Jump to content

Sag e Madinah

اراکین
  • کل پوسٹس

    525
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    30

سب کچھ Sag e Madinah نے پوسٹ کیا

  1. . میرے وہ سوالات جنکا جواب نہ دیا گیا بلکہ مجھ پر غلط بیانی کا الزام لگا کر بھاگنے کی ناکام کوشش کی گئی۔
  2. التیجانی صاحب دجال کون ہے،اس کا اندازہ تو قارئین کر ہی سکتے ہیں،زید حامد اگر یوسف علی سے اتنا ہی الرجک ہے تو آج بھی اسکا دفاع کیوں کر رہا ہے؟؟آج بھی زید حامد یوسف علی کی بات نہیں کرنے دیتا، آپ خود پریشان حال ہیں کہ اب جائیں تو کدھر جائیں۔آپ بتائیں کہ یہ زید حامد یوسف علی کا کزن بن کر مقدمہ لڑا یا نہیںِ؟؟؟اگر لڑا تو وہاں اس نے کوں سی ذات کی حیثیت سے اپنے آپ کو اسکا کزن لکھوایا،سید یا راجپوت؟؟؟ اب اس میں بھی تاویل نہ کر دیجئے گا،کیوں کہ آپ ایسے ماہر تاویل ہیں جیسا،،،،،،،،، ہے کچھ ایسی ہی بات کہ چپ ہوں۔۔۔۔۔۔۔
  3. محترم غلام احمد بھائی۔۔ آپ کی یہ بات کہ ایسے الفاظ دکھا دیں کہ جہاں یہ لکھا ہو کہ خلفائے راشدین۔۔۔۔۔۔الخ ،تو میرے بھائی آپ کا سوال تو بالک ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یو ں کہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قرں شریف میں ہر بات کا ذکر ہے،لیکن زید اس پر سوال کرے کہ آج کل کے جدید بنکاری سسٹم کا ذکر کہاں ہے؟؟ محترم کیا آپ کو علمائے کرام کے فتویٰ جات نظر نہیں آرہے؟؟روحانی آقا ماننا افضلیت ہی ہے یا کچھ اور؟؟؟پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ خلافت کا روحانیت سے کیوں تقابل کیا گیا؟؟؟
  4. (ja) (ma) Hazrat Saeedi Sb.aap nay saheeh maana main Alteejani Sb ko expose kar dia hai. Jis tarah Alteejani Sb,abhi aap k sath kar rahai hain isi tarah Chishti Bhai k sath bi kar chka hain.Kyon keh unke aik post main sara dajjal pan sab k samnay aa gia tha. Allah Tala hum sab ko Alteejani Sb.jaisay taaveel parast shakhs k shar say humain mehfooz farmay...Aameen Tamam Sunni Bhai bhe Aameen Kahain...
  5. Ghulam Ahmed Bhai simply saying keh hatt dharmi ka koi ilaj nahi.Aur aap jo zuban use kar raha hayn woh aap ko lajwb sabat karna k liye I think kafi hay.Ap lajwabi ke sooorat mai bar bar wohi ibaraat paish kar raha hain jinka jwab pehlay say he mojood hay.Aap pehlay to Afzaliat par behas kartay rahay laikan jab aap ko har bat ka jwab dalail k anbaar ke roshni main mila to ab dawa par utar ay hain..Bhai yeh kahan ka insaf hay?Khuda ra kuch to hosh k nakhan lain. Saeedi Bhai really well done.May Almighty Allah blees u in both worlds.
  6. (ja)(ja) (ma)(ma) سعیدی بھائی۔بہت ہی عمدہ جواب۔ محترم غلام احمد بھائی۔آپ نے جتنی باتیں کی ہیں ان کا جواب فقیر عرض کر چکا ہے۔ایک ہی بات کو بار بار نہیں دہرانا چاہئے۔پیر علاوالدین صدیقی صاحب کیا ایسی شخصیت ہیں جنکا شمار علمائے اہلسنت میں ہو تا ہے؟؟نہیں حضرت۔وہ ایک پیر صاحب ہیں۔ہمارے لئے معتبر تو ہیں لیکن عقائد میں نہیں۔۔مزید یہ کہ حضرت سیدی عرفان شاہ صاحب نے انکو یہ بات سنائی تھی جسکا جواب پیر صاحب نے جو دیا وہ آپ بھی سن لیں۔
  7. انجینئر صاحب میں نے ابھی اس فتویٰ کے متعلق کچھ لکھا تھا لیکن شاید آپ نے غور نہیں کیا۔محترم صلح کلیت ایک بہت ہی گھناونا روگ ہے جو ہمارے معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔انٹرنیشنل میڈیا پر بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔کیا ایسی صلح کلیت جو ہر برے کو بھی اچھا سمجھے کیا اسے معاشرے کا ناسور نہیں قراردیا جائے گا؟؟؟جب کھلم کھلا دشمنان اسلام کی حمایت کی جائے تو آپ اس چیز کو کیا کہیں گے؟؟؟
  8. محترم عرض ہے کہ ایسی باتوں کو بیان کرنے سے ہم لوگوں کو کیا ملے گا؟؟؟اگر امیر دعوت اسلامی جناب مولانا الیاس قادری صاحب مد ظلہ العالی سے کوئی غلطی ہوئی تو کیا اس غلطی کو ان پر کیا پیش کیا گیا؟؟؟اس سے لزوم تو ثابت ہو لیکن التزام کیسے ثابت یوا؟؟؟التزام تو تب ثابت ہو گا جب حضرت صاحب کی یہ عبارت حضرت ثابت کو دکھائی گئی تو حضرت صاحب اپنی اس بات پر مصر رہے اور اس سے رجوع نہ کیا۔۔۔کیا کسی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟؟؟اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو برائے مہر بانی پیش کریں۔اور جن مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے انہوں نے کیا ایسا کوئی طریقہ کیا ہے کہ حضرت صاحب سے پوچھا جائے؟؟؟؟ حضرت صاحب تو اکثر اپنی تقاریر میں تجدید ایمان کرتے رہتے ہیں،لہٰذا ہم عوام کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ دوسری وجہ اس سارے کام کی یہ ہے کہ اصل مسئلہ ویڈیو کاہے۔۔لیکن کچھ علما اس کو جائز کہتے ہیں اور کچھ ناجائز۔کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ یہ مسئہ قطعی ہے؟؟؟؟ دیوبندیوں میں خود ٹی وی کے جائز و ناجائز ہونے میں اختلاف ہے اس لئے انہیں اپنا منہ بند رکھنا چاہئیے اور ان کے نمائندے اپنی اصلیت کیوں چھپا کر بات رتے ہیں؟؟؟؟
  9. Thora sa hissa meri taraf se b.... Great job by Saeedi Sb.and Chishti Sb... http://www.youtube.com/watch?v=xtQdKlcqhPM
  10. امام احمد رضا اور علمِ کلام از: مفتی آل مصطفی مصباحی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ارباب علم ودانش اور اصحاب فکرونظر نے میدان علم وفن میں امام احمد رضا قدس سرہ کی دقت نظر، وسعت خیال اور بلندیِ تحقیق کو ہر زاویہ نظر سے پرکھا۔ ہر فن کے ماہرین نے ان کے علمی افادات اور فنی تحقیقات وتدقیقات کا تنقیدی جائزہ لیا۔ بالآخر اس حقیقت کا سب کو اعتراف کرنا پڑا۔ ع بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری امام احمد رضا نہ صرف علوم اسلامیہ میں گہری بصیرت رکھتے تھے بلکہ ان علوم وفنون میں بھی انہیں کامل مہارت حاصل تھی جن کا براہ راست اسلامی علوم سے تعلق نہیں۔ جنہیں علم آلی بھی کہ سکتے ہیںاور اسلامی علوم میں تو ان کی معلومات غیر معمولی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب کسی مسئلے پر بحث وگفتگو فرماتے ہیں تو اس کے تمام نکات ومضمرات کا بھرپور جائزہ پیش فرماتے ہیں۔ ان کی تنقیدات کو پڑھئے تو ایک بہت بڑے نقاد کی حیثیت سے نظر آئیں گے۔ ان کے فقہی کارناموں کا جائزہ لیجئے تو اس زمانے میں فقہ حنفی اور اس کے کلیات وجزئیات کی معلومات اور ان پر دسترس ومہارت کے اعتبار سے ان کی نظیر نہیں ملے گی۔ ان کے مناظرانہ ومتکلمانہ انداز بحث وگفتگو کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عدیم المثال متکلم ومناظر ہیں۔ علم کلام میں امام احمدرضا قدس سرہ کے افادات و ابحاث کو نظر بصیرت سے مطالعہ کرنے والا یقینا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس خشک اور سنگلاخ میدان میں بھی انہوں نے گل سر سبد اُگائے ہیں جن کی خوشبو سے اس فن کے قارئین کی مشام جان معطر ہوجائے۔ راقم الحروف علم کلام میں امام احمد رضا قدس سرہ کے بعض ابحاث وافادات کو ارباب علم وفن اور اصحاب فضل وکمال کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اس مشکل کام کے لئے جس دقت نظری اور وقت کی ضرورت ہے وہ مجھے حاصل نہیں۔ تاہم جو کچھ ضبط تحریر کیا جارہا ہے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اہل علم کے لئے باعث سرور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام: اللہ عزوجل کی صفت کلام کے ذیل میں قرآن کریم کے غیر مخلوق یا مخلوق ہونے کا مسئلہ کلیدی مانا جاتا ہے، مجتہد مطلق حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خلقِ قرآن کا فتنہ کھڑا ہوا ۔ آپ نے اس فتنہ کو دبانے کی ہر ممکن کوشش فرمائی اور قرآن کریم کے غیر مخلوق ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا۔ جب کہ خلیفہء وقت اور اس کی ہاں میں ہاں بھرنے والے قرآن کو مخلوق گردانتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ مخلوق سے متعلق صفات سے قرآن حکیم کو متصف قراردینا تھا۔ خلیفہ مامون الرشید نے حضرت امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صادر کئے ہوئے فتوے کی مخالفت اتنی شدومد سے کی کہ انہیں فتویٰ واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ اور فتویٰ واپس نہ لینے کی پاداش میں حضرت امام پر کوڑے برسائے گئے ار دیگر اہل علم کو بھی قرآن کے غیر مخلوق کہنے پر سختیاں جھیلنی پڑیں۔ بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے شرح الصدور میں امام ذہبی کے حوالے سے بیان فرمایا کہ احمد بن نصر خزاعی جو فن حدیث کے امام گزرے ہیں ان کو خلیفہ واثق باللہ نے خلق قرآن کا قول کرنے پر مجبور کیا۔ اور جب آپ نے انکار کیا تو بڑی بے دردی سے آپ سولی پر لٹکادئیے گئے لیکن ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے باوجود حق اپنے آب وتاب اور کرّوفر کے ساتھ غالب رہا۔ معتزلہ جیسے گمراہ فرقہ کے غلط عقائد وافکار کی وجہ سے متکلمین نے اس مسئلہ کو کلیدی مسئلہ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کلام کی تمام کتابوں میں یہ مسئلہ قدرے بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور بطور نتیجہ جلی حرفوں میں واضح کردیا گیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے، قرآن کریم کے کلام الٰہی اور غیر مخلوق کے ثبوت کے لیے چند امور کی تنقیح ہوجانا ضروری ہے تاکہ مسئلہ کی وضاحت میں کافی مدد مل سکے مثلاً 1. اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کلام فرمایا اس کی نوعیت کیا ہے؟ 2. حضرت جبرئیل جو کلام الٰہی لے کر آئے اس کلام کی حقیقت کیا ہے؟ 3. مصاحف میں لکھا ہوا اور پڑھا جانے والا قرآن کیا اللہ عزوجل کی صفت اور قدیم ہے؟ اس طرح کے نکات پر روشنی ڈالنے اور مسئلہ کی تشفی بخش تفہیم کے لئے متکلمین ومتقدمین نے کلام کی دو قسمیں نکالیں ہیں: 1. کلام نفسی 2. کلام لفظی۔ مسئلہ دائرہ میں پڑنے والے بعض اعتراضات کے دفاع اور مسئلہ کی وضاحت کے لئے متکلمین متاخرین نے نفسی اور لفظی میں قدیم وحادث کی اصطلاح وضع کی۔ اس طرح یہ مسئلہ پھیلتا گیا اور عقول متوسطہ والوں کے لئے الجھن کا باعث بن گیا۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی خداداد صلاحیت سے جہاں گوناگوں علوم وفنون کے لاینحل مسائل کا حل پیش فرمادیا وہیں علم کلام کے پیچیدہ مسائل کی بھی ایسی عقدہ کشائی فرمائی کہ آدمی خوشی سے جھومنے لگتا ہے، آنکھیں سرور کے نیر بہاتی ہیں اور دل اُن کی خداداد عظمت وصلاحیت کا بار بار اعتراف کرنے لگتا ہے اور یہ شعر زبان پر لائے بغیر نہیں رہا جاتا لیس علی اللّٰہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد اس وقت راقم کے پیش نظر مجدد اعظم کا رسالہ انوار المنان فی توحید القرآن ہے جو ١٣٣٠ھ میں تصنیف کیا گیا ہے، یہ رسالہ عربی زبان میں ہے ہم یہاں بقدرِ ضرورت بعض مباحث کی تلخیص پیش کررہے ہیں: علمائے کرام نے وجود شئی کے چار مراتب قرار دئیے ہیں۔ 1. وجود فی الاعیان (خارج میں پایا جانے والا وجود( 2. وجود فی الاذھان (ذہن میں پایا جانے والا وجود) جیسے زید کی اس صورت کا حاصل ہونا جو ذہن میں ذات زید کے ملاحظہ کا ذریعہ ہو 3. وجود فی العبارۃ (عبارت میں وجود)جیسے اپنی زبان سے کہے زید 4. وجودفی الکتابت (کتابت میں وجود) جیسے لفظ زید جب لکھا جائے۔ ہمارے ائمہ اسلاف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ چاروں قسمیں قرآن عظیم کے وجود پر حقیقتاً صادق آتی ہیں۔ تو وہ قرآن جو اللہ عزوجل کی صفت قدیم ہے اور ذات باری کے ساتھ ازلاً وابداً قائم ہے اور جو نہ عین ذات ہے نہ غیر ذات، نہ خالق نہ مخلوق، وہ بعینہٖ وہی ہے جو ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا اور ہمارے کانوں سے سنا جاتا، ہماری سطروں میں لکھا جاتا، اور ہمارے سینوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے ایسا نہیں کہ وہ قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے، جو قرآن پر دال ہے بلکہ یہ سب قرآن کریم کے تجلیات ہیں اور قرآن حقیقتاً ان میں متجلیٰ ہے۔ نہ وہ ذات باری سے منفصل نہ محدثات میں سے کسی حادث سے متصل تو اس کی ذات میں قرآن کو حلول ماننا باطل کسی بھی طرح کے حدوث کا اس کے دامنِ قِدم تک پہنچنا نا ممکن ۔ 1. مجدد اعظم امام احمد رضا نے چند روایات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ کی بڑی عمدہ وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ ابن اسحاق، ابو نعیم اور بیہقی کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان فرمائی: حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ابو جہل نے سانڈ کی صورت میں دیکھا کہ وہ اس پر حملہ آور ہے اور ان کے بڑے بڑے چنگل ہیں، ابوجہل نے ایسی ڈراؤنی شکل کبھی نہ دیکھی تھی۔ دشمن خدا (ابوجہل) یہ دیکھ کر اپنی ایڑیوں کے بل گرپڑا۔ مجدد گرامی فرماتے ہیں: توکیا کسی کیلئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ وہ جبرئیل نہ تھے بلکہ جبرئیل پر دلالت کرنے والی کوئی دوسری شئی تھی۔ خدا کی پناہ! وہ تو یقینی طور پر جبرئیل ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا: ذاک جبرئیل لو دنانی لاخذتہ۔ یہ جبرئیل تھے اگر وہ مجھ سے قریب ہوتے تو میں ضرور ان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا۔۔۔۔۔۔حالانکہ یقینی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ حضرت جبرئیل کی حسین وجمیل صورت سانڈ اونٹ جیسی نہیں بلکہ ان کے تو چھ سو خوبصورت پَر ہیں جو افق کو گھیرے ہوئے ہیں۔ (انوار المنان، مترجماً وملخصاً( 2. صحابہ کرام نے اپنے سفر بنی قریظہ میں دحیہ بن خلیفہ کو سفید خچر پر سوار ہوکر اپنی جانب متوجہ پایا تواس کی اطلاع نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذاک جبرئیل بعث الٰی بنی قریظۃ یزلزل بھم حصونھم ویقذف الرعب فی قلوبھم۔ یہ جبرئیل ہیں جنہیں بنی قریظہ کی طرف اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ان کی عمارتوں میں زلزلے پیدا کردیں اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں۔ 