Search the Community
Showing results for tags 'کے'.
-
#کسی_کا_بھی_قول_رد_کیا_جاسکتا_ہے سید المحدثین امام محمد بن اسماعیل البخاری م256ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ , عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَيُتْرَكُ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ( كتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة ص73 وسندہ صحیح سفيان هو ابن عيينة وهو لا يروي إلا عن ثقة ) تابعی کبیر امام مجاہد بن جبر م104ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں مگر یہ کہ اسکا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد میں کیا جاسکتا ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ( آپکا ہر ثابت شدہ قول ہماری سر آنکھوں پر ہے ) امام دار الحجرۃ امام مالک م179ھ رحمہ اللہ نے فرمایا : كل يؤخذ من قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر، ويشير إلى قبر الرسول صلى الله عليه وسلم ۔ ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے اس قبر (انور) کے مقیم کے سوا اور پھر آپ نے قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ فرمایا ۔ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ نے کہا یہ قول امام مالک رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے ۔ ( إرشاد السالك إلى مناقب مالك ص402 ) ان اکابرین کے کلام سے واضح ہوگیا کہ دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ایسا کوئی بھی شخص نہیں کوئی امام ، بزرگ ، ولی نہیں جس کی ہر بات قبول کی جائے یہ شرف صرف اور صرف نبی کریم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ آپکی خصوصیات میں سے ہے کہ آپکی ہر بات حجت ہے ہمارے سر آنکھوں پر ہے بدقسمتی سے آج کچھ بدعتی اور راہ حق سے بھٹکہ ہوئے لوگ کچھ بزرگوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہماری ان پر آنکھیں بند ہیں یا فلاں بزرگ نے کہ دیا فلاں امام نے کہ دیا تو ہمارے لئے حجت ہے ہم اس سے اختلاف نہیں کریں گے . اللہ ہمیں ایسی اندھی عقیدت سے محفوظ فرمائے آمین ۔ محمد عاقب حسین
-
جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ روایت کی تحقیق 25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ. ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.) (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.) (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.) ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔ اسکا صحیح درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇 3104: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ طَلْحَةَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا». ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔ (سنن النسائي 6/11)۔ ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇 (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.) (شعب الإيمان: 7448.) (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.) (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.) واسناد صحیح لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔ حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔ ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنّ لِيَ امْرَأَةً، وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: إِنَّ أُمِّي، وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔ ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔ (سنن ابن ماجه :- 3663.) صحیح ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 19.03.2023. چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
-
جو شخص جمعہ کے دن یہ درود شریف اَسّی مرتبہ پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف معاف کردیے جاتے ہیں۔ روایت کی تحقیق امام خطیب نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔👇 7278:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. سند: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثَمَانِينَ مَرَّةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَ ثَمَانِينَ عَامًا، فَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً " ترجمہ: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ کے سامنے( پاس) کھڑا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھ پر جمعہ کے دن 80اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی(80) سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا یارسول اللہ کیسے آپ پر درود پڑھیں تو فرمایاکہ تم کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَةً۔ (تاريخ بغداد ت بشار 15 /636.الرقم: 7278.) ✍️: زوائد میں امام خلدون الأحدب نے اسکو موضوع کہا۔ (زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة.9/293. الرقم: 2069.) ✍️: وَهْبُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الضَّرِيرُ : متھم باالوضع۔ 