Jump to content

Tayyib Qadri

اراکین
  • کل پوسٹس

    170
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    3

سب کچھ Tayyib Qadri نے پوسٹ کیا

  1. حضور اقدس کی اس حدیث سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے ذرا اس حدیث پر غور کیجئے إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک فأقول کما قال العبد الصالح وکنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني یہاں یہ بات صاف ہے کہ یہ ویسا ہی ایک اعتذار ہے جو کہ حضرت عیسیٰ نے رب تعالیٰ کے حضور پیش کیا تھا اور یہاں الفاظ و مفہوم میں کلیتا یکسانی نہیں پائی جاتی کیونکہ کما قال العبد الصالح میں کما پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ جملہ حرف ک کے ساتھ ہے جو کہ تشبیہ کے لیے آیا ہے اس میں دونوں چیزوں کی کلی مطابقت مراد نہیں ہوتی ،جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ انبیا میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه (جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے) اب ہر انسان کی پیدائش دنیا میں تو مرد و عورت کے ملاپ کے بعد ایک خاص طریقے سے ہوتی ہے تو اگر کما کے لفظ سے کلی مطابقت مقصود ہوتی تو پھر قیامت کے دن اللہ پاک سب کو اسی طرح سے پیدا فرمائیں گے جیسا کہ دنیا میں ہر انسان کی پیدائش ہوئی تھی۔اور ایسا ہے نہیں۔ ایسا مضمون قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔ پھر مرزا نے بھی تشبیہ کے بارے میں لکھا ہے "اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلا ایک بہادر انسان کو کہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے ۔"(خزائن ج ۳ ص ۱۳۸ حاشیہ) اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں اقول کما قال میں حرف تشبیہ ہے جس میں کلی مطابقت ہر گز نہیں بلکہ محض ایک جزو میں موافقت کی بنا پر حرف تشبیہ ذکر کر دیا گیا ہے، وہ ہے اعتذار اور قول۔ گویا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں ارشاد فرما یا ہے کہ میں بھی بسلسلہ عذر کہوں گا جیسا حضرت عیسیٰ کہیں گے،کہ عیسیٰ کی قوم میں ان کی عدم موجودگی کی صورت میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اس طرح میری امت میں خرابیاں واقع ہو گئیں میری عدم موجودگی میں۔اب یہاں اس سے بحث نہیں کہ غیر موجودگی کس طریقہ سے واقع ہوئی، طبعی وفات سے یا رفع الیٰ السما سے ، مبحوث عنہ فساد قوم ہے نہ کہ کیفیت غیر موجودگی۔
  2. قد خلت سورہ آل عمران سے قادیانیوں کے استدلال کئ ناکام کوشش
  3. حدیث میں بیان کردہ دو حلیوں کا جواب حلیوں میں تفاوت سے اگر آپ دو عیسیٰ مانتے ہیں پھر آپ کو دو موسیٰ بھی ماننے پریں گئے۔ پہلی حدیث ملاحطہ کیجے ترجمہ :حضرت موسیٰ گندمی رنگت قد لمبا ، گھونگرالے بال والے تھے جیسے یمن قبیلہ شنوہ کے لوگ (بخاری ج ۱ ص ۴۵۹) اور کتاب الالنبیا میں ایک اور حدیث ہے۔ ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام دبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوہ کے لوگ۔ (بخاری ج ۱ ص ۴۸۹) ایک اور حدیث میں حضرت موسیٰ گٹھیلے بدن کا کہا گیا ہے۔ لیکن درحقیقت ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہاں لفظ جعد استعمال ہوا ہے جس کے معنی گٹھلیے جسم کہ ہیں اور یہاں یہی معنی ٹھیک ہیں نہایہ ابن الاثیر میں مجمع البحار کے حوالے سے آیا ہے کہ حدیث میں موسیٰ و عیسی کے لیے جو لفظ جعد کا آیا ہے اس کے منعی بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نا کہ بالوں کا گھونگھرالے ہونا۔ ساتھ ہی ایک اور حدیث دیکھیے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو قسم کھا کر کہتے تھے کہ آنحضرت نے حضرت عیسیٰ کی صفت میں احمر( رنگ کا سرخ ہونا) کبھی نہیں فرمایا ۔(بخاری ج ۱ ص ۴۸۹) اس کا مطلب یہی ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا ایک رنگ تھا اور ان بال سیدھے تھے گھونگھرالے نہ تھے اس طرح اب ان حلیوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا
  4. إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ۔۱۱۶۔ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔۱۱۷۔ ترجمہ: اور جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا ۔میں نے کچھ نہیں کہا ان کو مگر جو تو نےحکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان میں رہار پوری آیت کا مفہوم تہ و بالا کرنے کی کوشش کی ہے ذار غور کیجئے اس سوال پر جو اللہ پاک بروز قیات حضرت عیسیٰ سے کریں گئے وہ سوال یہ ہے ۔]ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ (تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ) یعنی پوچھا حضرت عیسیٰ سے یہ جا رہا ہے کہ تم نے کہا کہ عیسائیوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ تم کو ان کے شرک کا علم تھا یا نہیں تھا، اور ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جا رہا کہ تم ان کے بگاڑ سے وقف ہو کہ نہیں ہو۔تو جو بات حضرت عیسیٰ سے پوچھی ہی نہیں جارہی اسی بات کے اوپراپنی پوری عمارت کھڑی کر رہے ہیں اور، جانے یہ ہو گا، وہ کہیں گئے، شرک کا علم ہے کہ نہیں ، کیا کیا اناپ شناپ بول جارہے ہیں؟ سوال بس اتنا ہے کہ کیا تم نے عیسائیوں کو میرے سوا معبود بنانے کو کہا تو اس جواب بھی یہی ہے کہ" تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا" یعنی یہاں اس بات سے براءت ہے حضرت عیسیٰ کی کہ میں نے تو یہ حکم ان کو دیا نہیں اور معبود تو جانتا کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔ اب بتائیے اس مکالمے میں یہ ساری باتیں کہاں سے آگئیں کہ شرک حضرت عیسی کے بعد ہوا یا پہلے ہوا وہ اس سے باخبر تھے یا نہیں تھے وغیرہ وغیرہ؟ ۲۔ اور اگر یہاں توفی سے مراد موت سے ہی کی جائے کہ حضرت عیسیٰ کو بذریعہ موت اہل فلسطین سے جدائی ہوئی اور بقول ۔ اب آج دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ عیسائی قوم شرک میں کئی صدیوں سے گرفتار ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ واضع طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں۔ اور اگر وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں تو پھر اس آیت کی رو سے ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی ابھی تک شرک میں گرفتار نہیں ہوئے "تو ایک اور بڑا خرابی قادیانیوں کے لیے ہو جاتی ہے کیوں کہ قادیانیوں کا صرف یہی مذہب نہیں کہ عیسائی توفی مسیح کے بعد بگڑے بلکہ ان کا یہ بھی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے اور ۱۲۰ برس تک زندہ رہے(تذکرۃ الشہادتین ص ۲۷۔ خزائن ج ۲۰ ص ۲۹) اور اس طرح کہ مرزا صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھےکہ بجائے خدا کی پرستش کےایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسیٰ خدا بنائے گئے(چشمہ معرفت ص ۲۵۴) اب اگر حضرت عیسیٰ کشمیر چلے گئے تھے اور ۱۲۰ برس تک زند ہی رہےا ور بقول مرزا کے انجیل کے تیس برس بعد ہی شرک پھیل گیا تب تو حضرت عیسیٰ کو اس شرک علم ہو گیا اب اگر یہ سوال جواب اس بارے میں تھا کہ حضرت عیسیٰ کو علم شرک تھا کہ نہیں تھا تو اب تو قادیانیوں کے مطابق تو انہیںعلم شرک تھا لہذا وہ کیسے خدا کے سامنے اپنی لا علمی کا اظہار کر سکتے ہیں؟ ے
  5. تفوفیتنی ، توفی، وفاۃ وغیرہ یہ سب الفاظ مشتق ہیں وفا سےاور اس لفظ کے لغوی معنی ہیں پورا کرنے کے۔یہ مادہ خواہ کسی شکل و ہیئت میں ظاہر ہو،کمال و اتمام کے معنی کو ضرور لیے ہوئے ہو گا۔وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم (تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔بقرہ ۴۰)۔ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُم]ْ(اور ناپ تول کر دو تو پورا ناپو)اسراء۔۳۵۔ يُوْفُوْنَ بِالنَّذْر(پورا کرتے ہیں منت کو)دہر۔۷ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَة (اور تم کو پورے بدلے ملیں گے قیامت کے دن)۔آل عمران ۔۱۸۵ اور لفظ توفی جو اسی مادہ وفا سے مشتق ہے اس کے حقیقی معنی و اخذ الشئی وافیا کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پوارا پورا لے لینا۔یہی وجہ ہے کہ مجازا توفی سے مراد موت بھی لی جاتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہےاتمام عمر یعنی عمر کا پورا ہوجانا اور جس کا نتیجہ موت ہوتی ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے ۔