3. حدیث جبرئیل میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان، اسلام، احسان، قیامت اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا، صحابہ میں کوئی اس آنے والے شخص کو پہچانتا نہ تھا نہ اس پر آثار سفر ظاہر تھے۔ سخت سفید کپڑوں میں ملبوس، بال خوب کالے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا: انہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔ 4. نسائی وطبرانی کی روایت میں یہ صراحت ہے کہ حضرت جبرئیل متعدد بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دحیہ کلبی کی صورت میں حاضر ہوئے۔ نسائی شریف میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے: کان جبرئیل یاتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی صورۃ دحی الکلبی اور طبرانی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کان جبرئیل یاتینی علی صورۃ دحی الکلبی ان سب روایتوں کا حاصل یہی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مختلف شکلوں میں متشکل ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی مسلمان یہ کہ سکتا ہے کہ ان کے دحیہ کلبی کی صورت میں ہونے یا اونٹ کی صورت میں ہونے یا آدمی کی صورت میں ہونے سے ان کی حقیقت بدل گئی؟ وہ شئی آخر ہوگئے؟ہرگز نہیں۔ بلکہ ان تمام صورتوں اور شکلوں میں بھی حقیقت نفس الامر میں وہ جبرئیل امین ہی ہیں۔ اور یہ بھی یقین سے معلوم ہے کہ جبرئیل نہ اعرابی ہیں نہ کلبی، تو لامحالہ یہ مختلف صورتیں جبرئیل امین کی تجلیات ہیں جن کے تعدد سے جبرئیل امین متعدد نہیں ہوگئے یوں ہی یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جبرئیل پر دلالت کرنے والی دوسری اشیا ہیں۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَاِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْالَہ، وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o (سورہء اعراف:٢٠٤( اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔ فَاقْرَء ُ وْامَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط (سورہ مزمّل:٢٠( اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اُتنا۔ بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍoع (سورہ بروج:٢١ تا ٢٠( بلکہ وہ کمال شرف والا قرآن ہے لوح محفوظ میں ہے ان آیات کریمہ میں قرآن ہی کو مقرو (پڑھا جانے والا) کہا گیا، قرآن ہی کو مسموع (سنا جانے والا) کہا گیا، اسی کو محفوظ (حفاظت میں رکھا ہوا) بتایا گیا، اسی کو مکتوب (لکھا ہوا) قرار دیا گیا۔ اور اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہی قرآن ہے، یہی کلامِ رحمن ہے۔ امام الائمہ حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ اکبر میں فرمایا: القراٰن فی المصاحف مکتوب وفی القلوب محفوظ وعلی الالسن مقروّ وعلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منزل، ولفظنا بالقراٰن مخلوق وکتابتنا لہ وقراء تنالہ مخلوق والقراٰن غیر مخلوق۔ قرآن مصاحف میں لکھا ہواہے، دلوں میںمحفوظ ہے۔ زبانوں سے پڑھاجاتا ہے اور قرآن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرنازل کیا گیا اور قرآن کی تعبیر میں ہمارے الفاظ مخلوق ہیں، ہمارا لکھنا اور پڑھنا مخلوق ہے اور قرآن تو غیر مخلوق ہے۔ اسی طرح عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی حنفی، امام اجل عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی شافعی، امام السنہ ابو منصور ماتریدی اور امام ابو الحسن اشعری نے تصریح کی ہے۔ پھر امام احمد رضا قدس سرہ نے اس بحث کا جو حاصل وخلاصہ پیش فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ: یہاں تین چیزیں ہیں 1. اللہ عزوجل کا کلام قدیم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے نہ اس کا عین ہے نہ اس کا غیر۔ اور اسی کلام قدیم سے وہ ازلاً وابداً متکلم ہے اگر کوئی ہم سے اس صفت کلام کی کیفیت پوچھے تو ہم جواب میں یہی کہیں گے کہ ہمیں اس کی کیفیت کا علم نہیں اور اس سے زیادہ ہم کچھ نہ کہیں گے اور اس کے علاوہ ہم کوئی مراد نہیں لیتے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی مخالفت معتزلہ، کرامیہ اوررافضیہ جیسے گمراہ فرقے ہی کرسکتے ہیں۔ 2. ہماری ذات، ہماری صفات، ہمارے افعال، ہماری آواز، ہمارے حروف اور ہمارے کلمات سب حادث ہیں۔ ان میں قدامت کا شائبہ تک نہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی کوئی مخالفت نہیں کرتا سوائے چند ناواقف متاخرین حنابلہ کے۔ 3. وہ کلام جسے ہم نے اپنی زبان سے پڑھا، اپنے کانوں سے سنا، اپنے سینوں میں محفوظ کیا، اپنی سطروں میں لکھا، وہ وہی قرآن قدیم ہے جو ہمارے رب کے ساتھ قائم ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجاز کا کوئی دخل نہیں، نہ اس میں تعدد ہے، نہ تنوع، نہ ہی اشتراک۔ یہی ہمارے ائمہ سلف صالحین کا مذہب ہے، اس کی مخالفت متاخرین متکلمین کے سوا کسی نے نہ کی۔ ان لوگوں نے معتزلہ کے کلامِ باری کے حدوث پر پیش کئے گئے دلائل کے رد کے لیے کلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک قدیم دوسرا حادث۔ حالانکہ اللہ عزوجل کے لیے مخلوق کی طرح کلام حادث نہیں مانا جاسکتا۔۔ یہ حضرات تجلی اور متجلیٰ میں فرق نہ کرسکے۔ نہ یہ حضرات اس نکتہ پر غور فرماسکے کہ خلق قرآن کے قائل کی تکفیر عہدِ صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ، نے اپنے ملفوظات میں بیان فرمایا: ہم تو کلام باری میں لفظی و نفسی کا تفرقہ مانتے ہی نہیں، ہمارے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ متاخرین متکلمین کی غلطی ہے۔ (الملفوظ ٤/ ٢٠( قرآن کریم کے کلامِ الٰہی اور قدیم ہونے کا عقیدہ و نظریہ ہی حق و صحیح ہے جیسا کہ اوپر اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔ یہ امام احمد رضا قدس سرہ، کے ابحاث سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اگر اس موضوع پر ان کے ارشادات کو جمع کیا جائے تو ایک طویل مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔ سرِ دست اتنے ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ )بشکریہ سالنامہ یادگارِ رضا ١٤٢٨ھ/٢٠٠٧ء(
  11. چشتی صاحب پر تو آپ نےاپنا غصہ دکھا دیا لیکن سعیدی صاحب کی اس بات پر بھی اپنا تبصرہ کریں۔یہاں آپ بھی مکاشفے والی عینک اتار کر پڑھنا بھول گئے تھے کیا؟؟؟؟ سچی بات برداشت کرنا ہر کسی کا حوصلہ نہیں جناب یواظی کا معنی پر ہے۔یعنی کہ سیدنا امام مہدی کا نام میرے نام پر ہو گا۔۔تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام نامی کیا ہے؟؟اب آپ کہیں گے کہ حضور کے تو اور بھی بہت سے نام ہیں ، اس پر میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ اللہ کے اور بھی بہت سے صفاتی نام ہیں،لیکن آپ اللہ کیوں استعما ل کرتے ہیں؟؟ محمد کا معنی کیا ہے اور حامد کا معنی کیا ہے؟؟؟ پہلے جا کر کسی سے کچھ پڑھیں پھر کسی سے بات کریں۔اور ایسا مکروہ عقیدہ جس سے فتنے کا اندیشہ ہو اسے ہم جیسے خادمان اعلیٰ حضرت کے سامنے پیش نہ کریں۔