6904: وهب بن دَاوُد المخرمي عَن ابْن علية عَن ابْن صُهَيْب عَن أنس من صلى عَليّ يَوْم الْجُمُعَة ثَمَانِينَ مرّة غفر لَهُ ذنُوب ثَمَانِينَ عَاما قَالَ الْخَطِيب لم يكن بِثِقَة ثمَّ أورد لَهُ حَدِيثا من وَضعه سیدنا انس مروی ہے کہ جس نے مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں خطیب نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں پھر انہوں نے اسکی وہ حدیث درج کی جو اس نے گھڑی ہے ( المغني في الضعفاء 2/727. الرقم: 6904.) امام خطیب بغدادی نے اسی وھب کا ترجمہ لکھ نے بعد یہی روایت درج کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے روایت 7278.اور اسی طرح اسی روایت کو وھب کے ترجمہ 7326 نمبر پر بھی درج فرمایا۔ 7326:- وهب بن داود بن سليمان أبو القاسم المخرمي حدث عن: إِسْمَاعِيل ابن علية. روى عنه: مُحَمَّد بن جعفر المطيري، وكان ضريرا، ولم يكن ثقة. اس کے اوپر والی سند مکمل بیان فرمائی۔ 4583: وهب بن داود المخرمي: عن ابن علية، قال الخطيب: لم يكن ثقة. (كتاب ديوان الضعفاء 229ص) ✍️: وسند: موضوع طریق نمبر 02.👇 1893: قال: أخبرنا عبدوس، أخبرنا أبو منصور البزاز، أخبرنا الدارقطني، حدثنا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب،حدثنا عون بن عمارة، حدثنا سكن البُرْجُمي، عن الحجاج بن سنان عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الصلاة عليّ نور على الصراط، ومن صلّى عليّ يومَ الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عامًا". ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر 5/467.الرقم: 1893.) ✍️: عون بن عمارة القيسي: ضعیف۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اسکو ضعیف کہا۔👇 ✍️: 5224: عون بن عمارة القيسي، أبو محمد البصري: ضعيف، مات سنة اثنتي عشرة ومائتين. (تقريب التهذيب لابن حجر 424 ص.الرقم: 5224.) ✍️: حجاج بن سنان: متروک الحدیث۔ ✍️: حجاج کو متروک کہا امام ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے (/846: حجاج بن سنان: عن علي بن زيد، قال الأزدي: متروك. (ديوان الضعفاء للذھبی 73ص۔الرقم: 846.) (لسان الميزان لابن حجر 2/562۔الرقم: 2150. ✍️: علي بن زيد بن جُدْعان : ضعيف. 1: مصباح الزجاجة میں امام بوصیری نے ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے سندا ضعیف فرمایا کلام امام بوصیری: هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عَليّ بن زيد بن جدعَان۔ (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 3/178. الرقم: 5101.) ✍️: واسناد ضعیف جدا بل منکر۔ طریق نمبر 03. اسکو امام سخاوی اور ابن حجر ھیتمی نے ابن بشکول کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن اسکی سند ساتھ زکر نہیں کی یعنی بے سند وعن سهل بن عبد الله قال من قال في يوم الجمعة بعد العصر اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى إله وسلم ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاماً أخرجه ابن بشكوال ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اَسّی (80) مرتبہ پڑھے اُس کے اَسّی (80) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اُس کے لیے اَسّی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع للسخاوی 199ص۔) (الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر ھیتمی 213ص۔) ✍️: حسين بن محمد المغربي نے شرح بلوغ المرام کے حاشیہ میں اسے ساقطة من کہا۔یعنی ساقط ہے۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام ت الزبن 10/399.) یہ روایت ( جس میں عصر کے بعد درود کا زکر ہے) بھی سند کے ساتھ نہیں ملی کافی تلاش بسیار کے بعد دلائل کو مدنظر رکھتے ہو یہی کہا جا سکتا ہے اسکو موقوف رکھا جاۓ کیونکہ یہ روایت بیان کرنے و سیدی کی طرف منسوب کرنے کے قابل نہیں دلائل کی بنیاد پر۔ خلاصہ کلام: 📖: لہذا یہ تینوں مرویات اس قابل نہیں ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر ان کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاۓ۔ پس ان کو سیدی معصوم الکائنات کی طرف منسوب کرنا گویا جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اعتراض ✍️: کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ جو بغیر سند کے روایت ہوتی ہےوہ موضوع نہیں ہوتی۔ ✍️: بس اتنی بات کی جاتی کہ شاید انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کہیں جب موضوع نہیں تو بیان کر سکتے عرض یہ ہے اگر موضوع نہیں ہوتی نہیں کہے سکتے تو صحیح یا ضعیف بھی تو نہیں کہے سکتے لہذا وہ ساقط ہے اسکو چھوڑ دینا چاھیے بیان بھی نہ کی جاۓ بس۔ ✍️: دوسری بات ایسے لوگوں کو سند کی ضرورت کے بارے میں پڑھنا چاھیے حدیث میں سند کی اہمیت کتنی ہے ✍️: سند کی ضرورت مختصر سا تعارف۔ تفصیل کے لیے درج ذیل حوالہ جات کو مکمل پڑھیں یہاں انکو مختصر کر کے لکھا گیا ہے۔ 📖: امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اسناد حدیث امور دین سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو آدمی جو چاھتا کہے دیتا۔ مزید فرماتے ہیں کہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان اسناد ستونوں کی طرح ہیں۔ صحیح مسلم : 32. 