-
کل پوسٹس
221 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
24
سب کچھ Abu.Huzaifa نے پوسٹ کیا
-
عوتوں کی صلوتہ اتسبیح اور تراویح کی نماز پڑ ھانا ?
Abu.Huzaifa replied to Attaria786's topic in شرعی سوال پوچھیں
یہ مسئلہ جیسا کہ امیرِ اہلسنت مدظلہ العالی نے مدنی مذاکرہ میں بیان کیا ہے اسی طرح مفتی ہارون صاحب نے بھی بیان کیا ہے فیضانِ عطار ڈاٹ نیٹ کی مفتی سروس میں . نیز فتاویٰ مصطفویہ میں بھی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اسے مکروہ بیان فرمایا ہے. نیز فرمایا اگر امام آگے ہوگی تو کراہت دوہری ہوجائے گی. -
عوتوں کی صلوتہ اتسبیح اور تراویح کی نماز پڑ ھانا ?
Abu.Huzaifa replied to Attaria786's topic in شرعی سوال پوچھیں
عورت کی جماعت کے مکروہِ تحریمی کا حوالہ درج ہے. ہدایہ اولین جلد اول صفحہ 125 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور. -
Hazir Nazir Kay Fatwa ..wazahat
Abu.Huzaifa replied to Rizwan Q's topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
تلبیس سے کام لیا گیا ہے .. پورے فتوے کو پیش کیا جائے . نیز ان دیوگندیوں سے کہیں کہ عالم الغیب کے بارے میں ہم بریلویوں کا کیا موقف ہے . ؟ -
Abdal E Waqt Ke Mutaliq Galat Fahmi
Abu.Huzaifa replied to Rizwan Q's topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
is ka jawab kafi bar dai dya ja chuka hai aik bar phr mulahaza karlain.. naiz deobandio ki hindu dosti par yeh thread mulahaza krain....... http://www.islamimehfil.com//topic/10831-%da%be%d9%86%d8%af%d9%88-%d8%af%db%8c%d9%88%d8%a8%d9%86%d8%af%db%8c-%d8%a8%da%be%d8%a7%d8%a1%db%8c-%d8%a8%da%be%d8%a7%d8%a1%db%8c/ -
آپ نے دیوبندیوں کی کتاب کا عکس دیا ہے .دیوبندیوں کی تلبیسات بھری کتابوں میں جو لکھا ہوتا ہے اکثراصل مسئلہ کچھ ہوتا ہے اور اسے بیان کچھ کردیتے ہیں. .نیز جس کا حوالہ دیا ہے .اس کا عکس بھی دیں اور اعلیٰ حضرت نے جو فرمایا ہے اس کا پورا پیج اسکین کریں .کیونکہ فقہی بحث میں صرف ایک قول نقل کرنا خیانت ہے. فقہا جب مطلق مکروہ کہتے ہیں مراد تحریمی ہوتا ہے. نیز مکروہ تحریمی حرام کے برا بر ہوتا ہے . فقہی ابحاث میں فقہی کتب سے دلدیل بھی دی جاتی ہے. عضو تناسل کے کھانے کو حلال کہاں کیا گیا؟ اس طرح تو مٹی بھی پاک ہے حلال شئے ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے . کھانے کے اعتبار سے حکم کی نوعیت الگ ہوگی فی نفسہ اس کی کیا حیثیٹ ہےا س اعتبار سے نوعیت الگ ہوتی ہے.،اعلیٰ حضرت نے اس کے کھانے کو مکروہ تحریمی لکھا ہے .نیز ان دیو گندیوں سے کہیں کہ حرام کی تعریف بتادیں اور حرام کس کے کرنے سے ہوگا ؟ اگر اللہ تعالیٰ کے کرنے سے تو اس کی حرمت اللہ تعالیٰ کے فرمان سے ثابت کردیں. نیز شارع علیہ السلام کے قول سے ہوگا تو حضور کی حدیث بیان کردیں. نیز اگر فقہاء کے قول سے ہوجائے گا. تو اس کو ثابت کریں. نیز علامہ شامی یحرم کے لفظ سے صرف حرام لیتے ہیں ؟ مکروہ تحریمی کی ان کے نزدیک کیا حیثیت ہے . ؟
-
اس پوسٹ مں اس کا جواب موجود ہے.کھانے کے حوالے سے کہاں لکھا ہے. اسکین پیجز دیں http://www.islamimehfil.info//topic/10693-fatawa-e-dedaria-per-deobandio-k-ilzam-sureh-fatiha-peshaap-se-likhna-maazallah-ka-jawab/page__p__62667__hl__dedaria__fromsearch__1entry62667
-
اعلیٰ حضرت نے مذکورہ وضاحت جملہ فقہی کتب سے کی ہے فقہی کتب پر اعتراض مذہب حنفی سے ارتداد ہے
-
جناب اسکین پیجز دیں نیز الو کے حوالے سے دیوبندیہ کے مغالطوں کا جواب اس پوسٹ میں موجود ہے . ملاحظہ فرمالیں http://www.islamimehfil.info//topic/10666-alahazrat-ka-sach-or-deobandioon-ka-jhoot/page__p__62530entry62530
-
-
Alahazrat Per Jhooti Basharat Ka Ilzam
Abu.Huzaifa replied to Mughal...'s topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
-
Alahazrat Per Jhooti Basharat Ka Ilzam
Abu.Huzaifa replied to Mughal...'s topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
-
هندستان پر انگريزوں كے تسلط كے نتيجے ميں هندستانيوں كي جانب سے وقتاً فوقتاً ان كے خلاف بے چيني اور بغاوت كا ماحول پيدا هوتارها، جو1857ئ ميں ايك منظم پيمانے پر ميرٹھ كي چھاو ني سے شروع هو كر هندستان كے ديگر خطوں ميں بھي پهنچ گيا۔ اس سلسلے ميں هندو قوموں كے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں اور علماے كرام كي كوششيں بھي مسلسل آزادي كے حصول تك جاري رهيں۔ متعصب تاريخ نگاروں نے جب ان حالات اور ماحول كا نقشه اپنے طور پر پيش كيا تو حقائق كے ماتھے پر سياهي پوت كر تعصب اور تنگ نظري سے كام ليتے هوئے مسلمانوں كے كردار كو بالكليه ختم كر دينے كا ناپاك جرم كيا ۔ اس پهلو كا دوسرا رخ يه سامنے آيا كه سواد اعظم اهل سنت سے خارج علما جنگ آزادي كا سارا كردار اپنے نام كرنے لگے۔اور علماے اهل سنت كے مقتدر مجاهدين آزادي كو انگريز نوازوں كي فهرست ميں شمار كروانے لگے يا پھر اپني جماعت كا فرد بنا كر علماے اهل سنت كے عظيم كارناموں كے نشانات پر مٹي ڈالنے كي ننگي جرا ت هي كر بيٹھے۔ اب ان حالات ميں ضروري هے كه اصل واقعات سے قوم كو روشناس كرايا جائے اور بازار سياست كے دلالوں كے سامنے حقيقي صورت حال پيش كر دي جائے تاكه آج جو غدارِ وطن كا بد نما داغ اقتدار كے زور پر هماري پيشانيوں پر مڑھا جا رها هے ، اس كا بے بنياد هونا معلوم هوجائے۔ سيد احمد اور شاه اسماعيل كے تعلق سے پورا ديوبندي مكتبِ فكر مسلسل تحرير و تقرير كے ذريعه يه ذهن دينے كي كوشش كرتا رها هے كه انگريزوں كے خلاف محاذ آرائي اور جهادي سرگرميوں ميں سارا رول ان هي كا هے اور انھوں نے هي مسلمانوں كو انگريزوں كے خلاف جهاد كے ليے وعظ كے ذريعه منظم كرنے كے بعد جنگيں كيں اور شهادت كے درجے پر فائز هوئے، جب كه سچائي اس كے بر عكس هے، بلكه يه دونوں اور ان كے ديگر حامي و متبعين انگريزوں كے وظيفه خوار اور مكمل هم نوا تھے۔ اس سلسلے ميں خود افرادِ خانه كي بے شمار شهادتيں موجود هيں ، جن ميں سے چند ايك هديه قارئين هيں۔ سياسي مصلحت كي بنا پر سيد احمد صاحب نے اعلان كيا كه سركار انگريز سے همارا مقابله نهيں اور نه هميں اس سے كچھ مخاصمت هے ۔ هم صرف سكھوں سے اپنے بھائيوں كا انتقام ليں گے۔ يهي وجه تھي كه حكام انگلشيه بالكل باخبر نه هوئے اور نه ان كي تياري ميں مانع آئے۔﴿حيات طيبه ، مطبوعه مكتبۃ الاسلام،ص:260﴾ اسي مفهوم كي عبارت دوسرے مقام پر يوں هے: ٫٫سيد صاحب كے پاس مجاهدين جمع هونے لگے، سيد صاحب نے مولانا شهيد كے مشورے سے شيخ غلام علي رئيس الٰه آباد كي معرفت ليفٹيننٹ گورنر ممالك مغربي شمالي كي خدمت ميں اطلاع دي كه هم لوگ سكھوں سے جهاد كرنے كي تياري كرتے هيں، سركار كو تو اس ميں كچھ اعتراض نهيں هے۔ ليفٹيننٹ گورنر نے صاف لكھ ديا كه هماري عمل داري ميں امن ميں خلل نه پڑے تو هميں آپ سے كچھ سروكار نهيں، نه هم ايسي تياري ميں مانع هيں۔ يه تمام بين ثبوت صاف اس امر پر دلالت كرتے هيں كه جهاد صرف سكھوں سے مخصوص تھا سركار انگريزي سے مسلمانوں كو هرگز مخاصمت نه تھي۔٬٬﴿حيات طيبه، مكتبۃ الاسلام،ص:523﴾ اس تعلق سے مولانا جعفر تھانيسري كي تحرير اس طرح هے: ٫٫سيد صاحب كا انگريزي سركار سے جهاد كرنے كا هر گز اراده نهيں تھا، وه اس وقت آزاد عمل داري كو اپني هي عمل داري سمجھتے تھے۔ اس ميں شك نهيں كه سركار انگريز اس وقت سيد صاحب كے خلاف هوتي تو هندستان سے سيد صاحب كو كچھ بھي مدد نه ملتي، مگر سركار انگريزي اس وقت دل سے چاهتي تھي كه سكھوں كا زور كم هو۔٬٬﴿حيات سيد احمد شهيد،ص:293﴾ سر سيد بھي ان واقعات كي طرف عنانِ قلم موڑتے هوئے بالكل ملتي جلتي باتيں لكھتے هيں، جس سے سيد احمد راے بريلوي اور شاه اسماعيل دهلوي كے جهادي كارناموں كا سراغ به آساني لگايا جا سكتا هے: ٫٫سيد احمد صاحب نے پشاور پر پھر سكھوں كا قبضه هونے كے بعد اپنے ان رفيقوں سے جو جهاد ميں جان دينے پر آماده تھے، يه كها كه تم جهاد كے ليے بيعت شرع كرلو، چناں چه كئي سو آدمي نے اسي وقت بيعت كي اور يه بات تحقيقي هے كه جو شخص شير سنگھ كے مقابلے ميں لڑائي سے بچ رهے تھے ان ميں صرف چند آدمي اپنے پيشوا سيد احمد صاحب كي شهادت كے بعد مولوي عنايت علي اور ولايت علي ساكن پٹنه ان كے سردار هوئے، ليكن انھوں نے جهاد كے فرائض انجام دينے ميں كچھ كوشش نهيں كي اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگريز كا تسلط هواتو مولوي عنايت علي اور ولايت علي مع اپنے اكثر رفيقوں كے 1847ئ ميں اپنے گھروں كو واپس بھيج ديے گئے، پس اس سے هم كو يه بات معلوم هو گئي كه خاص پٹنه يا بنگاله كے اور ضلعوں سے بلكه عموماً هندستان سے روپے اور آدمي اس وهابيت كے پهلے تين زمانوں ميں ضرور سرحد كو بھيجے گئے تھے۔ ليكن ميري راے ميں يه بات بهت كھلي هوئي هے كه ان ميں سے كوئي آدمي انگريز گورنمنٹ پر حمله كرنے كے واسطے هر گز نهيں گيا تھا اور نه ان سے يه كام ليا گيا اور نه تين زمانوں ميں سے كسي كو اس كا كچھ خيال هوا كه هندستان كے مسلمانوں كي نيت بغاوت كي جانب مائل هے۔٬٬﴿مقالات سر سيد حصه نهم145 146﴾ مزيد شواهد كے ليے اور آگے كي عبارت بھي ملاحظه كريں: ٫٫جب مولوي عنايت علي اور ولايت علي 1847ئ كو هندستان لوٹ آئے تو اس وقت سيد احمد صاحب كے چند پيروكار سرحد پر باقي ره گئے تھے اور يه بات بھي صحيح هے كه ان دو شخصوں نے پٹنه اور اس كے قرب و جوار كے آدميوں كو اس كي ترغيب دينے ميں هر گز كوتاهي نهيں كي كه وه جهاد ميں شريك هوں اور يه اس كام كے واسطے روپيه جمع كريں۔ چناں چه وه برابر بڑي سرگرمي سے كوشش كرتے رهے، اور جس بات كا اب تك ان كو دل سے خيال تھا اس كا اظهار انھوں نے 1851ئ ميں اس طرح صحيح هے ، كيا كه وه پھر هندستان سے سرحد كي جانب چلے گئے ، مگر ڈاكٹر هنٹر صاحب نے خيال كيا كه يه لوگ دوباره سرحد كو انگريزوں پر حمله كرنے كي نيت سے گئے تھے اور انھوں نے بجاے سكھوں كے انگريزوں پر جهاد كيا تھا۔ حالاں كه جب ان لوگوں كو انگريزوں سے كسي طرح كي شكايت نه تھي تو پھر ان كا اراده كسي طرح پر صحيح نهيں هو سكتا۔٬٬ ﴿ايضاً،ص:147﴾ اس پر تھوڑي اور روشني ڈالتے هوئے سر سيد كا رواں قلم سرخ لكير كھينچتا هوا نظر آتا هے ، جس سے سيد احمد راے بريلوي كا كردار پوري طرح لهو لهان نظر آتا هے: ٫٫اور يه بات بھي ياد ركھني چاهيے كه يه وهابي اپنے مذهب ميں بڑے پكے، نهايت سچے هوتے هيں ، وه اپنے اصول سے كسي حال ميں منحرف نهيں هوتے ، اور جن شخصوں كي نسبت ميں يه لكھ رها هوں، وه اپنے بال بچوں اور مال و اسباب كو گورنمنٹ انگريزي كي حفاظت ميں چھوڑ گئے تھے اور ان كے مذهب ميں اپنے بال بچوں كے محافظوں پر حمله كرنا نهايت ممنوع هے، اس لحاظ سے اگر وه انگريزوں سے لڑتے اور لڑائي ميں مارے جاتے تو وه بهشت كي خوشبوو ں اور شهادت كے درجه سے محروم هو جاتے، بلكه اپنے مذهب ميں گناه گار خيال كيے جاتے۔٬٬ ﴿ايضاً، ص :148 ﴾ مذكوره اقتباسات كي بنياد پر ديوبندي جماعت كے پيشوا سيد احمد راے بريلوي كو انگريز نوازوں كي پهلي فهرست اور بانيوں ميں شمار كرنا تاريخي سچائي هے اور اس ميں كوئي جرم نهيں كه انھيں انگريزوں كاكھلا هوا معاون اور ناصر گردانا جائے ، جب كه ان شكسته حالات ، فرياد كناں ماحول ميںعلماے اهلِ سنت اپنے وطن كي آزادي كے ليے پوري طرح انگريزي افواج كے خلاف صف آرا اور تحرير و تقرير كے ذريعه عام هندستانيوں كو انگريزوں كے خلاف متحد كر رهے تھے، جس كے نتيجے ميں قيد و بند كي صعوبتوں كے ساتھ جان و مال كے اتلاف كا شكار بنتے رهے۔ انگريز نوازي كے ايسے واقعات سے خود سيد احمد كے ماننے والوں هي كي كتابيں شور محشر جيسا ماحول پيش كرتي هيں اور بعد كے متبعين كي جھوٹي كهاني كا كھلا مذاق اڑاتي هيں۔ سوانح احمدي، مخزن احمدي، نقش حيات، الدرر المنثور وغيره كي عبارتيں بھي سيد صاحب كے جهاد كو انگريز مخالف بر سرِ پيكار طاقتوں كے خلاف بتاتي هيں، مگر اس جماعت كے شرپسندوں نے تاريخ نگاري كي روايت پر فرنگي ظلم كرتے هوئے تاريخ سازي كي نئي طرح ايجاد كر كے يه بتا ديا كه جھوٹي شهيدي كا ڈھنڈورا پيٹنے والے اب جھوٹي تاريخ كا سبق بھي عام كريں گے۔ حالاں كه سيد احمد كے عهد كے قريبي مورخين وهي باتيں لكھتے رهے جو علماے اهلِ سنت بتاتے رهے هيں۔مگر بعد كے مورخين نے اپني جماعت كے اكابرين كا دامن الجھتا ديكھ كر دروغ گوئي سے تاريخ كے صفحات پاٹ ديے۔ سيد احمد كے جهادي پهلو كے سلسلے ميں مندرجه ذيل اقتباس بھي كافي واضح هے: ٫٫سركار انگريز گو منكرِ اسلام هے، مگر مسلمانوں پر كوئي ظلم اور تعدي نهيں كرتي اور نه ان كو فرائض مذهبي اور عبادات لازمي سے روكتي هے ، هم ان كے ملك ميں اعلانيه كهتے هيں اور ترويجِ مذهب كرتے هيں ، وه كبھي مانع و مزاحم نهيں هوتي، بلكه اگر هم پر كوئي ظلم و زيادتي كرتا هے تو اس كو سزا دينے كو تيار هے، پھر هم سركار انگريز پر كس سبب سے جهاد كريں اور اصولِ مذهب كے خلاف بلا وجه طرفين كا خوف گراديں۔٬٬﴿حيات سيد احمد شهيد،ص:171﴾ فرانس كے مشهور مستشرق گارسن دتاسي كي كتاب تاريخ ادب اردو كي تلخيص طبقات الشعراے هند ،ص:295مطبوعه1848ئ ميں سيد صاحب كے تعلق سے موجود هے كه: ٫٫بيس برس كا عرصه هوا كه وه سكھوں كے خلاف جهاد كرتا هوا مارا گيا۔٬٬ يهي بات دوسرے لفظوں ميں نواب صديق حسن خاں بھوپالي نے ترجمانِ وهابيه ميںبھي لكھي هے كه: ٫٫ حضرت شهيد كا جهاد انگريزوں كے خلاف نه تھا۔٬٬﴿ترجمانِ وهابيه،ص:21 88﴾ يهي حال شاه اسماعيل كا بھي تاريخ كے صفحات پر نظر آتا هے ۔ خود وهابي نظريات كے حامل قلم كاروں اور ان كے عهد كے قريبي تذكره نگاروںنے ان كي انگريزوں سے قربت اور وفاداري كے لڈو هر خاص و عام كو بانٹے هيں۔بلكه حقايقت تو يه هے كه 1857ئ كے وقت وهابي، ديوبندي جماعت كا وجود هي نهيں تھا۔ لهذا يه كهنا كه اكابر ديوبند نے جنگ آزادي ميں اهم رول ادا كيا اور انگريزوں كے خلاف جهاد كا بگل بجايا ، شديد ترين نا انصافي اور زيادتي هے۔ اس كے بر عكس علامه فضل حق خير آبادي ، مفتي صدر الدين آزرده ، مولانا كفايت علي كافي مراد آبادي، مولانا فيض احمدعثماني بدايوني، مولانا احمد الله شاه مدراسي، مولانا وهاج الدين مراد آبادي، مولانا لياقت علي الٰه آبادي اور دوسرے علماے كرام نے انگريزوں كے خلاف جهاد كا فتويٰ جاري كيا اور عام مسلمانانِ هند كو بيدار كيا ۔ مگر علماے سوئ كا يه طبقه پوري چاپلوسي كے ساتھ انگريزي حمايت ميں قولاً و عملاً سر گرم رها، جس كي گواهي خود افرادِ خانه نے هي دے دي هے۔ كلكته كے جلسه عام ميں جب ايك شخص نے شاه اسماعيل سے پوچھا كه انگريزوں كے خلاف آپ جهاد كا فتويٰ كيوں نهيں ديتے تو شاه صاحب نے فرمايا: ٫٫ ان پرجهاد كرنا كسي طرح واجب نهيں، ايك تو ان كي رعيت هيں، دوسرے مذهبي اركان كے ادا كرنے ميں وه ذرا بھي دست درازي نهيں كرتے۔ هميں ان كي حكومت ميں هر طرح آزادي هے، بلكه ان پر كوئي حمله آور هو تو مسلمانوں پر فرض هے كه وه اس سے لڑيں اور اپني گورنمنٹ پر آنچ نه آنے ديں۔٬٬﴿حيات طيبه،طبع قديم،ص:364﴾ مرزا حيرت دهلوي كي يه بھي تحرير ملاحظه هو: ٫٫مولوي اسماعيل صاحب نے اعلان كر ركھا تھا كه انگريزي سركار پر نه جهاد مذهبي طور پر واجب هے نه هميں اس سے كچھ مخاصمت هے۔٬٬﴿حيات طيبه،ص:201﴾ اس تعلق سے سر سيدنے بھي انتهائي واضح الفاظ استعمال كر كے انگريز نوازي كي ساري پول كھول دي: ٫٫اس زمانے ميں مجاهدين كے پيشوا سيد احمد صاحب تھے، مگر وه واعظ نه تھے۔ واعظ مولوي محمد اسماعيل صاحب تھے، جن كي نصيحتوں سے مسلمانوں كے دلوں ميں ايك ايسا ولوله خيز اثر پيدا هوتا تھا جيسا كه كسي بزرگ كي كرامت كا اثر هوتا هے۔ مگر اس واعظ نے اپنے زمانه ميں كبھي كوئي لفظ اپني زبان سے ايسا نه نكالا جس سے ان كے هم مشربوں كي طبيعت ذرا بھي برا فروخته هو، بلكه ايك مرتبه كلكته ميں سكھوں پر جهاد كرنے كا وعظ فرما رهے تھے ۔ اثناے وعظ ميں كسي شخص نے ان سے دريافت كيا كه تم انگريزوں پر جهاد كرنے كا وعظ كيوں نهيں كهتے، وه بھي تو كافر هيں؟ اس كے جواب ميں مولوي اسماعيل دهلوي صاحب نے فرمايا كه انگريزوں كے عهد ميں مسلمانوں كو كچھ اذيت نهيں هوتي اور چوں كه هم انگريزوں كي رعايا هيں اس ليے هم پر اپنے مذهب كي رو سے يه بات فرض هے كه انگريزوں پر جهاد كرنے ميں هم كبھي شريك نه هوں۔٬٬﴿مقالات سر سيد، حصه نهم،ص:141-42﴾ يه تمام شواهد سيد احمدراے بريلوي اور شاه اسماعيل دهلوي كو انگريزوں كا ايجنٹ ثابت كرنے كے ليے كافي هيں ، مگر جماعت ديابنه كو يه سچائي كسي طور پر هضم هوتي نظر نهيں آتي اور وه اپنے اس جرم پر پرده ڈالنے كے ليے علماے اهل سنت كي پاك باز ، محب وطن اور انگريز دشمن شخصيات كو مورد الزام ٹھهراتے هيں تاكه ان كا مكروه كردار عام لوگوں كے سامنے نه آسكے۔
-
دیوبندی اور تحریک پاکستان اور سنیوں پر اعتراض
Abu.Huzaifa replied to Mughal...'s topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
آزادی میں جو علمائے اہلسنت کی خدمات ہیں ۔ ان کو جاننے کے لئے ذیل لنک پر مضامین کا مطالعہ کیجئے۔ http://aljamiatulashrafia.org/aug8.negar.asp http://www.islamieducation.com/ur/%DA%A9%D8%AA%D8%A8/tehreek-azadi-e-hind-aur-ulema-wa-mashaikh-ka-kirdar.html http://www.islamieducation.com/ur/%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/azadi-e-pakistan-aur-ulema-e-ahlesunnat.html http://www.islamimehfil.info//topic/10775-tehreek-e-azadi-or-ullama-ahlesunnat-brelvi/page__view__findpost__p__63082__hl__pakistan__fromsearch__1 http://www.islamimehfil.info//topic/10731-tahreek-e-pakistan-main-ulama-e-kiram-ka-kirdar/page__view__findpost__p__62815__hl__pakistan__fromsearch__1 علمائے دیوبند کی پاکستان سے دشمنی کے کے بارے میں جاننے کے لئے اس لنک پر کل کریں http://www.islamimehfil.info/index.php?showtopic=70 http://www.islamimehfil.info//topic/10598-deobandi-kangrasi-molvi-muslim-league-ko-woot-deine-wala-soor-hai-10000-jinnah-nehro-ki-jooti-ki-nook-per-kurban/page__view__findpost__p__62310__hl__pakistan__fromsearch__1 اب اس مضمون کو پڑھئے یہ ماہنامہ اشرفیہ کا اداریہ ہے جس میں علمائے دیوبند کی غداریاں بیان ہوئیں ہیں ۔۔ جنوري 2007ئ ميں همارے اداريے كا عنوان تھا ٫٫2007 انقلاب 1857 كے نام٬٬ اس موضوع پر حضرت مولانا يٰسين اختر مصباحي صاحب نے اتنا لكھا كه پوري جماعت كا كفاره ادا كر ديا۔ اس ليے بجا طور پر اب كها جا سكتا هے كه ٫٫انقلاب ٧٥٨١ئ مولانا يٰسين اختر مصباحي كے نام٬٬ ۔ انقلاب ٧٥٨١ئ كے حوالے سے ملك كے مختلف گوشوں ميں سمينار اور كانفرنسيں هوئيں ، رسائل و جرائد كے نمبر نكلے۔ امتدادِ زمانه كي تهوں ميں دبے هوئے بهت سے حقائق بے نقاب هوئے۔ كچھ ايسے اهم كردار بھي منظرِ عام پر آئے جنھيں متعصب تاريخ نگاروں نے انتهائي بے دردي سے نظر انداز كر ديا تھا ۔ اس هجومِ شوق اورهمه همي ميں تاريخ سازوں كو بھي خوب موقع ملا ۔ آزاديِ هند كي سرخ روئي حاصل كرنے كے ليے انھوں نے جو واقعات گڑھے تھے ، انھيں موقع به موقع دهرايا گيا بلكه جھوٹ اتني كثرت سے بولا گيا كه وه سچ معلوم هونے لگا۔ پروپيگنڈه كي طاقت كو هر دور ميں محسوس كيا گيا هے اور آج تو جديد ذرائع ابلاغ نے اس كے ليے بهت سے امكانات پيدا كر ديے هيں۔ انھيں ميں سے ايك انقلاب 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا كردار بھي هے۔ آج كي نشست ميں هم اس رخ پر ٹھوس دلائل كے ساتھ روشني ڈاليں گے ۔ 2007ئ ميں نيا دور لكھنو اور راشٹريه سهارا دهلي وغيره اخبار و جرائد كے جو نمبر نكلے ان ميں بھي خاصے مضامين اس موضوع پر سامنے آئے اور عام طور پر يه تاثر دينے كي كوشش كي گئي كه 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا بڑا كليدي كردار رها هے۔ مدرسه ديوبند 1283ھ 1866ئ ميں قائم هوا، يعني انقلاب 1857ئ سے قريب ٩ سال بعد۔ اب يه كيسے هو سكتا هے كه مدرسه ديوبند نے اپنے وجود سے پهلے هي جنگِ آزادي ميں كوئي حصه ليا هو، مگر افسوس چوري اور سينه زوري كي انتها هو گئي۔ نيا دور اپريل، مئي 2007ئ كے انقلاب 1857ئ نمبر ميں فيصل احمد ندوي نے ٫٫مولانا قاسم نانوتوي اور پهلي جنگ آزادي٬٬ كے موضوع پر ايك مضمون لكھا هے، جس ميں اور بهت سي من گڑھت كهانيوں كے ساتھ يه بھي لكھا هے: ٫٫مشهور مورخ ڈاكٹر اشتياق قريشي كے بقول يه دار العلوم 1857ئ كي بغاوت ميں نماياں طور پر لڑنے والوں كي ايك خاص تعداد كے ليے جاے پناه تھا۔٬٬﴿نيادور، انقلاب 1857ئ نمبر ، لكھنو ،ص:93﴾ يه عبارت كوئي تاريخي چيستاںنهيں كه اس كي كوئي تاويل كي جائے بلكه دو دو چار كي طرح واضح هے۔جو اداره هنگامه 1857ئ كے قريب ٩ سال بعد وجود ميں آيا هو اس كا كوئي كردار اپنے وجود سے پهلے كيسے پيدا هو سكتا هے ۔ يه تو ممكن هے كه علماے ديوبند نے قيامِ مدرسه سے پهلے عالمِ خواب ميں جنگ لڑي هو۔ يوں بھي علماے ديوبند كا آدھا مذهب خوابوں كي بنياد پر قائم هے مگر يه حقيقي اور واقعي جنگ هرگز نهيں تھي۔اور يه بھي ايك تاريخي حقيقت هے كه جب علماے ديوبند بولا جاتا هے تو اس سے مدرسه ديوبند كي خاص فكر سے وابسته علما هي مراد هوتے هيں۔ اسي مضمون ميں قلم كار نے دوسرا اقتباس مولانا محمود حسين ديوبندي كے حوالے سے نقل كيا هے۔ موصوف لكھتے هيں: ٫٫شيخ الهند مولانا محمود حسين ديوبندي نے ايك مرتبه جوش ميں آكر فرمايا،٫٫حضرت الاستاذ ﴿حضرت نانوتوي﴾ نے اس مدرسے كو كيا درس و تدريس ، تعليم و تعلم كے ليے قائم كيا تھا؟ مدرسه ميرے سامنے قائم هوا، جهاں تك ميں جانتا هوں 1857ئ كے هنگامه كي ناكامي كے بعد يه اداره قائم كيا گيا كه كوئي ايسا مركز قائم كيا جائے جس كے زيرِ اثر لوگوں كو تيار كيا جائے تاكه 57ئ كي ناكامي كي تلافي كي جائے۔٬٬﴿به حواله سوانح قاسمي،ج:٢،ص:226﴾ مولانا محمود حسين ديوبندي كے اس پر جوش بيان سے تين چيزيں سامنے آئيں۔ ﴿١﴾ مدرسه ديوبند كو تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا۔ ﴿٢﴾ مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے قائم كيا۔ ﴿٣﴾ مدرسه 1857ئ كے بعد قائم هوا تاكه 57ئ كي ناكامي كي تلافي هو سكے۔ يه صحيح هے كه مدرسه ديوبند تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا ، مگر افسوس علماے ديوبند هي اس كي تعليم و تعلم كا ڈھنڈورا پيٹتے هيں۔ اس كا فيصله وه خود كريں كه علماے ديوبند كي كارگزارياں قيامِ مدرسه كے مقصد كو كهاں تك پورا كر رهي هيں۔ دوسري بات يه كه مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے قائم كيا ، يه بالكل غلط هے ۔ اس كے باني حاجي عابد حسين قادري چشتي رحمۃ الله عليه تھے ۔ مگر موصوف چوں كه مسلكِ اسلاف پر كاربند سني صحيح العقيده تھے اور ان كا مقصد تعليم و تعلم تھا اس ليے علماے ديوبند نے ان سے اختلاف كيا اور ان كا نام قلم زد كر كے مولانا قاسم نانوتوي كو باني كي حيثيت سے متعارف كرايا۔ اس پس منظر ميں مولانا نذير احمد ديوبندي لكھتے هيں: ٫٫چوں كه لوگوں كے دلوں ميں خلوص نهيں رها ، اس ليے اختلافات رونما هوتے رهے ، نتيجه يه هوا كه ايك وقت وه آيا كه آپ ﴿حاجي صاحب﴾ مدرسے كے كاروبار سے علاحده هو گئے اور فرمايا كه للهيت نه رهي بلكه نفسانيت آگئي، فقير كو ان سب باتوں سے كيا غرض۔﴿تذكرۃ العابدين،ص:76﴾ حاجي صاحب كے خانواده كے ايك شخص سيد افتخار حسين لكھتے هيں: ٫٫وه نفسانيت اس كے سوا كيا هو سكتي هے كه وه اس مدرسے كے ذريعه اسلام كي حقانيت و صداقت كي نشر و اشاعت كا جو اهم فريضه انجام دينا چاهتے تھے ، اس اداره كے دوسرے اراكين اس سے متفق نهيں تھے۔ ان حضرات كا نقطه نظر بالكل جداگانه تھا ، وه اس مدرسے كو انگريزي حكومت كي رضا و منشا كے مطابق چلانا چاهتے تھے كيوں كه مدرسے كے صدر مدرس مولوي يعقوب حكومت وقت كے زبردست بهي خواه تھے۔ مدرسه كي صدر مدرسي قبول كرنے سے قبل وه كئي شهروں ميں انگريز گورنمنٹ ميں ڈپٹي انسپكٹر آف اسكول كے فرائض انجام دے كر اپنے حسنِ كاركردگي سے انگريزوں كي نظر ميں محبوب بن چكے تھے ۔ اپنے اس كامياب تجربه كي روشني ميں اس مدرسه كو اسي روش پر لے جانا چاهتے تھے جو انگريز حكومت كے عين منشا كے مطابق تھا، اس ليے ان كے خيالات كا حاجي محمد عابد كے خيالات سے متصادم هونا ناگزير تھا۔٬٬﴿دار العلوم ديوبند كا باني كون؟ از:سيد افتخار حسين ديوبندي﴾ اس موضوع پر بهت كچھ لكھا جا چكا هے كه مدرسه ديوبند كے باني مولانا قاسم نانوتوي هرگز نهيں تھے بلكه اس كے باني صوفي عابد حسين قادري چشتي تھے ۔ مولانا قاسم نانوتوي نے اپنے هم نواو ں كے ذريعه انھيں بے دخل كر ديا كيوں كه وه اداره كو اسلام كي نشر و اشاعت اور تعليم و تعلم كے ليے چلانا چاهتے تھے جو مولانا قاسم نانوتوي كو هرگز گوارا نهيں تھا ۔ مولانا قاسم نانوتوي اور ديگر علماے ديوبند كي تربيت جس ماحول ميں هوئي تھي اس ميں انگريز نوازي اپني انتها كو پهنچي هوئي تھي۔ ٫٫الرحيق المختوم٬٬ كے مصنف مولانا صفي الرحمن مبارك پوري لكھتے هيں: ٫٫ديوبندي تحريك كے امير اول مولانا مملوك علي تھانوي كے متعلق سوانح نگاروں كا اتفاق هے كه وه انگريزوں كے پكے وفادار تھے، موصوف دهلي كالج ميں جهاں سے انگريز نواز هندوستاني تيار كيے جاتے تھے، مدرس رهے، بلكه حسنِ كاركردگي سے متاثر هو كر كالج كے وزير سر ٹامس كي سفارش سے ٨ نومبر 1871ئ كو آپ صدر مدرس قرار پائے۔ كالج كے تمام انگريز پرنسپل مولانا پر بهت اعتماد كرتے تھے ، چناں چه هر سالانه رپورٹ ميں آپ كي تعريف و توصيف كي گئي ، گورنر جنرل نے مولانا كو انعام سے بھي نوازا اور خلعت سه پارچه مرحمت كيا ۔ دهلي كالج كے نصابوں كا كام آپ كے زيرِ نگراني هوتا۔٬٬﴿سوانح مولانا احسن نانوتوي، از:پروفيسر ايوب قادري﴾ مولانا مملوك علي نے نانوته اور ارد گرد كے عثماني شيوخ كي تعليم كے ليے دهلي كالج كي راه هموار كي اور كثير لوگوں كو انگريزوں سے وفاداري كي تربيت دي، اكابرِ ديوبند اسي استاذ كے شاگرد تھے، جس نے انگريز نوازي اپنے شاگردوں كو گھٹي ميں پلا دي تھي۔ ان شاگردوں سے يه تصور بھي نهيں كيا جا سكتا كه انگريزوں كے خلاف جنگ لڑيں گے۔مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے اسي ڈگر پر پروان چڑھايا اور تعليم و تدريس پرتوجه دينے كے بجاے انگريز نواز دستے تيار كيے اور انگريزي حكومت بھي ان كي كاركردگي سے پورے طور پر مطمئن رهي۔مدرسه ديوبند كے پهلے صدر مدرس مولانا مملوك علي كے صاحب زادے اور ان كے تربيت يافته مولانا محمد يعقوب منتخب هوئے۔ سوانح قاسمي كے مصنف كے بقول: ٫٫موصوف 1857ئ كي جنگ كو ٫٫غدر٬٬ اور اس ميں حصه لينے والوں كو ٫٫مفسدين ٬٬سے تعبير كرتے تھے۔٬٬ ﴿سوانح قاسمي،ص:61﴾ مدرسه ديوبند كے قيام كے چند برس بعد 31 جنوري 1857ئ كو لفٹنٹ گورنر نے اپنے خاص معتمد مسٹر پامر كو دار العلوم ديوبند كے معائينه كے ليے بھيجا تو اس نے ان الفاظ ميں آكر رپورٹ دي۔ ٫٫مدرسه خلاف نهيں بلكه موافق سركار و ممد و معاون سركار هے۔ يهاں كے تعليم يافته لوگ ايسے آزاد اور نيك چلن هيں كه ايك دوسرے سے كچھ واسطه نهيں۔٬٬﴿محمد احسن نانوتوي،ص:117﴾ هنگامه 1857ئ كے بعد پورے ملك ميں افراتفري كا عالم تھا ، قتل و غارت گري عام تھي، علماے اهلِ سنت كو شبهات تك كي بنياد پر پھانسياں دي جا رهي تھيں ، جيل كي سلاخوں كے پيچھے ڈالا جا رها تھا۔ مجاهدين در به در بھاگے بھاگے پھر رهے تھے ۔ اسي ماحول ميں انگريز مدرسه ديوبند سے مطمئن تھے، بلكه معائينه نگار لكھتا هے كه مدرسه ديوبند ممد و معاون سركار هے۔ مدرسه ديوبندكے ذمه داروںليے انگريز حكومت كا يه سب سے بڑا اعزاز تھا۔ كيا اب بھي اس ميں شبهه باقي هے كه مدرسه ديوبند اپني انگريز حكومت كا سچا وفادار اور خير خواه تھا۔ لفٹنٹ گورنر اپنے معائينه ميں مزيد لكھتا هے: جو كام بڑے بڑے كالجوں ميں هزاروں روپے كے صرف سے هوتا هے وه يهاں كوڑيوں ميںهو رها هے ۔ جو كام پرنسپل هزاروں روپے ماهانه تنخواه لے كر كرتا هے وه يهاں ايك مولوي چاليس روپے ماهانه پر كر رها هے۔٬٬﴿سوانح احسن نانوتوي،ص:217﴾ اس رپورٹ كے بعد مدرسه ديوبند كے ذمه داروں ميں خوشي كي لهر دوڑ گئي اور ان كے بقول اس رپورٹ سے مدرسه كي شهرت و مقبوليت ميں چار چاند لگ گئے،روداد مدرسه ميں ذمه داران نے بڑے فخر و انبساط كے ساتھ حسب ذيل تحرير سپردِ قلم كي: ٫٫تمام اندروني و بيروني صدمات اور حوادث كے بعد جو نهايت هي اعليٰ درجه كي كاميابي و شهرت مدرسه كو حاصل هوئي وه سر جان ڈگس لاٹوش لفٹنٹ گورنر ممالك متحده آگره و اودھ كا به غرضِ خاص معائينه مدرسه ديوبند آنا تھا۔