
HozaifaMalik
Under Observation-
کل پوسٹس
57 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
سب کچھ HozaifaMalik نے پوسٹ کیا
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
کیا یہ حقیقت ہے میرے بھایئو کیا میرے بریلوی بھائی اس کا انکار کرتے ھیں اتنی بری اتھارٹی کہ اللہ کا حکم بھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ -
بھائی بریلوی ھو ، دیوبندی ھو ، اہلحدیث ھو . کوئی بھی ایسی بات کرے گا جو قرآن اور صحیح حدیث سے ٹکراۓ گی ٹھکرا دی جایا گی
-
امید ہے کہ یہ پوسٹ ڈیلیٹ نہیں ھو گی
-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت ۱)مرزا غلام احمد قادیانی مردود کذاب لکھتا ہے : ’’یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنخضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی ؐمع نبوت محمدیہ ؐکے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘ [ایک غلطی کا ازالہ:ص۸، روحانی خزائن:ج ۱۸ص ۲۱۲] اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی کذاب کا ایک جھوٹا دعویٰ یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ کے تمام کمالات اس کذاب و دجال میں متجلی و منعکس ہیں (نعوذ باﷲ)۔ چونکہ تمام کمالات میں نبوت بھی شامل ہے، لہٰذا اسے کوئی ایسا انسان نہ سمجھا جائے جس نے الگ سے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہو بلکہ اس کو بروزی نبی تصور کیا جائے۔ فرقہ بریلویہ کا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے لیئے یہی عقیدہ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب ،مرزا قادیانی کے لئے تو نہیں مگر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لیئے ایسا ہی عقیدہ رکھتے تھے۔ چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا : ’’حضور پر نور سیدنا غوث اعظم ،حضور اقدس و انور سید عالم ﷺ کے وارث کامل و نائب تام و آئینہ ذات ہیں کہ حضور پرنور ﷺ مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں ۔۔۔۔۔ تعظیم غوثیت عین تعظیم سرکاررسالت ہے۔۔۔۔۔‘‘ [ السنیۃ الانیفہ فی فتاویٰ افریقہ : ص ۹۷] پتا چلا کہ جس طرح مرزا قادیانی کا اپنے متعلق کفریہ دعویٰ یہ تھا کہ نبی ﷺ اپنی تمام صفات کے ساتھ اس میں متجلی و منعکس ہیں اسی طرح احمد رضا خان بریلوی کا یہی جھوٹا و کفریہ دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے متعلق تھا کہ نبی ﷺ اپنی تمام صفات کے ساتھ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ میں متجلی ہیں اور یہ تمام صفات ان تمام جمال، جلال ،کمال اور افضال کے ساتھ ہیںجو نبی ﷺ کو حاصل تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر کوئی یہ فضول اور بیہودہ تاویل کرنے کی کوشش کرے کہ مرزا قادیانی نے تو یہ جھوٹا دعویٰ اپنے متعلق کیا تھا جبکہ احمد رضا خان صاحب نے یہ دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لئے کیا ہے۔ تو عرض ہے کہ جو بات مرزا کے لیئے کفر تھی وہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لیئے ماننا کس طرح عین تعظیم رسالت ہو گئی ؟ جس طرح مرزا کو نبی یا نبی ﷺ کی صفات کا عکس اور اس میں متجلی ماننا کفر ہے اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو نبی ماننا یا نبی ﷺ کی جمیع صفات کاعکس اور ان میں متجلی ماننا بھی عین کفر ہے۔ تنبیہ: بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا: ’’۔۔۔۔صدیق اکبرؓ۔۔۔۔عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔اور عثمان ؓ۔۔۔۔اور علی مرتضےٰؓ۔۔۔۔اور سیداشباب الجنۃحسنینؓ جن کا مجموعہ بعینہ جمال ِ با کمال آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ تھا۔۔۔۔‘‘ [سیفِ چشتیائی:ص۱۵] ملاحظہ فرمائیں کہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے نزدیک تو ابوبکر صدیق ، عمر فاروق،عثمان ، علی اور حسن و حسین رضوان اللہ اجمعین جیسے جلیل القدر اور افضل الخلق بعد الانبیاء صحابہ کرام کا مجموعہ نبی ﷺ کے جمال با کمال کا ہی آئینہ بن سکا جبکہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کی اکیلی ذات، نبی ﷺ کی تمام صفات صرف مع جمال ہی نہیں بلکہ جلال و کمال اور افضال کابھی تجلی خانہ و آئینہ قرار پائی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ۲)بریلویوں کے محقق العصر مفتی محمد خان قادری نے لکھا: ’’اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے۔ کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی نبی نہیں آ سکتا۔ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے۔اور یہ کہے اور مانے کہ آپ کے بعد نیا نبی آ سکتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔‘‘ [مجلہ انوار رضا، تاجدار بریلی نمبر۲۰۰۳ء:ص۶۹] اس سے معلوم ہوا کہ i) نبی ﷺ کو آخری نبی ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔ ii) نبی ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی یا بروزی نبی ہرگز نہیں آ سکتا اور جو اس کے خلاف ایسا عقیدہ رکھے یا کسی بڑی سے بڑی شخصیت کے مقام کو مرتبہ نبوت کا ظل یا بروز مانے یعنی ظلی یا بروزی نبی مانے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ فرقہ بریلویہ کاشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو ظلی نبی ماننا اب بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: ’’یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفعیہ حضور پر نور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظل مرتبہ نبوت ہے۔‘‘ [عرفان شریعت:ص۸۴] اس عبارت سے معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب بریلوی کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا مقام، مرتبہ نبوت کا ظل ہے۔ ایک ہے مرتبہ نبوت اور ایک ہے ظل مرتبہ نبوت،جو مرتبہ نبوت پر ہو وہ نبی کہلاتا ہے اور جو ظل مرتبہ نبوت پر ہو وہ ظلی نبی ٹھہرا۔ گویا بریلویوں کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ جیلانیؒ ظلی نبی تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کسی کو بھی نبی ﷺ کے بعد نبی ماننا ہی کفر اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا عقیدہ نہیں بلکہ جو کوئی کسی کو ظلی نبی مانے یا اس درجہ و مقام پر سمجھے وہ بھی ختم نبوت کا انکاری اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس بات کا اقرارخود بریلوی محققین کو بھی ہے جیسا کہ مفتی محمد خان قادری صاحب کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مگر افسوس کہ اپنے ہی اعلیٰ حضرت اسی کفریہ اور دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والے عقیدے کے حامل نکلے۔ بریلویوں کے نئے نئے نبی ۳)بریلویوں کے ثقہ و مستند پیر و مرشد خواجہ غلام فرید چشتی نے کہا: ’’حضرت قبلہ ٔعالم مہاروی بھی اتقاء میں یگانۂ روزگار تھے۔ جس طرح ایک نبی ٔمرسل صاحب مذہب ہوتا ہے۔ آپ بھی نبی مرسل کی طرح مبعوث کئے گئے تھے۔‘‘ [اشاراتِ فریدی ترجمہ مقابیس المجالس:ص ۸۷۲۔۸۷۱] شیخ اور پیر کے نام کا کلمہ ۴)خواجہ غلام فرید چشتی نے کہا: ’’حضرت مولانا فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے حضرت شیخ کے تمام مریدین برگزیدہ تھے اور محبت شیخ میں اس قدر محو تھے کہ کلمہ طیبہ میں ’’محمد رسول اللہ‘‘حضرت شیخ کے ڈر سے کہتے تھے ورنہ ان کا جی چاہتا تھاکہ شیخ کے نام کا کلمہ پڑھیں۔‘‘ [اشاراتِ فریدی ترجمہ مقابیس المجالس:ص ۶۷۱] اپنے تسلیم شدہ اکابرین کا تذکرہ کرتے ہوئے مشہور بریلوی عالم و محقق عبد الحکیم شرف قادری لکھتے ہیں: ’’بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی قدس سرہ (چاچڑاں شریف)‘‘ [تذکرہ اکابر اہلسنت:ص۳۲۱] نیز عبدالحکیم شرف قادری بریلوی نے ’’اشاراتِ فریدی‘‘ (ترجمہ مقابیس المجالس) کو بھی خواجہ غلام فرید چشتی کے ملفوظات تسلیم کر رکھا ہے۔ دیکھئے تذکرہ اکابر اہلسنت(ص۲۲۳) بریلویوں کے شیخ الحدیث و التفسیر فیض احمد اویسی نے بھی ’’اشاراتِ فریدی‘‘ (ترجمہ مقابیس المجالس) کوخواجہ غلام فرید چشتی کے ملفوطات تسلیم کر رکھا ہے۔ دیکھئے التذکار السعید(ص۶۴۔۶۵) بحوالہ تذکرہ اکابر اہلسنت(حاشیہ ص۲۲۳) بریلویوں کے پیر سید نصیر الدین نصیرگولڑوی (سابقہ سجادہ نشین، آستانۂ عالیہ غوثیہ مہریہ، گولڑہ شریف ) لکھتے ہیں: ’’وابستگانِ سلسلہ ٔ چشتیہ کے نزدیک بالعموم اور بصیر پوری و سیالوی صاحب کے نزدیک بالخصوص مستند و حجت کتاب مقابیس المجالس‘‘ [لطمۃ الغیب:ص ۲۱۰] بریلویوں کے تسلیم و توثیق شدہ نئے کلمے ۵)کوئی یہ نہ سمجھے کہ نیاکلمہ پڑھوانے کی کسر رہ گئی ہے۔لہٰذا بریلویوں کی مصدقہ و تسلیم شدہ کتب سے ان کے ایجادو توثیق کردہ نئے کلمے پیش ِ خدمت ہیں۔ 1۔شبلی رسول اللہ (نعوذ باللہ) (iبریلویوں کے سلطان المشائخ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا ء نے فرمایا: ’’ایک شخص شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ میں آپ کا مرید ہوتا ہوں ۔۔۔۔(حضرت شیخ ) شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا تو کلمہ طیبہ کس طرح پڑھتا ہے ۔مرید نے جواب دیا کہ میں اس طرح پڑھتا ہوں ۔ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ۔ شبلی بولے اس طرح پڑھ لا الٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ مرید نے فوراً اسی طرح پڑھ دیا ۔ اس کے بعد شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شبلی آنخضرت ﷺ کے ادنیٰ چاکروں میں سے ایک ہے ۔ اللہ کے رسول تو وہی ہیں میں تو تیرے اعتقاد کا امتحان کر رہا تھا۔‘‘ [فوائد الفواد، پانچویں جلد آٹھویں مجلس:ص۳۹۹] احمد رضا خان بریلوی نے لکھا: ’’حضرت محبوب الٰہی کے ملفوظاتِ کریمہ فوائد الفواد شریف کہ حضور کے مرید رشید حضرت میر حسن علا سنجری قدس سرہ کے جمع کئے ہوئے ہیں ان میں بھی حضور کا صاف ارشاد مذکور ہے۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۱ص۵۶۴] ایک اور جگہ احمد رضا خان بریلوی نے فوائد الفواد سے اپنے حضور حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کا ایک ارشاد نقل کرنے کے بعد کہا: ’’حضور ممدوح کے یہ ارشادات ِ عالیہ ہمارے لیے سند کافی۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۴ص۸۰] (iiبریلویوں کے امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا: ’’شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا۔ کہ پڑھلاالہ الاللہ۔ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی ۔ آپ نے اس کوبھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں ۔تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولاکہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پرسمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی ؐ کا ہی ذکر فرماتے ہیں۔‘‘ [منازل الابرار:ص۱۰۶] جماعت علی شاہ کے خلیفہ حکیم محمد شریف نے اس پورے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا: ’’الغرض یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔عوام نہیں سمجھ سکتے۔ خواص اور سالکانِ طریقت کو ان چیزوں کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ [منازل الابرار:ص۱۰۶] بریلوی پیر علی حسین شاہ نقش ِ لاثانی کی تصدیق و تائید کے ساتھ دربارِ پیر جماعت علی شاہ لاثانی (علی پور سیداں)سے شائع ہونے والی کتاب ’’انوارِ لاثانی کامل‘‘ (ص۵۸۵) میں حکیم محمد شریف کو پیر جماعت علی شاہ لاثانی کا خلیفہ تسلیم کیا گیا ہے۔ جماعت علی شاہ کے خلیفہ مجازحکیم محمد شریف نے اپنی اس کتاب کے متعلق لکھا: ’’حضرت قبلہ حکیم خادم علی صاحب مد ظلہ العالی جلوہ آرائے مطب برلب سڑک بنام گرامی خادم علی روڈ بمقام سیالکوٹ نے مجموعہ افکار فقیر کا ملاحظہ اور رموزانہ بلیغ فرماتے ہوئے تہ دل سے صحت کی تاکید کی اور با اشتیاق خود اشاعت کی تاکید فرمائی۔‘‘ [منازل الابرار:ص۳] گویا یہ کتاب ’’منازل الابرار‘‘ سیالکوٹ کے مشہور بریلوی بزرگ حکیم خادم علی کی بھی تصدیق و تائید شدہ ہے اور یہ حکیم خادم علی بریلویوں کے امیر ملت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے خلیفہ اور بریلوی اکابرین میں سے ہیں۔ دیکھئے تذکرہ اکابر اہلسنت (ص۱۳۵) 2۔چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ) (iبریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا: ’’سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہؐ ہو کر’’لا الہ الاللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘کے ترنم میں آتا ہے۔‘‘ [تحقیق الحق:ص۱۲۷] ii) خواجہ غلام فرید چشتی لکھتے ہیں: ’’ایک شخص خواجہ معین الدین چشتی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اپنا مرید بنائیں۔ فرمایا کہہ لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں چشتی اللہ کا رسول ہے۔‘‘[فوائدِ فریدیہ: ص ۸۳] خواجہ غلام فرید کی کتاب ’’فوائد فریدیہ‘‘ کے متعلق عبد الحکیم شرف قادری نے لکھا: ’’مسلکِ توحید اور اعتقادی مسائل پر بہترین کتاب۔