Search the Community
Showing results for tags 'سال'.
-
جو شخص جمعہ کے دن یہ درود شریف اَسّی مرتبہ پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف معاف کردیے جاتے ہیں۔ روایت کی تحقیق امام خطیب نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔👇 7278:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. سند: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثَمَانِينَ مَرَّةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَ ثَمَانِينَ عَامًا، فَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً " ترجمہ: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ کے سامنے( پاس) کھڑا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھ پر جمعہ کے دن 80اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی(80) سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا یارسول اللہ کیسے آپ پر درود پڑھیں تو فرمایاکہ تم کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً۔ (تاريخ بغداد ت بشار 15 /636.الرقم: 7278.) ✍️: زوائد میں امام خلدون الأحدب نے اسکو موضوع کہا۔ (زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة.9/293. الرقم: 2069.) ✍️: وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ : متھم باالوضع۔ 6904: وهب بن دَاوُد المخرمي عَن ابْن علية عَن ابْن صُهَيْب عَن أنس من صلى عَليّ يَوْم الْجُمُعَة ثَمَانِينَ مرّة غفر لَهُ ذنُوب ثَمَانِينَ عَاما قَالَ الْخَطِيب لم يكن بِثِقَة ثمَّ أورد لَهُ حَدِيثا من وَضعه سیدنا انس مروی ہے کہ جس نے مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں خطیب نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں پھر انہوں نے اسکی وہ حدیث درج کی جو اس نے گھڑی ہے ( المغني في الضعفاء 2/727. الرقم: 6904.) امام خطیب بغدادی نے اسی وھب کا ترجمہ لکھ نے بعد یہی روایت درج کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے روایت 7278.اور اسی طرح اسی روایت کو وھب کے ترجمہ 7326 نمبر پر بھی درج فرمایا۔ 7326:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. اس کے اوپر والی سند مکمل بیان فرمائی۔ 4583: وهب بن داود المخرمي: عن ابن علية، قال الخطيب: لم يكن ثقة. (كتاب ديوان الضعفاء 229ص) ✍️: وسند: موضوع طریق نمبر 02.👇 1893: قال: أخبرنا عبدوس، أخبرنا أبو منصور البزاز، أخبرنا الدارقطني، حدثنا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب،حدثنا عون بن عمارة، حدثنا سكن البُرْجُمي، عن الحجاج بن سنان عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الصلاة عليّ نور على الصراط، ومن صلّى عليّ يومَ الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عامًا". ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر 5/467.الرقم: 1893.) ✍️: عون بن عمارة القيسي: ضعیف۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اسکو ضعیف کہا۔👇 ✍️: 5224: عون بن عمارة القيسي، أبو محمد البصري: ضعيف، مات سنة اثنتي عشرة ومائتين. (تقريب التهذيب لابن حجر 424 ص.الرقم: 5224.) ✍️: حجاج بن سنان: متروک الحدیث۔ ✍️: حجاج کو متروک کہا امام ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے (/846: حجاج بن سنان: عن علي بن زيد، قال الأزدي: متروك. (ديوان الضعفاء للذھبی 73ص۔الرقم: 846.) (لسان الميزان لابن حجر 2/562۔الرقم: 2150. ✍️: علي بن زيد بن جُدْعان : ضعيف. 1: مصباح الزجاجة میں امام بوصیری نے ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے سندا ضعیف فرمایا کلام امام بوصیری: هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عَليّ بن زيد بن جدعَان۔ (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 3/178. الرقم: 5101.) ✍️: واسناد ضعیف جدا بل منکر۔ طریق نمبر 03. اسکو امام سخاوی اور ابن حجر ھیتمی نے ابن بشکول کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن اسکی سند ساتھ زکر نہیں کی یعنی بے سند وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً أخرجه ابن بشكوال ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی (80) مرتبہ پڑھے اُس کے اَسّی (80) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اُس کے لیے اَسّی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع للسخاوی 199ص۔) (الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر ھیتمی 213ص۔) ✍️: حسين بن محمد المغربي نے شرح بلوغ المرام کے حاشیہ میں اسے ساقطة من کہا۔یعنی ساقط ہے۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام ت الزبن 10/399.) یہ روایت ( جس میں عصر کے بعد درود کا زکر ہے) بھی سند کے ساتھ نہیں ملی کافی تلاش بسیار کے بعد دلائل کو مدنظر رکھتے ہو یہی کہا جا سکتا ہے اسکو موقوف رکھا جاۓ کیونکہ یہ روایت بیان کرنے و سیدی کی طرف منسوب کرنے کے قابل نہیں دلائل کی بنیاد پر۔ خلاصہ کلام: 📖: لہذا یہ تینوں مرویات اس قابل نہیں ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر ان کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاۓ۔ پس ان کو سیدی معصوم الکائنات کی طرف منسوب کرنا گویا جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اعتراض ✍️: کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ جو بغیر سند کے روایت ہوتی ہےوہ موضوع نہیں ہوتی۔ ✍️: بس اتنی بات کی جاتی کہ شاید انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کہیں جب موضوع نہیں تو بیان کر سکتے عرض یہ ہے اگر موضوع نہیں ہوتی نہیں کہے سکتے تو صحیح یا ضعیف بھی تو نہیں کہے سکتے لہذا وہ ساقط ہے اسکو چھوڑ دینا چاھیے بیان بھی نہ کی جاۓ بس۔ ✍️: دوسری بات ایسے لوگوں کو سند کی ضرورت کے بارے میں پڑھنا چاھیے حدیث میں سند کی اہمیت کتنی ہے ✍️: سند کی ضرورت مختصر سا تعارف۔ تفصیل کے لیے درج ذیل حوالہ جات کو مکمل پڑھیں یہاں انکو مختصر کر کے لکھا گیا ہے۔ 📖: امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو آدمی جو چاھتا کہے دیتا۔ مزید فرماتے ہیں کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں۔ صحیح مسلم : 32. 📖: اسی طرح امام ابن سرین فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات و فتنے داخل ہونے لگ گۓ سند بیان کی جانے لگ گئی۔ صحیح مسلم : 27. 📖: اللہ پاک ہماری مغفرت فرماۓ اور سیدی کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنے ی توفیق دے۔ 📖: مفہوم حدیث جس نے جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت(منسوب) میری طرف کیا گویا اس نے اپنا راستہ جہنم کی طرف بنایا۔ ✍️✍️✍️✍️ ✍️: نوٹ درود شریف جتنا پڑھیں ثواب ملے گا۔ جب چاھیں پڑھیں یہی والا پڑھیں یا کوئی اور جس صیغہ کے ساتھ مرضی پڑھیں ثواب ضرور تو ملے گا لیکن اسکی جو تعداد اور وقت بتایا گیا ہے یہ ثابت نہیں اور اصل بات گناہ معاف والی بات کہی گئی ہے فکس کر کے 80سال یہ درست نہیں۔ ✍️: عام طور پر جیسے پڑھتے ہیں پڑھیں دورد کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن جو خاص فضیلت ان تینوں رویات میں وارد ہیں وہ سیدی سے ثابت نہیں۔ ✍️: دورد پڑھنا ثواب ہی ثواب کا کام ہے لیکن جو فضیلت ثابت نہیں اسکو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل درست نہیں بلکہ گناہ کبیرہ و جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 12_03_2023 انیس(19) شعبان المعظم 1444ھ۔
-
(امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض ) محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے) °°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°° پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں: ______________________________________ ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰)) ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40) __________________________________________ محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔ تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔ اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے _______________________________________ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے 📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88) ________________________________________ امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں: وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔ 📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399) _______________________________________ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا 📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134) ______________________________________ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔ 📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61) محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔ یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین ______________________________________ ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی