Jump to content

Search the Community

Showing results for tags 'molana naqi ali khan'.

  • Search By Tags

    Type tags separated by commas.
  • Search By Author

Content Type


Forums

  • Urdu Forums
    • Urdu Literature
    • Faizan-e-Islam
    • Munazra & Radd-e-Badmazhab
    • Questions & Requests
    • General Discussion
    • Media
    • Islami Sisters
  • English & Arabic Forums
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • IslamiMehfil Team & Support
    • Islami Mehfil Specials
  • Arabic Forums

Find results in...

Find results that contain...


Date Created

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


Filter by number of...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype



Interests


Found 2 results

  1. خلاصہ یہ کہ الله تعالیٰ کے آگے تذلل اختیار کرنا اور خود کو ذلیل کہنا عبادت ھے ۔ مگر از خود کسی اور کو اللہ کے ہاں ذلیل کہنا گستاخی ھے۔
  2. بریلوی مولویوں کی طرف سے احمد رضاخان اور اس کے ابا حضور پر کفر اور گستاخی کے فتوے قارئین کرام مولوی فیض احمد اویسی بریلویوں کے ایک معروف عالم ہیں جو اپنی جماعت میں کسی تعارف کے محتاج نہیں یہ اپنی کتاب ”شہد سے میٹھا نام محمد ﷺ “ میں لکھتے ہیں کہ: آج ایسے بے ادب علماءکہلوانے والے پیدا ہوگئے کہ فتوی صادر فرمادیا کہ بحالت جنابت بھی درود شريف پڑھنا جائز ہے ۔کاش تعزيرات اسلام کا اجراء ہوتااورفاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جیسے غيور اسلام نافذ کرنے والے زندہ ہوتے تب میں ان مفتيوں کو دیکھتا کہ ايسے فتاوی صادر کرتے۔آزادی کا دور ہے جسے جو جی میں آئے کہہ دے ورنہ وہ خداوند قدوس جو اپنے محبوب اکرم ﷺ کیلئے ایسے مقامات پر بھی نام لینا گوارا نہیں کرتا جہاں قہر و غضب یا کسر شان یا مقام نجاست ہو مثلا ذبح کے وقت ۔چھينک اور انگڑائی کے وقت اور حمام و پاخانہ وغيرہ وغيرہ۔ لیکن یہ ہیں کہ آج کل کے مفتی از مفت کہ فتوی جڑ دیا کہ جنابت کے وقت درود پڑھنا جائز ،اتنا شرم بھی نہیں کہ درود شريف فی الفور بارگاہ رسالت میں پہنچ کر فورا ایجاب از رسول اور خدا ہوتا ہے لیکن مجبور ہیں ایسے بد بخت مفتی کیوں کہ عشق رسول سے محروم ہیں۔ شہد سے میٹھا نام محمد ﷺ کا ،ص 140,139 قارئین کرام بریلوی فیض ملت ،محدث و مفسر مفتی فیض احمد اویسی نے اس فتوے میں بحالت جنابت اور حمام میں درود پڑھنے والوں پر پانچ (5) فتوے لگائے ہیں: (1) کاش کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہوتے تو ایسے لوگوں پر تعزیر جاری کرتے یہ لوگ قابل تعزیر ہیں۔ (2) ایسا فتوی دینے والے مفتی از مفت ہیں (یعنی مفت کے چندے ،حلوے مانڈے کھانے والے)۔ (3) اتنا بھی شرم نہیں۔۔یعنی ایسا فتوی دینے والا بے شرم آدمی ہے۔ (4) ایسے بد بخت مفتی۔۔یعنی ایسا فتوی دینے والا آدمی بد بخت ہے۔ (5) عشق رسول ﷺ سے محروم ہیں۔ احمد رضاخان کا فتوی اب آئے ہم آپ کے سامنے احمد رضاخان کا فتوی پیش کرتے ہیں اور بریلوی حضرات عبرت حاصل کریں کہ کس طرح یہ پانچ فتوے احمد رضاخان کی گردن کا پھندہ بن گئے ہیں: قرآن مجید بحالت جنابت جائز نہیں اگرچہ آہستہ ہو اور درود شريف پڑھ سکتا ہے مگر کلی کے بعد چاہئے ﴾عرفان شريعت ، ص 42﴿ احمد رضاخان کے باپ نقی علی کا فتوی: درود شريف پڑھناہر وقت اور ہرحال میں اٹھتے بيٹھتے چلتے پھرتے ہر قدم اور ہر سانس کے ساتھ یہاں تک کہ راہ اور نہانے کی حالت میں بھی جائز بلکہ مستحب۔ سرور القلوب بذکر المحبوب۔ص 236 فیض احمد اویسی کے فتوے کی رو سے مولوی نقی علی اور اس کا بيٹا ان فتووں کی وجہ سے قابل تعزير ،بد بخت ،مفتی از مفت،بے شرم ،اور عشق رسول ﷺ سے محروم بے ادب گستاخ ٹھرے۔۔۔۔ اب بریلوی اللہ کو حاضر و ناظر جان کر بتائیں کہ جو لوگ آج اس قدر بد بخت لوگوں کو اپنا پیشوا اور مقتداءبنائے ہوئے ہیں وہ خود کتنے بڑے بد بخت ٹھرے؟؟؟۔۔۔یہ فتوی کسی مخالف کی طرف سے نہیں جس نے دیا وہ بھی اپنا ۔۔جس پر لگا وہ بھی تمہارا۔۔۔اب ہمت کرو اپنے عشق رسول ﷺ کا ثبوت دو۔۔اور لعنت بھےجو اپنے ان گستاخ بے ادب پیشواؤں پر۔۔ لیکن ایک منٹ مجھے گالیاں دینے میں جلد بازی نہ کریں ابھی تو آپ نے اور بھی بہت کچھ اس حوالے سے دیکھنا ہے ۔ ابتدائے عشق ہے پیارے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟ بریلوی شیخ الاسلام شمس الدین سیالوی کی طرف سے احمد رضاخان پر ”17 “فتوے شمس الدین سیالوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے پیر ہیں اور بریلوی جماعت کے معتمد علیہ بزرگ ہیں ان کا خاندان یعنی سیالوی خاندان بریلوی مذہب میں اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس نگاہ سے اور جو قدر منزلت علمائے اہلسنت کی نگاہوں میں حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ کی ہے۔ وہ اپنے ملفوظات میں حقے کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: کسی شخص نے پوچھا کہ حقہ پینے کے متعلق کیا حکم ہے ؟فرمایا بعض علماءنے اسے مکروہ لکھا ہے اور بعض نے مباح لکھا ہے اکثر صلحائے متقدمین اور متاخرین نے بھی اس سے اجتناب کیا ہے ۔پھر فرمایا جس طرح حقے کی نے اندر سے سياہ ہوتی ہے،اسی طرح حقہ نوش کا اندرون بھی دھویں سے سیاہ ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا نمازی کو حقے سے بہت پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اس کی بدبو کی وجہ سے عبادت کی لذت جاتی رہتی ہے اور فرشتے بھی اس سے بیزار ہوجاتے ہیں ۔چنانچہ رسول خدا ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کہ لہسن اور پیاز کھا کر مسجد میں نہ آیا کرو کیونکہ بعض اوقات مجھے جبرائیل سے واسطہ پڑتا ہے حقے کی بدبو بھی لہسن اور پیاز کی بدبو سے کسی طرح کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ بعد ازاں فرمایا بعض علماءحقہ پینے کو بدعت قرار ديتے ہیں اور بعض اسے مکروہ تحریمہ کا درجہ ديتے ہیں لیکن میرے خیال میں حقہ برائیوں کی جڑ ہے ،کیونکہ آدمی جس قدر حقہ پیتا ہے اسی قدر يا دحق سے غافل ہوجاتا ہے اور اس کے منہ سے مستقل طور پربدبو آتی رہتی ہے اس سے اوراد و اذکار کا ذوق بھی سلب ہوجاتا ہے اسی وجہ سے متقی لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں ۔حقے کے نيچے پر کپڑے کی پٹياں لپیٹی جاتی ہیں جو حقے کے پانی سے تر رہتی ہیں حقہ نوش ان پیٹیوں پر ہاتھ ملتے ہیں اور پھر اسی حالت میں اپنے کپڑوں پر ہاتھ لگاتے ہیں اور پھر انہی کپڑوں سے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں ۔۔تو یہ نماز کس طرح صحيح ہوئی۔ اسی طرح جہاں حقہ ہوتا ہے وہاں اکثر جاہل لوگ جمع ہوکر خرافات اور ہزلیات میں وقت ضائع کرتے ہیں۔بعد ازاں فرمایا مولوی غلام رسول گروٹی کا یہ معلوم تھا کہ جس جگہ حقہ ہوتا وہاں حقے کو کئی مرتبہ سلام کرتے اور کہتے اے خبيث خدا کیلئے مجھ سے دور ہی رہ ایک دن میں ان سے ملا اور پوچھا کیا وجہ ہے کہ آپ حقے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہنے لگے تمام گناہوں کا امام حقہ ہے ۔جہاں حقہ ہو وہاں پوست کا بھی احتمال ہوتا ہے اور جب یہ دونوں جمع ہوں تو بھنگ اور افيون کا بھی احتمال ہوتا ہے جب یہ تينوں جمع ہوجائیں تو شراب اور کباب کا بھی گمان ہوتا ہے۔علی ہذا القیاس حقہ گناہوں کے بھنور میں جکڑ ديتا ہے اور حقہ نوش کا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔گناہوں کی سیاہی رفتہ رفتہ دل پر غلبہ کرلیتی ہے اور نور ایمان زائل ہوجاتا ہے مرات العاشقین،ص194،195 قارئین کرام اس پوری عبارت میں شمس الدین سیالوی صاحب نے حقہ پینے والے پر سترہ (17) فتوے لگائے ہیں: (1) حقہ نوشی صلحاء کا کام نہیں وہ اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ (2) جس طرح حقے کے اندر سیاہی ہوتی ہے حقہ نوش کا اندرون بھی بالکل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ (3) حقہ نوش عبادت کی لذ ت سے محروم رہتا ہے۔ (4) فرشتے ایسے شخص سے بيزار ہوتے ہیں۔ (5) حقہ برائیوں کی جڑ ہے تو لامحالہ اس کا پینے والا بھی تمام گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ (6) حقہ نوش یاد الٰہی سے غافل رہتا ہے۔ (7) اوراد اور اذکار کاذوق حقہ نوش سے سلب ہوجاتا ہے۔ (8) متقی لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں تو لا محالہ اس کا پینے والا ہر گز متقی نہ ہوگا۔ (9) حقہ نوش کی نماز بھی درست نہیں ہوتی۔ (10) حقہ نوش کے پاس اکثر جاہل لوگ جمع ہوتے ہیں جو خرافات اور ہزلیات میں وقت برباد کرتے ہیں۔ (11) حقہ ایک خبيث چیز ہے تو لامحالہ اس کا پینے والا بھی خبيث ہی ہوگا۔ (12) تمام گناہوں کا امام حقہ ہے تو اس کا پینے والا اس امام کا مقتدی۔ (13) حقہ پینے والا لازما بھنگ اور افيون بھی پیتا ہوگا۔ (14) ایسا شخص شرابی اور کبابی بھی ہوتا ہے۔ (15) حقہ گناہوں کے بھنور میں جکڑ دےتا ہے۔ (16) حقہ نوش کادل سیاہ ہوتا ہے۔ (17) حقہ نوش سے ایمان کا نور زائل ہوجاتا ہے۔ احمد رضاخان حقہ پیتا تھا قارئین کرام: اب ذرا احمد رضاخان صاحب کا معمول بھی ملاحظہ فرمالیں: اگر کھانے کی ابتداء میں بھول جائے اور درمیان میں یاد آجائے تو فورا بسم اللہ علی اولہ و آخرہ (بھول جانے کی دعا غلط بتائی ہے۔۔از ناقل) پڑھ لے کہ شیطان اسی وقت قے کرديتا ہے اور بفضلہ میں بھوکا ہی مارتا ہوں یہاں تک کہ پان کھاتے وقت بسم اللہ اور چھالیہ ڈالی تو بسم اللہ شريف۔ہاں حقہ پیتے وقت نہیں پڑھتا ۔طحطاوی میں اس سے ممانعت لکھی ہے وہ خبيث اگر اس میں شریک ہوتا ہوتو ضرر ہی پائیگا کہ عمر بھر کابھوکا پیاسا اس پر دھوئیں سے کلیجا جلنا۔ ملفوظات ،حصہ دوم ،ص221 احمد رضاخان کے حواری بھی حقہ پیتے تھے شمس الدین سیالوی صاحب کے ملفوظات میں ہے کہ حقہ نوش کی مجلس والے اکثر خرافات اور ہزلیات بکتے ہیں اب آئے ہم آپ کے سامنے حوالہ پیش کرتے ہیں جس میں صاف لکھا ہے کہ احمد رضاخان صاحب جب عصر کے بعد گھر سے باہر تشريف رکھتے تو ملنے والوں اور ہم مجلس لوگوں کی ”حقہ“ اور پان سے تواضع کی جاتی: زائرین حاجتیں پیش کرتے ان کی حاجتیں پوری کی جاتیں ۔