توفي الميت: استيفاء مدته التي وفيت له وعدد أيامه وشھورہ و عوامہ فی الدنیا یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پورا کرنا اور اس کی دنیوی زندگی کے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے کہ فلا بزرگ کا وصال یا انتقال ہو گیا اب وصال کے معنی ملنے کے ہیں اور انتقال کے معنی منتقل ہوجانے کے ہیں۔ لیکن کیا وصال اور انتقال ،موت کے علاوہ دیگر معنوں میں استعمال نہیں ہوتے ۔کیا وصال صنم اور انتقال وراثت بھی اردو میں عام نہیں ہیں؟ بالکل ایسے ہی توفی کے مجازی معنی موت کے ہیں لیکن یہ لفظ دیگر معنوں میں بھی خوب استعال ہوتا ہے ۔ خود اگر قرآن مجید پر ہی غور کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ دیگر معنیوں میں بھی آیا ہے۔مثلا آیت نمبر ۱۔ اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّ۔۔قَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ترجمہ:اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔ کیا اس آیت شریفہ سے صاف ظاہر نہیں ہورہا کہ توفی ، موت سے الگ کوئی چیز ہے ۔جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور کبھی نیند کے ساتھ۔اور جن لوگوں کی موت کا حکم نہیں ہوتا توفی کے بعد بھی وہ زندہ رہتے ہیں؟ آیت نمبر۲۔وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ ترجمہ: اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ۔(انعام ۶۰) غور کیجے کہ اس مقام پر بھی توفی نیند کے معنوںمیں استعمال ہورہا ہے موت کے معنوں میں نہی
  6. اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ۔بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِ۔يْمًا اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بےشک بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا(سورہ نسا ۔۱۵۷۔۱۵۸) یہود کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا (نعوذ باللہ) یہاں اللہ پاک نے یہود کہ اس قول کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کریدی اور ما قتلوہ اور ما صلبوہ کہ کر ان کے قتل مطلق کی نفی فرما دی اور یہ فرما دیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ، بلکہ اللہ نے اٹھا الیا اس کو اپنی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو موت سے بچا کر اوپر آسمانوں میں اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔ ۱۔ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔ ۲۔ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ کیوں کہ قتل و صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے اپنی طرف اٹھا لیا۔یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔مثلا ۱۔ علامہ ابن جریر طبری تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت سدی سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔نیز حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں سیدنا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔(جامع البیان جز ۶ص ۱۴،۱۵)۲۔علامہ ابن کثیر حضرت مجاہد کی روایت کو یوں نقل فرمایا ہے"یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھاصلیب پر لٹکایاجبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔(ج۳ص۱۲)۳۔اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا مثال۱۔ رفع جسمانی و رفع ابویہ علی العرش (یوسف ۱۰۰) اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔ ۲۔ رفع ذکر و رفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔ ۳۔ رفع درجات ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت(الزخرف ۳۲) اور بلند کر دیئے درجے بعض کے بعض پر ۔ اب یہاں جیسی شے ہے ویسے ہی اس کے مناسب رفع کی قید ہے جیسا کہ آخر میں خود ذکر و درجے کی قید موجود ہے۔ رفع کی مذکورہ تعریف اور مثالوں سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا کہ قرآن میں جہاں کہیں رفع آئے گا وہ روحانی یا درجات کا ہی رفع ہوا گا محض ایک جہالت کی بات ہ۔ ۔ یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں آسمان کا لفظ تو نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کواوپر آسمانوں کی طرف اٹھا یا ہو کیونکہ اللہ پاک تو ہر جگہ موجود ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اللہ رب العزت کے لیے فوق و علو ہے ،گو کہ وہ جہت و مکان سے منزہ ہے لیکن انسانی تفہیم کے لیے اور کسی جہت و جگہ کی تکریم کے لیےاس نے اسے اپنی طرف منسوب بھی فرمایا ہے، انہی معنوں میں قرآن میں کہا گیا ہے: [ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْر(سورہ ملک ۱۶) ترجمہ: کیا تم اس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ لرزنے لگے۔ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْر(سورہ ملک ۱۷) کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔(مرزا بشیر الدین نے ام امنتم من فی السما کا ترجمہ آسمان میں رہنے والی ہستی سے کیا ہے۔تفسیر صغیر ص ۷۶۰) اسیا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف دیکھا کرتےتھے۔ قَدْ نَرٰى تَ۔قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ(بقرہ ۱۴۴) ترجمہ: بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔ نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمایئے۔ وعن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ " . رواه أبو داود (بحوالہ مشکوٰۃ حدیث ج۲ نمبر ۳۴) ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما " (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ ( ابوداؤد ) نیز مزے کی بات یہ ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔ "رافعک کے معنی یہی معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکےتو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی (ازالہ اوہام ص ۲۶۶، خزائن ج۳ص۲۳۴)۔ نیز حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کرآسمانوں پر جا بیٹھے۔(حاشیہ براہیں احمدیہ ص ۳۶۱، خزائن ج۱ ص ۴۳۱)۔نیز مرزا نے مزید لکھا ہے کہ"شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہےایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہےاور دوسری طرف شیطان کی اور بہت نیچی ہےاور اس کا انتہا زمین کا پاتال۔غرض یہ کہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہم مسئلہ ہےکہ مومن مر کر خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔تحفہ گولڑویہ ص ۱۴) گویا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئےقادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ رفع آسمانوں کی طر ف ہوا یعنی جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہاں حالت رفع میں ہے جس کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔چنانچہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا کہ معنی یہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ (معارج ۴)چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح ۔ (اس کی طرف یعنی اللہ کیطرف) سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف چڑھتے ہی
  7. Azan e maghrib and ISha sun kur dil khush ho gaya ..jub china main Azan se 2 minutes pehlay ...Moazun naye Mazaar Sharif pur Aslato waslamua likya YA RASOOL ALLAH ki sada bulund ki
  8. http://www.youtube.com/watch?v=R4V8Kcs09LI Iss video main ek minaar nazar aa raha hai..yeh beautiful MINAAR...munazra e jhang ki yaad gar kay torr pur tamer kiya gaya hai...jo kay molvi haq nawaz jhangi ki masjid kay bilkul samnay aaj bhi inn ko in ki ibrat naak shikast yaad dila raha hai..".Minar e munazra e jhang".....special thanks to sheikh waqas akram ..M.N.A of jhang jinho naye iss ki tamer ka tamam kharcha uthya.. aaj bhi hur 27th august ko jhang mian azeem u shan fath e mubeen conf. munaqid hoti hai...jis se ullama e ahlesunnat khitab farmatay hain aur ahl e jhang josh o kharosh kay saath iss salana jalsa main sharek hotay hain....jub kay sath mian hee deobandi markaz main saf e matam bichi hoti hai..... jiasa kay yeh kehtay hain kay hum halka sa haar gaye thay .. ... tou yeh apna halka sa hee fatah ka jashan kyun nhn manatya ..aur inn ki fatah ki halki siii bhi nishani sur zameen e jhang pur nhn hai....balkay inn kay maktba saye iss munazra ki audio recording tuk bhi nhn milti.... pic. of ALLAMA saeed ahmad asad shb...delivering speech on the memorial victory of ahle sunnat in fath e mubeen conf.