‘‘ [تذکرہ اکابر اہلسنت:ص۳۲۳] iii) خواجہ معین الدین چشتی نے مرید ہونے کے لئے آنے والے شخص کو کہا: ’’آپ نے فرمایاکہ تو کلمہ کس طرح پڑھتا ہے؟اس نے کہالا الہ الاللہ محمد رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا یوں کہو! لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ۔اس نے اسی طرح کہا۔ خواجہ صاحب نے اسے بیعت کر لیااور خلعت و نعمت دی اور بیعت کے شرف سے مشرف کیا۔‘‘ [فوائد السالکین:ص۲۷] اس کے بعد موجود ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی نے وضاحت کی کہ کلمہ اصلی وہی ہے جو پہلا تھا اور چشتی رسول اللہ کا کلمہ صرف مرید کا اعتقاد جانچنے کے لئے جان بوجھ کرپڑھایاگیا۔ نیز چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھانے اور مرید کا اسے پڑھ لینے کے متعلق کہا: ’’چونکہ تو مرید ہونے کیلئے آیا ہے اور تجھے مجھ پر یقین کامل تھا۔ اس لئے فوراً تو نے ایسا کہہ دیااس لئے سچا مرید ہو گیا۔ اور درحقیقت مرید کا صدق بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اپنے پیرکی خدمت میں صادق اور راسخ رہے۔‘‘ [فوائد السالکین:ص۲۷] بریلویوں کی معروف تنظیم ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے علماء و محققین پر مشتمل مجلس المدینۃ العلمیہ نے ’’فوائد السالکین‘‘ کو خواجہ معین الدین چشتی کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات تسلیم کر رکھا ہے۔دیکھئے ملفوظات اعلیٰ حضرت مع تخریج و تسہیل(ص۴۲) بریلویوں کے ترجمان مسلک اعلیٰ حضرت حسن علی رضوی نے خواجہ غلام فرید کی کتاب ’’فوائد فریدیہ‘‘ سے پیش کیے گئے ’’چشتی رسول اللہ‘‘ کے کفریہ کلمہ کی وضاحت میں لکھا: ’’پھر خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ پر کیا اعتراض ہے جبکہ یہ کلمہ اپنی تفصیل کے ساتھ ’’فوائد السالکین‘‘ملفوظات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مرتبہ خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر میں موجود ہے۔‘‘ [برقِ آسمانی بر فتنہ شیطانی:ص۱۳۸] iv)بریلویوں کے زبدۃ العارفین میرعبدالواحد بلگرامی نے خواجہ معین الدین چشتی کے حوالے سے لکھ رکھا ہے کہ بیعت کی غرض سے حاضر ہونے والے شخص کے کمال ،اعتقاد اور صدق کوآزمانے کے لیے کہا گیا: ’’اگر تم کہو کہ ’’لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘تو میں تمہیں مرید کر لوں ۔ وہ شخص چونکہ دھن کا پکا اور سچا تھااس نے فوراً اقرار کر لیا۔خواجہ نے بیعت کے لیے اسے اپناہاتھ دیااور اسے بیعت کر لیا۔‘‘ [سبع سنابل:ص۲۷۸۔۲۷۹] میر عبدالواحد بلگرامی نے چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھانے اور مرید کا اسے پڑھ لینے کے متعلق کہا: ’’لہٰذا پیر کے ساتھ صدق یہی ہے کہ ظاہر و باطن کی کسی حالت پر زرہ برابر اعتراض نہ کرے۔‘‘ [سبع سنابل:ص۲۷۹] گویا اگر پیر اپنے نام کا کلمہ بھی پڑھائے تو مرید کو چاہئے کہ پڑھ لے اور اپنے پیر پر اعتراض نہ کرے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بریلویوں کے امام احمد رضا خان بریلوی نے لکھا: ’’سید سادات بلگرام حضرت مرجع الفریقین ، مجمع الطریقین ،حبر شریعت،بحر طریقت،بقیۃ السلف،حجۃ الخلف سیدنا و مولانا میر عبدالواحد حسینی زیدی واسطی بلگرامی قدس اللہ تعالیٰ سرہ السامی نے کتاب مستطاب سبع سنابل شریف تصنیف فرمائی کہ بارگاہِ عالم پناہ حضور سید المرسلین ﷺ میں موقع قبولِ عظیم پر واقع ہوئی۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۴۸۴۔۴۸۵] نیز دیکھئے فتاویٰ رضویہ(ج۱۴ص۶۵۷) عبدالحکیم شرف قادری بریلوی نے لکھا: ’’سبع سنابل عمدہ ترین کتابے است در عقائد و تصوف۔۔۔۔عظیم ترین امتیاز کہ سبع سنابل را حاصل شد این است کہ درگاہِ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقبول و منظور شد۔‘‘ [عظمتوں کے پاسبان:ص۱۶] اس فارسی عبارت کا سلیس مطلب یہی ہے کہ (میر عبدالواحد بلگرامی کی کتاب) سبع سنابل عقائد و تصوف کی عمدہ ترین کتاب ہے اور اس کا عظیم ترین امتیاز یہ کہ سبع سنابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے قبول و منظور شدہ ہے۔ 3۔انگریز رسول اللہ (نعوذ باللہ) بریلویوں کے شیر ربانی شیر محمد شرقپوری نے غصہ میں آ کر ایک نوجوان کو کہا: ’’کہو لا الہ الاللہ انگریز رسول اللہ ، لا الہ الاللہ لندن کعبۃ اللہ۔۔۔۔‘‘ [انقلاب الحقیقت :ص۳۱، احوالِ مقدسہ:ص۵۰، منبع انوار:ص۸۱] کتاب انقلاب الحقیقت مئولفہ صاحبزادہ عمر بیربلوی خلیفہ مجاز شیر محمد شرقپوری کتاب احوالِ مقدسہ مئولفہ قا ضی ظہور احمد اختر۔ اس کتاب پر بریلویوں کے مشہور و معروف عالم دین محمد منشاء تابش قصوری کی تقریظ اور مئولف و کتاب کی تعریف و توصیف بھی موجود ہے۔ کتاب منبع انوار مرتبہ صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری عقیدہ ختم نبوت اسلام و ایمان کا انتہائی اہم و بنیادی عقیدہ ہے۔ مگر فرقہ بریلویہ کی انتہائی معتبر و مستندکتب میں اس کے صریح مخالف و معارض عقائد و نظریات کی ایک سنگین تعداد پائی جاتی ہے۔جس کے کافی ثبوت مع مکمل حوالہ جات پیش کر دیے گئے ہیں۔ ’’لاالہ الاللہ شبلی رسول اللہ‘‘، ’’لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘ اور ’’لا الہ الاللہ انگریز رسول اللہ‘‘کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کی باطل تاویل میں کسی قسم کا غلبہ حال، شطح یا مستی کا مردود بہانہ بھی فضول اور ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ ان تینوں کفریہ و گستاخانہ کلمات کے پڑھانے اور پڑھنے والوں کا ان خبیث کلمات کو جان بوجھ کر محض مرید کے صدق اور اعتقاد کو آزمانے یا محض اپنا غصہ دکھانے کے لئے بلا اکراہ پڑھنا پڑھانا مذکور ہے۔ نیز ان کو نقل کرنے والوں نے بھی بطور استدلال و تائید اور بطور حجت ان کفریہ و گستاخانہ کلمات کو پیش کر رکھا ہے۔ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھا: ’’ان تمام عبارات میں تصریح ہے کہ گستاخانہ کلمات بولنے والا جو مراد بھی بیان کرے اس سے حکم کفر ٹل نہیں سکتا۔ جو آدمی کہہ رہا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اپنی مراد بھی بتلائے پھر بھی فقہاء اس کو کافر سمجھ رہے ہیں۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۱ص۳۶۵] لہٰذا ’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے والے اور ان کو صحیح سمجھنے والے چاہے جو مرضی بہانے بنائیں اور جو مرضی اپنی مراد بیان کریں ان کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے کی وجہ سے ان پر جو حکم کفر عائد ہوتا ہے ہرگز ٹلنے والا نہیں۔ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے ایک اور جگہ لکھا: ’’نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب ایک آدمی کفریہ کلمہ بولے اور کچھ لوگ اس کی تائید کریں اور اس کو کفر نہ سمجھیں تو وہ کفریہ کلمہ سب کی طرف منسوب ہو گااور یہی سمجھا جائے گا کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۲ص۵۰] اس بریلوی اصول سے بھی معلوم ہوا کہ ’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے والے اور ان کو بطور تائید و حجت نقل کرنے والے اور ان صریح کفریہ کلمات کو کفر نہ سمجھنے والے سب کے سب اس جرم میں شریک ہیں اور یہ کفر و گستاخی ان سب کا عقیدہ سمجھی جائے گی۔ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا: ’’نشہ کی بیہوشی میں اگر کسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بیہوشی کافر نہ کہیں گے نہ سزائے کفر دیں گے، مگر نبی صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشہ کی بیہوشی سے بھی صادر ہوا تو اسے معافی نہ دیں گے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۱۴ص۳۰۱] غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھا: ’’اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ایک ہے باقی کلمات کفر کا حکم اور ایک ہے سرکار(ﷺ)کی شان میں گستاخی کرنے کا حکم ۔ تو جو آدمی سرکار کی شان میں گستاخی کرے گاوہ چاہے نشہ میں ہو یا اس کی زبان قابو میں نہ ہو پھر بھی اس کو کافر سمجھا جائے گا۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۲ص۳۸۶] ان بریلوی اصولوں سے واضح ہوا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی اور توہین دوسرے کلمات کفر کی طرح نہیں بلکہ اس کا حکم باقی کفریات سے کہیں زیادہ درجہ سخت ہے۔ باقی کلمات کفر کا مرتکب اگر ہوش میں نہ ہوتو کافر قرار دیا جائے گا نہ کفر کی سزا پائے گا مگر جو شخص نبی ﷺ کی گستاخی و توہین کا مرتکب ہو چا ہے ہوش میں نہ ہو یا اس کی زبان قابو میں نہ ہو تب بھی معافی و خلاصی نہیں پا سکتا اور کفر کا مرتکب و کافرسمجھاجائے گا۔ اور جو جان بوجھ کر اس کفر و گستاخی کا مرتکب ہو اس کا حکم کس قدر سنگین ہو گا جاننا مشکل نہیں۔ ان اپنے تسلیم شدہ اصولوں کے باوجود بریلوی حضرات اگر’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ جیسے سنگین کفریہ و گستاخانہ کلمات کی من گھڑت باتوں کے سہارے تاویل کریں اور ان کے قائلین کا دفاع کریں تو یہ سوائے گمراہی و ضلالت کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے تمام کفر یہ و گستاخانہ کلمات اور ان کی تائید سے اپنی پناہ میں رکھے اور صرف سلف صالحین کے منہج کے مطابق کتاب و سنت کو اپنا عقیدہ و عمل بنانے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
-
1 - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مات وأبو بكر بالسنح - قال إسماعيل : يعني بالعالية - فقام عمر يقول : والله ما مات رسول الله صلى اللهعليه وسلم ، قالت : وقال عمر : والله ما كان يقع في نفسي إلا ذاك ، وليبعثنه الله ، فليقطعن أيدي رجال وأرجلهم . فجاء أبو بكر فكشف عن رسولالله صلى الله عليه وسلم فقبله ، قال : بأبي أنت وأمي ، طبت حيا ميتا ، والذي نفسي بيده لا يذيقنك الله الموتتين أبدا ، ثم خرج فقال : أيها الحالفعلى رسلك ، فلما تكلم أبو بكر جلس عمر ، فحمد الله أبو بكر وأثنى عليه ، وقال : ألا من كان يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا قد مات ، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت . وقال : { أنك ميت وإنهم ميتون } . وقال : { وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفأن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين } . فنشج الناس يبكون ، قال : واجتمعت الأنصار إلى سعد بن عبادة في سقيفة بني ساعدة ، فقالوا : منا أمير ومنكم أمير ، فذهب إليهم أبو بكر وعمر بن الخطاب وأبو عبيدة بن الجراح ، فذهب عمر يتكلم فأسكته أبو بكر ، وكان عمر يقول : والله ما أردت بذلك إلا أني قد هيأت كلاما قد أعجبني ، خشيت أن لا يبلغه أبو بكر ، ثم تكلم أبو بكر فتكلم أبلغ الناس ، فقال في كلامه : نحن الأمراء وأنتم الوزراء ، فقال حباب بن المنذر : لا والله لا نفعل ، منا أمير ، ومنكم أمير ، فقال أبو بكر : لا ، ولكنا الأمراء ، وأنتم الوزارء ، هم أوسط العرب دارا ، وأعربهم أحسابا ، فبايعوا عمر أو أبا عبيدة بن الجراح ، فقال عمر : بل نبايعك أنت ، فأنت سيدنا ، وخيرنا ، وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأخذ عمر بيده فبايعه ، وبايعه الناس ، فقال قائل : قتلتم سعدا ، فقال عمر : قتله الله. وقال عبد الله بن سالم ، عن الزبيدي : قال عبد الرحمن بن القاسم : أخبرني القاسم : أن عائشة رضي الله عنها قالت : شخص بصر النبي صلىالله عليه وسلم ثم قال : ( في الرفيق الأعلى ) . ثلاثا ، وقص الحديث . قالت : فما كانت من خطبتهما من خطبة إلا نفع الله بها ، لقد خوف عمر الناس ، وإن فيهم لنفاقا ، فردهم الله بذلك . ثم لقد بصر أبو بكر الناس الهدى وعرفهم الحق الذي عليهم ، وخرجوا به يتلون : { وما محمد إلارسول قد خلت من قبله الرسل - إلى - الشاكرين } . الراوي: عائشة المحدث: - المصدر: - الصفحة أو الرقم: 3667 خلاصة حكم المحدث: [صحيح] 2 - كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر ببابي ربما يلقي الكلمة ينفع الله بها فمر ذات يوم فلم يقل شيئا ثم مر أيضا فلم يقل شيئا مرتين أو ثلاثا قلت يا جارية ضعي لي وسادة على الباب وعصبت رأسي فمر بي فقال يا عائشة ما شأنك قلت أشتكي رأسي قال أنا وارأساه فذهب فلم يلبثإلا يسيرا حتى جيء به محمولا في كساء فدخل وبعث إلى النساء فقال إني قد اشتكيت وإني لا أستطيع أن أدور بينكن فأذن لي فلأكون عند عائشة فأذن له فكنت أوصبه ولم أوصب أحدا قبله فبينما رأسه ذات يوم على منكبي إذ مال رأسه نحو رأسي فظننت أنه يريد من رأسي حاجة فخرجت منفيه نطفة باردة فوقعت على ثغرة نحري فاقشعر لها جلدي فظننت أنه غشي عليه فسجيته ثوبا فجاء عمر والمغيرة بن شعبة فاستأذنا فأذنت لهما وجذبت الحجاب فنظر عمر إليه فقال واغشياه ما أشد غشي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قام فلما دنوا من الباب قال المغيرة لعمر مات رسولالله صلى الله عليه وسلم قال كذبت بل أنت رجل تحوسك فتنة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يموت