ کہاں میں طالبان حقیقی۔کدھر ہیں مشتاقان جمال معنوی آئین۔عالم برزخ کی سیر دریائے لذات سے عبور کریں۔آب ہادم لذات سے ہر وقت سیر رہیں۔لالی مقصود سے اپنا دامن بھریں فقط خادم العلماء والا طباء ابو طاہر نبی بخش البہاری عفاعنہ الباری المدرس بالمدرسۃ الحنفیۃ لاہل السنۃ والجماعت الواقعۃ فی بلدۃ عظیم آباد صانہا اللہ عن الشروالفساد والی یوم التناوی بحر متانبی والہ الا مجاد فقط خادم العلماء والا طباء ابو طاہر نبی بخش البہاری عفاعنہ الباری المدرس بالمدرستہ الحنفیۃ لاہل السنۃ والجماعت الواقعۃ فی بلدۃ عظیم آباد صانہا اللہ عن الشر والفساد والی یوم التناوبحر متانبی والہ الا مجاد فقط مواہیر علماء لکھنو میں نے اس رسالہ متبر کہ کو بغور ملاحظہ کیا بے شک اہلسنت کے عمل کے لیے کافی و وافی ہے کیوں نہ ہو اس کے مؤلف عالم علامہ فاضل فہامہ شمس العلماء بدر الفضلا مولانا مولوی سید شاہ محمد عبدالغفار صاحب قادری حنفی بنگلوری ہیں اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمر میں ترقی عطا فرمائے کتبہ الفقیر ہدایۃ الرسول حنفی قادری برکاتی احمد رضائی لکھنوی ہدایت الرسول مواہیر علماء دہلی کتاب تصریح الاوثق مطابق اعقتاد اہل سنت ہے اور عمل کے لیے کافی ووافی حررہ الٰہی بخش حنفی شاہجہان آبادی الٰہی بخش مواہیر علماء پیلی بہیت بعد حمد وصلوٰۃ کے واضح ولائح رہے کہ فقیر غفرلہ المولے القدیر نے کتاب تصریح الاوثق فی ترجمعہ شرح البرزخ مترجمہ حامئی سنت ماحی بدعت ندوی شکن وہابی فگن واقف رموز شریعت عالم اسرار طریقت گل گلزار محبت گوہر درج حرارت فخر خاندان فاضل نوجوان محب العلماء والا ولیا انیس الغرباوالفقر امقلد امام ہمام ابو حنیفہ اقحم وصاحبزادہ پیردستگیر غوث اعظم مولانا وبالفضل اولانا عنقائی اوج عالی مقامی سیدی مخدومی ومکرمی حضرت مولوی سیدشاہ محمد عبدالغفار صاحب حنفی قادری مدرس اعظم مدرسہ عربیہ جامع العلوم بنگلوری کو مطالعہ کیااس کے مطالعہ سے آنکھوں نے نورپایا دل کو سرور ہوا۔فی الحقیقت اس کتاب کو نایاب بلکہ کمیاب دیکھا اور موافق مذہب مہذب اہل سنت ومطابق مسلک اہل ہدایت پایا۔جزاہ اللہ تعالٰی خیرالجزاء فی الدین والدنیااللہ تعالیٰ مترجم ممدوح کو ہمارے سروں پر قائم رکھے اوردین ودنیا میں عزت دے اور آئندہ اور ایسے باقیات صالحات کرنے کی توفیق بخشے اور اس کتاب کو مقبول فرمادے اور سبب استعانت موجب استقامت اہل سنت وسبب ہدایت اہل بدعت گردانے آمین یارب العلمین بحرمت نبی الا مین وصاحب طہ ویس وختم النبیین وشافع المذبنین ورحمۃ للعالمین قائد والغرا المحجلین وسید الاولین والا خرین صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ واصحابہ وازواجہ وعلماء واولیاامتہ اجمعین یر حمتک یاارحم الراحمین الی یوم الدین مستطرالفقیر الحقیرعبدالمجتبیٰ معروف بہ عبدالاحدسنی حنفی صدیق محمدی نعمانی قریشی فضل رحمانی قادری برکاتی احمد رضائی پیلی بہیتی ابن محدث ارشد فقیہ اوحد حضرت مولانا وصی احمد صاحب مدرس اعلیٰ مدرسہ مدرستہ الحدیث پیلی بہیت معروف بہ محدث سورتی قبلہ مدظلہ العالیٰ وتلمیذ حضرت مجدد ماتہ حاضرہ صاحب حجتہ قاہر ہ حضرت مولانا احمدرضا خان صاحب مدظلہ وعم عنیہ و دام ہدایتہ صانہ اللہ عن شرکل غبی وغوی البدعی الندوی والوہابی والنیچری والرافعی والبدعتی والقادیانی والر شیدی والا سماعیلی مواہیر علماء رای بریلی کتاب تصریح الاوثق ترجمہ شرح البرزخ ازتالیف فاضل مکرم ذی اللطف والکرم منبع الفیوض البرکات مجمع العلوم والکمالات شمس العمابدرالفضلاء،جناب مولانا مولوی قاضی مفتی سیدمیں عبدالغفار صاحب بنگلوری سلمہ اللہ العلی الولی مدرس اعظم مدرسہ جامع العلوم مطالعہ فقیر میں آئی ازاول تا آخر نظر سے گزری۔مقاصد اصلیہ کتاب کو محمود ومستحسن پایا۔اللہ تعالیٰ مؤلف کے ارادات حسان وحسنات قلم ولسان میں برکت عطا فرمادے اور اہلسنت والجماعت کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ونیز یہ کتاب اہل سنت والجماعت کے ہر صغیر و کبیر کے عمل کے لیے کافی و وافی ہے۔ کتبہ احقرالعباد رحیم بخش عفی عنہ مدرس مدرسہ بکسر دیوان ضلع رائی بریلی۔
  2. Radd E Wahabi Deobandi 4000 Scan Refence Form Deoband Books For Internet Facebook And Twiter Etc have folders like this its a very big collection of anti wahabi and deobandi scan books and quotes [CLICK HERE] for download
  3. video making team mujh say jald rabta kary i have some thing special
  4. میں نے پوسٹ ایڈٹ کی ہے دراصل مقالہ عاق کے متلق ہے ۔ ایڈمن سے گذراش ہے کہ اس کا ٹائٹل بھی بدل دے ۔ شکریہ ۔
  5. علماءومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق کافر ہے الحمدﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ یہ تحریر ان طلباء و طالبات کے لئے مفید ثابت ہو گی جو کہ ذرا ذرا سی بات پر علماء حق سے اپنا ناطہ توڑ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو مدرسے سے نکال دیا جاتا ہے اور ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے میں داخلہ لے کے اپنی تعلیم تو جاری رکھتے ہیں ۔ مگر علماء و مشائخ کرام کی توہین کی وجہ سے عاق کیئے جانے کی وجہ سے دین و دنیا میں ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے ۔ اس آرٹیکل میں ان کو مُرشد و استاذ و مشائخ کے درجہ اور مرتبہ کا پتا چلے گا۔ انشاللہ علماءومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق فاسق نہیں بلکہ کافر علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق فاسق نہیں بلکہ کافرہے : قرُآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے : وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔( سورۃ البقرہ آیت 34) ور اس آیت کے بارے میں بیضاوی شریف میں ہے کہ : ای صار منھم باستقبا حہ امر اللہ یاہ بالسجود لاٰدم علیہ السلام اعتقادا بانہُ افضل منہ والافضللا یحسن ان موئ مر بالتخضع للمفضول۔ ( تفسیر بیضاوی ،ص۶۳،) وجہ کفر یہ ہے کہ اُستاد و مُرشد کی تخفیف کرنے والا کافر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بیضاوی شریف کی اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ سب فرشتے بمہ شیطان مردود کے آدم علیہ السلام کے شاگرد تھے سب فرشتوں نے سجدہ تعظیمی کیا لیکن شیطان نے نہیں کیا بلکہ آدم علیہ السلام کو حقیر جانا جبکہ وہ اُستاذ ہونے کے باعث لائق عزت تھے جیسا کہ مصرح موجود ہے ۔ وھومراعاۃ للدب بتفویض العلم کلہ الیہ۔ ( تفسیر بیضاوی شریف ص۶۴) ابیٰ ای امتنع من السجود لاٰ دم فلم یسجدواستکبر وھٰذا کانکان من اللہ خبراعن ابلیس فانہ خلق اللہ الذین یتکبرون عن الخضوع لامر اللہ والانقاد لطاعتہ فیما امر ھم وفیما نھی ھم عنہ والتسلیم لہ فیما اوجب لبعضھم علی بعض من الحق فنبہ اللہ الی الکافرین انہ کان حین ابیٰ حین ابیٰ من السجود فصار من الکافرین حینئذ و قبل فی ھٰذا الموضع۔ ( تفسیر ابن جریر ج ۱،ص۱۷۵) تفسیر ابن جریر کی عبارت سے ثابت ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر حق ہوتا ہے اور خُداوند کریم فرماتا ہے کہ تو اس کا حق ادا کر اور وہ اس کا حق ادا نہیں کرتا بسب تکبر اور حسد کے تو وہ اس صورت میں کافر ہو جاتا ہے ۔ اس طرح سے سرکار دو عالم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور طاعت تمام دنیا پر واجب ہے کیونکہ وہ معلم الخیر تھے ۔ جس وقت یہودیوں نے تعظیم و توقیر سے انکار کیا بوجہ تکبر و حسد کے تو خُدا وندکریم نے اُن کو کفر میں مبتلا کیا۔ اس طرح سے اگر استاذ و مُرشد بِھی معلم الخیر ہیں ان کی تعظیم و توقیر نہیں کرتابلکہ تخفیف کرتا ہے تو اس صورت میںاس پر کفر لازم ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ خُدا وند کریم قُرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے ۔ یا الھا الیزین اٰمنو اطیعو اللہ واطیع الرسول و اولی الامر منکم ۔ اس آیۃ کریمہ کی تفسیر میں ہے ۔ قال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنھما ھم الفقھاء والعلامء الذین یعلمون الناس معالم دینھم وھو قال الحسن والضحاک والمجاھد۔ ( خازن ، ج۱،ص۳۷۲، بیروت) خُداوندکریم اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت واجب ہے اور نا فرمانی کُفر ہے ۔ اسی طرح اُستاذ و معلم کی اطاعت واجب ہے اور نا فرمانی کفر ہے ۔ کیونکہ حکم معطوف اور معطوف علیہ دونوں کا ایک ہوتا ہے ۔ ایک اور جگہ قُرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ سورة النور - الآية ۶۳ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل نصوص میں تعلیل ہے ۔ اس نص میں علت یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ تمام مخلوق کیلئے مُعلم الخیر تھے اس لئے ان کا نام مبارک لیکر پُکارنا حرام ہے اور ان کی تخفیف کرنا کُفر ہے ۔ جیسا کہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وفی ھذاالاٰیۃ بیان توقیر معلم الخیر لان رسول اللہ ﷺ کان معلم الخیر فامر اللہ یتوقیرہ و تعظیم و فی ھٰذاالاٰیۃ معروفۃ حق الاستاذ لا نہ معلم الخیر ایضا و جب علی التلمیذ توقیرہ۔ ( تفسیر الروح البیان، ج۲،ص ۷۹۱، سورۃ النور) لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ دُعا مصدر اپنےفاعل کی طرف مضاف ہے یعنی لاّ کی دعوت و امر برائے اعتقاد و عمل کو نہ بنا : کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضًا اپنے جیسوں کی دُعا کی طرح یعنی حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دعوت کو اپنی دعوت پر قیاس مت کرو اس سے اعراض اور اجابت میں مساہلت ان کی اجازت کے بغیر رجوع ہرگز نہ کرو اس لئے کہ آپﷺ کی دعوت کی اجابت واجب ہے اور آپ کی اجازت کے بغیر رجوع حرام ہے ۔ فقیہ ابو اللّیث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت میں معلم الخیر یعنی استاذ کا ادب سکھایا گیا ہے ۔ یعنی اشارتاََحکم فرمایا کہ اَپنے استاذ کی تعظیم و تکریم کرو۔ آیت سے استاذ کی معرفت کو معفت حق بتایا اور اس سے اہل علم و فضل کی علوِ شان و رفعت اور مرتبہ کا پتہ چلتا ہے ۔ حقائق البقلی میں ہے کہ احترام ِ رسول ﷺ احترام الہٰی اور معرفت نبوی ، معرفتِ ایزدی اور ان کی متابقت حق تعالی کی مطابقت ہے ۔ ( تفسیر الروح البیان،پارہ ۱۸، ص۳۰۲) اس کی تائید یہ آیت مبارکہ کرتی ہے ۔ قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا۔ سورہ الکہف آیت ۶۶، ۶۹۔ موسیٰ علیہ السلام باوجود کمال علم کے اور عالی منصب ہونے کے اپنے اُستاذکی تعظیم اور توقیر اور تابعداری کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اُستاد اور مرُشد کی نافرمانی کرنا کفر ہے ۔ ( تفسیر مدارک ص۲۱۸) حدیث مبارکہ:لا یشکر اللی من لا یشکر الناس جس نے لوگوں کا شکر ادا نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا۔ حدیث مذکورہ میں اللہ تعالی نے اپنے شکر کو بندوں کے شکر پر موقوف فرمایا ہے ۔ یاس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے شکر کے ثواب کو بندوں کے شکرہ ادا کرنے پر موقوف فرمایا ہے ۔ اُستاذ کا شکریہ والدین کے شکریہ پر فوقیت رکھتا ہے ۔ ، لیکن افسوس دور حاضرہ میں عوام تو عوام ، خواص نے بھی اساتذہ کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ۔ (فیوض الرحمٰن تفسیر روح البیان پارہ ۲۱، ص۲۸۳) التاویلات النجمیہ‘‘ میں ہے کہ آیت کریمہ ’’لاتجعلو دعا الرسول الایۃ‘‘ میںعلماءِ و مشائخ اور پیران طریقت کی تعظیم کرنے کی طرف اشارہ ہے لان اھانۃ اھل العلم کفر علی المختار۔ (درشامی ج۳، صفہ ۲۰۳) ترجمہ: عالم کی تخفیف اور استہزا ء کرنا کفر ہے ۔ تو کیا استاذ کی تخفیف و استہزا کفر نہیں ہو سکتا بلکہ ہو سکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو حقوق استاذ کے ہیں وہ دلالت النصوص کے ساتھ ثابت ہیں وہ نصوص جو کہ نبی کریم ﷺ کے حقوق میں وارد ہوئے ہیں کیونکہ دونوں کی علت مشترکہ ہے ۔ اور وہ علت یہ ہے کہ ہر ایک معلم الخیر ہے ۔ اور دلالت النص حکم قطعی اور یعینی ثابت کرتی ہے جیسا کہ ظاہر علم اصلول میں مرقوم ہے ۔ استاذ و علما ءِ کرام کے ساتھ کینہ بُغض رکھنا اور اُن کی توہین کرنا یا عُلماء کرام کی شان میں بُرا بھلا کہنا کفر ہے ۔ خاص کر عوام جہلاء ایسی باتیں نہین جانتے اِس لئے علمائے کرام کی توہیں کرتے ہیں ۔ اِس وجہ سے علامہ شامی نے لکھا ہے ۔ والااحتیاط ان یجدد الجھال ایمانہ کل یوم و یجدہ نکاح امراتہ عند شاھدین فی کُل شھر مرۃ او مرتنین اذا الخطاء وان لم یصدر من الرجل فھو من النّساء کثیر۔ (شامی، ص۳۲) یعنی احتیاط اِ سمیں ہے کہ جاہل (عام شخص) روزانہ ایمان کی تجدید کرتا رہے ۔ اور ہر مہینے میں دو یا ایک مرتبہ اپنا نکاح پڑھاتا رہے ۔ (یعنی تجدید نکاح کرتا رہے) دو گواہوں کے سامنے کیونکہ اگرچہ آدمی کی طرف سے کوئی نہ ہو ۔ مگر عورتیں گناہ میں کثرت کرتی ہیں۔ انا عبد من المنی حرفا واحدا ان شاء باع وان شاء اعتق وان شاء استرق۔ (تعلیم المتعلم ) یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا۔ اگر ہو چاہے تو مجھے پیچ دے اگر چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام بنا لے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : من تعلم عبدا آیۃ من کتاب اللہ فھو مولاہ لا ینبغی لہ ان یخذلہ ولا یستاثر علیہ۔ یعنی جو کسی کو کتاب اللہ کی ایک آیت سکھا دے وہ اس کا آقا ہے لہذا سیکھنے والے طالب علم کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کی توہین کرے یا اس پر برتری جتائے ۔ الاستھزاء بالعلم والعلماء کفر۔ (حموی شرح اشباہ ولنظائر ، ص۱۷۸) علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا گستاخ اگر گستاخی سے باز نہ آئے اور نوبت عاق تک پہنچ جائے تو اسکے بارے میں قران و حدیث سے دلائل اور علماء و مشائخ کرام کی رائے : استاذ و مُرشد کے عاق کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ُاُستاذ و مُرشد کے عاق کی توبہ قبول نہیں ہو سکتی جیسا کہ اس آیۃ کریمہ کی تفسیر میں ہے ۔ فان تولو ا فان اللہ علیم بالمفسدین قال امشائخ رحمھم اللہ تعالی فی تفسیر ھٰذہ الآیۃ عقوق الاستاذین لا توبۃ منہ۔ ( تفسیر روح البیان ج۲، ص۴۶،لبنان ، بیروت) اس سے معلوم ہوا کہ عاق توبہ سے نہیں بخشا جاتا۔ جس طرح سابی الرسول توبہ سے نہیں بخشا جاتا۔ یہ مذھب مختار ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ عاق، شرک سے بڑا گناہ ہے ، کیونکہ شرک توبہ سے بخشا جاتا ہے ۔ اعوذ باللہ منہ تحذیر الاخوان ص۱۷۰ میں فج عمیق کے حوالے سے منقل ہے کہ عاق کے کفر کے بہت سی روات منقول ہیں آخر میں لکھا ہے کہ عاق کا کفر۔ نوادر اور ذکیرہ کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخون درویزہ بابا رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے رسالے میں لکھا ہے کہ کسی کتاب میں نہ روایت ہے یہ کسی سے سُنا گیا ہے اور نہ کوئی کہتا ہے کہ عاق کے پیچھے نماز جائز ہے ۔ حق الاستاذ فرض فمن انکر من حقہ فھو کافر وکذا الشیک بل الشیخ افضل من الاز فادبہُ اولی من ادبہ وقال یحییٰ بن معاذ العلماء ارحم بامۃ محمد ﷺ من اٰ بائھم وامھا تھم قیل وکیف ذٰلک قال لان اٰ بائھم وامھاتھم یحفظونھم من نار الدینا وھم یحفظونھم نار الآ خرۃ۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری، شیخ ابو عبد الرحمن حاجی ملا حیدر الحنفی القادری) یعنی اُستاذ کا حق فرض ہے جس نے اُستاذ کے حق کا نکار کیا وہ کافر ہے اس طرح شیخ یعنی پیر و مرُشد کا حق ہے بلکہ شیخ والد سے افضل ہے تو شیخ و استاذ کا ادب والد کے ادب سے اولی و مقدم ہے ۔ یحییٰ بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علماء کرام اُمت محمدیہ پر ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ وہ کیسے فرمایاکہ ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والاے ہیں پوچھا گیا کہ وہ کیسے فرمایا کہ ان کے والدین انہیں اس دنیاوی آگ سے محفوظ رکھتے ہیں اور علماء کرام ان کو آخرت کی آگ سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اسکی تائید فقۃ کے دلائل سے بھی ہوتی ہے ۔ وعقوق الوالدین الخ و المعلم و الشیخ قیاس علیھما و فی الفتاوی برالتلمیذ لا ستاذہ الفضل من بر الوالد لوالدیہ لا نالاب یحمی ولدہ من اٰفات الدینا و الاستاذیحمی تلمیذہ من اٰفات الآخرۃ۔ انتھی۔ ویودہ ما فی کتب الفقہ و زوج الموضعۃ اب المرفع انتھی ۔ وتربۃالعلم افضل من تربۃ اللبن و قال فی الظھریۃ و غیر ھا لا یجوز الصلوۃ خلف العاق ولا تقبل توبۃ انتھی ۔ وفی العاق ثلاثۃ والقاف دال علی القھر فھٰذا اسباب العقوق اعذانا اللہ تعالی منہ ولا یجوز تعلیم العلم ولا طلب المسئلۃ من العاق۔ (تسھیل المشکوۃ صفہ ۵) یعنی والدین کی نافرمانی اور اس پر قیاس استاذ اور پیر و مُرشد کی نافرمانی ہے ۔ شاگرد کا اپنے استاذ کی خدمت بیٹے کا اپنے والدین کی خدمت سے افضل ہے ۔ کیونکہ باپ اپنے بچے کو دنیاوی مصیبتوں سے بچاتا ہے اور استاذ اپنے شاگرد کو اُخروی آفات سے بچاتا ہے ۔ اسکی تائیدمیں فقہ کے دلائل بھی موجود ہیں۔ دودھ پلانے والی عورت کا شوہر دودھ پینے والے بچے کا باپ ہے ۔ اور علم کی تربیت دودھ کی تربیت سے افضل ہے ظہریہ میں ہے کہ عاق کے پیچھے نماز جائز نہیں اور عاق کی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ عاق میں تین حروف ہیں عین، عیب پر دلالت کرتا ہے ، الف ، اہانت پر دلالت کرتا ہے قاف ، قہر پر دلات کرتا ہے ۔ اور یہ تینوں عقوق کے اسباب ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے بچائے ۔ آمین۔ عاق کو تعلیم دینا یا اس سے مسئلہ پوچھنا جائز نہیں۔ ولاتعقن والدیک ہا و قیاس علیھا المعلم و شیخ و زوج المرضعۃ و العجب فی ھٰذا الذمان ان الا و لاد یخالفون عن الوالدین و التلمیذ من الاستذۃ و ھلم جرا و قال فضل بن عیاض لا الکلم العالم الذی یخالف عن شیخہ ولاانظر اِلی وجھہ انتھی۔ ( تسھیل المشکوۃ ص ۶) یعنی اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اور اس پر قیاس استاذ اور پیر و مُرشد ہے اور رضاعی باپ بھی۔ اس زمانے میں تعجب کی بات یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین اور شاگرد اپنے اساتذہ کی مخالفت کرتے ہیں، فضیل بن عیاض فرماتے ہیں میں اِس عالم سے بات نہیں کرتا جو اپنے پیر و مرشد کی مخالفت کرتا ہے اور نہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ من تعلم منہ حرفا من القرآن اور من تفسیر اور من الففقہ او من مسئلۃ من المسائل الدینیۃ او من کلمۃ الاخری او من الصلوۃ او من ذکر اللی او نصیحۃ من الحسنات فھو الستاذ من انکر من حقہ کفر لان حق الاستاذ فرض من انکر من حقہ فھو کافر النبی ﷺ من استخف استاذہ ابتلاہ اللی بشالاثہ بلاء اولہ نسی منہ العلم و الثانی قل رزقہ و الثالث یخرج من الدنیا کافرا و من منع کلمۃ من کلام الاستاذ من عاق لا یقبل اللہ تعالی عنہ الصلوۃ و الصوم الحج و الذکاۃ و کل عبادۃ ولا یجوز الصلوۃ خلفہ ولایقبل شھادتہ ولا یعتبر قولہ ولو کان عالما فقیھا ولاذبیحۃ من یدہ لانہ صار عاقا فذبیحۃ العاق و الکافر سواء کان فی النار من الکافرین الا ان یرضی عنہ الستاذہ صار مسلما کما اسلم الکافر من الکفر کذا ذکر من منھاج العابدین۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری، شیخ ابو عبد الرحمن حاجی ملا حیدر الحنفی القادری) یعنی جس نے کسی سے ایک حرف قُرآن یا تفسیر یا فقہ یا دینی مسئلہ یا کلمہ شھادت یا کوئی دوسرا کلمہ یا نماز یا ذکر یا نیکی کو کوئی نصیحت سیکھی تو وہ اس کا استاذ ہے پس جو اپنے استاذ کا حق فرض ہے اور جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے ۔ اس طرح جس نے اپنے استاذ کی اہانت کی وہ کافر ہے ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے استاذ کی توہین کی اس کو اللہ تعالی تین مصیبتوں میں مبتلا کرے گا۔ ۱۔ اس سے علم بھول جائے گا۔ ۲۔ رزق میں کمی ہو گی۔ ۳۔ دنیا سے کافر جائے گا۔ جس نے اپنے استاذ کی کوئی بات منع کی تو وہ عاق ہے ۔ اللہ تعالی اس کی نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ، اور اللہ اس کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں فرمائے گا۔ اور عاق کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اسکی شہادت قبول نہیں اور نہ ہی اس کے قول کا اعتبار ہو گا اگرچہ عالم ہو یا فقیہ اور اسکے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں کیونکہ وہ عاق ہے اور عاق اور کافر کا ذبیحہ برابر ہے اور کافروں کے ساتھ دوزخ میں ہو گا۔ مگر یہ کہ استاذ اس سے راضی ہو جائے تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔ لایقبل اللی تعالی من کل طاعۃ کالکافر ولا یجوز الصلوۃ خلفہ قال رسول اللہﷺ المرتد علی نوعین احدھمامرتد عن الدین فیلقنہ علی الفور فان عاد و تاب صار مسلما فیصیح توبتہ ولا یقتل و الثانی المرتد عن الاستاذلا یقبل اللی تعالی منہ کل طاعۃ بالاتفاق الاان یرضی استاذہ ذکر فی الظھیرۃ و کذٰلک لا تسافر بغیر اذن الاستاذ حتی لا تصیر عاقا۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری ،ص ۳۳۵، ۳۳۶ بریقیہ ۱۴۸) اللہ تعالی عاق کی کوئی عبادت کافر کی طرح قبول نہیں فرماتا اور عاق کے پیچھے نماز نہیں ہوتی سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا مُرتد کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ دین سے مُرتد : ایسے مُرتد کو فورا دین کی تلقین کی جائے گی اگر واپس آیا اور توبہ کی تو مسلمان ہو گیا اور اس کی توبہ قبول ہے اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۲۔ اپنے استاذ سے مُرتد: ایسے مُرتد کا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس سے استاذ راضی ہو جائے اور استاذ کی اجازت کے بغیر سفر بھی نہیں کرنا چاہیئے تاکہ عاق نہ ہو جائے ۔ عاق کا شرعی حکم ۱۔ عاق کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس پر اپنی بیوی طلاق ہو جاتی ہے ۔ ۲۔ اسکا ذبیحہ حرام اور گواہی مردود ہے اور اس کی امامت صحیح نہیں ۔ ۳۔ اسکی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز واجب الاعادۃ ہے ۔ ۴۔ عاق کا کوئی قول و فعل معتبر نہیں ۔ ۵۔ عاق کی کوئی بھی مالی و جانی عبادت قبول نہیں ہے ۔ ۶۔ اگر اسلامی قانون نافذ العمل ہو تو عاق واجب القتل اور لازم الاہانت ہے ۔ سب سے پہلے عاق شخص کو توبہ کی ترغیب دی جائے گی اگر توبہ کر کے اپنے حقدار ( استاذ، مُرشد، اور والدین) کو راضی کر لیا تو پھر اس کو اسلام کی تلقین کی جائے گی اور نکاح کی بھی تجدید کی جائے گی ۔ اگر توبہ سے انکار کیا تو واجب القتل ہے ۔ اور اگر قتل کا غلبہ و قدرت نہ ہو تو عاق کے ساتھ قطع تعلق کرنا واجب ہے البتہ استاذ کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے جس نے کسی سے ایک بھی حرف پڑھا اس کی قدر کرے گا اور اس کے سامنے عاجزی کرے گا۔ علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا گستاخ جب عاق ہو جائے تو اسکا کیا حکم ہے بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ اُستاذ و مُرشد کا عاق فاسق ہوتا ہے ۔ ہالانکہ فاسق لُغت میں خارج عن حد الایمان کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ قولہ تعالی الاالفاسقین الزین الفاسق فی اللغۃ خارج عن حد الایمان۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فاسق بھی کافر ہوتا ہے ۔ فاسق کا کفر دلالت النص سے ثابت ہے جیسا کہ مولوی صاحب شرح الحسامی نے تشریح کی ہے ۔ فان استدل بمعناہ اللغوی فدلالت ص۷۴۔ وفی الشرع الخارج عن امر اللی بارتکاب الکبرۃ ولہُ درجات ثلث الاولی التغابی وھو ان یرتکبھا احیانا مستقبحا ایاھا و الثانیۃ الانھمساک وھو ان یعاتاد ارتکا بھا غیر مبال بھا و الثالثۃ الجحود و ھو یرتکبھا متصوبا ایاھا فخلع ربقتہ الایمان عن عنقہ وھو لا بس الکفر۔ (تفسیر بیضاوی ،ص ۵۴) عاق اگر استاذ کا اگر فاسق ہے تو اعلیٰ درجہ کا فاسق ہے (وھو لابس الکفر) اس سے ثابت ہوا کہ عاق امامت کے لائق ہرگز نہیں ہو سکتا۔ لان معصومیت الامام عن الکبائر شرط لان الام ھو الذی یوتمّ بہ وقتدی بہ فلو صدر منہ الکبائر لو جب علینا الاقتداء لہ فی ذٰلک فیلزم ان یجب علینا فعل الکبائر و ذٰلک محال لان کونہ معصیۃ عبارت عن کونہ ممنوعا من فعلہ و کونہ واجب عبارت عن کونہ ممنوعا عن ترکہ والجمع بینھما محال فثبت بدلالۃ النص بطان امامۃ الفاسق وقال لا طعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق و دل ایضا علی ان الفاسق لا یکون حاکما و احکامہ لا تنفذ اذا ولی احکم و کذا لا تقبل شھادتہُ و لا خبرہُ اذا اخبر عن النبی ولا فتیاہ اذا افتنی ولا یقدل الصلوۃ ۔ (تفسیر کبیر ج۱، ص۴۶۹ ) کراھۃ تقدمہ بانہ لا ینھم لا مردینہ وبان تقدمہ للا مۃ تعظیمہ وقد و جب علیھم اھانتہ شر عابل مشی فی شرح منیۃ علی ان کراھِۃ تقدمہ بانہ لاینھم لامردینہ وبان تقدمہ للمۃ تعظیمہ وقد وجب علیم اھانتہ شر عابل مشی فی شرح منیۃ علی ان کراھۃ تقدیم ہکراھتہ لما ذکر نا ولھٰذا لم تجز الصلوۃ خلفہُ اصلاعن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ و فی روایۃ احمد رحمہ اللہ تعالٰی ۔ (شامی ،ج۱) فاسق ، علماءی مجتہدین کے درمان کافر اختلافی ہو گیا ہے ۔ (کبیری ص ۳۱۸، ۳۱۹) عاق کافر ہے اور اس کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہے ۔ (فتاوی نور الھدیٰ المشہور فتاویٰ جامع الفوائد) وینبغی للمتعلم ان یعظم استاذہ لان فی تعظیم برکۃ ومن لم یعظم او شتم فھو عاق لا تقبل صلاتہ و لااممتہُ و یعذر و یشھر ع لیہ الفتوی فی زماننا(مختار الفتاوی ) ولا یجوز شھادۃ العاق ولاامامتہ و تسقط عدالتہ ولایتعبر قولہ ولایعمل بفتواہ لو کان مفتیا(تحفۃ الفقھاء) لا یحل ذبیحۃ العاق ولامامتہ لان العاق یصیر متدا فی الحال و مثواہ فی النار (فتاویٰ جامع) من امتنع کلمۃ من الاستاذ فھو عاق لم یدخل الجنۃ ولانجدۃ لہ من النار و یخرج من الدنیا بغیر الایمان ولا تقبل عبادتہ ان کان الاستاذ ممن تعلم منہ حرفا من القرآن او تعلّم مسئلۃ من مسائل الفقہ او الحدیث او النصیحۃ من الحسنات او الذکر او لقّن کلمۃ طیبۃ۔ (فتاوی نور الھدیٰ المشہور فتاویٰ جامع الفوائد) (1) يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ" أخرجه أحمد: جـ 441/6، وأخرجه مختصرًا ابن ماجه: 3376, وحسَّن إسناده البوصيري. النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ، وَلَا عَاقٌّ وَالِدَيْهِ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ (2) مسند أحمد 2/ 201 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ". أخرجه أحمد: جـ 441/6، وأخرجه مختصرًا ابن ماجه: 3376, وحسَّن إسناده البوصيري. وأخرجه أحمد بن منيع، ثنا الهيثم بن خارجة، ثنا سليمان بن عتبة به انظر: مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 1173، وحسنه الألباني في: الصحيحة: 675. (3) أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ وَلَا عَاقٌّ وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ» . وأخرجه أحمد 3/ 28 من طريق عبد العزيز بن مسلم به. وأخرجه أحمد 3/ 44 والبيهقي 8/ 288 من طريق شعبة عن يزيد به. وأخرجه أبو يعلى 1168 من طريق جرير عن يزيد به. وأخرجه النسائي في «الكبرى» 4920 عاق اور صلہ رحمی قطع کرنے والا جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (فتاوی خانیہ ) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ والدین کے نافرمان کی مغفرت کی جائے گی مگراستاذ کے نافرمان کی مغفرت نہ ہو گی ۔ (مجمعۃ العجائب) الاستھزاء بالعلم و العلماء کفر۔ (بحر الرائق ج۵، صفہ ۱۲۳، درسہ جا آوردہ) ولو صغر الفقیہ قاصدا الا ستاخفاف بالدین کفر ۔ (بحر الرائق ج۵، صفہ ۱۲۴، ) قال الملا علی قاری من البعض عالما من غیر سبب ظاھرخیف علیہ الکفر قلت الظاھر انہ یکفر لا نہ اذا ابعض العالم من غیر سبب دنیوی او اخروی فیکون بغضہُ لعلم الشریعۃ ولا شک فی کفر من انکرہ فضلا عمن ابعضہُ۔ (شرح فقہ الاکبر) تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ استاد کا عاق توبہ سے نہیں بخشا جاتا جب تک کہ استاد کو راضی نہ کرے اس سے ثابت ہوا کہ عاق، شرک سے بڑا گناہ ہے کیونکہ شرک توبہ سے بخشا جاتا ہے اللہ رب العرز ہمیں والدین ، استاد اور شیخ کی نافرمانی سے بچائے ۔ آمین جو شخص علماء کرام کی توہین کرے یا ان کا مذاق اُڑائے اُس کے متعلق سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے اُستاد کو حقیر جانے اُس شخص کو اللہ تعالی بارہ بلائوں میں مبتلا فرما دیتا ہے ۔ ۱۔ وہ شخص جو کچھ بھی علم حاصل کریگا بھول جائیگا۔ ۲۔ اسکا رزق جاتا رہے گا۔ ۳ ۔ اُسکی عمر کم ہو گی۔ ۴۔ اُسکے چہرے سے نیکی اور سعادت کی رونق دور ہو جائیگی ۔ ۵۔ عبادت الہٰی کی اُسکو توفیق نہ ہو گی ۔ ۶۔ شیطان کے مکر و فریب میں ہمیشہ مبتلا رہے گا۔ ۷۔ معرف الہٰی کیلئے اُسکا دل حاضر نہ ہُو سکے گا۔ ۸۔ جان کَنی کے وقت اُسکی زبان سے کلمہ شہادت کیلئے گونگی ہو جائے گی۔ ۹۔ دنیا سے بغیر ایمان کے اُٹھا لیا جائے گا۔ ۱۰۔ اُس کی قبر اس قدر تنگ ہو گی کہ اُسکی ہڈیاں پسلیاں چُور چُور ہو جائیں گی۔ ۱۱۔ فاسقوں اور بد کاروں کے ساتھ اُسکا حشر ہو گا۔ ۱۲۔ ہمیشہ دوزخ میں رہیگا۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۱۶۹) شب برات یعنی ۱۵شعبان المعظم کی مبارک رات کو تمام لوگوں کی بخش دیا جاتا ہے سوائے ان سات بد نصیب لوگوں کے ان ساتھ میں سے ایک بد نصیب وہ شاگرد بھی ہے جسکا اُستاذ اُس سے ناراض ہو۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۳۳۳) اے لوگو میرے اہلبیت رضوان اللہ اجمعین کی محبت اور حاملان قُرآن کی محبت اور اپنے علماء کی محبت فرض سمجھو، خبردار|ا ۔۔ کبھی اُنسے بُغض و حسن نہ رکھنا کبھی اُن پر طعن و تشنیع نہ کرنا خوب سمجھ لو کہ جو اُن کا دوست ہے وہ میرا دوست ہے اور جو میرا دوست ہے وہ خُدا کا دوست ہے جو اُنسے دشمنی رکھتا ہے وہ میرا دشمن ہے جو میرا دشمن ہے وہ خُدا کا دشمن ہے ۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۲۳۵) سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت عالم کسی جلسہ میں آئے اور حاضرین اُسکی تعظیم کے لئے پورے طور پر کھڑے نہ ہوں تو قیامت کے دن وہ لوگ میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔ (فتاوی نسفی)( تذکرۃُالواعظین ص۷۹) ہنر ی کا کہناہے:معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے ۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اُٹھاتے ہیں ۔جنکے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ۔ کیونکہ :الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ ”ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل ۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟“ ادب و تعظیم و توقیر پر سلف صالحین کی روایات: اب ملت اسلامیہ کی قابل قدر ،قد آورچنداہم شخصیات کے احوال و اقوال کا ذکر کیا جاتا ہے ۔جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں قائم کیں اور جو ہمارے لےے مشعل راہ ہیں۔ مفسر قرآن حضرت سیدنا عبد اللّٰہ ابن عباس رضی اللہ عنہما: معارف قرآن کے لئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھر جاتے ۔ تو انکے دروازے پر دستک نہ دیتے ۔ بلکہ خاموشی سے انکا انتظار کرتے ۔حتیٰ کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر آتے ۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو یہ بات گراں گزری ۔ایک دن کہنے لگے”آپ نے دروازہ کیوں نہ کھٹکھٹایا ۔تاکہ میں باہر آجاتا اور آپکو انتظار کی زحمت نہ اُٹھانا پڑتی۔“آپ نے جواب میں کہا! العالم فی قومہ کالنبی فی امتہ وقد قال اللّٰہ فی حق نبیہ ﷺ ولو انھم صبروا حتیٰ تخرج الیھم۔”عالم کا اپنی قوم میں مقام ایسا ہی ہے جیسے نبی ﷺ کا مقام امت میں اور بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے ادب کے بارے فرمایا (اے دروازہ نبوت پر آوازیں لگانے والو)اگر تم صبر کرتے یہاں تک کہ میرے رسول خود باہر تشریف لاتے۔“ حضرت زید بن ثابت نے ایک جنازے پر نماز پڑھی ۔پھر انکی سواری کےلئے خچر لایا گیا ۔تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھا م لی ۔حضرت زید نے یہ دیکھ کر کہا:اے ابن عم رسول اللہ !آپ ہٹ جائیں ۔اس پر حضرت ابن عباس نے جواب دیا:”علماءاور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہے۔“ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہرضی اللہ عنہ:امام اعظم رضی اللہ عنہ اور آپکے استاد امام حماد بن سلیمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔ لیکن آپ کبھی انکے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوئے۔آپ دوران درس اپنے استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے ۔امام حماد کی ہمشیرہ عاتکہ کہتی تھیں ،کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے ۔دودھ اور ترکاری خرید کر لاتے اور اسی طرح کے بہت سے کام کرتے تھے۔ امام احمد رضی اللہ عنہ:امام احمد رضی اللہ عنہ ایک بار مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔اثنائے گفتگو ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا۔ان کا نام سنتے ہی آپ فوراً سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ بات ناز یبا ہو گی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم اسی طرح بیٹھے رہیں ۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کی مجلسِ درس بڑی باوقار ہوتی تھی ۔تمام طلبہ مو ¿دب بیٹھتے۔یہاں تک کہ ہم لوگ کتاب کا ورق آہستہ اُلٹتے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز پیدا نہ ہو۔ امام قاضی ابو یوسف رحمة اللہ علیہ:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کےلئے دعا نہ مانگی ہو۔ ایک روایت ہے کہ آپ ہر نماز کے بعد پہلے امام اعظم کےلئے دعا مغفرت کرتے تھے ۔پھر اپنے والدین کےلئے ۔ امام ربیع رحمة اللہ علیہ :آپ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے استاد حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی نظروں کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرا ت نہیں ہوئی۔ ہارون الرشید :ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کےلئے کھڑا ہوجاتا ۔درباریوں نے کہا کہ اس سلطنت کا رُعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگا ۔اس دوران میں عالم صاحب سے پوچھا ۔آپ کو معلوم ہے کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے ۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے ۔اس پر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا ۔بلکہ جواب دیا کہ ہاں آپ نے علم کی عزت کےلئے ایسا کیا ہے ۔اس نے جواب دیا بے شک یہی بات ہے ۔ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعی کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً انکے پاس جا پہنچا ۔دیکھا کہ اصمعی اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے ۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا ۔میں نے تواسے آپکے پاس اسلئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے ۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے ۔ حضر ت یوسف بن حسین رحمة اللہ علیہ: حضر ت یو سف بن حسین رحمتہ اللہ علیہ کا قو ل ہے کہ ادب سے علم سمجھ میں آتا ہے ۔اور علم سے عمل کی تصحیح ہوتی ہے ۔اور عمل سے حکمت حاصل ہوتی ہے ۔(آداب المعلمین ،صفحہ10) اصمعی رحمة اللہ علیہ کا قول مشہور ہے:جو شخص علم حاصل کرنے میں ایک لمحہ کی ذلت برداشت نہ کر سکے ،وہ پھر ساری عمر جہالت کی ذلت میں زندگی گزار دیتا ہے۔ (ادب الاملائ،والاستملاءللسمعانی،صفحہ145۔ ) حضرت مظہر جان جاناں:حضرت مظہر جان جاناں شہید رحمة اللہ علیہ نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل سے حاصل کی تھی ۔تحصیل علم سے فراغت کے بعد حضرت حاجی صاحب نے اپنی کلاہ جو پندرہ برس سے آپکے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی ۔حضرت مظہر جان جاناں کو عنایت فرمائی۔آپ نے رات کے وقت ٹوپی پانی میں بھگودی ۔ صبح کے وقت پانی سیاہ ہو چکا تھا ۔آپ نے اس پانی کو پی لیا ۔آپ فرماتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے میرا دماغ ایسا روشن ہوا کہ کوئی کتاب بھی مشکل نہ رہی۔ اللہ ہم سب کو علماء و مشائخ کی گستاخی اور ناراضگی سے بچائے ۔ آمین فقیر خادم علم و علماء محمود ختم شد
  6. AshiqeRasool

    شیعہ کے سوالات کا رد بلیغ

    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سوال نمبر ۱۔ سورۃ المائدہ، آیت نمبر55، پس اللہ ولی ہے تمھارا اور اس کے پیغمبر اور مومن جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور رکوع والے۔ تفسیر در منثور، جلد نمبر2، صفحہ نمبر293(علامہ جلال الدین سیوطیؒ)1 (1-۔ تفسیر فتح القدیر، جلد نمبر2، صفحہ نمبر53(علامہ شوکانی) (1-c)تفسیر قادری، حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سورۃ المائدہ کی یہ آیت مولا علی ؓ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب مسجد نبوی ﷺ میں مولا علی ؓ نے حالت رکوع میں سائل کو انگوٹھی خیرات کی۔ جواب: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر55 اس کے شان نزول میں مفسرین کرام نے ہر گزحضرت مولیٰ علی شیر خدا کے حق میں نزول پر اتفاق نہیں کیا۔ بلکہ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے اور اس کے شان نزول مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ نمبر1۔ چنانچہ تفسیر ابن جریر جلد چہارم، صفحہ 186 مطبوعہ بیروت، میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ بنی خزرج سے حضر ت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں تمھاری دوستی کو چھوڑتا ہوں ، کیوں کہ میں اللہ عز وجل و رسول اللہ ﷺ اور مومنین کو دوست رکھتا ہوں۔ نمبر 2۔ تفسیر روح المعانی صفحہ176/6 میں اس آیت کے تحت ایک اور روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو ان کی قوم نے ان سے بائیکاٹ کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن سلام بہت پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی، انما ولیکم اللہ ۔۔۔ نمبر3۔ جب کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان 210/2پر بھی موجود ہے جس کی عبار ت یہ ہے ۔ وقال الکلبی نزلت فی عبد اللہ بن سلام اصحابہ لما اسلموا فقطعت الیھود موالاتھمیعنی کلبی نے کہا کہ یہ سوره مائده آیه 55 آیت، انما ولیکم اللہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ مشرف باسلام ہوئے اور اسلام لانے کے بعد یہودیوں نے ان سے دوستی ختم کر دی تھی۔ اور تفسیر فتح القدیر ، شوکانی، کا حوالہ ہمارے لیئے حجت نہیں کیونکہ شوکانی غیر مقلد ہے۔ سرکارﷺ نے مردوں پر سونا حرام فرما دیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سونے کی انگوٹھی پہننا اس روایت کی غیر معتتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ تفسیر فتح القدیر صفہ 6 پر لکھا ہے شوکانی شاگرد تھا عبد الحق بنارسی کا اور عبدالحق بنارسی کا سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں وہی عقیدہ تھا جو کہ شیعہ کا ہے ۔ دیکھو۔ کشف الحجاب ، عبد الحق بنارسی دوسری بات مذھبہ و عقیدہ تفقہ علی مذھب الامام زید زیدی شیعہ تھا ۔ تفسیر فتح القدیر صفہ 6 مذکورہ بالا سنی اور شیعہ روایات سے ثابت ہوا کہ۔ ۱۔ اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے۔ ۲۔ ان روایات مذکورہ میں سے پہلی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ۳۔ دوسری روایت یعنی روح المعانی ، شیعہ تفسیر مجمع البیان کی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ۴۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سوره مائده آیه 55 اس آیت میں ولی بمعنی دوست استعمال ہوا ہے لہٰذا قطعی طور پر اس کا شان نزول سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ہے۔ جبکہ تفسیر در منثور صفحہ518/2مطبوعہ بیروت، میں اس آیت کا پہلا شان نزول ہی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے برے میں بیان کیا گیا ہے۔ ۵۔ فتح القدیر اہل سنت کی کتاب نہیں۔ دوسری روایت حضرت علی المرتضیٰ کے بارے میں اور تیسرا شان نزول حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ، اصحاب محمد ﷺ ہیں۔ اور سائل نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی پاک ﷺ کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان میںسے ہیں۔ واضح ہو گیا کہ شیعہ حضرات کا اس آیت کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قطعی طور قرار دینا درست نہیں ہے۔(جب بنیاد ہی قائم نہ ہو سکی تو اس سے من گھڑت، خود ساختہ مفہوم کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟) کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی؟ پہلی بات: بفرض محال ہم تسلیم کر لیں کہ یہ آیت پاک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کتب شیعہ میں اس آیت مبارکہ کے ماتحت لکھا ہو ا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی، بعض نے لکھا ہے کہ انگوٹھی دی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائل بھی بڑا عجیب تھا اس نے انتظار نہ کیا کہ حضرت علیرضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہو جائیں بعد میں سوال کروں ۔ دوسری بات:۔ چلو ہم مان لیں کہ سائل نے نماز کے اندر سوال کر لیا اور مولا علیرضی اللہ عنہ رکوع کی حالت میں انگوٹھی یا چادر سائل کو دے دی ، بات سمجھنے کی ہے کہ چادر مولا علی رضی اللہ عنہ نے اتار کر سائل کو دی اور یہ فعل کثیر ہے، اور فعل کثیر مفسدات نماز ہے۔ کیا باب العلم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بھی علم نہ تھا؟ حالانکہ رکوع سے مراد وہ لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں یہ حضور ﷺ کی امت میں ہے سابقہ امتوں میں نماز تھی رکوع نہ تھا۔ تیسری بات:۔ اگر مولا علی رضی اللہ عنہ نے جو سائل کو زکوٰۃ دی ، تو جو ۱۰۰۰ درہم کی چادر دی اور حضرت علی رض کے قول کے مطابق کہ ساری زندگی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، کیا جواد پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟ سوال نمبر 2۔ سورۃ التغابن، آیت نمبر8۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پر اور نور پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لائو اور خدا تمھارے سب اعمال سے خبر دار ہے۔ (2-a)مسند(امام احمد بن حنبلؒ) (2- مودت القرباء ( میر سید علی حمدانی ) (2-c)مناقب(ابن مغزالی شعفی ) (2-d)فردوس الاخبار(دیلمی ) میں اور علی، آدم 1400سال پہلے ایک ہی نور سے خلق ہوئے۔ یہ نور سلب عبد المطلب سے ہوتا ہوا حضرت عبدا للہ اور حضرت ابو طالب میں تقسیم ہوا۔اتنے Refrencesکے بعد بھی اس نور کو علماء کرام نے (قرآن ) سے تشبیہ دی ہے۔ اس نور کو اگر قرآن ہی مانا جائے تو قرآن پاک نبی پاک ﷺکے ظہور کے چالیسویں سال نازل ہوا جبکہ اس حدیث کے مطابق یہ نور علی ہے جو حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ۔ یہ نور اگر آپ کے 40سال بعد نازل ہوا تو قرآن ہے اور اگر ساتھ نازل ہوا تو علی ہیں اس نور کو سمجھنے کیلئے دوبارہ قرآن مجیدکا مطالعہ کرتے ہیں۔ جواب:۔ اس آیت فاٰمنوا باللہ روسولہ والنور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر میں والنور الذی انزلنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ مراد لینا صریحاً تحریف ہے جو کہ یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔ وہ نو ر جو ہم نے نازل کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نازل نہیں ہوئے بلکہ ان کی /پیدائش مبارکہ ہوئی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں اللہ و رسول ، قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم ہے، جس کو نور کہا ہے۔ مستند اور معتبر روایات سے ثابت ہے کہ اس نور سے مراد قرآن مجید ہے، جیسا کہ: تفسیر ابن کثیر صفحہ375/4پر ہے ، یعنی قرآن۔ یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ تفسیر ابن عباس ؓ صفحہ 599پر ہے ۔ الکتاب یعنی اس سے مراد کتاب ہے یعنی قرآن مجید۔ تفسیر معالم التنزیل صفحہ353/4پر ہے ھوالقرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ تفسیر روح المعانی، صفحہ 123/14الجز ء الثامن والعشرون میں ہے ، وھو القرآن، یعنی وہ نور جو ہم نے نازل کیا ہے وہ قرآن مجید ہے۔ تفسیر مدارک التنزیل صفحہ1818/3مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی میں ہے۔ یعنی قرآن ، یعنی اس نازل شدہ نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ تفسیر خزائن العرفان صفحہ896حاشیہ14پر ہے نور سے مراد قرآن شریف ہے کیوں کہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہر شے کی حقیقت، واضح ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا معتبر تفاسیر سے واضح ہے کہ سورۃ التغابن کی آیت نمبر8میں جس نور کا ذکر ہے اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ باقی سوال مذکور میںجن کتب کے حوالے دیئے گئے ہیں ایک تو نامکمل ہیں اور دوسرے کتب شیعہ کے ہیں جو کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں ۔ اس سوال میں جن کتب کے حوالے دیئے ہیں ان میں اکثر کتب شیعہ اورہیں جو ہمارے لئے حجت نہیں ۔ پہلی کتاب مودت القربیء ، میر سید علی حمدانی پہلی مودت القربیِء ، میر سید علی حمدانی، یہ کتاب اصل تو عربی میں ہے لیکن اس کا ترجمہ ایک شیعہ نے کیا ہے کیوں کہ عقائد شیعہ سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے سو اسی سے کتاب کا ترجمہ لکھ کر باہر ٹائٹل پر لکھ دیا ہے زاد العقبیٰ ،ترجمہ مودۃ القربیٰ، مولف مولوی سید علی ہمدانی شافعی سنی المذہب تاکہ پڑھنے والا سمجھے یہ کتاب سنیوں کی ہے ، ترجمہ کرنے والے کا نام مولوی سید شریف شیعی ہے پھر اس کتاب کو چھاپنے کا کام امامیہ کتب خانہ لاہور نے کیا ، صاحب مودۃ القربیٰ کے شیعہ ہونے پر شیعہ علما کی نصوص قطعیہ:۔ پہلی دلیل: الذریعہ المودۃ القربیٰ لسید علی الھمدانی المتوفی سنہ ست وثمانین وسبعماتہ۷۸۶ طبعت مع ینابیع المودۃ وایضاً مستقلاً فی سنۃ۱۳۰۱، وافرد القاضی نور اللہ المرعشی رسالۃ فی اثبات لتشیعہ کما فی مرفی9=11و ترجمہ فی المجالس الذریعہ الی تصانیف الشیعہ جلد۲۳، صفحہ۱۵۸، مطبوعہ بیروت ترجمہ : سید علی ہمدانی متوفی۷۸۶ء کی کتاب مودۃ القربیٰ صفحہ۱۳۱۰ میں ینابیع المودۃ کے ساتھ ایک جلد میں چھپی اور قاضی نور اللہ مرعشی نے اس سے شیعہ ہونے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے مجالس االمومنین میں علی ہمدانی کا تذکرہ موجود ہے۔ دوسری دلیل: رسالۃ فی اثبات تشیع السید علی بن شھاب الدین محمد الھمدانی للقاضی نور اللہ اتستری ذکرھا بعض الموثقین ۔ ترجمہ:۔ سید علی بن شہاب الدین ہمدانی کا مذہب شیعہ ثابت کرنے کیلئے نور اللہ تستری نے ایک رسالہ لکھا ہے بعض موثقین نے اس کا ذکر کیا ہے۔حوالہ: الذریعہ جلد نمبر11صفحہ نمبر7۔ مزید سید علی ہمدانی کے شیعہ ہونے کیلئے دیکھیں ۔ الذریعہ جلد نمبر1صفحہ ۲۳۳، جلد نمبر ۹/۲صفحہ ۵۶، مجالس المومنین، صفحہ۲ /۱۳۸،۱۳۹ فردوس الخبار ، دیلمی دیلمی، جہاں تک دیلمی کا ذکر ہے یہ عالی شیعہ ہے، حوالہ الذریعہ جلد 1، ۳۱۹ اور پھر حدیث مذکورہ کی کوئی سند نہیں بیان کی گئی ہے ۔بغیر سند معتبر کے روایت قبول نہیں ہوتی۔پھر سند صحیح ثقہ کے ساتھ حدیث نور ہم سے سنئے۔ مصنف عبد الرزاق الجزء المفقود صفحہ51تا 55پر حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث نور مروی ہے، صفحہ53پر الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نور محمد ﷺ کے اپنے سامنے دیکھنے کا حکم فرمایا نور محمد ﷺاپنے سامنے اورپیچھے، اور دائیں او ر بائیں ایک ایک نور دیکھا، اور وہ نور، ابو بکر (صدیق)، عمر(فاروق) عثمان (غنی) اور علی (المرتضیٰ ) رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور تھا۔ اس کی سند یہ ہے کہ عبد الرزاق عن معمر، عن الزھری، عن السائب بن یزیدقال۔۔۔۔۔۔۔۔ (الجز ء المفقود من المصنف عبد الرزاق ، مطبوعہ لبنان) تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس نازل شدہ نور سے مراد ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عثمان غنی کا نور ہے یا کٹھا حضرات خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور مراد ہے۔جو کہ شیعہ کو کسی طرح بھی قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ درست ہے یعنی اگر نور کی روایت بفرض تقدیر ثابت بھی ہوتی (جو کہ ثابت بھی نہیں ہے) تو پھر بھی اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ معاذ اللہ اس سے مرادحضرت علی رضی اللہ عنہ کا نور ہے۔ اس تمام گفتگو سے واقع ہو گیا کہ سورہ تغابن کی آیت نمبر8 میں نازل شدہ نور سے مراد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ ہر گز مراد نہیں ہیں نہ ہی کوئی آدمی بلکہ اس سے مراد فقط قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ سوال نمبر3۔ سورہ الاعراف، آیت نمبر 157، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نوران کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔ پس قرآن پاک کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ نور نبی ﷺ کے ساتھ نازل ہوا پس وہ نور علی ہے۔ (3-a)صحیح بخاری، جلد نمبر2، باب فضائل اصحاب ؓ، النبی ﷺ، حدیث3 & 9 (3- صحیح مسلم ، باب من فضائل علی ، طبعہ مصر (3-c)جامع ترمذی، صفحہ نمبر218، مطبوعہ نول کشور (3-d)مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر3، حدیث نمبر5826 (3-e)مسند احمد بن حنبل ؒ، جلد اوّل، صفحہ نمبر179 اے علی تیری منزلت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی۔ یعنی علی ، حضرت محمد ﷺ کے وصی برحق ہیں اور ایمان بزریہ ء کلمات لانا ضروری ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جواب ۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 157کہ یہ کہنا کہ اس آیت میں بھی جو نور حضور ﷺ کے ساتھ نازل ہوا ہے وہ نور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہے خالص جھوٹ اور تحریف معنوی ہے۔ بلکہ اس نور سے مراد بھی قرآن مجید فرقان حمید ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔ حوالاجات: تفسیر خزائن العرفان صفحہ 279حاشیہ302اس نور سے مراد قرآن شریف ہے جس سے مومن کا دل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں، اورعلم یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔ اور تفسیر ابن عباس صفحہ181پر ہے ، واتبعوا النور۔ (القرآن)یعنی اس آیت میں بھی نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ اور تفسیر مظہری صفحہ نمبر418/3پر ہے یعنی القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ تفسیر معالم التنزیل صفحہ206/2 پر ہے کہ یعنی القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ تفسیر ابن کثیر صفحہ نمبر260/2پر ہے یعنی القرآن، کہ اس نور سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی فرمایا ہے۔ تفسیر مدارک التنزیل صفحہ555پر ہے ، ای القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ ان تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر157میں جس نور کا ذکر ہے وہ قرآن مجید ہے۔ یہ ہے کہ بلا شبہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس حدیث سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا آپ ﷺ کا وصی بالخلافت ہونا قطعاًباطل ہے۔ پہلے مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ البدایہ والنھایہ ، صفحہ نمبر7/5پر مسند ابو داوٗد طیالسی کے حوالے سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جب حضرت علی المرتضیٰ کو غزوہ تبوک کے وقت گھر پر ہی ٹھہرنے کو کہا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیں گے( جو بوجہ بچے اور عورتیں ہونے کے جہاد سے مستثنیٰ ہیں) یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تو یہ پسند نہیں کرتا کہ تیری حیثیت میرے نزدیک ویسی ہی ہو جائے جیسے ہارون ؑ کی موسیٰ ؑ کے ساتھ تھی(یعنی طور پر جاتے ہوئے انہیں اپنا نائب بنا گئے تھے) لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہ ہے مکمل حدیث کوئی بھی ذی ہوش اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وصی با الخلافت بعد الوفات رسول ﷺ ہونا نہ ثابت کر سکتا ہے اور نہ ہی ثابت ہونا ممکن ہے۔ فقط اتنی بات میں تشبیہ ہے کہ جس طرح موسیٰ ؑ نے طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو قوم کا نگہبان مقرر کیا اسی طرح آپ ﷺ نے غزوہ تبوک پر جاتے ہوئے حضرت علی المرتضیٰ کو مدینہ منورہ میں بچوں اور عورتوں کا نگہبان مقرر فرمایا۔ سوال نمبر4۔ سورۃالاعراف آیت نمبر121 to 122 اور کہنے لگے کہ ہم جہاں کے پرور دگار پر ایما ن لائے یعنی موسیٰ اور ہارون کے پرورد گارپر پس قرآن مجید کی یہ آیت بھی واضح کرتی ہے کہ پہلے نبیوں کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کے لیے نبی اور وصی دونوں پر ایمان لانا ضروری و واجب تھا تو نبیوں کے سردار پر ایمان وصی ء رسول ﷺ پر ایمان لائے بغیر کیسے ممکن ہے۔؟ جواب: حضرت موسیٰ ؑکے بعد حضرت ہارون ہر گز آپ ؑ کے وصی اور خلیفہ نہیں تھے کیونکہ حضرت ہارون ؑ کا انتقال ہی حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی میں ہو گیا تھا( نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آپ ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون تھے۔ شیعہ حضرات کے معتبر تفسیر فرات الکوفی صفحہ65مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف۔ (سورہ ھود) جناب سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی، حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے جب کہ ان کے پاس کعب الاخبار بھی موجود تھے، جو تورات اور کتب انبیاء کرام علیھم السلام کے عالم تھے ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے کعب بنی اسرائیل میںحضرت موسیٰ ؑ کے بعدسب سے بڑا عالم کون تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ سلام کے بعد بنی اسرائیل میںسب سے بڑے عالم جناب یوشع بن نون تھے اور یہی موسیٰ ؑ کے بعد ان کے وصی تھے۔ اصل عربی عبارت یہ ہے، کان اعلم بنی اسرائیل بعد موسیٰ، یوشی بن نون وکان وصی موسیٰ من بعدہ، تفسیر فرات الکوفی، مطبوعہ ، نجف اشرف صفحہ 65، صاحب تفسیر فرات الکوفی شیعہ نے ، اس مقام مذکورہ سے تھوڑاسا آگے پھر یہ لکھا ہے کہ ، فان موسیٰ لما توفیٰ اوصی الیٰ یوشیٰ بن نو ن علیہ السلام یعنی جب موسیٰ ؑ کے وصال کا وقت ہوا تو آپ نے جناب یوشی بن نون ؑ کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔ شیعہ تفسیر سے واضح ہو گیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے نہ کہ حضرت ہارون ؑ ۔ کیونکہ ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ سے پہلے وفات پا گئے تھے پھر وہ موسیٰ ؑ کے بعد خلیفہ کیسے ہوئے۔ واضح ہو گیا کہ اس حدیث کا خلافت بلا فصل یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کے وصی ہونے کے متعلق اس حدیث کا دور سے بھی تعلق نہیں ہے۔تو جب آپ کا وصی خلیفہ بلا فصل ہونا ہی ثابت نہیں توپھر سورۃ الاعراف کی آیت نمبر121-122سے استدلال کا کیامعنی؟ (فاعتبروا یا اولی الابصار) سوال نمبر5۔ اے رسول ﷺ پوچھو ا ن سے کہ نبی کیسے رسول بنے،القرآن تفسیر غرید القرآن، جلد نمبر6، صفحہ نمبر39 نبی کریم ﷺ جب معراج شریف پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء کرام کو اکٹھے کیا اور پوچھا کہ تم نبی کیسے بنے تو سب نے یک مشت ہو کر کہا کہ ہم نے جب تک اللہ کہ وحدانیت آپ کی رسالت اور علی کی ولایت کا اقرار نہ کیا ہم نبی نہیں بنائے گئے، جب تک تین شہادتوں کا اقرار نہ کریں اس وقت تک نبی نہیں بنتے تو ایک گنہگار انسان مومن بن سکتا ہے؟ اگر ہم دوبارہ کلمہ کے متعلق قرآن مجید سے پوچھیں کہ کلمہ کتنی گواہیوں پر مشتمل ہے تو قرآن مجید میں ہمیں ،شھادتین ،کا لفظ نہیں ملتا جس کا مطلب دو گواہیاں ہیں اور پورے قرآن پاک میں لفظ ، شھاد، ملتا ہے جس کا عربی میں تین یا تین سے زیادہ شہادتیں مطلب بنتا ہے۔ جواب:۔ شیعہ صاحب کا یہ کہنا اے رسول پوچھو ان سے کہ نبی کیسے بنے رسول کیسے بنے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ البتہ شیعہ صاحب کے امام غائب کے پاس جو سترہ ہزار اآیات والا قرآن ہے شاید اس میں یہ من گھڑت آیت موجود ہو۔ یہ بے حیائی اور بے دینی کی آخری حد ہے کہ اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے معاذ اللہ غیر آیت کے آیت قرآن بنا کر پیش کر دیا جائے۔ تو جب یہ آیت ہی قرآن مجید کی نہیں ہے تو پھر اس کے بعد شیعہ صاحب نے جو ایک من گھڑت قصہ بیان کیا ہے وہ خود بخو د ہی باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ آیت قرآن مجید میں موجود ہے۔ واسئل من ارسلنا من قبلک من ارسلنا اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون ترجمہ: اے محبوب پوچھ لو ان رسولوں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے کہ رحمٰن کے بغیرکسی اور کی عبادت کا بھی حکم دیا ہے۔ تو شب معراج جب جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ سے یہ کہا تو حضور پر نور علی نور محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نہیں پوچھتا کیونکہ مجھے کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے، تو اس آیت میں توحید الٰہی کا بیان ہے ، شیعہ صاحب کا باطل موقف اس آیت سے بھی کسی طرح ثابت نہیںہے۔ سوال نمبر6۔ سورۃ المعراج، آیت نمبر33تا 35 اور جو لوگ شہادات(تین یا زائد) پر قائم رہنے والے ہیں اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جنتوں میں حفاظت پانے والے ہوں گے۔ جواب:۔ شیعہ صاحب نے لکھا ہے کہ سورۃ المعراج( جب کہ یہ غلط ہے اصل نام سورۃ المعارج ہے) کی آیت33تا 35میں لکھا ہے کہ اس میں شھادات کا لفظ ہے جو کہ تین گواہیوں پر دلالت کرتاہے اور باطل استدلال کیا ہے کہ جب تک نبیوں نے تیسری گواہی یعنی ولایت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی نہ دی وہ نبی نہ بنے۔(معاذ اللہ) شیعہ صاحب کا یہ استدلال گزشتہ سطور میں باطل ثابت کر دیااور اس کی بنیاد بھی وہی پہلا باطل استدلال ہے جب اصل دلیل ہی ثابت نہ ہو سکی توپھر اس پر مزید عمارت کیسے استوار ہو سکتی ہے۔ شیعہ صاحب جب تک معنوی تحریف نہ کریں ان کا باطل موقف ثابت ہی نہیں ہو سکتا اس لیے بار بار بے چارے معنوی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سچ کہا کسی نے : کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان پتی نے کنبہ جوڑا یہ لفط مفرد ہو یا جمع کا شہادات ہو، تو اس سے ولایت علی ؓ کا نبیوں کیلئے اقرار کیسے ثابت ہو گیا۔ من مافی تفسیر یعنی تفسیر بالرائے کرنا کفر ہے جو کہ شیعہ صاحب کا ہی نصیب ہے۔اب ان آیات کا صحیح معنی واضح کیا جاتا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان، حاشیہ نمبر29یعنی صدق و انصاف کے ساتھ نہ اس میں رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں ، نہ کسی صاحب حق کا تلف حق گوارا کرتے ہیں۔ تفسیر ابن عباس میں ہے کہ ، عند الحکام اذا دعوا ولا یکتمونھا،صفحہ 615 یعنی جب گوہوں کی گواہی کی ضرورت ہو اور انہیں بلایا جائے تو وہ اس گواہی کو چھپاتے نہیں، بلکہ حکام کے سامنے گواہی دیتے ہیں۔ یعنی مضمون۔ تفسیر مظہری صفحہ68/10 تفسیر ابن کیثیر422/4، تفسیر روح المعانی صفحہ109/15، تفسیر ابن وھب، صفحہ438 وغیرہ میں بالفاظ مقاربہ موجود ہے۔مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہے کہ شیعہ کے باطل موقف کو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ ان آیات میں شرعی احکام کا بیان ہے۔ سوال نمبر7۔ کتاب ار جح المطالب، مولوی عبد اللہ بسمل۔ نبی پاک ﷺ جب معراج سے واپس تشریف لائے تو اصحاب ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے عرش پر جو کلمہ جنت سے دروازوں پر لکھا ہو پایا کیا آپ جاننا چاہو گے؟ سب نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد حبیب خدا ہیں، علی اللہ کے ولی ہیں، فاطمہ کنیز خدا ہیں،حسنین صفواۃ اللہ ہیں ان کے دشمنان پر اللہ کی لعنت۔ کیا جنت کے طب گار جنت میں کلمہ شھادا پر دل و زبان سے ایمان لائے بنا جا سکتے ہیں؟ جواب:۔ کتاب ارجح المطالب مصنف، عبید اللہ امرتسری: پہلی دلیل: ارجع المطالب کے مصنف مولوی عبید اللہ امرتسری کا اپنی زبان سے اپنے شیعہ ہونے کا اقرار،ہمارے نزدیک سب شیخین نہایت امرتشیع ہے ہم اپنے امامیہ مذہب کے ساتھ ہر گز اس میں اتفاق نہیں کر سکتے ۔ اس عبارت سے واضح ہو ا کہ مولوی عبید اللہ امرتسری پکا امامیہ شیعہ ہے۔ دوسری دلیل: ساری کتاب اس نے شیعہ کتب کے حوالوں سے لکھی ہے مثلاًفوائد السمطین ، تذ کرۃ الخواص الامہ، ینابیع المودۃ، المناقب للخوارزی، مروج الذہب، کفایۃ المطالب ابن حدید وغیرہ۔ ارجح المطالب کتاب کے کچھ حوالے:۔ پہلا حوالہ :۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر معصوم نہیں تھے، بوجہ المجتہد ان سے فدک کے معاملے میں خطا فی الاجتہاد واقع ہو ئی ہے۔ سیر ت شیخین،ارجح المطالب، صفحہ نمبر۷۹۵ دوسرا حوالہ:۔ عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ علی خیر البشر من ابی فتد کفر اخرجہ ابن مرء دیہ۔ ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺفرماتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ خیر البشر ہیں، جس نے انکار کیا وہ کافر ہوا۔ حوالہ: ارجح المطالب صفحہ۸۶۰ وضاحت: ابن مردویہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان تین چار صدیوں کا طویل زمانہ ہے ، کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺہیں اور ابن مردویہ نے۴۱۰ھ میں انتقال کیا۔ صاف واضح ہے کہ ان کی ملاقات نہ ہوئی لہٰذا کئی واسطوں سے یہ روایت ابن مردویہ تک پہنچی ہو گی وہ واسطے کیا ہیں اورکتنے اور کیسے ہیں کوئی علم نہیں،عبارت کی دیکھیں کفر تک پہنچا دیا ہے ۔ یہ کتاب شیعہ حضرات کی ہے جو کہ ہمارے لیے حجت نہیں، پھر اس روایت کی سند نہیں بیان کی تا کہ سند کا حال واضح ہو جاتا اور بلا سند کوئی روایت کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔ پھر اگر بفرض محال والتقدیر اگر اس روایت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کو خلافت بلا فصل، یا وصی رسول ہونے کے متعلق کیا واسطہ ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نہ صرف ولی اللہ ہیں بلکہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک تو آپ سید الاولیاء ہیں کہ سارے جہان بھر کے اولیاء ان کے غلام ہیں مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ آپ وصی رسول اور خلیفۃ بلا فصل ہیں (معاذ اللہ) مختلف کتب حدیث میں کئی احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا ہے آسمانوں پر جنت کی اشیاء وغیرہ پرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام آپ ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ اور کئی روایات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نام کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی ؒ نے خصائص الکبریٰ صفحہ 13/1پر کئی روایات بیان کی ہیں ، پہلی روایت : ابن عساکر کے حوالے سے جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ، نبی پاک ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ، لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکر صدیق عمر فاروق عثمان ذوالنورین۔ دوسری روایت۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی اور طبرانی کی اوسط، اور ابن عساکر اور حسن بن عرفہ، کے جزء کے حوالے سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں جس آسمان سے بھی گزرا اس پر یہ لکھا ہوا پایا، محمد الرسول اللہ وابو بکر الصدیق خلفی تیسری روایت : دارقطنی کی افراد، اور خطیب اور ابن عساکر کے حوالے سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات عرش پر میں نے سفید نور لکھا ہوا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکرالصدیق عمرالفاروق، مواھب الدنیہ اور شرح زرقانی وغیر ہ میں اور بھی روایات ہیں جن میں نبی پاک ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نام بھی ہیں۔ بھلا ان روایات کو وصی رسول ہونے اور خلیفہ بلافصل ہونے سے کیا واسطہ ہے ۔ ہاں البتہ یہ ایک قسم کی فضیلت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے۔ فقط مذکورہ بالا سطور سے واضح ہے کہ شیعہ صاحب کا اس سے استدلال بھی باطل اور سو فیصد ناکافی۔ سوال نمبر8۔ جواھر خمسہ، صفحہ نمبر473، شیخ غوث، (چور پکڑنے کا طریقہ) امام اہل سنت شیخ غوث ؒ نے چور پکڑنے کا عمل لکھا اور رات کو پڑھنے سے صبح چور کا پتہ چل جاتا ہے عمل مندرجہ ذیل ہے۔ اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ، نبی پاک ﷺ نے جو قبر کے تین سوال بتائے تو فرمایا کہ وہ پہلا سوال ہو گا کہ تمھارا رب کون ہے؟ دوسرا سوال ہو گا کہ تمھارا نبی کون ہے؟اور تیسرا سوال ہو گا کہ تمھارا امام کون ہے؟ جو زبان دنیا میں لا الہ الا اللہ پڑھتی رہی ہوگی وہ یہی بولے گی، جو زبان محمد الرسول اللہ پڑھتی رہی ہو گی وہ یہی کہے گی اور جو زبان دنیا میں علی ولی اللہ ،پڑھتی رہی ہو گی وہ بھی یہی جواب دے گی اور ایمان کامل کے صدقے عذاب قبر سے قیامت تک محفوظ رہے گی(بے شک) اور شیخ علی معزوقی ؒکی مندرجہ ذیل کتا ب کا مطالعہ کرنے سے تمام شکوک شبھات ختم ہو جاتے ہیں، جواب: شیعہ صاحب نے لکھا ہے چور پکڑنے کا طریقہ ، پھر عملیات کی ایک کتاب جوہر خمسہ کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس عمل میں یہ عبارت مذکور ہے،اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ، جواہر خمسہ عملیات کی کتاب ہے اس سے کلمہ شریف کے ساتھ علی ولی اللہ کے الفاظ نقل کرنا کیا یہ اس کی دلیل ہے کہ کلمہ شریف میںعلی ولی اللہ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ہر گز نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ شیعہ صاحب جب اپنا کلمہ قرآن مجید سے احادیث نبویہ سے آثار صحابہ سے ثابت نہ کر سکے تو عملیات و وظائف کی دنیا میں کو د پڑے۔ اور ایک عمل ذکر کر دیا جب کہ عاملین پر یہ بات واضح ہے کہ عملیات کی کئی کتب میں ہر قسم کے عملیات ہوتے ہیں۔ وہ فقط عملیات کی حد تک ہی ہوتے ہیں نہ کہ شرعی حجت۔ یہ مذہب بھی کیسا یتیم مذہب ہے کہ نہ قرآن سے ثابت نہ حدیث سے ثابت اب دلیل کے طور پر عملیات کی کتاب جواہر خمسہ پیش کر دی ہے۔ یہ ہے اس مذہب کی حقیقت۔ گزشتہ سطور میں بھی یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہنہ صرف کہ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں بلکہ آپ سید الاولیاء ہیں، مگر اس سے یہ کب ثابت ہو ا کہ یہ الفاط کلمہ شریف کا حصہ ہیں۔ (معاذ اللہ) سوال نمبر 9: کتاب الازمنہ والامکینہ، الشیخ ابی علی احمد بن محمد الحسن المرزرقی جب مولا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا نے وفات پائی تو نبی پاک ﷺ نے انہیں قبر مبارک میں اتارنے کے بعد تلقین پڑھی تھوڑی دیر بیٹھے اور کہنے لگے کہ وہ تیرا بیٹا ہے، وہ تیرا بیٹا ہے، اصحاب ؓ نے جب وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میںنے دیکھاکہ فاطمہ بنت اسد کو حوریں آئیں اور اپنے ساتھ لے گئیں اتنی دیر میںمبشر و بشیر آئے اور سوال جواب کرنے لگے پہلے رب پوچھا، پھر نبی پوچھا جب ولی پوچھا آپ سوچ میں پڑ گئیں کہ کونسا نام لوں تو میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ وہ تیر ا بیٹا ہے وہ تیرا بیٹا ہے تب آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ، ابن علی ولی اللہ،کیا جب مولا علی رضی اللہ عنہ کی اپنی ماں قبر علی ولی اللہ کا جواب دئیے بغیر جنت میں نہیں جا سکتیں تو کیا انسان نبی پاک ﷺ کاامتی ہو کر جنت میں جا سکتا ہے جسکے ہر دروازے پر شہادت کا کلمہ لکھا ہے؟ جواب:۔ کتاب الازمنہ والامکینہ، کی عبارت نقل کی گئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کا وصال قبر میں سرکار ﷺ نے تلقین پڑھی، ان النبی ﷺ تولی دفن فاطمہ بنت اسد وکان اشعر : ھا قمیصالۃ فسمع وھویقول ابنک فسل علیہ سید فقال امھا سئلت عن ربھا فاجابت وعن بنھیا فاجابت وعن امامھا فلجلجت ، مقلت ابنک ابنک۔کتاب الازمنہ والامکینہ صفحہ ۴۷۳ اسی عبارت کے نیچے صفے پر لکھا ہو ا ہے، الظاہران ھٰذہ الروایۃ من کتب الشیعۃ الامامیہ ۔ حوالہ کتاب الازمنہ والامکینہ، صفحہ۴۷۳ ثابت ہوا کہ یہ عبارت شیعہ مسلک کی ہے اہلسنت کی نہیں۔ شیعہ صاحب نے کتاب الأزمنة والأمكنةکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ قبر میں تین سوال ہونگے، تیرا رب کون ہے ، تیرا نبی کون ہے اور تیرا امام کون ہے۔ اور شیعہ صاحب نے امام سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قبر میں سوال ہونا خالص جھوٹ ہے جو کہ ایجاد شیعہ ہے۔ پھر فقط امام سے خود ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لینا خالص کذ ب بیانی ہے۔ اس چیز کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بندہ نا چیز پہلے گزارش کر چکا ہے کہ جب تک شیعہ صاحب تحریف معنوی نہ کریں گے ہر گز ان کا موقف ثابت نہیں ہو سکتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں تین سوال ہوتے ہیں، تیرا رب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق کہ تو ان کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیے۔ جامع ترمذی، بہیقی، مشکوٰۃبروایۃ ترمذی، مسند امام احمد عن البراء بن عازب، ابو داوٗد، مشکوٰۃباب عذاب القبر صفحہ25۔ ان تمام کتب حدیث میں روایات صحیحہ سے تین سوال ثابت ہیں۔ تیر ارب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔کسی بھی ایک صحیح روایت میں یہ موجود نہیں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی قبر میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ خالص شیطان کی مکاری ہے جو اس نے شیعہ صاحب کو عطاکی ہے۔ (العیاذ با للہ تعالیٰ) یہ ہے کہ خالص جھوٹ ہے اس کی کوئی اصل نہیں کسی بھی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میںقبر میں فرشتے سوال کرتے ہیں۔ یہ کہانی خالصتاً ایجاد شیعہ ہے۔ جس کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حضور ﷺکی ذات اقدس پر جھوٹ بولا گیا ہے اور آپ ﷺ پر عمداً جھوٹ بولنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ متواتر حدیث میں ہے۔ تمام کتب حدیث میں سوالات کے بارے میں تین سوال مذکور ہیں۔رب تعالیٰ کے متعلق، دین کے متعلق، اور آقا محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے متعلق۔ پھر تمام کتب حدیث میں بھی سوالات کی حدیث مفصل مذکور ہے اس میں یہی مذکور ہے کہ جب تم میت کو دفن کر کے لوٹتے ہو تو قبر میں فرشتے آتے ہیں اور سوالات کرتے ہیں۔ جب کہ شیعہ صاحب کی من گھڑت روایت میں ذکر ہے کہ ابھی قبر میں اتارا ہی تھا ، حضور ﷺ ابھی قبر کے اندر ہی تشریف فرما تھے اور فرشتوں نے سوالات شروع کر دیئے۔جبکہ احا دیث صحیحہ اس کے مخالف ہیں ان میں ہے کہ جب تم دفن کر کے واپس ہوتے ہو ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ سوالات قبر میں دفن کے بعد واقع ہوتے ہیں، یہ بات بھی اس کے بطلان پر گواہ ہے۔ اور صحیح روایت جو کہ امام طبرانی نے طبرانی کیبر صفحہ351/24پر روایت فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ جو کہ ایجاد شیعہ ہیں، نہیں ہیں۔بلکہ آپ ﷺ کا قبر میں لیٹنا اور ان کی مغفرت کی دعا مانگنا ثابت ہے۔ فقط دعا کے الفاظ یہ ہیں۔ اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد وسع علیھا مدخلھابحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی فانک ارحم الراحمین۔ ترجمہ: اے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور ان کی قبر کو وسیع فرما بطفیل اپنے نبی اکرم ﷺ اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام ؑ کے کیونکہ تو ہی ارحم الراحمین ہے۔ یہ ہے وہ روایت معتبر،جس میں من گھڑت خود ساختہ الفاظ کا ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ خالص ایجاد شیعہ ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان تمام سوالات اور جوابات سے یہ بات واضح ہے کہ شیعہ مذہب باطل ہے اور خود ساختہ مذہب ہے۔ اور اہلسنت وجماعت کے عقائد بالکل قرآن سنت کے عین مطابق ہیں۔ یہی مذہب ہے صحابہ کرام ، اہل بیت کرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء کرام اور تمام اہل ایمان کا اور ان تمام کا نام اہل سنت وجماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی ذات اقدس شیطان کے شر سے پناہ دینے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور گمراہوں کے ہدایت عطا کرے آمین۔ بجاہ سید المرسلین ﷺ یہ چند سطور ہیں جو کہ شیعہ کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے خالص اپنے لیے بنائے اور فقیر راقم الحروف کیلئے اور اسکے اساتذہ و مشائخ کیلئے باعث مغفرت و باعث درجات بلندی فرمائے، آمین۔ فقیر و بندہ :
  7. ما شا اللہ ابھی تک پرانے مناظرہ جھنگ کا پیٹ کا درد بھی ٹیک نہیں ہوا اور نیا ٹیکا بھی لگنے لگا ہے
  8. Thanvi Book Al Takashf K Scan Refrences اتکشف اشرف علی تھانوی جس میں اہل سنت کی تائید میں کافی حوالاجات موجود ہیں
  9. al takashf by ashraf ali thanvi some scans اتکشف اشرف علی تھانوی کی کتاب کے کچھ سکین حوالہ جات
  10. AshiqeRasool

    Tehreek Insaf K Maqasid Aur Pakistan

    TEHREEK INSAF K AZAMIN AUR MAQASID KEA HAIN? PAKSITAN MAIN YAHOODION NAY TEHREEK INSAF BANANAY KA MALB YEH HAI K QANUN E NAMOOS RISALAT AUR KHATM E NUBUWWAT K QANUN JO BY INSAFI PE MABNI QAWANEEN HAIN UN KY KHILAF QADIANEO, EEESAYO, GUSTAKHO KO BRABER K HUQUUQ DILANA AUR GUSTAKHON SE SAZAE MOT KHATAM KRANA. PROOFS: MOVIE NO 1 – MOVIE NO 2 – APPEAL IMRAN KHAN ka sath DYNY SAY pehle is ne Mumtaz hussain qadri ko qatil kaha aor ab kehtta he k - Public Meeting Main Naat Sunne se log Bor hote hain ( Astaghfirullah ) Imran Khan - Laatnat PTI per . Hum aisi tabdeeli aur sinami pe lanat baijty hain jo Nabi Pak sallallaaho alyhi wasallam ki shan m gustakhi kre. Jo sunni ghairat mand he is ko her jaga phela de.apni wall,groups aor pages her jaga per.is gustakh yahudi ajent ko benaqab kar do. PROOFS ABOUT IMRAN KHAN : 1. What imran said - ;A. Ghazi mumtaz qadri k iqdam ko Intiha pasandi kaha. B. salman taseer ny khususi tor pe kaha k imran bhi mere sath hy. C. imran khan ny kaha qanun namoos e risalat sakht qanoon hy. D. blasphemy law be-qusur logo ko phansata hay. Iski implementation galat hay. E. Imran khan was also against Pakistani Namus e risalat Qanun. Imran k mutabiq qadianio ka is m phans jana galat h. Ye inteha pasandana qanun h. F. YE KEHTA HY K BLASPHEMY LAW JO ANGRAIZ NY BNAYA THA WO WAPAS LAYA JAE Q K US MAIN MOT KI SAZA NHE THEE…. ANGRAIZ K QANOON KA MAQSAD AMAN PHAILANA THA JB K QANUN E NAMOOS E RISALAT AMAN KO KHARAB KAR RAHA HY…AUR INTEHA PASANDI KO FAROGH DY RAHA HY. 7. Imran Khan said People Get Bored while Listening to Naat ( Astaghfirullah ) - 8. 1974 k law m qadiani ko muslim se mumtaz krna na insafi hy aur PTI jb power m ae to sb ko yaksan huquq milain gy. Weak yani qadianeo k huquq braber hon gy. ANY LAW (1974 , KHATM E NUBBUWAT, AND QANUN NAMOOS RISALAT) WHICH DISCRIMINATES HUMAN BEINGS (BETWEEN MUSLIM NON MUSLIM QADIANI) IS UNJUST AND PTI WILL COME TO REMOVE UNJUSTICE AND WILL PROTECT WEAK (QADIANI) FROM STRONG (MUSLIMS). VIDEO NO 5 - 8. India interview main kaha pak main qatil hero bn jata hay. 9. IMRAN SHARABI AUR ZANI HY, ISKI BV NY ISKO TALAQ DI, BV MUSLMAN HUE PHIR KAFIR HO GAE…BV B MURTAD HY. 10. Imran Khan (Shaitan Khan) wished Merry Cristmas or happy Diwali (which is Haraam). Chairman of Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) Imran Khan on Wednesday wished Hindus a happy Diwali on the occasion of the religious festival. Reference “PTI believes in forming relationships with all the religious parties on the basis of equality and every citizen should be treated equally despite their ethnic or lingual origin” said a statement issued from the PTI central secretariat. The statement also said that PTI will put these norms in practice when it enters the power corridors. 11. IMRAN KHAN HINDU, MUSLIM, QADIANI SB KO BRABER SAMJHTA HY AUR SB KO BRABER HUQOOQ DAINA CHAHTA HY. 12. IMRAN KHAN NY QADIANEO SE VOTE KI BHEEK MANGI AUR KAHA K HUM ASSEMBLY MAIN AA KAR YE QADIANEO KO NON MUSLIM KEHNY KA QANOON KHATAM KAR DAIN GY AUR UNKA JAEZ HAQ JO MUSALMANO NY CHEEN LEA HY WO WAPAS DILAEN GY. VIDEO NO 6 - 13. BLASPHEMY LAW GALAT ISTIMAL HOTA HY AUR BY QUSUR LOG PKRY JATY HAIN AUR BAICHARON KO MUSHKIL SE GUZARNA PARTA HY. VIDEO NO 8 14. A. ASIA BEQUSUR HY B. 2. SALMAN TASEER AUR IMRAN KLHAN DONO KEHTY HAIN HAIN HUZUR KI SHAN MAIN KOE GUSTAKHI KAR HE NHE SAKTA TO QANUN E NAMOOS E RISALAT KI ZRURAT HI KHATAM HO JATI HY…..YE SHAITAN KA AK BHT BARA WAR HY………..HUZUR SALLALLAAHO ALYHI WASALLAM KI SHAM MAIN GUSTAKHIAN AJ TK HOTI RAHI HAIN AUR YEB QANUN ISI LEA NABI PAK SALLALLAAHO ALYHI WASALLAM NY BNAYA . PROOF K LEAY GUSTAKH VIDEO VIDEO HY INNOCENCE OF MUSLIMS….KEA YE BHI GUSTAKHI NHE. C. SALMAN TASEER NY KAHA “IMRAN KHAN NY QANUN NAMUS RISALAT MAIN TAMEEM KA KAHA” D. QANUN E NAMOOS E RISALATMAIN NUQSAN BARA HY. 15. QADIANI KO HAQ NA DAINA JUNGLE KA QANUN HY. PTI CHAHTI HY TMAM HINDU AUR CHRISTIAN KA IMAN ROSHAN HO AUR ACHY HINDU AUR EESAE BNAIN. HINDU AUR SARY DEEN YEH KEHTY HAIN K BARA INSAN WO HY JO KAMZORE (QADIANI AUR EESAE) KO ZALIM (MUSLIMS ) K PUNJY SE NIKALY. YE HAR DEEN KI BUNYAD HAY MASLAN HINDU. AUR ISI MAIN AP PEHCHAN JATY HAIN K ASLI DEEN KIKA HAY MASLAN HIDU KA AUR DEEN KO FOOTBALL KIS NY BNAYA HY JESE MULLAON NY FORCED CONVERSION KRWA K. HUMARA DEEN KEHTA HY K KISI INSAN QADIANI ETC KO KISI PE CHOTA BARA NA KAHO. JO CHOTA BARA KAHAY GA WO ZULM KAR RAHA HY. HAMARI HUKUMAT MAIN SB EESAE HUNDU YAHOODI MAIN KOE IMTIAZ NHE KEA JAE GA, SB KO BRABER KA SHEHRI SAMJGHAIN GY. MOVIE NO 10 – NOW MUSTLIMS STAY AWAY FROM PTI AND THIER NAPAK GOALS TOWARD NAMOOS E RISALAT
  11. رمضان میں کئی امراض سے جان چھڑانا آسان ہے روزے رکھنے سے کچھ افراد قبض کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ کو گیس کی شکایت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ سحری و افطاری میں بہت زیادہ مسالے دار چٹ پٹے کھانے ہیں۔ سحری اور افطاری کے بعد پانی کا استعمال بہت کم کرنے والوں کو بھی یہ شکایت رہتی ہے آج کی جدید سائنس اس بات کی تصدیق کررہی ہے کہ رمضان میں، روزے رکھنے والے افراد کے جسم کی اوورہالنگ ہو جاتی ہے اور بارہ مہینوں میں سے ایک مہینے روزے کی پابندی کرنے سے جسم کے اندر کے تمام نظام ایک طرح سے نئے ہو جاتے ہیں۔ روزے کے اثرات کے حوالے سے مغربی ممالک میں، جو تحقیقات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق،جوروزے دار، سحری و افطاری میں متوازن غذا اور افطار میںپیٹ بھرکر کھانے سے بچتے ہیں، ذہنی و جسمانی طور پر روزے کے تمام فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔چناں چہ موجودہ دور کے مغربی ماہرینِ صحت، ہر طرح کے مرض کے علاج کے لیے اب فاقہ تجویز کر رہے ہیں، جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ روزہ رکھنا انسانی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔ روزے کی حالت میں پیشاب کی مقدار، خون اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج، سب معمول کی حدود میں رہتا ہے، البتہ اس مہینے میں روزے رکھنے والے افراد کے وزن میں خاصی کمی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ غذا قدرے کم کھائی جائے، مگر رمضان المبارک میںعام طور پر مُرغن اور گوشت والے کھانوں کا رواج ہو چلا ہے، اس لیے اکثر اوقات وزن بڑھنے کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ دل کے مریضوں میں ایسے افراد، جو افطار میں مُرغن اور ثقیل اشیاء استعمال کرتے ہیں، ان کے دل میں درد کی شکایت اور جسمانی تھکن بڑھ سکتی ہے، چناںچہ، دل و دماغ، دردِ گُردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں۔ ایسے افراد کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے معالج سے مشورہ کر لیں۔ اسی طرح، دمے کے مریض، جن کا مرض معمولی نوعیت کا نہ ہو اور انہیں تکلیف کی صورت میں سانس کے ساتھ اندر جانے والی ادویہ( انہیلر) استعمال کرنا پڑتی ہوں، روزہ رکھنے کی صورت میں معالج کے مشورے سے دیرپا اثر والی ادویہ، بعداز افطار اور قبل از سحری استعمال کر کے روزے کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ جو افراد مِرگی، بُلند فشار خون، ہارمونل اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں یا خُون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے معالجین طویل الاثر ادویہ تجویز کر کے روزے رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح، جن افراد کے گُردوں کے فعل میں کمی آ گئی ہو ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی لاحق ہو سکتی ہے یا جن کے گُردے خراب ہو چکے ہوں اور ان کے خون کی ڈائی لیسس ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈائی لیسس کے وقفے میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہوتا ہے۔ ایسے افراد اگر افطاری کے وقت یا رات کو زیادہ کھا لیں، تو ان کا وزن بڑھ سکتاہے، جو نقصان دہ ہے، لہٰذا ایسے افراد بھی روزے نہ رکھیں ۔ البتہ وہ افراد، جن کا گُردہ تبدیل ہو چکا ہے اور وہ صحت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں، تو انہیں روزے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، لیکن وہ بھی اپنے معالج سے مشورہ کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں میں مُبتلا افراد روزے کی حالت میں سکون محسوس کرتے ہیں اور کئی قسم کے معمولی امراض سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ روزے رکھنے سے کچھ افراد قبض کا شکار ہو جاتے ہیں، بعدازاں بواسیر، فشر یا بدہضمی کی بھی شکایت ہو جاتی ہے اور کچھ کو گیس کی شکایت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ سحری و افطاری میں بہت زیادہ مسالے دار چٹ پٹے کھانے ہیں۔ اس کے علاوہ، سحری اور افطاری کے بعد پانی کا استعمال بہت کم کرنے والوں کو بھی یہ شکایت رہتی ہے۔ پھر وہ غذائیں، جن میں مناسب مقدار میں ریشہ شامل ہوتا ہے، استعمال نہ کرنے سے بھی قبض اور ہاضمے کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ رمضان میں چٹ پٹے کھانوں اور مرچ مسالے دار اشیا سے پرہیز کریں، افطاری اور سوتے وقت تک وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں اور ہمیشہ بے چھنے آٹے کی روٹی استعمال کریں۔ بہت زیادہ پسینہ آنا، کم زوری محسوس ہونا، تھکاوٹ و نقاہت، غنودگی، خصوصاًَ اس وقت، جب بیٹھنے یا لیٹنے کے بعد اٹھا جائے۔ اسی طرح، چہرے کی رنگت زردی مائل ہونا یا بہت زیادہ کمی سے بے ہوشی طاری ہونا، یہ وہ علامات ہیں، جو بلڈ پریشر کی کمی والے مختلف افراد روزے رکھنے کے دوران محسوس کرتے ہیں اور یہ علامات عموماً بعد از دوپہر محسوس ہوتی ہیں ۔ یہ علامات ایسے افراد میں زیادہ دیکھی جاتی ہیں، جو سیال اشیا (پانی یا جُوس وغیرہ) بہت کم یا نہ ہونے کے برابر استعمال کرتے ہیں، نمک نہ کھانا یا کم کھانا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ایسے افرادغصّے سے پرہیز کریں، پُرسکون رہنے کی کوشش کریںاورسحری و افطاری میں سیال اشیا اور نمک زیادہ استعمال کریں۔ روزے کی حالت میں عموماًََ کچھ افراد سردرد کی شکایت کرتے ہیں، یہ شکایت پورے سر یا آدھے سردرد کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ سردرد کے ساتھ ساتھ افطار سے کچھ دیر قبل متلی و قے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے، کیفین ملے مشروبات اور شراب نوشی کرنے والے افراد جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں ان اشیا کی طلب کی وجہ سے سردرد کی شکایت ہوتی ہے، نیند کی کمی کے سبب بھی سردرد لاحق ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگ بھوک برداشت نہیں کر پاتے او ر سحری میں بھی کچھ کھانے سے قاصر ہوتے ہیں، تو انہیں عموماً دوپہر کے بعد سے سردرد کی شکایت ہو جاتی ہے۔ایسے افراد کو کیفین ملے مشروبات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے کچھ افراد میں شدید کم زوری، تھکاوٹ، توجّہ مرکوز کرنے میں دُشواری، جسم میں کپکپاہٹ، کسی جسمانی کسرت کرنے کی نااہلی، سردرد اور دل کی دھڑکن کی تیزی جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں اور یہ تمام علامات خون میں شوگر کی کمی کی علامات کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسے افراد، جنہیں ذیابطیس کا عارضہ نہیں، وہ اگر سحری اور افطاری میں ایسی غذائیں استعمال کریں، جن میں بہت زیادہ مٹھاس ہو، تو عموماً ان علامات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سحری کے وقت بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹس استعمال کرنے سے بھی جسم میں شوگر لیول زیادہ ہو جاتا ہے اور انسولین اسے قابو کرنے کے لیے خارج ہونے لگتی ہے، اس لیے بھی شوگر لیول کی نارمل مقدار کم ہو جاتی ہے، سحری میں بالخصوص اور افطاری میں بالعموم، ایسی غذائیں کھائیں، جو متوازن مٹھاس لیے ہوں۔ معدہ جب خالی ہو، تو عمو ماً تیزابیت کالیول بڑھ جاتا ہے اور ایسی حالت میں سینے کی جلن، السر کی شکایت، گیس کی پیدائش اور ہیاٹس ہرنیا کی علامات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ایسے افراد، جو سحری و افطار میں بہت زیادہ مرچ مسالے والی اشیاء استعمال کرتے ہیں، ان میں یہ علامات نمایاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کافی، چائے اور کولا مشروبات کی کثرت سے بھی یہ علامات ہونے لگتی ہیں۔اس مرض کا سبب بننے والی اشیا سے پرہیز کریں اور زود ہضم کھانا کھائیں۔ وہ افراد، جو پیپٹک السر یا معدے و آنتوں کی سوزش کے مریض ہوں، اپنی ادویہ جاری رکھیں اورسحری و افطاری میں کھانے پینے کے معمولات کے حوالے سے معالج سے مشورہ ضرورکر لیں۔ کئی افراد یہ شکایت کرتے ہیں کہ روزے رکھنے سے گُردوں میں پتھری بننے لگتی ہے، حالاںکہ یہ محض ایک مغالطہ ہے۔ ہاں، یہ بات الگ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کے اندر پانی یا سیال اشیا کی کمی ہوجاتی ہے، اس لیے گُردے کی پتھری کی علامات نمودار ہونے لگتی ہیں، جیسے گُردوں کے مقام پر درد، پیٹ میں درد اور کھچاؤ یا پیشاب کی وقتی رکاوٹ وغیرہ پھر سیال مواد کی قلّت کے سبب عموماً گُردوں کے مقام پر کھچاوٹ اور درد کی شکایت رہنے لگتی ہے ۔ ایسے افراد، جنہیں گُردوں کی پتھری کی شکایت لاحق ہو یا ماضی میں لاحق رہی ہو، انہیں چاہیے کہ افطار کے بعد پانی کی مقدار وقفے وقفے سے پوری کرتے رہیں۔ ادھیڑ عمر یا کم زور جسم کے مالک افراد، رمضان کے دوران، چوںکہ غذائی بے اعتدالیوں کاشکار ہو جاتے ہیں اور وہ، جو جسمانی مشقّت کا کام کرتے ہیں، خاص طور پر فربہ افراد، انہیں مکمل طور پر توانائی نہیں مل پاتی، اس لیے جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے، تو انہیں وقتاً فوقتاًجوڑوں، بالخصوص ٹانگوں کی ہلکی پُھلکی ورزش کرنی چاہیے۔ذیابطیس سے متاثرہ مریض، جو انسولین کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی روزے نہیں رکھنے چاہئیں، کیوںکہ ان کے مرض کو کنٹرول کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان میں مثبت اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ روزے سے متعلق عام طور پر ذیابطیس سے متاثرہ افراد، جو شکایت کرتے ہیں، وہ شوگر کی فوری کمی یعنی ہائپو کی شکایت ہے اور یہ عموماً درج ذیل وجوہ کی بناء پر ہوتی ہے: سحری میں کم کھایا ،سحری میں محض دوا کھانے پر اکتفا کیا اور کھانا نہ کھایا، عصر و مغرب کے درمیانی وقت میں ورزش کی جائے یا اس دوران کوئی جسمانی مشقّت والا کام کیا جائے،سحری کے بعد ورزش کی جائے، انسولین یا دوا کی زیادہ مقدار لے لی جائے، جب کہ سحری کی دوا افطاری میں اور افطاری کی دوا سحری میں لی جائے۔ ہائپو سے متاثرہ افراد میںدل کی دھڑکن تیز ہوجائے، نقاہت یا کم زوری محسوس ہو،ہونٹوں پر سنسناہٹ ہو، جسم کپکپائے،آنکھوں کے سامنے دھبے آئیں یا دو دودکھائی دیں،چڑچڑاپن اور شدید غصّہ آئے، زبان لڑکھڑائے،پسینہ آئے اورسردرد، غنودگی جیسی علامات ظاہر ہوں، تو فوراً شوگر چیک کرائیں اور معالج سے رابطہ کر کے مکمل صورتِ حال سے آگاہ کریں۔ اگر معالج روزہ توڑنے کا مشورہ دے تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ہائپو عام طور پر ان مریضوں میں ہوتا ہے، جو اپنے معالج کی تجویز کردہ غذا استعمال نہیں کرتے یا کم غذا استعمال کرتے ہیں۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو افطار میں مُرغن غذاؤں، تلی ہوئی اشیا، جیسے سموسے، پکوڑے، رول اور مٹھائیاں وغیرہ، چینی ملا شربت، چینی سے بنی اشیاء بلکہ ایسی فروٹ چاٹ، جس میں چینی کی آمیزش کی گئی ہو، سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ ان افراد کی غذا کا 45 سے 55 فی صد حصّہ نشاستے پر مشتمل ہونا چاہیے اور رمضان المبارک میں یہ نشاستہ کچھ اس طرح تقسیم کریں کہ سحری میں 15 سے 20 فی صد نشاستے والی غذائیں لیں، جوایک پراٹھے (ایک چمچ تیل میں پکا ہوا) اور چائے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ افطار میں 25 سے 30 فی صد نشاستے والی غذا کھائیں، جو ایک پیالی فروٹ چاٹ، تین چوتھائی کپ چھولے اور ایک سے دو پکوڑوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ رات کا کھانا 40 سے 45 فی صد نشاستے والی غذا پر مشتمل ہو، جو ایک چپاتی، تین چوتھائی کپ دال اور تین چوتھائی کپ چاول سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ رات سوتے وقت 5 سے 10 فی صد نشاستے والی غذا ضروری ہے، جو ایک کپ دُودھ اور ایک پھل سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس ماہِ مقدس کے دوران، ذیابطیس سے متاثرہ افراد، اگر روزے رکھیں، تو وہ درج ذیل مینو (یہ مینو تقریباً 1800 کیلوریز پر مشتمل ہے )کو اپنا لیں تو اُمید ہے کہ وہ کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوں گے، البتہ پُرانے مریض اپنے معالج سے مشورہ کر کے اس میں ردّوبدل کر سکتے ہیں: سحری:ایک پراٹھا (ایک چمچہ تیل میں پکا ہوا)، دو انڈوں کی سفیدی (ایک چمچ تیل میں پکی ہوئی یا سالن کی صورت میں)، آدھا کپ دہی یا لسی اور ایک کپ چائے۔ افطار:ایک کھجور اور فروٹ چاٹ (بغیر چینی والی)، ایک کپ لیموں کا جوس یا لسّی، ایک سے دو پکوڑے، تین چوتھائی کپ چنے، چھولے (سفید یا کالے) لیے جائیں۔ کھانا:ایک چپاتی، آدھا کپ سبزی کا سالن(ایک چمچ تیل میں پکا ہوا)، تین چوتھائی کپ دال (ایک چمچہ تیل میں پکی ہوئی)، تین چوتھائی کپ اُبلے ہوئے چاول، دو بوٹی گوشت (مُرغ یا مچھلی) لی جائے اور سوتے وقت دُودھ پی لیا جائے۔
