Search the Community
Showing results for tags 'کی'.
-
آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق امام خطیب البغدادی م463ھ رحمہ اللہ نے فرمایا وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسي بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنس، قال: صنع أنس لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتي المنديل، " فجاءت بمنديل درن، فقال اسجري التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه وسلم وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدي الأنبياء " ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار 11/589 ) دینار مولی انس بیان کرتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ . وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا حضرت انس بن مالک نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام نے پوچھا یہ کیسے تو حضرت انس بن مالک نے فرمایا یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی یہ روایت موضوع ہے أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشي متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہذا اس کی حضرت انس بن مالک سے روایت موضوع قرار دی جائے گی امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقال الحاكم: روى، عَن أَنس قريبا من مِئَة حديث موضوعة اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں قال ابن حبان: يروي، عَن أَنس أشياء موضوعة یہ انس بن مالک سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ( لسان الميزان :- 3077 ) امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اندازاً فرمایا کہ أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں ( ميزان الاعتدال 2/31 ) نیز سند میں " أبو عمير الأنسي " بھی مجہول ہے امام احمد بن علی المقریزی م845ھ رحمہ اللہ نے حافظ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء- عليهم السلام عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا . میں نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ انور پونچھتے تھے ، اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو ( كتاب إمتاع الأسماع 11/254 ) یہ بھی موضوع ہے 1 : محمد بن رميح العامري مجہول ہے 2 : عبد الله بن محمد بن المغيرة متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/75 ) امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابن یونس نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا ( كتاب الزهر النضر في حال الخضر ص76 ) امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا ( كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري 14/219 ) ( كتاب ميزان الاعتدال 2/487 ) 3 : أبو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو " واہ " قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے ( كتاب ميزان الاعتدال 2/369 ) ( فتح المغيث للسخاوي 2/128 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالک سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 4/393 ) اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے روٹیاں لگائیں اور نبی علیہ السلام نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبی علیہ السلام نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو کہاں سے نکل کر لیا اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92/93 پر فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 15 ذو الحجہ 1443ھ
-
(امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض ) محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے) °°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°° پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں: ______________________________________ ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰)) ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40) __________________________________________ محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔ تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔ اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے _______________________________________ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے 📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88) ________________________________________ امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں: وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔ 📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399) _______________________________________ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا 📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134) ______________________________________ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔ 📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61) محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔ یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین ______________________________________ ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی
-
*جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔* 1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه (حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254) 2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» (حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465) دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں 1 *إسماعيل بن يحيى* اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔ ✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں ✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔ ✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔ ✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔ خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ: 12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك، کہتے ہیں کہ اسماعیل مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔ 2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے، ✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے ✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔ اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے الحکم الحدیث:- موضوع (محمد عمران علی حیدری) 01.04.2022. 28شعبان 1443ھ
-
*کفار نے کہا انبیاء کو کہ تم صرف ہمارے جیسے بشر ہو* بسم اللہ الرحمن الرحیم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم. اعتراض : مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی تفسیر میں کہا کہ: انبیاء کو بشر کہنے والے کافر ہی تھے اب جو انبیاء کو بشر کہے وہ مفتی صاحب کے نزدیک کافر ہے کیا انبیاء بشر نہیں ہوتے قل انما آنا بشر المثلکم قرآن میں اللہ کہتا کہ اے نبی تم کہے دو کہ میں تمھاری مثل بشر ہوں۔ اور جگہ جگہ انبیاء کو بشر کہا گیا ہے بلکہ سنیوں کی سب معبتر علماء انبیاء کی بشریت کا انکار کفر سمجھتے ہیں اب کون کافر ہے مفتی احمد یار یا پھر باقی سنی علماء قرآن و حدیث میں ثبوت موجود ہے کہ انبیاء بشر ہی ہوتے ہیں۔ *الجواب بعون الوہاب۔* پہلی بات وہابیوں کا اعتراض ہی باطل ہے جو کہ کچھ اہمیت کا حامل نہیں بس جہالت پر مبنی ہے لیکن اپنی عوام کے لیے ہم جواب دے دیتے ہیں۔ اس میں حکیم الامت نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بشریت کا انکار کیا ہی نہیں یہی بتایا کہ موازنہ کرتے اپنے جیسا بتاتے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت، شان و عظمت کم کرنے کی کوشش کرتے لوگوں کے سامنے اور انبیاء کو کہتے کہ یہ تو بس ہمارے جیسا بشر اے لوگو تم ان کی پیروی کرو گے۔ لوگوں کے دلوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے یہ بیٹھانا چاھتے تھے یہی کہ یہ ہم جیسے ہیں بشر بس اور یہی لوگ انبیاء کی عزت کم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر کے انبیاء کی عزت کرنا چاھتے۔ اس پوسٹ کو مکمل پڑھیں تو سمجھ لگ جاۓ گی حکیم الامت، مفسر شہیر علامہ،مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ نے بلکل صحیح بات کی ہے عین قرآن سے وہی بات ثابت ہے۔ عقیدہ: *عقیدہ اھلسنت: تمام انبیاء کرام علہم السلام بشر ہی ہیں بشریت کا انکار کفر ہے اورحضرت محمد صلی صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کی نورانیت کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ ان کمال،فضائل، خصائص بہت زیادہ ہیں انکو قرآن میں نور بھی کہا گیا احادیث میں بھی آیا مفہوم ہے کہ تم میں سے کوئی بھی میری مثل نہیں۔ یہ باتیں قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہیں۔* *لیکن ان کو اپنے جیسا بشر کہنا اس انداز سے کہ عوام کو باور کروایا جاۓ کہ انبیاء کوئی چیز ہی نہیں بس وہ نبی ہیں اور ان پر وحی آتی باقی ہم میں ان میں کوئی فرق نہیں اور نبی ایک انسان ہوتا ہے اس انداز سے کہنے کہ ہر نتھو پھتو ایرا غیرہ لولھا لنگڑا کانا سمجھے کہ ہم میں اور انبیاء میں کوئی فرق ہی نہیں یہ تو عام بات ہے ہم بھی بشر وہ بھی بشر اور بس فرق یہی ہے کہ ان وحی آتی ہے ہم پر نہیں۔اور خاص کر جب شان نبی علیہ السلام بیان کی جارہی ہو تو کچھ نام نہاد مولویوں کو تکلیف ہونا شروع ہو جاتی ہے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تو وہاں یہ رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہماری مثل بشر ہیں ہماری جیسے ہیں بس تو ہم اس بات کی پرزور مزمت کرتے ہیں اور اس میں عوام الناس نبی کو عام انسان محسوس کرتی ہے اور نبوت کو عام سا عہدہ اور اس پر فائز نبی عام بشر سمجھنے لگتے ہیں۔* *2: اعتراض:.* بات یہ کہ تم نبی کو خدا بنا دیتے ہو یا اس کو خدا کے برابر کر دیتے ہو اور لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ نبی نہیں خدا ہے اس لیے ہم یہ بات ادھر کرتے ہیں۔ *الجواب بعون الوہاب:.* اگر یہ بات سچ ہے تو آپ وہاں اپنے جیسا بشر ثابت کرنے کہنے کی بجاۓ پوچھ لیا کریں کہ تم نبی کو اللہ(خدا) یا اللہ کا بیٹا یا فرشتہ یا کچھ اور سمجھتے ہو تو پھر جو جواب ملے گا سن لینا یقینا جواب یہی ہوگا ہم بتا دیتے ہیں اور یہی کہا جاۓ گا کہ بے مثل بشر سمجھتے ہیں ان کی مثل اللہ نے ان کے مرتبہ و مقام کا بنایا ہی نہیں کسی کو۔ بے شک تمام ابییاء بشر ہیں۔ تو اگر یہی جواب ملے تو پھر سمجھ جائیں حق کیا ہے۔ ھدایت اللہ ہی عطا کرتا ہے ہمارا کام آپ کو حق بتانا ہے۔ ✍️اصل علمی تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے اسے بھی پڑھ لیں:.✍️ کچھ جاہل قسم کے لوگ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ پر زبانیں کستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہاں ہے کوئی ایک آیت لاو جس میں ہو کہ انبیاء کو بشر کہنے والے کافر ہوں۔ ایسا مطالبہ کرنے والے یقینا جاہل ہی ہو سکتے جو قرآن کو کبھی نہ پڑھنے والے ہی ہو ہوسکتے ہیں ورنہ اس بات کا مطالبہ ہی نہ کرتا ہم کچھ آیات پیش کرتے ہیں تاکہ جہلا سمجھ سکیں کہ قرآن میں سچی بات ہے کفار نے یہی کہا انبیاء علیہم السلام کو کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر نور العرفان میں یہ بات کی ہے۔ آپ نے بلکل ٹھیک کہا ہے ایسا ہی ہے۔ اور مفتی صاحب قرآن کو گہری نظر سے سمجھنے والے انسان تھے اللہ ان کے درجات بلند فرماۓ اور سیدی معصوم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری بھی آمین۔ ✍️✍️✍️قرآنی دلائل: ۔ *بسم اللہ الرحمن الرحیم* 1: *نمبر ایک الشعراء 186* وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُـنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِيْنَ. ترجمہ: تم تو نہیں مگر ہم جیسے بشر اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس آیت مبارکہ شان نزول دیکھ لیجیے گا کن لوگوں نے کہا تھا یہ کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو. (محمد عمران علی حیدری) 2: *نمبر دو سورۃ الإسراء نمبر 94* وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰٓى اِلَّاۤ اَنۡ قَالُـوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا. ترجمہ: اور لوگوں کو ایمان لانے سے صرف یہ چیز مانع ہوئی کہ جب بھی ان کے پاس ہدایت آئی تو انہوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے. (محمد عمران علی حیدری) 3: *سورۃ المؤمنون آیت 24* فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۙ يُرِيۡدُ اَنۡ يَّـتَفَضَّلَ عَلَيۡكُمۡ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِكَةً ۖۚ مَّا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِيۡنَ. ترجمہ: پس ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا یہ تو محض تمہاری مثل بشر ہیں جو تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر اللہ کسی کو بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو نازل کردیتا، ہم نے تو اس بات کو اپنے پہلے باپ دادا میں سے کسی سے نہیں سنا. (محمد عمران علی حیدری) 4: *سورۃ المؤمنون آیت 33* وَقَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَةِ وَاَتۡرَفۡنٰهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۙ يَاۡكُلُ مِمَّا تَاۡكُلُوۡنَ مِنۡهُ وَيَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ. ترجمہ: اور رسول کی قوم کے وہ *کافر سردار* جنہوں نے آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی تھی اور جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں فراوانی عطا فرمائی تھی وہ کہنے لگے یہ رسول صرف *تمہاری مثل بشر ہے* یہ ان ہی چیزوں میں سے کھاتا ہے جن سے تم کھاتے ہو اور ان ہی چیزوں سے پیتا ہے جن سے تم پیتے ہو. (محمد عمران علی حیدری) 5: *سورۃ المؤمنون آیت 34* وَلَئِنۡ اَطَعۡتُمۡ بَشَرًا مِّثۡلَـكُمۡ اِنَّكُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَۙ. ترجمہ: اور اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی اطاعت کی تو تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائو گے. (محمد عمران علی حیدری) 6: *سورۃابراهيم آیت 10* قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ. ترجمہ: ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے متعلق شک ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے بعض گناہ ہوں کو بخش دے اور موت کے مقرر تک تم کو عذاب سے مئو خر رکھے، انہوں نے کہا *تم تو محض ہماری مثل بشر ہو* تم تو یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آباؤاجداد پرستش کرتے تھے سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤ. (محمد عمران علی حیدری) 7: *سورۃ يس آیت 15* قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ. ترجمہ: ان لوگوں نے کہا *تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو* اور رحمٰن نے کچھ نازل نہیں کیا تم محض جھوٹ بولتے ہو. (محمد عمران علی حیدری) 8: *سورۃ الأنبياء آیت 3* لَاهِيَةً قُلُوۡبُهُمۡ ؕ وَاَسَرُّوا النَّجۡوَىۖ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ۖ هَلۡ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَاَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ. ترجمہ: ان کے دل کھیل کود میں ہیں، اور ظالموں نے آپس میں یہ سرگوشی کی کہ یہ شخص تو تمہاری ہی مثل بشر ہے کیا تم جانتے وبجھتے جادو کے پاس جا رہے ہو. (محمد عمران علی حیدری) مفہوم کلام:۔ ثابت ہوا کہ کفار نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر کہا اور انبیاء کی عزت کم کرتے اور ان کی دعوت کا انکار کرتے اور اور اپنے جسا بشر کہے کر لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے نفرت پیدا کرنا چاھتے تھے۔ اور ان کو عام بشر کہتے تھے۔ پس جو کہتا ہے حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ؒ نے غلط کہا تو وہ آنکھیں کھول کے بار بار پڑھیں اس تحریر کو پس حق یہی ہے مفتی صاحب کا موقف قرآن سے ثابت ہے۔ اب اگر کوئی مفتی صاحب پر اعتراض کرے اسی بات کی وجہ سے تو پھر یہ علمی اختلاف نہیں بلکہ مخالفت ہے۔ إن شاءالله ایک اور تحریر نور و بشر پر بنانی ہے اس میں بہت سارا علمی مواد ہوگا وقت ملتے ہی بنائی جاۓ گی إن شاءالله۔ *(طالب دعا محمد عمران علی حیدری)* 24.01.2022.
-
*حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان(یقین) امت سے بڑھ کے ہے* مختلف الفاظ کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے کہیں جمیع المومنین کے الفاظ ہیں تو کہیں العالمین کے ہیں اور کہیں الناس کے ہیں کہیں اھل العرض کے الفاظ ہیں۔ یہ روایت معناََ صحیح ہے۔ لو وضع إيمان أبي بكر على إيمان هذه الأمة لرجح بها۔ ترجمہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان امت سے بڑھ کے ہے، اس کے شواھد و مطابعت موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث درجہ حسن کی ہے بلک اس سے اوپر تک جا سکتی ہے۔ اور اسی مفہوم(مطابعت و شواھد) کی ایک موقوف روایت شعب الایمان میں موجود ہے سند کے ساتھ۔ 35: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الفقيه، حدثنا محمد بن عيسى بن السكن، حدثنا موسى بن عمران، حدثنا ابن المبارك، عن ابن شوذب، عن محمد بن جحادة، عن سلمة بن كهيل، عن هزيل بن شرحبيل قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: " لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح بهم " *شعب الایمان 1/143* *مسند اسحاق بن راہویہ۔ نوادر الاصول فضائل الصحابہ* ترجمہ:سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ: اگر ابوبکررضی اللہ عنہ کے ایمان کو اہل زمین کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بھاری ہوجائے گا۔۔ 2286: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنْ الحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ : مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ ، وَوُزِنَ أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ ، ثُمَّ رُفِعَ المِيزَانُ ، فَرَأَيْنَا الكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو اترا، آپ اور ابوبکر تولے گئے تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے، ابوبکر اور عمر تولے گئے، تو ابوبکر بھاری نکلے، عمر اور عثمان تولے گئے تو عمر بھاری نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے. تخریج: أبو داود في سننه باب باب في الخلفاء۔ حديث رقم 4080 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20031 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20082 أحمد في المسند باب حديث أبي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة۔ حديث رقم 20084 الحاكم في المستدرك باب أما حديث ضمرة وأبو طلحة۔ حديث رقم 4411 الحاكم في المستدرك باب وأما حديث شرحبيل بن أوس۔ حديث رقم 8304 النسائي في الكبرى باب مناقب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من المهاجرين والأنصار۔ حديث رقم 6909 الطيالسي في مسنده باب أبو بكرة۔ حديث رقم 897 ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما قالوا فيما يخبره النبي صلى الله عليه وسلم من الرؤيا۔ حديث رقم 29887 ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر في أبي بكر الصديق رضي الله عنہ۔ حديث رقم 31339 أحمد في فضائل الصحابة باب وهذه الأحاديث من حديث أبي بكر بن مالك عن شيوخه۔ حديث رقم 182 أحمد في فضائل الصحابة باب ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك۔ حديث رقم 549 البزار في مسنده باب بقية حديث أبي بكرة۔ حديث رقم 3084 الطحاوي في مشكل الآثار باب باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه۔ حديث رقم 283 الحکم الحدیث: حسن۔ (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
-
*ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق* حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔ ✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔ *طریق نمبر 1:.* 2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب 📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي " 1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث. *قال الخطيب أيضا (3/ 475):* ✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔ 📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذامنكر جدا. *قال الدارقطني: كذاب.* طریق نمبر 2:. نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد *ابن عساکر جلد30.ص141* ✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔ مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے ✍️2724 - سهل بن سعد: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي *مسند الفردوس 142/2* امام اصبھانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا 85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي» *فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89* ✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔ وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذا منكر جدا. قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب. *میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ* اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔ ✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:- ✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔ ✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے ✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔ ✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم كذاب ہے۔ ✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب. 📖خلاصہ کلام:-✍️✍️ اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔ اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔ اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔ ✍️الحکم الحدیث: موضوع (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
-
آذان سے پہلے اور بعد میں کیا پڑھیں اور کیا کیا پڑھ سکتے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں. از قلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ عزوجل یارسول اللہؐﷺ 🌹دورد ذات اقدس اور آل و اصحاب پر بے شمار لاکھوں ارباں کروڑاں کھرباں بار❤️ صلی اللہ علیہ وآلہ اصحابہ وبارک وسلم القرآن المجید فرقان الحمید برہان العظیم میں اللہ وحدہ لاشریک کا انعام، بے مثل قرآن میں بےمثال فرمان :۔❤️❤️ 📖اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا.📖 سورۃ الاحزاب: آیت نمبر56. ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر ، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو، ✍️✍️✍️یہ تفسیر نہیں بس اس آیت میں موجود نقاط ہیں بس اگر اس کی تفسیر دیکھنی ہے تو نیچے کتب تفاسیر کے حوالہ جات دیے ہوۓ ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں غور طلب باتیں جو کہ بتانا مقصود ہیں : ۔ ✍️اللہ کی شان ان باتوں پر غور کیا جاۓ تو سمجھ آ جاۓ گی کہ قرآن کی شان کیا ہے اور پتہ چلے کہ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کا مفہوم کیا ہے، ✍️ قرآن سمجھنا آسان ہے اگر نظر و دل میں شان و عظمت مصطفیؐ ہو تو ورنہ اس قرآن کو پڑھ کر خوارج نے سیدنا ابوتراب، مولا کائنات، شیر خدا، جنت کے شہزادوں کے بابا، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی حق پر تھے مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، فاتح خیبر مولا مشکل کشاہ علی حیدر کرم وجہ الکریم پر بھی کفر کا کا فتوئ لگا دیا تھا۔😭 ✍️اگر اس قرآن کو پڑھ کر صحابی رسول پر کفر و شرک کے فتوۓ لگے ہیں تو آج ہم سنیوں پر جو لگ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت معاویہؓ کی مثال اس لیے دی کہ ایک صحابی کے مقابلہ میں ایک صحابی حق پر ہے تو خوارج نے حق پر قائم رہنے والے صحابی، خلیفہ چہارم پر فتوئ لگا دیا تھا اللہ کی شان!، آج یہی کام ایک قوم کرتی نظر آتی ہے اشارہ کافی ہے۔ خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ 👇👇👇 اس آیت مبارکہ میں وقت متعین نہیں ہے اور وہ کوئی وقت بھی ہو سکتا ہے، اور اگر بات کی جاۓ فضائل درود و سلام کی تو تحریر بہت لمبی ہوجاۓ گی۔ لہذا جب پڑھیں جس وقت پڑھیں پڑھ سکتے ہیں درود و سلام، *نماز سے پہلے یا نماز کے بعد میں ہو، آذان سے پہلے ہو بعد ہو اس کے علاوہ گھر ہو مسجد میں ہو، بیٹھ کے پڑھو یا کھڑے ہو کے پڑھو، تھوڑا پڑھو زیادہ پڑھو پڑھ سکتے ہیں۔* علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر درود و سلام دکھاوۓ کے لیے بھی کوئی پڑھے تو بھی ثواب ملے باقی دینی کاموں کا ثواب نہیں ملتا اگر دکھاوے کے لیے کیا جاۓ چاھے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو۔ سبحان الله اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے لیے ✍️✍️اگر ان تمام تفاسیر کا خلاصہ اگر پڑھنا ہے تو تفسیر خزائن العرفان ہی پڑھ لیں۔ اور اس کے بعد تفسیر صراط الجنان بہتر ہے۔ اگر تفصیل پڑھنی ہے تو تبیان القرآن پڑھ لیں۔✍️✍️✍️ یہ تین تفاسیر تقریبا تمام کتب تفاسیر کا بہترین نچوڑ ہیں *📖1تفسیر تبیان القرآن۔* *📚 2تفسیر خزائن العرفان۔* *📗3تفسیر صراط الجنان۔* 📓4تفسیر درمنثور۔🌹 📘5تفسیر جلالین۔🌹 📙6تفسیر مدارک التنزیل۔🌹 📓7تفسیر قرطبی۔🌹 📙8تفسیر بغوی۔🌹 📘9تفسیر ابن کثیر۔🌹 📗10تفسیر روح البیان۔🌹 📕11تفسیر خزینتہ القرآن۔🌹 📓12تفسیر سراج المنیر۔🌹 📙13تفسیر نور العرفان۔🌹 📗14تفسیر ضیاء القرآن۔🌹 📕15تفسیر الحسنات۔🌹 وغیرہ کتب تفاسیر (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد اور نبی علیہ السلام پر درودو سلام نہ ہو تو وہ کام نعمت سے خالی ہے* یہ روایت ضعیف ہے جو ہمارے ہاں فضائل و مناقب میں قابل قبول ہے۔ اس روایت کا متن بالکل ٹھیک ہے جیسا آپ ابھی پڑھیں گے : ۔ 📕امام ابو یعلیٰ الخلیلی (م 446ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا :- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَزَرِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ الْمُوَفَّقِ الزَّاهِدُ بِهَمَذَانَ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الطَّيَّانِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْقَاسِمِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الشَّامِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ أَمْرٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِحَمْدِ اللَّهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ أَبْتَرُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ» ترجمہ :- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد و ثنا اور مجھ پر درود و سلام نہ ہوں منقطع اور ہر نعمت سے خالی ہے [ الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي رقم الحدیث :- 119 ] ‼️ اس روایت کو الحافظ عبد القادر بن عبد الله الرهُاوى نے اپنی " الأربعون على البلدان " میں امام دیلمی نے " مسند الفردوس " میں امام تاج الدین ابن سبکی نے " طبقات الشافعية " میں باسند نقل کیا اس روایت کے حوالے سے اہل علم فرماتے ہیں :- ➊ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا [ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص244 ] ➋ عرب کے محقق ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا [ ضعيف الجامع الصغير وزيادته ص613 ] ➌ عرب کے محقق شعیب ارناؤوط نے بھی ضعیف کہا [ جلاء الأفهام - ت الأرنؤوط ص441 ] ‼️ ہمارے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا دوسرا طریق بھی ہے جس کا ذکر امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :- وروى أبو موسى المدني، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله تبارك وتعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل كلام لا يذكر الله فيبدأ به وبالصلاة علي، فهو أقطع ممحوق من كل بركة [ إمتاع الأسماع 11/153 ] (ازقلم :سید عاقب حسین رضوی۔) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے بعد دو چیزیں پڑھنے کا ثبوت اور ساتھ ہی خوشخبری* 📖حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَحَيْوَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. *ھذا حدیث صحیح* *ابوداؤد باب الآذان١(٥١٩)* *صحیح مسلم باب الصلاة ٧ (٣٨٤)، سنن الترمذی باب باب المناقب ١ (٣٦١٤)، سنن النسائی باب الأذان ٣٧ (٦٧٩)، مسند احمد (٢/١٦٨)* ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی. (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا 😭😭😭 آذان کے بعد درود و سلام پڑھا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️آذان کا جواب بھی دیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️وسیلہ والی دعا بھی کیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ❤️🌹شفاعت واجب ہے ان سب کاموں پر سبحان الله۔❤️ (محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے سے پہلے دعا پڑھنے کا ثبوت* 📖حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، قَالَتْ: كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ. ھذا حدیث حسن *ابو داؤد ١(٥٢٣)* ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال ؓ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چناچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں ، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر کوئی آذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو تواسے اس پر ملامت نہ کیا جاۓ اگر کوئی پڑھتا ہے تو اسے بھی ملامت نہ جاۓ۔✍️ ✍️آذان سے پہلے کچھ بھی نہیں ثابت کی رٹ لگانا غلط ہے کیوں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ پڑھنا ثابت ہے۔ ✍️آذان سے پہلے دعا ثابت ہے یہی پڑھی جاۓ بہتر ہے۔ ✍️اگر کوئی اس دعا کے ساتھ ذات اقدس پر درود و سلام پڑھنا چاھے تو روکا نہ جاۓ۔ ✍️اگر کوئی کہے کہ اس وقت دین کے غلبہ کی دعا تھی اب الحَمْد للهْ دین غالب ہے تو اب اس دعا کی جگہ درود و سلام پڑھ لیا جاۓ تو کافی حد تک اسکی بات ٹھیک ہے۔ ✍️ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس دعا کو بھی پڑھا جاۓ اور ساتھ ساتھ ذات اقدس پر درود سلام بھی پڑھا جاۓ۔ ✍️نہ یہ دعا آذان کا حصہ تھی نہ ہے اور نہ درود و سلام آذان کا حصہ ہے، ✍️تو حرج نہیں ہونی چاھیے۔ ضد چھوڑیں بس نبی علیہ السلام سے محبت کریں انہی کے نام کردیں اپنا جینا مرنا پھر آپکو کبھی نہیں لگے گا کہ درود یہاں نہ پڑھو یہ والا درود نہ پڑھو اس صیغہ والا نہ پڑھو۔ پھر ایک ہی بات کرو گے درود پڑھو سلام پڑھو۔ درود و سلام پڑھو۔ ✍️اگر ایسا کیا جاۓ تو اختلاف و لڑائی جھگڑا ختم کیا جا جاسکتا ہے۔ صلی اللہ و علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یاحبیب اللہﷺ۔ (از قلم طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 02.12.2021 دو دسمبر 1443ھ
-