حقہ پان سے ہر ایک کی تواضع کی جاتی۔ حيات اعلی حضرت،ج1،ص162 اسی وجہ سے احمد رضاخان اپنے ان ہم نشینوں کے ساتھ مل بيٹھ کر ہر وقت یہ خرافات بکتے کہ علمائے اہل سنت معاذ اللہ گستاخ ہیں کافر ہیں اور صبح شام ان کے خلافات خرافات اور ہزلیات بک بک کر خود نوير ایمان سے پاتھ دھو بيٹھے۔ بریلویوں خدا کی قسم تمہیں علمائے دیوبند کی آہیں لے ڈوبيں !!!تم نے مولانا رشيد احمد گنگوہی ؒ ، مولانا قاسم نانوتوی ؒ ،مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ،مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ،پر فتوے لگائے کھلے عام ان کو گالیاں دیں،ان مظلوموں نے معاملہ خد ا کے سپرد کردیا ۔۔اللہ نے ان کامل ولیوں کی سن لی اور احمد رضاخان پر خدا کی ایسی پھٹکار پڑی کہ آج خود اس کی جماعت کے لوگ اس کو شرابی کبابی سیاہ باطن بے حياء بد معاش خبيث اور نہ جانے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔۔باپ کیلئے اس سے بڑھ کر کیا بے عزتی ہوگی کہ بيٹا گريبان پکڑے احمد رضاخان کیلئے اس سے بڑی کیا رسوائی ہوگی کہ ۔۔آج بيچ چوراہے اس کی جماعت کے لوگوں نے اس کا منہ کالا کردیا۔۔۔ اور آج احمد رضاخان کی بوسیدہ ہڈیاں بریلی کے قبرستان میں چٹخ رہی ہیں اور تمہیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ۔۔ خدارا میرے نام پر پلنے والوں! کچھ تو میری نمک حلالی کرو اور مجھے ان فتووں سے رہائی دلاؤ۔۔ بریلویوں عبرت حاصل کرو۔۔۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔ لطیفہ:شمس الدین سیالوی نے یہ بھی کہا کہ بعض علماء کے نزدیک حقہ پینا بدعت ہے گويا ان علماء کے نزدیک اور خود شمس الدین سیالوی صاحب کے نزدیک (کہ وہ اس قول کو اپنی تائید میں پیش کررہے ہیں) احمد رضاخان صاحب بدعتی ہوئے ۔۔اور بدعتی کے بارے میں احمد رضاخان صاحب کہتے ہیں کہ:بدعتی جہنم کے کتے ہیں جس نے بدعتی کو بيٹی دی ایسا ہے جیسے کتے تلے اپنی بیٹی بچھادی (معاذ اللہ ۔۔۔ازالة العار ص 22،23)یہ فتوی اس خبطی نے وہابیوں( جس میں بریلویوں کے سوا ہر مسلمان گروہ شامل ہے) کے خلاف دیامگر اب شمس الدین سیالوی کے فتوے سے احمد رضاخان کے گلے میں فٹ ہوگياکہ احمد رضاخان بدعتی گويا وہ کتا اور اس کے نیچے بچھی ہوئی عورت یعنی بریلوی مفتی اعظم ہند مصطفی رضاخان کی والدہ صاحبہ کتے تلے ۔۔۔اور ظاہر ہے کتے سے ہونے والی اولاد انسان نہیں بلکہ۔۔۔ بریلویوں مجھ پر دانت مت پیسو کہ میں نے تمہارے اعلی حضرت کو گالی دی ان کی گھر والی کی بے عزتی کی میں تو تمہاے خان صاحب کا فتوی نقل کر رہا ہوں کچھ حياءکرو تمہار ا یہ خبطی امام دنیا جہاں کی پاکباز عورتوں کو کتيا بنا کر کتے تلے کس دیدہ دلیری سے بچھارہا ہے اس وقت تم کو غيرت نہ آئی آج جب احمد رضاخان کی بيوی پر بات آئی تو۔۔اب تم کو غيرت تم کو غصہ ۔۔آخرکس بات کا؟؟؟۔۔ابھی تو آپ نے اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ پڑا کبھی دل جلوں کو فلک سے کام نہیں جلا کر خاک نہ کردوں تو ديوبندی نام نہیں مفتی اقتدار خان نعیمی کی طرف سے مولوی احمد رضاخان پر گستاخی کے فتوے مفتی اقتدار خان نعیمی کا فتوی صاحب لولاک ﷺ کے نعلین پاک کا نقشہ ہے اس پر اللہ مجدہ کانام لکھنا یا قرآن مجید کی آیت لکھنا خواہ بسم اللہ شریف ہو یا کوئی دوسری آیت سخت ترین حرام، حرام،اشد حرام ہے۔