  12. سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی ’’انسان‘‘ قرار دیتے رہے اور صدیوں سے یہی کہتے چلے آرہے تھے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔ ایسے میں کئی دہائیوں تک جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں مادی جسم پر تحقیق کر کے اس کے راز افشاں کرتے رہے، جس کے نتیجے میں آج ہم مادی جسم کے بارے میں کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے ہیں جبکہ انسان کے باطنی پہلو کو جانتے ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان برسوں مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے کر انسان کے باطنی پہلو کو جھٹلاتے رہے اور انسانی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے رہے۔ برسوں بعد بالآخر خود سائنسدانوں نے ہی انسان کے باطنی رخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج حضرت انسان پر سب سے زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تحقیقات میں توہم پرست یا مذہبی و روحانی شخصیات نہیں بلکہ ڈاکٹر اور سائنسدان سرگرم عمل ہیں۔ روحانی یا ماورائی علوم اگرچہ مشرق سے منسوب ہیں اور انسان کے باطنی و روحانی تشخص کی زیادہ تر معلومات بھی ہمیں یہیں سے میسر آتی ہیں، لیکن جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز چونکہ مغرب ہی رہا ہے، لہٰذا یورپ میں اس حوالے سے کاپر نیکی (۱۵۴۳ء) وہ پہلا مفکر تھا جس نے انسان کو روحانی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی، جبکہ گلیلیو، نیوٹن، ڈارون اور کیپلر نے بھی اسی موضوع پر بحث کی۔ سر ولیم کرکس وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے مادی دنیا پر روحانی اثرات کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان کی ۱۸۷۴ء میں منظر عام پر آنے والی کتاب ’’ریسرچ ان دی فینومینا آف اسپریچوئل ازم‘‘ نے بیحد مقبولیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ سر اولیور لاج کی ۱۸۶۱ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ریمنڈ‘‘ بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں کی تحقیق اور تجربات پر اس مسلک کی بنیاد پڑی جسے ’’ماڈرن اسپریچوئل ازم‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جو آجکل مغربی دنیا میں وسیع پیمانے پر زیر مشق ہے۔ طعبیات کے معروف سائنسدان سر اولیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں کام کرتی ہیں لیکن سب انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ان کے وجود پر ایمان بھی رکھتے ہیں، اسی طرح اس کائنات میں بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو انتہائی پوشیدگی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں، لیکن بظاہر ان کے وجود کا سراغ نہیں ملتا۔ محض اسی وجہ سے ان قوتوں کے وجود سے انکار کرنا صریحاً نادانی ہوگی۔ لاج کا خیال تھا کہ اس موضوع پر ٹھوس تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سائنسیات اور روحانیات ابھی تک پوری طرح تعصب سے آزاد ہو سکی ہیں، بلکہ میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے۔ لاج نے یقین ظاہر کیا کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب خالص سائنسی انداز میں اس پہلو پر تحقیق کی جائے گی اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے گا۔ وہ وقت بالآخر آگیا اور تاج برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز ’’نائٹ ہڈ‘‘ سے نوازے گئے معروف طبعیات دان لاج نے خود خالص سائنسی انداز میں انسان کی روحانی خصوصیات پر تحقیق کا آغاز کر دیا۔ ان کے ساتھی سائنسدان اگرچہ انہیں سائنس کے بجائے روحانی چکروں میں پڑا دیکھ کر خبطی سمجھنے لگے تھے، جلد ہی ایک اہم سائنسدان کی روحانیت کی طرف بھرپور پیش قدمی کے نتائج سامنے آنے لگے اور سائنسی انداز میں اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق اور تجربات کا آغاز ہوا۔ ایسے میں سر اولیور ’’لاج سوسائٹی فور سائیکیک ریسرچ ان انگلینڈ‘‘ کے بانی ممبران میں سے ان کے ہم خیال کئی اہم نام ابھرے، جن میں سے فریڈرک ڈبلیوایچ مائرز نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ مائرز نے اپنی کتاب ’’ہیومن پرسنالٹی اینڈ اٹس سروائیول آف باڈیلی ڈیتھ‘‘ میں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے ’’روح‘‘ کہتے ہیں، اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ دو عالمگیر جنگوں کے بعد روحانیت کے موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں اور یہ کتابیں لکھنے والے مذہبی انتہاء پسند یا توہم پرست عوام نہیں بلکہ سائنسدان، ڈاکٹر، فلسفی اور پروفیسرز تھے۔ ان معتبر شخصیات کی مسلسل توجہ، سائنسی تحقیق اور تجربات سے اس علم نے عملی تجرباتی دنیا میں قدم رکھ دیا اور باقاعدہ لیبارٹریز میں سائنسی بنیادوں پر تجربات ہونے لگے۔ مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر کیسی (ورجینیا، ۱۸ مارچ ۱۸۷۷ء) نے بھی روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے اس وقت کے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ کسی مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر کی ناکامی کے بعد یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ انہوں نے ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ ایسے میں خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور مسمریزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ۱۸رویں صدی کے اواخر میں سائنسدانوں کو انسان کے اندر موجود مقناطیسیت سے متعارف کروایا۔ سائنسدانوں نے انسان کے اندر موجود اس مقناطیسیت کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ اور بائیو انرجی کے نام دیئے اور جدید سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ ایک لطیف توانائی ہمارے جسم میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔ یہ نظریہ چونکہ اس دور کے ٹھوس، مائع یا گیس کسی سے بھی مناسبت نہیں رکھتا تھا، لہذا ابتداء میں انسان کے اندر دریافت شدہ اس لطیف توانائی کا نام ’’ایتھر‘‘ رکھا گیا اور اس لطیف باطنی وجود کو ’’ایتھرک باڈی‘‘ کہا جانے لگا۔ اس دور کے روحانی علوم کے ماہرین نے، جن میں مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر وغیرہ شامل تھے، اس ایتھری وجود پر مقالے بھی تحریر کئے۔ یعنی برسوں انسان کے مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے خود انسان کے باطنی تشخص کا اقرار کیا اور وہ موضوع جسے کچھ عرصہ پہلے تک توہم پرستی قرار دیا جاتا تھا، ۱۹ویں صدی میں بھرپور طریقے سے سائنسدانوں کی توجہ کا موضوع بنا رہا۔ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں، مقالے لکھے گئے، سائنسی طرز کی تحقیقات و تجزئے اور تجربات باقاعدہ لیبارٹریز میں کئے گئے اور یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد ۱۹۳۰ء کی دہائی میں روس میں کیرلین نامی الیکٹریشن نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے بالآخر انسان کے اس باطنی وجود کی تصویر کشی بھی کرلی جس کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا۔ کیرلین فوٹوگرافی کے ذریعے انسان کے باطنی وجود کو واضع طور پر دیکھا گیا۔ یہ انسان کے جسم سے جڑا ہوا بالکل مادی جسم جیسا ہیولا نماء دوسرا انسان تھا۔ ایک ایسا لطیف روحانی وجود جسے سائنسدانوں نے ’’اوراء‘‘ کا نام دیا۔ فزکس کی شاخ میٹا فزکس نے ’’اوراء‘‘ کو بائیو پلازمہ کا نام دیا، جبکہ ۱۹۰۰ء سے لیکر اب تک سائنسدان اسے مختلف ناموں سے پکار رہے ہیں۔ کہیں اسے الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ یا بائیوانرجی کہا جاتا ہے تو کوئی اسے بائیو پلازمہ، وائٹل فورس، اوڈک فورس، قوئنٹ ایسنس، ففتھ ایلیمنٹ یا جسم اثیر (ایتھرک باڈی) کا نام دیتا ہے، جبکہ اس کا بنیادی نام آج بھی ’’اوراء‘‘ ہے۔ اس اوراء پر سائنسی بنیادوں پر تحقیقات جاری ہیں اور اسی موضوع کے تحت مزید ’’چکراز‘‘ اور ’’سبٹل باڈیز‘‘ بھی دریافت کی گئی ہیں۔ جدید سائنسی طریقوں سے اوراء کی خصوصیات، اعمال و افعال سمیت مادی جسم کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں لیبارٹریز میں سائنسی بنیادوں پر کام بھی جاری ہے۔ برطانیہ میں قائم ’’اسپریچوئل ایسوسی ایشن آف گریٹ بریٹن‘‘ کی وسیع عمارت میں کئی لیکچر ہال، ۲۰ سے ۲۵ کیبن نما کمرے موجود ہیں جہاں روحانی تجربات کئے جاتے ہیں۔ لندن میں ’’سوسائٹی فور دی سائیکیل ریسرچ‘‘ نے روحانیت پر سائنسی تجربات کا آغاز ۱۸۸۲ء میں کیا، جبکہ ہالینڈ میں مکالمہ ارواح کا فن سائنس کی شکل اختیار کر گیا، جس کے تحت حیرت انگیز سائنسی تجربات بھی کئے گئے۔ امریکہ کی دو خواتین ’’ٹروڈی گرس ورلڈ‘‘ اور ’’باربرا مارک‘‘ نورانی مخلوقات سے رابطہ کروانے کی ماہر ہیں اور یہ اپنی نجی پریکٹس سان ڈیاگو، کیلی فورنیا اور ویسٹ پورٹ میں کرتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت ہالینڈ اور روس کے علاوہ یورپ کے دیگر کئی ممالک میں بھی پیراسائیکولوجی (روحانیت) کے ادارے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ایٹمی لیبارٹریز کی طرح پیراسائیکولوجیکل ریسرچ کے بعض پروگرام بھی انتہائی رازداری میں رکھے جاتے ہیں اور بعض بڑی طاقتیں درحقیقت اس سائنس کو سفارتی تعلقات، بین الاقوامی معاملات اور جنگی و جاسوسی امور میں بھی استعمال کر رہی ہیں۔ امریکی سی آئی اے اور ڈی آئی اے کی جانب سے ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۵ء کے دوران تیار ہونے والے جاسوسی کے منصوبہ ’’اسٹارگیٹ‘‘ کے تحت روحانی استعداد رکھنے والے جاسوسوں کو جدید سائنسی طریقوں سے روحانی تربیت دے کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت یہ روحانی سراغ رساں اپنے روحانی وجود یعنی اوراء کو استعمال میں لاکر دشمن کے خفیہ منصوبوں کا گھر بیٹھے سراغ لگا سکتے تھے، دشمن کے ہتھیاروں کو گھر بیٹھے ناکارہ بنا سکتے تھے اور حکمرانوں کے دماغوں کو گھر بیٹھے کنٹرول کر سکتے تھے۔ مغربی دنیا کا انسان آج اپنی روحانی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر مریخ تک پہنچ چکا ہے اور ہماری لاعلمی کی انتہاء یہ ہے کہ ہم آج بھی اسے توہم پرستی کہہ رہے ہیں، جبکہ ہماری بے خبری اور لاعلمی کے نتیجہ میں ہماری سلامتی آج دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔ دنیا بھر میں انسان کے باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات کئے جارہے ہیں اور سائنسدان ایٹم کے بعد اب انسان کے اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس موضوع پر بیشمار کتابیں تحریر کی جارہی ہیں ، رسائل جاری کئے جا رہے ہیں اور ان موضوعات پر ’’ایکس مین‘‘ طرز کی فلمیں اور ڈرامے بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مغربی ممالک کے مختلف ٹی وی چینلز پر اب سائیکولوجی اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کیسز یا دستاویزی پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔ ان تحقیقات سے نہ صرف لوگ استفادہ کرتے ہیں بلکہ روحانی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف یورپ اور امریکہ میں روحانی اداروں سے وابستہ افراد کی ممبرشپ ایک کروڑسے تجاوز کرچکی ہے۔ آج کے دور میں ہونے والی جدید تحقیقات قدیم ادوار کے کاموں کی تصدیق کر رہی ہیں، لہذا آج پرانے دور کا کام موضوع بحث ہے جس کے تحت سائنسدان، ماہرین اور محققین مذہب اور اقوام کے تعصب سے بالاتر ہوکر انسان کی حقیقت سمجھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ http://technologytimes.pk/urdu-news.php?title=%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86+%D9%BE%D8%B1+%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF+%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%DB%8C+%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA
  13. دنیاکے ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مذہب اسلام میں روزہ فرض ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس کی روشنی میں اگر غور کیا جائے توروزہ کے روحانی اور جسمانی فوائد کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر مسلمان کے اوپر روزہ رکھنا فرض ہے ، ہاں اگر کسی کے پاس شرعی عذر ہوتو اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور معرفت حاصل کرنے کے لےے لازمی ہے کہ ہر مسلمان اس کی پابندی کرے۔ فی الحال ہم یہاں روزہ کے طبی فائدے پر غور کریں گے جس کی وجہ سے شرعی پابندی کے ساتھ ساتھ بہتر صحت کی معلومات کے سبب اور بھی ہماری رغبت بڑھ جاتی ہے۔ وہ حضرات جو بدہضمی و معدہ کی دیگر خرابی ، جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور جسم میں چربی کی زیادتی خاص طور سے کولسٹرول کے بڑھنے جیسے امراض میں مبتلا ہوں، ان کے لےے یہ مہینہ اپنے آپ کو فٹ کرنے کے لےے بڑی نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔ روحانی اور جسمانی طور پر صحت یاب رہنے کے لےے اللہ تعالیٰ نے رمضان شریف کا مہینہ روزے کی شکل میں ہمیں عنایت کیا ہے۔ یقینا اس میں اللہ تعالیٰ کی کریمانہ حکمت عملی شامل ہے۔ اعضاءرئیسہ خاص طور سے دل و دماغ اور جگر کو روزہ رکھنے سے تقویت ملتی ہے اور ان کے افعال میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ استحالہ کا عمل (Metabolic Function) بھی ترتیب میں آجاتا ہے، جسے سائنسدانوں نے بارہا ثابت کیا ہے اور اس کی رپورٹ نیشنل/ انٹرنیشنل میڈیکل جرنلوں میں شائع ہوچکی ہے۔ روزہ رکھنے سے اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔ روزہ ذہنی تنائو کو ختم کرنے میں ہم ادا رول کرتاہے۔ وقت پر سحر اور افطار کرکے موٹاپا کے شکار لوگ اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔ وہ عورتیں جو موٹاپا کا شکار ہیں اور اولاد سے محروم ہیں ان کے لئے روزہ نہایت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جدید میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کہ وزن کم ہونے کے بعد بے اولاد خواتین کے یہاں اولاد کی پیدائش کے امکانات میں کافی اضافہ ہوتاہے۔ جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمارے معدے کے فاسد مادے زائل ہو جاتے ہیں۔ روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ جولوگ منشیات ، شراب اور تمباکو نوشی جیسی بری عادتوں کے عادی ہوچکے ہیں وہ روزہ کی مدد سے اس ان عادتوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے انسان کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے ہمارا دل نظام ہضم میں اپنی توانائی صرف کرنے سے آزاد ہوجاتاہے اور وہ اس توانائی کوگلوبن پیدا کرنے پر صرف کرتا ہے ۔ گلوبن ہمارے جسم کی حفاظت کرنے والے مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتاہے۔ روزہ قوت مدافعت کے نظام کو بہتر بناتا ہے۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے دماغی خلیات کو فاضل مادوں سے نجات مل جاتی ہے اور اسی طرح سے دماغی صلاحیتیوں کو جلا ملتی ہے۔ روزہ کی اہمیت وافادیت کا اندازہ پروفیسر نیکولای کے اس بیان ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب”صحت کی خاطر بھوک “ میں ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں”ہر انسان، خاص طور پر بڑے شہروں میں رہنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سال میں تین چار ہفتہ تک کھانا کھانے سے باز رہے تاکہ وہ پوری زندگی صحت یاب رہے“۔ پرہیز: روزہ کے طبی فائدے یونہی نہےں ہےں بلکہ نظام زندگی کو خوشگوار بنانے کے لےے ایک ماہ تک مسلسل مشق کرائی جاتی ہے اور اسی تسلسل اور مشق کی بنا پر جسم انسانی میں جو بھی خرابی پیدا ہوچکی ہوتی ہے اُسے درست کرنے کا رمضان شریف میں روزوں کے دوران موقع نصیب ہوتا ہے۔ رمضان شریف کے روزوں کا بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لےے ضروری ہے کہ اُصولوں کے مطابق افطار و سحر کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور سے بادی، ثقیل اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کیا جائے اور روزمرہ کے کاموں میں تخفیف کردی جائے اور وقت مقررہ کا تعین کرلیا جائے، جس کے دوران معمولات زندگی کے کاموں کو آسانی سے کیا جاسکے۔ مشورہ: گرمی کے روزوں کے دوران بہتر یہی ہے کہ کھجور اور سادہ پانی سے روزہ افطار کیا جائے اور حسب ضرورت مشروبات کا استعمال کیا جائے اور جو لوگ ذیابیطس (شوگر) کے مریض ہےں وہ خشک میووں کا مشروب استعمال کریں۔ اس کے علاوہ نماز مغرب کے بعد ہی کھانا کھائیں تاکہ سحری میں کچھ کھانا کھایا جاسکے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھایا پیا جائے کیونکہ گرمی کے روزے میں دن بڑا ہوتا ہے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہےں۔ ایسی صورت میں مغرب کے بعد طعام اور ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھانا بہتر ہوگا۔ http://www.thesundayindian.com/ur/story/physical-and-spiritual-advantages-of-fast-/7/575/