🏹 شہادت امام حسین علیہ السلام کی نشاندہی🏹 1 : 15124- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَيُقْتَلَنَّ الْحُسَيْنُ، [قَتْلًا] وَإِنِّي لَأَعْرِفُ التُّرْبَةَ الَّتِي يُقْتَلُ فِيهَا، قَرِيبًا مِنَ النَّهْرَيْنِ. ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حسین کو شہید کیا جاۓ گا اور میں اس مٹی کو پہچانتا ہوں جہاں حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جاۓ گا دو نہروں کے قریب ہے. ✍️حضرت علیؓ بھی جانتے تھے۔ ✍️اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں باقی احادیث کو بھی اس حدیث سے تقویت مل رہی ہے یزیدی ڈاکٹرز کے پاس جائیں👨⚕️ ✍️دعا ہے اللہ جلدی یزیدیوں کا صفایا فرما دے آمین۔🤲 رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. تخریج: ✍️ یہ حدیث درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے۔✍️ 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب من كره الخروج في الفتنة وتعوذ عنها ~ حديث رقم 36699 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر من حديث الأمراء والدخول عليهم ~ حديث رقم 30097۔ ( محمد عمران علی حیدری) 2 :وَفِي "مُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى": ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ، حَتَّى يَكُونَ أَوَّلُ مَنْ يَثْلَمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ يُقَالَ لَهُ: يَزِيدُ 📖إسناده مرسل. وانظر المجمع "5/ 241" ترجمہ: میری امت کا امر عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔ ✍️یہ حدیث سند کے لحاظ سے سے مرسل ہے ہمارے ہاں قابل حجت ہے۔ ✍️ اور اسکا متن بالکل ٹھیک ہے۔ یزید ہی پہلا لعنتی انسان تھا جس نے اپنی من مانی کی اور اہل بیت کی بے ادبی اور شعار اسلام کی ڈھایا ہے۔واقعہ حرہ قابل غور ہے۔ ✍️جو درج نہی نہی کیا جا سکتا، آپ اس واقعہ کو پڑھ لیں ایک بار۔بس۔ 3 : ۱۲۴٤۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ. 📖اسے احمد (المسند:242/1 ح 2165 ، 282/1 ح 2553 ۔۔ 📖کتاب فضائل الصحابۃ: 779/2 ح 1381 ) 📖طبرانی(الکبیر: 110/3 ح 2822) حاکم (397/4، 398 ح8201) , بیہقی (دلائل النبوۃ :471/6) اور ابن عساکر (تاریخ دمشق : 228/14) نے حماد بن سلمۃ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباسؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اسے حاکمؒ و ذہبیؒ دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ 📖حافظ ابن کثیرؒ نے کہا: اسے (کتب سبعہ میں سے)صرف احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (البدایۃ و النھایۃ: 202/8 ) 📖شیخ وصی اللہ بن عباس المدنی المکی فرماتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے۔ (تحقیق فضائل الصحابۃ: 779/2) ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 3 : نبی کریم ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔ (مشخیۃ ابراہیم بن طہمان : ۳ و سندہ حسن و من طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۱۹۲/۱۴، ولہ طریق آخر عندالحاکم ۳۹۸/۴ ح ۵۲۰۲ و صححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی) 4 : شہر بن حوشب تابعی(صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ،اللہ انہیں قتل کرے، انہوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ (فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی جلد2 صفحہ782 حدیث 1392. مسند احمد، جلد6 صفحہ 298 حدیث550 و سندہ حسن) 5: یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یثلمہ رجل من بنی أمیۃ یقال لہ یزید۔ ابن کثیر: البدایہ والنہایہ. جلد8 صفحہ231 ’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔‘‘ 6: (۱۲۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیُّ، قَالَ: بَعَثَنَا یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَخَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ نَسِیَ زِیَادٌ اسْمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا فَمَا تَرٰی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((إِنْ أَدْرَکْتَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْفِتَنِ فَاعْمَدْ إِلٰی أُحُدٍ،فَاکْسِرْ بِہِ حَدَّ سَیْفِکَ، ثُمَّ اقْعُدْ فِی بَیْتِکَ، قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ أَحَدٌ إِلَی الْبَیْتِ فَقُمْ إِلَی الْمَخْدَعِ، فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ الْمَخْدَعَ فَاجْثُ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ، وَقُلْ بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزَائُ الظَّالِمِینَ، فَقَدْ کَسَرْتُ حَدَّ سَیْفِیْ وَقَعَدْتُ فِیْ بَیْتِیْ))۔ (مسند احمد: ۱۸۱۴۵) وسندصحیح ترجمہ: ابو ا شعت صنعانی سے مروی ہے ، انھوں نے کہا: یزید بن معاویہ نے ہمیں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لیے بھیجا، میں مدینہ منورہ پہنچا تو فلاں کے پاس حاضرہوا، زیاد نے اس کا نام بیان کیا تھا، اس نے کہا: لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، آپ سب دیکھ رہے ہیں؟ ان حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میرے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر تم ان فتنوں میں سے کسی فتنہ کو دیکھو تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھ رہنا، اگر کوئی فتنہ باز شخص تمہارے گھر کے اندر گھس آئے تو تم کسی کوٹھڑی کے اندر چھپ جانا اور اگر کوئی تمہاری کو ٹھڑی میں آجائے تو تم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جانا اور کہنا کہ تو میرے قتل کے گناہ اور اپنے گناہوں کے ساتھ واپس جا، تیرا نجام جہنم ہے اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے، لہٰذا اے بھائی! میں تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھا ہوں. (محمد عمران علی حیدری) ✍️آج لوگ کہتے ہیں یزید نے کچھ بھی نہی کیا تھا. میں مزید کیا وضاحت کروں خود ہی ساری پوسٹ پرھ لیں سمجھ لگ جاۓ گی۔۔۔إن شاءالله۔ 7 :۔ (۱۲۴۳۷)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ، کَتَبَ إِلٰی قَیْسِ بْنِ الْہَیْثَمِ حِینَ مَاتَ یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فِتَنًا کَقِطَعِ الدُّخَانِ، یَمُوتُ فِیہَا قَلْبُ الرَّجُلِ، کَمَا یَمُوتُ بَدَنُہُ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ وَدِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔)) وَإِنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ قَدْ مَاتَ، وَأَنْتُمْ إِخْوَانُنَا وَأَشِقَّاؤُنَا، فَلَا تَسْبِقُونَا حَتّٰی نَخْتَارَ لِأَنْفُسِنَا۔ (مسند احمد: ۲۴۲۹۰ صحیح) ترجمہ: جب یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی توضحاک بن قیس نے قیس بن ہیثم کو خط لکھا، اس کا مضمون یہ تھا، تم پرسلامتی ہو، أَمَّا بَعْدُ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں جیسے شدید اور خوفناک فتنے بپا ہوں گے اور کچھ فتنے دھوئیں کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، تب لوگوں کے دل یوں مردہ ہوجائیں گے، جیسے بدن مردہ ہو جاتے ہیں،ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایک آدمی شام کو مومن اور صبح کو کافر ہوگا اور لوگ اپنے دین و اخلاق کو دنیا کے بدلے فروخت کرنے لگیں گے۔ یزید بن معاویہ فوت ہو چکا ہے اور تم ہمارے بھائی ہو، تم کسی معاملہ میں ہم سے سبقت نہ کرنا تاآنکہ ہم خود کسی بات کو اپنے لیے اختیار نہ کر لیں۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس حدیث میں بات ہے نوٹ کرنے والی عقل والوں کے لیے۔ سب امثال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یزید فوت ہوگیا🧐🤔۔ 🤷♂️✍️خط بھی یزید کے مرنے کے بعد لکھا گیا تھا۔ ✍️وجہ کیا تھا ایسا کیوں کرنا پڑا اسکا مطلب صاف ہے۔ ✍️یزید کی اولاد آج بھی یزید کو بے گناہ ثابت کرنا چاھتے ہیں۔ ✍️🤲بس ایک دعا ہےہم حسینی ہیں ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہو بس۔۔ آمین🤲۔ 