📖: اسی طرح امام ابن سرین فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ اسناد کی تحقیق نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب دین میں بدعات و فتنے داخل ہونے لگ گۓ سند بیان کی جانے لگ گئی۔ صحیح مسلم : 27. 📖: اللہ پاک ہماری مغفرت فرماۓ اور سیدی کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنے ی توفیق دے۔ 📖: مفہوم حدیث جس نے جان بوجھ کر جھوٹ کی نسبت(منسوب) میری طرف کیا گویا اس نے اپنا راستہ جہنم کی طرف بنایا۔ ✍️✍️✍️✍️ ✍️: نوٹ درود شریف جتنا پڑھیں ثواب ملے گا۔ جب چاھیں پڑھیں یہی والا پڑھیں یا کوئی اور جس صیغہ کے ساتھ مرضی پڑھیں ثواب ضرور تو ملے گا لیکن اسکی جو تعداد اور وقت بتایا گیا ہے یہ ثابت نہیں اور اصل بات گناہ معاف والی بات کہی گئی ہے فکس کر کے 80سال یہ درست نہیں۔ ✍️: عام طور پر جیسے پڑھتے ہیں پڑھیں دورد کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن جو خاص فضیلت ان تینوں رویات میں وارد ہیں وہ سیدی سے ثابت نہیں۔ ✍️: دورد پڑھنا ثواب ہی ثواب کا کام ہے لیکن جو فضیلت ثابت نہیں اسکو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل درست نہیں بلکہ گناہ کبیرہ و جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 12_03_2023 انیس(19) شعبان المعظم 1444ھ۔
-
یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردا ہوں گے۔ روایت کی تحقیق جامع ترمذی :3664 وسند حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ. ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ 📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما" .كتاب مسند أبي يعلى-ت السناري 1/5وسند حسن امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة. یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 20ص 490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.) ✍️: عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔ ✍️: عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔ 10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعی 1/60۔ وسند حسن۔ ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع طرق کی وجہ سے۔ والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) تخریج ✍️: حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه." 1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔) 2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر 2/288. الرقم: 1878.) 2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) 3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.) 4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.) 5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.) 6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،) 7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،) 8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔) 9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري) 10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.) واللہ و رسول اعلم محمد عمران علی حیدری
-
(حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا صحیح( مفہوم اور معنی _بسم اللہ الرحمن الرحیم __________________________________ محترم قارئین کرام اکثر اہل تشیع حضرات حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ معاذ اللہ مولا علی رضی اللّه عنہ انبیاء کے بھی مولا ہیں اور انبیاء سے بھی افضل ہیں معاذ اللہ آج کی اس پوسٹ میں ان شاءاللہ شیعہ کے اس باطل عتراض کا منہ توڑ جواب دیں گے ___________________________________ پہلا الزمی جواب:نبی کریم نے حضرت علی کو مولا فقط نہیں کہا بلکہ حضرت زید کو بھی مولا فرمایا ہے۔ تو اس حساب سے حضرت زید بھی تمام انبیاء کے مولا بن جائیں گے👇🏻 وَقَالَ لِعَلِيٍّ : أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي ، وَقَالَ لِزَيْدٍ : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا رسول اللّهﷺ نے فرمایا:علی رضی اللّه عنہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی (بخاری شریف کتاب الصلح حدیث نمبر 2699) ___________________________________ محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے زید رضی اللہ تعالی عنہ بھی مولا ہیں اب شیعہ حضرات کیا کہیں گے اب آتے ہیں تحقیق جواب کی طرف👇🏻 ___________________________________ تحقیقی جواب نبی کریم نے مولا حضرت علی کو بمعنی دوست اور رفیق قرار دیا تھا نہ کہ مددگار کیونکہ متقدمین میں مجتہدین نے حدیث کی شرح بتا دی ہے جیسا کہ امام شافعی رضی اللّه عنہ سے اس حدیث کی شرح ثابت ہے امام بیھقی نے اس روایت کی شرح امام شافعی علیہ رحمہ سے نقل کی ہے أخبرنا أبو عبد الله السلمي، ثنا محمد بن محمد بن يعقوب الحجاجي، ثنا العباس بن يوسف الشكلي قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي رحمه الله يقول في معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: من كنت مولاه فعلي مولاه، يعني بذلك ولاء الإسلام امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا کہ نبی اکرمﷺ کے اس قول کا معنی جو انہوں نے مولا علی سے کہا جسکا میں مولا علیؓ اسکا مولا اسے مولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ ہے سند صحیح (الاعتقادللبيهقي صفحہ 499) ____________________________________ محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے شیعہ کے دجل و فریب کے کس طرح پرخچے اڑ گئے اور معلوم ہوا کہ اس حدیث سے کا مطلب دوست اور رفیق کے ہیں نہ کے مولا علی رضی اللّه عنہ کو انبیاء کے مولا اور افضل کہنے کے تو جو شخص اب یہ کہیں کے دیکھو مولا علی انبیاء سے افضل ہیں معاذ اللہ اور انبیاءکرام کے مولا ہیں تو ایسا شخص جاہل اور علمی یتیم ہے _________________________________ تحقیق ازقلم:محمد حسن رضا قادری رضوی
-
- کے
- کیا حضرت علی
-
(and 2 more)
Tagged with:
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ میــرے صحـابــہؓ کــے معـامـلـے میــں اللہ ســے ڈرو حـدیــثـــــ کــی تحـقیـق اَلصَّـــلٰوةُوَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَاخَـاتَــمَ النَّبِیِّیْــن بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم امام ابنِ حؒبان (المتوفى: 354هـ) نے فرمایا أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوا أَصْحَابِي غَرَضًا مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذ اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ" صحيح ابن حبان حدیث نمبر 7256📓 ترجمہ: عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے [ ھذا حدیث صحیح لغیرہ ] ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ صحیح ابن حبان کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمن الرومي پر جہالت کا الزام ہے جس وجہ سے اس سند کو ضعیف کہا جاتا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزام درست نہیں سب سے پہلے ہم اس راوی کے معروف ہونے پر دلیل دیں گے اور پھر اس کی توثیق پر چنانچہ سید المحدثین امام بخاریؒ فرماتے ہیں مُحَمد بْن الحُسَين بْن إِبْرَاهِيم، حدَّثني أَبي، سَمِعتُ حَماد بْن زَيد، حدَّثنا عَبد اللهِ الرُّومِيّ، ولم يكن رُومِيًّا، كَانَ رجلا منا من أهل خُراسان حسین بن ابراہیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے حماد بن زید سے سنا کہ عبداللہ الرومی جو ہے یہ رومیوں میں سے نہیں بلکہ یہ اہل خراسان میں سے ایک ہے یہ ہے اس راوی کے معروف ہونے کی دلیل 👆 جہاں تک بات رہی توثیق کی تو درج ذیل محدثین نے اس کی توثیق کی امام ابن حبؒان نے ان کو ثقہ کہا ✦ ثقات ابن حبان 5/17 رقم :- 52📕 امام زین الدین قاسمؒ بن قطلوبغا نے کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة یعنی وہ ثقہ راوی جو کتب ستہ میں موجود نہیں اس کتاب میں درج کرکے توثیق کی الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 5/378📓 اور امام عجلیؒ نے بھی اس کو ثقہ کہا ✦ تاريخ الثقات ص284 رقم :- 914📙 مزید یہ کہ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے بھی ثقہ کہا ہے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ راوی کم از کم درجہ صدوق حسن الحدیث پر فائز ہے اور اس کو اس درجہ سے گرانا زیادتی ہوگی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ لوگوں کو اشکال ہو کہ امام الائمہ والمسلمین شیخ الاسلام امام ابن حجرعسقلانیؒ نے تقریب التہذیب میں اس کو مقبول کہا ہے اور وہ اس اصطلاح کا اطلاق لین الحدیث پر کرتے ہیں تو اس اشکال کا بھی جواب دیتے چلتے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا اس کو مقبول کہنا اس کو درجہ صدوق سے نہیں گراتا کیونکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے تو اپنی اصطلاح مقبول کا اطلاق صحیح بخاری کے ثقہ راوی پر بھی کیا ہے مثلاً يحيى بن قزعة ان کو امام ابن حبانؒ نے ثقہ کہا امام ذھبیؒ نے ثقہ کہا مگر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان کو مقبول کہا جب کہ یہ امام بخاریؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاریؒ ان سے صحیح بخاری میں متصل مرفوع روایات لائے ہیں مثال کے طور پر چند حدیثوں کے نمبر پیش کر دیتا ہوں جن میں امام بخاریؒ ڈائریکٹ ان سے روایت کر رہے ہیں حدیث نمبر :- 4491 ٬ 2602 ٬ 6988 ٬ 4216 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تو ثابت ہوا کہ صحیح ابن حبان کی سند حسن ہے اب چلتے ہیں سنن الترمذی کی سند کی طرف امام ترمذیؒ (المتوفى: 279هـ) نے فرمایا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ» سنن ترمذي حدیث نمبر 3862📘 ترجمہ: عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اس کی سند میں موجود راوی عبد الرحمن بن زياد پر یہ اعتراض ہے کہ یہ مجہول راوی ہے یہ اعتراض بھی حقیقت کے بالکل مخالف ہے یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اس کو امام یحؒییٰ بن معین نے ثقہ کہا✦ اور یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی راوی کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلی درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امام یحییؒ بن معین جرح