  14. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے۔‘‘ (طبرانی) ڈاکٹر ایمرسن کے نزدیک فاقہ کی بہترین صورت: ڈاکٹر ایمرسن اپنی تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ فاقے کی بہترین صورت وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریق سے رکھا جاتا ہے۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب کسی کو فاقہ کرنے کی ضرورت پڑے وہ اسلامی طریق سے روزہ رکھے اور ڈاکٹر جس طریق سے فاقہ کراتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ فاقے (روزے) کے اثرات: بعض لوگ فاقے کے پہلے یا دوسرے دن اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بحال ہونے لگتی ہے اور وہ اپنے آپ کو پہلے سے بھی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ صفائی اور تنقیہ کی دوسری علامات کی طرح یہ بیماری بھی بالکل عارضی ہوتی ہے اور بالآخر انسان اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور شاداں وفرحاں محسوس کرتا ہے۔ فاقہ اور صحت: ایک طبی ماہر کا کہنا ہے کہ روزے میں اچھی صحت کا راز پوشیدہ ہے۔ اس ماہر نے اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ صحت کے بعض کہنہ مسائل جن کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیںہوتی اکثر فاقہ کرنے سے حل ہوجاتے ہیں۔ روزے اور ڈاکٹروں کی تحقیق: ڈاکٹروں نے یہ تحقیق کی ہے کہ ایک مہینے کے روزے رکھنے سے بہت سی بیماریاں انسان کے جسم سے خودبخود دور ہوجاتی ہیں۔ روزوں کا جسمانی طور پر بھی فائدہ ہے اور روحانی طور پر بھی… کئی بندے وہ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے گھر کا غسل خانہ غریب آدمی کے گھر سے بھی زیادہ مہنگا ہوتا ہے اور پورا سال وہ اپنی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں اگر رمضان المبارک کے روزے نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے انہیں یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ جو غریب آدمی اپنے گھرمیں بچوں کے ساتھ بھوکا ہے اس کے ساتھ کیا گزرتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کرکے ہمارے اوپر احسان کیا۔ انسان جب سارا دن کچھ نہ کھائے کچھ نہ پیے تب خیال آتا ہے کہ جو بھوکا رہتا ہوگا اس کا کیا حال ہوتا ہوگا؟روزہ اور روسی ماہرین کی ریسرچ: روسی ماہر الابدان پروفیسر وی این نکٹین نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیردوا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22مارچ 1940 کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی اپنالیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔اول: خوب محنت کیا کرو‘ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں تروتازگی پیدا کرتا ہے جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے۔دوئم: کافی ورزش کیا کرو‘ بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے۔سوئم: غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم فاقہ ضرور کیا کرو۔ قوت ارادی: ہر سلیم الفطرت آدمی اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے کی کمزوری پر خطرلذت کشی کا سبب بنتی ہے خواہشات کا طوفان روکنے کیلئے ارادے کی پختگی بہت ضروری ہے۔ روزہ ارادے کی تقویت کیلئے بہترین عملی مشق ہے‘ آدمی کا دیر تک کھانے پینے سے رکا رہنا اسے محنت و مشقت برداشت کرنے کا عادی بناتا ہے۔زندگی کوئی باغ جنت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں مقاصد کی تکمیل کیلئے پیہم مقابلہ جاری ہے اس میں رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں اس میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ چیز طاقت و ارادے کے بغیر ممکن نہیں‘ روزے میں قوت ارادی کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے خواہش اور عقل کے درمیان ایک معرکہ برپا ہوجاتا ہے جس سے قوت ارادی کو تقویت ملتی ہے۔ جرمنی عالم جیہمارڈٹ نے قوت ارادی پر ایک کتاب لکھی ہے‘ انہوں نے روزے کو قوت ارادی پیدا کرنے کیلئے ایک بنیادی عمل قرار دیا‘ اس کے ذریعے ابھرنے والی خواہشات پر قابو حاصل ہوتا ہے‘ نیز اس کی سالانہ تکرار سے ارادے کی کمزوری سے حفاظت ہوتی ہے پختگی حاصل ہوتی ہے‘ انہوں نے ان لوگوں کی مثال دی جنہوں نے سگریٹ نوشی چھوڑی‘ سب سے پہلے انہیں پورے دن سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا جس سے ان میں ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا جذبہ پیدا ہوا‘ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ کیلئے اسے چھوڑ دیا۔
  15. ٭٭٭ روزہ اور غیرمسلموں کے انکشافات اسلام نے روزہ کو مومن کے لیے شفا قرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحقیق کی توسائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے۔ ٭… آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مور پالڈ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولا ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر اس کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔ میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہیے۔ پھر میں روزے مسلمانوں کے طرز پر رکھنا شروع کیے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔ ٭… پوپ ایلف گال ہالینڈ کے سب سے بڑے پادری گزرے ہیں۔ روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور ذہنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتائوں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لاعلاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں۔ میں نے شوگر‘ دل اور معدہ کے امراض میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی۔ ان کی شوگر کنٹرول ہوگئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا۔ سب سے زیادہ افاقہ معدے کے مریض کو ہوا۔ ٭… فارماکولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا۔ اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور پر معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے۔ ٭… مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے۔ روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دبائو کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھینچائو اور ذہنی تنائو سے سامنا نہیں پڑتا۔ ٭… جرمنی‘ امریکا‘ انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک‘ کان‘ گلے کے امراض بہت کم ہوجاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ و جگر کے امراض کم ہوجاتی ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لیے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے۔ غرضیکہ روزہ انسانی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزہ شوگر لیول‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اعتدال لاتا اور اسٹریس واعصابی اور ذہنی تنائو ختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ روزہ موٹاپا اور پیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مزید بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے۔ http://igrfoundation.blogspot.com/2012/07/blog-post_7688.html
  16. دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاً روزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل‘ ڈاکٹر جوزف‘ ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر‘ڈاکٹر ایم کلائیو‘ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ‘ڈاکٹر جیکب ‘ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ‘ڈاکٹر برام جے ‘ڈاکٹر ایمرسن‘ ڈاکٹرخان یمر ٹ ‘ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے روزہ شوگر لیول ‘کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور معروف یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے ماہ صیام کے موقع پرکونسل ہذا کے زیراہتمام ایک مجلس مذاکرہ بعنوان’’ روزہ اور جدید سائنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلامل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے ‘یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزہ موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید کئی امراض کا علاج بھی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے‘ پکوڑے ‘کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل ‘کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا ۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کرنے سے روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے حکیم قاضی ایم اے خالد خالق کائنات نے تین اقسام کی مخلوق پیدا کی ہے۔ نوری یعنی فرشتے‘ ناری یعنی جن اور خاکی یعنی انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ دراصل انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی تخلیق اس طرح ممکن ہوئی کہ جسم کو مٹی سے بنایا گیا اور اس میں روح آسمان سے لا کر ڈالی گئی۔ جسم کی ضروریات کا سامان یا اہتمام زمین سے کیا گیا کہ تمام تر اناج غلہ پھل اور پھول زمین سے اُگائے جبکہ روح کی غذا کا اہتمام آسمانوں سے ہوتا رہا۔ ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات میں پیدا ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا رکھتے ہیں۔ مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال میں ایک مہینہ ہی مسیر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کا طمع کیے تعمیلاً روزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصاً ڈاکٹر مائیکل‘ ڈاکٹر جوزف‘ ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر‘ ڈاکٹر ایم کلائیو‘ ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ‘ ڈاکٹرجیکب‘ ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ‘ ڈاکٹر برام جے‘ ڈاکٹر ایمرسن‘ ڈاکٹر خان یمرٹ‘ ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ کے طبی فوائد نظام ہضم تک ہی محدود ہیں لیکن جیسے جیسے سائنس اور علم طلب نے ترقی کی‘ دیگر بدن انسانی پر اس کے فوائد آشکار ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ آیئے اب جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں کہ روزہ انسانی جسم پر کس طرح اپنے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔ روزہ اور نظام ہضم نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود‘ زبان‘ گلا مقوی نالی (یعنی گلے سے معاہدہ تک خوراک لے جانے ولای نالی) معدہ‘ بارہ انگشتی‘ آنت‘ جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو‘ جنک فوڈز اور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے۔ اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کو نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہوجا ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو اسٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اس طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن جو جسم کے محفوظ رکھنے والے مدافعی نظام کو تقویت دیتا ہے‘ کی پیداوار پر صرف کرتا ہے۔ رمضان المبارک میںموٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پونڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خواتین جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔ یاد رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گناہ بڑھ جاتے ہیں۔ روزہ سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔ نظام ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔ عام حالت میں بھوک کے درمیان یہ رطوبتیں زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے۔ یوں نظام ہضم درست کام کرتا ہے۔ روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے اثر سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں جس سے تیزابیت جمع نہیں ہوتی اور اس کی پیداوار رک جاتی ہے۔ معدہ کے ریاحی درد میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہوجاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال‘ روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔ روزہ اور دوران خون روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاً دل کے لیے مفید چکنائی ’’ایچ ڈی ایل‘‘ کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ’’ایل ڈی ایل‘‘ اور ٹرائی گلیسرائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آجاتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غزائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزہ کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹابولزم) کی شرح بھی بہت بہتر ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیاء کا کثرت سے استعمال فوائد کو مفقود کرسکتا ہے۔ دن میں روزے کے دوران خون کی رفتار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دبائو ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔ شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غزائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیوارون پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔ روزہ کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے اور خون کی پیدائش میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنی اندر زیادہ خون کی کمی دور کرسکتے ہیں۔ روزہ اور نظام اعصاب روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورتحال انانیت یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پُرسکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ نیز عبادات کی بجاآواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسان تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اور اعصابی نظام سے ہر قسم کے تنائو اور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ روزہ اور انسانی خلیات روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتاہے کہ لعاب بنانے والے غدود، گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلادے سکیں۔ (بشکریہ: مرحبا صحت) ٭٭٭ روزہ اور احتیاطی تدابیر یہ یاد رکنا چاہیے کہ مندرجہ بالا فوائد تب ہی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر و افطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔ خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن‘ تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے‘ پکوڑے‘ کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزہ کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائد بھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہٰذا فطاری میں دسترخوان پر دنیا جہاں کی نعمتیں اکٹھی کرنے کے بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے۔ اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کے بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔ ان شاء اللہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد سے یقینا ہم روزے کے جسمانی و روحانی فوائد حاصل کرسکیں گے۔
  17. روزہ اور تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری عصرِحاضر میں کچھ لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے نہیں رکھتے، حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے کسی قسم کے منفی اثرات کسی طبی مطالعے میں سامنے نہیں آئے، البتہ مثبت اثرات کاپتا چلا ہے۔ ڈاکٹر سیدمحمداسلم لکھتے ہیں کہ تندرست افراد میں روزے کے دوران جسم کی اندرونی توازن رکھنے والی کارگزاری پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑتا اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب اور القلی کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج معمول کی حدود میں رہتا ہے۔ روزے کے دوران ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے خون میں یوریا اور یورک تیزاب کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں گوشت خوروں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اگررمضان المبارک میں افطار کے وقت زیادہ شکر، روٹیاں، چاول وغیرہ کھایا جائے تو اس کا اثر مختلف ہوگا، یعنی خون میں شکر کم ہوسکتی ہے، لیکن اگرغذا معمول کے مطابق رکھی جائے اور سحری اچھی طرح کی جائے تو خون میں تفریطِ شکر کا کوئی امکان نہیں۔(صحت سب کے لیـے، ڈاکٹر سیداسلم، ص ۴۲۵-۴۲۶) گذشتہ زمانے میں لوگ بہت زیادہ جسمانی مشقت کرتے تھے لیکن موجودہ دور کے انسان میں اس صفت میں کمی آگئی ہے، جس کے باعث موٹاپے نے متمول افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چکنائی اور نشاستہ دار غذائوں کا بے ہنگم استعمال عام ہوگیا ہے جو بغیر جسمانی مشقت کے غیراستعمال شدہ حالت میں جسم میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور وزن بڑھتا چلاجاتا ہے۔ جو افراد مختلف جدید طریقوں سے وزن کم بھی کرلیتے ہیں، وہ جب نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو وزن پھر بڑھ جاتاہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۹۴ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com) روزہ اور بیماریقرآن پاک میں بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور جو روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو، خواہ بڑھاپے کے باعث یا مستقل بیماری کی وجہ سے، اسے فدیہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍط (البقرہ ۲:۱۸۴) پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔ قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے یا پھر ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف جسمانی قوت ِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ پھر یہ حکم دیا کہ جنھیں عارضی مسئلہ درپیش ہے، جیسے اگر سفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس عارضی رکاوٹ کے ختم ہونے کے بعد روزے پورے کرلو۔ یہی حکم خواتین کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کو لگ گئی ہے اور روزہ رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔ موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں تفصیلاً بتایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: ۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔ ۳- بلند فشار خون (high blood pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ ۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون کی ڈیالیسس (dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے، جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ ۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔ اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ ۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔ ۸- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے۔ (بشکریہ معارف، اعظم گڑھ، بھارت، اگست ۲۰۱۰ء) _______________ ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صاحب کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے شمارہ ،اگست 2011 ء میں شائع ہوا تھا http://quraniscience.com/2011/10/21/advantages-of-islamic-fasting-in-the-light-of-medical-science/
  18. روزے کی جسمانی و نفسیاتی افادیت میڈیکل سائنس کی روشنی میں اسلام دین فطرت ہے اور ہرشعبۂ زیست میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی: وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ o (اعراف ۷:۳۱) اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: کھائو، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب ۴۵۴۰، پہلی حدیث) ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے جس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی رفتار سُست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے، نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص ۵۱) بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۴) اور تمھارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو سمجھو تو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا: صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث ۲۳۶۰۵) ’’روزے رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔ حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لکل شئی زکوٰۃ وزکاۃ الجسد الصوم (المعجم الکبیر، ۶/۲۳۸) ’’ہرشے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بُغض جیسی باطنی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دوائوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ئ، ص ۴۲) ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ (محمد عالم گیرخان، ڈاکٹر، اسلام اور طب جدید، ص ۱۲)۔ تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳) گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ آیندہ سطور میں روزے کی طبی افادیت کا تفصیلاً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ روزہ اور نظامِ انہضامنظامِ انہضام (digestive system)مختلف اعضا پر مشتمل ہے جن میں ایلیمنٹری کینال (alimentary canal)اور ہاضمے کے غدود (digestive glands) شامل ہیں۔ ایلیمنٹری کینال منہ سے شروع ہوکر مقعد پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ اس میں جوف دہن، ایسوفیگس، معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔ جگر اور لبلبہ ہاضمے کے غدود ہیں جن کی رطوبتیں خوراک میں شامل ہوکر اس کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو پورا نظامِ انہضام اس کو ہضم کرنے میں لگ جاتا ہے۔ انسان کو آرام کی بہت ضرورت ہے اور نیند اس کا بڑا ذریعہ ہے لیکن سونے کی حالت میں بھی بہت سے جسمانی افعال رواں دواں رہتے ہیں، مثلاً دل، پھیپھڑے، نظامِ ہضم میں معدہ، آنتیں، جگر، بہت سے ہارمون اور رطوبت، گردہ وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور خوراک ان کی محرک ہے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمولات کا بغور مطالعہ کریں تو ظاہر ہوگا کہ جسم کے ان شعبوں کو بہت کم آرام ملتا ہے۔ رات کے کھانے کو ہضم کرتے کرتے صبح کے ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے اور جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ رات کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں(محمد عالم گیر خان، ڈاکٹر، اسلام اور طبِ جدید، ص۱۳)۔ روزے سے معدہ، آنتوں، جگر اور گردوں کو آرام کا موقع ملتا ہے اور سال کے دوران ایک ماہ کا آرام ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری کا موجب بنتا ہے۔ (محمد فاروق کمال، سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰) ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے نظامِ انہضام پر روزے کے اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:روزے کا حیران کن اثر خاص طور پر جگر (liver) پر ہوتا ہے، کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ ۱۵ مزید افعال بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تکان کا شکار ہوجاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھے گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ جگر پر روزے کی برکات کا مفید اثر پڑتا ہے، جیسے جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے مابین ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہرلقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کو ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی (globulins) پیدا کرنے پر صَرف کرتا ہے، جو جسم کے مدافعاتی نظام (immune system) کی تقویت کا باعث ہے۔ انسان معدے پر روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے سے معدے سے خارج ہونے والے (gastric juice) کی پیداوار اور اخراج میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ روزے کے دوران تیزابیت نہیں ہوتی کیونکہ گیسٹرک جوس خارج نہیں ہوتا جس میں موجود ہائیڈرو کلورک ایسڈ تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام فراہم کرتا ہے۔ حکیم ہمدانی اشتہا پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی صورت میں اشتہاے صادق شاذونادر محسوس ہوتی ہے اور بغیر اشتہاے صادق محسوس ہوئے وقتِ مقررہ پر غذا استعمال کرلی جاتی ہے، جس سے سوء ہضم، نفخ، ڈکار، قبض، اسہال، قے وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن بحالت روزہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اشتہاے صادق بلکہ اشتہاے شدید محسوس ہوتی ہے، اور جب وقت افطار غذا استعمال کی جاتی ہے تو اس کا انہضام و انجذاب جسم میں تیزی سے ہوتا ہے اور ہضم بھی قوی ہوجاتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۳-۴۴) ایلن کاٹ (Allan Cott) نے ۱۹۷۵ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص ۱۴۸) روزہ اور نظامِ دورانِ خونروزے سے نظامِ دورانِ خون (circulatory system) پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی رقم طراز ہیں: ’’دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیات کے درمیان (intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشوز، یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دبائو یا ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے، یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دل آج کل ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا hypertension کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ اس سے خون کی شریانوں پر اس کے اثر کا جائزہ لیا جائے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے، جب کہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرّے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے، سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے‘‘۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۵-۱۰۶) حکیم محمد سعید شہیدؒ نے روزے کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضائع کرتا ہے۔ یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے ، اس کا ادراک ذات ختم الرسل ؐ کو تھا اور ضرور تھا۔ اسی لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعثِ خیروبرکت قرار دیا۔(عرفانستان، ص ۱۶۹-۱۷۰) محمد فاروق کمال ایم فارمیسی (لندن یونی ورسٹی) کے مطابق جسم میں وقتی طور پر پانی کی کمی بلڈپریشر کو کم کر کے دل کو آرام کا موقع دیتی ہے اور اس کی طاقت بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بھوک سے جسم میں چربی کم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خون میں اور نالیوں میں بھی چربی کی مقدار کم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ (سیرت محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰-۵۸۱) عبداللہ اے ، العثمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’رمضان کے روزے کولیسٹرول کی سطح میں واضح کمی کا باعث ہیں‘‘(جنرل آف اسلامک سائنس، جلد۲۸، عدد ۱، ص۵)۔اس محقق نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے روزے کے دوران جسم کے وزن، پلازما کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کے کنٹرول کرنے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ حکیم کمال الدین ہمدانی بھی روزے کو بلڈپریشر کے لیے مفید قرار دیتے ہیں(اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۴)۔ ڈاکٹر شاہد اطہر ایم ڈی ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈیانا یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن لکھتے ہیں کہ وہ رمضان کے آغاز اور اختتام پر اپنا بلڈگلوکوز، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ خود چیک کرتے ہیں تاکہ وہ روزے رکھنے کے بعد فرق معلوم کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ رمضان کے آخر میں واضح بہتری سامنے آتی ہے۔(Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۵۰) روزہ اور جسم کے خلیاتڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کا سب سے اہم اثر خلیوںاور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں، اس لیے خلیوںکے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتاہے۔ اس طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح پر متعلق خلیے جنھیں ایپی تھیلیل (epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمِ خلیاتیات کے نقطۂ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ لعاب بنانے والے (pituitary) غدود، گردن کے غدود تیموسیہ (thyroid) اور لبلبہ (pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہِ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۶) روزہ اور خون بننے کا عمل خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (stimulate) کردیتا ہے۔ کمزور اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر خون پیدا کرسکتے ہیں۔ چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے، یہ ہڈی کے گودے کے لیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کردیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔(ایضاً، ص ۱۰۷-۱۰۸) فارماسسٹ محمد فاروق کمال نے لکھا ہے: ’’سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے باعث ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں۔ یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہوجاتی ہے‘‘۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۱) روزہ اور نظامِ اخراجڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں: سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔(اسلام اور طب جدید، ص ۱۳) ہمدرد فائونڈیشن کے مؤسس حکیم محمد سعید کے یہ الفاظ بھی لائقِ مطالعہ ہیں:طبی نقطۂ نظر سے روزہ اس لیے ضروری ہے کہ ترکِ غذا سے انسان کے جسم میں جمع شدہ اجزاے زائد اور مواد غیرضروری خارج ہوجاتے ہیں اور خون اور اعضاے جسم کی ایسی صفائی ہوجاتی ہے کہ وہ نئی توانائیوں کے ساتھ قبولِ غذا اور افعالِ معمولہ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ روزے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اعضاے رئیسہ، یعنی دل و دماغ اور جگر کو آرام مل جاتا ہے اور اس آرام سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوجاتاہے۔(عرفانستان، ص ۱۷۲) روزہ اور نظامِ تولیدنظامِ تولید (reproductive system)نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالف جنس میں کشش پیدا کر کے اس کو فطرت سے ہم آہنگ کردیا ہے لیکن مرد اور عورت کی باہمی کشش کو نکاح کے ضابطے سے مشروط کر دیا۔ جنسی محرک ان فطری محرکات میں سے ہے جو اپنی تکمیل کے لیے انسان پر بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں۔ روزہ جنسی محرک کے دبائواور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کش مکش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے جنسی محرک کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف توغذا کی قلت کی وجہ سے اور دوسری طرف روزے کے دوران اللہ کی عبادت، ذکر وتسبیح میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اس کا ذہن جنسی موضوع پر غوروفکر سے ہٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دی ہے اور جن نوجوانوں میں شادی کی استطاعت نہ ہو، انھیں روزے کی ترغیب دی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی،ص ۵۳) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو لوگ اخراجاتِ نکاح کی طاقت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں، کیونکہ نکاح سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، اور جن میں اخراجاتِ نکاح کا تحمل نہ ہو وہ روزہ رکھیں، کیونکہ روزہ ان کی شہوت پر کنٹرول کرے گا‘‘۔(بخاری، حدیث ۵۰۶۵، ابوداؤد، حدیث ۲۰۴۶، مسنداحمد، حدیث ۱:۴۴۷) یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کے جنسی نظام پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس سے جنسی محرک کو کنٹرول کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن نظامِ تولید میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا۔ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز تہران میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور ان کے رفقا نے روزے کے اثرات کے سائنسی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے تولیدی ہارمون پر کسی قسم کے منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۸-۱۴۹) روزہ اور نظامِ اعصابجسمِ انسانی ایک نہایت پیچیدہ اور متحرک دنیا ہے جس میں کروڑوں ذی حس خلیات اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ہزاروں کمپیوٹر مستعدی سے برسرِکار ہیں، بہت سی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ لاتعداد اجزاے خوراک، رطوبتیں، لعاب اور ہارمون، جسمانی صحت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ قسم قسم کی شریانیں نہروں کی طرح رواں دواں ہیں۔ حواسِ خمسہ کے لیے برقی تار جسم کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ درحقیقت انسانی جسم خداوند تعالیٰ کا ایک بڑا کرشمہ ہے اور اس کی ذات اور صفتِ خلاقیت کا بیّن اور لاریب ثبوت ہے۔ ان سب پیچیدہ کارگزاریوں کا کنٹرول ہمارے دماغ کے خلیات میں ہے جن کااپنا ضبط و نسق ذہنِ انسانی کی ذمہ داری ہے۔ ثابت ہوا کہ ذہن انسانی ہی اصل کلیدِ صحت ہے۔ ذہن بہت سے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، مثلاً خوشی، غم، غصہ، نفرت، بے چینی، سکون، مایوسی اور فکر وغیرہ۔ جن لوگوں کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو صبر کی عادت ہوتی ہے، وہ ان جذبات کا اثر بہت حد تک ذہن تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جسم کے خلیات پر ان جذبات کو اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔ متلون مزاج اور حد سے زیادہ حساس افراد میں ان جذبات کا اثر بہت سے خلیات کے افعال پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور پھربیش تر امراض کا موجب بن جاتا ہے، مثلاً معدے، چھوٹی و بڑی آنت کے زخم، دمہ، جوڑوں کی سوزش، فالج و دل کے دورے وغیرہ۔ روزبروز اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہربیماری میں ذہنی اثرات مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتے ہیں۔ قوتِ ارادی و صبر ان بیماریوں کے بچائو میں اور ہربیماری کے علاج میں جسمانی قوت مدافعت کو استوار کرتے ہیں۔ روزہ ان دونوں خوبیوں کو انسان میں پیدا کرتا ہے اور سال بہ سال ان کی افزایش کرتا ہے۔(اسلام اور طب جدید، ڈاکٹر محمد عالم گیرخان،ص ۱۲-۱۳) ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علاحدہ ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزے سے دماغ میں دورانِ خون کابے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا ہے، وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتاہے۔ انسانی تحت الشعور جورمضان کے دوران عبادت کی بدولت صاف، شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہرقسم کے تنائو اور اُلجھن کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص ۱۰۷) روزہ اور انسانی نفسیاتنفسیاتی طور پر انسان پر روزے کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل لگائو کا ذریعہ ہے۔ سارا وقت اللہ کا تصور انسان کے ذہن میں رہتا ہے جو اسے تنہائی میں بھی کھانے پینے اور برائی سے مانع ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت تصورِ الٰہی انسان میں اعتماد اور اُمید پیداکرتا ہے اور انسان خود کو اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ اللہ رحیم و رحمن کی معیت میں محسوس کرتا ہے اور اپنی مشکلات کے لیے پریشان نہیں رہتا بلکہ اللہ پر بھروسا اسے ذہنی سکون مہیاکرتا ہے۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، محمد فاروق کمال، ص ۵۸۱) ایک حدیث مبارکہ میں روزے کو ڈھال قراردیا گیا ہے: الصوم جنۃ (مسلم مع نووی، ج۲، حدیث ۱؍۱۲۱۶)۔ ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی کے مطابق ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ خواہشاتِ نفس سے بچاتا ہے۔روزے دار اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ جماع کرتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی پر بھی کنٹرول کرتا ہے۔ وہ نہ فحش گوئی کرتا ہے، نہ شوروغل مچاتا ہے اور نہ سب و شتم ہی کرتا ہے، نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرے۔ روزوں میں خواہشات اور تاثرات پر قابو پانے کی مشق ہوجاتی ہے اور نفس کے فاسد میلانات اور خواہشات پر غلبہ پانے کے سلسلے میں عزم و ارادے کو قوت پہنچتی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ص ۳۴۹) معروف مصری اسکالر محمد قطب روزے کو شعوری انضباط کی بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عملِ انضباط ایک نفسیاتی ورزش ہے جو متعدد پہلوئوں میں جسمانی ورزش سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں ہی قسم کی ورزشیں ابتداً دشوار محسوس ہوتی ہیں مگر عادت ہوجانے پر ان کی مشقت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اور اگر شروع سے عادت ڈال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ سہل ہوجاتی ہے بلکہ اس سے پوری پوری قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسلام چاہتا ہے کہ بچے کو ابتدائی سالوں ہی سے تربیت دی جائے اور اسے خواہشوں کے ضبط کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(اسلام اور جدید مادی افکار، ص ۱۷۵-۱۷۶) بعض لوگ انتہائی آرام طلب ہوتے ہیں۔ وہ جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے اور بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کی تکمیل لازم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انضباط سے جو تکلیف پہہنچتی ہے، انسانی طاقت سے ہرگز ماورا نہیں ہوتی بلکہ انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہے۔ اس لیے انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس، یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ روزہ احساسِ گناہ (guilt complex) اور اس سے پیدا ہونے والے قلق و اضطراب کا بھی مفید علاج ہے۔چوں کہ قرآن پاک میں روزے کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ بتایا گیا ہے، اس لیے یہ انسان کو خوف اور حزن سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور آخرت کی زندگی کے بارے میں خوف کے بجاے اُمید پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ایک مسلمان کو قلبی سکون کی دولت میسر آتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق روزہ گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے حالتِ ایمان میں خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔(بخاری، کتاب الصوم، باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ، حدیث ۱۹۰۱)
  19. سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ اگر قا‏عدے سے روزہ رکھا جائے تو انسان کو صحت سے متعلق کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن میں حد سے زیادہ وزن سے نجات شامل ہے۔ سائنسدان مائکل موسلی کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا انہیں کبھی پسند نہیں تھا اور وہ روزے کے دیرپا فوائد کے بھی منکر تھے۔ اسی بارے میں · ورزش نزلے سے ’بچا‘ سکتی ہے · ورزش سے ڈپریشن کا مقابلہ · الزائمر کے جراثیم کے خاتمہ کا کامیاب تجربہ متعلقہ عنوانات · سائنس انہوں نے بتایا کہ جب ان سے اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے کہا گیا تو انہیں بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا’لیکن جب ’ہورائزن‘ میگزین کے مدیر نے انہیں یہ یقین دلایا کہ اس کے ذریعے وہ عظیم جدید سائنس سے متعارف ہونگے اور اس سے ان کے جسم میں ڈرامائی بہتری آئے گی۔ اس لیے میں نے حامی بھر لی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں مضبوط ارادے والا شخص تو نہیں ہوں لیکن مجھے اس بات میں کافی دلچسپی رہی ہے کہ آخر کم کھانے سے لمبی عمر کا کیا تعلق ہے اور سائنسدانوں کے مطابق اسے بغیر کسی درد کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ نہیں بلکہ بہتر غذا کھانے سے عمر دراز ہوتی ہے۔ یہ بات کم سے کم جانوروں کے بارے میں تو سچ ثابت ہو چکی ہے اور چوہوں پر اس کا تجربہ انیس سو تیس کی دہائی میں ہی کیا جا چکا ہے کہ جب کچھ چوہوں کو اچھی غذائیت پر رکھا گیا تو انہوں نے دوسرے چوہوں کے مقابلے زیادہ عمر پائی۔ اس بات کے بھی وافر ثبوت موجود ہیں کہ بندروں کے معاملے میں بھی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ اس تحقیق کے مطابق’چوہوں کی عمر میں چالیس فی صد تک کا اضافہ دیکھا گیا۔ اگر انسان کی عمر میں بھی یہ اضافہ ہوتا ہے تو ان کی اوسط عمر ایک سو بیس سال ہوسکتی ہے۔‘ روزہ سے جین میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور آئی جی ایف - ون نامی ہارمون کی نشونما میں کمی ہوتی ہے جس سے بڑھاپے میں کمی آتی ہے اور بڑھاپے سے متعلق بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ بڑھتی عمر میں تو یہ ضروری ہوتا ہے لیکن جب انسان ضعیف العمر ہونے لگتا ہے تو اس کے مدھم ہونے سے جسم ریپیئر موڈ یعنی مرمت موڈ میں آ جاتا ہے۔ جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر لونگو کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے آئی جی ایف - ون کی سطح میں کمی آتی ہے اور جسم مرمت موڈ میں آ جاتا ہے اور مرمت کرنے والے کئی جین جسم میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا زیادہ مفید ہے لیکن مائکل موزلی کا کہنا ہے کہ یہ عملی نہیں بلکہ ایک ہفتے میں دو دن روزہ رکھنا زیادہ قابل عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جسم میں آئی جی ایف-1 کی بہت کم سطح ہونے سے آدمی قد میں چھوٹا رہ جاتا ہے لیکن وہ عمر سے جڑی دو اہم بیماریوں کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتے ہیں۔ شکاگو میں الونوا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی نے دو قسم کے موٹے مریضوں پر ایک دن کے بعد ایک دن روزہ کا فارمولا اپنایا اور اس کے اثرات کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ’اگر آپ اپنے روزے کے دنوں کی پابندی کریں تو آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا خواہ آپ روزے نہ رکھنے کی حالت میں زیادہ کھاتے ہیں یا کم۔‘ بہر حال انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ حاملہ عورتیں اور ذیابیطس کے مریض اس میں احتیاط رکھیں اور اعتدال سب سے اچھا راستہ ہو خواہ کھانے میں ہو یا روزہ رکھنے میں ہو۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2012/08/120805_fasting_feasting_mb.shtml
  20. AshiqeRasool

    روزہ اور جدید سائنس

