Jump to content

Aashiq Koun

اراکین
  • کل پوسٹس

    158
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

سب کچھ Aashiq Koun نے پوسٹ کیا

  1. (((ابو خالد نور گرجاکھی ٖغیر مقلد اور اس کے جھوٹ)))) غیر مقلد لوگوں کو اپنی طرف لانے اور فقہ حنفی سے بدظن کرنے کے لئے ہمیشہ دھوکہ دیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے قرآن اور حدیث کے نام پہ احادیث کی کتابوں کے غلط حوالے پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ عوام کی ان کتابوں تک رسائی نہیں ہے اس لئے عوام ان کے حوالے پڑھ کر یا سن کر یہ سجمھتی ہے کہ ان کا ہر مسئلہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور یہ حدیثوں پہ عمل کرتے ہیں جبکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ان کے اکثر حوالے یا تو ادھورے ہوتے ہیں یا غلط۔ غیر مقلد عالم ابو خالد نور گرجاکھی نے رفع یدین کے موضوع پہ ایک کتاب لکھی جس کا نام '' اثباتِ رفع یدین'' ہے لیکن اس کتاب میں بھی اس نے غیر مقلدین کی روش اختیار کی اور احادیث کی کتابوں کی طرف غلط حوالے منسوب کئے۔ ابو خالد نور گرجاکھی نے اپنی کتاب '' اثبات رفع یدین'' کے صفحہ 28 پہ ایک حدیث حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔ جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کا مقصد رفع یدین کو ثابت کرنا تھا لیکن اس نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس روایت میں الفاظ اپنی طرف سے شامل کئے اور نہ صرف الفاظ شامل کئے بلکہ اس روایت کو حدیث کی 8 کتابوں کی طرف منسوب کیا جن کتابوں میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے یہاں اس نے ایک تو حدیث کے الفاظ تبدیل کئے دوسرا احادیث کی کتابوں کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔ ((اس نے روایت بیان کی کہ ''عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قال قلت لانظرن إلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كيف يصلي قال فنظرت إليہ قام فكبر ورفع يديہ حتى حاذتا أذنيہ ثم وضع يده اليمنى علیٰ الیسری علی صدرہ فلما اراد ان یرکع رفع یدیہ مثلہ فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ مثلھا (رواہ احمد) ( اثبات رفع یدین، صفحہ 28) ترجمہ ''سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں رسول اللہ ﷺ نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب آپ ﷺ اللہ اکبر کہتے تو رفع یدین کرتے اور سینہ پہ ہاتھ رکھ لیتے تھے پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ بحوالہ ، صحیح مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد، بہیقی، دار قطنی، سنن الدارمی، جز بخاری، مسند احمد، کتاب الام، جز سبکی، مشکوۃ۔))) اس روایت میں شاید نورگرجاکھی غیر مقلد نے سوچا کہ رفع یدین کے ساتھ ساتھ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کا مسئلہ بھی بیان کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ نبی کریم ﷺ سینہ پہ ہاتھ باندھتے تھے اس لئے اس نے '' علیٰ صدرہ'' یعنی '' سینہ پہ ہاتھ باندھنا'' کے الفاظ اپنی طرف سے ملا لئے۔ دوسر اس نے نیچے احادیث کی مشہور10 کتابوں کے حوالے بھی دے دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ رفع یدین اور سینہ پہ ہاتھ باندھنے کا مسئلہ صحیح مسلم اور باقی احادیث کی کتبس ے ثابت ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ نور گرجاکھی نے یہ روایت بیان کی ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ان میں سے کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ بعض کتابوں میں اس روایت میں علیٰ صدرہ کےا لفاظ نہیں ہیں اور کئی کتابوں میں تو یہ حدیث ہی موجود نہیں ہے بلکہ وہاں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی کوئی اور حدیث بیان ہوئی ہے۔ نور گرجاکھی نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ان پہ نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے۔ 2۔سنن ابن ماجہ میں '' علیٰ صدرہ'' لے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ 3۔سنن الدارمی میں یہ روایت ہی موجود نہیں ہے۔ 4۔سنن ابو داؤد میں بھی یہ روایت موجود نہیں ہے۔ 5۔ امام بخاری کی کتاب جز بخاری میں اس روایت میں '' علیٰ صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ 6۔سنن کبری بہیقی میں بھی '' علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ 7۔سنن دار قطنی میں یہ روایت موجود نہیں لیکن حاشیہ میں حاشیہ لکھنے والے نے یہ روایت بیان کی لیکن اس میں بھی ہاتھ باندھنے کا ذکر ہی نہیں ہے۔ 8۔مسند احمد میں بھی '' علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ 9۔امام شافعی رح کی کتاب الام میں یہ روایت نہیں ہے لیکن کتاب الام کے محقق نے حاشیہ میں مسند حمیدی سے یہ روایت بیان کی لیکن اس میں بھی ''علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ 10۔مشکوۃ المصابیح میں بھی یہ روایت موجود نہیں اور وہاں جو روایت وائل بن حجر رضی اللہ سے موجود ہے اس میں ''علی صدرہ" کے الفاظ نہیں ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ نور گرجاکھی نے احادیث کی 10 کتابوں کی طرف جھوٹ منسوب کیا ہے۔ میں آپ کے سامنے نور گرجاکھی کے ہی بیان کی گئی احادیث کی کتابوں کے صفحات پیش کرتا ہوں جن کتابوں کا نور گرجاکھی نے حوالہ دیا ہے کہ یہ روایت ان کتابوں میں موجود ہے۔ قارئیں خود فیصلہ کر لیں کہ نور گرجاکھی نے کتنا بڑا جھوٹ ان احادیث کی کتابوں کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث میں الفاظ کی ملاوٹ بھی کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مقلد کہہ دے کہ '' علیٰ صدرہ'' کا لفظ غلطی سے کتابت کی وجہ سے پرنٹ ہو گیا ہے تو ان غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر '' علیٰ صدرہ'' کا لفظ غلطی سے پرنٹ ہوا ہے تو تمہارے اس عالم نے روایت میں اس لفظ کا ترجمہ '' سینہ پہ ہاتھ باندھا'' کیسے بیان کر دیا؟؟؟؟ نور گرجاکھی نے لفظ بیان کرنے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی بیان کیا اور یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ روایت میں یہ لفظ اس غیر مقلد نے خود ملائے ہیں۔ اگر کسی غیر مقلد کو ان کتابوں میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ملے تو برائے مہربانی اس کا اصل صفحہ کا سکین لگا دے تا کہ مجھے اور سب کو پتہ چل سکے کہ یہ روایت موجود ہے۔ غلام خاتم النبیین ﷺ محسن اقبال
  2. سینے پہ ہاتھ باندھنا غیر مقلدین کا مشہور مسئلہ ہے لیکن اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے غیر مقلدین کتنا جھوٹ بولتے ہیں یہ آپ کے سامنے پیشِ خدمت ہے۔ غیر مقلدین کے ایک عالم داؤد ارشد نے بریلوی عالم احمد یار نعیمی کی ایک کتاب جاءالحق کے جواب میں کتاب لکھی جس کا نام دین الحق بجواب جاء الحق ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ مشہور غیر مقلد یحیی گوندلوی نے لکھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی تعریف موجودہ دور کے مشہور غیر مقلد علامہ مبشر احمد ربانی نے بھی کی ہے۔ اس کتاب میں سینے پہ ہاتھ باندھنے کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے داؤد ارشد صاحب نے کئی جھوٹ بولے۔ انہوں نے ایک روایت پیش کی حضرت ھلب رضی اللہ عنہ سے اور لکھتے ہیں کہ ''رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ،ويَضَعُ یدهُ عَلَى صَدْرِهِ۔ مسند امام احمد،ج5، صفحہ 226۔" میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ نماز کے اختتام پہ دائیں اور بائیں سلام پھیرتے اور نماز میں سینہ پہ ہاتھ رکھتے تھے۔ ( دین الحق بجواب جاءالحق، مصنف داؤد ارشد، صفحہ 217) داؤد صاحب نے حوالہ دیا مسند امام احمد کا لیکن انہوں نےخیانت کرتے ہوئے روایت کے الفاظ تبدیل کر دئیے۔ مسند امام احمد میں حضرت ھلب رضی اللہ کی یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہے جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے بیان کی ہے۔ مسند امام احمد کی روایت یہ ہے کہ"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سُفْيَانَ , حَدَّثَنِي سِمَاكٌ , عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ , وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " , وَصَفَّ يَحْيَى : الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ "۔ ( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ھلب طائی رضی اللہ عنہ) سب سے پہلے تو اس روایت میں نماز کے الفاظ ہی نہیں ہیں جبکہ داؤد صاحب نے ترجمہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اس میں نماز کے الفاظ شامل کر دئیے اس کے علاوہ داؤد صاحب نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لئے خیانت یہ کی کہ اس روایت سے (وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " , وَصَفَّ يَحْيَى : الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ ") یہ الفاظ نکال دئیے اور اس کے علاوہ لفظ "هَذِهِ" کو "یدهُ" سے تبدیل کر دیا،اس طرح یہ پوری روایت ہی تبدیل ہو گئی۔ اور یہ خیانت صرف یہاں تک ہی نہیں کی بلکہ اس روایت کو پیش کرتے ہوئے داؤد صاحب نے سند بیان ہی نہیں کی اور روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بھی امام ترمذی اور علامہ نیموی حنفی رح کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔ داؤد صاحب لکھتے ہیں کہ '' امام ترمذی اور علامہ نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے" ( دین الحق بجواب جاء الحق، صفحہ 218) سب سے پہلے تو ترمذی میں ھلب رضی اللہ سے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہی نہیں ہے جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے اپنی کتاب دین الحق میں پیش کی ہے اور اس کے علاوہ امام ترمذی نے ھلب رضی اللہ کی جس حدیث کو حسن کہا ہے اس کی سند بھی مختلف ہے۔ تو داؤد صاحب نے یہاں امام ترمذی کی طرف جھوٹ کی نسبت کی۔ اس کے علاوہ علامہ نیموی کا حوالہ دیا کہ انہوں نے آثار السنن میں اس روایت کو حسن تسلیم کیا ہے لیکن یہاں بھی داؤد صاحب نے غیر مقلدین کی روش پہ چلتے ہوئے خیانت کر دی۔ داؤد صاحب نے علامہ نیموی کا مکمل حوالہ پیش ہی نہیں کیا بلکہ آدھا حوالہ پیش کیا ہے اور باقی آدھا حوالہ چھوڑ دیا کیونکہ اگر اس حوالے کو مکمل پیش کرتے تو اس روایت کی حقیقت سب کے سامنے آ جاتی۔ علامہ نیموی حنفیؒ نے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان ہی نہیں کی جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے پیش کی۔ علامہ نیموی نے یہ روایت مسند احمد سے پیش کی اور مسند احمد کی روایت کی سند کو حسن تسلیم کیا لیکن اس کے ساتھ آگے وضاحت کی کہ مسند احمد کی اس روایت کی سند میں ''عَلَى صَدْرِهِ " کے الفاظ غیر محفوظ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس روایت کی سند حسن ہے لیکن اس روایت میں "سینے پہ ہاتھ باندھنے کے الفاظ'' غیر محفوظ ہیں۔ (آثار السنن،علامہ نیموی، صفحہ 107،108) لیکن داؤد ارشد صاحب نے خیانت کرتے ہوئے صرف اتنا بیان کیا کہ اس روایت کی سند حسن ہے اور آگے کا حوالہ چھوڑ دیا۔ غیر مقلدین کے مولانا داؤد ارشد صاحب مراسیل ابو داؤد سے ایک روایت بیان کر کے لکھتے ہیں کہ "اس کی سند امام طاؤس تک بلکل صحیح ہے'' (دین الحق بجواب جاء الحق، جلد 1 ، صفحہ 218) یہ داؤد ارشد صاحب کا جھوٹ ہے کہ اس کی سند صحیح ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اور علامہ نیموی نے اس کو ضعیف بیان کرنے کے بعد اس کی سند میں ایک راوی کو بھی ضعیف بیان کیا ہے۔ علامہ نیموی یہ روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اسے ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں بیان کیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں سلیمان بن موسیٰ حدیث میں نرمی برتنے والے ہیں اور امام بخاری رح کے نزدیک منکر الحدیث، اور امام نسائی نے فرمایا کہ قوی نہیں ہیں اور التقریب میں اس کو صدوق اور فقیہ کہنے کے ساتھ ساتھ حدیث میں نرم اور آخر عمر میں مخلوط الکلام فرمایا ہے“ ( آثار السنن، صفحہ 108، علامہ نیموی)۔ اس کے علاوہ اس روایت کے راوی سلیمان بن موسیٰ کے بارے میں امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ” حدیث میں قوی نہیں ہیں“ ( کتاب الضعفاء، امام بخاری،صفحہ 186)۔ جس روایت کی سند ضعیف ہے اس روایت کو داؤد ارشد صاحب صحیح کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا احمد یار نعیمی صاحب نے علامہ ابن حزم کی کتاب سے ایک روایت حضرت انس رضی اللہ کی بیان کی کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پہ ناف کے نیچے رکھنا نبوت کے اخلاق میں سے ہے۔ اس روایت پہ اعتراض کرتے ہوئے مولانا داؤد راشد صاحب لکھتے ہیں کہ ”بلا شبہ امام حزم نے اسے بیان کیا ہے مگر اس کی سند بیان نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود امام حزم نے صراحت کی ہے کہ اس کی سند نہیں ہے یہ بلا سند ہی ہے“ ( دین الحق بجواب جاء الحق، جلد 1 صفحہ 226) اس حوالے میں داؤد راشد صاحب نے علامہ ابن حزم کی طرف جھوٹ منسوب کیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ علامہ ابن حزم نے اپنی کتاب میں یہ روایت بلا سند بیان کی ہے لیکن علامہ ابن حزم نے یہ صراحت نہیں کی کہ اس روایت کی سند نہیں ہے۔ علامہ داؤد صاحب نے یہ جو کہا ہے کہ ” علامہ ابن حزم نے صراحت کی ہے کہ اس کی سند نہیں ہے اور یہ بلا سند ہے۔“ یہ داؤد ارشد صاحب نے جھوٹ بولا ہے۔ میں نے آپ کے سامنے غیر مقلدین کے صرف ایک روایت کے بارے میں یہ جھوٹ بیان کئے تاکہ لوگوں کو ان کی حقیقت پتہ چلے کہ یہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
  3. غیر مقلدین نے ہمیشہ کی طرح یہاں بھی لوگوں کو دھوکہ دیا اور آدھے حوالے پیش کئے اور نیچے کتاب کا حاشیہ نہیں دیا۔ حاشیہ میں مکمل وضاحت کی گئی ہے کہ امام ابو حنیفہ رح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دیتے تھے اور ان کی حدیث پہ فتوی دیتے تھے۔ اصول السرخصی میں (١ / ٣٤١) ہے: جو قیاس کے موافق ہے حضرت ابوہریرہ کی روایت میں سے، تو اس پر عمل ہے (امت کا تعامل ہے)، اور نہیں ہے وہ خلاف_قیاس، تو جب امت نے اسے قبول کیا، پس اس پر عمل جاری ہوا، اور قیاس_صحیح شرعاً مقدم ا اس روایت پر جس میں راۓ کا دروازه بند ہوتا ہے، اور فرمایا فخر الاسلام نے : خبر (حدیث) کا راوی فقیہ ہو یا غیر فقیہ ہو لیکن روایت کے جاننے والا ہو، یا غیر فقیہ ہو نہ جانتا ایک یا دو حدیثوں کو...تو فقیہ کی خبر مقبول ہوگی واجب ہوگا عمل اس کا اگرچہ خلاف_قیاس ہو، اور خبر غیر فقیہ کی جو معروف (و مشہور) ہو روایت کرنے میں وہ اسی طرح مقبول ہے، ترک کیا جاۓ گا اس (روایت) سے قیاس، سواۓ اس کے کہ اگر ہو وہ خلاف سب کے قیاس کے، اور وہ بند کرتا ہے دروازہ راۓ کلّی (سب کی راۓ) کا، اور یہ (بات) اختیار کردہ ہے امام عیسیٰ بن ابان، اور قاضی ابی زید کا، اور گئے اسی (راۓ کی) طرف شیخ ابو الحسن الکرخی جیسے (گئے) پہلے. اور بعض نے کہا اور وہ بحث کے عمل سے روکنا ((المصراة)) والی حضرت ابوھریرہ کی خبر (حدیث) میں : کہ حضرت ابوہریرہ غیر فقیہ ہیں ، اور حدیث کا مخالف ہونا اس پورے قیاس کو، اور ان کے قول میں (یہ بھی ہے کہ) : "ابوھریرہ غیر فقیہ ہیں"، دیکھتا ہے ظاہر (الفاظ) کو، وہ فقیہ مجتہد ہیں ان کی فقاہت میں کوئی شک نہیں، تحقیق وہ فتویٰ دیا کرتے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی، اور تھے ٹکراتے حضرت ابن عباس اور ان کے فتویٰ، جیسا کہ آئی ہے اس (بارے) میں صحیح خبر کہ خلاف کیا حضرت ابن عباس نے حاملہ کی عدت (کے بارے) میں جس کا شوہر وفات پاگیا ہو. وہاں حکم دیا ابن عباس نے کہ اس کی عدت دوعدتوں میں سے زیادہ عدت ہوگی (یعنی ولادت یا عدت کے چارماہ دس دنوں میں سے جس میں زیادہ دن ہوں گے وہی اس کی عدت ہے)، اور اس کا حکم وہ وضع حمل سے کرتے. اور ابو حنیفہ رحمہ الله عمل کرتے حدیث_ابو ہریرہ پر : "جو شخص کھالے (روزہ کی حالت میں) بھول کر وہ پورا کرے اپنا روزہ " اس کے ساتھ قیاس ان کے نزدیک افطار کرنا (کھانا) تھا، پس ترک کیا قیاس کو ابو ہریرہ کی خبر کے سبب. اور (مزید) دیکھئے جو لکھا ہے اس کو علامہ محمد بخیت المطيعي اپنے حاشیے میں (سلم الوصول) ٣ / ٧٦٧ ، ٧٦٩. Usoole Sarkhasi 1/341 me hai: Jo Qiyas se muwafiqat kare Abu Huraira razi Allahu anhu ki riwayaat me se, to wo Mamool bih hai, aur Jo Qiyas ke Khilaaf ho, pas agar Ummat ne usey Talaqqi bil Qabool diya to wo (bhi) Mamool bih hai, warna Qiyas e Saheeh Shar’an Muqaddam hai unki Riwayat par jis me raai ka darwaza band hota hai Aur Fakhrul Islam ne farmaya: Hadees ka rawi Cahahe wo Faqeeh ho ya Ghair Faqeeh ho lekin Riwayat ke Zarye jana jata ho, Ya Ghair Faqeeh ho nahi jana jata magar ek Ya 2 Ahadis se… to faqeeh ki Khabar Maqbool hai us par Amal karna Wajib hai Agarche ke Wo Qiyas ke khilaf ho . aur Aise Ghair Faqeeh ki Hadees jo Riwayat ke Zarye Maroof hon Inki Riwayat bhi maqbool hogi aur uski wajeh se Qiyas chorda jayega, Illa ye ke jab Khilaaf ho tamam Qiyason ke. Aur Raai ka baab Band hota hai poora ka poora aur isko Ikhtyar kiya hai Imam ‘IISA BIN ABAAN, QAZI ABU ZAID ne aur Shaikh Abul Hasan Karkhi rah bhi pehle isi rai ki taraf gaye. Aur Baazon ne kaha hai aur wo rokti hai bahes ko Hazrat Abu Huraria razi Allahu anhu ki MUSARRAT wali Riwayat me : “ke Abu Huraira razi Allahu anhu GHAIR FAQEEH the”. Aur Hadees Qiyason ke Mukhalif hai BI ASARRIHA . Aur unke Qaul “ Abu Huraira razi Allahu anhu GHAIR FAQEEH hai” Zaahiran Nazar hai kyu ke Woh Razi Allah anhu FAQEEH aur MUJTAHID the unki FAQAHAT me koi Shak nahi, Chunanche Wo Nabi sallallahu alaihi wasallam ke zamane me aur unke baad FATWA diya karte the, aur woh Ibne Abbas Razi Allahu anhu aur unke Fatwe se Muariz hote. jaisa ke Hadees e Saheeh me aya hai ke unho ne Ibne Abbas razi Allahu nahu se Ikhtelaaf kiya Mutawaffa Shaqs ki Hamela Aurat ki IDDAT ke mamle me. Wahan Ibne Abbas Razi Allahu anhu ne hukum diya hai ke uski Iddat 2 Iddaton me se Ziada wali hogi(yani Wiladatya Iddat ke 4 Mahine dus dinon me se jisme Ziada Din din honge wahi uski iddat hai) Aur iska Hukum Wo Waz’e hamal karte. Aur Abu haneefa Rahmatullahi alaih ne Abu Huraira Razi Allahu anhu ki Hadees par amal kiya:” Jo Bhool kar khaana khale use chahye ke apna roza Mukammal kare” Is baat ke bawajood ke Qiyas kehta hai ke Wo shaqs Iftar karle(yani Roza tod de), To unho ne Abu Huraira Razi Allahu anhu ki Hadees par Qiyas ko chord diya.
  4. زبیر علی زئی نے شفیق الرحمان کی کتاب نماز نبوی کے پرانے ایڈیشن میں مقدمہ میں یہ بیان کیا کہ اس کتاب میں کوئی ضعیف حدیث نہیں ہے۔ ( مقدمہ نماز نبوی، پران ایڈیشن صفحہ 16) اس کتاب میں شفیق الرحمٰن نے سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کی صحیح ابن خزیمہ والی حدیث پیش کی کہ نبی کریم ﷺ سینہ پہ ہاتھ باندھتے تھے۔ (نماز نبوی، شفیق الرحمٰن، صفحہ 117، مقدمہ زبیر علی زئی) اسی کتاب نماز نبوی کا جدید ایڈیشن غیر مقلدین کے متکبہ دار السلام سے شائع ہوا اور اس کا مقدمہ بھی زبیر علی زئی کا ہے جس نے یہاں بھی کہا ہے کہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب میں ضعیف حدیث نہیں ہے۔ ( مقدمہ نماز نبوی، صفحہ 38) لیکن جدید ایڈیشن میں سینہ پہ ہاتھ باندھنے والے موضوع میں سے انہوں نے حضرت وائل بن حجر کی صحیح ابن خزیمہ والی وہ روایت نکال دی جو انہوں نے پرانے ایڈیشن میں شائع کی تھی۔ ( نماز نبوی، جدید ایڈیشن، مکتبہ دار السلام، صفحہ 184) اس طرح حضرت وائل بن حجر کی سینہ پہ ہاتھ باندھنے والی روایت کو اپنی کتاب سے نکال دینا اور مقدمہ میں زبیر زئی کا یہ تسلیم کرنا کہ اس کتاب میں کوئی ضعیف حدیث نہیں ہے اس بات کی دلیل ہے کہ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی یہ روایت ضعیف ہے۔کیونکہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو غیر مقلد اس روایت کو جدید ایڈیشن سے نہ نکالتے لیکن غیر مقلدین کا اس روایت کو جدید ایڈیشن سے نکالنا اس بات کی تصدیق ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔
  5. تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم جناب شیر جان صاحب یہ حدیث قادیانی لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اسی حدیث میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ (نبی اللہ عیسیٰ) نہ کہ کسی جھوٹے مسیح موعود کے بارے میں۔ تو جناب اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ روایت عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام کے بارے میں ہے جو کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے تشریف لا چکے ہیں اور ان کو پہلے نبوت مل چکی ہے۔ قادیانی تو اس حدیث کے منکر ہیں کیونکہ اس حدیث سے ظاف ظاہر ہے کہ وہی عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام تشریف لائیں گے جو پہلے بنی اسرائیل کی طرف آ چکے ہیں لیکن قادیانی کہتے ہیں کہ معاذ اللہ عیسیٰ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو بدستور نبی ہوں گے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کی شریعت منسوخ ہوگئی اور ان کی نبوت کا دور ختم ہوگیا۔ اس لئے جب وہ تشریف لائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ نبی آخر الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکی تھی۔ خود جناب مرزا صاحب کو بھی اس کا اقرار ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: “مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰) دوسری جگہ لکھتے ہیں: “اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔” “یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸) مرزا صاحب، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی احادیث کو متواتر اور امت کے اعتقادی عقائد کا مظہر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: “پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار ٹھہر گئی تھیں، ان کو قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے۔” (شہادة القرآن ص:۵، روحانی خزائن ج:۶ ص:۳۰۱) جناب مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ: ۱:…احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔ ۲:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ میں جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا عقیدہ متواتر رہا ہے، اس طرح ان کی حیات اور رفع آسمانی کا عقیدہ بھی متواتر رہا ہے، اور یہ دونوں عقیدے ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔ ۳:…جن ہزارہا کتابوں میں صدی وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا لکھا ہے، ان ہی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انکار مرزا صاحب کے بقول “دیوانگی اور جنون کا ایک شعبہ ہے” تو ان کی حیات کے انکار کا بھی یقینا یہی حکم ہوگا۔ دوسری حدیث سے بھی قادیانیوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب درج ذیل ہے۔
  6. سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ْْ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔'' ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131) جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں۔ ّ''امام احمد اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین انس، ابن عمر، نافع، طاؤس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے''۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142) یہاں علامہ البانی رح نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
  7. حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ، الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، } اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ، وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 } مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں ۰ يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه {{ باب ـ تاكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة والتشديد فى تركها والخروج عنها }} اعلم ان فى الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة ، وفى الأعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ، ونحن نبين ذالك بوجوه ، أحــــدهــــا " ان الأمة اجتمعت على ان يعتمدوا على السلف فى معرفة الشريعة ، فالتابعون اعتمدوا فى ذالك على الصحابة ، وتبع التابعون اعتمدوا على التابعين ، وهكذا فى كل طبقة اعتمد العلماء على مَن قبلهم ، والعقل يدل على حسن ذالك ، لأن الشريعة لاتعرف الا بالنقل والإستنباط ، والنقل لايستقيم الابأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ، ولابد فى الإستنباط من ان يعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ، ويبني عليها ، ويستعين فى ذالك كل بمن سَبقه ، لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد الا بملازمة أهلها ، وغيرذالك نادر بعيد لم يقع وان كان جائزا فى العقل ، واذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلابد من ان يكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح ، أومُدونة فى كتب مشهورة ، وان يكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ، ويخصص عمومها فى بعض المواضع ، ويقيد مطلقها فى بعض المواضع ، ويجمع المختلف منها ، ويبين علل أحكامها ، والا لم يصح الإعتماد عليها ، وليس مذهب فى هذه الأزمنة المتأخرة الا هذه المـذاهب الأربعـة ، اللهم الا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لايجوزالإعتماد على أقاويلهم ٠ وثـانـيـهــا " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعوا السوادالأعظم ، ولما اندرست المذاهب الحقة ، الا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم ، والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم ٠ وثـالـثـهــا " ان الزمان لما طال وبعد العهد ، وضيعت الأمانات ، لم يجزان يعتمد على أقوال علماء السوء من القضاة الجورة والمفتين التابعين لأهوائهم حتى ينسبوا مايقولون الى بعض من اشتهرمن السلف بالصدق والديانة والأمانة اما صريحا أودلالة وحفظ قوله ذالك ، ولاعلى على قول مَن لاندري هل جمع شروط الإجتهاد أو لا ، فاذا رأينا العلماء المحققين فى مذاهب السلف عسى ان يصدقوا فى تخريجاتهم على أقوالهم واستنباطهم من الكتاب والسنة ، وأما اذا لم نرمنهم ذالك فهيهات ، الخ { عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح } حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اوران سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں ، پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب { حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں ، 1 = ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ، اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ، اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ، ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے، 2 = رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " اتبعوا السوادالأعظم " سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے۰ 3 = جب زمانہ طویل وبعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، توپهراس حال میں علماء سُوء ( برے علماء ) ظالم قاضیوں میں سےاوراپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء ) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جوصدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ،اوراسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائزنہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کو غیر مقلدوں کے محقق ومجتہد مولانا محمد جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں اسی طرح فرقہ اہل حدیث کے مجدد جناب نواب صدیق حسن صاحب بھوپالی رئیس المجتہدین اور سردار تسلیم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں ،، اگر وجود او در صدر اول درزمانہ ماضی بود امام الائمہ وتاج والمجتہدین شمردہ می شود ،، کہ اگر شاہ صاحب کا وجود صدر اول (پہلے زمانہ میں ) ہوتا تو اماموں کے امام اور مجتہدین کے سردار شمار ہوتے ہیں ۔ (۱) باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔ فائدہ ! ۱ مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے ۔۲ چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔ ۳: مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔ ۴: ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے ۔ ۵: ترک تقلید کے تمام داعیان ومبلغین فسادی ہیں۔ (۲)وثانیا قال رسول ﷺ اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول ﷺ کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ) (عقد الجید ص ۳۳) فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت ﷺ کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳) ۳۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔عقد الجید ص ۲۹
  8. مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441 میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا. (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579) اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608) نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔ ۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔ (روضہ الندیہ, صفحہ 148) اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔ علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔ یعنی اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں الشیخ عبدالعزیز ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب فرماتے ہیں: السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته اه "تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔ (مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156) نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین کا کہنا ہے: وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة "رفع الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے" (مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169)
  9. مرزا قادیانی نے نبی ہونے کا دعوی کیا لیکن قادیانی لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے دیتے ہیں کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ مھدی اور مسیح مانتے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہیں. اب مرزا مسرور نے اپنی جماعت احمدیہ کو کہا ہے کہ وہ کھل کے اقرار کریں کہ مرزا قادیانی نبی ہے اور اللہ کی طرف سے آیا ہے. اب قادیانی جماعت کے اس واضح اقرار کے بعد تو بلکل واضح ہو گیا ہے کہ قادیانی جماعت اور تمام قادیانی مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں اور وہ قادیانی جو مرزا قادیانی کی نبوت کا اعتراف نہیں کرتے وہ صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں
  10. جو اللہ کو عرش پر نہ مانے وہ کافر، امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ایک عرصہ قبل غیر مقلدین نے امام ابو حنیفہؒ کی کتاب فقہ الاکبر کی شرح منح الروض الازھر فی فقہ الاکبر کے نام سے ملا علی القاریؒ نے لکھی ہے ، کے تین صفحات اپنی ویب سائٹ پر لگا رکھے تھے ۔ اور غیر مقلدین کا اشارہ اس عبارت کی طرف تھا جس میں لکھا تھا کہ ابو المطیح سے منقول ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب آسمانوں میں ہے یا زمین میں تو اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا وہ کافر ہو گیا کیونکہ اللہ جل شانہ خود فرماتے ہیں ۔ الرحمٰن علی العرش استویٰ خدائے رحمٰن نے عرش پر قرار پکڑا غیر مقلدی کا اصرار تھا کہ یہ امام ابو حنیفہؒ کا فتویٰ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتا وہ کافر ہے ویسے تو جو صفحہ غیر مقلدین نے لگا رکھا ہے اسی میں لکھا ہے والجواب انہ ذکر الشیخ الام ابن عبد السلام فی کتاب حل الرموز یعنی اسکا جواب یہ ہے کہ شیخ امام ابن عبدالسلام نے اپنی کتاب حل الرموز میں اس کا انکار کیا ہے یعنی غیر مقلدین ایک ایسی روایت سے اہلسنت کو کافر ثابت کر رہے ہیں جسکا انکار کیا جا چکا ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ لان ھذا القول یوھم ان للحق مکانا یہ قول اس بات کا وہم ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکان اور جہت ہے اب وہم کا لفظ ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں غلط فہمی پیدا ہو رہی ہو ، یعنی اسی صفحے پر وہم کے لفظ سے یہ پتا چل رہا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی بات کو غلط طریقے سے سمجھا جا رہا ہے ۔اور اسکی ہی اگلی لائین جو اگلے صفحہ پر ہے اس میں لکھا ہے توھم ان للحق مکاناً فھو مشبۃ اور جو یہ امکان پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکان ہے وہ مشبہ ہے ۔ پھر اسی صفحے پر نیچے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس قول کے راوی ابی مطیع کے بارے میں خود مصنف آگے ذکر کرنے والے ہیں ( کہ راوی روایت کے اعتبار سے کیسا ہے ) چناچہ اس کی اس روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اس سے بھی عجیب بات تو یہ ہے کہ پہلے گزرے ہوئے مصنفین نے آئمہ اربعہ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا اور اس رسالہ میں اس روایت کو نقل کر دیا تاکہ پڑھنے والے اس وہم میں مبتلا ہو جائیں کہ ایک جلیل القدر تابعی اللہ کے بارے میں جہت کے قائل ہیں جبکہ اللہ اس سے بہت بلند تر ہے ۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ کسی نے اس اس روایت کی تمحیص تک کا اقرار کر لیا (یعنی اسکو صحیح مان لیا) حالانکہ ایسا نہیں جیسا بیان کیا جا رہا ہے (یعنی یہ روایت صحیح نہیں )اور نہ ہی یہ متاخرین سے منقول ہے اگر یہ امام صاحب کے مذہب کے مطابق ہے اسی قسم کا ایک وہم شیخ ناصر نے ڈالا جو یہ کہتاہ ے کہ حنفیہ کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو حنفی مسلک کے مطابق فتویٰ دیا کریں گے ۔ چناچہ اس نے اپنی کتاب تعلیق علیٰ المختصر ال مسلم میں یہ کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام صرف انجیل کے مطابق فیصلہ دیں گے ۔اور یہ بات یاد رہے کہ یہ حنفیہ کا مذہب نہیں (یعنی حنفیہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دیں گے ) اور اگر تحقیق کی جائے اس سارے مسئلہ کی تو معلوم ہوتا ہے کہ احناف نے اس الزام کو جو شیخ ناصر نے ان پر لگایا ہے اس کو جھٹلایا ہے اور اس روایت کو تسلیم نہیں کیا اور اس بارے میں انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں اور آخری شخص جنہوں نے اس بارے میں تنبیہ کی وہ ابن عابدین ہیں ۔ (حاشیہ کا رف اردو ترجمہ)یہاں حاشیہ میں بھی اوپر موجود قول کی حقیقت واضح ہے جو غیر مقلدین کو نظر نہیں آئی ۔ آگے کے صفحے نہ لگانے کی وجہ :۔ یہ تو صرف اسی ایک صفحے کی بات ہے جو غیر مقلدین نے اپنی سائٹ پر لگا رکھا ہے ۔ اگلے صفحے پر اس سے بھی زیادہ مزے دار بات ہے ملاحظہ کریں ملا علی القاریؒ لکھتے ہیں ولا شک ان ابن عبدالسلام من اجل العلماء واو ثقھم ، فیجب الاعتماد علی نقلہ لا علی ما نقلہ الشارح ، مع ان ابا مطیع رجل وضاع عند اھل الحدیث کما صرح بہ غیر واحد اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابن عبدالسلام ایک جلیل القدر اور ثقہ عالم ہیں ان کی نقل پر اعتماد لازم ہے اور جو بات شارح نے نقل کی ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ابو مطیع بلخی سے بات نقل کی ہے اور ابو مطیع بلخی کے بارے میں علماء محدثین نے صراحت کی ہے کہ وہ بہت بڑا جھوٹا انسان ہے ۔ لیں جی وہ ساری روایت جس کی بنیاد پر غیر مقلدین کفر کا فتویٰ لگاتے تھے ، اسکا راوی ہی جھوٹا ہے ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ غیر مقلدین نے آگے کا صفحہ نہ لگایا تھا ۔
  11. غير مقلدوں پاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔ قرآن:الالعنت اﷲ علی الکاذبین سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔ جھوٹ نمبر1:سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443) جھوٹ نمبر2: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ۔ص593) جھوٹ نمبر3: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔ ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم) جھوٹ نمبر4: امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص457 جھوٹ نمبر5: مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444) اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔
  12. یہ کوئی کلمہ جرح کا نہیں ہے اور نہ امام صاحب کی اس سے تضعیف ثابت ہوتی ہے کیوں کہ یتیم کے معنی محاورہ میں یکتا اور بے نظیر کے بھی آتے ہیں صحاح ج2 ص 349 میں ہے: "وکل شیء مفرد بغیر نظیرہ فهو یتیم درۃ یتیمة" ‏"ہر وہ چیز جس کا ثانی نہ ہو وہ یتیم کہلاتی ہے اس لیے درہ یتیمہ کہا جاتا ہے" ‏"قال الاصمعی الیتیم الرملة المنفردۃ قال و کل منفرد و منفردۃ عند العرب یتیم و یتیمة" ‏"اصمعی نے کہا: یتیم ریت کے ایک اکیلے ذرہ کو کہتے ہیں اور کہا ہر اکیلی چیز کو یتیم کہا جاتا ہے" پس عبداللہ بن مبارک کے قول کا یہ مطلب ہوا کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یکتا اور بے نظیر تھے چناچہ خو ابن مبارک کے دوسرے قول سے ہوتی ہے مناقب کردری ج1 ص 229 میں ہے: "عن المبارك قال اغلب علی الناس بالحفظ و الفقه و الصیانة و الدیانة و شدۃ الورع" ‏"ابن مبارک نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ حافظ ، فقہ ، علم ، پرہیزگارۂ اور دیانت اور تقوی میں سب لوگوں پر غالب تھے"‎ عبداللہ بن مبارک امام صاحب کے شاگرد تھے - انہوں نے حضرت امام اعظم کی بہت زیادہ تعریفیں کی ہیں - مناقب موفق ابن احمد مکی ج2 ص 51 میں ہے - سوید بن نصر کہتے ہیں: "سمعت ابن المبارك یقول لا تقولوا رأی ابی حنیفة ولکن قولوا تفسیر الحدیث"‎ ‏"ابن مبارک فرماتے تھے یہ نہ کہو کہ یہ امام ابو حنیفہ کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر ہے" ‏"وایضا فیه قال المعروم من له یکن له حفظ من ابی حنیفة" ‏"نیز فرمایا جس نے امام صاحب سے کچھ حاصل نہیں کیا وہ محروم ہے" ‏"وایضا قال عبدالله بن المبارك ھاتوا فی العلماء مثل ابی حنیفة و الا دعونا ولا تعذبونا" ‏"عبداللہ بن مبارک نے فرمایا تمام علماء میں امام ابو حنیفہ جیسا کوئی عالم پیش کرو ورنہ ہمیں چھوڑ دو اور ہمیں نہ سناؤ" ‏"وایضا قال علیکم بالاثر ولابد للاثری من ابی حنیفة ، یتعرف به تاویل الاحادیث و معناہ" ‏"نیز فرمایا: تمہارے اوپر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے اور حدیث کے سمجھنے کے لیے امام ابو حنیفہ کا قول ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ حدیث کی صحیح تاویل اور معنی معلوم ہوجائیں گے" اور بہت سے اقوال عبداللہ بن مبارک کے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں شائع اور کتابوں میں مذکور ہیں پس معلوم ہوا کہ معترض نے جو عبداللہ بن مبارک کو جارح امام صاحب سمجھا ہے یہ محض نفس پرستی اور غلط فہمی ہے حضرت شاہ صاحب کی طرف تضعیف کا انتساب محض غلط اور فریب ہے - ملاحظہ فرمایئے "مصفی شرح مؤطا" کی عبارت یہ ہے: "بالجملہ ایں جباراماماں کہ عالم را علم ایشاں احاطہ کردہ است امام ابو حنیفہ و امام مالک و امام شافعی و امام احمد ایں دو امام متاخر شاگرد امام ابو حنیفہ و امام مالک بودند و مستمند ان از علم اد و عصر تبع تابعین بنودند مگر ابو حنیفہ و امام مالک آں یک شخصے کہ روس محدثین مثل احمد و بخاری و مسلم و بخاری و مسلم و ترمذی و ابو داؤد و نسائی و ابن ماجہ و دارمی یک حدیث ازوے در کتاب ہائے خود روایت نہ کردہ اند و رسم روایت حدیث ازوے بطریق ثقات جاری نہ شدو آں دیگر شخصے ست کہ اہل نقل اتفاق دارند ہر آنکہ چوں حدیث روایت او ثابت شد بدر وہ اعلی صحت رسید"‎ ‏"حاصل کلام یہ ہے کہ عظیم المرتب امام کہ ان کے علم نے تمام عالم کا احاطہ کرلیا ہے - امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد - یہ بعد کے دو امام ، امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے شاگرد اور ان کے علوم سے فیض یاب ہونے والے ہیں - اور تبع تابعین کے دور کے صرف امام ابو حنیفہ اور امام مالک ہیں - وہ امام کہ جن سے روس المحدثین ، مثلا احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور دارمی نے اپنی کتابوں میں ایک روایت بھی نقل نہیں کی ہے اور ثقات کی طرح روایت حدیث کا طریقہ ان سے جاری نہ ہوا اور دوسرے امام وہ ہیں جن پر اہل نقل کا اتفاق ہے کہ جو حدیث ان سے ثابت ہے وہ صحت کے بلند ترین مقام تک پہنچ گئی ہے"‎ شاہ صاحب کی عبارت میں دو مضمون قابل غور اور لائق توجہ ہیں - ایک یہ کہ امام ابو حنیفہ سے روس محدثین نے ایک حدیث بھی نقل نہیں کی - دوسرے یہ کہ معتبر راویوں سے ان کی روایت جاری نہیں ہوئی اول مضمون اگر صحیح بھی ہو "وعندی فیہ نظر کما استغرفہ" "میرے نزدیک یہ قابل غور ہے جیسا کہ عنقریب معلوم ہوگا" تو اس سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تضعیف ہرگز لازم نہیں آتی - ہزاروں ثقہ راوی ہیں کہ بعض نے ان سے روایت کی ہے اور بعض نے نہیں کی ہے - کسی ایک کی ترک روایت سے تضعیف کا اثبات محض ایک غلط خیال ہے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاسکتی اور اگر دوسرا مضمون صحیح مان لیا جائے تو اس سے اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی روایت معتبر واسطہ سے جاری نہیں ہوئی - نہ یہ کہ خود وہ ضعیف تھے - دیکھے صدہا سنن و مسانید و معاجم ہیں جن کے مؤلف خود ثقہ ہیں مگر مثل مؤطا کے ان کی حدیثیں معتبر واسطہ سے مروی نہیں تو کیا اس وجہ سے وہ ضعیف کہے جائیں گے؟ ہرگز نہیں مسند امام شافعی، مسند امام احمد، مسند ابو یعلی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن دارمی، معجم طبرانی، ضغیر و کبیر وغیرہا کو دیکھو طبقہ ثانیہ و ثالثہ کی کتابیں ہیں - ان میں ضعاف روایتیں بھری ہیں - مگر باوجود اس کے ان کے موثقین غیر ثقہ نہیں سمجھے جاتے - در حققیت شاہ صاحب کی عبارت سے غلط مضمون اخذ کیا گیا ہے - ورنہ مولانا دہلوی کی عبارت سے ہرگز امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ العزیز اپنی کتاب "فیوض الحرمین" ص 48 میں تحریر فرماتے ہیں: "عرفنی رسول الله صلی الله علیه وسلم ان المذھب الحنفی طریقة انیقة ھی اوفق الطرق بالسنة المعروفة التی جمعت و نقجت فی زمان البخاری واصحابه" ‏"مجھے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے بتایا کہ مذہب حنفی میں ایسا عمدہ طریقہ ہے جو سنت معروفہ سے بہت موافق ہے جس کو امام بخاری وغیرہ کے زمانہ میں وضاحت کے ساتھ جمع کیا گیا" مقام غور ہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے مولانا ممدوح کو یوں تلقین فرمائی کہ مذہب حنفیہ میں ایسا عمدہ طریقہ ہے جو سنت معروفہ کے ساتھ موافق تر ہے - باوجود اس کے مولانا ممدوح امام صاحب کو متروک الحدیث کیوں فرمائیں گے - باقی ان کے علاوہ مسلم، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، وکیع بن الجراح، عمرو الناقہ ابن القطان، ابو اسحاق الفرازی، طاؤس، زہری، ہشام بن عروہ، جلال الدین سیوطی اور عبد الرؤف منادی کے نام فہرست میں لکھ دیئے جاتے ہیں - اور امام ابو حنیفہ کو سئی الحافظہ اور ضعیف کہے والوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے - یہ بجز اظہار حسد اور مغالطہ دہی کے اور کچھ نہیں ہے ان اقوال سے نہ ابو حنیفہ کی تضعیف ثابت ہوتی ہے اور نہ کسی عراقی اور نہ کوفی کی اور نہ باقاعدہ اصول یہ جرح کے اقوال ہیں - خاص خاص مواقع پر خاص وجوہ کی بناء پر ان حضرات نے یہ باتیں لکھی ہیں اگر حسب خیال معترض یہ جرح کے کلمات ہیں تو دنیا سے حدیث کا نام مٹ جائے گا - کیوں کہ حسب قول امام مالک و امام شافعہ ہر حدیث کی اصل مکہ مدینہ سے ملنی چاہیے اور حسب قول زہری عراقی یعنی بصرو و کوفی اور بغدادی وغیرہم کی روایات فی صدی [سو] ایک ہی قابل اعتبار ہوگی اور حسب قول ہشام بن عروۃ عراقی کی فی ہزار [1000] نو سو نوے [990] احادیث متروک اور دس [10] احادیث محتمل الصحہ ہوں گی ، کما فی تدریب الراوی ‏"وقال ھشام بن عروۃ اذا حدثك العراقی بالف حدیث فالق تسع مائة و تسعین و کن من الباقی فی شك" ‏"ہشام بن عروہ نے کہا کہ اگر تجھ سے کوئی عراقی ایک ہزار حدیثیں [1000] بیان کرے تو ان میں نو سو نوے [990] کو ترک کردے اور دن [10] حدیثوں میں مشکوک رہ " اب معترضین اس قاعدہ کو سامنے رکھ کر احادیث کی جانچ کریں حتنی کتابیں احادیث کی موجود ہیں - مثلآ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ دارقطنی، مؤطا امام مالک اور سنن دارمی وغیرہا میں سے خاص حجاز کی روایات انتخاب کریں اور سب روایات چھوڑ دیں - پھر حجاز کی روایتوں میں اگر کوئی راوی بصری ، کوفی ، بغدادی ہو تو اس کو چھوڑ دیں پھر ان احادیث میں اگر کوئی ایسا راوی ہو کہ اس پر کسی قسم کی جرح کسی سے منقول ہو تو اس کو بھی چھوڑ دیں - اس کے بعد دیکھیں کہ ان کے ہاتھ میں کتنی حدیثیں صحیح باقی رہتی ہیں؟ ہمارے خیال میں نماز روزہ کی احادیث بھی ان کے پاس باقی نہ رہیں گی تو پھر "اہل حدیث" کا لقب بھی صریح اور غلط ہوگا - نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عراق میں ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے ‏"کما قال ابن الهمام لان الصحابة انتشرت فی البلاد خصوصا العراق" ‏"ابن ہمام نے فرمایا کہ صحابہ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے تھے خصوصآ عراق میں" ‏"قال العجلی فی تاریخه نزل الکوفة الف و خمسین مائة من الصحابة" ‏"عجلی نے اپنی تاریخ میں فرمایا ہے کہ کوفہ میں پندرہ سو [1500] صحابہ قیام پذیر ہوگئے تھے" انصاف کرنا چاہیے کہ جس جگہ ڈیڑھ ہزار صحابہ موجود ہوں اور شب و روز "قال اللہ و قال الرسول" کا ذکر ہو وہاں کے لوگ حدیث سے ناواقف کیونکر ہوسکتے ہیں اور ان کی روایت محض عراقی و کوفی ہونے کی وجہ سے کیوں متروک ہوگی؟ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بهی کرتے هیں منکرین حدیث کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئی اعتبارنہیں هے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئی اعتبارنہیں هے ، فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہ دیا کہ انهوں نے تو کوئی کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئی اعتبار نہیں هے ، یاد رکهیں کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین هونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں هے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکهنا کوئی شرط نہیں هے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ هونا ضروری هے ، اگرکتاب لکهنا ضروری هے تو خاتم الانبیاء صلی الله نے کون سی کتاب لکهی هے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث هیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ هیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر هونے کے لیئے ضروری هے کہ انهوں نے کوئی کتاب لکهی هو ؟ اگر هر امام کی بات معتبر هونے کے لیئے کتاب لکهنا ضروری قرار دیں تو پهر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ، لہذا یہ وسوسہ پهیلانے والوں سے هم کہتے هیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکهاو ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟؟ اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهی هیں ، ( الفقه الأكبر ) امام اعظم رحمہ الله کی کتاب هے جو عقائد کی کتاب هے ، « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے هے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکهی هیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف هے ، اسی طرح ( كتاب الآثار ) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتهہ امام اعظم رحمہ الله هی کی کتاب هے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید هیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي۔نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا هے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا هے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکرتاهوں ، 1. جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي، مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے 1332ه میں طبع هوئی هے دو جلدوں میں ، پهر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے 1396ه میں طبع هوئی ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا هے ۔ 2. مسانيد الإمام أبي حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي، نے 1398هـ میں شائع کی هے، 3. مسند الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام 1382هـ. میں طبع هوئی 4. مسند الإمام أبي حنيفة النعمان ) شرح ملا علي القاري، المطبع المجتبائي، 5. شرح مسند أبي حنيفة ملا علي القاري، دار الكتب العلمية، بيروت سے 1405 ھ میں شائع هوئی 6. مسند الإمام أبي حنيفة تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر، رياض سے 1415ه شائع هوئی، 7. ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهية، المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد اس مختصرتفصیل سے فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافورهوگیا کہ امام ابوحنیفہ نے کوئی کتاب نہیں لکهی ۔ جامع مَسَانيد الإمام أبي حنيفة النعمان رحمه الله إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله ان مقدس ومحترم شخصيات ميں سے ہیں ، جن کے خلاف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی طرف طعن وتشنیع وتنقید کا بازار گرم رہتا ہے ، اس فرقہ جدید میں شامل تقریبا ہرچهوٹا بڑا إمام عالی شان کی ذات میں توہین وتنقیص کا کچھ نہ کچھ اظہار کرتا رہتا ہے ، اور یہ صفت قبیحہ اس فرقہ جدید کے تمام ابناء میں سرایت کی ہوئی ہے ، الاماشاءألله۔من جملہ ان وساوس باطلہ کے ایک وسوسہ یہ بهی إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کے خلاف پهیلایا جاتا ہے کہ ان کو تو حدیث کا کچھ بهی پتہ نہیں تها علم حدیث سے بالکل کورے تهے. (. معاذالله. ). ،اس باطل وسوسہ پرکچھ بحث غالبا گزشتہ سطور میں گزرچکی ہے ،لیکن مزید اطمینان قلب کی خاطرمیں إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کی ان مسانید کا تذکره کروں گا ، جن کوکباراہل علم نے جمع کیا ہے ۔ تعريف المسانيد مسانيد جمع ہے مُسند کی جوکہ .(. سَنَدَ .). سے اسم مفعول ہے ۔اہل لغت نے اس کی تعریف لغوی اس طرح پیش کی ہے ۔ المسانيد أو المساند جمع : مسند ، وهو : اسم مفعول من الثلاثي : .(. سَنَدَ .). ، قال ابن فارس .(. ت 395 ھ.). : ’’ السين والنون والدال أصل واحد يدل على انضمام الشيء إلى الشيء . وقد سُمِّي الدهر : مُسنَدًا ؛ لأن بعضه متضام‘‘ .). وقال الليث : ’’ السند ما ارتفع عن الأرض ‘‘ وقال الأزهري .(. ت 370 ھ .). : ’’ كل شيء أسندت إليه شيئًا فهو مُسنَد ‘‘ وحكى أيضًا عن ابن بُزُرْج أن السَّنَد مثقل : .(. (. سنود القوم في الجبل .) .) .، وقال الجوهري .(. ت 393 ھ.) : ’’ السَنَد : ما قابلك من الجبل وعلا عن السطح ، وفلان سَنَده أي : معتمد ‘‘ وقال ابن منظور .(. ت 711ھ .). : ’’ ما يسند إليه يُسمى مسْنَدًا ومُسْنَدًا ، وجمعه : المَساند ‘‘ . (.13.) .وزاد صاحب القاموس أنه يجمع أَيضًا بلفظ : .(. مسانيد .). ، ويرى أبو عبد الله: محمد بن عبد الله الشافعي الزركشي ، .(. ت 794 ھ .). (. أن الحذف أولى). حاصل یہ کہ مُسند کا معنی لغوی اعتبار سے یہ ہے کہ جوکسی چیزکی طرف منسوب کیا جائے ، جوکسی چیزکی طرف ملایا جائے ، اس چیزکومضبوط کرنے کے لیئے ۔ مسند کی اصطلاحي تعریف اصطلاح میں مسندکا اطلاق حدیث پربهی ہوتا ہے اورحدیث کی کتاب پربهی ہوتا ہے ، مسند اس حدیث مرفوع کو کہتے ہیں جس کی سند کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ یہ تو مسند حدیث کی تعریف ہے ،اور اسی طرح مُسند کا اطلاق حدیث کی ان کتب پربهی ہوتا ہے ، جن کو اس کے مؤلفین نے أسماء الصحابة کے مسانيد پرجمع کیا ہو یعنی مسند حدیث کی وه کتاب ہے جس میں ہرصحابی کے احادیث کو الگ الگ جمع کیا جائے ،پهر بعض محدثین نے اس بارے میں یہ ترتیب رکهی کہ پہلے سابقین فی الاسلام صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں جیسے عشره مبشره پهر اهل بدر وغیره ، اور بعض محدثین حروف المعجم کے اعتبار سے صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں ، وغيره . بغرض فائده یہ تومسند کی لغوی واصطلاحی تعریف کا مختصرتذکره تها ۔ اب میں ان کباراهل علم وعلماء امت کا تذکره کروں گا جنہوں نے إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کے ان مسانید کو جمع کیا۔یا درہے کہ امام محمد بن محمود الخوارزمی رحمه الله نے إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کی پندره. (.15.). مسانید کو جامع مَسَانيد الإمام أبي حنيفة النعمان کے نام سے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ہے ، اوران کے جمع کرنے کی وجہ یہ لکهی کہ میں نے شام میں بعض جہلاء سے سنا جوامام اعظم کی شان میں توہین وتنقیص کر رہا تها اورامام اعظم پر رواية ُالحديث کی قلت کا الزام لگا رہا تها ، اوراس بارے میں مسند الشافعي وموطأ مالك وغیره سے استدلال کر رہا تها اوریہ گمان کر رہا تها کہ ابوحنیفہ کی تو کوئی مسند نہیں ہے ، لہذا مجهے دینی غیرت وحمیت لاحق ہوئی پس میں نے اراده کیا کہ میں إمام أعظم رحمه الله کی ان پندره .(.15.). مسانید کو جمع کروں جن کبار علماء الحديث نے جمع کیا ہے . ان کبار علماء الحديث کے اسماء درج ذیل ہیں جنہوں نے إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کے مسانید کوجمع کیا ہے 1. الإمام الحافظ أبو محمد : عبد الله بن محمد بن يعقوب الحارثي البخاري المعروف : بعبد الله 2. الإمام الحافظ أبو القاسم : طلحة بن محمد بن جعفر الشاهد العدل 3. الإمام الحافظ أبو الحسين : محمد بن المظفر بن موسى بن عيسى بن محمد 4. الإمام الحافظ : أبو نعيم الأصفهاني 5. الشيخ أبو بكر : محمد بن عبد الباقي بن محمد الأنصاري 6. الإمام أبو أحمد : عبد الله بن عدي الجرجاني 7. الإمام الحافظ : عمر بن الحسن الأشناني 8. الإمام أبو بكر : أحمد بن محمد بن خالد الكلاعي 9. الإمام أبو يوسف القاضي : يعقوب بن إبراهيم الأنصاري ، وما روي عنه يسمى : نسخة أبي يوسف 10. الإمام : محمد بن الحسن الشيباني والمروي عنه يسمى : نسخة محمد 11. ابن الإمام : حماد رواه عن أبي حنيفة 12. الإمام : محمد أيضا ، وروى معظمه عن التابعين ، وما رواه عنه يسمى : الآثار 13. الإمام الحافظ أبو القاسم : عبد الله بن محمد بن أبي العوام السعدي 14. الإمام الحافظ أبو عبد الله : حسين بن محمد بن خسرو البلخي 15. الإمام الماوردي أبو الحسن : علي بن محمد بن حبيب یہ مسانید.(. أبواب الفقه .).کے مطابق جمع کیئے گئے ہیں ، پهر بعد میں بعض علماء امت نے ان مسانید کی اختصار اور شرح بهی لکهی ، مثلا 1. الإمام شرف الدين: إسماعيل بن عيسى بن دولة الأوغاني المكي نے اس کا اختصار بناماختيار اعتماد المسانيد في اختصار أسماء بعض رجال الأسانيدلكها ۔ 2. الإمام أبو البقاء : أحمد بن أبي الضياء .(. محمد القرشي البدوي المكي .). نے اس کا اختصار بنام مختصر’’المستند مختصر المسند‘‘لكها۔ 3. الإمام محمد بن عباد الخلاطي نے اس کا اختصار بنام’’مقصد المسند‘‘لكها۔ 4. أبو عبد الله : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم الحنفي ،نے اس کا اختصار لکها 5. حافظ الدين : محمد بن محمد الكردري المعروف : بابن البزازي نے اس کے زوائد کو جمع کیا۔ 6. شيخ جلال الدين السيوطينے اس کی شرح بنام’’التعليقة المنيفة على سند أبي حنيفة‘‘لکهی۔ اس کے علاوه بهی بہت ساری کتب وشروحات إمام أعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله کی مسانید پرلکهی گئ ہیں . رحمهم الله جميعا وجزاهم الله تعالى خيرا في الدارين یقینا اس ساری تفصیل کے بعد آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ چند جہلاء زمانہ کی طرف سے إمام أعظم کے خلاف جو باطل وکاذب وسوسہ پهیلایا جاتا ہے یہ وسوسہ صرف جُہلاء وسُفہاء کی مجلس میں کارگر ہوتا ہے ارباب علم واصحاب فکرونظر کی نگاه میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ألإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله كا عظيم اجتہادى أصول الإمام الأعظم أبو حنيفة النعمان رحمه الله تعالى فرماتے ہیں آخذ بكتاب الله ، فما لم أجد فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم وأما اذا انتهى الأمر الى إبراهيم والشعبي وإبن سيرين والحسن وعطا وسعيد ابن المُسيب وعد د رجالا فقوم اجتهدوا فأجتهدُ كما اجتهدوا ۔ میں سب سے پہلے کتاب الله سے۔ .. ( . مسئلہ وحکم . ) . لیتا ہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة اور احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراہيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔ .(.(.تاريخ بغداد. (368./13.).).). حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب ‘‘إعلام الموقعين ’’ فرماتے هیں کہ وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث عنده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبه كما قدّم حديث القهقهة مع ضعفه على القياس والرأي ، وقدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقياس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد " امام أبي حنيفة رحمه الله کے اصحاب کا اس بات پراجماع ہے کہ امام أبي حنيفة رحمه الله کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سےأولى وبہتر .( .ومقدم. ) .ہے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئی ، جیسا قهقهة والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفة رحمه الله اور الإمام أحمد رحمه الله کا قول .(.وعمل وفیصلہ .). ہے ۔ .(.(. إعلام الموقعين عن رب العالمين 77/.1 .).) . علامہ ابن حزم ظاہری بهی یہی فرماتے ہیں کہ ‘‘جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي’’ .(.(.إحكام الإحكام في أصول الأحكام 54/7 .).). یہ ہے الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمه الله اورآپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپرمذہب حنفی بنیاد ہے ، الإمام الأعظم رحمه الله کا یہ اصول اہل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتھ کہ ضعیف حدیث پربهی عمل کرنا ہے ، اس امام کواور اس کے اصحاب وپیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اورجاہل عوام کوگمراه کیا جائے،تواس طرزکوہمکیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟ شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله كا فتوى ‘‘ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإما بهوى ، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما’’ اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط. ( .وجهوٹ .) .بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وہوئی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ .(.(. مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305.).). شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح ہے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار ہے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا ہے ۔کیا شيخ الإسلام إبن تيمية کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اہل حدیث نہیں ہے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے ہوئے ہیں ؟؟؟ میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کا یہ اعلان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جُہلاء کے لیئے باعث ہدایت بن جائے ۔اور یہ بهی یاد رہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی‘‘ حدیث ’’کے بالکل مخالف ہے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چهوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چهوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔ دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اہل حدیث کے یہاں بهی ‘‘ مُرسَل حدیث’’ ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ مُرسَل حدیث ’’ کو بهی قبول کرتے ہیں ، اور قابل احتجاج سمجهتے ہیں بشرطیکہ ‘‘ مُرسِل’’ ثقہ وعادل ہو۔ یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ حدیث ’’کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ، اور حدیث رسول کے ساتھ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکهتے ہیں ، لیکن پهر بهی عوام کو بے راه کرنے کے لئے یہ جهوٹ و وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف ہے۔
  13. Asalam o alikum. mowahid sahib molana amrtasri se mubahila hum bhi manty hain aor ye mirza k dawa nabuwat aor mssehyeat k baad howa tha jabk hum mirza k dawa nabuwat aor amssehayat se pehly ki baat ker rahy hain k mirza qadyani pehly ahlehadees tha. ye chek karin.
  14. Asalam o alikum. Jazakallah shahid brother aap ne IMAM AZAM ABU HANEEFA(ra) ki azmat bahut achy tareeqy se bayan ki. allah aap ko jazaye khair ata farmaye.
  15. Asalam o alikum. حکیمنور الدین مرزا قادیانی کا پہلا خلیفہ تھا یہ شخص قادیانی بننے سے پہلےغیر مقلدوں کا ایک عالم تھا بڑھاپے میں اس نے شادی رچانے کا سوچا اس زمانےمیں غیر مقلد نیا نیا فتنہ نکلا تھا اس لئے حنفیوں اور غیر مقلدوں میںکافی کشیدگی رہتی تھی مرزا نے جو لڑکی نور الدین کیلئے پسند کی وہ حنفیتھی لڑکی کے گھر والوں نے شرط لگائی کے ہم رشتہ صرف حنفی مرد کو دیں گےچنانچہ مرزا حکیم نور الدین کو ایک خط بھیجتا ہے کہ آپ ہو تو غیر مقلدلیکن اس مصلحت کے تحت اپنے حنفی ہونے کا اعلان کردیں پس جہاں کہیں کسیقادیانی نے حنفی ہونے کا کہا ہے تو اس کے پیچھے اسی قسم کی مصلحتیں پوشیدہتھیں آپ مرزا کے بڑے بڑے مرددین کی سوانح دیکھ لیں وہ سب آپ کو غیر مقلد ہی ملیں گے janab mirza qadyani aor hakeem noorudeen ghiar muqalid thy en ka sabut to khud un ki books se milta hay zara ye pages dekhin k un ko rishta bhi nien milta es liye k wo ghair mquladi thy aor rishty k liye shart hanfi hony ki thi. aap ne ghulam fareed sahib ki book ka hawala diya to es ka sirf hawala dena koi sabut nien. wesay es se pehly fatwa apny sana ullah amrtasri pe lagyen k wo to qadyanio k peechy nimaz ko bhi jaeyz qarar dety hain.aor unhun ne qadyanio k peechy nimaz perhi bhi. phir apny mohammad hussain batalvi pe lagyen jo mirza ki book baraheen ahmadiya ki tareef kerta hay.
  16. Asalam o alikum. mirza qadyani nabuwat k dawa se pehly ahlehadees tha aor es ka khaleefa bhi es ka sabut mirza ki books aor os k aqaid se milta hay. albata ye hay k wo ahlehadees ki tarah imam abu haneefa(RA) aor ahnaf ko burra bhala nien kehta tha aor yehi baat dekh k ahlehadees kehty hain k wo pehly hanfi tha. ye pages chek karin.
  17. salam to all muslims. mirza qadyani hanfi tha ya ahlehadees ye qadynaio ki books se pata chal jaye ga. chek this.
  18. salam to all muslims. thx attari bahi. mr haq mil gya aor sitara gruop es topic ko kafi arsa guzar gya lakin koi jawab nien aya. tumhara ravi to tumhari sites se sabit ho gya ab kis baat ka intezaar hay.? kya ab bhi ye hi bolo ge k tumhary padruiyn ne hazrat ali(RS) ki touheen nien ki?
×
×
  • Create New...