حتى يفني الله المنافقين ثم جاء أبو بكر فرفع الحجاب فنظر إليه فقال إنا لله وإنا إليه راجعون مات رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أتاه من قبل رأسه فحدر فاه وقبل جبهته قال واصفياه ثم رفع رأسه وحدر فاه وقبل جبهته وقال واخليلاه مات رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج إلى المسجد وعمر يخطب الناس ويقول إن رسول الله صلىالله عليه وسلم لا يموت حتى يفني الله المنافقين فتكلم أبو بكر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال إن الله عز وجل يقول { إنك ميت وإنهم ميتون } حتى ختم الآية { وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم . . . } الآية من كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت ومنكان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات فقال عمر إنها لفي كتاب الله ما شعرت أنها في كتاب الله عز وجل ثم قال عمر يا أيها الناس هذا أبو بكر وهو ذو شيبة المسلمين فبايعوه فبايعوه الراوي: عائشة المحدث: المصدر: - الصفحة أو الرقم: 9/34 خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر عند امرأته ابنة خارجة بالعوالي فجعلوا يقولون لم يمت النبي صلى الله عليه وسلم إنما هو بعض ما كان يأخذه عند الوحي فجاء أبو بكر فكشف عن وجهه وقبل بين عينيه وقال أنت أكرم على الله من أن يميتك مرتين قد والله مات رسول اللهصلى الله عليه وسلم وعمر في ناحية المسجد يقول والله ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يموت حتى يقطع أيدي أناس من المنافقين كثير وأرجلهم فقام أبو بكر فصعد المنبر فقال من كان يعبد الله فإن الله حي لم يمت ومن كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات { وما محمد إلا رسول قد خلتمن قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين } قال عمر فلكأني لم أقرأهاإلا يومئذ الراوي: عائشة المحدث المصدر:\الصفحة أو الرقم: 1329 خلاصة حكم المحدث: صحيح دون جملة الوحي أن أبا بكر رضي الله عنه أقبل على فرس من مسكنه بالسنح ، حتى نزل فدخل المسجد ، فلم يكلم الناس حتى دخل على عائشة ، فتيمم رسولالله صلى الله عليه وسلم وهو مغشي بثوب حبرة ، فكشف عن وجهه ثم أكب عليه فقبله وبكى ، ثم قال : بأبي أنت وأمي ، والله لا يجمع الله عليك موتتين ، أما الموتة التي كتبت عليك فقد متها . قال الزهري : حدثني أبو سلمة ، عن عبد الله بن عباس : أن أبا بكر خرج وعمر بن الخطاب يكلم الناس ، فقال : اجلس يا عمر ، فأبى عمر أن يجلس ، فأقبل الناس إليه وتركوا عمر ، فقال أبو بكر : أما بعد ، فمن كان منكم يعبد محمدا صلى اللهعليه وسلم فإن محمدا قد مات ، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حي لا يموت . قال الله : وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل - إلى قوله - الشاكرين . وقال : والله لكأن الناس لم يعلموا أن الله أنزل هذه الآية حتى تلاها أبو بكر ، فتلقاها منه الناس كلهم ، فما أسمع بشرا من الناس إلايتلوها . فأخبرني سعيد بن المسيب : أن عمر قال : والله ما هو إلا أن سمعت أبا بكر تلاها فعقرت ، حتى ما تقلني رجلاي ، وحتى أهويت إلى الأرض حين سمعته تلاها ، علمت أن النبي صلى الله عليه وسلم قد مات . الراوي: عائشة المحدث: المصدر: - الصفحة أو الرقم: 4452 خلاصة حكم المحدث: [صحيح] أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مات وأبو بكر بالسنح ، فجاء أبو بكر ، فكشف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقبله قال : بأبي أنت وأمي ، طبت حيا وميتا ، ثم خرج ، فحمد الله ، وأثنى عليه ، وقال : ألا من كان يعبد محمدا ، فإن محمدا قد مات ، ومن كان يعبد الله ، فإن الله حي لا يموت ، وقال : { إنك ميت وإنهم ميتون } وقال عز وجل : { وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل } إلى قوله { الشاكرين } قال : فنشج الناس يبكون ، قال : واجتمعت الأنصار إلى سعد بن عبادة في سقيفة بني ساعدة ، فقالوا : منا أمير ، ومنكم أمير ، فذهب إليهم أبو بكر ، وعمر بن الخطاب ، وأبو عبيدة بن الجراح ، فذهب عمر يتكلم ، فأسكته أبو بكر ، ثم تكلم أبو بكر فتكلم أبلغ الناس ، فقال في كلامه : نحن الأمراء وأنتم الوزراء ، فبايعوا عمر وأبا عبيدة ، فقال عمر : بل نبايعك أنت ، فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأخذ عمر بيده ، فبايعه ، وبايعه الناس الراوي: عائشة المحدث: - المصدر: - الصفحة أو الرقم: 5/323 خلاصة حكم المحدث: صحيح قدم الجارود بن عبد الله وكان سيدا في قومه مطاعا عظيما في عشيرته مطاع الأمر رفيع القدر عظيم الخطر ظاهر الأدب شامخ الحسب بديع الجمال حسن الفعال ذا منعة ومال في وفد عبد القيس من ذوي الأخطار والأقدار والفضل والإحسان والفصاحة والرهبان كان رجل منهم كالنخلة السحوق على ناقة كالفحل العتيق قد جنبوا الجياد وأعدوا للجلاد مجدين في مسيرهم حازمين في أمرهم يسيرون ذميلا يقطعون ميلا فميلا حتى أناخوا عند مسجد النبي صلى الله عليه وسلم فأقبل الجارود على قومه والمشايخ من بني عمه فقال يا قوم هذا محمد الأغر سيد العرب وخير ولد عبد المطلب فإذا دخلتم عليه ووقفتم بين يديه فأحسنوا عنده السلام وأقلوا عنده الكلام فقالوا بأجمعهم أيها الملك الهمام والأسد الضرغام لن نتكلم إذا حضرت ولن نجاوز ما أمرت فقل ما شئت فإنا سامعون اعمل ما شئت فإنا تابعون وقال الصابوني مبايعون فنظر الجارود في كل كمي صنديد قددوموا العمائم وتزوا بالصوارم يجرون أسيافهم ويستحبون أذيالهم يتناشدون الأشعار ويتذاكرون مناقب الأخيار لا يتكلمون طويلا ولا يسكتون عيا إن أمرهم ائتمروا وإن زجرهم ازدجروا وقال الصابوني انزجروا كأنهم أسد يقدمها ذو لبدة مهول حتى مثلوا بين يدي النبي صلى الله عليه وسلمفلما دخل القوم المسجد وأبصرهم أهل المشهد دلف الجارود أمام النبي صلى الله عليه وسلم وحسر لثامه وأحسن سلامه ثم أنشأ يقول يا نبي الهدى أتتك رجال قطعت فدفدا وآلا فآلا وقال البيهقي مهمها وطوت نحوك الصحاصح طرا لا تخال الكلال قبل كلالا كل دهماء يقصر الطرف عنها أرقلتها قلاصنا إرقالا وطوتها الجياد تحمحم فيها بكماة كأنجم تتلالا تبتغي دفع بأس يوم عبوس أوجل القلب ذكره ثم هالا فلما سمع النبي عليهالصلاة والسلام فرح فرحا شديدا وقربه وأدناه ورفع مجلسه وحياه وأكرمه وقال يا جارود لقد تأخر بك وبقومك الموعد وطال بكم الأمد قال والله يا رسول الله لقد أخطأ من أخطأك قصده وعدم رشده وتلك أيم الله أكبر خيبة وأعظم حوية والرائد لا يكذب