    روزہ اور جدید سائنس روزہ اور میڈیکل سائنس۔ قران کریم میں جہاں روزہ کی فرضیت کا حکم ہے وہیں اس کے سائنسی فوائد کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے ، چنانچہ سورۃ البقرہ کی ایت ۱۸۴ مین ارشاد ہوتا ہے:’’روزہ رکھنا تمھارے لئے بھلا ہے اگر تم جانو‘‘۔۔۔’’اگر تم جانو‘‘ میں علوم کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ جوں جوں عقل ترقی کر رہی ہے ،حیرت انگیز علوم سے آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جیسے جیسے میڈیکل سائنس نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم ہوا کہ روزہ تو ایک حیرت انگیز طبّی معجزہ ہے۔ نظام ہضم جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود،زبان،گلا، مقوی نالی (یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی) معدہ بارہ گشت آنت،جگر،لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ تمام اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ سب پیچیدہ اعضا ء خود بخود ایک کمپیوٹرائزڈ نظام کی طرح عمل پزیر ہوتے ہیں۔جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کر دیتا ہے،یہ سارا نظام ۲۴ گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور خوراک کی بداحتیاطی کی وجہ سے شدید متا ثر ہوتا ہے۔ روزہ کے ذریعے جگر کو۴ سے ۶ گھنٹے تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کا دسویں حصے کے برابر بھی معدہ میں داخل ہو جائے تو پورانظام ہضم سسٹم اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروفِ عمل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سائنسی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کی جا سکتا ہے کہ اسے آرام سے وقفہ ایک سال میں ایک ماہ لازمی ہونا چاہیے۔ جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے ، متعدد طبّی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلئے کی قوتِ گویائی حاصل ہو جائے تو وہ ایسے انسان سے کہے گا’’صرف روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کر سکتے ہو‘‘۔ جگر پر روزے کی برکات میں سے ایک وہ ہے، جو خون کے کیمیائی عمل پر اس کی اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے، جو غیر ہضم شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے ۔ اسے یا تو لقمے کو اسٹور کرنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اسے ہضم ہو کر تحلیل ہو جانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے ۔ روزے کے دوران اعصانی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کر دیتی ہے ۔اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں اور یوں شدید سے شدید تر مسائل جواعصابی دباؤ کی صوت میں ہوتے ہیں تقریباً ختم ہو جاتے ہیں پھر روزے کے دوران جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہو جاتی ہیں اس وجہ سے بھی اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور انمول طاقت بھی بحال ہونے لگتی ہے ۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ، اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے ، جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اندورنی غدودوں کو جو آرام ملتا ہے وہ پوری طرح اعصابی نظام پر اثرپزیر ہوتا ہے ۔ جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے پھر انسانی تحت الشعور،جو رمضان المبارک کے دوران عبادات کی بدولت صاف ،شفاف اور تسکین پزیر ہوتا ہے ،اعصابی نظام ہر قسم کے تارہ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے ۔ جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت محسوس پڑتی ہے تو ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے سے حرکت پزیر کر دیتا ہے۔ کم زور اور لاغر لوگوں میں یہ گودا بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ۔ یہ کیفیت بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔اس وجہ سے پژمردگی اور پیلے چہروں سے روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں ، تو ہڈیوں کا گوداخود بخود حرکت پزیر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کر تے سکتے ہیں۔ہاں، جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو،اسے طبّی معائنے اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے ۔یہ ہڈ ی کے گودے کیلئے ضرورت کے مطابق اتنا ہی مواد مہیا کرتا ہے جس سے باآسانی اور زیادہ مقدار مین خون پیدا ہو سکے۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سے اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا دبلا شخص نہ صرف اپنا وزن بڑھا سکتا ہے بلکہ موٹے اور فربہ لوگ بھی اپنی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے وزن کم کر سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر بلوک نور باقی ترکی کے مقالےThe day will come when every one wil Fastسے موخوذ) http://www.sadaemuslim.com/2013/07/blog-post_11.html روزہ اور جدید سائنس آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔روزہ اور جدید سائنس آیئے اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے۔ روزہ کا نظام ہضم پر اثر نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لئے پہرے پر کھڑا ہو۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کے لئے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہئے۔ جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ ’’مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو‘‘۔ جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کرسکتا ہے۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔ انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔ روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید براں، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔ خلیہ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔ روزے کا اعصابی نظام پر اثر اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔ روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے۔ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کے لئے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں۔ روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہوگی۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔ مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے۔ ان نقائص و امراض کے لئے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کرکے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کرسکے۔ علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کے لئے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔ ضبط نفس، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کے لئے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔ روسی ماہر الابدان پروفیسر وی۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنالئے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول خوب محنت کیا کرو۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہئے۔ دوئم۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہئے۔ سوئم۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی۔ کھجور سے افطار اور جدید سائنس جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے۔ (النسائی) روزے کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لئے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہئے جو زود ہضم اور مقوی ہو۔ کھجور کا کیمیائی تجزیہ 1. پروٹین 2.4 2. نشاشتہ 2.0 3. کاربوہائیڈریٹس 24.0 4. کیلوریز 2.0 5. سوڈیم 4.7 6. پوٹاشیم 754.0 7. کیلشیم 67.9 8. میگنیشیم 58.9 9. کاپر 0.21 10.آئرن 1.61 11. فاسفورس 638.0 12.سلفر 51.6 13.کلورین 290.0 اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔ لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ۔ غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کے لئے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے۔ بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے۔ گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے۔
  21. list of anti wahabi deobandi books رد دیوبند یت فہرست کتب تالیف و تصنیف / ناثر دعوت انصاف علامہ محمد ارشد القادری علیہ الرحمہ آئینہ کیوں نہ دوں محمد طفیل رضوی عجائب دیوبند علامہ مفتی غلام محمد خان قادری ناگپوری دیوبندیوں کے 610 سوالات کے 610 الزامی جوابات سکین حوالوں کے ساتھ ابھی ڈائونلوڈ کریں۔ رد دیوبند پر ایک عمدہ تحقیق جو فیس بک اور سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کیلئے کارآمد ہے ۔ 610موضوعات پر 4000 دیوبندی کتب کے کین حوالہ جات موجود ہیں۔ الدیوبندیت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی بہشتی دروازہ علامہ فیض احمد اویسی دیوبندی مذہب غلام مہر علی صاحب دیوبندی اپنے منہ آپ کافر و مشرک ارشاد السلام دہلی سے سہارنپور تک ایک سفر علامہ ارشد القادری اخباری خبروں کی روشنی میں فیصلہ جمیعت اشاعت اہلسنت حیات النبی ﷺ اور علما دیوبند اشاعت اہل سنت مناظرہ جھنگ اہل السنہ پبلی کیشنز دینہ ضلع جہلم دیوبندی وہابیاپنے منہ آپ کافرو مشرک ارشاد السلام نقاب کشائی مفتی شوکت علی سیالوی زبان میری ہے بات اُن کی علامہ عبد المصطفے مجددی رد شہاب الثاقب علامہ محمد اجمل شاہ تاریخ میلاد محمدی ﷺ ابو محمد کاشف اقبال صحاح ستہ اور عقائد اہل سنت محمد شہزاد قادری ترابی تبلیغی جماعت کا حقیقی روپ جماعت اہلسنت یوپی انڈیا مولانا طارق جمیل کی ناصحانہ آرزو کی تکمیل مفتی ظہور احمد جلالی فتح الھادی فی تحقیق کلمۃ الھادی مفتی ظہور احمد جلالی تحقیق المبین الی تلبیس الوہابین ضیا الرحمن سیالوی وہابی دیوبندی کی نشانی فیض احمد اویسی وہابی دیوبندیوں کے اختلاف کا آغاز جمیعت اشاعت اہل سنت اللہ کے پیاروں سے مدد مانگنا مفتی محمد فہیم قادری مصطفائی الموت الاحمر مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان قادری النبی کا صحیح معنیٰ و مفھوم علامہ سیّد احمد سعید کاظمی القواعد فی العقائد پیر سائیں غلام رسول قاسمی قادری التحقیقات مولانا محمد نعیم الدین صاحب انوارِ ساطعہ دربیان مولودوفاتحہ مولانا عبدالسمیع صاحب انوار آفتاب صداقت قاضی فضل احمد صاحب انوار ساطعہ در بیان مولودوفاتحہ حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عبدالسمیع صاحب عقیدہ توحید کے تحفّظ میں امام احمد رضا کی خدمات اثبات المولد و القیام حضرت شاہ اھإد سعید مجددی دہلوی برق آسمانی مولانا محمد حسن علی رضوی مدظلّہ العالی بدعت کا مطالعہ رفیق شاہ صاحب بلّی کے خواب میں چھیچھڑے حضرت علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی گناہِ بے گناہی پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مسلم دنیا میں پائے جانے والے گروہوں کا تقابلی مطالعہ محمد مبشرنذیر مسلک دیوبند کیا ہے مولانا سید انظر شاہ صاحب دلوں کا راز علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی فضلات رسولﷺ پاک ہیں علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی گیارہویں کیا ہے خلیل احمد رانا تبلیغی جماعت کی حقیقت ابو الحسن زید فاروقی مجددی حقائق نامہ دارالعلوم دیوبند حضرت علامہ مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی ملک الموت اور حاضر ناظر حضرت علامہ الحافظ مفتی فیض احمد اویسی رضوی مزارات کو چومنا حضرت علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی دیوبند کی نقاب کشائی مولانا شہزاد احمد نقشبندی سفید و سیاہ حضرت علامہ مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی صحابہ کرام کا طریقہ و سیلہ علامہ محمد فیض احمد اویسی تعیین دن کا ثبوت علامہ محمد فیض احمد اویسی دامان باغ سبٰحن السبوح اعلٰی حضرت ، مجدد امام احمد رضا علیہ الرحمہ درس توحید علامہ محمد شفیع اوکاڑوی دعوت انصاف علامہ ارشد القادری دعوتِ حق علامہ عبدالغفار غورغشتی دہلی کی برکات علامہ مولانا مفتی محمد عبدالوہاب خان دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن صوفیت کا عقیدہ مولانا عطاءاللہ ڈیروی وھابی دیوبندی میٹرکس ادارہ ارشاد الاسلام دیوبندی امام کے پیچھے نماز کا حکم حضرت علامہ محمد فیض احمد اویسی صاحب صداقت دین کا نشان امام احمد رضا خان مفتی محمد عبدالوہاب خان القادری الرضوی دیوبند کی سیر پروفیسر ڈاکٹر سیف الدین سیاح دیو بند سے بریلی حضرت علامہ مولانا کوکب نورانی اکاڑوی دیوبند vs دیوبند علامہ حسن علی رضوی میلسی دیوبندیوں سے لاجواب سوالات محمد نعیم اللہ خان قادری دیوبندی علما کی حکایات مولانا ابوالنور محمد بشیر صاحب کوٹلی دیوبند کا نیا دین حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی کی ایمان سوز فریب کاریاں جناب سید بادشاہ تبّسم بخاری صاحب جشن عید میلادالنبیﷺ اور فتاوی علمائے دیوبند علامہ محمد کامران عالم خان عیدین میں گلے ملنا کیسا؟ اشاعت اہل سنت فیصلہ کیجیئے بریلوی اور دیوبندی میں کیا فرق ہے علامہ مولانا شیر محمد جمشیدی فصل الخطاب علامہ فضل رسول قادری بدایونی فتاویٰ بریلی شریف محمد عبدالرحیم المعروف بہ نشتر فاروقی محمد یونس رضا اویسی فتاویٰ رضویہ اور فتاویٰ رشیدیہ کا تقابلی مطالعہ مفتی محمد مکرم احمد نقشبندی مجددی تاریخی فتوی مولانا فضل رسول قادری ددایونی گیارہویں شریف کی شرعی حیثیت پیر سائیں غلام رسول قاسمی غیب الٰہی کے امین نبیﷺ غلام مصطفٰی القادری گستاخی کس چیز کا نام ہے مفتی فیض احمد اویسی رضوی ہاں ہم سنّی ہیں ڈاکٹر مفتی محمد اشرف آصف جلالی حدیث افتراق امّت تحقیقی مطالعہ کی روشنی میں علامہ مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری حنفی دیوبندی ریسٹورنٹ المعروف اندرا گاندھی ہوٹل تحریک احیاء نفاذ فقہ حنفیہ پاکستان تبلیغی جماعت کا پر اسرار پروگرام علامہ ارشد القادری ، مولانا محمدصادق صاحب الحق المبین مولانا احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ اور آپ کے عقائد و نظریات علامہ مولانا غلام مرتضیٰ ساقی مجددی زید مجدہ والدینِ مصطفیٰﷺ جنتی ہیں مفتی محمد خان قادری ابلیس تا دیوبند مفتی فیض احمد اویسی رضوی اختلاف ختم ہو سکتا ہے ابوالحقائق غلام مرتضیٰ ساق مجددی اختیاراتِ مصطفیٰ ﷺماننا شرک کیوں علامہ محمد ساجد القادری علمِ نبوی ﷺ اور منافقین مفتی محمد خان قادری مولانا اسماعیل دہلوی اور تقویۃالایمان مولانا شاه ابوالحسن زید فاروقی جوازُالاحتجال بِمیلادِ صاحب الجمال پیر سائیں غلام رسول قاسمی کڑوا سچ مولانا محمد شہزاد ترابی قادری کشف الحقائق مولانا محمد بشیر ظہیر (سابق دیوبندی) تبلیغی جماعت پر ایک نظر فقیر ظاہر شاہ میاں قادری محمودی مدین سوات خون کے آنسو حکیم مشرق علامہ مشتاق احمد صاحب نظامی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سُوجھی مولانا محمد منصور علی خان قادری کیا دیوبندی بریلوی ہیں مفتی فیض احمد اویسی رضوی کفریّہ کلمات کے بارے میں سوال جواب محمد الیاس عطار قادری رضوی کیا جشن میلاد النبی ﷺ صرف بر صغیر میں منایا جاتا ہے مفتی محمد خان قادری میں وہابی سے سنی کیسے ہوا اور کیوں ہوا قاری محمد جاوید اقبال نقشبندی جماعتی مماتی فتنہ مولانا مُحب اللہ مقالات تقریب تعارف فتاویٰ رضویہ (جدید ایڈیشن) مقالات شارحِ بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال قادری صاحبزادہ محمد رؤف رضوی مسلک غوث اعظم اور مخالفین ابوالحقائق غلام مرتضی ساقی مجددی التحقیق لعید میلاد المصطفیٰﷺ مولانا مفتی محمد ندیم خان میلادالنبی ﷺیا وفات النبیﷺ علامہ مفتی محمد اشرفُ القادری تفسیر عبد القادر کا تنقیدی جائزہ عبدالماجد صاحب دریابادی تفسیراشرفی کا تنقیدی جائزہ اشرف علی تھانوی تفسیر شبیری کا تنقیدی جائزہ محمود الحسن تفسیر شبیر احمد عثمانی تبلیغی جماعت احادیث کی روشنی میں علامہ ارشد القادری عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ حصہ اول علامہ مولانا صاحبزادہ غلام نصیر الدین سیالوی عبارات اکابر کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ حصہ دوم علامہ مولانا صاحبزادہ غلام نصیر الدین سیالوی مردے سنتے ہیں مولانا حکیم عبدالقیوم شہید قادری مسلمانوں کا احترام کرو مولانا مفتی محمد عبدالوہاب خان القادری نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کفر ہے حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالوہاب قادری الصوارم لہندیہ علامہ حشمت علی خاں صاحب شرح عقائد عبدالناصر لطیف نگار شات علامہ محب احمد قادری بدایوانی نعمت کبرٰی علامہ ابنِ حجر مکی ؒ ندائے یا رسول اللہ ﷺ فیض احمد اویسی صاحب ندائے یا رسول اللہ‘ ﷺ کا ثبوت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی دس عقیدے امام احمدضا خان فاضل بریلوی گیارہویں شریف اولیاء و علماء کی نظر میں حضرت فیض احمد اویسی رضوی علم غیب پر 40 احادیث مولانا عبد القادر صاحب 111 سوالات جوابات ربیع الاغوث کی حقیقت میں حضرت فیض احمد اویسی رضوی آئینہ دیوبند مفتی محمد فیض احمد اُویسی رضوی قدس سرہ آل دیوبند کے تین سو 300جھوٹ حافظ زبیر علی زئی ابحاث اخیرہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اعلی حضرت ؒ پر 150 اعتراضات کے جوابات مولانا محمد جہانگیر ادب اور بے ادبی پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صحیح بخاری اور عقیدہ علم غیب علامہ محمد عبد القادری دیوبند کی کرم فرمائیاں احسان الھی ظہیر اہل سنت دیوبند کا عرفان کامل علامہ مفتی محمد عبد الوھاب خان اہل سنت و جماعت کیوں ہیں ۔ ؟ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی اکابر علما دیوبند کا اجمالی تعارف اور دینی خدمات کا جائزہ علامہ مفتی عبد الوھاب خان القادری آل دیوبند سے 210 سوالات زبیر علی زئی الہیبۃ الجباریہ علی جہالۃ الاخباریہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی الکلام المرفوعہ فیما یتعلق با الحدیث المرفوع محمد انور اللہ فاروقی دن متعین کرنے اور فاتحہ کے عمدہ ہونے پر عطر بیز حجت اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی المعتمد المستند اعلی حضرت مجدد امام احمد رضا بریلوی الدر السنیہ۔ انبیا ء و اولیا کرام کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں شیخ الاسلام احمد بن زینی دھلان مکی الصوارم الھندیۃ ابو الفتح عبید الرضا محمد حشمت علی خاں انگریز کا ایجنٹ کون صاحبزادہ محمد مظہر الحق بندیالوی دعوت حق تبلیغی جماعت کو علامہ عبد الغفار صاحب دہلی کی برکات مفتی محمد عبد الوہاب خان القادری الرضوی دیوبند کی سیر پروفیسر ڈاکٹر سیف الدین سیاح دیوبند سے بریلی کوکب نورانی اوکاڑوی دارلعلوم دیوبند کا بانی کون ڈاکٹر غلام یحیی انجم دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا گمراہ کن عقیدہ صوفییت مولانا عطا علی ڈیروی وہابی دیوبندی میٹرکس اسلامی محفل دیوبندی پمفلٹ کا جواب مفتی محمد عبد الوہاب خان القادری الرضوی دیوبند ییت تاریخ و عقائد پروفیسر سید طالب الرحمن دیوبندی فتوی اور اخبارات کی کٹنگ علم الکلام کے لئے الزامی جوابات کیا ٹی وی چیینل کے ذریعہ تبلیغ حرام ہے ۔؟ مفتی احمد ممتاز صاحب کیا دیوبند اہل سنت ہیں مکتبہ اہل حدیث دعاء بوسیلہ اسماء اھل بدر الشیخ عبد الرحمن القبانی عید کے دن گلے ملنا کیسا ہے اسلامی محفل فتاوی رشیدیہ کی کفریات اسلام محفل فضلات رسولﷺ پاک ہیں مفتی محمد فیض احمد اویسی جشن عید میلاد النبیﷺناجائز کیوں؟ مولانا ابو داود محمد صادق قادری رضوی غیب الہی کے امین نبی غلام مصطفی القادری حقائق نامہ دارلعلوم دیوبند کوکب نورانی اوکاڑوی مسَلہ حیات الانبیا ء اور علمائے دیوبند اسلامی محفل حضرت صدیق اکبر اور آپکے عقاید و نظریات اسلامی محفل کرامات اولیاء اور بعد از وصال استمداد علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری کیا کوا حلال ہے ؟ علامہ مولانا محمد گوھر علی علوی نقشبندی لطائف دیو بند سید محمد ھاشمی میاں کچھو چھوی مسئلہ حاضر و ناظر خواجہ محمد سلیمان عثمانی المیلاد النبویۃ فی الفاظ الرضویۃ اعلی حضرت مجدد امام احمد رضا بریلوی جشن عید میلاد النبیﷺ اور فتاوی علمائے دیوبند محمد کامران عالم خان مقیاس جنت بجواب باب جنت جاوید اسلم رضوی ملک الموت اور حاضر ناظر علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی منکر ہیں عجب کھانے غرانے والے خلیل احمد رانا قبر پر اذان کہنے کے جواز پر مبارک فتوی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی تلاوت قرآن برائے ایصال ثواب مفتی محمد عباس رضوی قرآن مجید کے اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری قرآن و حدیث میں تحریف ابو جابر عبد اللہ دامانوی رحمت خدا بوسیلہ اولیاء اللہ مفتی احمد یار خان نعیمی رضا کی زبان تمھارے لیئے علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی محفل میلاد پر اعتراضات کا علمی محاسبہ بزم عروج اسلام تبلیغی جماعت اپنے آئینہ میں مولانا شاہ مفتی محمد مظفر احمد قادری برکاتی الروض الموجود علامہ محمد فضل حق خیر آبادی صاحب دلائل الخیرات صاحبزادہ محمد محب اللہ نوری شمع ہدایت اور تبلیغی جماعت ،مفتی محمد عبد الوہاب خان قادری سلام و قیام پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہﷺ پٹرھنے کا ثبوت احمد رضا قادری سلطانیپوری صلوۃ و سلام پر اعتراض آخر کیوں؟ محمد اشرف آصف جلالی صلوۃ و سلام قبل الاذان نفس السلام مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ محمد رئیس سلفی شان رسالت ﷺسمجھنے کا ایمانی طریقہ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی شرح سلام رضا مفتی خان قادری شرح الصدور حضرت علامہ جلال الدین السیوطی الشافعی شریعت علامہ ارشد القادری سنی تقویۃ الایمان مفتی محمد رضا المصطفے القادری تبلیغی جماعت کی حقیقت عبید الرحمن محمدی تبلیغی جماعت عقائد ، افکار نظریات اور مقاصد محمد طارق خان تبلیغی جماعت علمائے عرب کی نظر میں محمد بن ناصر العرینی تبلیغی جماعت کی گستاخیاں نفس اسلام تعین دن کا ثبوت مفتی محمد فیض احمد اویسی قادری رضوی تحقیق جمیل در الزوم کفر اسماعیل مفتی شاہ محمد کوثر حسن صاحب قادری تنویر الابصار بنور نبی المختار محمد اشرف سیالوی تقویت الایمان بمقابلہ عظمت قرآن مفتی محمد عبد الوہاب خان قادری توحید و شرک حضرت علامہ احمد سعید کاظمی علمائے دیوبند کا ماضی حکیم محمود احمد تسکین الخواطر فی مئسلہ الحاضر و الناظر علامہ سعید احمد کاظمی زیارت نبی بحالت بیداری محمد عبد المجید صدیقی ایڈوکیٹ قرآن مجید کے غلط تراجم کی نشاندھی قاری رضا المصطفے اعظمی قادری سنی بہشتی زیور علامہ عالم فقری اصول تکفیر شیخ الحدیث حضرت پیر محمد چشتی اہل سنت و جماعت سید محمد عرفان شاہ مشہدی موسوی گلشن توحید و رسالت ۔۔۔۔جلد اول۔۔۔جلددوم۔۔ امام العصر علامہ محمد اشرف سیالوی حق پر کون علامہ محمد ظفر عطاری آئو میلاد منائیں پکارو یا رسول اللہ علامہ مولانا غلام مرتضی ساقی مجددی توحید اور محبوبان خدا کے کمالات پروفیسر محمد ھسین آسی نقشبندی گستاخوں کا برا انجام مفتی محمد فیض احمد اویسی صاحب شیطان کے سینگ تبلیغی جماعت کے عقائد فاسدہ مولانا صاحبزادہ ابو الاویسی محمد نصیر احمد اویسی اہل سنت کون ہیں مولانا محمد ضیاء اللہ قادری اشرفی نعرہ رسالت یا رسول اللہ قاری محمد جمیل نقشبندی رضوی چار اہم نزاعی مسائل اور اہل سنت کا موقف شیخ الاسلام خواجہ محمد حسن جان سرہندی مجددی شان رسول عقائد صحابہ کرام کی روشنی میں علامہ غلام مصطفے مجددی وجد پر علمی دلائل حضرت سیدنا اخند زادہ سیف الرحمن صاحب اذان میں انگوٹھے چومنا مستحب ہے حضرت علامہ عبد الراق چشتی بتھراوی محافل عید میلاد النبی علامہ اقبال کی نظر میں ڈاکٹر محمد بابر بیگ مطالی علوم نبوت محمد کرم شاہ صاحب الازہری کیا تقدیر بدل سکتی ہے حافظ حفیظ الرحمن دعوت فکر محمد منشا تابش حیات برزخی کا اثبات علامہ غلام مصطفے مجددی امام احمد رضا کی فقہی بصیرت محمد امجد علی مصباحی ایصال ثواب فوت شدگان کیلئےتحفہ الاموات علامہ حافظ محمد نصر اللہ مدنی قبروں کے حالات علامہ مفتی حافظ شقافت احمد مجددی کیا انبیا کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ؟ بے ادبوں کی پہچان حافظ محمد نصر اللہ مدنی براہین صادق علامہ محمد صادق قادری حضور مالک و مختار ہیں علامہ مرتضی ساقی مجددی rad e deoband books list of ghousialibrary.blogspot.com pdf.pdf
×
×
  • Create New...