8: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ - عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِكَ لأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔ ( صحیح مسلم جلد2حدیث4793) ترجمہ: نافع سے روایت ہے عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداﷲ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اس طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداﷲ بن مطیع نے کہا ابو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ( یہ کنیت ہے عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ) کے لیے تو شک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکہ ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا ہوں جو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے، آپ فرماتے تھے جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن خدا سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہوگی اور جو شخص مرجاوے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️کس نے لشکر بھیجا کدھر بھیجا نقصان کس کو ہوا؟ ✍️آج لوگ کہتے نظر آتے ہیں دو شہزادوں کی جنگ تھی لعنت تم جاہلو دشمن اہل بیت لوگ ہیں یہ کہنے والے ایسا۔ ✍️ کہاں شہزادہ جنت کہاں لخت جگر بتول سلام علیہا، کہاں جگر گوشہ ابو ترابؓ۔ ✍️اور کہاں یزید رزیل لعنتی انسان۔ جس نے صحابہ پر ظلم کیا اور اہل بیت پر بھی اور مدینہ پر بھی 😭😭😭😭ظلم۔ ✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجرمی المصری الشافعی.✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی مصری شافعی اپنی کتاب تحفة الحبيب على شرح الخطيب میں لکھتے ہیں: أَنَّ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ قَوْلًا بِلَعْنِ يَزِيدَ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَكَذَا لِلْإِمَامِ مَالِكٍ وَكَذَا لِأَبِي حَنِيفَةَ وَلَنَا قَوْلٌ بِذَلِكَ فِي مَذْهَبِ إمَامِنَا الشَّافِعِيِّ وَكَانَ يَقُولُ بِذَلِكَ الْأُسْتَاذُ الْبَكْرِيُّ. وَمِنْ كَلَامِ بَعْضِ أَتْبَاعِهِ فِي حَقِّ يَزِيدَ مَا لَفْظُهُ زَادَهُ اللَّهُ خِزْيًا وَمَنَعَهُ وَفِي أَسْفَلِ سِجِّيْنَ وَضَعَهُ وَفِي شَرْحِ عَقَائِدِ السَّعْدِ يَجُوزُ لَعْنُ يَزِيدَ. یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔ ( البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب، 12: 369، بيروت: دار الفكر) ( طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 19.08.2021
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــیــا حنــفــی گــمــراہ فــرقــہ ہــے انــجیــنئر مــرزا کــــی جـہـالـتـــــ کــا رد اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁ مشہور زمانہ فتنہ علمی یتیم جونیئر مرزا جہلمی غنیۃ الطالبین کے حوالے سے اعتراض کرتا ہے کہ اس کتاب میں سیدنا غوث الاعظمؓ نے حنفیہ کو مرجئہ فرقوں میں شمار کیا ہے ان شاءاللہ اس کا رد بلیغ کریں گے ✧✧✧ـــــــــــــــــ{﷽}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مرجئہ کے معنی کیا ہیں مرجئہ کا لفظ ارجاء سے ہے جس کے لغوی معنیٰ موخر کرنا ہیں اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852ھ لکھتے ہیں وَمِنْهُم من أَرَادَ تَأْخِير القَوْل فِي الحكم على من أَتَى الْكَبَائِر وَترك الْفَرَائِض بالنَّار لِأَن الْإِيمَان عِنْدهم الْإِقْرَار والاعتقاد وَلَا يضر الْعَمَل مَعَ ذَلِك مقدمہ فتح الباری ص646📕 کہ بعض کے ہاں ارجاء سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر دخول فی النار [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ] کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں سلطان المحدثین ملا علی قاریؒ 1014ھ فرماتے ہیں ثم المرجئه طائفته قالوا لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعته فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علي شئي من الکبائر شرح فقہ اکبر ص75📔 ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ تو آپ لوگوں کو اس فرقے کا تعارف تو پتہ چل ہی گیا ہوگا اب اصل میں یہ فرقہ حنفیہ نہیں بلکہ فرقہ غسانیہ ہے یعنی غسان ابن عبا الکوفی کے متبعین کو فرقہ غسانیہ کہتے ہیں ان کے عقائد آپ کو اوپر بتائے جا چکے ہیں مزید دیکھ لیں امام عبدالقاھر البغدادیؒ 429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں قال انه يزيد ولا ينقص وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص الفرق بين الفرق ص188📒 ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہؓ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہؓ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت اللہ اور رسول ﷺ کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیر تفصیل کے اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا ================================ اب یہ عقیدہ نہ تو امام ابو حنیفہؓ کا ہے نہ آپ کے متبعین کا دراصل غسان ابن عبا اور اس کے متبعین لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے کہ جو عقیدہ ہمارا ہے امام ابو حنیفہؓ کا بھی یہی عقیدہ تھا اور پھر یہ فرقہ غسانیہ کے نام سے بدل کر حنفیہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس نام سے یہ فرقہ مشہور تھا اسی نام سے اس کو مرجئہ میں شامل کیا ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ اور امام اعظم ابو حنیفہؓ نے تو خود اس عقیدہ کا اپنی کتاب میں رد کیا ہے جو غسان ابن عبا کا تھا امام ابوحنیفہؓ نے اس کا رد اپنی کتاب فقہ الاکبر میں صراحت سے کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا الفقہ الاکبر مع الشرح ص77،78📙 ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا خـــــــلاصــــہ کـــــــلام تو تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ فرقہ مرجئہ کے جو عقائد ہیں وہ نہ تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں نہ آپ کے متبعین کے ہیں بلکہ وہ غسان ابن عبا اور اس کے متبعین کے ہیں ️اور بہت سے مستند علماء کرام نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ یہ عبارت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہیں بلکہ کسی مخالف کی ہے اور غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے مگر اس میں تحریف ہو چکی ہے بہت سے مسائل میں یہ بھی مستند علماء کرام اور محدثین کا موقف ہے انجینئر مرزا اپنے اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے امام اعظمؓ سے ذاتی بغض اور کینہ کی بنا پر یہ بات اور یہ الزام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ پر عائد کیا کہ گویا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حنفیوں کو مرجئہی کہا اور سب سے اہم بات انجینئر مرزا جہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا ہے دار الکتب العلمیہ بیروت وہاں سے شائع ہونے والی غنیۃ الطالبین میں حنفیہ کی جگہ غسانیہ ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 1/186 پھر اسی کتاب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ جب ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؓ کا تعارف کرواتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ کرواتے ہیں وهو مذهب الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان رحمه الله تعالى یہ مذہب ہے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اب انجینئر بتائے بقول انجینئر جن کے فرقے کو اور جن کو وہ مرجیئہ کہہ رہے ہیں ان کو رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام اعظم بھی کہیں گے؟؟ جبکہ وہ خود امام احمد بن حنبلؒ کے مقلد ہیں فقہ میں اپنی پوری کتاب میں انہوں نے اپنے امام کو امام اعظم نہیں کہا۔ ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 2/85 ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ✍️ شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنّت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
- 1 reply
-
- 1
-
- گمراہ
- انجینئر مرزا
- (and 13 more)
-
زمین آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہؐ ✍️اللہ نے مرتبہ دیا ہے ۔ تم کیوں جلتے ہو؟ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : رَوَاهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.31 /31) 3-4: أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 /366، الرقم: 109، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /65، الرقم: 25، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 /388، والثعالبي في الکشف والبيان، 7 / 468. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو نورانی منبر لائے جائیں گے، ایک عرش کی دائیں جانب اور دوسرا عرش کی بائیں جانب نصب کیا جائے گا، اِن منبروں پر دو شخص نمودار ہوں گے، پس وہ جو عرش کی دائیں جانب ہو گا ندا دے گا: اے گروہانِ مخلوقات! جس نے مجھے پہچان لیا اُس نے جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا (تو وہ جان لے) کہ میں جنت کا داروغہ رضوان ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کی کنجیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تھما دوں، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُنہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) کو تھما دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو جنت میں داخل کر سکیں۔ پس تم آگاہ ہو جاؤ۔ پھر وہ شخص جو عرش کی بائیں جانب ہو گا ندا دے گا: جس نے مجھے جان لیا سو جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا تو وہ جان لے کہ میں مالک، جہنم کا داروغہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جہنم کی کنجیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ کنجیاں ابو بکر و عمر کو دے دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ بغض رکھنے والوں کو جہنم میں دھکیل سکیں۔ سو تم سب اِس پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘ اِسے محب الدین الطبری نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو کتاب موجبات الجنہ لابن الفاجر میں ابن الفاجر نے بھی نقل کیا ہے۔ 317 - ثنا الإمام عمي قال، ثنا أبو علي الوزير إملاءً قال، ثنا يوسف بن محمد الزاهد. -وأنبا أبو طاهر الصوفي بقراءاتي عليه قال، ثنا يوسف بن محمد في كتابه، قال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن أحمد قال، ثنا القاسم بن محمد السراج، ثنا محمد بن أحمد الضبي الدينوري بمكة في المسجد الحرام قال، ثنا أحمد بن يحيى قال، ثنا الصابر الجارود قال، ثنا هشيم عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إذا كان يوم القيامة ينصب ميزانٌ من ذهبٍ أمام العرش فيأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو أحدهما فيقول من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا رضوان خازن الجنة، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله -عز وجل- أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر رضي الله عنه يدخل الجنة محبيه ومحبي عائشة بغير حسابٍ، ويأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو المنبر الثاني، ويقول: من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا مالكٌ خازن النار، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه يدخل النار مبغضيه ومبغضي عائشة بغير حسابٍ)). قال أبو بكر: سمع هذا الحديث الكرخي، وقال: لو كان هذا الحديث مكتوباً على الجدار لكان الواجب أن يكتب بماء الذهب. كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر. ابن الفاخِر بابٌ في ذكر أن محبي أبي بكر وعائشة -رضي الله عنها- يدخلون الجنة بغير حساب. ✍️ اس کی سند پر کلام ہے اس حدیث کا متن بالکل قرآن و صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے وَلَـلۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لَّكَ مِنَ الۡاُوۡلٰىؕ. 4 سورۃ الضحى : ترجمہ اور بیشک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر 📖تفسیر میں مفسرین نے کیا فرمایا دو کتب سےمفہوم کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں آپ کے مَراتب ترقیوں میں رہیں گے۔ مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ:4 تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ4 2 : وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيۡكَ رَبُّكَ فَتَرۡضٰىؕ. ( الضحی 5) :ترجمہ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے. اسکا متن آپ خود دیکھ لیں گے۔ آپ ایک بار اوپر والی روایت کو غور سے پڑھیں پھر ان احادیث کو پڑھتے جائیں ۔إن شاءالله۔۔آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ 📘 1 : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا۔ صحیح بخاری جلد1 حدیث. 1344.2977.3596 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے یہی بات اوپر والی روایت میں کی گئی بات ہے۔ ✍️یہ حدیث بخاری میں چار جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب میں درج ہے الفاظ مختلف مفہوم ایک ہی ہے کہ ذات محبوب کبریا عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اب اسکا تعین کرنا کون کون سے خزانے ہیں ہمارے بس کی بات نہیں۔ ✍️اور نہ ہم اس مسلہ میں قید و بند لگا سکتے ہیں حدیث پر کہ ہاں یہ ہوگا یہ نہیں۔ ایسا کرنا وہابیہ کا کام ہے ہمارا نہی۔ ✍️ہم نے بس مان لیا کہ ہاں دے دی گئی ہیں اب دینے والا اور لینے والا جانے۔ ✍️میرے خیال میں اور حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کنجیاں کا لفظ کہنا یہ مقصد تھا کہ رسائی،(پہنچ) اختیار ،بادشاہت اللہ نے دےدی ہے۔ 📘 2: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ, ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ, وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ, أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ, وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. صحیح بخاری جلد2 حدیث 4085 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض ( حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ ✍️اب اس حدیث پر غور کریں تو نبی علیہ السلام فرما رہے ہین کہ اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں حوض کوثر کہاں ہے اور لفظ حضورؑ نے فرمایا اپنے یعنی میرا۔ مالکیت ظاہر ہورہی ہے۔ ✍️ سلطنت آسمان پر بھی ہے جس کی سلطنت ہو اختیار ہو و چابیاں بھی اسی کے پاس ہوتی ہیں ✍️جیسا کہ ایک بادشاہ کا وزیر ہوتا ہے بادشاہ اس کو بہت سارے اختیار دیتا ہے وزیر اسے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وزیر کو سب دے دیا جاتا ہے ہر چیز پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ جیسا حدیث میں ہے واللہ یعطی انا القاسم اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں. ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 3 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ. صحیح بخاری جلد1 حدیث 120. ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 4 :حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: ذَكَرَ دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ۔ سنن الترمذی جلد2 حدیث 3666 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا“۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️جسے چاہیں جو جو عطا کریں سب دیا آپ کی سلطنت میں 📘 5 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا۔ سنن ابن ماجہ جلد١حدیث 118 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ 📘 6: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا. قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مشکوۃ شریف ترجمہ: حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رو پڑیں ، پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑی ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو میں نے ان کے رونے اور ان کی ہنسی کے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میں فوت ہو جاؤں گا تو میں رو پڑی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ مریم بنت عمران کے علاوہ اہل جنت کی خواتین کی میں سردار ہوں ۔