أهله ولا يغش نفسه لقد جئت بالحق ونطقت بالصدق والذي بعثك بالحق نبيا واختارك للمؤمنين وليا لقد وجدت وصفك في الإنجيل ولقد بشر بك ابن البتول فطول التحية لك والشكر لمن أكرمك وأرسلك لا أثر بعد عين ولا شك بعد يقين مد يدك فأنا أشهد أن لا إله إلا الله وأنك محمد رسول الله قال فآمن الجارود وآمن من قومه كل سيد فسر النبي صلى الله عليه وسلم سرورا وابتهج حبورا وقال يا جارود هل في جماعة وفد عبد القيس من يعرف لنا قسا قال كلنا نعرفه يا رسول الله وأنامن بين قومي كنت أقفو أثره وأطلب خبره كان قس سبطا من أسباط العرب صحيح النسب فصيحا إذا خطب ذا شيبة حسنة عمر سبعمائة سنة يتقفر القفار لا تكنه دار ولا يقره قرار يتحسى في تقفره بيض النعام ويأنس بالوحش والهوام يلبس المسوح ويتبع السياح على منهاج المسيح لا يفتر منالرهبانية يقر لله تعالى بالوحدانية يضرب بحكمته الأمثال ويكشف به الأهوال وتتبعه الأبدال أدرك رأس الحواريين سمعان فهو أول من تأله منالعرب وأعبد من تعبد في الحقب وأيقن بالبعث والحساب وحذر سوء المنقلب والمآب ووعظ بذكر الموت وأمر بالعمل قبل الفوت الحسن الألفاظ الخاطب بسوق عكاظ العالم بشرق وغرب ويابس ورطب أجاج وعذب كأني أنظر إليه والعرب بين يديه يقسم بالرب الذي هو له ليبلغن الكتاب أجله وليوفين كل عامل عمله وأنشأ يقول هاج للقلب من جواه ادكار وليال خلالهن نهار ونجوم يحثها قمر الليل وشمس في كل يوم تدار ضوءها يطمس العيون وارعاد شديد في الخافقين مطار وغلام وأشمط ورضيع كلهم في التراب يوما يزار وقصور مشيدة حوت الخير وأخرى خلت لهن قفار وكثير مما يقصر عنه جوسة الناظر الذي لا يحار والذي قد ذكرت دل على الله نفوسا لها هدا واعتبار فقال النبي عليه الصلاة والسلام على رسلك يا جارود فلست أنساه بسوق عكاظ على جمل له أورق وهو يتكلم بكلام موثق ما أظن أني أحفظه فهل فيكم يا معشر المهاجرين والأنصار من يحفظ لنا منه شيئا وقال الصابوني يحفظه فوثب أبو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه قائما فقال يا رسول الله إني أحفظه وكنت حاضرا ذلك اليوم بسوق عكاظ حين خطب فأطنب ورغب ورهب وحذر وأنذر وقال في خطبته أيها الناس اسمعوا وعوا وإذا وعيتم فانتفعوا إنه من عاش مات ومن مات فات وكلما هو آت آت نبات ومطر وأرزاق وأقوات وآباء وأمهات وأحياء وأموات جميع وأشتات وآيات بعد آيات إن في السماء لخبرا وإن في الأرض لعبرا ليل داج وسماء ذات أبراج وأرض ذات ارتياج وبحار ذات أمواج ما لي أرى الناس يذهبون فلا يرجعون أرضوا بالمقام فأقاموا أم تركوا هناك فناموا أقسم قسما حقا لا حانثا فيه ولا آثما إن لله دينا هو أحب إليه من دينكم الذي أنتم عليه ونبيا قد حان حينه وأظلكم زمانه وأدرككم إبانه فطوبى لمن آمن به فهداه فويل لمن خالفه وعصاه ثم قال تبا لأرباب الغفلة من الأمم الخالية والقرون الماضية يا معشر إياد من الأب والأجداد منالمريض والعواد وأين الفراعنة الشداد أين من بنا وشيد وزخرف وجدد وغره المال والولد أين من طغى وبغى وجمع فأوعى وقال أنا ربكم الأعلى ألم يكونوا أكثر منكم أموالا وأبعد منكم آمالا وأطول منكم آجالا طحنهم الثرى بكلكله ومزقهم بتطاوله فبلت عظامهم بالية وبيوتهم خالية وعمرتها الذياب العادية وقال أبو صالح العاوية كلا بل هو الله الواحد المعبود ليس بوالد ولا مولود ثم أنشأ يقول في الذاهبين الأولين من القرون لنا بصائر لما رأيت مواردا للموت ليس لها مصادر ورأيت قومي نحوها تمضي الأصاغر الأكابر لا يرجع الماضي إلي ولا من الباقين غابر أيقنت أني لا محالة حيث يصير القوم صائر قال فجلس ثم قام رجل زاد أبو عبد الله من الأنصار بعده كأنه قطعة جبل ثم اتفقا فقالا ذو هامة عظيمة وقامة جسيمةقد دوم عمامته وأرخى ذؤابته منيف أنوف أشدق حسن الصوت فقال يا سيد المرسلين وصفوة رب العالمين لقد رأيت من قس عجبا وشهدت منهمرغبا فقال وما الذي رأيته منه وحفظته عنه فقال خرجت في الجاهلية أطلب بعيرا لي شرد مني أقفو أثره وأطلب خبره في تنائف وقال الصابوني وإسماعيل في فيافي وقالا حقائف ذات دعادع وزعازع وليس بها الركب وقال إسماعيل ليس للركب فيها مقيل ولا لغير الجن سبيل وإذا بموئل مهول في طود عظيم ليس به إلا البوم وأدركني الليل فولجته مذعورا لا آمن فيه حتفي ولا أركن إلى غير سيفي فبت بليل طويل كأنه بليل موصول أرقب الكوكب وأرمق الغيهب حتى إذا عسعس الليل وكان الصبح أن يتنفس هتف بي هاتف يقول يا أيها الراقد في الليل الأحم قد بعث الله نبيا في الحرم من هاشم أهل الوفاء والكرم يجلو دجنات الدياجي والبهم قال فأدرت طرفي فما رأيت له شخصا ولا سمعت له فحصا فأنشأت أقول يا أيها الهاتف في داجي الظلم أهلا وسهلا بك من طيف ألم بين هداك الله في لحن الكلم ماذا الذي تدعوا إليه يغتنم قال فإذا أنا بنحنحة وقائل يقول ظهر النور وبطل الزور وبعث الله تبارك وتعالى محمدا صلى الله عليه وسلم بالخير صاحب النجيب الأحمر والتاج والمغفر والوجه الأزهر والحاجب الأقمر والطرف الأحور صاحب قول شهادة أن لا إله إلا الله فذلك محمد المبعوث إلى الأسود والأبيض أهل المدر والوبر ثم أنشأ يقول الحمد لله الذي لم يخلق الخلق عبث لم يخلنا حينا سدى من بعد عيسى واكترث أرسل فينا محمدا خير نبي قد بعث صلى عليه الله ما حج له ركب وحث قال فذهلت عن البعير وألبسني السرور ولاح الصباح واتسع الإيضاح فتركت المور وأخذت الجبل فإذا أنا بالعتيق يشقشق إلى النوق فأخذت بخطامه وعلوت سنامه فمرح طاعة وهززته ساعة حتى إذا لغب وذل منه ما صعب وحميت الوسادة وبردت المزادة فإذا الزاد قد هش له الفؤاد بركته فبرك وأذنت له فترك في روضة خضرة نضرة عطرة ذات حوذان وقربان وعنقران وعبيثران زاد إسماعيل نعنع وشيح وقالا وحلي وأقاح وجثجاث وبرار وشقائق وبهار كأنما قد مات الجو بها مطيرا أو باكرها المزن بكورا فخلا لها شجر وقرارها نهر فجعل يرتع أبا وأصيد ضبا حتى إذا أكل وأكلت ونهلت ونهل وعللت وعل وحللت عقاله وعلوت جلاله وأوسعت مجاله فاغتنم الحملة ومر كالنبلة يسبق الريح ويقطع عرض الفسيح حتى أشرف بي على واد وشجر من شجر عاد مورقة مونقة قد تهدل أغصانها كأنها بريرها حب فلفل فدنوت فإذا أنا بقس بن ساعدة في ظل شجرة بيده قضيبمن أراك ينكت به الأرض وهو يترنم ويشعر زاد البيهقي وأبو صالح وهو يقول يا ناعي الموت والملحود في جدث علمهم من بقايا بزهم خرق دعهم فإن لهم يوما يصاح لهم فهم إذا انتبهوا من يومهم فرق حتى يعودوا بحال غير حالهم خلقا جديدا كما من قبله خلق منهم عراة ومنهم في ثيابهم منها الجديد ومنها المنهج الخلق قال فدنوت منه فسلمت