  12. التیجانی جی آپ کے اس عقیدے کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے۔چشتی بھا ئی اور سعیدی صاحب نے آپ کو بہت سمجھایا لیکن آپ باز نہیں آئے اور صرف اپنے مکاشفے کی بنیاد پر کسی ایرے غیرے کو امام مہدی رضی اللہ عنہ قراردے رہے ہیں۔اللہ کریم ہمیں ایسے مکروہ عقیدے سے اور ایسے شرر خلائق لوگوں سے بچائے۔آمین التیجانی جی عربی زبان میں یواطی کا معنی ملاپ نہیں ہے۔بلکہ اس کا معنی روندنا،چلنے کی جگہ ہے یا مرد جب عورت کے اوپر آتا ہے تو وہاں بھی یہ لفظ آتا ہے۔اس کے علاوہ اس کا معنی اوپر بھی آتا ہے اور جب کسی شعر میں ایک فقرے کو بار بار دہرایا جاتا ہے وہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔۔لیکن آپ اپنی ایسی منطق کا ڈھول پیٹ رہے ہیں جس کے ثبوت کے لئے آپ کے پاس اکابرین امت میں سے کوئی بھی آپ کی سپورٹ کے لئے نہیں۔ اس کے علاوہ احادیث میں لفظ یوافق بھی آیا ہے،اسکا معنی کیا ہے؟؟؟ جو لوگ امام مہدی کے ظہور کا سن ۲۰١۲ بتا رہے ہیں ان کے پاس کیا ثبوت ہے اور اکابرین اہلسنت میں سے کون انکو سپورٹ کر رہا ہے؟؟؟؟شیخ نظام کون ہے؟؟؟انکی اہلسنت کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟؟؟؟ اس کے علاوہ آپ جو پندرہ سو سال کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کے لئے آپ کے پاس کون سی حدیث شریف ہے؟؟؟ کیا آپ کی عقل کل زیادہ ہے یا اکابرین اہلسنت کی؟؟؟چشتی صاحب کا کیا یہی جرم ہے کہ انہوں نے آپ کو ظاہر کیا تو آپ ان پر تلملا اٹھے؟؟؟کیا سچ برداشت نہیں ہوتا؟؟؟؟ آپ نے اپنے مکاشفے کی بنیاد پر امام مہدی تو بنا لیا لیکن آپ کو دجال کیوں نظر نہیں آتا؟؟؟اسکا سن خروج کیوں نہیں پیش فرماتے؟؟؟؟سعیدی صاحب نے آپ کی اس بات کا جواب دیا ہے ذرا غور سے پڑھیں۔ کیا آپ کا مکاشفہ آپ کو یہ نہیں بتاتا کہ آپ اکثر لفظ غلط لکھتے ہیں؟؟؟ میں نے تھوڑا سا کرخت لہجہ استعمال کیا یے اس کے لئے معذرت۔۔۔۔ سورہ مذمل کی آیت نمب ٦ میں لفظ وطاً استعمال کیا گیا ہے،اس کا کیا معنی ہے؟؟؟کیا اس کا ترجمہ آپ کے لئے گئے ترجمے کے موافق ہے؟؟؟؟
  13. امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی از: ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکتوبات و تحریراتِ رضا کی روشنی میں ایک اصلاحی و ایمان افروز تحریر یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء کے موقع پر پڑھا گیا. آب و گل کی آمیزش ہوئی، تو انسان پیدا ہوا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس انسان کا انجام ایک قطرہء آب ہے اور انجام ایک مشت خاک۔ اس آغاز و انجام کی کہانی پل بھر کی بھی ہوسکتی ہے، پہروں بھی چل سکتی ہے اور پیڑھی در پیڑھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہاں! انسان اتنا ناتواں ہے، اتنا بے کراں ہے۔ شاعر کے تخیل نے کیا خوب تصویر اتاری ہے سمٹے تو اک مشتِ خاک ہے انساں پھیلے تو کونین میں سما نہ سکے وہ، جس کی فکری توانائیوں سے ملت کی تعمیر ہوتی ہے، معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ تاریخ اسے ہر دور میں رجلِ عظیم، بطلِ جلیل، مصلحِ امت اور مفکرِ ملت بناکر پیش کرتی رہتی ہے۔ وہ تو چلا گیا کہ اسے جانا ہی تھا مگر اس کی فکر زندہ ہے، اصلاحی کوششیں تابندہ ہیں، دینی و علمی نگارشات درخشندہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، نہ فرعون و نمرود رہا، نہ ہامان و شداد رہا۔ ہاں! اس کی حکایت تو ضرور موجود ہے مگر کتنی عبرت ناک ہے، افسوس ناک ہے۔ کتنا بھولا ہے وہ جس نے زندگی نذرِ آوارگی کردی، یہ دانائی نہیں نادانی ہے، حماقت ہے۔ یقینا دانا ہے وہ، جس نے زندگی وقفِ بندگی کردی، اس نے زندگی گنوائی نہیں، کمائی ہے۔ بگاڑی نہیں، بنائی ہے اور بے شک اسی زندگی کو تابندگی ملی ہے، درخشندگی ملی ہے۔ دور کی بات تو دور ہے، قریب آئیں، جھانک کر دیکھیں۔ امام اعظم پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد ١١٤٠ ہے اور حنفیوں کی تعداد ٨٦ کروڑ سے زائد ہے۔ (١( امام ربانی مجدد الف ثانی پر ٣٦٠ کتابیں وجود میں آئیں۔ (٢( یہ تعداد ١٠٩٤ء تک کی ہے۔ اب تو اور زیادہ ہوگی۔ امام احمد رضا پر ٧٢٦ کتب و مقالات تحریر کئے گئے۔(٣( یہ تو صرف اب تک کی بات ہے جبکہ یہ سلسلہ زلف یار طرحدار کی طرح دراز ہوتا چلا جارہا ہے۔ بتایا جائے! یہ زندگی، تابندگی، درخشندگی نہیں تو کیا ہے؟ یہ سوچنا محض بھول ہے کہ زندگی آنے جانے کا نام ہے، عیش و طرب کا نام ہے۔ حیات اور موت، یہ دو کنارے ہیں۔ نہ زندگی سے فرار ممکن ہے، نہ موت سے مفر۔ یہ محسوس زندگی کی بات ہے، ورنہ زندگی سے پہلے کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کی نوعیت جدا جدا ہے۔ زندگی میں زندگی سمائی ہوئی ہے۔ زندگی کبھی فنا نہیں ہوتی۔ انسان پر یہ بھید بتدریج آشکار ہوتا ہے۔ (٤( امام احمد رضا نے ریاست و امارت میں آنکھ کھولی مگر عسرت و غربت میں زندگی گذاری۔ وہ عسرت و غربت نہیں جو دستِ سوال کرنے پر اکسائے۔ یہ تو صبر و استغنا اور زہد و قناعت سے عبارت ہے۔ ان کے مکتوب میں ایک جملہ یہ ہے: دنیا میں مومن کا قوتِ کفاف بس ہے۔ (٥( کیسی بے لاگ تلقینِ صبر و شکر ہے جس کا نمونہ صرف سلف صالحین ہی کی سیرت میں مل سکتا ہے۔ ایک صاحب کو حضوری و باریابی حاصل تھی۔ نواب نانپارہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی گذارش کی۔ ذات کے خان پٹھان تو تھے ہی، غیرتِ خاندانی اور جلالِ ایمانی طیش میں آیا۔ قلم اٹھایا، لکھا تو یہ لکھا: کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں مِری بلا میں گدا ہوں اپنے کریم کا، میرا دین پارہ ناں نہیں (٦( نواب رام پور نینی تال جارہے تھے۔ بریلی اسٹیشن آیا تو نواب کی اسپیشل ٹرین رک گئی۔ نواب کے مدار المہام (وزیر اعظم) اور سیدی مہدی حسن میاں اپنے نام سے ڈیڑھ ہزار روپے کی نذر لے کر خدمت میں حاضر ہوئے۔ غالباً بعد ظہر کا وقت تھا۔ آپ قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹنے کو کہتے ہیں) فرمارہے تھے۔ خبر ہوئی۔ چوکھٹ تک آئے۔ پوچھا، کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ ڈیڑھ ہزارنذر ہے اور واپسی کے وقت نواب ملاقات کے خواستگار ہیں۔ کھڑے کھڑے جواب دیا: یہ ڈیڑھ ہزار (اس وقت کا ڈیڑھ ہزار، آج کا ڈیڑھ لاکھ) کیا، کتنا بھی ہو، واپس لے جایئے اور نواب سے کہہ دیجئے کہ فقیر کا مکان اس قابل کہاں کہ ان کو بلاسکوں اور نہ میں والیانِ ریاست کے آداب سے واقف کہ خود جاسکوں۔ (٧( کھڑے کھڑے ایسا جواب بظاہر بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر یہی شانِ فقیری ہے۔ یہی شانِ درویشی ہے جو حکمرانِ وقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ جس کی مثال بزرگانِ کاملین کی حیات و کردار میں ملتی ہے۔ نواب حیدر آباد کا واقعہ مولانا سیف الاسلام دہلوی کی زبانی سنئے: میں نے سوداگری محلہ کے کئی بزرگوں سے سنا کہ نظام حیدرآباد نے کئی بار لکھا کہ حضور کبھی میرے یہاں تشریف لاکر ممنون فرمائیں یا مجھے ہی نیاز کا موقع عنایت فرمائیں۔ تو آپ نے جواب دیا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کا عنایت فرمایا ہوا وقت صرف اسی کی اطاعت کے لئے ہے، میں آپ کی آؤ بھگت کا وقت کہاں سے لاؤں۔ (٨( یہی مولانا سیف الاسلام دہلوی بیان کرتے ہیں: نواب حامد علی خاں مرحوم کے متعلق معلوم ہوا کہ کئی بار انہوں نے اعلیٰ حضرت کو لکھا کہ حضور رام پور تشریف لائیں تو میں بہت ہی خوش ہوں گا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجھے ہی زیارت کا موقع دیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ آپ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مخالف شیعوں کی طرفداری اور ان کی تعزیہ داری اور ماتم وغیرہ کی بدعات میں معاون ہیں۔ لہٰذا میں نہ آپ کو دیکھنا جائز سمجھتا ہوں، نہ اپنی صورت دکھانا ہی پسند کرتا ہوں۔ (٩( یہ تو نوابوں، راجاؤں کی بات تھی۔ اخص الخواص دیندار دوستوں کی نذر بھی امام احمد رضا نے قبول نہیں کی یا کبھی قبول کی تو حیلے بہانے سے اس سے زائد لوٹا دی۔ سفر عظیم آباد، پٹنہ کے دوران قاضی عبد الوحید فردوسی کے خسر صاحب نے آراستہ طشت میں کچھ تحفے اور نذر پیش کی تو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ میزبان نے کہا: حضور ساٹھ (٦٠) روپے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا: ساٹھ ہزار بھی ہوں تو فقیر اللہ کے کرم سے بے نیاز ہے۔ (١٠( ١٣٣٧ھ میں امام احمد رضا جبل پور تشریف لے گئے۔ قریب ایک ماہ چار دن قیام فرمایا۔ میزبان مولانا شاہ عبد السلام رضوی علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار روپے ہدیہ کئے۔ قبول تو کرلئے مگر اس سے کئی گنا زائد نقد اور طلائی زیوارت میزبان اور ان کے بچوں، بچیوں کو پیش کردیئے۔ (١١( سفر بیسل پور کے دوران جو ان کو نذرانے ملے، وہ انہوں نے نعت خوانوں، ثناء خوانوں میں تقسیم کردیئے۔ (١٢( پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔ امام احمد رضا کے بڑے صاحبزادے مولانا حامد رضا خاں تھے۔ نظام حیدرآباد، دکن نے ان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی۔ منصب قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ ہر طرح اصرار کیا، ہر طرح لالچ دیا تو مولانا موصوف نے یہ جواب دے کر نظام حیدرآباد کو مایوس کردیا۔ فرمایا: میں جس دروازہء خدائے کریم کا فقیر ہوں، میرے لئے وہی کافی ہے۔(١٣( مولانا محمد ابراہیم رضا خاں، مولانا حامد رضا کے بیٹے تھے اور امام احمد رضا کے پوتے۔ قرب و جوار کے دیہات میں اور دور دراز کے شہروں میں ابراہیم رضا خاں دینی اجتماعات اپنے خرچے پر منعقد کرایا کرتے تھے(١٤( وہ مدرسہ منظر اسلام کے مہتمم بھی تھے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے گھر کا اثاثہ اور زیوارت بیچ کر مدرسہ کے مصارف میں لگادیئے۔(١٥( یہ تو سیرت نگاروں کی زبان ہے۔ اب خود صاحب سیرت کی زبانی سنیے: مولانا شاہ سید حمید الرحمن رضوی نواکھالی، بنگلہ دیش کے مشہور عالمِ دین تھے اور امام احمد رضا کے تلمیذ و عقیدت کیش۔ انہوں نے یکم ذی الحجہ ١٣٣٩ھ کو جواب مسائل کے لئے ایک مکتوب لکھا تو یہ بھی لکھا: ایک روپیہ بطور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے۔(١٦( جواب میں لکھتے ہیں: جواب مسئلہ حاضر ہے۔ الحمد للہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اور آتا، اگر لاکھ روپئے ہوتے تو بعونہ تعالیٰ واپس کئے جاتے۔ یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہے نہ فتویٰ پر اجرت۔ (١٧( کلکتہ سے حاجی نادر علی صاحب نے استفتاء کیا، اس میں ایک جملہ یہ تھا: خرچ وغیرہ کے لئے تو غلام خدمت کے لئے حاضر ہے۔(١٨( جواب ارقام فرماتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی خرچ نہیں لیا جاتا، نہ اس کو اپنے حق میں روا رکھا جاتا ہے۔(١٩( ریاست بہاولپور سے مولانا عبد الرحیم خانقاہی کے اس جملہ: اجرت جواب آنے پر دی جائے گی، (٢٠( کا جواب قلمبند کرتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی اجرت نہیں لی جاتی، نہ پہلے، نہ بعد، نہ اپنے لئے اسے روا رکھا جاتا ہے۔ (٢١( گوجر خان، راولپنڈی سے محمد جی صاحب نے کئی بار خطوط لکھ کر جوابِ مسائل حاصل کئے ہیں۔ ہر بار انہوں نے اجرت و قیمت کی بات کی ہے۔ قلم کا تیور دیکھئے۔ لکھتے ہیں: قیمت کاغذ کی نسبت پہلے آپ کو لکھ دیا گیا کہ یہاں فتویٰ اللہ کے لئے دیا جاتا ہے، بیچا نہیں جاتا۔ آئندہ کبھی یہ لفظ نہ لکھئے۔ (٢٢( بریلی کے قریب تلہر، شاہ جہاں پور سے مولانا عبد الغفار خان نے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو فرماتے ہیں: یہ فقیر بفضلہ تعالیٰ غنی ہے۔ اموالِ خیرات نہیں لے سکتا۔(٢٣( مولانا محرم علی چشتی، صدر انجمن نعمانیہ، لاہور سے مخاطب ہوکر تحریر فرماتے ہیں: اپنے سے زیادہ جسے پایا، اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے (تو) قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا۔ (٢٤( ریاست پٹیالہ کے شیخ شیر محمد صاحب کے جواب میں یوں رقمطراز ہیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ بفضلہ تعالیٰ تمام ہندوستان و دیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ و خود عرب شریف و عراق سے استفتاء آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں چار چار سو فتوے جمع ہوجاتے ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت سے اس ١٣٣٧ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے ٩١ برس اور خود اس فقیر غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے ٥١ برس ہونے آئے، یعنی اس صفر کی ١٤ تاریخ کو پچاس برس چھ مہینے گذرے، اس نو کم سو برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے۔ بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔ بحمد للہ یہاں کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا، نہ لیا جائے گا۔ بعونہ تعالیٰ ولہ الحمد۔ معلوم نہیں، کون لوگ ایسے پست فطرت و دنی ہمت ہیں جنہوں نے یہ صیغہ کسب (آمدنی کا طریقہ) کا اختیار کررکھا ہے جس کے باعث دور دور کے ناوقف مسلمانان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی؟ بھائیو! ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین۔(٢٥( میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو سارے جہاں کے پروردگار پر ہے، اگر وہ چاہے۔(٢٦( علمی نگارشات میں، دینی خدمات میں امام احمد رضا کا ہر پل مصروف تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے: جو صاحب چاہیں اور جتنے دن چاہیں، فقیر کے یہاں اقامت فرمائیں۔ مہینہ دومہینہ، سال دو سال اور فقیر کا جو منٹ خالی دیکھیں یا جس وقت فقیر کو کوئی ذاتی کام کرتے دیکھیں، اسی وقت مواخذہ فرمائیں کہ تو اتنی دیر میں دوسرا کام کرسکتا تھا۔(٢٧( خود تو حُبِّ دنیا سے آزاد تھے ہی، اپنی اولاد، اپنے تلامذہ، مریدین، خلفائ، احباب اور احناف علماء کو اسی کی سخت تاکید و تلقین کرتے تھے۔ ایک ضروری ہدایت نامہ کا یہ حصہ دیکھیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ کبھی خدمت دینی کو کسبِ معیشت کا ذریعہ بنایا گیا، نہ احناف علماء شریعت یا برادرانِ طریقت کو ایسی ہدایت کی گئی، بلکہ تاکید اور سخت تاکید کی جاتی ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا تو درکنار، اشاعت و حمایت سنت میں جلب منفعت مالی کا خیال دل میں بھی نہ لائیں کہ ان کی خدمت خالصاً لوجہ اللہ ہو۔