میں متشدد امام تھے لہذا آپ کی توثیق اعلی درجے کی مقبولیت کی حامل ہے سـير أعـلام النبـلاء للإمام الذهبي 9/183📒 اس کو امام ابن حبؒان نے ثقہ کہا✦ اس کو امام عجلیؒ نے ثقہ کہا ✦ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے ثقہ ✦ كتاب تهذيب التهذيب 6/177📔 کتاب تحریر تقريب التهذيب میں اس راوی سے حتمی فیصلہ یہ بتایا گیا کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی درست اور راجح ہے كتاب تحریر تقريب التهذيب 2/320📙 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تو ثابت ہوا کہ ابن حؒبان کی سند بھی حسن ہے اور ترمذی کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند کو تو خود امام ترمذیؒ نے بھی حسن غریب کہا ہے لہذا یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجے پر فائز ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتب میں صحیح لغیرہ کی تعریف واضح ہے الصحيح لغيرہ هو الحسن لذاته إذا روي من طريق آخر مثله أو أقوى منه وسمي صحيحا لغيره؛ لأن الصحة لم تأت من ذات السند الأول، وإنما جاءت من انضمام غيره له ترجمہ: صحیح لغیرہ وہ ہے جب حسن لذاتہ کو کسی دوسرے طریق ( سند ) کے ساتھ روایت کیا جائے جو اس کی مثل یا اس سے زیادہ قوی ہو تو یہ صحیح لغیرہ ہے اس کو صحیح لغیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صحت سند کی ذات سے نہیں آتی بلکہ اس کے غیر کو اس سے ملانے کی وجہ سے آتی ہے نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر ص34📕 كتاب تيسير مصطلح الحديث ص64📓 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ خــلاصـــــــہ کــــــــلام اصولی طور پر ہم نے ثابت کیا کہ صحیح ابن حبان کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند بھی حسن ہے لہذا جب دو حسن اسناد ایک دوسرے کی مثل موجود ہیں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہے اگر کوئی شخص صحیح ابن حبان کی سند کو ضعیف مانتا ہے اور جامع ترمذی کی سند کو حسن مانتا ہے تو تب بھی یہ حدیث حسن لذاتہ درجے پر فائز رہے گی اور ابن حبان کی سند اس کی شاہد بنے گی اور اگر کوئی شخص دونوں اسناد کو ضعیف کہتا ہے تب بھی یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ پر فائز رہے گی یعنی قابل احتجاج و استدلال رہے گی لہذا کسی طرح بھی اس حدیث کی صحت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی شخص مطلقاً اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو وہ علم و اصول حدیث سے ناواقف ہے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ⇊ تحـقیــق و دعـاگـــو خـادم اہـلسنت و جمـاعت محمــد عـاقـب حسیــن رضــوی ⇊ بــا تصــدیــق فـضيـلــة الشيــخ اســد طحــاوي الحنفـي البـريـلوي غفرالله له عـلامــة زبـيـر احمــد جمـالـوي عفـي الله عنـه ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
-
بد مذھبوں اور بے دینوں کے متعلق احکام ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے یہ ذھن میں رکھ لیں ہم گستاخانہ عبارات کے اصل اسکن ساتھ دے رہیں ایک بار مکمل غور سے پڑھیں پھر اپنے ایمان اور ضمیر سے فیصلہ کریں بغیر پڑھے جاہلانہ کمنٹس سے گریز کریں شکریہ ۔ ہر سنی مسلمان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ دیوبندی مذہب کے بانی مولوی قاسم نانوتوی صاحب نے اپنی کتاب تحذیرالناس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا انکار کیا اور پیشوائے وہابیہ مولوی رشید احمد گنگوہی و مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں سرکار مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم مقدس کو شیطان ملعون کے علم سے کم قرار دیا۔ اور مبلغ وہابیہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب حفظ الایمان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کو ہر خاص و عام انسان بچوں پاگلوں اور جانوروں کے علم غیب کی طرح بتایا۔ چوکہ یہ باتیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آخری نبی نہ ماننا یا حضور کے علم کو شیطان کے علم سے کم بتانا یا حضور کے علم غیب کو بچوں، پاگلوں اور جانوروں کے علم غیب کی طرح قرار دینا تمام مسلمانوں نانوتوی، مولوی گنگوہی، مولوی انبیٹھوی اور مولوی تھانوی بحکم شریعت اسلامیہ کافر و مرتد ہوگئے ۔ فتاوٰی حسام الحرمین میں ہے وبالجملۃ ھولاء الطوائف کلھم کفار مرتدون خارجون عن الاسلام باجماع المسلمین وقد قال فی البزازیہ والدر والغرر والفتاوی الخیریہ ومجمع الانھر والدر المختار وغیرھا من معتمدات الاسفار فی مثل ھولاء الکفار من شک فی کفرہ و عذاب فقد کفر۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ طائفے (یعنی مرزا غلام قادیانی، قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد، اشرف علی تھانوی اور اس کے ہم عقیدے چیلے) سب کے سب کافر و مرتد ہیں۔ باجماع امت اسلام سے خارج ہیں۔ اور بے شک بزازیہ، درغرر، فتاوٰی خیویہ، مجمع الانہار اور درمختار وغیرہ معتمد کتابوں میں ایسے کافروں کے حق میں فرمایا کہ جو شخص ان کے عقائد کفریہ پر آگاہ ہو کر ان کے کفر و عذاب میں شک کرے تو خود کافر ہے۔ مکہ شریف کے عالم جلیل حضرت مولانا سید اسماعیل علیہ الرحمۃ الرضوان اپنے فتاوٰی میں تحیر فرماتے ہیں۔امابعد ناقول ان ھولاء الفرق الواقصیں فی السوال غلام احمد قادیانی و رشید احمد ومن تبعہ کخلیل انبیٹھی واشرف علی وغیرھم لا شبھۃ فی کفرھم بلا مجال بل لا شبھۃ فیمن شک بل فیمن توقف فی کفرھم بحال من الاحوال۔ میں حمد و صلوٰۃ کے بعد کہتا ہوں کہ یہ طائفے جن کا تذکرہ سوال میں واقع غلام احمد قادیانی، رشید احمد گنگوہی اور جو اس کے پیرو ہیں جیسے خلیل احمد اشرف علی وغیرہ ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں، نہ شک کی مجال بلکہ جو ان کے کفر میں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں بھی شبہ نہیں ۔“ (حسام الحرمین) غیر منقسم ہندوستان کے علمائے کرام اسلام کے فتاوٰی کا مجموعہ الصوارم الھندیہ میں ہے ان لوگوں (یعنی قادیانیوں، وہابیوں، دیوبندیوں) کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کی جنازہ کی نماز پڑھنے، ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنے، ان کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا کھانے ان کے پاس بیٹھے ان سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا ہے۔ یعنی یہ تمام باتیں سخت حرام اشد گناہ ہیں ۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ وما ینسینک الشیطٰن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظٰلمین ۔ “اور اگر تجھے شیطان بھولا دے تو یاد آ جائے پر بدمذہبوں کے ساتھ نہ بیٹھ۔“ خود سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : وان مرضوا فلا تعودھم وان ماتوا فلا تشھدوم وان لقیتم فلا تسلموا علیھم ولا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا علیھم (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ و ابوداؤد عن ابی عمر وابن ماجۃ عن جابر والعقیلی وابن حبان عن انس رضی اللہ تعالٰی عنھم،چشتی) ترجمہ: اگر بدمذہب بد دین بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہو۔ اور ان کا سامنا ہو تو سلام نہ کرو۔ ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ نہ پیو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ۔ ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو، ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو۔ پھر چونکہ قادیانی، وہابی، دیوبندی، غیرمقلد، ندوی، مودودی تبلیغی یہ سب کے سب حکم شریعت اسلامیہ گمراہ، بد عقیدہ بد دین، بد مذہب ہیں اس لئے حدیث و فقہ کے ارشاد کے مطابق اس شرعی دینی مسئلہ سے سب کو آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ قادیانیوں، غیر مقلدوں، وہابیوں، دیوبندیوں، مودودیوں و غیرہ بدمذہبوں کے پیچھے نماز پڑھنا سخت حرام ہے۔ ان سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم کرنا اشد حرام ہے۔ ان کے ساتھ نماز پڑھنا سخت گناہ کبیرہ ہے۔ ان سے اسلامی تعلقات قائم کرنا اپنے دین کو ہلاک اور ایمان کو برباد کرنا ہے جو ان باتوں کو مان کر ان پر عمل کرے گا اس کے لئے نور ہے اور جو نہیں مانے گا اس کے لئے نار ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی ۔ جھوٹے مکار، دغاباز بدمذہب، بد دین خدا اور رسول کی شان میں توہین کرنے والے مرتدین براہ مکرو فریب اتحاد و اتفاق کا جھوٹا منافقانہ نعرہ بہت لگاتے ہیں اور بہت زور سے لگاتے ہیں۔ اور جو متصلب مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کیلئے ان سے الگ رہے۔ ان کے سر اختلاف و افتراق کا الزام تھوپتے ہیں جو مخلص مسلمان شرع کے روکنے کی وجہ سے ان بد مذہبوں کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ اس کو فسادی اور جھگڑالو بتاتے ہیں جو صحیح العقیدہ مسلمان فتاوی حسام الحرمین کے مطابق سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو کافر و مرتد کہے اس کو گالی بکنے والا قرار دیتے ہیں ایسے تمام صلح کلی منافقوں سے میرا مطالبہ ہے کہ اگر واقعی تم لوگ سنی مسلمانوں سے اتحاد و اتفاق چاہتے ہو تو سب سے پہلے بارگاہ الٰہی میں اپنے عقائد کفریہ و خیالات باطلہ سے سچی توبہ کر ڈالو۔ خدا اور رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے سے باز آ جاؤ اور گستاخی کرنے والوں کی طرفداری کی حمایت سے الگ ہو جاؤ اور سچا سنی مذہب قبول کرلو اور اگر ایسا کرلو تو ہمارے تمہارے درمیان بالکل اتحاد و اتفاق ہو جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ تم اپنے اعتقادات کفریہ سے توبہ کرنے پر تیار نہیں۔ تم گستاخی کرنے اور لکھنے والے مولویوں سے رشتہ ختم نہیں کر سکتے، سنی مذہب قبول کرنا تمہیں گوارا نہیں تو ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات حقہ کو چھوڑ کر بد دینوں، بد مذہبوں سے اتحاد نہیں کر سکتے رہا متصب سنی مسلمان کو جھگڑالو، فسادی گالی بکنے والا کہنا تو یہ پرانی دھاندلی اور زیادتی ہے۔ گالی تو وہ بک رہا ہے جس نے تقویۃ الایمان لکھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بڑا بھائی بنایا۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے انبیاء کرام کو بارگاہ الٰہی میں ذرہ ناچیز سے بھی کم تر اور چمار سے بھی زیادہ ذلیل کہا، گالی تو وہ بک رہا ہے جس نے حفظ الایمان میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کو پاگلوں اور جانوروں، چوپایوں کے علم غیب کی طرح ٹھہرایا بدزبانی تو وہ کر رہا ہے جس نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم مقدس کو شیطان کے علم سے کم قرار دیا۔ اصل جھگڑالو تو وہ ہے جس نے تحذیرالناس میں مسئلہ ختم نبوت کا انکار کیا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننا عوام جاہلوں کا خیال بتایا۔ واقعی فسادی تو وہ ہے جس نے براہین قاطعہ میں اللہ تعالٰی کے متعلق جھوٹ بول سکنے کا نیا عقیدہ گڑھا اور جس نے اردو زبان میں سرکار رسالت علیہ السلام کو علماء دیوبند کا شاگرد بتایا ۔ سنی مسلمان نہ جھگڑالو اور فسادی ہے نہ گالی بکنے والا وہ تو شریعت اسلامیہ کے حکم کے مطابق ان گستاخ مولویوں کو کافر و مرتد کہتا ہے جو بارگاہ احدیت اور سرکار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کرنے اور ضروریات دین کے منکر ہیں عقائد ضروریہ دینیہ کی مخالفت کرنے والوں کو کافر و مرتد کہنا ان کے حق میں منافق کا لفظ استعمال کرنا ہرگز ہرگز گالی نہیں ہے۔ خود اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کافر، کفار، مشرکین، منافقین وغیرہ کلمات مخالفین اسلام کے حق میں ارشاد فرمائے تو کیا کوئی بد نصیب یہ کہنے کی جراءت کو سکتا ہے کہ قرآن عظیم نے گالی دی ہے۔ معاذاللہ تعالٰی منہ ۔ مسلمانو گستاخوں سے آپ کو نہ حجت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ان کا زق زق بق بق سننے کی حاجت ہے ۔ آپ ان سے گالی گلوچ اور جھگڑا نہ کرو ، بس آپ ان کی صحبت سے دور رہو۔ اپنے سے ان کو دور رکھو ۔ تمہارے آقائے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہی تعلیم دی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ایاکم ویاھم لایضلونکم ولا یفتونکم ۔ (مسلم شریف) یعنی مسلمانو ! تم بدمذہبوں کی صحبت سے بچو۔ اپنے کو ان سے دور رکھو نہیں تو وہ تمہیں سچے راستے سے بہکا دیں گے اور تمہیں بے دین بنا دیں گے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں اور تمہیں سچی ہدایت پر قائم رکھے آمین ۔ ایسا بدمذھب گستاخ جس کی گستاخی حد کفر کو پہنچ چکی ہو ،یا ضروریات دین کا منکر ہو وہ کافر ہے ، اورایسا بد مذھب کہ کفریہ عقائد خود نہیں رکھتا مگر ایسے کفریہ و گستاخانہ عقائد والوں کو اپنا امام یا پیشوا بتاتا ہے یا انہیں مسلمان گردانتا ہے تو وہ بھی یقینا اجماعا کافر ہے، کیونکہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے اسی طرح ان کے منکر کو کافر نہ جاننابھی کفر ہے ،وجیز امام کردری و در مختار و شفائے امام قاضی عیاض و غیرہ میں ہے ۔ اللفظ للشفاء مختصرا اجمع العلماء ان من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ۔ ’’شفاء کے الفاظ اختصارا یہ ہیں ،علماء کا اجماع ہے کہ جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ کافر ہے ۔ (کتاب الشفاء ،القسم الرابع ،البا ب ا لاول،۲/۲۰۸،مطبوعہ،دار سعادت،بیروت، در مختار ،کتاب الجھاد،باب المرتد،۱/۳۵۶،مطبوعہ ،مجتبائی،دھلی، فتاوی رضویہ اا/۳۷۸ مطبوعہ لاھور،چشتی) ایسے بدمذھبو گستاخوں سے دوستی ، محبت ، میل جول ، ان کے یہاں جانا ، انہیں اپنے یہاں بلانا ،اھل سنت کی مسجد میں آنے دینا ،درس و تبلیغ کی اجازت دینا ،ان کے ساتھ صحبت رکھنا ،ان کی طرف جھکاؤ اور مائل ہونا ،الغرض ہر وہ کام جس سے بدمذھبوں سے انسیت و تعلق و وابستگی یا میلان کا اظہار ہو بدمذھبی و سخت حرام ،اور شادی بیاہ کرنا ناجائز ،نکاح باطل محض و زناء کما صرح بہ الامام المجدد البریلوی فی ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار،قرآن کریم کی نصوص صریحہ و احادیث شریفہ سے ان تمام کی ممانعت ثابت اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :{و لاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار }( ھود۱۱/۱۱۳)’اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی ‘‘ (کنز الایمان )اس آیت کی تفسیر میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’یہاں ظالم سے مراد کافر اور سارے گمراہ و مرتدین ہیں اور ان سے ملنے سے مراد ان سے محبت یا میل جول رکھنا ‘‘(تفسیر نور العرفان) نیزاللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :{ و اما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین }(الانعام ۶/۶۸) ۔ اور اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو ‘‘(کنز الایمان ) نیزاللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :ومن یتولھم منکم فانہ منھم }( المائدۃ ۵/۵۱ ) ’’اورتم میں جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھیں میں سے ہے‘‘(کنز الایمان ) اور بد مذھبوں کی نسبت حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:و لا تجالسوھم و لا تواکلو ھم و لا تشاربوھم و لا تناکحوھم و لا تخالطوھم ولا تعودوا مرضاھم و لا تصلوا معھم و لا تصلوا علیھم ۔ ’’ اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ اور پانی نہ پیو اور بیاہ شادی نہ کرو، اور میل جول نہ کرو،اور ان کے بیماروں کی عیادت نہ کرو ، اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو ، اور مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو ‘‘ ۔ (صحیح ابن حبان،۱/۲۷۷،سنن البیھقی الکبری،۱۰/۲۰۵،السنۃ لعبد اللہ بن احمد،۱/۱۲۶،اعتقاد اھل السنۃ،۱/۱۳۴،مسند الربیع،۱/۳۰۲،السنۃ لابن ابی عاصم،۱/۱۴۴،الجرح و التعدیل،۷/۵۲،میزان الاعتدال، ۲/۳۱،لسان المیزان، ۲/۵۲،المجروحین،۱/۱۸۷،تھذیب الکمال،۶/۴۹۹، العلل المتناھیۃ، ۱/۱۶۸،تغلیق التعلیق،۵/۱۲۵،الجامع لاخلاق الراوی و السامع،۲/۱۱۸،المغنی،۹/۱۱ الضعفاء للعقیلی ۱/۱۲۶ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۰۴ھـ ،تاریخ بغداد ۸/۱۴۳، الکفایۃ فی علم الروایۃ ۱/۴۸ ،المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ،خلق افعال العباد۱/۳۰،دار المعارف السعودیۃ،الریاض،۱۳۹۸ھـ،چشتی) نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ۔ گمراہوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیںفتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم،۱/۱۲،دار احیاء التراث العربی،بیروت) نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحاب البدع کلاب اھل النار ۔ بد مذھبی والے جہنمیوں کے کتے ہیں ۔ (التدوین فی اخبار قزوین ۲/۴۵۸، مطبوعہ،دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،۱۹۸۷ء ، فیض القدیر ، ۱/۵۲۸ المکتبۃ التجاریۃ الکبری،مصر، ۱۳۵۶ھ رقم الحدیث ۱۰۸۰،کنز العمال ،رقم الحدیث ۱۰۹۴،) اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بد مذھب سے شادی کرنے کے بارے میں فرمایا:ایحب احدکم ان تکون کریمتہ فراش کلب فکرھتموہ ۔ ’’کیا تم میں کسی کو پسند آتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہن کسی کتے کے نیچے بچھے !تم اسے بہت برا جانو گے‘‘(سنن ابن ماجہ ،ابواب النکاح ص،۱۳۹،مسند احمد ۱/۸۶ دار الفکر بیروت، لبنان،چشتی) یعنی بد مذھب جہنمیوں کے کتے ہیں اور انہیں بیٹی یا بہن دینا ایسا ہے جیسے کتے کے تصرف میں دیا،بہر حال ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بد مذھب سے میل جول ،ان کے یہاں جانا ،انہیں بلانا ،اھل سنت و جماعت کی مسجد میں درس و تبلیغ کی اجازت دینا،شادی کرنا جائز نہیں ہے نیز وہ وھابی ، دیوبندی لوگ جن کی گمراہی و بد مذھبی حد کفر کو پہنچ چکی ہے ان کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ،نیز ایسا شخص جو خود تو کفریہ عقائد نہیں رکھتا مگر جن لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی ہیں انہیں مسلمان جانتا ہے وہ بھی یقینا اجماعا کافر ہے، جیسے رئیس الوھابیہ،اسماعیل دھلوی (م۱۲۴۶ھ) نے لکھا معاذ اللہ کہ:اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ‘‘(تقویۃ الایمان ، ص /۲۳ مطبوعہ دھلی ، ۱۳۵۶ھ ۱۹۴۷ء ، مطبوعہ ،مطبع علیمی اندرون لوھاری دروازہ، لاھور) ’’یقین مانو کہ ہر شخص خواہ وہ بڑے سے بڑا انسان ہو یا مقرب ترین فرشتہ اس کی حیثیت شان الوھیت کے مقابلہ پر ایک چمار کی حیثیت سے بھی زیادہ ذلیل ہے ‘‘(تقویۃ الایمان ،ص۲۲،مطبوعہ ،دار الاشاعت ،اردو بازار ،کراچی) دیوبند کے حجۃ الاسلام،بانیٔ مدرسۂ دیوبند ، محمد قاسم نانوتوی (م۱۲۹۷ھ)نے لکھا معاذاللہ کہ:اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی ﷺ میں کچھ فرق نہ آئے گا ‘‘ ۔ (تحذیر الناس ،ص۲۴،مطبوعہ،کتب خانہ امدادیہ ، دیوبند ،چشتی) دیوبند کے قطب عالم،رشید احمد گنگوہی (م۱۳۲۳ھ) نے لکھامعاذاللہ کہ:’’کذب داخل تحت قدرت باری تعالی ہے‘‘(فتاوی رشیدیہ،مبوب بطرز جدید،کتاب العقائدص/۲۳۷،مطبوعہ،دار اشاعت،کراچی) ۔ اس عبارت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی( معاذ اللہ نقل کفر کفر نباشد) جھوٹ بولنے پر قادر ہے ۔ دیوبند کے محدث،خلیل احمد انبیٹھوی (۱۳۴۶ھ) نے لکھا معاذاللہ کہ : الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ،فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے ، کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے ‘‘(براھین قاطعہ،ص/۵۵،مطبوعہ،دار الاشاعت،کراچی) دیوبند کے حکیم الامت،اشرفعلی تھانوی (م۱۳۶۳ھ) نے لکھا معاذاللہ کہ : پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانااگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل ،اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے، ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی(بچہ)و مجنون (پاگل)بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے(حفظ الایمان،ص/۱۳، مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ،کراچی) ان مذکورہ بالا نام نہاد گستاخ علمائے (سو) دیوبند اپنی گستاخانہ عبارات کی روشنی میں دائرئہ اسلام سے خارج ہیں اور ایسے کافر ہیں کہ جو انہیں کافر نہ مانے ، یا ان کے کفر و عذاب میں شک کرے کافر ہے (کما مر فیما سبق) تفصیل،امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی تصانیف حسام الحرمین و تمہید ایمان و غیرھما میں ملاحظہ فرمائیں، اور عقائد اھل سنت و جماعت کی معلومات و دلائل کے لیے حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کی کتاب مستطاب جاء الحق کا مطالعہ فرمائیں۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)