٬٬ ﴿روداد مدرسه ديوبند1322ھ،ص:٧﴾ معلوم هوا كه انگريز گورنر كي رپورٹ پر علماے ديوبند نادم نهيں تھے بلكه يه ان كے مشن كا عين نشانه تھاجو پورا هوا، سوانحِ قاسمي كے حاشيه ميں ديوبند كے راز هاے سربسته كا انكشاف كرتے هوئے قلم كار لكھتا هے: ٫٫مدرسه ديوبند كے كاركنوں اور مدرسوں كي اكثريت ايسے لوگوں كي تھي جو گورنمنٹ كے قديم ملازم اور حال پينشنر تھے، جن كے بارے ميں گورنمنٹ كو شك و شبهه كرنے كي گنجائش هي نه تھي۔٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:247﴾ اس حاشيه نے بين السطور تك كو بے نقاب كر دياكيا اب بھي كوئي بنياد باقي هے، جس پر انقلاب 1857ئ كا محل تعمير كيا جائے۔ آئيے اس باب ميں پيرِ مے خانه مولانا اشرف علي تھانوي كي انگريز نوازي بھي ملاحظه كيجيے۔ مولانا اشرف علي تھانوي اپنے فتويٰ محرره ٠١ صفر 1349ھ 1931ئ ميں لكھتے هيں: ٫٫چوں كه قديم سے مذهب اور قانون جمله مسيحي لوگوں كا يه هے كه كسي كي ملت و مذهب سے پرخاش اور مخالفت نهيں كرتے اور نه كسي كي مذهبي آزادي ميں دست اندازي كرتے هيں اور اپني رعايا كو هر طرح سے امن و امان ميں ركھتے هيں ۔ لهذا مسلمانوں كو يهاں هندوستان ميں جو مملوكه و مقبوضه اهلِ مسيح هے ، رهنا اور ان كا رعيت بننا درست هے۔٬٬ ﴿اوراقِ گم گشته، از رئيس احمد جعفري ندوي،ص:324﴾ يه هے شيخِ مے خانه كا فتويٰ كه عهدِ قديم سے تمام انگريزوں كا قانون و مذهب يه هے كه كسي بھي مذهب و ملت سے پرخاش نهيں ركھتے ۔ يه فتويٰ موصوف نے اس وقت ديا هے جب ٧٥٨١ئ ميں هزاروں هزار علما كوپھانسي كے پھندے پر لٹكاديا گيا تھااور لاكھوں مسلمانوں كو بے گناه ته تيغ كر دياگيا تھا۔ كيا اسي كا نام امن و امان هے؟مسيحي صديوں سے اسلام اور مسلمانوں كے دشمن رهے هيں،ليكن آں حضرت بالكل بے خبر هيں ۔ اگر اسي كا نام فتويٰ نويسي اور اسلامي حق گوئي هے تو منافقت اور انگريز نوازي كيا هے ؟ در اصل مدرسه ديوبند عهدِ قديم سے انگريز نواز رها هے اور اس كي ساري سرگرمياں اسي سمت ميں رهي هيں ۔ اس ليے مولانا اشرف علي تھانوي نے جو كچھ لكھا هے اپنے حال كے مطابق صحيح لكھا هے۔ بلا شبهه علماے ديوبند برٹش حكومت ميں پورے طور پر محفوظ و مامون رهے۔ ديوان جي نامي ايك صاحب كے متعلق مولوي مناظر احسن گيلاني نے اپني كتاب ٫٫سوانح قاسمي٬٬ ميں لكھا هے: ٫٫صاحبِ نسبت بزرگ تھے ، اپنے زنانه مكان كے حجرے ميں ذكر كرتے ۔ مولانا حبيب الرحمن صاحب مهتمم دار العلوم ديوبند فرمايا كرتے تھے كه اس زمانے ميں كشفي حالت ديوان جي كي اتني بڑھي هوئي تھي كه باهر سڑك پر آنے جانے والے نظر آتے رهتے تھے ، در و ديوار كا حجاب ان كے درميان ذكر كرتے وقت باقي نهيں رهتا تھا ان هي ديوان جي كے مكاشفه كا تعلق دار العلوم ديوبند سے بھي نقل كيا جاتا هے ، لكھتے هيں كه مثالي عالم ميں ان پر منكشف هوا كه دار العلوم كے چاروں طرف ايك سرخ ڈورا تنا هوا هے ،اپنے كشفي مشاهده كي تعبير خود يه كرتے تھے كه نصرانيت اور تجدد آزادي كے آثارايسا معلوم هوتا هے كه دار العلوم ميں نماياں هوں گے ٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:73﴾ موصوف نے اپني كشفي قوت سے جس جانب اشاره كيا هے ، ايك عالم نے زمين پر اپنے سر كي آنكھوں سے ديكھ ليا ، اب اس كے بعد بھي اگر دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كو انقلاب 1857ئ كے مجاهدين ميں شمار كيا جاتا هے تو ان كي ديده دليري اور دن كے اجالے ميں سورج كو جھٹلانے جيسي حركت هے۔ 3092 مارچ 2008ئ كو دار العلوم ديوبند ميں اس حوالے سے سمينار منعقد كرنے كا اعلان كيا گيا هے ۔ ترجمان دار العلوم دهلي،اكتوبر، نومبر، دسمبر كا مشتركه شماره اس وقت ميرے پيشِ نظر هے۔ مدير نے اداريے ميں جو رخ اختيار كيا هے اس سے اندازه هوتا هے كه موصوف كو 1857ئ كے حوالے سے حقائق سامنے آنے كا بڑا قلق هے۔ شايد انھيںحقائق پر پرده ڈالنے كے ليے دار العلوم ديوبند ميں سمينار كا منصوبه بھي سامنے آيا هے، اور اسي قلق كے نتيجے ميں ابناے قديم كے كارگزار صدر مولانا عميد الزماں قاسمي كيرانوي نے ايك مضمون بھي اسي شمارے ميں تحرير كيا هے۔ موضوع هے٫٫حضرت شاه ولي الله كي انقلابي سياسي تحريك ميں حضرت حاجي امداد الله مهاجر مكي كا حصه٬٬ قلم كار نے انتهائي چابك دستي سے تحريك ديوبند كا رشته حضرت شاه ولي الله سے جوڑا هے مگر تحرير كے بين السطور سے اندازه هوتا هے كه قلم كار كو بھي اپني بے اطميناني كا اعتراف هے ، قلم كار نے موضوع پر تو هلكي سي گفتگو كي هے اور سارا زور 1857ئ ميں علماے ديوبند كي قربانيوں پر صرف كيا هے ۔ اس مضمون پر گفتگو كرنے سے قبل ميں يه بتا دينا ضروري سمجھتا هوں كه تحريك ديوبنديت كے باني مولانا قاسم نانوتوي اور مولانا رشيد احمد گنگوهي تھے نه كه شاه ولي الله محدث دهلوي۔ ديوبندي مكتبِ فكر كے مشهور عالم مولانا انظر شاه كشميري لكھتے هيں: ٫٫اكابر ديوبند جن كي ابتدا ميرے خيال ميں سيدنا الامام مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ الله عليه اور فقيه اكبر مولانا رشيد احمد گنگوهي سے هے ۔ ديوبنديت كي ابتدا حضرت شاه ولي الله رحمۃ الله عليه سے كرنے كے بجاے مذكوره بالا دو عظيم انسانوں سے كرتا هوں ۔٬٬ ﴿ماه نامه البلاغ،كراچي،مارچ1969ئ،ص:48﴾ اور يهي نهيں كه تحريكِ ديوبند يت كے باني اكابر ديوبند تھے بلكه دينِ ديوبنديت كے موجد و باني بھي اكابر ديوبند تھے۔ شيخ زكريا سهارن پوري نے ايك مجلس ميں اس كا اعتراف كرتے هوئے لكھا هے: ٫٫همارے اكابر حضرت گنگوهي و حضرت تھانوي نے جو دين قائم كيا تھا ، اس كو مضبوطي سے تھام لو، اب رشيد و قاسم پيدا هونے سے رهے، بس ان كي اتباع ميں لگ جاو ۔٬٬﴿صحبتے با اوليا، مرتبه تقي الدين ندوي مظاهري،ص:126﴾ مولانا عميد الزماں كيرانوي موضوع كے حوالے سے اپنے مضمون ميں لكھتے هيں: ٫٫اگرچه حاجي صاحب كا نام ان مجاهدين ميں آتا هے جو 1857ئ كي جنگِ آزادي كے بعد نماياں هوئے، تاهم حقيقت يه هے كه تحريكِ آزادي يا تحريكِ جهاد كو كسي مرحلے تك پهنچانے اور اس كے ليے مناسب فضا هم وار كرنے ميں حاجي صاحب كا اهم حصه تھا۔ اپني طبيعت ميں وه حضرت سيد احمد شهيد بريلوي كے هم رنگ اور هم مشرب تھے، آپ كے دادا پير حضرت حاجي عبد الرحيم صاحب شهيد ولايتي سيد صاحب كي تحريك ِ جهاد ميں شريك تھے۔٬٬ ﴿مجله ترجمان دار العلوم دهلي، اكتوبر، نومبر دسمبر 2007ئ ،ص:18﴾ آنكھوں ميں دھول جھونكنے كي مثال آپ نے سني هوگي۔ اگر اس كي تازه مثال ديكھني هو تو مندرجه بالا عبارت پڑھ ليجيے۔ كتني ڈھٹائي كے ساتھ حاجي امداد الله مهاجر مكي كے عقيده و مسلك كا رشته بر صغير ميں وهابيت كے باني مولوي اسماعيل دهلوي سے جوڑا جارها هے۔ حالانكه حاجي امداد الله مهاجر مكي كے نظريات و معمولات اسماعيل دهلوي سے قطعاً مختلف بلكه متصادم تھے۔ مولوي اسماعيل دهلوي نے جن چيزوں كو حرام و شرك لكھا هے، حاجي صاحب نه صرف يه كه ان پر كاربند تھے بلكه ان كے مبلغ و ترجمان تھے۔ بلكه امكانِ كذبِ باريِ تعاليٰ كے امتناع ،ميلاد و فاتحه، علمِ غيبِ مصطفي كے اثبات اور رسول الله كو اپنے جيسا بشر كهنے كي مخالفت ميں ان كے عقائد وهي تھے جن كي ترجماني امام احمد رضا قدس سره اور ديگرجمهور علماے اهلِ سنت كي تھي۔ اب هم ذيل ميں دونوںكے عقائد و نظريات كا فكري تصادم كا ايك منظرپيش كرتے هيں۔ مولوي اسماعيل دهلوي كا عقيده رساله يك روزي ميں هے: ٫٫جھوٹ نه بولنے كو الله تعاليٰ كے كمالات سے مانتے هيں اور اسي كے ساتھ الله تعاليٰ كي مدح كرتے هيں۔ اس كے برخلاف كوئي شخص گونگے اور پتھر كي تعريف جھوٹ نه بولنے كي صفت كے ساتھ نهيں كرے گا ، لهذا ظاهر هے كه وصفِ كمال يهي هے كه كوئي شخص جھوٹ بولنے كي قدرت ركھنے كے باوجود به رعايت مصلحت و تقاضاے حكمت اور جھوٹ كي آلائش سے بچتے هوئے جھوٹ نهيں بولتا اسي شخص كي تعريف كي جائے گي وه عيبِ كذب سے پاك اور كمالِ صدق سے متصف هے، به خلاف اس كے جس كي زبان گنگ هو۔٬٬﴿رساله يك روزي،ص:145، مطبوعه ديوبند﴾ اب اسي عقيدے ميں حاجي امداد الله مهاجر مكي كا دو ٹوك نظريه ملاحظه فرمائيے۔ حاجي صاحب اپنے مكتوب بنام مولوي نذير احمد خاں ميں رقم طراز هيں: ٫٫جواب اول ميں امكان و وقوع كا فرق بتايا گيا هے ، فقير كو اس سے اتنا معلوم هوا كه كذب كا نقائص ميں هونا متفق عليه هے ، پھر ذات مقدس باريِ تعاليٰ كي طرف نقص كا استناد كس طرح جائز هو سكتا هے، گو بر سبيل امكان هي سهي۔٬٬ ﴿انوار ساطعه در بيان مولود و فاتحه،ص:423﴾ فكري تصادم كي ايك دوسري مثال ملاحظه كيجيے۔ مولوي اسماعيل دهلوي تقويۃ الايمان ميں لكھتے هيں: ٫٫هر مخلوق بڑا هو يا چھوٹا﴿نبي هو يا ولي﴾وه الله كي شان كے آگے چمار سے بھي زياده ذليل هے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:19﴾ ٫٫انبيا و اوليا و امام زاده، پير ،شهيد يعني جتنے الله كے مقرب بندے هيں وه انسان هي هيں اور بندے عاجز اور همارے بھائي، مگر الله نے ان كو بڑائي دي وه بڑے بھائي هوئے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:43﴾ ان عقائد ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كي شان ميں جو كھلي توهين هے، وه كسي مومن پر مخفي نهيں۔ حاجي امداد الله كا يه عقيده هرگز نهيںبلكه وه اس كے مخالف تھے ، وه اپنے مذكوره مكتوب ميں فيصله كن گفتگو كرتے هوئے رقم طراز هيں: ٫٫انما انا بشر مثلكم الخ كا منكر كوئي اهلِ اسلام نهيں ، سب كا يهي اعتقاد هے آں حضرت صلي الله عليه وسلم بشر هيں، حضرت آدم عليٰ نبينا علي الصلوٰۃوالسلام كي اولاد ميں هيں۔ انكار اس بات كا هے كه كوئي بشر سمجھ كر بڑا بھائي كهنے لگے يا مثل اس كے اور كلمه گستاخي زبان سے نكالے ، يه البته موجب خذلان هے ۔ فقير كے اعتقاد ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم اشرف المخلوقات هيں اور باعثِ ايجادِ كائنات ع: بعد از خدا بزرگ توئي قصه مختصر٬٬ ﴿انوار ساطعه ،ص:423﴾ مولوي اسماعيل دهلوي كا ايك اور عقيده ملاحظه كيجيے: ٫٫مراديں پوري كرني، حاجتيں بر لاني، بلائيں ٹالني، مشكل ميں دستگيري كرني، برے وقت ميں پهنچنا ، يه الله هي كي شان هے ۔ كسي انبيا، اوليا، پير و مرشد كي، بھوت و پري كي يه شان نهيں، جو كسي كو ايسا ثابت كرے اور اس سے مراديں مانگے اور اس توقع پر نذر و نياز كرے اور اس كي منتيں مانے اور مصيبت كے وقت اس كو پكارے سو وه مشرك هو جاتا هے ۔ پھر خواه يوں سمجھے كه ان كاموں كي طاقت ان كو خود به خود هے ، خواه يوں سمجھے كه الله نے ان كو ايسي قدرت بخشي هے ، هر طرح شرك ثابت هوتا هے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:10﴾ مولوي اسماعيل دهلوي نے جن چيزوں كو شرك كے خانے ميں ركھا هے خود حاجي امداد الله مهاجر مكي بھي انھيں عقائد كے حامل هونے كي وجه سے مشرك هو جاتے هيں ، اب اس كے باوجود مضمون نگار كا يه لكھنا كه حاجي امداد الله مولوي اسماعيل دهلوي كے هم طبيعت، هم رنگ اور هم مشرب تھے ، كتني بڑي جرا ت اور فريب كاري هے ۔ ديكھيے حاجي امداد الله اپني خوش عقيدگي كا اعلان كرتے هوئے اور كيا لكھتے هيں: ٫٫اوليا اور مشائخ كي قبروں كي كي زيارت سے مشرف هوا كرے اور فرصت كے وقت ان كي قبروں پر آكر روحانيت سے ان كي طرف متوجه هو اور ان كي حقيقت كو مرشد كي صورت ميں خيال كر كے فيض حاصل كرے اور كبھي كبھي عام مسلمانوں كي قبروں پر جا كر اپني موت كو ياد كرے اور ان پرايصالِ ثواب كرے اور مرشد كے حكم اور ادب كو خدا اور رسول صلي الله عليه وسلم كے حكم اور ادب كي جگه سمجھے ، كيوں كه مرشدين خدا اور رسول كے نائب هيں۔٬٬﴿كليات امداديه،ص:93، مكتبه تھانوي، ديوبند﴾ اس طرح مولوي اسماعيل دهلوي غير الله سے استمداد و استعانت اور غائبانه ندا كرنے كو بھي حرام اور شرك لكھتے هيں ۔ غير الله كو وسيله بنانا اور مصيبتوں ميں انبيا اور اوليا كو پكارنے كوبھي حرام و شرك كهتے هيں، مگر حاجي امداد الله ان تمام عقائد و نظريات ميں اسماعيل دهلوي كے بر خلاف عقيده ركھتے هيں ۔ وه رسول الله اور اوليا الله سے استعانت بھي كرتے هيں ، انھيں حرف٫٫يا٬٬ سے ندا بھي كرتے هيں اور انھيں مصائب ميں وسيله بھي بناتے هيں ۔ اس كا تو واضح مطلب يه هے كه اسماعيل دهلوي كے نزديك حاجي امداد الله حرام كار اور مشرك ٹھهرے ۔ اب اس صورت ميں انھيں اسماعيل دهلوي كا هم طبيعت اور هم مشرب كهنا تاريخ و سچائي كے ساتھ كتنا بڑا كھلواڑ هے۔ هم اپنے مدعا پر حاجي امداد الله صاحب كے چند نعتيه اشعار نقل كرتے هيں اچھا هوں يا برا هوں، غرض جو بھي هوں سو هوں پر هوں تمهارا، تم مرے مختار يا رسول اس شعر ميں ندا كے ساتھ رسول الله صلي الله عليه وسلم كو مختار بھي تسليم كيا هے ، جب كه اسماعيل دهلوي كے نزديك رسول الله صلي الله عليه وسلم كو مختار ماننا شرك هے۔ جس دن تم عاصيوں كے شفيع هو گے پيشِ حق اس دن نه بھولنا مجھے زينهار يا رسول اس شعر ميں رسول الله كو شافعِ روزِ محشر كها گيا هے جو اسماعيل دهلوي كے عقيدے كے خلاف هے۔ دونوں جهاں ميں مجھ كو وسيله هے آپ كا كيا غم هے گرچه هوں ميں بهت خوار يا رسول اس شعر ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كو وسيله بنايا گيا هے جو اسماعيل دهلوي كے هم مشرب اور هم رنگ هونے سے سخت متصادم هے۔ اس طرح كے ايك دو نهيں بلكه ان كے مجموعه نعت ميں درجنوں اشعار موجود هيں مجموعه نعت كليات امداديه ميں شامل هے جو مكتبه تھانوي، ديوبند سے شائع هوا هے۔ ترجمان دار العلوم كامضمون نگار 1857ئ كے حوالے سے تاريخ سازي كرتے هوئے لكھتا هے: ٫٫قصبه شاملي 1857ئ كے زمانے ميں انگريزوں كي فوجي چھاو ني هوا كرتا تھا ۔ مئي 1857ئ ميں جب ميرٹھ كے فوجي بيركوں سے انقلاب كي چنگاري پھوٹي تو اس نے جن علاقوں كو اپني لپيٹ ميں لے ليا۔ اس ميں سهارن پور كا يه علاقه بھي شامل هے ، جهاں اٹھتے بيٹھتے جنگ و جهاد كي باتيں هوا كرتي تھيں اور فضا ميں پهلے هي سے ايك قسم كا ارتعاش موجود تھا۔ 1857ئ كي انقلابي شورش نے اهل الله كي جماعت كو ابھارا كه وه سر به كف هو كر ميدان كارزار ميں كود پڑيں كيوں كه اب انتظار فضول تھا، جيسي بھي جن حالات ميں بھي آزادي كي ايك وسيع و همه گير جنگ شروع هو چكي تھي۔٬٬﴿مجله ترجمان دار العلوم دسمبر2007ئ،ص:18﴾ مضمون نگار مزيد لكھتا هے: ٫٫اس طرح حضرت حاجي صاحب امام يا امير المومنين حضرت ضامن شهيد امير جهاد يا صدر مجلس جنگ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوي امير الافواج، حضرت مولانا منير نانوتوي ان كے فوجي سكريٹري حضرت مولانا رشيد احمد گنگوهي وزير لام بندي مقرر هوئے۔ مجاهدين كے پاس نهايت معمولي درجے كے هتھيار تھے، يعني كچھ تلواريں، كچھ نيزے اور چند توڑے دار بندوقيں۔ اس اعتبار سے يه جنگ وسائل كي بنياد پر نهيں بلكه خالص ايماني شجاعت و جرا ت كي بنياد پر لڑي جا رهي تھي۔٬٬﴿حواله سابق،ص:19﴾ مضمون نگار1857ئ كے حوالے سے علماے ديوبند كے كردار پر روشني ڈالتے هوئے مزيد لكھتاهے: ٫٫حقيقت يه هے كه جاں فروشي كے جذبے كے ساتھ جس عملي سوجھ بوجھ، تنظيم و تربيت كے ساتھ شاملي كے محاذ پر جنگ آزادي لڑي گئي ، اگر ملك كے دوسرے حصوں ميں بھي اسي سوجھ بوجھ كے ساتھ اقدامات كيے جاتے تو اتني آساني كے ساتھ انگريزوں كے ليے مجاهدين كو پسپا كرنا ممكن نهيں تھا۔٬٬﴿حواله سابق،:٩١﴾ آزاديِ هند كے بعد جب مجاهدينِ آزادي كے تذكرے فخر كے ساتھ هونے لگے، اور ان كے وارثين اعزاز و اكرام سے نوازے جانے لگے تو تاريخ نگارانِ ديوبند بھي اپنے بزرگوں كو مجاهدين ميں شمار كرنے كي تگ و دو ميں لگ گئے، اب ضرورت اس بات كي تھي كه كچھ واقعات گڑھے جائيںتاكه علماے ديوبند كوباضابطه مجاهدين كي صف ميں كھڑا كيا جا سكے ۔ اپنے اس مقصد كو پورا كرنے كے ليے انھوں نے اس تسلسل كے ساتھ انقلاب 1857ئ سے علماے ديوبند كو جوڑا كه نئي نسل واقعي انھيں 1857كے مجاهدين ميں شمار كرنے لگي اور اس موضوع پر واقعه شاملي كو انقلاب 1857ئ كا سب سے اهم واقعه بنا كر پيش كيا جانے لگا ۔ حالاں كه جنگِ آزادي ميں ان كا كردار صرف اتنا هے كه يه لوگ اپني انگريزي سركار كو خوش كرنے كے ليے مجاهدينِ آزادي سے نبرد آزما هوئے۔ يعني ان كي جنگ كا محور انگريز نهيں بلكه انگريز مخالف مجاهدين تھے ۔ علماے ديوبند مجاهدين آزادي كو٫٫ مفسدين ٬٬سے تعبير كرتے تھے ، هاں اتنا ضرور هے كه انگريزوں سے سزا دلانے كے ليے ان پر جنگِ آزادي كا الزام لگايا گيا اور انھوں نے مختلف ذرائع سے انگريز دشمني كے الزام كو ختم كرنے كي كوشش كي اور اس ميں وه كامياب بھي رهے۔ انگريز دشمني كے الزام ميں ايك بار مولانا رشيد احمد گنگوهي كو گرفتار كر ليا گيا، مگر جلد هي رها بھي كر ديا گيا ۔ حالاں كه يه وه زمانه تھا كه بڑے بڑے علما كو پھانسي اور جيل كي سزائيں دي جا رهي تھيں ۔ انقلاب ٧٥٨١ئ ميں مولانا قاسم نانوتوي ، مولانا رشيد احمد گنگوهي، حاجي امداد الله صاحب اور حافظ ضامن كا ذكر بڑے فخر و غرور كے ساتھ كيا جاتا هے ۔ حالاں كه زميني حقيقت اس سے بالكل مختلف تھي ۔ هم ذيل ميں واقعه شاملي كي حقيقت ديوبندي مكتبِ فكر كے قلم كاروں كے حوالے سے هي سپردِ قلم كرتے هيں۔ معروف ديوبندي عالم مولانا عاشق الٰهي ميرٹھي نے 1326ھ 1908ئ ميں تذكرۃ الرشيد لكھ كر شائع كي ،جس ميں واقعه شاملي كو پوري تفصيل كے ساتھ شامل كر ديا تھا ، هم اس كے چند اقتباسات ذيل ميں نقل كرتے هيں۔ موصوف لكھتے هيں: ٫٫رمضان 1273ھ يعني مئي 1857ئ كا وه طوفان جس كے تصور سے رونگٹا كھڑا هوتا هے ، هندوستان كيا بلكه دنيا بھر ميں ايسا مشهور و معروف هے كه شايد دوسرا نه هو جس ميں كارتوسوں پر چربي لپيٹے جانے كي جھوٹي افواه اڑي اور غدر برپا كر نے كے چھپے كھلے مجمعوں ميں چرچے شروع هوئے تھے جن كے سروں پر موت كھيل رهي تھي انھوں نے كمپني كے امن و عافيت كا زمانه قدر كي نظر سے نه ديكھا اور اپني رحم دل گورنمنٹ كے سامنے بغاوت كا علم قائم كيا ، فوجيں باغي هوئيں ، حاكم كي نافرمان بنيں ، قتل و قتال كا بازار كھولا اور جواں مردي كے غرے ميں اپنے پيروں پر خود كلهاڑياں ماريں۔٬٬ اس مختصر عبارت سے علماے ديوبند كا رخ تو متعين هو گيا كه وه انگريزي حكومت كو امن و عافيت كا زمانه كهتے تھے اور مجاهدين كو مفسدين اور باغي كهتے تھے ۔ موصوف مولانا رشيد احمد گنگوهي كے تعلق سے لكھتے هيں: ٫٫شروع 1276ھ 1859ئ كا وه سال تھا جس ميں حضرت امام رباني ﴿مولانا رشيد احمدگنگوهي ﴾ قدس سره پر اپني سركار سے باغي هونے كا الزام لگايا گيا اور مفسدوں ميں شريك رهنے كي تهمت باندھي گئي۔٬٬ اب اس كے بعد مولانا رشيد احمد گنگوهي كا يه چونكا دينے والا بيان بھي پڑھيے۔ هنگامه ختم هونے كے بعد قاضي محبوب علي خاں كي جھوٹي مخبري پر جب رشيد احمد گنگوهي كو گرفتار كيا گيا تو اپنے متعلق ان كے تاثرات يه تھے۔ ٫٫جب ميں حقيقت ميں اپني سركار ﴿انگريزي حكومت﴾كا فرماں بردار هوں تو جھوٹے الزام سے ميرا بال بيكا نه هوگا، اور اگر مارا بھي گيا تو سركار مالك هے ، اسے اختيار هے، جو چاهے كرے۔٬٬﴿تذكرۃ الرشيد،ج:١،ص:٠٨﴾ كيا مولانا رشيد احمد گنگوهي كا يه اعتراف اور انگريز حكومت كاكمال احترام چيخ چيخ كر يه اعلان نهيں كر رها هے كه 1857ئ كي جنگِ آزادي سے ان كا كوئي تعلق نهيں تھا ، بلكه مجاهدين كا جھوٹا الزام تھا ، جس بنياد پر مذكوره علماے ديوبند كو مجاهدين ميں شمار كيا جاتا هے وه مجاهدين آزادي كے ساتھ جنگ يا جھڑپ تھي۔ مولانا عاشق الٰهي ميرٹھي اس حقيقت كو بيان كرتے هوئے لكھتے هيں : ٫٫ان ايام ميں آپ ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ كو ان مفسدوں سے مقابله بھي كرنا پڑا جو غول كے غول پھرتے تھے ، حفاظتِ جان كے ليے تلوار البته پاس ركھتے تھے اور گوليوں كي بوچھار ميں بهادر شير كي طرح نكلے چلے جاتے تھے۔ ايك مرتبه ايسا بھي اتفاق هوا كه حضرت امام رباني ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ اپنے رفيقِ جاني مولانا قاسم العلوم اور طبيب روحاني اعليٰ حضرت حاجي صاحب و نيز حافظ ضامن صاحب كے هم راه تھے ، بندوقچيوں﴿انگريز مخالف دسته﴾ سے مقابله هو گيا ، يه نبرد آزما دلير جتھا اپني سركار كے مخالف باغيوں كے سامنے سے بھاگنے يا هٹ جانے والا نه تھا ، اس ليے پهاڑ كي طرح پرا جما كر ڈٹ گيا اور سركار﴿انگريز حكومت﴾ كي جاں نثاري كے ليے تيار هو گيا۔ الله رے شجاعت و جواں مردي كه جس هولناك منظر سے شير كا پته پاني اور بهادر سے بهادر كا زهره آب هوجائے تو وهاں چند فقير هاتھوں ميں تلوار يں ليے جم غفير بندوقچيوں كے سامنے ايسے جمے رهے گويا زمين نے پاو ں پكڑ ليے هيں۔ چناں چه آپ پر فيريں هوئيں اور حضرت حافظ ضامن صاحب زيرِ ناف گولي كھاكر شهيد هو گئے۔٬٬﴿تذكرۃ الرشيد،ج:١﴾ يه هے جنگِ آزادي ميں مذكوره علماے ديوبند كا جهاد اور انگريزي سركار سے مكمل ايثار و قرباني كي چشم كشا داستان۔ مولوي عاشق الٰهي اپنے ممدوح كے خلاف انگريز دشمني كے الزام پر آه و زاري كرتے هوئے لكھتے هيں: كيا ظلم و ستم هے كه مسيحاے جهاں كو افساد و ستم پيشه و سفاك كها جاے جو گوشه نشيں خود هي گرفتارِ محن هو كس منه سے اسے مفسد و چالاك كها جاے مولانا قاسم نانوتوي بھي مولانا رشيد احمد گنگوهي كي طرح انگريز حكومت كے وفادار اور خير خواه تھے ، بلكه آپ كے اثرات حكومت كے اعليٰ حكام تك تھے جن دنوں علما اور مجاهدين كے دستوں كو اپني جان بچانا مشكل هو رهي تھي، مولانا پورے اطمينان كے ساتھ تھے بلكه انگريزوں كے تھانوں ميں آپ كا حكم چلتا تھا اور پولس آپ كے اشاروں پر رقص كرتي تھي۔ سوانح قاسمي ميں مولوي قاسم نانوتوي كے ايك حاضر باش مولوي منصور علي خاں كي زباني يه قصه بيان كيا گيا هے ۔ وه كهتے هيں ، ايك دن ميں مولانا نانوتوي كے هم راه نانوته جا رها تھا ، اثناے راه مولانا كا حجام افتاں و خيزاں آتا هوا ملا اور اس نے خبر دي كه نانوته كے تھانيدار نے ايك عورت كے بھگانے كے الزام ميں ميرا چالان كر ديا ، خدا را مجھے بچائيے۔ مولوي منصور علي خاں كا بيان هے كه نانوته پهنچتے هي مولانا نے اپنے مخصوص كارنده منشي سليمان كو طلب كيا اور پر جلال آواز ميں فرمايا: ٫٫اس غريب كو تھانيدار نے بے قصور پكڑا هے ، تم اس سے كهه دو كه يه حجام همارا آدمي هے، اس كو چھوڑ دو ورنه تم بھي نه بچوگے، اس كے هاتھ ميں هتھكڑي ڈالوگے تو تمھارے هاتھ ميں بھي هتھكڑي پڑے گي۔٬٬﴿سوانح قاسمي،ج:١،ص:321- 322﴾ لكھا هے كه منشي محمد سليمان نے مولانا نانوتوي كا حكم هوبهو تھانيدار تك پهنچا ديا۔ تھانيدار نے جواب ديا كه اب كيا هو سكتا هے ۔ روزنامچه ميں اس كا نام لكھ ديا گيا هے۔ مولانا نانوتوي نے اس جواب پر حكم ديا تھا تھانيدار سے جا كر كهه دو ، اس كا نام روز نامچه سے كاٹ دو۔ منصور علي خاں كا بيان هے كه مولانا كا يه حكم پا كر سراسيمگي كي حالت ميں تھانيدار خود ان كي خدمت ميں حاضر هوا اور عرض كيا۔ ٫٫حضرت نام نكالنا بڑا جرم هے اگر اس كا نام نكالا تو ميري نوكري جاتي رهے گي۔ فرمايا، اس كا نام روز نامچه سے كاٹ دو تمهاري نوكري نهيں جائے گي۔٬٬﴿حواله سابق،ج:١،ص:٣٢٣﴾ لكھا هے كه ٫٫مولانا كے حكم كے مطابق تھانيدار نے حجام كو چھوڑ ديا اور تھانيدار تھانيدار هي رها۔٬٬ اس پورے واقعه كا تيور بتا رها هے كه مولوي قاسم نانوتوي كے اثرات انگريز حكام تك تھے اور بڑي موثر ساز باز تھي، ورنه جو خود انگريزوں كا دشمن و باغي هو كبھي يه حكم نهيں دے سكتا كه چھوڑ دو ورنه تم بھي نهيں بچو گے اور حكم ماننے كي صورت ميں نوكري نه جانے كا بھي يقين دلايا۔ واقعه شاملي كي پوري حقيقت صرف اتني هے كه ان علماے ديوبند نے انگريز كے باغيوں سے جنگ لڑي اور حافظ ضامن انگريزوں كي خوش نودي حاصل كرنے كي خواهش ميں جان دے بيٹھے۔ مولانا مناظر احسن گيلاني﴿م1956ئ﴾جو ديوبندي مكتبِ فكر كے شهره آفاق قلم كار هيں ۔ فيصله كن گفتگو كرتے هوئے لكھتے هيں: ٫٫مقابله اور مقاتله ميں عملي شركت كافيصله اگر سيدنا الامام الكبير﴿مولانا نانوتوي﴾ پهلے سے كيے هوئے هوتے تو اس زمانے تك آپ كا جنگي آلات كم از كم بندوق كے استعمال سے اس درجه بے گانه ره جانا كيا ممكن تھا؟ كچھ بھي هو اتني بات بهر حال يقيني هے اور ان ناقابلِ انكار چشم ديد گواهيوں كا كھلا اقتضا هے كه ماليخوليا سے زياده اس قسم كي افواهوں كي كوئي قيمت نهيں كه هنگامه كے برپا كرانے ميں دوسروں كے ساتھ سيدنا الامام الكبير﴿مولانا نانوتوي﴾ اور آپ كے ديني و علمي رفقا كے بھي هاتھ تھے بلكه واقعه وهي هے جو مصنف امام ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ نے لكھا هے كه ٫٫مولانا فساد سے كوسوں دور تھے۔٬٬﴿سوانح قاسمي ،ج:٢،ص؛109﴾ شيخ محمد زكريا سهارن پوري كے مريد پروفيسر بصير احمد خاں سابق صدر شعبه علوم اسلاميه همدرد يونيورسٹي نے واقعه شاملي پر اظهارِ خيال كرتے هوئے بيان كيا هے: ٫٫شاملي كي جھڑپ جس ميں مولانا محمد قاسم نانوتوي و مولانا رشيد احمد گنگوهي وغيرهما كي شركت اور حافظ ضامن كي شهادت كا ذكر هے وه مقامي نوعيت كا ايك محدود تصادم تھا ، جس كا سهارا لے كر بهت بڑے پيمانے پر جنگ ٧٥٨١ئ ميں ان حضرات كے سرگرم كردار وغيره كا دعويٰ كرنا صحيح نهيں۔٬٬﴿1857ئ پس منظر و پيش منظر،ص:100،از:مولانا يٰسين اختر مصباحي﴾ ان تمام شواهد كي روشني ميںاب آخري فيصله اپنے قارئين پر چھوڑتا هوںكه انقلاب 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا كيا كردار تھا۔وه انگريزوں كے وفادار تھے يا غدار ؟ -
پیر نصیر الدین کے حوالے سے اعتراض کرنے سے پہلے موصوف کا موقف و نظریہ معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس ٹھریڈ کو ملاحظہ کیجئے ۔ http://www.islamimehfil.info//topic/10585-hazrat-pir-naseer-ud-deen-naseer-ka-maslak-kya-tha/page__p__62279__hl__peer%20naseer__fromsearch__1entry62279 اب رہا اس اعتراض کا جواب تو شروحات کے اسکریں شاٹ پیش ہیں اس میں اس شعر کی توضیح بمع حوالہ جات ہے۔ http://www.nafseislam.com/en/Literature/Urdu/Books/SharhaHadayqeBakhshish/SharhaHadayqeBakhshish.htm http://www.nafseislam.com/en/Literature/Urdu/Books/SharhaSalameRaza/SharhaSalameRaza.htm
-
بِسم اللّٰه الرّحمٰن الرَحيم حامداً و مصلّياً وّ مسلّما ً يه سوال آج كے دور ميں اس حيثيت سے كافي اهميت كا حامل هے كه غير مقلدين عوام كو گمراه كرنے كے ليے يه دريافت كرتے هيں كه غوث پاك كس كے مقلد تھے؟ وه كس مذهب پر تھے؟ پھر وه يه ذهن ديتے هيں كه وه مقلد نهيں تھے تا كه عوام كو يه باور كرا سكيں كه جيسے وه مقلد نهيں تھے ويسے يه بھي مقلد نهيں هيں، اس ليے هم سب سے پهلے اپنے قارئين كرام پر مختصراً يه واضح كر ديں كه حضور غوث پاك سيدنا الشيخ محي الدين عبد القادر جيلاني رضي الله تعاليٰ عنه كبھي بھي غير مقلد نهيں تھے، بلكه سلف سے خلف تك كبھي يه بلا نهيں پائي گئي۔ وه حضرات اگر علوم ميں رسوخ و كمال و عنايت خداوندي سے درجه اجتهاد تك پهنچ جاتے تو مجتهد هوتے اور اگر اس درجه عليا تك رسائي نه هو پاتي تو مقلد هوتے، تاريخ فقه و اجتهاد ميں ايسي نظير نهيں ملتي كه جو لوگ اجتهاد كي نعمت سے محروم هوں وه راسخين في العلم سے بے نياز هو كر تقليد سے آزادي كے دعوے دار هو جائيں۔ واضح هو كه غير مقلد اسے نهيں كهتے جو تقليد نه كرے بلكه اسے كهتے هيں جو مجتهد نه هو اور تقليد نه كرے۔ آج كے زمانے ميں جنھيں غير مقلد كها جاتا هے وه يا تو جاهلِ مطلق هوتے هيں يا كچھ پڑھے لكھے ، اجتهاد كي صلاحيت ان ميں قطعاً نهيں پائي جاتي پھر بھي وه تقليدِ ائمه كے دشمن بنے هوئے هيں كيوں كه نه صرف يه كه وه تقليد نهيں كرتے بلكه تقليد ائمه مجتهدين كو شرك كهتے هيں۔ حضور سيدي غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه كي حيات طيبه ميں تقليد اور اجتهاد دونوں كے نمونے پائے جاتے هيں ، پهلے آپ مقلد تھے پھر الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبري كي نعمت سے سرفراز فرماكر اجتهاد مطلق كے منصب پر فائز فرما ديا، اور ايسا كبھي نهيں رها كه آپ مجتهد بھي نه هوں اور مقلد بھي نه هوں جيسا كه آج كل كے غير مقلدين كا يهي حال هے۔ هم اپني بات كو واضح كرنے كے ليے كچھ شواهد پيش كرتے هيں: حضور غوث پاك مقلد تھے: حضور غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه حضرت سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے جيسا كه آپ كي كتاب مستطاب غنيۃ الطالبين كي درج ذيل عبارات سے ثابت هوتا هے: هو مذهبُ مامِنا حمدَ بنِ محمّد بنِ حنبل رحمه اللّٰه تعاليٰ ﴿45 2﴾ اور يهي همارے امام احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مذهب هے۔ عند مامنا حمد رحمه الله تعاليٰ ﴿45 2﴾ يه همارے امام احمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مسلك هے۔ وَقَد نَصَّ ال مامُ حمدُ رحمه اللّٰه۔ ﴿43 1﴾ امام احمد رحمه الله تعاليٰ نے يه صراحت فرمائي هے۔ ل نَّ ال مام حمدَ بنَ حَنبل قال ﴿47 1﴾ اس ليے كه امام احمد نے فرمايا ۔ ل نّه رُوي نّ ال مام حمدَ بنَ حنبل قال اس ليے كه امام احمد بن حنبل سے يه روايت هے كه آپ نے فرمايا۔ اس طرح كي عبارات غنيۃ الطالبين ميں بے شمار مقامات پر هيں جن سے عياں هوتا هے كه آپ سيدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ الله عليه كے مقلد تھے، كيوں كه اپنے بيان كرده مسائل كو ان كي طرف منسوب كرنا، ان كے مذهب كو نقل كركے اسے بر قرار ركھنا، اسے اختيار كرنا اور ان سے استناد فرمانا شان تقليد هے۔ مقلد كا كام هے نقل مذهب، اور اس كي دليل هے قول امام، اس كے مظاهر غنيۃ الطالبين ميں كھلي آنكھوں سے جا بجا مشاهده كيے جا سكتے هيں، يهاں تك كه آپ نے ايك مقام پر امام ممدوح عليه الرحمه كے مذهب پر هي وصال پانے كي دعا فرمائي هے۔ الفاظ يه هيں: قال ال مام بو عبدِ اللّٰه حمدُ بنُ محمّدِ بنِ حنبل الشّيباني رحمه اللّٰه و مَاتَنَا علي مذهبه صلًا و فرعًا وحَشَرَنا في زُم رَتِه يه قول امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيباني كا هے الله عز و جل ان پر رحم فرمائے اور هميں ان كے مذهب كے اصول و فروع پر وفات دے، اور قيامت كے دن هميں ان كے زمرے ميں اٹھائے۔﴿105 2غنيۃ﴾ يه هے مكمل تقليد۔مزيد اطمينان كے ليے درج ذيل شواهد بھي ملاحظه فرمائيں۔ شذرات الذهب ميں هے: ثم تفقه في مذهب الامام احمد بن حنبل علي ابي الوفائ بن عقيل و بي الخطاب و بي الحسين محمد بن القاضي بي يعلي والمبارك المخرمي وقال ابن السمعاني ھو امام الحنابلۃ وشيخھم في عصره فقيه صالح آپ نے ابو الوفا بن عقيل اور ابو الخطاب اور ابو الحسين محمد بن قاضي ابو يعلي اور مبارك مخرمي سے مذهب امام احمد بن حنبل كي فقه حاصل كي اور سمعاني فرماتے هيں كه آپ اپنے زمانے ميں حنابله كے امام اور شيخ تھے۔﴿ شذرات الذهب في اخبار من ذهب للمو رخ الفقيه عبد الحئي الحنبلي،ص:199 200﴾ اور سير النبلا ميں آپ كو حنبلي اور عبر ميں مدرس حنابله لكھا هے۔ قاضي القضاۃ محب الدين عليمي نے اپني تاريخ ميں آپ كو حنابله كا امام اور شيخ لكھا هے۔ ايسا هي قلائد الجواهر مشموله سر الاسرار،ص:192 193ميں هے۔ ان تصريحات سے بخوبي واضح هو جاتا هے كه حضور غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه مقلد تھے، غير مقلد نه تھے۔ فقها كے تين طبقات هيں: ﴿١﴾ مجتهدِ مطلق ﴿٢﴾ مجتهدِ مذهب ﴿٣﴾ مقلد پھر مقلد كے بھي اعليٰ، اوسط، ادنيٰ مختلف مدارج هيں۔ جس فقيه كو الله تبارك و تعاليٰ نے يه كمالِ علمي عطا فرمايا هے كه وه كتاب و سنت سے مسائل شرعيه كے استنباط كے ليے جامع اصول وضع فرمائيں، اور تمام دلائل پر گهري نظر ركھتے هوئے استنباط احكام فرمائيں، وه ٫٫مجتهد مطلق٬٬ كے نام سے موسوم هوتے هيں جيسے امام اعظم ابو حنيفه ، امام مالك، امام شافعي، امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنهم۔ اور جس فقيه كو الله عز وجل نے اس حد تك وسعتِ علمي عطا فرمائي هے كه وه مجتهد مطلق كے بيان كرده اصولوں كے پيش نظر فروعي احكام كا استنباط فرمائيں، مگر انھيں اصول وضع كرنے كي استطاعت نه هو وه ٫٫مجتهدِ مذهب٬٬ كهلاتے هيں۔ جيسے امام اعظم كے اصحاب امام ابو يوسف و امام محمدبن حسن، امام زفر وغيره رضي الله تعاليٰ عنهم۔ اور جس فقيه كو دونوں پر قدرت نه هو وه مقلد هوتے هيں جيسے امام قاضي خاں، صاحب هدايه وغيرهما رحمهم الله تعاليٰ۔ ٫٫مذهب حنبلي كے اصول و فروع پر وفات پانے ٬٬كا لفظ اس بات كي شهادت ديتا هے كه يه جمله تحرير فرماتے وقت حضرت سيدي غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه اجتهاد كے منصب پر فائز نه تھے اس ليے آپ اصول و فروع دونوں ميں سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے۔ محقق علي الاطلاق شيخ عبد الحق محدث دهلوي رحمۃ الله عليه زبدۃ الآثار ميں رقم طراز هيں: ٫٫آپ كي خدمت ميں دنياے اسلام كے هر شهر سے استفتا آيا كرتے تھے، جس پر آپ كي آخري راے طلب كي جاتي تھي۔ آپ فقهي مسائل ميں امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديا كرتے تھے۔ صاحب بهجۃ الاسرار فرماتے هيں كه آپ مجتهد في المذهب تھے، آپ اجتهاد كرتے تھے، آپ كا اجتهاد كبھي مسلك شافعي پر هوتا اور كبھي مسلك حنبلي پر۔ يه مشهور هے كه آپ مذهب حنبلي پر تھے اور بغداد ميں اكثريت علماے حنابله كي هي تھي، چوں كه امام احمد بن حنبل بھي بغداد ميں رهے اس ليے ان كي تعليمات كا اثر زياده تھا۔ آپ كا مقبره بغداد ميں هي هے۔ پهلے امام شافعي رضي الله تعاليٰ عنه بھي بغداد ميں رهے پھر حضرت امام احمد بن حنبل كو بغداد چھوڑ كر خود مصر چلے گئے۔ آپ ﴿حضور غوث اعظم ﴾ حضرت امام احمد بن حنبل كے بڑے مداح تھے۔ ﴿زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص36 37﴾ اس عبارت سے چند باتيں معلوم هوئيں : ﴿١﴾ آپ حنبلي مذهب پر تھے۔ ﴿٢﴾ امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديتے تھے، اس كي وجه يه تھي كه سوال كرنے والے كبھي شافعي مذهب كے هوتے، كبھي حنبلي مذهب كے۔ شافعي مذهب كے مقلد كا سوال آتا تو شافعي مذهب پر جواب ديتے اور حنبلي مذهب كے سوال كا جواب حنبلي مذهب پر ديتے، جيسا سوال ويسا جواب۔ ﴿٣﴾ مجتهد في المذهب تھے يه درجه ولايت پر فائز هونے كے بعد كا حال هے جيسا كه هم عن قريب واضح كريں گے۔ ان شائ الله تعاليٰ۔ رئيس المحدّثين حضرت مُلّا علي قاري عليه رحمۃ الباري نے بھي يه تصريح كي هے كه ٫٫سركار غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه حنبلي مذهب ركھتے تھے٬٬ . ﴿زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص22﴾ حضور غوث پاك مجتهد مطلق تھے: يه آپ كے عنفوان شباب كا حال هے۔ بعد ميں جب آپ كو بارگاه احديت كي طرف سے قطبيت كبري اور غوثيت عظمي سے نواز ا گيا اور معرفت الٰهي كے ساتھ آپ كو كشف كامل عطا كيا گيا جس سے آپ پر كتاب و سنت كے علوم و معارف ، اور اهل حقائق و ارباب اجتهاد كے اسرار اور مدارك كھل گئے تو آپ خود منصب اجتهاد پر فائز هو گئے۔ كيوں كه وليِ كامل ، جيسا كه اكابرِ امت نے تصريح فرمائي هے، مذهب معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا۔ وه اپنے كشف كي وجه سے مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي و برابر هوتا هے، بلكه بسا اوقات اس كا يقين بعض اهل اجتهاد سے زياده هوتا هے، وه اپنا علم شريعت كے سر چشمه كتابِ الٰهي سے اخذ كرتا هے جهاں سے اربابِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور اسے قرآن مقدس كے ان تمام مواقع كي معرفت حاصل هوتي هے جو احاديث نبويه كے مآخذ هوتے هيں، اس ليے وه علماے امت كي تقليد كے بجاے صرف صاحبِ شريعت كي تقليد كرتا هے۔ عارف صمداني، قطب رباني سيدي امام عبد الوهاب شعراني رضي الله تعاليٰ عنه اپني كتاب مستطاب ٫٫ميزان الشريعۃ الكبري٬٬ ميں اس امر كي وضاحت كرتے هوئے رقم طراز هيں: ف ن من اطلع علي ذلك من طريق كشفه ر يٰ جميع المذاهب و قوالَ علمائها متّصلۃً بِعَينِ الشريعۃ، و شارعۃً ليها كاتّصالِ الكفّ بال صابع والظلّ بالشّاخِص ومثل هذا لا يومر بالتعبّد بمذهب معين لشهوده بتساوي المذاهب في ال خذ من عينِ الشريعۃ و نّه ليس مذهب ولي بالشّريعۃ من مذهب ل ن كل مذهب عنده متفرع من عين الشريعۃ وصاحبُ هذا الكشف قد ساوي المجتهدين في مقام اليقين، وربّما زاد علي بعضهم لاغتراف علمه من عين الشريعۃ ولا يحتاج لي تحصيل آلات الاجتهاد الّتي شرطوها في حق المجتهد ﴿ص14، ج1﴾ جو ولي اپنے كشف كے ذريعه شريعت كي اس ميزان پر مطلع هو جائے وه يه مشاهده كرتا هے كه تمام مذاهب اور علما كے اقوال شريعت كے چشمے سے جُڑے هوئے هيں اور سب كے سب اسي كي طرف به رهے هيں، اس چشمے كے ساتھ مذاهب كا اتصال ايسا هي هے جسے انگليوں كے ساتھ هتھيلي اور جسم كے ساتھ سائے كا اتصال هوتا هے۔ ايسا صاحب كشف ولي كسي مذهبِ معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا، كيوں كه وه ديكھ رها هوتاهے كه سارے مذاهب ، شريعت كے سر چشمه قرآن سے ماخوذ و مستند هونے ميں هم رتبه هيں، اور اس حيثيت سے كوئي بھي مذهب دوسرے مذهب سے افضل نهيں هے، كيوں كه اس كي نگاه ميں هر مذهب شريعت هي كے چشمے سے پھوٹا هوا ايك سوتا هے يه صاحب كشف ولي مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي هوتا هے، بلكه بسا اوقات يقين ميں بعض مجتهدين سے زياده هوتا هے كيوں كه يه اپنے علم كا اكتساب شريعت كے منبع سے كرتا هے اور اجتهاد كے ان آلات كے حاصل كرنے كا محتاج نهيں هوتا جو مجتهد كے ليے شرط اور ضروري هيں۔ نيز اسي مفهوم كو انھوں نے ايك دوسرے مقام پر اپنے مخصوص انداز بيان ميں اس طرح واضح كيا هے: ٫٫ اگر تم كهو كه جو شخص شريعت كے سر چشمه ﴿قرآن كے علوم و معارف ﴾ پر مطلع هو جائے وه منبعِ شريعت سے اكتساب علم كرنے ميں مجتهد كا شريك هوتا هے اور اسے تقليد كا حكم نهيں هوتا، تو جواب يه هے كه واقعه ايسا هي هے، كيوں كه جس كے ليے بھي ولايتِ محمدي ثابت هو جائے وه احكام شرع كو وهيں سے اخذ كرتا هے جهاں سے اهلِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور وه علما كي تقليد كے بجاے رسول الله صلي الله تعاليٰ عليه وسلّم كي تقليد كرتا هے۔٬٬ ﴿ص26، ج 1﴾ اسي كتاب ميں ايك دوسرے مقام پر وليِ كامل كي پهچان اس طرح كرائي گئي هے: لا يبلغ الوليُّ مقامَ الكمال لّا ن صار يعرف جميع منازعِ ال حاديث الواردۃ عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه تعاليٰ عليه وسلّم، ويعرف من ين خَذَها الشّارِعُ من القرآن العظيم ف نّ اللّٰه تعاليٰ قال: ٫٫مَا فَرَّط نَا فِي ال كِتَابِ مِن شَي ئ ٬٬ فجميع ما بَ ےَّ نَ ت ه الشريعۃُ من ال حكام هو ظاهر الم خذ للولي الكامل من القرآن كما كان عليه ال ئمّۃ المجتهدون ولولا معرفتهم بذلك ما قدروا علي استنباط ال حكام الّتي لم تُصرِّح بها السُّنّۃ وليِ كامل مقام كمال كو اس وقت پهنچتا هے جب وه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي ساري احاديث كے ايك ايك ماخذ كا عارف هو جائے، اور يه جان لے كه شارع عليه الصلاۃ والسلام نے قرآن عظيم سے ان احاديث كو كهاں سے اخذ فرمايا هے۔ كيوں كه الله عز وجل كا ارشاد هے كه ٫٫هم نے قرآن ميں كوئي بھي چيز اٹھا نه ركھي٬٬ ۔ وليِ كامل كے ليے تمام احكام شرع كا ظاهرِ ماخذ قرآن مقدس هے جيسا كه ائمه مجتهدين كے ليے احكام شرع كا ماخذ قرآن مقدس هے۔ اگر انھيں اس ماخذ پر آگاهي نه هوتي تو سنت نبويه ميں جن احكام كي تصريح نهيں هے، ان كے استنباط پر قادر نه هوتے۔ اس تفصيل سے يه امر بخوبي واضح و روشن هو گيا كه وليِ كامل كي شان تقليد سے بالا تر هے كيوں كه يه خود مجتهد هوتا هے، اور شريعت كے سر چشمه قرآن سے احكام اخذ كرتا هے۔ اور يه بھي ايك مسلم الثبوت حقيقت هے كه حضور غوث الثقلين رضي الله تعاليٰ عنه، الله تعاليٰ كے بڑے جليل القدر كامل و اكمل ولي تھے، آپ كي شان مرتبه كمال ميں تمام اولياے كاملين سے بالا تھي، اسي ليے آپ نے ارشاد فرمايا: ٫٫قَدَمي هٰذِه عَلَيٰ رَق بَۃِ كُلِّ وَلِيِّ اللّٰه٬٬ ميرا يه قدم تمام اوليائ الله كي گردن پر هے۔ اور يهي وجه هے كه جب اس اعلان كي شهرت كائنات ارضي كے مشايخِ وقت تك پهنچي تو متقدمين نے اس اعلان كے سامنے سر تسليم خم كر ديا، معاصرين كي گردنيں، جھك گئيں، اور دنيا كے تمام مشائخ خواه حاضر تھے يا غائب، چھوٹے تھے يا بڑے، مشرق ميں تھے يا مغرب ميں، هر ايك نے تصديق اور تائيد كي۔ اس ليے آپ بلا شبهه مجتهد تھے اور فقهي مسائل ميں اپنے اجتهاد پر عمل كرتے تھے۔ البته آپ كا اجتهاد كبھي حنفي مذهب كے مطابق هوتا اور كبھي مالكي، شافعي يا حنبلي كے موافق هوتا، اس ليے آپ چاروں مذاهب پر فتوي ديتے تھے۔ اور حضرت ملا علي قاري، نيز حضور غوث پاك كے دوسرے تذكره نگاروں نے جو يه انكشاف كيا هے كه: آپ حنبلي المذهب تھے، ليكن اپنے زمانه ميں چاروں مذاهب ﴿حنفي، شافعي، مالكي و حنبلي﴾ پر فتوي ديا كرتے تھے٬٬۔﴿نزهۃ الخاطر الفاتر ص22﴾ اس كا مطلب يه هے كه سائل جس مذهب كا مُقلِّد هوتا اسي كے مطابق آپ فتوي صادر كرتے۔ يه مطلب نهيں هے كه آپ هر امام كے مذهب پر عمل كرتے تھے جيسا كه غير مقلدين زمانه نے سمجھا۔اور منصبِ اجتهاد پر فائز هونے كے بعد آپ كا اجتهاد انھيں چاروں مذاهب ميں سے كسي كے موافق هوتا تو آپ فتوي اپنے اجتهاد كے مطابق صادر كرتے مگر اسي كے ساتھ ائمه اربعه ميں سے كسي امام كي موافقت بھي هو جاتي۔ آپ كا اجتهاد كبھي چاروں مذاهب سے باهر نه هوتا۔ بسا اوقات ايسا بھي هوتا هے كه ولي كامل اجتهاد كے منصب پر پهنچ جاتا هے اور اپنے هي اجتهاد پر عمل بھي كرتا هے ليكن جس امام كي وه پهلے تقليد كر چكا هے اس كے ادب ميں وه اپنے آپ كو مقلد ظاهر كرتا هے يا اس كا اجتهاد امام مجتهد كے موافق هوتا هے امام شعراني فرماتے هيں: ٫٫اگر تم يه كهو كه وليِ كامل بلا شبهه كسي امام كا مقلد نهيں هوتا وه اپنا علم اسي چشمے سے اخذ كرتا هے جهاں سے مجتهدين كے مذاهب كے سوتے به رهے هيں حالاں كه هم ديكھتے هيں كه كچھ اوليا بعض ائمه كي تقليد كرتے هيں۔ تو جواب يه هے كه بعض اوليا كي يه تقليد اس كے مقام كمال تك پهنچنے سے پهلے هوتي هے يا وه اس منصب پر پهنچ چكا هوتا هے ليكن اس مسئله ميں اپنے آپ كو بعض ائمه كے ادب ميں ان كے مذهب كا مقلد هونا ظاهر كرتا هے حالاں كه اس ولي كا عمل اس مجتهد كے قول پر اس ليے هوتا هے كه اس كي دليل پر مطلع هوتا هے اس كے قول پر از راه تقليد عمل كرنے كے ليے ايسا نهيں كرتا، بلكه اس وجه سے ايسا كرتا هے كه مجتهد كا قول اس ولي كے كشف و اجتهاد كے موافق اترتا هے تو حاصلِ كلام يهي هوا كه يه ولي صرف شارع عليه السلام كي تقليد كرتا هے بلكه اس مقام پر هر ولي صاحب شريعت حضور انور صلي الله تعاليٰ عليه وسلم هي سے علم اخذ كرتا هے اور جس مسئلے ميں وه اپنے سامنے اپنے نبي كے قدم كا مشاهده نه كرے اس پر ايك قدم چلنا بھي حرام سمجھتا هے۔ ﴿ص28 29﴾ اور خاص سركار غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه سے متعلق امام شعراني فرماتے هيں كه: وقد قلتُ مرّۃً لِسےّدي علي الخوّاص رضي اللّٰه تعاليٰ عنه : كيف صحّ تقليدُ سےّدي الشيخ عبدِ القادر الجيليّ لل مام حمد بن حبنل و سےّدي محمد الحنفي الشاذلي لل مام بي حنيفۃ مع اشتهارهما بالقطبيۃ الكبريٰ وصاحبُ هذا المقام لا يكون مقلّدًا لّا للشارع وحده۔؟ فقال رضي اللّٰه عنه: وقد يكون ذلك منهما قبل بلوغهما لي مقام الكمال ثم لمّا بلغا ليه استصحب الناسُ ذلك اللقب في حقهما مع خروجهما عن التقليد انتهي فاعلم ذلك ﴿مقدمۃ ميزان الشريعۃ ص29﴾ ميں نے اپنے شيخ سيدي علي خوّاص رضي الله تعاليٰ عنه سے ايك مرتبه دريافت كيا كه سيدي شيخ عبد القادر جيلي كا امام احمد بن حنبل كي اور سيدي شيخ محمد حنفي شاذلي كا امام ابو حنيفه كي تقليد كرنا كيو ں كر درست هے جب كه يه حضرات قطبيت كبريٰ كے ليے مشهور هيں اور ايسے مرتبه كے ولي صرف شارع كي تقليد كرتے هيں؟ تو انھوں نے فرمايا كه يه دونوں بزرگ مقام كمال تك رسائي حاصل كرنے سے پهلے تقليد كرتے تھے پھر جب يه حضرات اس مقام رفيع پر فائز هو گئے تو لوگوں نے ان كے حق ميں اسي لقب كو باقي ركھا حالاں كه يه تقليد كے حكم سے بالا تر هو كر مجتهد هو چكے تھے۔ اعلي حضرت امام احمد رضا عليه الرحمۃ والرضوان نے ايك دوسري توجيه فرمائي هے جو بجاے خود بهت نفيس هے۔ رقم طراز هيں: ٫٫حضور ﴿غوث پاك﴾هميشه سے حنبلي تھے اور بعد كو جب عينُ الشريعۃ الكُبري تك پهنچ كر منصب اجتهاد مطلق حاصل هوا، مذهب حنبلي كو كمزور هوتا هوا ديكھ كر اس كے مطابق فتوي ديا كه حضور محي الدين هيں اور دين متين كے يه چاروں مذاهب ﴿مذهب حنبلي و مذهب حنفي وغيرهما﴾ ستون هيں۔ لوگوں كي طرف سے جس ستون ميں ضعف آتا ديكھا اس كي تقويت فرمائي۔ ﴿فتاوي رضويه دوازدهم ص227﴾ نيز فرماتے هيں: حضرت سيدنا غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه محي الدين هيں، اِحياے دين كے ليے قائم كيے گئے﴿﴿١﴾زبدۃ ا لآثار ميں هے: وجه تسميه مشايخ قادريه بيان كرتے هيں كه لوگوں نے آپ سے ٫٫محي الدين٬٬ لقب كي وجه دريافت كي تو آپ نے فرمايا: ٫٫ميں ايك دفعه ايك لمبے سفر سے بغداد كي طرف لوٹ رها تھا، ميرے پاو ں ننگے تھے۔ مجھے اس نے سلام كيا ميں نے ٫٫وعليكم السلام٬٬ كها تو مجھے كهنے لگا كه ميرے قريب هو جاو ۔ ميں نزديك هوا تو مجھے كهنے لگا: مجھے اٹھاو ۔ ميں نے اُسے اٹھا كر بٹھاياتو اس كا جسم اچھا توانا نظر آنے لگا اور اس اس كے چهرے پر رونق نظر آنے لگي مجھے اُس نے پوچھا كيا تم مجھے پهچانتے هو؟ ميں نے نفي ميں جواب ديا تو كهنے لگا: مَيں تمھارا دين هوں جو اس قدرنحيف و نزار هو گيا تھا چنانچه آپ نے ديكھ ليا هے كه آپ كي وجه سے مجھے الله تعاليٰ نے از سر نو زندگي بخشي هے۔ آج سے تمھارانام ٫٫محي الدين ٬٬ هوگا۔ جب ميںجامع مسجد كي طرف واپس آيا تو مجھے ايك شخص ملا اور مجھے كهنے لگا: يا سےّد محي الدين۔ ميں نے نماز ادا كي تو لوگ ميرے سامنے ادبًا كھڑے هو گئے اور هاتھوں كي بوسه دينے لگے اور زبان سے ٫٫يا سےّد محي الدين٬٬ پكارتے جاتے تھے حالاں كه اس سے پهلے كوئي بھي مجھے اس لقب سے نهيں پكارتا تھا۔ ﴿ص38﴾ايسا هي نفحات الانس من حضرات القدس ميں بھي هے۔﴾ اور مذهب حنبلي اسلام كا رُبع ﴿چوتھائي حصه﴾ هے حضور سيد المرسلين صلي الله تعاليٰ عليه وسلم نے سيدنا امام احمد بن حبنل رضي الله تعاليٰ عنه سے فرمايا: جَعَل تُك رُبُعَ ال سلام هم نے تمھيں اسلام كا چهارم بنايا۔يه مذهب ختم هونے كے قريب تھا لهذا اس كے احيا كے ليے اس پر افتا فرماتے ۔ ﴿فتاوي رضويه ص33، ج11﴾ اس وضاحت سے امام احمد رضا عليه الرحمه نے يه اشاره بھي فرما ديا كه مذهب حنبلي كي موافقت اس كے احيا كے ليے فرمائي، اس ليے نهيں كه مذهب حنفي ضعيف هے بلكه يه تو دلائل كے لحاظ سے قوي هے اور حضرت امام اعظم رضي الله تعاليٰ عنه كو ائمه ثلثه پر شرف تابعيت بھي هے جس كي وجه سے اسے يه خاص شرف بھي حاصل هے۔ خلاصه كلام يه كه :حضور سيدي غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه ابتدائً مقلد تھے، حضرت امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كي تقليد كرتے تھے بعد ميں جب الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبريٰ كے منصب پر فائز فرما كر اجتهاد مطلق كي نعمت سے شرف ياب فرمايا تو آپ كتاب الله و سنت رسول الله سے خود استنباطِ احكام فرماتے اور اس كے مطابق فتاوي صادر فرماتے كه مجتهد مطلق اسي كا مكلف هے اس كے ليے تقليد روا نهيں۔ هاں آپ كا اجتهاد ائمه اربعه رضي الله تعاليٰ عنهم ميں سے هي كسي كے اجتهاد كے موافق هوتا كبھي امام اعظم ابو حنيفه كے، كبھي امام مالك كے ، كبھي امام شافعي كے، اور زياده تر امام احمد بن حنبل كے ۔ مگر ايسا كبھي نه هوا كه آپ كا كوئي اجتهاد ان چاروں مذاهب سے خارج هو تو حق آج انھيں چاروں مذاهب ميں منحصر هے اور جو اس سے باهر هے وه سواد اعظم اهل سنت و جماعت سے باهر اور ٫٫مَن شَذَّ شُذَّ في النّار٬٬ كا مصداق هے جيسا كه علماے امت نے اس كي صراحت فرمائي۔ غوث اعظم بمنِ بے سر و ساماں مددے قبله ديں مددے، كعبه ايماں مددے
- 1 reply
-
- 1
-
-
علمِ ميراث مذهبي فنون ميں بهت هي جامع ، مشكل اور اهميت كا حامل فن هے اور فقه كا ايك مستقل باب هے۔ الله سبحانه و تعاليٰ نے انساني مخلوق كو پيدا فرما كر انسان كي صحيح هدايت و ره نمائي كے ليے انھيں ميں سے انبيا و رسل عليهم الصلاۃ والسلام كو مبعوث فرمايا۔ اگرچه بعض امتوں نے سمجھا كه نبي و رسول انسان ميں سے نهيں هوتے ، ليكن خالقِ كائنات نے اس كي حكمت يوں بيان فرمائي: ٫٫وَقَالُو ا لَو لَا اُن زِلَ عَلَي هِ مَلَك وَلَو اَن زَل نَا مَلَكًا لَّقُضِيَ ال اَم رُ ثُمَّ لَا يُن ظَرُو نَ وَلَو جَعَل نَاهُ مَلَكًا لَجَعَل نَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَس نَا عَلَي ھِم مَّا يَل بِسُو نَ ٬٬ ﴿الانعام:8 9﴾ اسي طرح سے رب العزت نے جس انسان كو جتنا افضل بنايا ، اسے اتنا هي مكلف بنايا اور افضليت كے اعتبار سے ذمه داري بھي عطا فرمائي۔ ان تكليفات ميں بعض حقوق الله اور بعض حقوق العباد هيں ۔ ان حقوق ميں ميراث بھي هے جو دين كے اور اركان و فرائض كي طرح ايك ركن و فرض هے اور ان جميع اركان كي ادائيگي كي طرح تركه كي تقسيم وارثين كے درميان لازم هے۔ ليكن آج كے اس مادي دور ميںامت مسلمه كا اكثر طبقه اس فرض كي ادئيگي ميں حد درجه سستي اور لاپروائي برت رها هے، حتي كه بعض ايسے بھي مسلم ملتے هيں جنھيں اتنا تك نهيں معلوم كه تركه كي صحيح تقسيم اسلام ميں بهت ضروري هے ۔ اس وجوب پر عدم عمل كے اسباب و علل كيا هيں ، اس سلسلے ميں بهت هي اهم سوال هے ۔ جس كا جواب معاشره اسلامي كو ديكھ كر چند لفظوں ميں يه ديا جا سكتا هے ، چوں كه هندوستاني اور غير هندوستاني سماج و معاشره كے درميان مبلغينِ اسلام نے اس موضوع پر بهت زياده خدمات انجام نهيں ديں ۔ علي سبيل المثال تبليغ كے ميدان ميں خطبا ، مقررين اور مصنفين و مولفين كا بڑا اهم كردار رها هے ، ليكن دونوں مجال كے فكر و فن احكامات اسلاميه كي حقيقي ترجماني و دعوت و تبليغ ميں اپني صلاحيت كا جادو دكھاتے رهے ، مگر مسئله ميراث ان كے زبان و قلم پر بهت كم آيا ۔ اس طرح اس موضوع پر خدمت كرنے سے وه اتنے دور چلے گئے كه جب تك واپس آتے بهت دير هو چكي تھي اور عوام الناس كا ايك بڑا طبقه نا علمي كي بنياد پر اس اهم فرض پر عمل كرنا چھوڑ ديا۔ اور شايد يه كهنا بھي غلط نه هوگا كه اگر اصول نهيں بلكه فروع كے برابر بھي اس مجال ميں توجه هوتي تو يقينا يه صورتِ حال درپيش نهيں هوتي ، اس كے ساتھ جواب كا يه پهلو يه بھي هے كه اگر بعض مسلمانوں كو معلوم بھي هوتا تو متاعِ دنيا كے حرص و لالچ اور آخرت سے بے توجهي اس پر عمل كرنے سے روكتي هے۔ قبلِ اسلام عرب ميں نظامِ ميراث: زمانه جاهليت ميں عربوں ميں ميراث كي تقسيم كا رواج عام تھا اور اس پر ان كا عمل بھي تھا، البته تقسيمِ ميراث كے اصول و قوانين عام طور سے ان كے ذهني اختراعات تھے۔ ان كے نزديك وارثين دو بنيادوں پر تركه كے اهل هوتے تھے۔ اول: نسب، ثاني:سبب۔ نسب: يعني وه افراد جنھيں قرابت داري كي وجه سے تركه ملتا تھا، وه بڑے مرد هوتے تھے جن ميں جنگ كي صلاحيت هوتي تھي۔ دشمنوں اور حريفوں سے قتال كر كے اپني قوم كے ليے مالِ غنيمت جمع كرتے، اس طرح جو بڑا هوتا ، اسے ورثه ملتا تھا ۔ اگر ميت كا كوئي لڑكا نه هوتا تو ايسي صورت ميں عصبات ميں جو قريبي اوليا هوتے انھيں ورثه ملتا تھا جيسے بھائي اور چچا وغيره ۔ عورتوں كو، چھوٹے كم عمر لڑكے لڑكيوں كو وه تركه نهيں ديتے تھے ۔ سبب: اهلِ عرب تبني كے سبب تركه ديتے تھے اور متبني كا وراثت ميں وهي درجه هوتا تھا جو درجه صلبي بيٹے كا هوتا۔ زمانه جاهليت ميں عربوں كے درميان دو چيزيں بهت زياده رواج پا چكي تھيں۔ اولاً: جو شخص كسي كو گود ليتا تھا اس كي موت يا طلاق كے بعد اس كي بيوي سے نكاح جس طرح صلبي بيٹے كے ليے حرام قرار ديتے تھے اسي طرح متبنيٰ كے ليے بھي حرام قرار ديتے تھے۔ثانياً: اهلِ عرب متبني كو اهلِ ميراث ميں شمار كرتے تھے۔ اسي طرح توارث بالسبب ميں توارث بالحلف اور معاهده بھي تھا ۔ توارث بالحلف اس طرح هوتا تھا ۔ دو قبيلے كے دو لوگوں كے درميان عقد كا قيام اس طرح هوتا تھا كه دونوں هي ايك دوسرے سے كهتے تھے :ميرا خون تمهارا خون هے، ميدانِ جنگ ميں ميري شكست تمهاري شكست هوگي۔ تم ميري مدد كرو گے ميں تمهاري مدد كروں گا اور تم ميرے وارث هوگے ميں تمهارا وارث هوں گا۔ اس طرح جب دونوں ميں سے كوئي ايك مر جاتا تو مذكوره حلف و قسم كي بنياد پر دوسرا اس كا وارث بنتا تھا۔ اهلِ عرب قبلِ اسلام كم عمر بچوں اور عورتوں كو يه كهه كر شمار نهيں كرتے تھے كه نه يه جنگ كرتے هيں اور نه هي شه سواري كے قابل هيں ۔ ان كا يه عمل حضرت عبد الله بن عباس رضي الله تعاليٰ عنهما كي اس روايت سے پوري طرح واضح هے، فرمايا: ٫٫لما نزلت الفرائض التي فرض الله فيھا ما فرض للولد الذكر و الانثي و الابوين كرھھا الناس و بعضھم و قالوا:تعطي المر ۃ الربع والثمن و تعطي الابنۃ النصف و يعطي الغلام الصغير و ليس من هو لائ حد يقاتل القوم ولا يجوز الغنيمۃ اسكتو عن ھذا الحديث لعل رسول الله صلي الله عليه وسلم ينساه و نقول له فليغيره، فقال بعضھم يا رسول اللّٰه: انعطي الصبي الميراث وليس يغني شيئا وكانو يفعلون ذلك في الجاهليۃ ولا يعطون الميراث لا من قاتل يعطونه ال كبر فال كبر ٬٬ ﴿تفسير جرير ابن طبري،ج:8ص:32﴾ زمانه جاهليت ميں اهلِ عرب كا موقف عورتوں اور چھوٹے بچوں كے ساتھ يهي تھا۔ آج بھي بعض دنيادار مسلمان احكامات اسلام كے خلاف نازيبا الفاظ نكالتے هيں اور سوئ ادب سے كام ليتے هيں ، الله تعاليٰ ان كو هدايت فرمائے۔ زمانه جاهليت كے نظامِ ميراث ميں اسلام كا موقف: قبلِ اسلام عام عربوں كي زندگي كفر و شرك ميں رنگي هوئي تھي۔ ان كے عقائد ان كے نبي كي تعليمات سے بهت مختلف تھے ۔ وه اپنے نبي اور آسماني كتابوں كے اكثر احكام ميں تحريفات كر چكے تھے۔ اپني زندگي كے اصول و قوانين اپني خواهشات كے مطابق ترتيب ديتے تھے ۔ تورات و انجيل ميں جو احكامات مكتوب تھے ، ان كے بيش تر احكامات ميں تبديلي اپني طبيعت اور ماحول كے مطابق لاتے تھے۔ ايسي بے معني اور جهالت كي زندگي گزارنے والوں كے بيچ اسلام آيا تو عربوں كو مسائلِ ميراث ميں چند سالوں تك ان كي عادت پر رهنے ديا ، پھر الله رب العزت نے تبني كو اس قول سے: ٫وَمَاجَعَلَ اَد عِيَائَ كُم اَب نَائَ كُم ﴿الاحزاب:4﴾ اور نه تمهارے پالكوں كو تمهارا بيٹا بنايا۔ اور اس قول سے : ٫٫اَد عُو ھُم لِآبَائِھِم ھُوَ اَق سَطُ عِن دَ اللّٰهِ فَاِن لَّم تَع لَمُو ا آبَائَھُم فَاِخ وَانُكُم فِي الدِّي نِ وَمَوَالِي كُم ٬٬ ﴿الاحزاب:5﴾ انھيں ان كے باپ هي كا كهه كر پكارو، يه الله كے نزديك زياده ٹھيك هے ، پھر اگر تمھيں ان كے باپ معلوم نه هوں تو دين ميں تمهارے بھائي هيں اور بشريت ميں تمهارے چچا زاد۔ متبني كے سلسلے ميں ان كا يه عمل بھي بهت معروف تھا اور اس پر بڑي سختي سے عمل كرتے تھے ۔ اگر گود لينے والا مر جاتا يا وه اپني بيوي كو طلاق دے ديتا تو ايسي صورت ميں متبني اس كي بيوي سے شادي نهيں كر سكتا تھا ۔ اسلام نے اس غلط اور بے بنياد رسم كو بھي باطل قرار ديا اور صاحبِ تشريع اسلامي صلي الله عليه وسلم نے زيد ابن حارثه كي مطلقه بيوي زينب بنت جحش سے شادي فرما كر اهلِ عرب كے سامنے ان كي غلط روايات كو عملي طور پر باطل فرمايا۔ اس سلسلے ميں الله سبحانه و تعاليٰ ارشاد فرماتا هے: ٫٫فَلَمَّا قَضٰي زَي د مِّن ھَا وَطَرًا زَوَّج نٰكَھَا لِكَي لَا يَكُو نَ عَلَي ال مُو مِنِي نَ حَرَج فِي اَز وَاجِ اَد عِيَائِھِم اِذَا قَضَو ا مِن ھُنَّ وَطَرًا وَكَانَ اَم رُاللّٰهِ مَف عُو لًا ٬٬ ﴿الاحزاب:37﴾ زمانه جاهليت كي غلط رسوم ميں تبني كو ميراث كے اسباب ميں سے ايك سبب قرار دينا تھا جسے اسلام نے باطل كيا ، كيوں كه گود ليا هوا، گود لينے والے كا حقيقت ميں بيٹا نهيں هوتا، بلكه وه اس كا اجنبي هوتا هے ، لهذا اسے ميراث كا حق دار قرار دينا حقيقت اور واقعيت كے خلاف كرنا هے ۔ ره گئي بات حلف يا موالاۃ كے ذريعه وراثت كا ثبوت تو يه جمهور فقها كے نزديك منسوخ هے البته بعض فقها كے نزديك ثابت هے۔﴿احكام القرآن،ج:3،ص:77﴾ ابتداے اسلام ميں شريعتِ مطهره نے هجرت اور مواخات كي بنياد پر وراثت كو جائز قرار ديا، اسي وجه سے مهاجرين جو مكه سے مدينه گئے ، وه هجرت كے سبب سے ايك دوسرے كے وارث هوا كرتے تھے۔ اسي طرح وه مهاجرين و انصار جن كے درميان سيد الخلق صلي الله عليه وسلم نے اخو ت قائم كي تھي اُسے سببِ ميراث قرار ديا ليكن جب الله كے آخري اور محبوب دين ميں لوگ جوق در جوق داخل هونے لگے اور اسلام كي قوت هر محاذ ميں ظاهر هو گئي تو شريعتِ مطهره نے هجرت اور اخوت جو اولا اسلام ميں اسبابِ ميراث تھے اس قول سے منسوخ كيا: ٫٫وَاُو لُو ال اَرحَامِ بَع ضُھُم اَو لٰي بِبَع ض فِي كِتَابِ اللّٰهِ مِنَ ال مُو مِنِي نَ وَال مُھَاجِرِي نَ ٬٬ ﴿الاحزاب:6﴾ اسلام كے اس آفاقي نظام ميں چھوٹے بڑے، عورت مرد بلكه جميع انسان كے جمله حقوق كي پوري حفاظت هے۔ ساتھ هي ساتھ جاهليت كے اس غير منصفانه رسم و رواج كے بطلان كے دلائل و براهين بھي هيں۔ مذهب مهذب نے حقوق كي پاس داري كي هے ، هر شخص كو اس كا صحيح حق عطا كيا حتي كه زوجيت كے قيام كو سبب ميراث قرار ديا، آقا كو غلام كي آزادي كي وجه سے ميراث گردانا۔ ان جميع دائمي اصول و قوانين نے نظامِ جاهليت كو اجمالاً اور تفصيلاً دونوں طرح سے ختم كر ديا۔ اجمالي بطلان الله سبحانه و تعاليٰ كے اس قول سے ظاهر هے: ٫٫لِلرِّجَالَ نَصِي ب مِّمَّا تَرَكَ ال وَالِدَانِ وَال اَق رَبُو نَ وَلَلنِّسَآئِ نَصِي ب مِّمَّا تَرَكَ ال وَالِدَانِ وَال اَق رَبُو نَ مِمَّا قَلَّ مِن هُ اَو كَثُرَ نَصِي بًا مَّف رُو ضًا ٬٬﴿النسآئ:7﴾ اور اهلِ عرب كے خود ساخته اصول كا بطلان پورے طور پر اس آيت سے ظاهر هے: ٫٫يُو صِي كُمُ اللّٰهُ فِي اَو لَادِكُم لِلذَّكَرِ مِث لُ حَظِّ ال اُن ثَي ينِ فَاِن كُنَّ نِسَآئً فَو قَ اث نَتَي نِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَاِن كَانَت وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّص فُ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِي مًا حَكِي مًا ٬٬﴿النسآئ:11﴾ تك الله رب العزت كے اس فرمان ميں ٫٫اِن ام رُو ھَلَكَ لَي سَ لَهُ وَلَد وَلَهُ اُخ ت فَلَھَا نِص فُ مَا تَرَكَ ٬٬﴿النسآئ:176﴾ ايسے زمانے ميں عورتوں كے حقوق كي حفاظت كا اعلانيه ذكر هے جس دور كے لوگوں كے بيچ عورتوں كا كوئي معاشرتي مقام و درجه نهيں تھا۔ وه عورتوں كے ساتھ حيوانيت كا سلوك كرتے تھے۔ الحمد لله آج بھي اعداے اسلام كے ليے يه آيت چيلنج هے جو مذهبِ مهذب اسلام كے دائمي و ابدي اصول هيں،جو فطرتِ انسانيه كے مطابق هيں، يه اعتراض كرتے هيں كه دينِ محمد صلي الله عليه وسلم ميں عورتوں كے حقوق كو نظر انداز كر ديا گيا هے ۔ عورتوں كے طرح بچوں كے ليے بھي اسلام نے ان كے حقوق كے اصول متعين كيے هيں جن كے ساتھ اهلِ عرب حقوق كي عدم ادائيگي ميں عورتوں كا سا سلوك كرتے تھے۔ يقينا وراثت كا يه اسلامي نظام مكمل طور سے عدل و انصاف پر مبني هے اور فطرت كے عين مطابق هے ۔ الله سبحانه و تعاليٰ كا بيان كرده يه نظام اس وقت اور بھي واضح اور سورج كي طرح ظاهر هو جاتا هے جب هم ان سارے قوانين سے موازنه كرتے هيں جو انساني ذهنيت كي پيداوار هيں، خواه يه قوانين قديم هوں يا جديد ۔ الله تعاليٰ كے اس آفاقي دين كے اصول كو انساني اصول كے درميان جو امتيازي حيثيت حاصل هے وه اصل عقل و فكر كے نزديك دن كي دوپهر ميں سورج كي ٹكيه كي طرح واضح هے۔ الله تعاليٰ نے اس عظيم قانون ميں انسان كے جميع حقوق صحيح مستحقين تك پهنچانے كو واجب قرار ديا ۔ زمانه جاهليت ميں تقسيم تركه كے سلسلے ميں عربوں نے طاقت ور اور شه سوار كي رعايت كي تو اسلام نے كم زوروں كي رعايت كي ۔ اس ليے كه كم زور اعانت و مدد كے زياده حق دار هوتے هيں ۔ اس سلسلے ميں سيد الكونين صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: ٫٫انك ان تذر ورثتك غنيائ خير من ن تدعھم ماله يتكففون الناس ٬٬﴿نيل الاوطار،ج:1،ص:40﴾ اسلامي نظامِ ميراث ميں طاقت ور كو محروم نهيں كيا بلكه ايك جامع قاعده بيان كيا، جس ميں كم زور طاقت ور ، بڑے چھوٹے اور عورت و مرد هر كوئي داخل هے ۔ قاعده يه هے:هر وه شخص جس ميں اسبابِ ميراث كا كوئي سبب پايا جائے اور اس سے موانع ميراث منتفي هوں تو بهر صورت وه تركه كا حق دار هے۔٬٬ جيسا كه پهلے ميں نے ذكر كيا كه زمانه جاهليت ميں منفعت والے پهلو كي رعايت كي جاتي تھي اس ليے وه صرف بڑے مرد اور شه سواروں كو هي تركه ديتے تھے جو اپني قوم كے ليے اموالِ غنيمت اكٹھا كر سكتے تھے ۔ ليكن اسلام نے غلط رسوم كو مٹا ديا اور وجه بطلان بھي ذكر كيا اور اس كے ساتھ هي ايك قانون كا ذكر كرتے هوئے كها:٫٫جو لوگ بهت زياده قريب هيں وه دور كے رشته داروں سے زياده مستحق اور نفع بخش هيں ٬٬ جو ارشادِ خدا وندي سے واضح هے: ٫٫اٰبَآو ُكُم وَ اَب نَآو ُكُم لَا تَد رُو نَ وَ اَيُّھُم اَق رَبُ لَكُم نَف عًا ٬٬﴿النسآئ:11﴾ دوسري آيت ميں ارشاد فرماتا هے: ٫٫لاَيَاتِي هِ ال بَاطِلُ مِن بَي نِ يَدَي هِ وَلَا مِن خَل فِه تَن زِي ل مِّن حَكِي م حَمِي د ٬٬﴿فصلت:42﴾ فرائض كي شرعي حيثيت: فرائض كي مشروعيت ميںاصل كتاب الله، سنت رسول الله عليه الصلاۃ والسلام اور اجماعِ امت هے۔ اجتهاد و قياس كے ليے اس ميں راه نهيں۔ البته اجتهاد و قياس پر اجماعِ امت قائم هو تو مقبول هے ورنه نهيں۔ مشروعيت كے دلائل ميں ميں پهلے مصدر اول كتاب الله كا ذكر كروں گا ، پھر بالترتيب سنت رسول اور اجماعِ امت۔ كتاب الله سوره نسا ميں تين ايسي آيتيں هيں جن ميں ميراث كي پوري تفصيل هے۔ پهلي آيت:٫٫يُو صِي كُمُ اللّٰهُ فِي اَو لَادِكُم لِلذَّكَرِ مِث لُ حَظِّ ال اُن ثَي ينِ فَاِن كُنَّ نِسَآئً فَو قَ اث نَتَي نِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَاِن كَانَت وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّص فُ وَلِاَب وَي هِ لِكُلِّ وَاحِد مِّن ھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِن كَانَ لَه وَلَد فَاِن لَّم يَكُن لَّه وَلَد وَوَرِثَه اَبَوَاهُ فَلَاُمِّهِ الثُّلُثُ فَاِن كَانَ لَه اِخ وَۃ فَلَاُمِّه السُّدُسُ مِن بَع دِ وَصِيَّۃ يُو صِي بِھَا اَو دَي ن اٰبَآو ُكُم وَ اَب نَآو ُكُم لَا تَد رُو نَ اَيُّھُم اَق رَبُ لَكُم نَف عًا فَرِي ضَۃً مِّنَ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِي مًا حَكِي مًا ٬٬﴿النسآئ:11﴾ الله تمھيں حكم ديتا هے تمهاري اولاد كے بارے ميں، بيٹوں كا حصه دو بيٹيوں كے برابر هے ، پھر اگر نري لڑكياں هوں اگرچه دو سے اوپر تو ان كو تركه كي دو تهائي اور اگر ايك لڑكي هو تو اس كو آدھا اور ميت كے ماں باپ كو هر ايك كو اس كے تركه سے چھٹا ، اگر ميت كے اولاد هو ، پھر اگر اس كے اولاد نه هو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں كا تهائي، پھر اگر اس كے كئي بهن بھائي هوں تو ماں كا چھٹا بعد اس وصيت كے جو كر گيا اور دين كے تمهارے باپ اور تمهارے بيٹے تم كيا جانو كه ان ميں كون تمهارے زياده كام آئے گا ۔ يه حصه باندھا هوا هے الله كي طرف سے ، بے شك الله علم والا، حكمت والا هے۔٬٬ الله سبحانه و تعاليٰ نے اس آيتِ كريمه ميں پهلے ميت كي اولاد پھر ابوين يعني ماں باپ كے تركه كا ذكر فرمايا، پھر تفصيل بيان فرمائي كه اولاد كے ميراث كي تين صورتيں هيں ، صرف بيٹے هوں، صرف بيٹياں هوں يا بيٹے اور بيٹياں دونوں هوں۔ اگر صرف بيٹے هوں تو ان كا متعين حصه ذكر نهيں فرمايا، جو اس بات پر دلالت كرتا هے كه وه عصبه هيں انھيں آپس ميں برابر ملے گا۔ صرف بيٹياں هوں تو ان كا حصه اس طرح بيان فرمايا۔ ايك بيٹي كے ليے آدھا۔ دو يا دو سے زياده كے ليے دو تهائي اور بيٹے اور بيٹياں دونوں هوں تو ان كا مقدار حصه بيان نهيں كيا ، جس ميں واضح هے كه وه عصبه هيں ۔ اس ليے لِلذَّكَرِ مِث لُ حَظِّ ال اُن ثَي ينِ كے تحت ايك بيٹے كو دو بيٹيوں كے برابر ملے گا ۔ ابوين كي بھي دو صورتيں بيان كي هيں۔ پهلي صورت: ميت كے بيٹے اور بيٹيوں ميں سے كوئي اولاد هو۔ دوسري صورت: ميت كے كوئي اولاد نه هو۔ پھر پهلي صورت كي دو صورتيں هيں جو اوپر كے ترجمه سے پوري طرح واضح هے۔ دوسري آيت:٫٫وَلَكُم نِص فُ مَا تَرَكَ اَز وَاجُكُم اِن لَّم يَكُن لَّھُنَّ وَلَد فَاِن كَانَ لَھُنَّ وَلَد فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَك نَ مِن بَع دِ وَصِيَّۃ يُو صِي نَ بِھَا اَو دَي نِ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَك تُم اِن لَّم يَكُن لَّكُم وَلَد فَاِن كَانَ لَكُم وَلَد فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَك تُم مِن بَع دِ وَصِيَّۃ تُو صُو نَ بِھَا اَو دَي ن وَاِن كَانَ رَجُل يُو رَثُ كَلَالَۃً اَوِام رَ َۃ وَلَهُ اَخ اَو اُخ ت فَلَكُلِّ وَاحِد مِّن ھُمَا السُّدُسُ فَاِن كَانُو ا اَك ثَرَ مِن ذٰلِكَ فَھُم شُرَكَائِ فِي الثُّلُثِ مِن بَع دِ وَصِِيَّۃ يَو صَي بِھَآ اَو دَي ن غَي رَ مُضَارَِّ وَصِيَّۃً مِّنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَلِي م حَلِي م ٬٬﴿النسآئ:12﴾ اور تمهاري بيبياں جو چھوڑ جائيں ان ميں سے تمھيں آدھا هے، اگر ان كي اولاد نه هو، پھر اگر ان كي اولاد هو تو ان كے تركه ميں سے تمهيں چوتھائي هے ، جو وصيت وه كر گئيں اور دين نكال كر اور تمهارے تركه ميں عورتوں كا چوتھائي هے اگر تمهارے اولاد نه هو پھر اگر تمهارے اولاد هو تو ان كا تمهارے تركه ميں آٹھواں جو وصيت تم كر جاو اور دين نكال كر اور اگر كسي ايسے مرد يا عورت كا تركه بٹتا هو جس نے ماں باپ، اولاد كچھ نه چھوڑے اور ماں كي طرف سے اس كا بھائي يا بهن هے تو ان ميں سے هر ايك كو چھٹا، پھر اگر وه بهن بھائي ايك سے زياده هوں تو سب تهائي ميں شريك هيں ميت كي وصيت اور دين نكال كر جس ميں اس نے نقصان نه پهنچايا هو ۔ يه الله كا ارشاد هے اور الله علم والا اور حلم والا هے۔ آيتِ مذكور ميں ربِ كائنات نے زوجين كي ميراث كا ذكر فرمايا اور پوري تفصيل كے ساتھ دونوں كي دو حالتوں كو بيان فرمايا جو ترجمه سے پوري طرح واضح هے ۔ بعد زوجين كے اولادِ ام يعني ماں كي طرف سے بھائي بهن كے ميراث كا ذكر فرمايا جنھيں كلاله كي وجه سے تركه ملتا هے۔ ان كے حصه كے سلسلے ميں بيان فرمايا كه اگر ايك هو تو چھٹا اور دو يا دو سے زياده كي صورتوں ميں دونوں تهائي ميں برابر كے شريك هوں گے۔ اس صورت ميں بھائي كو بهن سے زياده نهيں ملے گا ۔ اس كي مصلحت كيا هے ، جواب صرف الله اور اس كے رسول صلي الله تعاليٰ عليه وسلم كو معلوم، ليكن علماے اسلام نے يه وجه بيان فرمائي هے:٫٫چوں كه بھائي اور بهن دونوں كا اتصال ميت تك ماں كے ذريعه هوا اور يه مونث هے۔ يهاں باپ كي جهت نهيں پائي گئي ، جس كي وجه سے مذكر يعني بھائي كو مونث يعني بهن سے زياده نهيں ملے گا بلكه دونوں كو برابر ملے گا۔ تيسري آيت:٫٫يَس تَف تُو نَكَ قُلِ اللّٰهُ يُف تِي كُم فِي ال كَلَالَۃِ اِنِ ام رُو ھَلَكَ لَي سَ لَهُ وَلَد وَلَهُ اُخ ت فَلَھَا نِص فُ مَا تَرَكَ وَھُوَ يَرِثُهَا اِن لَّم يَكُن لَّھَا وَلَد فَاِن كَانَتَا اث نَتَي نِ فَلَھُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَ اِن كَانُو اِخ وَۃً رِّجَالًا وَنِسَآئً فَلِلذَّكَرِ مِث لُ حَظِّ ال اُن ثَي ينِ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُم اَن تَضِلُّو ا وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَي عَلِي م ٬٬﴿النسآئ:176﴾ اے محبوب تم سے فتويٰ پوچھتے هيں، تم فرما دو كه الله تمھيں كلاله ميں فتويٰ ديتا هے۔ اگر كسي مرد كا انتقال هو جو بے اولاد هے اور اس كي ايك بهن هو تو تركه ميں اس كي بهن كا آدھا هے اور مرد اپني بهن كا وارث هوگا۔ اگر بهن كي اولاد نه هو پھر اگر دو بهنيں هوں تركه ميں ان كا دو تهائي اور اگر بھائي بهن هوں ، مرد بھي اور عورتيں بھي تو مرد كا حصه دو عورتوں كے برابر ۔ الله تمهارے ليے انصاف بيان فرماتا هے كه كهيں بهك نه جاو اور الله هر چيز جانتا هے ۔٬٬ اس آيتِ مباركه ميں ان افراد كے ميراث كا ذكر هے جو باپ كي طرف سے بھائي بهن هوں ۔ آيتِ مباركه اور ترجمه سے واضح هے كه ان كي تين صورتيں هيں ۔ تفصيل اس موضوع كا متقاضي نهيں ورنه ذكر كرتا۔ احاديثِ نبويه شريفه صلي الله عليه وسلم: اكرم الخلق صلي الله عليه وسلم كي بهت ساري احاديث مباركه ميں ميراث كي شرعي حيثيت كا ذكر هے ۔ جن احاديث ميں ميراث كي تقسيم ، فرضيت اور وارثين و موروثين كي پوري تفصيلات موجود هيں۔ حضرت عبد الله بن عباس رضي الله تعاليٰ عنهما سے روايت هے، آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ٫٫الحقوا الفرائض ب ھلھا فما بقي فال ولي رجل ذكر ٬٬﴿نيل ال وطار،ج:6،ص:56﴾ اس حديث شريف ميں اولي كا معني اقرب هے۔ اس حديث كو آيات سابقه كي تينوں آيتوں كے تناظر ميں ديكھيں تو آپ پريه واضح هو جاتا هے كه احكامِ ميراث كے جو مهمات هيں وه پورے طور پر بيان هيں، حتي كه حديث رسول صلي الله عليه وسلم ميں اصحاب فرد جن كوتركه دينے كے بعد جو بچ جائے اس كا مصرف بھي بيان هے ۔ وه اقرب عصبه بالنسب هيں۔ ايك دوسري حديث ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ٫٫انما الولائ عن اعتق ٬٬﴿نيل ال وطار،ج:6،ص:74﴾ الله رب العزت كے اس فرمان: ٫٫واولوا الارحام بعضھم اولي ببعض في كتاب الله ٬٬ اور سيد الانبيا عليه الصلاۃ والسلام كي اس حديث : ٫٫الخال وارث من لاوارث له ٬٬ ميں اقارب ميں سے كسي ذوي الفرض اور عصبه كي عدم موجودگي ميں تركه كے مصرف كا بيان هے كه ايسے وقت ميں تركه ان بقيه اقارب كو ملے گا جو اهلِ فرض يا عصبه ميں سے نهيں هيں۔ اس مسئله ميںفقها كا اختلاف هے ، تفصيل مصادر و ماخذ ميں موجود هے، زيرِ بحث عنوان اس بات كا متقاضي نهيں۔ مذكوره حديث كو احمد، ابو داو د اور ترمذي نے روايت كيا هے ۔ صاحب ترمذي نے اس حديث كو حسن كها هے۔﴿فتح الباري،ج:12,ص:3﴾ علم فرائض كي ضرورت و اهميت: علمِ فرائض به نسبت ديگر علومِ كے بهت مشكل هے ، مرتبه كے اعتبار سے اعليٰ هے اور اس علم كا اجر بهت زياده هے، كيوں كه يه ديني اور قرآني علوم ميں سے هے۔ الله سبحانه و تعاليٰ نے كس وارث كو كتنا ملے گا اور كس صورت ميں كس كو كتنا ملے گا ، پوري تفصيل ذكر فرمائي۔ اسي طرح اس مقدار كے بيان كو كسي مقرب فرشته يا نبي و رسول كي جانب تفويض نهيں كيا۔ فرائض كي تفصيل كے ليے سوره نسا كي شروع اور آخر كي آيات نازل فرمائيںاور ان فرائض كو يعني متعينه حصے كو اپنے حدود كا نام ديا،ان مومنين كے ليے جو فرائض كے نفاذ ميں الله سبحانه و تعاليٰ كي پوري اطاعت كرتے هيں۔ ايسے باغات كا وعده فرمايا جن كے نيچے نهريں جاري هيں۔ ارشاد فرماتا هے: ٫٫تِل كَ حُدُو دُ اللّٰهِ وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُو لَهُ يُد خِل هُ جَِنّٰت تَج رِي مِن تَح تِھَا ال اَن ھَارُ خَالِدِي نَ فِي ھَا وَذٰلِكَ ال فَو زُ ال عَظِي مُ ٬٬﴿النسآئ:13﴾ علمِ فرائض كي اهميت كے بارے ميں سيد الانبيا صلي الله عليه وسلم كي بهت سي احاديث هيں جن سے واضح هے كه علمِ فرائض كي اهميت دوسرے علوم كي به نسبت كتني زياده هے، اور امتِ اسلاميه كے عوام و خواص كو اس علم كے فروغ كے ساتھ ساتھ علمِ فرائض پر عمل كرنے كي كتني ضرورت هے ۔ حضرت عبد الله بن عمر بن العاص رضي الله تعاليٰ عنهما سے روايت هے، آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ٫٫العلم ثلاثۃ وما سوي ذلك فضل آيۃ محكمۃ و سنۃ قائمۃ و فريضۃ عادلۃ ٬٬﴿اروائ الغليل: 1664﴾ يه حديث ضعيف هے۔ عظيم المرتبت صحابيِ رسول ابن مسعود رضي الله عنه سے روايت هے ۔ آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ٫٫تعلموا القرآن و علموه الناس و تعلموا الفرائض و علموھا الناس و تعلموا العلم و علموه الناس فاني امرئ مقبوض و ن العلم سيقبض و تظهر الفتن حتي يختلف ال سنان في الفريضۃ لا يجدان من يفصل بينھما ٬٬ ﴿تفسير قرطبي،ج:5،ص:44﴾ حضرت ابن مسعود رضي الله عنه هي سے دوسري روايت هے كه آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ٫٫ان اللّٰه تعاليٰ لم يكل قسم مواريثكم الي نبي مرسل ولا الي ملك مقرب ولٰكن تولي بيانھا فقسمھا بين قسم ٬٬﴿احكام الورايت:19﴾ حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے مروي حديث ميں سيد الكونين عليه الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمايا: ٫٫تعلموا الفرائض و علموه الناس ف نه نصف العلم و ھو ول شيي ينسر و ھو ول شيي ينتزع من امتي ٬٬ ﴿ابن ماجه:2819﴾ اس حديث كو اكثر محدثين كرام نے ضعيف قرار ديا۔ بيهقي كي روايت ميں هے: ٫٫تعلموا الفرائض ف نه من دينكم و انه نصف العلم و انه اول علم ينتزع من امتي ٬٬ ﴿احكام الورايت:19﴾ ان مذكوره احاديث طيبه ميں علمِ فرائض سيكھنے كي ترغيب هے اور ان احاديث سے اهميتِ علمِ فرائض بھي ظاهر هے ۔ علماے اسلام كا حديثِ رسول كے ان الفاظ ٫٫فانھا نصف العلم٬٬ كے معني ميں اختلاف هے۔ايك فريق نے يه معني بيان كيا:٫٫نصف علم هونے كا معني حال كے اعتبار سے هے ۔ چوں كه انسان كي دو حالتيں هوتي هيں، حالت حيات اور حالت وفات۔ اس ليے يه تاويل الفاظ سے زياده قريب هے كه فرائض حالت وفات سے متعلق هيں اور باقي عدم حالت حيات سے متعلق هيں۔٬٬ دوسرے فريق نے اس معني ميں كها: ٫٫نصف علم سے مراد يهاں دونوں قسموں ميں سے ايك هے، اگرچه دونوں قسميںمساوي نهيں اس ليے فرائض علم كي ايك قسم هے اور بقيه علم دوسري قسم ميں آتے هيں۔ اور چوں كه فرائض دو قسموں ميں سے ايك هے، اس ليے نصف علم كها گيا ۔ بعض فقها نے نصف سے مراد صنف ليا هے ، جب كه بعض نے اسباب ملكيت كي تقسيم اختياري اور قهري كر كے علم فرائض كو قهري ميں شامل كيا۔ بهر حال مراد جو بھي هو ليكن يه ايك ناقابل انكار حقيقت هے كه سلف اور خلف كے اكثر فقهاے اسلام نے اس علم كا بهت زياده اهتمام كيا۔ اپنے اكثر اوقات اس فن كي تعليم اور اس كے قواعد كي تحرير ميں اس نهج پر وقف كيا جس طرح سيد الخلق عليه الصلاۃ والسلام نے اس فن كي تعليم و تعلم كے فروغ پر ابھارا۔ امت اسلاميه كے ان عظيم علم برداروں نے اپنے شب و روز ايك كر كے علومِ قرآنيه كے فروغ كے ليے بهت سي عظيم تاليفات قيامت تك كے مومين كو ورثه ميں عطا كيں۔ امير المومنين حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه نے فرمايا: ٫٫تعلموا الفرائض فانھا من دينكم ٬٬ ايك مرتبه آپ نے امتِ مسلمه كے سامنے يه بھي فرمايا: ٫٫اذا تحدثتم فتحدثوا بالفرائض واذا لھوتم فالھو بالرسي ٬٬ حضرت ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنهما الله سبحانه و تعاليٰ كے اس فرمان:٫٫الا تفعلوه تكن فتنۃ في الارض و فساد كبير ٬٬ كا معني يه بيان فرمايا: ٫٫اگر تم ميراث فرمانِ الٰهي كے مطابق نهيں لو گے تو دنيا ميں فتنه اور بڑا فساد پيدا هوگا۔٬٬ حضرت ابو موسيٰ اشعري رضي الله عنه نے فرمايا: ٫٫مثل الذي يقر القرآن ولا يحسن الفرائض كمثل برنس لا ر س له ٬٬ صاحبِ كتاب الفروض حضرت امام قراني رحمۃ الله عليه نے كها ، امتِ اسلاميه كا اجماع هے كه اس علم كا سيكھنا فرضِ كفايه هے ۔ كها جاتا هے كه وليد بن مسلم رحمۃ الله تعاليٰ عليه نے خواب ميں ديكھا كه وه كسي باغيچے ميں داخل هوئے اور سواے سفيد انگوروں كے تمام پھلوں ميں سے كچھ نه كچھ كھائے۔ اس خواب كي تعبير جب اپنے استاذ شيخ الاوزاعي رحمۃ الله عليه سے دريافت كي تو شيخ نے فرمايا: ٫٫تمھيں سواے فرائض كے تمام علوم ميں دسترس هوگي كيوں كه فرائض جوهر العلم هے جس طرح كه سفيد انگور تمام انگوروں كا جوهر هے ۔٬٬ اهميتِ علمِ ميراث پر اور بھي احاديث هيں جن سے ثابت هوتا هے كه اس علم كا اهتمام كرنا كتنا ضروري هے ۔ آج ضروري هے كه اس علم كے فروغ ميں وهي كردار ادا كريں جو اسلاف نے كيا اور هم پر يه لازم هے كه امام الانبيا صلي الله عليه وسلم كي وصيت كي حفاظت كريں تاكه يه علم باقي رهے۔ يهود و نصاريٰ كے منفي افكار: اس كائنات ميں انسان تھا ، انسانيت نهيں تھي، لوگ تھے، اپني زندگي كي هر خواهش پوري كرتے تھے ليكن سب كچھ اپنے انداز ميں ۔ كسي كو كسي كے حقوق كي پروا نهيں تھي۔ اهلِ طاقت و قوت اپني درندگي ، حيوانيت اور سفاكانه طرزِ عمل سے اپنے غير كو غلاميت پر مجبور كرتے تھے ، اتحاد و بھائي چارگي نام كي كوئي چيز نهيں تھي۔ انسان انسان سے پيار و محبت كرنا بھول گيا تھا۔ مردوں كي زندگي ميں عورتوں كي حيثيت ان كے كپڑوں كے برابر بھي نهيں تھي ۔ حد تو يه تھي كه مرد جس طرح چاهتا عورت كو استعمال كرتا ۔ غريب و نادار كا تو كوئي پرسان حال هي نهيں تھا ۔ ديني اور دنيوي زندگي كے هر شعبے ميں تاريكي چھا چكي تھي ۔ ايسے ماحول ميں كامياب زندگي كے چراغ روشن كرنا كتنا مشكل هوگا، ان دلوں كو جو باطل عقائد كي آلودگي سے كالے هوگئے تھے ۔ ان كو صاف كر كے ايمان كے نور سے منور كرنا كتنا كٹھن هوگا۔ در حقيقت هم اسے صحيح تصور بھي نهيں كر سكتے، كيوں كه كسي قوم كو اس كے آبا و اجداد كے رسوم و رواج اور تقليدات سے هٹا كر كسي اور عقائد و تعليمات كي پابندي كي دعوت دينا واقعي ميں بهت مشكل كام هے ۔ ليكن رحمۃ للعالمين صلي الله عليه وسلم نے اپنے ربِ قدير كي مدد سے اس كے احكامات و تعليمات كو اس طرح عام كيا كه الله سبحانه و تعاليٰ نے خود يه اعلان فرما ديا : ٫٫اَل يَو مَ اَك مَل تُ لَكُم دِي نَكُم وَ اَت مَم تُ عَلَي كُم نِع مَتِي وَرَضِي تُ لَكُمُ ال اِس لَامَ دِي نًا ٬٬﴿المائدۃ:3﴾ آپ كے صحابه بھي قرآن و سنت كو اسي نهج پر عام كرتے رهے ، جس راستے پر آپ صلي الله عليه وسلم نے عملي طور پر اپني امت كے سامنے چل كر دكھايا تھا۔ ليكن بعد ميں ايك زمانه ايسا آجاتا هے جب مسلمان اسلامي تعليمات سے پهلو تهي كرنے لگتے هيں، اپني هي تاريخ سے اپنے آپ كو مٹانا شروع كر ديتے هيں اور رشد و هدايت اور تعليماتِ اسلام سے اتني دور چلے جاتے هيں كه وه خدمات جو ايك مسلمان انجام دے رها تھا اور ان خدمات سے ترقي و بلندي كے تقريباً سارے مراحل كو عبور كر چكا تھا ، وه سب كچھ اعداے اسلام اور دشمنانِ رسول صلي الله عليه وسلم كے دامن ميں چلي جاتي هيں اور تهذيب و ثقافت اور بلند فكري جو هماري تھي ، اس كا فائده اٹھا كر هم هي پر وار كرنا شرع كر ديا اور ان كے حملوںكي شدت كي صورت حال يه هے كه ابھي هم ايك زخم پر مرهم پٹي هي كر رهے هوتے هيں كه دوسرا اس سے بڑا حمله هوجاتا هے۔ ان كي طرف سے اسلامي احكامات و تعليمات پر هونے والے بڑے حملوں ميں ايك مسئله ميراث بھي هے ۔ اس زمانے ميں جب عورتوں كي مردوں كے درميان كوئي قيمت نهيں تھي اسلام نے انھيں عزت و آبرو كي نعمت سے سرفراز كيا ۔ ماں كو ماں، بيٹي كو بيٹي اور بهن كو بهن كا درجه عطا كيا ، يقينا هر عورت كو اس كا صحيح حق عطا كيا ۔ اور آج جب مغربي تهذيب اور تعليم و فكر نے عورتوں كو ماڈرن بنا كر ايك بار پھر زمانه جاهليت كے رنگ ميں رنگ ديا هے ، عورتوں كو خور د و نوش كي اشيا كي طرح اپني هوس مٹانے كے ليے اور عياشي كي زندگي گزارنے كے ليے بازاري چيز بنا ديا هے ، وه اعتراض كرتے هيں كه اسلام نے عورتوں كے حقوق كے سلسلے ميں انصاف نهيں كيا كيوں كه اسلامي اصول كے تحت عورتوں كو اكثر و بيش تر مردوں كے مقابلے آدھا يا اس سے كم تركه ملتا هے ، حالاں كه سچ كچھ اس طرح نهيں هے ، بلكه حقيقت تو يه هے كه ساري صورتيں ايسي هيں جن ميں عورتوں كو مردوں كے مقابلے دوگنا يا زياده تركه ملتا هے ، جس ميں خالقِ ارض و سما كي بڑي عظيم حكمت بھي هے ۔ اگر آج اهلِ عقل و فكر فرائض ميں تقسيمِ رباني كو ديكھيں تو انھيں سب كچھ فطرت كے مطابق هي لگے گا ، مثال كے طور پر چند وه صورتيں جن ميں عورتوں كو زياده ملتا هے ۔ پهلي صورت:مرنے والي عورت هو اور اس كے پيچھے اس كا شوهر هو اور ايك بيٹي ، خواه يه بيٹي اس شوهر سے هو يا اس سے پهلے والے سے ۔ ايسي صورت ميں اس لڑكي كو اس آيتِ كريمه كے تحت آدھا ملے گا: ٫٫يُو صِي كُمُ اللّٰهُ فِي اَو لَادِكُم لِلذَّكَرِ مِث لُ حَظِّ ال اُن ثَي ينِ فَاِن كُنَّ نِسَآئً فَو قَ اث نَتَي نِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَاِن كَانَت وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّص فُ ٬٬ ﴿النسآئ:11﴾ اور شوهر كو اس آيتِ مباركه كے تحت چوتھائي ملے گا: ٫٫فَاِن كَانَ لَھُنَّ وَلَد فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَك نَ ٬٬﴿النسآئ:12﴾ وه لوگ جو غيروں كي فكر اور تعليمات سے متاثر هو كر اسلام كي حقانيت كو تسليم نهيں كرتے ، ان دونوں آيتوں ميں دل كا دروازه كھول كر غور كريں كه عورت كو مرد كا دوگنا مل رها هے يا نهيں۔ مجھے يقين هے كه اگر بغض و عناد سے خالي هو كر ديكھيں گے تو اسلامي اصول كے سامنے سرِ تسليم خم كرنے پر مجبور هو جائيں گے۔ دوسري صورت:جو ماں كي طرف سے بھائي بهن هيں ، اگر ايك هو تو چھٹا ملے گا اور دو يا دو سے زياده كي صورت ميں اس آيت كے تحت تهائي ميں بھائي بهن برابر كے شريك هوں گے ، بھائي كو بهن سے زياده نهيں ملے گا ۔آيتِ قرآنيه يه هے : ٫٫ وَاِن كَانَ رَجُل يُو رَثُ كَلَالَۃً اَوِام رَ َۃ وَلَهُ اَخ اَو اُخ ت فَلَكُلِّ وَاحِد مِّن ھُمَا السُّدُسُ فَاِن كَانُو ا اَك ثَرَ مِن ذٰلِكَ فَھُم شُرَكَائُ فِي الثُّلُثِ ٬ ٬ ﴿النسآئ:12﴾ يه هيں چند مثاليں جو ان معاندينِ اسلام كے ليے كافي هيں جن كي زندگي كا مقصد هي هے اسلام كے حق كو نقص بنا كر پيش كرنا ۔ اسلام كي حقانيت كا رخ موڑ كر بطلان كي راه دينا اور جس دين كي بنياد امن و سلامتي قائم كرنا هے ، اسے اختلاف و فساد كا سبب تصور كرنا، ليكن انھيں معلوم نهيں همارا دين و قرآن قيامت تك كے ليے ، ان كے ليے چيلنج هيں اور هم انھيں دعوتِ نظاره ديتے هيں كه آو اور هماري تعليمات كو منصف هو كر پڑھو، هدايت پاو گے، روشني ميں آجاو گے، ايك كامياب زندگي مل جائے گي۔ مذكوره دونوں مثالوں كے علاوه اور بھي بهت ساري صورتيں هيں جن ميں عورتوں كو مردوں كے برابر يا مردوں سے زياده تركه ملتا هے ۔ بعض محققين نے 37صورتيں ايسي دكھائي هيں جن ميں مستشرقين كے بے معنيٰ اعتراض كا جواب هے۔ يه حقيقت هے كه بهت سي صورتوں ميںمردوں كو زياده ملتا هے، جس كي ايك حكمت يه هے كه مرد كي ذمه داري عورت سے كهيں زياده هے۔ ايك مرد كو جتنے حقوق ادا كرنے پڑتے هيں ايك عورت كو نهيں، چاهے زمانے كي رو ميں ڈھلنے والے اور مذهبِ اسلام كوتعنت و تعصب كي نظر سے ديكھنے والے جتنا بھي كچھ كهيں انھيں اس حقيقت كے سامنے سرِ تسليم خم كرنا هي پڑے گا:٫٫الرجال قوامون علي النسائ ٬٬﴿النسائ34﴾ ايك مرد ميں جتني قوتِ مدافعت هوتي هے ايك عورت ميں نهيں۔ سماجي،لهذا عورتوں كے ذهن و دماغ كو بدلنے والوں سے ميں صرف اتنا كهوں گا كه اس زمانے ميں تمھاري قدامت كي سب سے بڑي اور كھلي دليل يه هے كه آج تم نے تمھاري فكر كي اتباع كرنے والي عورتوں كو برهنه اور ننگا كر كے فيشن كا نام دے ديا هے،جس پر وه خوش هيں۔ تم نے عورتوں كو اپني خواهشات مٹانے كا محض ايك ادنيٰ سامان بنا ديا هے ۔ اپني آنكھوں سے ديكھو، تمھاري نسليں تمھاري زندگي هي ميں يه فكر لے كر گھوم رهي هيں ، عورت كيا هے ، كچھ بھي نهيں، هماري زندگي ميں اس كي حيثيت صرف اتني هے "Use & Throw"يعني استعمال كرو اور جوتوں كي طرح نكال كر باهر پھينك دو۔ ميں ان عورتوں كے ساتھ عصري علوم كے دائرے ميں آنكھ كھولنے والي اسلامي بهنوں اور غير اسلامي دوشيزاو ں كو يه دعوتِ نظاره ديتا هوں كه اسلامي تعليمات فطرت كے عين مطابق هيں، يهي آپ كو آپ كي ديني و دنيوي زندگي كے هر مجال ميں كاميابي كے منازل سے هم كنار كرے گي۔ آپ ان عورتوں كو ديكھ كر عبرت حاصل كر سكتي هيں اور معاشرے كو ديكھ كر مغربي تهذيب و روايات كو جھٹلا سكتي هيں جس معاشرے كے مرد عام طور سے اپنے جسم كو ڈھكے هوئے هوتے هيں جب كه عورتوں كو برهنه كيے هوتے هيں۔ ياد ركھو ، تعليماتِ الٰهيه هي ابدي هيں، اسي ميں سچي خوشي هے اور عظيم كاميابي بھي ۔ جاتے جاتے هدايت كے ليے ميں اتنا كهوں گا كه خدا را مساوات كے نام پر چند لمحوں كي خوشي حاصل هونے والي تعليم و فكر سے اپنے آپ كو دور ركھيں ، كيوں كه الله وحده لا شريك كا اعلان هے: ٫٫الرجال قوامون علي النسائ ٬٬﴿النسائ34﴾اور يه آپ كے نزديك اور بھي اچھي طرح ظاهر هے كه ايك عورت كو اس كي زندگي كے هر لمحے ميں ايك مرد كي ضرورت هے، مرد كے بغير هر محاذ پر ، هر مجال ميں وه كمزور هي كمزور هے۔ اهلِ هوش و خرد ،غور كرو
-
Is Ka Jawab Mandrja Bala Post Main De Dya Gya Hai .... http://www.islamimehfil.info//topic/4954-ala-hazrat-pay-lagaiay-janay-walay-ilzamat/
-
-
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا روئے زیبا
اس ٹاپک میں نے Abu.Huzaifa میں پوسٹ کیا اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
- 1 reply
-
- 1
-
-
دعوت اسلامی کے حوالے سے پھیلائی گئی ایک غلط فہمی
Abu.Huzaifa replied to Mughal...'s topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
اس میں کہیں بھی حوالہ نہیں ہے دوسری بات حضور تاج الشریعہ کا نام نامی بھی صحیح نہیں لکھا گیا ہے بس ایک کتابچہ جو کہ چپکایا ہے ۔ یہ دیوبندیوں کی طرف سے کھلی تلبیسات ہیں۔ اور دہوکہ دینا ہے آپ انہیں کہیں کہ حوالہ من وعن نقل کریں ۔ نیز اگر یہ صورت ہو بھی تو اس میں گھر جلنے والی کوئی بات نہیں بلکہ مدنی چینل کے فیوضات دیکھ کر دیوبندی جل کر کباب ہوگئے ہیں۔ فروعی اختلاف ہوتے ہیں ۔ اس میں شدت بھی ہوجایا کرتی ہے ۔خود دیوبندی علماء میں فروعی اختلافات کی کثرت ہے۔ اس طرح تو مووی کے خلاف یوسف لدھیانوی نے بھی فتویٰ دیا تھا کہ کہ اس کے بنانے والے پیچھے نماز جائز نہیں اب دیوبندیوں کے جو مولوی آتے ہیں کیا ان کے پیچھے یوسف لدھیانوی کے فتوے کی روشنی میں نماز درست ہوگی ۔ نیز یہ فتویٰ امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھنے پر بھی لگے گا لیکن کافی دیوبندی بلکہ ان کے مولوی بھی پڑھتے ہیں۔پھر تقی عثمانی کے بارے میں دیوبندیوں کا خیال ہے اس کے معتقدین جنید جمشید تو مووی بناتے ہیں بلکہ ان کو تو موسیقی کی بھی جازت دی ہے۔ سبز عمامے کے جواز پر کافی کتب علمائے اہل سنت کی طرف سے ہی لکھی گئیں ہیں ۔ نیز دعوت اسلامی کے مفاد میں اتنی تحریریں ہیں علمائے ہل سنت کی طرف سے جن کے پڑھنے کے بعد کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ -
ناصر البانی کی احادیث صحیحہ میں خیانتیں
Abu.Huzaifa replied to Abu.Huzaifa's topic in فتنہ وہابی غیر مقلد
-