عليه فرد علي السلام وإذا أنا بعين خرارة في الأرض خوارة ومسجد بين قبرين وأسدين عظيمين يلوذان به ويتمسحان بأبوابه وإذا أحدهما سبق الآخر إلى الماء فتبعه الآخر يطلب الماء فضربه بالقضيب الذي في يده وقال ارجع ثكلتك أمك حتى يشرب الذي ورد قبلك على الماء قال فرجع ثم ورد بعده فقلت له ما هذان القبران فقال هذان قبرا أخوين لي كانا يعبدان اللهتبارك وتعالى في هذا المكان لا يشركان بالله تبارك وتعالى شيئا فأدركهما الموت فقبرتهما وها أنا بين قبريهما حق ألحق بهما ثم نظر إليهما فتغرغرت عيناه بالدموع وانكب عليهما وجعل يقول ألم تريا أني بسمعان مفرد وما لي فيها من خليل سواكما خليلي هبا طال ما قد رقدتما أجدكما لا تقضيان كراكما ألم تريا أني بشمعان مفرد وما لي فيها من خليل سواكما مقيم على قبريكما لست بارحا طوال الليالي أو يجيب صداكما أبكيكما طول الحياة وما الذي يرد على ذي عولة إن بكاكما كأنكما والموت أقرب غائب بروحي في قبريكما قد أتاكما أمن طول نوم لا تجيبان داعيا كأن الذي يسقي العقار سقاكما فلو جعلت نفس لنفس وقاية لجدت بنفسي أن تكون فداكما فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم رحم الله قسا إني أرجو أن يبعثه الله عز وجل أمة وحده الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:- المصدر: - الصفحة أو الرقم: 3/428 خلاصة حكم المحدث: غريب أن أبا بكر رضي الله عنه خرج وعمر رضي الله عنه يكلم الناس ، فقال : اجلس ، فأبى ، فقال : اجلس ، فأبى ، فتشهد أبو بكر رضي الله عنه ، فمال إليه الناس وتركوا عمر ، فقال : أما بعد ، فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات ، ومن كانيعبد الله فإن الله حي لا يموت ، قال الله تعالى : { وما محمد إلا رسول - إلى - الشاكرين } . والله ، لكأن الناس لم يكونوا يعلمون أن الله أنزلها حتى تلاها أبو بكر رضي الله عنه ، فتلقاها منه الناس ، فما يسمع بشر إلا يتلوها . الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: - المصدر: - الصفحة أو الرقم: 1242 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
-
تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں! بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله! انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے: ﴿ ﴾ کہ ’’ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: کہ ’’(اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار مکہ) بھی مر جائیں گے۔‘‘ نیز فرمایا: کہ ’’(اے میرے حبیب! ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی عطا نہیں کی، تو جب آپ (افضل الشبر علیہ الصلاۃ والسلام) نے فوت ہونا ہے تو کیا یہ (کفار مکہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: کہ ’’یہ امتیں تھیں جو گزر چکیں، ان کے لئے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے جو تم نے کمایا۔‘‘ جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا:...صحيح البخاريکہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد تو مر چکے ہیں، اور جو شخص اللہ رب العٰلمین کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ لا زوال ہیں اور کبھی نہیں مریں گے، پھر آپ نے درج ذیل دو آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی جن کا ترجمہ یہ ہے: 1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔ 2. نہیں کہ محمد مگر رسول ہی، جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے (یعنی آ کر فوت ہوچکے) کیا اگر وہ (محمد) مر جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تم مرتد ہوجاؤ گے؟ اور جو اپنے قدموں پر پلٹا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘ ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کہ ’’آج زمیں پر جتنے لوگ موجود ہیں، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی نفس بھی سانس لینے والا (یعنی زندہ) نہیں ہوگا۔‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: « لا يبقى على وجه الأرض بعد مائة سنة ممن هو عليها اليوم أحد » اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » ... سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘ اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله کہ ’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام اور شہداء وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘ یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔ امام ابن کثیر شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں:کہ ’’یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ نعمتیں روحوں کیلئے ہیں۔ اور یہ زندگی بھی روحوں کی زندگی ہے، اور یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی، اور ان کی روحیں ان کے دنیاوی اجساد میں نہیں ہوں گی، اسی لئے وہ اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کے دنیاوی جسموں میں لوٹانے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ دوبارہ شہید ہوں (اور اللہ کے مزید انعامات حاصل کریں۔)‘‘ علماء لجنہ دائمہ فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "فتاوى اللجنة الدائمة" (1 / 173-174) کہ ’’انیباء اور شہداء کی زندگی اور اسی طرح دیگر تمام اولیاء کی زندگی برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یہ زندگی ہرگز اس زندگی کی طرح نہیں جو دنیا میں تھی۔‘‘اور شہیدوں کی برزخی زندگی کی بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی وراثت تقسیم کر دی جاتی ہے، ان کی بیویوں سے دیگر لوگ شادی کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان پر مردوں کے دیگر تمام احکامات جاری ہوتے ہیں۔ اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم!
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
سلام. پلیز پہلے یہ فیصلہ کریں کہ مردے سنتے ھیں یا نہیں سنتے اس سے ثابت کیا کرنا ہے آپ نے کیا ایس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ جو بھی دنیا سے چلا جاتا ہے وہ مدد گار بن سکتا ہے پہلے ایس کا فیصلہ کریں پھر بات آگے ھو گی -
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
مجھے یہ فورم اس وجہ سے پسند آیا ہے کہ یہاں کسسی کی بھی پوسٹ ڈیلیٹ نہیں ہوتی -
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
-
Kia Murday Suntay Hain...................