  9. IS Hadith mubarka pur wahbiyon ka jahilana aitraz dekh kur baye sakhta sher yad aa gaya kay.... uljha hai paon yar ka zulf e daraz main lo aap apnay daam main sayad aa gaya.... kya inn aqal saye pedal nam nihad Ahle Hadith logon ko iss haidith main wazeh yeh alfaz nazar nhn aye kay...."tum bata do nhn tou woh bareek been khabrardar mujhay khabar daye ga" ... .... abb kya yeh Allah azwajal ki kahbar farmana ilm e gahib na hota???aur Allhumdu lillah hum suniyon ka aqeeda hai kay Wahi ka nazool bhi hamray payary AQA HAZRAT MUHAMMAD SALLAH LA HO ALEH WASALAM kay ghaib ka zariya hai....tou aye aqal kay andho iss hadith main tou ilm e ghaib ki nafi nhn balkay dalel hai......kyun kay khabar bhi ilm ka ek zariya hai.....abb yeh ahle wahabiya chaye isaye khabr e ghaib kahain ya ilm e ghaib....kyun kay in jahilon ki aqal mian yeh baat parnay wali nhn hai..kay..... khabar bhi ilm ka zariya hai ...jis kay pass ilm ho woh hee khabar daye sakta hai aur jo khabar daye sakta hai zahri bat hai us kay pass ilm hota hai..... inn aqal kay andhon ko ulta nazar atta hai....
  10. Jaisa kay main naye pehlay kaha tha kay jhoot bolna aur na mukmal hawalay dena deobandi khameer main shamil hai. Maulana ashraf sialvi shb. naye yeh jo kuch likha hai woh tafseer rohu biyan ka hawala hai. Ashraf sialvi shb. tafseer rohul biyan ki ibarat naqal kur kay uss ka tarjma kur rahay hain. tou iss sorat main yeh jo bakwas deobandi kuton naye Ashraf sialvi shb. kay baray mian ki hai iss ki zud main Sahib e tafseer rohul bayan allama ismail ko anna chye tha.Aur deobandiyon ka nishana Shib e tafseer rohul biyan ko hona chye tha na ka Allama ashraf sialvi shb. ko ...unho naye to mehz tafseer rohul bayan ki ibarat naqal kur kay apni kitab main likhi hai.....Aap yeh ibarat tasfeer rhul bayan....vloume 4 page number 297-298 pur dekh saktay hain.... Inn deobandiyon ko tou himat na hoi kay woh sialvi shb ki kitab ka pora page scan kur kay lagatay...magar hum yeh pori ibarat asharf sialvi shb. ki kitab saye scan kur kay laga rahay hain.
  11. Hazrat Allama sheikh ul hadith maulana muhammad ashraf sialvi shb. naye iss kitab main kisi qisam ki koi gustakhi nhn ki..balkay guskatkhon ka rud kiya hai....kuch deobandi nazubillah Hazrat bibi Zulekha ka Hazart Yousaf ALLEHSALAM kay nikah ka inkar kur rahay thay..aur Hzrat bibi Zulaekha pur zaniya honay ki tohmut laga rahay thay...tou un kay jawab main Maulana asharf sialvi shb. naye yeh kitab likhi hai...aur un ka rud farmay hai......iss main kya guskatki hai.......????kash kay inn ko yeh kitab khol kur parh lainay ki toufeq ho jati...aur tasub ki pati ankhon saye utar kur dekhtay kay Sialvi shb. inn gustakhon ka rid farma rahay hain...na kay khud gustakhi kay murtqib hoay hain......jaisay kay aap ager ghor saye kitab kay title ko dekhain tou Hazrat bibi ZULEKHA kay sath RadiALLAh ho Talla anha likha hai.....