(٢٨( یہ تو نثر ہوئی، شاعری میں بھی سن لیجئے: کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو (٢٩( ان جزئیات سے امام احمد رضا کا جو چہرہ سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ان کے نزدیک دنیا غلیظ ہے، فاحشہ ہے۔ دنیا سے محبت کا مطلب غلاظت و فواحشات سے لو لگانا ہے جو دین و دانش کے قطعاً خلاف ہے۔ تم خدا کے آگے جھکو، دنیا تمہارے آگے خود بہ خود جھک جائے گی۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ، مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (سورہ طلاق( ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرے اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ اس لئے امام احمد رضا نے فقیر ی میں امیری کی، امیری میں فقیری نہیں، درویشی میں رئیسی کی، رئیسی میں درویشی نہیں۔ فقیری و درویشی وہ نہیں، جو شاہوں، نوابوں اور دین بیزار، دنیا پرست مالداروں، ساہوکاروں کی دریوزہ گری کرے۔ بلکہ عزت فقیری اور غیرت درویشی یہ ہے جس کی دہلیز پر وہ خود بخت خفتہ لے کر سر کے بل آئے اور بیدار بخت ہوکر جائے۔ یہ ہے امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے! حوالہ و حواشی 1. جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، ٢٠٠٥ء ، ٢/ ٢٤٨۔ نوٹ: شافعیوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ، مالکیوں کی تعداد چار کروڑ اور حنبلیوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔ یہ ایک عرب محقق کا سروے ہے جو انہوں نے چند سال قبل کیا تھا۔ (نفس مصدر( 2. جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی، ٢٠٠٥ء ، ١/٨٥۔ 3. محمد عیسیٰ رضوی، مولانا، قرطاس و قلم، ایڈوانس پرنٹنگ و پبلشنگ، دہلی، ٢٠٠٦ء ، ص:١٣۔ 4. غلام جابر شمس، ڈاکٹر، پروازِ خیال، ادارہ مسعودیہ، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ص:١٣۔ 5. محمد ظفر الدین، مولانا، حیات اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٢٠٨۔ 6. احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی،بمبئی، ١/٦٧۔ 7. محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٩٢۔ 8. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٣۔ 9. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٤۔ 10. ماہنامہ معارفِ رضا، کراچی، شمارہ اپریل ٢٠٠٢ء ، ص:١٦۔ 11. محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٥٦، ٥٧۔ 12. ہفت روزہ دبدبہء سکندری، رام پور، ٢٩/مارچ ١٩٢٠ء ۔ 13. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرت امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٣۔ 14. عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء ، ص:٨٩۔ 15. عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء ، ص:٧٩۔ 16. احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٩/٥٧٤۔ )17الف) احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٩/٥٧٥۔ (ب) غلام جابر شمس، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ص:٢٢٠۔ 18. احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء ، ١١/٦٦٠۔ 19. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٦/١٧١۔ 20. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء ، ١١/٢٥٤۔ 21. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، ٢٠٠١ء ، ٢٠/٥٠٤۔ 22. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ١٢/١٣٣۔ 23. القرآن، ٢٦/ ١٢٧۔ )24الف) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٤ء ، ٦/٥٦٢۔ (ب) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٣/٢٣٠۔ 25. غلام جابر شمس مصباحی، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیب رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ٢/٢٨٥، ٣٨٦۔ )26الف) ماہنامہ الرضا بریلی، شمارہ ربیع الثانی ١٣٣٨ھ۔ (ب) کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ٢/٣٣٦، ٣٣٧۔ (ج) امام احمد رضا اور تصوف، از علامہ محمد احمد مصباحی، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ١٩٨٨ء ، ص: ٨٠، ٨١۔ 27. احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١/٨١۔ 28. محمود احمد قادری، مولانا، مکتوباتِ امام احمد رضا، ادارہء تحقیقاتِ امام احمد رضا، بمبئی، ١٩٩٠ئ، ص: ١٩٦۔ 29. محمد مصطفی رضا، الملفوظ، قادری کتاب گھر، بریلی، ٣/ ٢١۔
  14. امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی از: ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکتوبات و تحریراتِ رضا کی روشنی میں ایک اصلاحی و ایمان افروز تحریر یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء کے موقع پر پڑھا گیا. آب و گل کی آمیزش ہوئی، تو انسان پیدا ہوا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس انسان کا انجام ایک قطرہء آب ہے اور انجام ایک مشت خاک۔ اس آغاز و انجام کی کہانی پل بھر کی بھی ہوسکتی ہے، پہروں بھی چل سکتی ہے اور پیڑھی در پیڑھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہاں! انسان اتنا ناتواں ہے، اتنا بے کراں ہے۔ شاعر کے تخیل نے کیا خوب تصویر اتاری ہے سمٹے تو اک مشتِ خاک ہے انساں پھیلے تو کونین میں سما نہ سکے وہ، جس کی فکری توانائیوں سے ملت کی تعمیر ہوتی ہے، معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ تاریخ اسے ہر دور میں رجلِ عظیم، بطلِ جلیل، مصلحِ امت اور مفکرِ ملت بناکر پیش کرتی رہتی ہے۔ وہ تو چلا گیا کہ اسے جانا ہی تھا مگر اس کی فکر زندہ ہے، اصلاحی کوششیں تابندہ ہیں، دینی و علمی نگارشات درخشندہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، نہ فرعون و نمرود رہا، نہ ہامان و شداد رہا۔ ہاں! اس کی حکایت تو ضرور موجود ہے مگر کتنی عبرت ناک ہے، افسوس ناک ہے۔ کتنا بھولا ہے وہ جس نے زندگی نذرِ آوارگی کردی، یہ دانائی نہیں نادانی ہے، حماقت ہے۔ یقینا دانا ہے وہ، جس نے زندگی وقفِ بندگی کردی، اس نے زندگی گنوائی نہیں، کمائی ہے۔ بگاڑی نہیں، بنائی ہے اور بے شک اسی زندگی کو تابندگی ملی ہے، درخشندگی ملی ہے۔ دور کی بات تو دور ہے، قریب آئیں، جھانک کر دیکھیں۔ امام اعظم پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد ١١٤٠ ہے اور حنفیوں کی تعداد ٨٦ کروڑ سے زائد ہے۔ (١( امام ربانی مجدد الف ثانی پر ٣٦٠ کتابیں وجود میں آئیں۔ (٢( یہ تعداد ١٠٩٤ء تک کی ہے۔ اب تو اور زیادہ ہوگی۔ امام احمد رضا پر ٧٢٦ کتب و مقالات تحریر کئے گئے۔(٣( یہ تو صرف اب تک کی بات ہے جبکہ یہ سلسلہ زلف یار طرحدار کی طرح دراز ہوتا چلا جارہا ہے۔ بتایا جائے! یہ زندگی، تابندگی، درخشندگی نہیں تو کیا ہے؟ یہ سوچنا محض بھول ہے کہ زندگی آنے جانے کا نام ہے، عیش و طرب کا نام ہے۔ حیات اور موت، یہ دو کنارے ہیں۔ نہ زندگی سے فرار ممکن ہے، نہ موت سے مفر۔ یہ محسوس زندگی کی بات ہے، ورنہ زندگی سے پہلے کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کی نوعیت جدا جدا ہے۔ زندگی میں زندگی سمائی ہوئی ہے۔ زندگی کبھی فنا نہیں ہوتی۔ انسان پر یہ بھید بتدریج آشکار ہوتا ہے۔ (٤( امام احمد رضا نے ریاست و امارت میں آنکھ کھولی مگر عسرت و غربت میں زندگی گذاری۔ وہ عسرت و غربت نہیں جو دستِ سوال کرنے پر اکسائے۔ یہ تو صبر و استغنا اور زہد و قناعت سے عبارت ہے۔ ان کے مکتوب میں ایک جملہ یہ ہے: دنیا میں مومن کا قوتِ کفاف بس ہے۔ (٥( کیسی بے لاگ تلقینِ صبر و شکر ہے جس کا نمونہ صرف سلف صالحین ہی کی سیرت میں مل سکتا ہے۔ ایک صاحب کو حضوری و باریابی حاصل تھی۔ نواب نانپارہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی گذارش کی۔ ذات کے خان پٹھان تو تھے ہی، غیرتِ خاندانی اور جلالِ ایمانی طیش میں آیا۔ قلم اٹھایا، لکھا تو یہ لکھا: کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں مِری بلا میں گدا ہوں اپنے کریم کا، میرا دین پارہ ناں نہیں (٦( نواب رام پور نینی تال جارہے تھے۔ بریلی اسٹیشن آیا تو نواب کی اسپیشل ٹرین رک گئی۔ نواب کے مدار المہام (وزیر اعظم) اور سیدی مہدی حسن میاں اپنے نام سے ڈیڑھ ہزار روپے کی نذر لے کر خدمت میں حاضر ہوئے۔ غالباً بعد ظہر کا وقت تھا۔ آپ قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹنے کو کہتے ہیں) فرمارہے تھے۔ خبر ہوئی۔ چوکھٹ تک آئے۔ پوچھا، کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ ڈیڑھ ہزارنذر ہے اور واپسی کے وقت نواب ملاقات کے خواستگار ہیں۔ کھڑے کھڑے جواب دیا: یہ ڈیڑھ ہزار (اس وقت کا ڈیڑھ ہزار، آج کا ڈیڑھ لاکھ) کیا، کتنا بھی ہو، واپس لے جایئے اور نواب سے کہہ دیجئے کہ فقیر کا مکان اس قابل کہاں کہ ان کو بلاسکوں اور نہ میں والیانِ ریاست کے آداب سے واقف کہ خود جاسکوں۔ (٧( کھڑے کھڑے ایسا جواب بظاہر بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر یہی شانِ فقیری ہے۔ یہی شانِ درویشی ہے جو حکمرانِ وقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ جس کی مثال بزرگانِ کاملین کی حیات و کردار میں ملتی ہے۔ نواب حیدر آباد کا واقعہ مولانا سیف الاسلام دہلوی کی زبانی سنئے: میں نے سوداگری محلہ کے کئی بزرگوں سے سنا کہ نظام حیدرآباد نے کئی بار لکھا کہ حضور کبھی میرے یہاں تشریف لاکر ممنون فرمائیں یا مجھے ہی نیاز کا موقع عنایت فرمائیں۔ تو آپ نے جواب دیا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کا عنایت فرمایا ہوا وقت صرف اسی کی اطاعت کے لئے ہے، میں آپ کی آؤ بھگت کا وقت کہاں سے لاؤں۔ (٨( یہی مولانا سیف الاسلام دہلوی بیان کرتے ہیں: نواب حامد علی خاں مرحوم کے متعلق معلوم ہوا کہ کئی بار انہوں نے اعلیٰ حضرت کو لکھا کہ حضور رام پور تشریف لائیں تو میں بہت ہی خوش ہوں گا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجھے ہی زیارت کا موقع دیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ آپ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مخالف شیعوں کی طرفداری اور ان کی تعزیہ داری اور ماتم وغیرہ کی بدعات میں معاون ہیں۔ لہٰذا میں نہ آپ کو دیکھنا جائز سمجھتا ہوں، نہ اپنی صورت دکھانا ہی پسند کرتا ہوں۔ (٩( یہ تو نوابوں، راجاؤں کی بات تھی۔ اخص الخواص دیندار دوستوں کی نذر بھی امام احمد رضا نے قبول نہیں کی یا کبھی قبول کی تو حیلے بہانے سے اس سے زائد لوٹا دی۔ سفر عظیم آباد، پٹنہ کے دوران قاضی عبد الوحید فردوسی کے خسر صاحب نے آراستہ طشت میں کچھ تحفے اور نذر پیش کی تو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ میزبان نے کہا: حضور ساٹھ (٦٠) روپے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا: ساٹھ ہزار بھی ہوں تو فقیر اللہ کے کرم سے بے نیاز ہے۔ (١٠( ١٣٣٧ھ میں امام احمد رضا جبل پور تشریف لے گئے۔ قریب ایک ماہ چار دن قیام فرمایا۔ میزبان مولانا شاہ عبد السلام رضوی علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار روپے ہدیہ کئے۔ قبول تو کرلئے مگر اس سے کئی گنا زائد نقد اور طلائی زیوارت میزبان اور ان کے بچوں، بچیوں کو پیش کردیئے۔ (١١( سفر بیسل پور کے دوران جو ان کو نذرانے ملے، وہ انہوں نے نعت خوانوں، ثناء خوانوں میں تقسیم کردیئے۔ (١٢( پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔ امام احمد رضا کے بڑے صاحبزادے مولانا حامد رضا خاں تھے۔ نظام حیدرآباد، دکن نے ان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی۔ منصب قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ ہر طرح اصرار کیا، ہر طرح لالچ دیا تو مولانا موصوف نے یہ جواب دے کر نظام حیدرآباد کو مایوس کردیا۔ فرمایا: میں جس دروازہء خدائے کریم کا فقیر ہوں، میرے لئے وہی کافی ہے۔(١٣( مولانا محمد ابراہیم رضا خاں، مولانا حامد رضا کے بیٹے تھے اور امام احمد رضا کے پوتے۔ قرب و جوار کے دیہات میں اور دور دراز کے شہروں میں ابراہیم رضا خاں دینی اجتماعات اپنے خرچے پر منعقد کرایا کرتے تھے(١٤( وہ مدرسہ منظر اسلام کے مہتمم بھی تھے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے گھر کا اثاثہ اور زیوارت بیچ کر مدرسہ کے مصارف میں لگادیئے۔(١٥( یہ تو سیرت نگاروں کی زبان ہے۔ اب خود صاحب سیرت کی زبانی سنیے: مولانا شاہ سید حمید الرحمن رضوی نواکھالی، بنگلہ دیش کے مشہور عالمِ دین تھے اور امام احمد رضا کے تلمیذ و عقیدت کیش۔ انہوں نے یکم ذی الحجہ ١٣٣٩ھ کو جواب مسائل کے لئے ایک مکتوب لکھا تو یہ بھی لکھا: ایک روپیہ بطور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے۔(١٦( جواب میں لکھتے ہیں: جواب مسئلہ حاضر ہے۔ الحمد للہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اور آتا، اگر لاکھ روپئے ہوتے تو بعونہ تعالیٰ واپس کئے جاتے۔ یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہے نہ فتویٰ پر اجرت۔ (١٧( کلکتہ سے حاجی نادر علی صاحب نے استفتاء کیا، اس میں ایک جملہ یہ تھا: خرچ وغیرہ کے لئے تو غلام خدمت کے لئے حاضر ہے۔(١٨( جواب ارقام فرماتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی خرچ نہیں لیا جاتا، نہ اس کو اپنے حق میں روا رکھا جاتا ہے۔(١٩( ریاست بہاولپور سے مولانا عبد الرحیم خانقاہی کے اس جملہ: اجرت جواب آنے پر دی جائے گی، (٢٠( کا جواب قلمبند کرتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی اجرت نہیں لی جاتی، نہ پہلے، نہ بعد، نہ اپنے لئے اسے روا رکھا جاتا ہے۔ (٢١( گوجر خان، راولپنڈی سے محمد جی صاحب نے کئی بار خطوط لکھ کر جوابِ مسائل حاصل کئے ہیں۔ ہر بار انہوں نے اجرت و قیمت کی بات کی ہے۔ قلم کا تیور دیکھئے۔ لکھتے ہیں: قیمت کاغذ کی نسبت پہلے آپ کو لکھ دیا گیا کہ یہاں فتویٰ اللہ کے لئے دیا جاتا ہے، بیچا نہیں جاتا۔ آئندہ کبھی یہ لفظ نہ لکھئے۔ (٢٢( بریلی کے قریب تلہر، شاہ جہاں پور سے مولانا عبد الغفار خان نے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو فرماتے ہیں: یہ فقیر بفضلہ تعالیٰ غنی ہے۔ اموالِ خیرات نہیں لے سکتا۔(٢٣( مولانا محرم علی چشتی، صدر انجمن نعمانیہ، لاہور سے مخاطب ہوکر تحریر فرماتے ہیں: اپنے سے زیادہ جسے پایا، اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے (تو) قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا۔ (٢٤( ریاست پٹیالہ کے شیخ شیر محمد صاحب کے جواب میں یوں رقمطراز ہیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ بفضلہ تعالیٰ تمام ہندوستان و دیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ و خود عرب شریف و عراق سے استفتاء آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں چار چار سو فتوے جمع ہوجاتے ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت سے اس ١٣٣٧ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے ٩١ برس اور خود اس فقیر غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے ٥١ برس ہونے آئے، یعنی اس صفر کی ١٤ تاریخ کو پچاس برس چھ مہینے گذرے، اس نو کم سو برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے۔ بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔ بحمد للہ یہاں کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا، نہ لیا جائے گا۔ بعونہ تعالیٰ ولہ الحمد۔ معلوم نہیں، کون لوگ ایسے پست فطرت و دنی ہمت ہیں جنہوں نے یہ صیغہ کسب (آمدنی کا طریقہ) کا اختیار کررکھا ہے جس کے باعث دور دور کے ناوقف مسلمانان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی؟ بھائیو! ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین۔(٢٥( میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو سارے جہاں کے پروردگار پر ہے، اگر وہ چاہے۔(٢٦( علمی نگارشات میں، دینی خدمات میں امام احمد رضا کا ہر پل مصروف تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے: جو صاحب چاہیں اور جتنے دن چاہیں، فقیر کے یہاں اقامت فرمائیں۔ مہینہ دومہینہ، سال دو سال اور فقیر کا جو منٹ خالی دیکھیں یا جس وقت فقیر کو کوئی ذاتی کام کرتے دیکھیں، اسی وقت مواخذہ فرمائیں کہ تو اتنی دیر میں دوسرا کام کرسکتا تھا۔(٢٧( خود تو حُبِّ دنیا سے آزاد تھے ہی، اپنی اولاد، اپنے تلامذہ، مریدین، خلفائ، احباب اور احناف علماء کو اسی کی سخت تاکید و تلقین کرتے تھے۔ ایک ضروری ہدایت نامہ کا یہ حصہ دیکھیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ کبھی خدمت دینی کو کسبِ معیشت کا ذریعہ بنایا گیا، نہ احناف علماء شریعت یا برادرانِ طریقت کو ایسی ہدایت کی گئی، بلکہ تاکید اور سخت تاکید کی جاتی ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا تو درکنار، اشاعت و حمایت سنت میں جلب منفعت مالی کا خیال دل میں بھی نہ لائیں کہ ان کی خدمت خالصاً لوجہ اللہ ہو۔(٢٨( یہ تو نثر ہوئی، شاعری میں بھی سن لیجئے: کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو (٢٩( ان جزئیات سے امام احمد رضا کا جو چہرہ سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ان کے نزدیک دنیا غلیظ ہے، فاحشہ ہے۔ دنیا سے محبت کا مطلب غلاظت و فواحشات سے لو لگانا ہے جو دین و دانش کے قطعاً خلاف ہے۔ تم خدا کے آگے جھکو، دنیا تمہارے آگے خود بہ خود جھک جائے گی۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ، مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (سورہ طلاق( ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرے اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ اس لئے امام احمد رضا نے فقیر ی میں امیری کی، امیری میں فقیری نہیں، درویشی میں رئیسی کی، رئیسی میں درویشی نہیں۔ فقیری و درویشی وہ نہیں، جو شاہوں، نوابوں اور دین بیزار، دنیا پرست مالداروں، ساہوکاروں کی دریوزہ گری کرے۔ بلکہ عزت فقیری اور غیرت درویشی یہ ہے جس کی دہلیز پر وہ خود بخت خفتہ لے کر سر کے بل آئے اور بیدار بخت ہوکر جائے۔ یہ ہے امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے! حوالہ و حواشی 1. جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، ٢٠٠٥ء ، ٢/ ٢٤٨۔ نوٹ: شافعیوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ، مالکیوں کی تعداد چار کروڑ اور حنبلیوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔ یہ ایک عرب محقق کا سروے ہے جو انہوں نے چند سال قبل کیا تھا۔ (نفس مصدر( 2. جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی، ٢٠٠٥ء ، ١/٨٥۔ 3. محمد عیسیٰ رضوی، مولانا، قرطاس و قلم، ایڈوانس پرنٹنگ و پبلشنگ، دہلی، ٢٠٠٦ء ، ص:١٣۔ 4. غلام جابر شمس، ڈاکٹر، پروازِ خیال، ادارہ مسعودیہ، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ص:١٣۔ 5. محمد ظفر الدین، مولانا، حیات اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٢٠٨۔ 6. احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی،بمبئی، ١/٦٧۔ 7. محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٩٢۔ 8. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٣۔ 9. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٤۔ 10. ماہنامہ معارفِ رضا، کراچی، شمارہ اپریل ٢٠٠٢ء ، ص:١٦۔ 11. محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٥٦، ٥٧۔ 12. ہفت روزہ دبدبہء سکندری، رام پور، ٢٩/مارچ ١٩٢٠ء ۔ 13. عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرت امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء ، ص:٥٣۔ 14. عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء ، ص:٨٩۔ 15. عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء ، ص:٧٩۔ 16. احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٩/٥٧٤۔ )17الف) احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٩/٥٧٥۔ (ب) غلام جابر شمس، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ص:٢٢٠۔ 18. احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء ، ١١/٦٦٠۔ 19. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٦/١٧١۔ 20. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء ، ١١/٢٥٤۔ 21. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، ٢٠٠١ء ، ٢٠/٥٠٤۔ 22. احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ١٢/١٣٣۔ 23. القرآن، ٢٦/ ١٢٧۔ )24الف) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٤ء ، ٦/٥٦٢۔ (ب) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء ، ٣/٢٣٠۔ 25. غلام جابر شمس مصباحی، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیب رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء ، ٢/٢٨٥، ٣٨٦۔ )26الف) ماہنامہ الرضا بریلی، شمارہ ربیع الثانی ١٣٣٨ھ۔ (ب) کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ٢/٣٣٦، ٣٣٧۔ (ج) امام احمد رضا اور تصوف، از علامہ محمد احمد مصباحی، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ١٩٨٨ء ، ص: ٨٠، ٨١۔ 27. احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١/٨١۔ 28. محمود احمد قادری، مولانا، مکتوباتِ امام احمد رضا، ادارہء تحقیقاتِ امام احمد رضا، بمبئی، ١٩٩٠ئ، ص: ١٩٦۔ 29. محمد مصطفی رضا، الملفوظ، قادری کتاب گھر، بریلی، ٣/ ٢١۔
  15. Dear Alteejani please extract the files and paste the GIF or JPEG file.We cannat see anything from inpage file.
×
×
  • Create New...