Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'نہیں'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. قبروں والے سن سکتے ہیں یا نہیں ✍️نجدیوں کی پیش کردہ آیت کی تفسیر : غلط فہمیوں کا ازالہ سوال! وہابی یہ آیت پیش کرتے ہیں اس کی وضاحت کر دیں؟ قبروں والے سن نہیں سکتے وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَؕ(۲۰) اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَۙ-اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠(۲۱) مردے ہیں زندہ یں، انہیں تو بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے 📖سورة نحل۲۱۲۰)۔ الجواب بعون الوہاب وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ! ✍️پہلی بات یہ آیت کفار اور ان کے بتوں کے متعلق اتری ہے۔ ✍️ایک نشانی خارجیوں ہے کہ بتوں اور کفار کے بارے میں اتری آیات مسلمانوں پر چسپاں کریں گے۔ ✍️جب یہ لوگ یہ کام کریں تو فوراََ سے سمجھ جایا کریں۔ 📖✍️✍️صحیح بخاری میں حدیث ہے3979۔مفہوم حدیث توجہ دلانا مقصد ہے۔ جب نبی علیہ السلام ایک کنویں کے پاس تھے مردہ یعنی مرے ہوؤں سے مخاطب ہوۓ آپ۔ تو آپ نے فرمایا کہ: جو کچھ میں کہے رہا ہوں یہ، یہ اسے سن رہے ہیں. 📖مشکوۃ 3967 ✍️ اب آتے ہیں پیش کردہ آیات کی طرف✍️ أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ 📖( سورۃ النحل20) ترجمہ: اور وہ جن غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ✍️ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیساکہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔ 📖تفسیر بیضاوی،جلالین، ابو سعود۔روح البیان. ✍️علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ 📖تفسیر روح البیان ✍️ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔ 📖تفسیر سمرقندی ✍️ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے۔ 📖تفسیرکبیر20 2: اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ‌ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ. 📖سورۃ النحل21 ترجمہ: وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ’’یہ بت جن کی اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں، ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ 📖تفسیر ابن ابی حاتم. 📖تفسیر طبری. انہی بزرگوں کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ا س آیت کی یہی تفسیر دُرِّ منثور میں رقم فرمائی 📖در منثور، النحل امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں ، زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور ، بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ 📖تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱ امام علی بن محمد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ بت معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں زندہ نہیں لہٰذا یہ عبادت کے مستحق نہیں ۔ 📖تفسیر خازن النحل٢١ اس آیت میں ’’اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ‘‘سے مراد بت ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 22.08.2021. 13محرم الحرام 1443
  2. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــــوئــــی ایـســا گـھـر نـہـیـں جـس کـــے دروازے پـــر مـلــک المــوت عــلیـــہ الســــلام دن میـــــں پـانـچ مـــرتــبـــہ نــــہ آتـــا ہــــو اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے ہر بندہ انٹرنیٹ سے مواد اٹھا کر شیئر کرتا ہے بس لوگوں کو نئے نئے واقعات ملنے چاہئیں وہ ان واقعات کی تحقیق بھی نہیں کرتے اور اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لئے جہنم بنا رہے ہیں اسی طرح ایک یہ روایت بھی ہم تک تحقیق کرنے کے لئے پہنچی کہ نبی ﷺ کی طرف منسوب ہے کوئی ایسا گھر نہیں جس کے دروازے پر موت کا فرشتہ دن میں پانچ مرتبہ نہ آتا ہو جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کا رزق پورا ہوگیا تو اس پر موت کا غم ڈال دیتا ہے اور اس پر موت کی وحشت چھا جاتی ہے اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے اس کے گھر والے اس کے ماتم میں اپنے بال کھول دیتے ہیں اپنے چہرے پیٹ کر سرخ کر دیتے ہیں اس مصیبت پر چیخ و پکار کر رہے ہوتے ہیں فرشتہ مرگ کہتا ہے ہلاکت ہو تم پر کیسا خوف اور کیسا غم میں نے تم میں سے کسی کا رزق تو کم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کی موت قریب کی میں تو اسی وقت کسی کے پاس آتا ہوں جب اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے حضور کی طرف منسوب ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر یہ اسے کھڑا دیکھ لیں اور اس کی باتیں سن لیں تو اپنے مردے کو بھول جائیں اور خود رونے لگیں الخ یہ وہ روایت ہے جو بڑا مرچ مصالحے کے ساتھ واٹس اپ گروپس میں بھی شیئر کی جاتی ہے اور انٹرنیٹ کی ویب سائٹس پر بھی موجود ہے آئیے اس کی تحقیق کرتے ہیں ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ روایــت کـــی تحـقیــق درج ذیـــل ہـــے اس جھوٹے قصے کو گھڑنے والا شخص ابن وَدْعَان (المتوفى: 494هـ) ہے جس کا پورا نام محمد بن علي الودعاني ہے یہ خود تو متہم بالکذب ہے مگر اس نے چالیس روایات پر مشتمل ایک نسخہ گڑھا جس کی تصریح امام الائمہ و المسلمین امام ابن حجرعسقلانیؒ نے اور امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے کی پہلے اس کے نسخے کی روایت ملاحظہ ہو جو اس نے اپنی سند سے نکل کی حدثنا الحسن بن محمد بن جعفر الصوفي البغدادي رحمه الله قال: حدثنا القاضي أبو جعفر أحمد بن عبد الله قال:حدثنا أبي قال: حدثنا عبد الله بن مسلم بن قتيبة قال: حدثنا يحيى بن أيوب قال: حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من بيت إلا وملك الموت يقف على بابه في اليوم خمس مرات فإذا وجد الإنسان قد نفد أكله وانقطع أجله ألقى عليه الموت فغشيه كرباته وعمرته علزاته فمن أهل بيته الناشرة شعرها والضاربة وجهها والباكية لشجوها والصارخة قولها، فيقول ملك الموت عليه السلام ويلكم مم الفزع ومم الجزع فما أذهبت لواحد منكم رزقا ولا قربت له أجلا ولا أتيته حتى أمرت ولا قبضت روحه حتى إستأذنت وإن لي فيكم عودة ثم عودة حتى لا يبقى منكم أحدا قال النبي صلى الله عليه وسلم فوالذي نفس محمد بيده لو يرون مكانه ويسمعون كلامه لذهلوا عن ميتهم ولبكوا على أنفسهم حتى إذا أحمل الميت على نعشه رفرفت روحه فوق النعش وهو يناجي أهله ويا ولدي لا تلعبن بكم الدنيا كما لعبت بي، جمعت المال من حله ومن غير حله ثم خلفته لغيري،فالهناة له والتبعة على فا حذروا مثل ما حل بي كتاب الأربعون الودعانية لابن ودعان ص41📓 ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس شخص اور اس کے اس گڑھے ہوئے نسخے کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کیا فرماتے ہیں امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں محمد بن علي بن ودعان القاضي، أبو نصر الموصلي، صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي، وأدركه، وسمع منه، وقال: هالك متهم بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے كتاب ميزان الاعتدال 3/658📒 امام الائمہ المسلمین الشیخ اکبر امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب لسان المیزان میں اس کے ترجمے میں یہی کلام نقل کیا محمد بن علي بن ودعان القاضي أبو نصر الموصلي صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي وادركه وسمع منه وقال هالك متهم بالكذب وقال ابن ناصر رأيته ولم أسمع منه لأنه كان متهما بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے مزید فرماتے ہیں ابن نصر کہتے ہیں میں نے اسے دیکھا مگر میں نے اس سے سماع نہیں کیا کیونکہ اس پر جھوٹا ہونے کا الزام ہے كتاب لسان الميزان 5/305📙 علامہ شمس الدين ابن الغزيؒ نے اپنی كتاب ديوان الإسلام میں فرمایا ابن ودعان: محمد بن علي بن أحمد فخر القضاء أبو نصر الموصلي المتهم بالكذب كتاب ديوان الإسلام 4/385📕 امام ابن کثیرؒ بھی البدایہ والنہایہ میں اس کے ترجمہ میں اس نسخے کے بارے میں کہتے ہیں وهي موضوعة كلها وإن كان في بعضها معان صحيحة ترجمہ: اس نسخے میں تمام روایات من گھڑت ہیں اگرچہ ان میں سے بعض کے معنی درست ہیں كتاب البداية والنهاية ط هجر 16/179📔 ◉➻═════════════➻◉ ان تمام ائمہ کرامؒ کی تصریحات سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اس گھڑے ہوئے نسخے میں جو چالیس روایات ہیں وہ موضوع ہیں اور خود اس نسخہ کو اپنی سند سے نکل کرنے والا جو شخص ہے اس کو بھی محدثین نے متہم بالکذب کہا مگر اب جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نسخہ اس نے گھڑا ہے تو یہ راوی کذاب اور واضع الحدیث ثابت ہوگیا ہے جہاں تک بات رہی مذکورہ روایت کی تو اس کی کوئی متابعت مجھے نہیں ملی اور اس کی سند کو نقل کرنے والا وہی شخص ہے جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ہے اور وہ اس نسخے میں اس کو نقل کر رہا ہے جس نسخے کے لئے ائمہ کرام کا کلام ہے کہ وہ گھڑا ہوا ہے لہذا ائمہ کرام کے کلام اور تصریحات سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ روایت موضوع ہے اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت وجماعت محمد عاقب حسین رضوی
  3. Sunni Haideri

    امت شرک نہیں کرے گی

    ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) :( المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
×
×
  • Create New...