  12. "وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر" Chonkay in shaitan kay chaelon ki yeh porani adat hai kay Ullam e Ahlesunnat ki kitabon mian saye kaant chaant kur ibartain nikaltay hain....laihaza inn ki yeh ek aur khiyanat koi bari baat nhn hai......aap khateeb e Pakistan maulana Muhammad shafi okarvi Rahmtullah aleh ki kitab main yeh ibarat aur yeh sher dekhain tou aap ko andaza ho jaye ga kay yahan bhi inn jhotay makaron nay kis tarhan apnay kizab pur mohre tasdiq lagai hai,,,,jin kay mazhab main Khuda AZAWAJAL jhoot bol sakta hai un saye sach ki umeed rakhna nadani hai,,,,,Maulana shafi Okarvi apni kitab main yeh sher likh kur ullama e deoband saye mutalba kuch inn alfaz main kur rahay hain....."yeh ya iss qisam kay ashar jo aqeeda e iman ki rou saye sara sur ghalat hain,un ki nisbat ullama e ahlesunnat(barelvi)ki taraf ki jati hai halnkay ullama e ahlesunnat naye bar ha inn ki tardeed kay sath mutalba kiya hai kay batao yeh sher kis allam e ahlesunnat naye kahay hain,ya yeh kis kitab main hain???"(taruf ullama e deoband 9)...... kya kisi shaitan kay chelay, jhotay, kawa khor deobandi ko yeh himat ho sakti hai kay woh Maulana shafi okarvi shb. ki kitab ka yeh page scan kur kay apni sadaqt bayan kur sakay??????
  13. Tayyib Qadri

    bil unwan.....

    according to b.b.c urdu news..... ادھر سندھ کے ضلع خیرپور میں مذہبی تصادم کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے ہیں اور پولیس نے لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عید میلادالنبی کے حوالے سے سندھ کے ضلع خیرپورشہر میں سپاہِ صحابہ کا جلوس جیسے ہی ختم ہوا تو شیعہ علاقہ نئوگوٹھ سے ان پر فائرنگ کی گئی جس پر جوابی فائرنگ بھی ہوئی۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2...ension_zs.shtml
  14. jee bilkul sahi kaha pakistan cricket team kay players bhi MAULANA ilyas qadri sahib say bait ho chokay hain..ap ya news is link per parh saktay hain http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?p...-1-2008_pg12_10
  15. السلام علیکم ! آپ کو اس لنک پر احادیث کی کتب کا اردو ترجمہ اور مل جائے گا اور مترجم کے نام بھی ھیں۔۔والسلام http://www.alahazratnetwork.org/modules/kn...hp?categoryid=3
  16. junab ap nay bhi shyad us kitab ko ghor say nahin parha...us main saf wazahat majood hay k alahazrat nay ismail dehlvi ko kafir kyun nahin kaha aur ullama e mohtateen ko usay kafir kahnay say kyun mana farmaya hay..jawab to lagta hay kay ap kay pas nahin hay jo usi baa ko repeat kar diya hay....
  17. juanb shia kafir sahib ap ki is baat ka jawab mohtram khalil rana sahib pehlay is firum per day chukay hain.....mazeed ya book parh lain..aur apni kam ilmi ka matam karain./...waslam
  18. ...brother nice images...wasay ek shurf hasil hay samjha kay ap logon say bayan kar don........kay ya DATA sahib ra darba project ALLHAMDULILAH mera abu ko mukamal karnay ka shurf hasil hoa ..aur woh is kay project manager thay.......
  19. you can read this news from this link... http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/st...stival_ka.shtml
×
×
  • Create New...