HozaifaMalik replied to Shizz's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
فتاوی عالمگیری کا فتوی: اسی طرح فتوی عالمگیری جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسےپانچ سو حنفی علما ء نے مرتب کیا ہے،اس میں لکھا ہے کہ: ''اکثر عوام میں یہ رواج ہے کہ وہ کسی نیک آدمی کی قبر پر جا کر نذر مانتے ہیں کہ اے فلاں بزرگ!اگر میری حاجت پوری ہو گئی تو اتنا سونا(یا کوئی اور چیز)تمہاری قبر پر چڑھائوں گا۔یہ نذر بالاجماع باطل ہے۔''پھر لکھا ہے: ''پس جو دینار و درہم اور چیزیں اولیاء کرام کی قبروں پر ان کا قرب حاصل کرنے (اور راضی کرنے )کیلئے لی جاتی ہیں وہ بالاجماع حرام ہیں۔'' حوالہ الفتاوی الھندیہ(المعروف)فتاوی عالمگیری:١/٢١٦،باب الاعکاف،طبع مصر) -
طاہرقادری نئی باتیں نئے انکشافات اور بریلوی فتوی کی زد میں
اس ٹاپک میں نے HozaifaMalik میں پوسٹ کیا فتنہ صلح کلیت
طاہرقادری نئی باتیں نئے انکشافات اور بریلوی فتوی کی زد میں قارئین یہ ویڈیو ضرور دیکھیں اس میں قادری صاحب بہت سی جھوٹی حقیقتیں بتانے کےساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مسلک بریلوی نہیں ہے۔اور مجھے محسوس ہورہا ہے کہ یہ خطاب انہوں نے تب کیا ہے جب یہ فتوی ان پر صادر کیا گیا ہوگا۔واللہ اعلم فتاوی : طاہرقادری اپنے اقوال وافعال کے بناء پر اسلام سے خارج اور کافر بے دین ہے۔ video ka link yeh hai (Tahir Padri ke videos share na karain) -
غنیۃ الطالبین اور بریلوی علماء کا اعتراف
HozaifaMalik replied to HozaifaMalik's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
بے چارے نہ اقرار کرنے قابل نہ انکار کرنے کے۔۔! حق سے منہ موڑیں تو یہ تو ہوتا ہی ہے۔ -
غنیۃ الطالبین اور بریلوی علماء کا اعتراف
اس ٹاپک میں نے HozaifaMalik میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی غیر مقلد
آج بریلوی حضرات غنیۃ الطالبین کی شیخ عبدالقادر جیلانی سے نسبت کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل کسی کے استفسار پر مختصر دلائل پیش کیے تھے سو یہاں بھی پیش خدمت ہیں: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بریلویوں کے ہاں ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کے مقام و مرتبہ پر کچھ حوالہ جات پیش خدمت ہیں: ۱) ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کا ترجمہ کئی ایک بریلوی علماء نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب کے طور پر کر رکھا ہے جسے بریلوی ناشرین چھاپ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر غنیۃ الطالبین ترجمہ عبدالاحد قادری بریلوی ،قادری رضوی کتب خانہ،لاہور۔ غنیۃ الطالبین ترجمہ شمس صدیقی بریلوی، پروگریسوبکس،لاہور۔ اس ضمن میں غنیۃ الطالبین کا فارسی ترجمہ از عبدالحکیم سیالکوٹی بھی پیش کیا جا سکتا ہے جو کافی مشہور ہے مگر اس کا مطبوعہ مجھے معلوم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بریلوی علماء نے غنیۃ الطالبین کو شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف تسلیم کرتے ہوئے اس کے تراجم کر رکھے ہیں۔ ۲)بریلویوں کے پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا فخر جہاں ؒنے رسالہ مرجیہ لکھ کر جہاںیہ ثابت کیا کہ غنیۃ الطالبین حضرت غوث پاک کی ہی تصنیف ہے ۔۔۔۔‘‘ [نام و نسب:ص۴۵۶] مزید لکھتے ہیں: ’’لہٰذا ہم نے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے ایک مقتدر شیخ حضرت فخر الدین فخر جہاںؒ کے حوالے سے، جو حضرت قبلہ نور محمد مہارویؒ جیسے عظیم صوفی کے شیخ طریقت ہیں، یہ ثابت کر دیا کہ ان کی تحقیق انیق کے مطابق غنیۃ الطالبین حضرت غوثِ پاکؒ کی ہی تصنیف ہے۔‘‘ [نام و نسب:ص۴۵۶] ۳)نصیر الدین نصیر گولڑوی لکھتے ہیں: ’’فاضل بریلوی نے الزمزمۃ القمریہ میں نہایت اختصار اور جامعیت سے قصیدہ غوثیہ کے ثبوت و دلائل پیش کیے ہیں، چنانچہ فتح القدیر، شامی اور حاشیہ درمختار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کسی کتاب کے متعدد نسخوں کا ہونااور لوگوں کے ہاتھوں میں عام ہونااس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔‘‘ [نام و نسب:ص۶۷۲] یہ بریلوی اصول اگر قصیدہ غوثیہ کے لیے درست ہے تو غنیۃ الطالبین کے لیے کیوں درست نہیں۔۔۔؟ ۴)احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک بھی غنیۃ الطالبین معتبر و تسلیم شدہ ہے اور انہوں نے کئی جگہ’’غنیۃ الطالبین شریف‘‘کہہ کر اس کے حوالے سے اپنی بات کو پیش کیا ہے۔دیکھئے فتاویٰ رضویہ(ج۱۴ص۵۸۷،ج۱۵ص۷۲۴) ۵)ایک دوسری جگہ احمد رضا خان بریلوی نے عبدالحق محدث دہلوی کا غنیۃ الطالبین کے بارے میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ یہ کتاب سرے سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہی نہیں۔مگر ساتھ ہی احمد رضا بریلوی نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ ’’یہ نفی(و انکار) مجرد ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:ج۲۹ص۲۲۲) غالباً اس بات سے عبدالحق محدث دہلوی کے مئوقف کا انکار ہی مراد ہے کیونکہ خود تو احمد رضا بریلوی غنیۃ الطالبین کے حوالے پیش کرتے ہیں۔نیز اس کے بعداحمد رضا بریلوی نے ابن حجر مکی کے حوالے سے یہ بات بیان کر رکھی ہے کہ اس کتاب میں بعد والوں نے الحاق و اضافہ کر دیا ہے۔ جہاں تک اس کتاب میں کسی الحاق و اضافے کی بات ہے تو اس کے متعلق ایک دوسری جگہ احمد رضا خان بریلوی کا یہ اصول دیکھیں: ’’اور بے دلیل دعویٰ الحاق محض مردود ۔۔۔۔ہاں ہم کو مسلم کہ بعض کتابوں میں بعض الحاق بھی ہوئے مگر اس سے ہر کتاب کی ہر عبارت تو مطروح یا مشکوک نہیں ہو سکتی کسی خاص عبارت کی نسبت یہ دعویٰ زنہار مسموع نہیں جب تک بوجہ وجیہ اس میں الحاق ثابت نہ کر دیں۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۷ص۵۷۶] لہٰذا جب تک غنیۃ الطالبین کی کسی عبارت کو دلائل کے ساتھ الحاقی ثابت نہ کر دیا جائے یہ بہانہ بھی کارگر نہیں۔ ۶)احمد رضا خان بریلوی نے ایک جگہ لکھا: ’’۔۔۔۔معاملہ قدم میں کیا وجہ انکار ہے کہ قول ِ مشائخ کو خواہی نخواہی رد کیا جائے ۔ہاں سند محدثانہ نہیں۔پھر نہ ہو۔اس جگہ اسی قدر بس ہے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج ۲۸ص۴۲۵] چنانچہ معلوم ہوا کہ بریلوی اصول کے مطابق کسی کتاب یا حکایت کا ثابت ہونا محدثانہ سند پر موقوف نہیں بلکہ اگر ان کے تسلیم شدہ مشائخ نے کسی بات کی تصریح کر رکھی ہے تو بس کافی ہے۔ چنانچہ اس اصول کے تحت بھی بریلوی حضرات غنیۃ الطالبین کا انکار نہیں کر سکتے کہ کئی ایک تسلیم شدہ بریلوی مشائخ اور خود کئی ایک بریلوی علماء نے غنیہ الطالبین کو شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف تسلیم کر رکھا ہے۔