اگر خدانخواستہ تحقیر کاارادہ ہو تو لکھنے والا کافر ہے اور اگر لکھنے والا اپنی حماقت و جہالت سے اسماءالٰہیہ و آيت قرآنیہ کا درجہ و مرتبہ نقشہ نعلین شریف کے برابر سمجھتا ہو یا کمتر تو وہ شخص گمراہ او رضال و مضل ہے ۔ایسے گمراہ اور گستاخ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا غلط اس کو پیر و مرشد یا رہنما تسلیم کرنا شرعا منع اور ناجائز ہے۔اگر ايسا گستاخ اور بے ادب انسان توبہ نہ کرے ضد پر اڑا رہے تو جملہ مسلمانوں کو اس سے قطع تعلق لازم ہے۔(نقشہ نعل پاک پر اسماءمبارکہ لکھنا ،ص19) اگلے صفحہ پر فرماتے ہیں کہ: اس فتوے کے رو سے جو بھی اسماء الٰہیہ جوتی شریف کے نقشے پر لکھے وہ بدترين انسان ہے آخر دم تک اس سے توبہ کرائی جائے (ایضا ص 20) اس فتوے میں مفتی اقتدار نے نعلین مبارکہ کے نقشہ پر اسماء الٰہیہ خواہ بسم اللہ شریف ہو لکھنے والے11 گیارہ فتوے لگائیں ہیں (1) ایسا کرنا حرام حرام اشد حرام ہے (2) ایسا کرنے والا احمق ہے (3) جاہل ہے (4) گمراہ ضال و مضل ہے (5) گستاخ ہے۔ (6) اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ (7) اس کو پیر و مرشد رہنما تسلیم کرنا شرعا منع و ناجائز ہے۔ (8) بے ادب گستاخ ہے (9) ايسے گمراہ شخص سے مسلمانوں کا قطع تعلق کرنا لازم ہے۔ (10) بدترين انسان ہے۔ (11) اس سے توبہ کروانی لازم ہے۔ اب آئے پڑھئے احمد رضاخان کا فتوی احمد رضاخان کا فتوی نقشہ نعلین شریفین پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے میں کچھ حرج نہیں ۔ بحوالہ فہارس فتاوی رضویہ ،ص 640 بریلویوں اب تو کم سے کم اس گستاخ سے اپنی بیزاری کا اعلان کردو۔ مفتی احمد یار گجراتی اور مولوی احمد سعید کاظمی کی طرف سے احمد رضاخان اور اس کے باپ نقی علی پر کفر اور بے دینی کا فتوی قارئین کرام! کافی عرصہ سے فقیر نے آپ کے سامنے ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں خود بریلوی اکابرین کی کتابوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ احمد رضاخان گستاخ کافر اور بے دین تھا اسی سلسلہ میں آج ایک اور حوالہ پیش کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔ رضاخانی مذہب کے غزالی زماں احمد سعید کاظمی لکھتا ہے کہ : متاخرین کے زمانے میں بعض لوگوں نے اللہ تعالی کو حاضر و ناظر کہناشروع کیا تو اس دور کے علماءنے اس پر انکار کیا بلکہ بعض علماءنے اس اطلاق کو کفر قرار دے ديا۔ (تسکین الخواطر، ص11) اسی طرح رضاخانی مذہب کے حکیم الامت احمد یار گجراتی فتوی دیتے ہیں کہ: ہر جگہ میں حاضر ناظر ہونا خدا کی صفت ہر گز نہیں۔۔۔خدا کو ہر جگہ میں ماننا بے دینی ہے ۔ (جاءالحق ص 168،169) ان دونوں حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوئی کہ رضاخانی مذہب میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر ماننے والا بے دین اور کافر ہے اب ذرا احمد رضاخان اور ان کے ابا حضور کے فتوے بھی ملاحظہ فرمالیں: مولوی احمد رضاخان ایک جگہ قرآن پاک کی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : و کنا لحکمھم شھدین (سورة الانبياء،آیت78) اور ہم ان کے حکم کے وقت حاضر تھے( کنز الایمان مع خزائن العرفان ،ص392) اس آیت میں صاف طور پر احمد رضاخان نے اللہ تعالی کو ”حاضر“ تسلیم کیا ہے اسی طرح مولوی نقی علی کہتا ہے کہ: اگر خداکو حاضر ناظر نہیں سمجھتا تو محض جاہل ہے ۔ (سرور القلوب ، ص 216) اب بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ اگر وہ احمد سعید کاظمی اور احمد یار گجراتی کے فتوے کو درست مانتے ہیں تو احمدرضاخان اور اس کے باپ کو کافر اور بے دین مانیں اور اس صورت میں خود بھی تجدید ایمان کریں کہ وہ ایسے کافروں اور بے دینوں کو امام اہلسنت مانتے رہے ہیں ۔۔اگر ایسانہیں کرتے تو احمد یار گجراتی اور احمد سعید کاظمی کو نہ صرف ”جاہل محض“ بلکہ کافر بھی مانیں کہ وہ ایک اسلامی عقےدے کو کفر اور بے دینی کہہ رہے ہیں اور خود بھی تجدید ایمان کریں کہ ایسے لوگوں کو انھوں نے غزالی اور حکیم الامت کا درجہ ديا ہوا ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہی ہوگا کہ ایسے اکابرین پر لعنت بھیجیں جن کو مانتے ہی بندہ کافر ہوجاتا ہے اور اسلام قبول کرتے ہوئے مسلک اہلسنت والجماعت احناف دیوبند میں شامل ہوجائیں۔ بریلوی دعوت اسلامی والوں کی طرف سے احمد رضاخان پر کفر اور گستاخی کا فتوی قارئین کرام احمد رضاخان کی کتاب ”تمہید ایمان“ پر دعوت اسلامی کے ایک مولوی محمد یوسف عطاری نے حاشیہ لکھا ”ایمان کی پہچان “ کے نام سے جسے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے ”مکتبة المدینہ “ سے شائع کیا گیا اور اس پر مولو ی الیا س قادری کی تصدیق و تائید بھی موجود ہے ۔اس میں ایک جگہ مولوی صاحب لکھتے ہیں: حضور ﷺ کیلئے بہرا ہونے کی دعا کرنا یا تکبر والا کہنا یا بکریاں چرانے والا کہنا اگرچہ کفر ہے لیکن یہ الفاظ ان گستاخوں کے گستاخانہ کلمات سے بہت ہلکے ہیں (ایمان کی پہچان حاشیہ تمہید ایمان ،ص100) یہاں مولوی صاحب نے یہ فتوی دیا کہ نبی کریم ﷺ کو بکریاں چرانے والا کہنا کفر اور نبی کریم ﷺ کی گستاخی ہے اور عربی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ عربی میں بکریاں چرانے والے کو ”راعی“ کہتے ہیں اب ذرا احمد رضاخان صاحب کی ایک عبارت بھی ملاحظہ فرمالیں جس میں نبی کریم ﷺ کو چرواہا کہا گیا ہے : اللہ کا محبوب امت کا راعی کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا اور محبت بھرے دل سے انھیں حافظ حقیقی کے سپرد کررہا ہے۔ (جزاءاللہ عدو ہ بآبائہ ختم نبوت، ص71) لیجئے دعوت اسلامی والوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو چرواہا کہنا کفر ہے اور یہاں احمد رضاخان نے نبی کریم ﷺ کو چرواہا کہا لہٰذا اب ہم امید کرتے ہیں کہ بریلوی جلد سے جلد احمد رضاخان پر کفر کا فتوی لگائیں گے اور اس گستاخ سے بیزاری کا اظہار کریں گے خود احمد رضاخان فتاوی افریقہ اور تمہید ایمان میں لکھ چکا ہے کہ کوئی گستاخ رسول ﷺ تمہارا کیسا ہی عزیز کیوں نہ ہو استاد ہو پیر و مرشد ہو اگر نبی کریمﷺ سے محبت ہے تو فورا اس سے بیزاری کا اظہار کرو یہی کامل ایمان کی علامت ہے ہم رضاخانیوں کو بھی یہی مشورہ دیں گے کہ خود آپ نے اقرار کرلیا کہ احمدرضاخان نبی کریم ﷺ کا گستاخ اور کافر ہے لہٰذا اب یہ خیال بالکل مت کیجئے کہ وہ آپ کے امام یا مذہب کے بانی ہیں بلکہ فورا ایسے گستاخ اور کافر سے برات کا اظہار کیجئے۔
×
×
  • Create New...