‘‘ اس پر میں ہنس دی ۔ رواہ الترمذی. (محمد عمران علی حیدری) 📘 7 :ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﺛنا ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺩﺣﻴﻢ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻓﺪﻳﻚ، ﻋﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﺰﻣﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻇﻨﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺣﺪﺛﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻋﺸﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻭﻋﻠﻲ، ﻭاﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻭﻃﻠﺤﺔ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﺳﻌﺪ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪﺓ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻭﻫﺆﻻء ﺗﺴﻌﺔ» ، ﺛﻢ ﺳﻜﺖ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻧﻨﺸﺪﻙ اﻟﻠﻪ ﺃﻻ ﺃﺧﺒﺮﺗﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺷﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻧﺸﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ اﻷﻋﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ» ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ اﻟﺘﻠﺨﻴص (المستدرك علي الصحيحين: رقم الحديث 5858جلد3 498صفحہ,ط:دارالكتب العلمية۔) اگر وہابی یہ آیت پیش کریں لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ. 63الزمر آیت : ترجمہ اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں. میں پوچھنا چاھتا ہوں اوپر بیان کی گئی احادیث کو مانوں گے یا انکار کردو گے؟؟ ہاں یہ بات سنی ہی سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے ورنہ ایسے نے تو سیدنا علیؓ پر بھی شرک کا فتوئ لگا دیا تھا۔ العیاذ بااللہ۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تفاسیر کو پڑھیے ۔ خزائن العرفان۔ تبیان القرآن ۔ صرط الجنان۔ روح البیان۔ وغیرہ۔ ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)
-
⛲امتیازی شان کنزالایمان⛲ اعلیحضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، ولی نعمت، سیدی، مرشدی، امام اھلسنت، مجدد دین و ملت،الحاج،الحافظ، القاری، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن۔ ✍️ کا ترجمہ کنزالایمان۔ خزینہ القرآن،نرالی شان، سب سے الگ پہچان، جس میں رکھا ادب کا دیان، اس پوسٹ کو پڑھ کے آپ بھی ہوجائیں حیران و پریشان۔پھر آپ کو چلے گا پتہ کیا ہے اعلی حضرتؒ کی شان۔ ⛲تراجم کا تقابل المختصر⛲ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 🗡️ضرب حیدری🗡️ فیض رضا جاری رہے گا 💪💪💪 ✍️اس آیت کے مختلف تراجم پیش کریں گے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ ایمان داری سے دیکھیں پڑھیں سمجھیں۔ ✍️۔ آخر میں امام اھلسنت کا ترجمہ کو رکھا گیا ہے۔ تاکہ سمجھنے آسانی ہو۔ اس پوسٹ میں تین آیات کو کے تراجم موازنہ ہوگا باقی کسی دوسری پوسٹ میں اگر موقع لا تو۔ إن شاءالله۔۔ ✍️یہ پوسٹ ماہ رضا کی نسبت سے لکھ رہا ہوں۔ ❤️❤️ دلیل آیت نمبر 1❤️❤️ اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾آل عمران 142 آیت 1 جونا گڑھی غیر مقلد کا ترجمہ: کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟۔ 2 تقی عثمانی دیوبندی کا ترجمہ: بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی ) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں ، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں. 3 ابو الاعلیٰ مودودی کا ترجمہ: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں. 4 ڈاکٹر اسرار احمد کا ترجمہ: کیا تم نے سمجھا تھا کہ جنت میں یونہی داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے دیکھا ہی نہیں ہے تم میں سے کون واقعتا (اللہ کی راہ میں) جہاد کرنے والے ہیں اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ 5 فتح محمد جالندہری دیوبندی کا ترجمہ: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے. 6 اعلی حضرت امام اھلسنہ رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ: کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں آزمائش کی. ✍️انصاف آپ کے ہاتھ میں اللہ کے علم کی نفی کن کے تراجم میں اگر غیر مسلم نتھو ایرے غیرے بولیں کے آپ کا قرآن ہے مولوی بھی مسلم ترجمہ بھی تمہارا تمہارے اللہ کو تو پہلے کسی چیز کا پتہ ہی نہی تو اس اسکے ذمہ دار کون سے ترجمہ والے ہیں۔؟ ✍️امام اھلسنت نے ترجمہ ہی ایسا کیا کہ سوچ بھی اس طرف نہی جاتی نفی علم الہی کی طرف ۔ سلام آپ کو کیا شان ہے اعلی حضرتؒ کی۔ ❤️❤️ دلیل آیت نمبر2❤️❤️ اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۱۵﴾ البقرہ آیت15 1 ابو الاعلی مودودی کا ترجمہ: اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے ، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں. 2 ڈاکٹر اسرار احمد کا ترجمہ: درحقیقت اللہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دے رہا ہے کہ وہ اپنے عقل کے اندھے پن میں بڑھتے چلے جائیں۔ 3 فتح محمد جالندہری دیوبندی کا ترجمہ: ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں. 4 تقی عثمانی دیوبندی کا ترجمہ: اللہ ان سے مذاق ( کا معاملہ ) کرتا ہے اور انہیں ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ 5 جونا گڑھی غیر مقلد کا ترجمہ: اللہ تعالٰی بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے. 6 امام اھلسنہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ: اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے ( جیسا اس کی شان کے لائق ہے ) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں. ✍️اب فرق خود کرلیں امام اھلسنہ نے استہزاء کا لفظ فرمایا فرمایا اپنی شان کے مطابق اور کتنا ادب ہے ترجمہ میں۔سبحان الله ۔۔ ✍️دوسروں کے تراجم کو دیکھا جاۓ تو اللہ کے بارے میں شک ہوتا ہے کہ اللہ ہستا ہے شائد ہماری طرح اللہ کسی جگہ پر موجود ہے۔ جسم ہوگا پھر اللہ مزاق بھی کرتا ہے۔العیاذ بااللہ۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ❤️❤️ دلیل آیت نمبر3❤️❤️ وَوَجَدَكَ ضَآ لًّا فَهَدٰى. سورۃ الضحى آیت نمبر7 1 ڈاکٹر اسرار احمد کا ترجمہ: اور آپ ﷺ کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی! 2 جوناگڑہی غیر مقلد کا ترجمہ: اور تجھے راه بھوﻻ پا کر ہدایت نہیں دی۔ 3 ابوالاعلی مودودی کا ترجمہ: اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی. 4 مفتی تقی عثمانی کا ترجمہ: اور تمہیں راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا. 5 فتح محمد جالندہری کا ترجمہ: اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا. امام اھلسنہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا ترجمہ:۔ اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی، END ✍️اب اندازہ خود لگائیں ترجمہ دیکھ میں اب کچھ نہی کہتا قارئین کرام آپ خود فیصلہ کریں ۔ نبی علیہ السلام کو ناوافق بھولا ہوا کس نے لکھا کہ؟ ✍️اور امام اھسنت کا ترجمہ دیکھیں انہوں نے ایسا نہی لکھا ۔ فیض رضا جاری رہے گا۔۔إن شاءالله (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) 09.09.2021. 01صفر المظفر 1443ھ
-
- شان
- کنزالایمان
-
(and 2 more)
Tagged with: